اخلاق امام حسین علیہ السلام
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے اخلاق و کردار پر روشنی ڈالت آفتاب کے سامنے چراغ دکھانا ہے۔ جو خلق عظیم کا جانشین ہوتے ہوۓ سرکار کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام امور ، وظائف، ذمہ داریوں کا ورثہ دار ہو بھلا کوئی اس کے اخلاق کی زندگی کے گراں بها سنہرے پہلوؤں سے قرطاس کو زینت عطا کر سکتا ہے؟ اس لئے کہ اگر انھونے تعلیم نہ دی ہوتی تو ہمیں اخلاق کا مفہوم بھی معلوم نہ ہوتا کہ اخلاق کہتے کسے ہیں؟
انھوں نے اخلاقی مفاہیم کا تصور پیش کیا ہوتا تو ہم کیا کرتے؟
انھوں نے اخلاقی مفاہیم کی عملی زندگی ہمارے سامنے نہ گزاری ہوئی تو ہمیں اخلاق کو عمل میں لانے کا سلیقہ بھی نہ آتا۔ ورنہ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ اخلاق کے کیا تصورات ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں :
ا۔ ایک تصور وہ ہے جو عوام الناس کے درمیان پایا جاتا ہے یعنی جس معنی میں ہم روز آنہ لفظ اخلاق کو استعمال کرتے ہیں یا کسی نے سلام کر لیا تو اسے خوش اخلاق کی سند دے دی اور سلام نہیں کیا تو بد اخلاق قرار دے دیا گیا۔ کیا تو ہے اور کیا؟
۲۔ اور ایک تصور پایا جاتا ہے جو علمائے اخلاق کی نظر میں ہے جس کی بنا پر واقعاً کسی انسان کو صاحب اخلاق یا بد اخلاق قرار دیا جاتا ہے۔ گفتگو کسی تفصیل میں نہیں لے جانا چاہتا مگر اتنا ضرور ہے کہ انسان کی زندگی میں دو باتیں نہایت اہم ہیں۔ ۱- علم، ۲- عمل جس طرح انسانی زندگی ان دونوں کے بغیر مکمل نہیں ہے اسی طرح انسانی کردار اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ انسان کاعلم وعمل ہر طرح کے نقص وعیب اور کمزوریوں سے پاک نہ ہوگا۔ دنیا میں سوائے محمد و آل محمد علیہم السلام کے کوئی ایسا نہیں ہے جسے ان کی طرف سے علم ملا ہو اور عمل میں اب تک دنیا ان کا جواب نہیں لاسکیں۔ یہ بات یاد رہے کہ غریب آدمی غریبوں میں بیٹھ جائے فقیر آدمی فقیروں کی جماعت کے ساتھ اٹھے بیٹھے پر کوئی انسانی زندگی کا ہنر یا کردار نہیں ہے، بڑا آدمی چھوٹے آدمی کے ساتھ کھانا کھا لے؟ یہ انتہائی درجہ کمال کردار ہے۔ کیا امام حسین علیہ السلام کا کائنات کے کسی فرد سے مشابہ کیا جاسکتا ہے؟ جو دین و دنیا دونوں کا سردار ہو جو عظیم الحسب کریم النسب ہو اس سے بڑا کوئی ہے؟ مگر کردار امام حسین علیہ السلام دیکھئے کہ صاحب عظمت و منزلت ہونے کے بعد تواضع و انکساری کو اس طرح عمل کے پیکر میں ڈھالا ہے۔
مرحوم عیاشی نے معتبر سند سے نقل کیا ہے کہ ایک دن امام حسین علیہ السلام ایک جگہ سے گزر رہے تھے۔ دیکھا کچھ مسکین اپنی عبا بچھائے سوکھی روٹی کھارہے ہیں۔ جب قریب پہنچے تو ان لوگوں نے آپ علیہ السلام کو اپنے ہمراہ تناول کی دعوت دیا۔ امام حسین علیہ السلام فوراً گھوڑے سے اتر کر ان کے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا: اِنَّہٗ لَا یُحِبُّالْمُسْتَکْبِرِیْنَ
(سوره نحل (۱۹)، آیت ۲۳)
خدا متکبرین کو دوست نہیں رکھتا اور ان کے ساتھ کھانا کھانا شروع کر دیا بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ آپ بیٹھ تو گئے مگر فرمایا معاف کرنا ہم کھانا نہیں کھا سکتے اس لئے کہ تمہارا کھانا صدقہ ہے (لوگوں کے گھروں سے مانگ کر لائے ہو) اور ہم آل محمد علیھم السلام پر صدقہ حرام ہے۔
ذرا کردار کا تجزیہ تو کیجیئے کہ معلوم تھا کہ یہ کھانا ہمارے لئے جائز نہیں ہے پھر بھی آپ ان کے پاس گئے تا کہ یہ بتا دیں کہ تم نے دعوت دی قبول کرنا میرا فرض تھا مگر نہ کھانا حکم خدا کی تعمیل تھی ورنہ بڑی خوبصورتی سے گھوڑے سے اترے بغیر یہ کہہ کر آگے بڑھ جائے کہ جو کھانا کھارہے ہو میرے لائق ہے ہی نہیں تو بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے بعد دیکھیے کتنا حسین انداز ہے کہ ایک عمل سے قرآن کریم کی آیتوں کا عمل اخلاق پیش کر دیا قرآن کہتا ہے ھَلْجَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۔
(سورہ رحمن (۵۵) ، آیت ۶۰)
امام حسین علیہ السلام ان کی طرفت مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: تم نے دعوت دی میں نے قبول کرلیا اب میں دعوت دے رہا ہوں تم ہی قبول کرو، اور سب کو اپنے گھر لے گئے۔ کنیز کو آواز دی جو کُچھ گھر میں ہے ان کے لئے لے آو، آپ نے بہترین طریقہ سے ضیافت کی اور انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کر دیا۔
(جلاؤ العیون ج ۲، ص ۳۲۵)
سخاوت امام حسین علیہ السلام :
ابن شہر آشوب نے روایت کیا ہے کہ ایک اعرابی مدینہ پہونچا اور دریافت کیا کہ مدینہ میں سب سے زیادہ کریم کون ہے؟ لوگوں نے کہا: حسین ابن علی علیہ السلام۔ فورا مسجد آیا اور دیکھا آحضرت نماز میں مشغول ہیں۔ اتنی دیر میں مدح امام حسین علیہ السلام میں چند شعر پڑھ دئیے جب حضرت علیہ السّلام نماز سے فارغ ہوئے تو قنبر کو بلایا اور فرمایا: قنبر مال حجاز سے کچھ بچا ہے؟ قنبر نے عرض کیا: سونے کے چار ہزار دینار بچے ہیں فرمایا: لاؤ یہ اس کا سب سے زیاد مستحق ہے۔ گھر کے اندر تشریف لے گئے اپنی ردائے مبارک میں چار ہزار دینا لپیٹ کر اعرابی سے شرم کی خاطر دروازہ کے پشت پر کھڑے ہو کر آہستہ سے اس کے حوالے کر دیا اور چند شعر آپ علیہ السلام نے بھی پڑھے جو اعرابی سے عذر خواہی اور معذرت پر مبنی تھے جب اعرابی نے تھیلی دیکھی تو رونے لگا حضرت علیہ السّلام نے فرمایا :
اے اعرابی ایسا لگتا ہے جو میں نے دیا ہے وہ تمہارے لئے کم ہے عرض کیا: نہیں! میں اِس لئے رو رہا ہوں کہ جود و سخا کا یہ دست زبردست کیونکر ایک دن خاک میں چھپ جائے گا۔
( جلاؤ العیون ج ۲، ص -۳۲۶ ۳۲۵)
جامع الاخبار میں روایت ہے کہ ایک اعرابی امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: فرزند رسول میں کامل دیتہ کا ضامن قرار پایا ہوں اور اب اسے ادا کرنے سے عاجز ہوں۔ میں نے سوچا کیا کروں اپنے دل میں سوچا جو لوگوں میں سب سے کریم ہے اس سے مانگوگا اور اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی کریم نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا :
یہ تو تمہارا انداز تھا کہ جو کریم سے اسی کے سامنے دست سوال دراز کرو مگر یہ میرا انداز کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” اَلْمَعْرُوْفُ بِقَدْرِالْمَعْرِفَۃِ ” اگر کسی کو کچھ دینا ہو عطا کرنا ہو تو دینے سے پہلے اس کی معرفت دیکھ لینا۔ جتنا صاحبِ معرفت ہو اتنا ہی نیکی اُس کے ساتھ کرنا۔ میں نے تم سے تین سوال کروں کا ایک ایک سوال کا جواب دیا تو ایک تہائی مال تمہارا گر دو جواب دیئے تو دوتہائی اور اگر تینوں جواب دے دئیے تو پورے مال کے حقدار ہو گئے۔
وہ گھبرا گیاحضرت مجھ سے سوال کریں گے میری کیا اوقات فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ صاحب علم لدنی، صاحب شرف و عظمت ۔ بہرحال آپ پوچھئے اگر امتحان میں کامیاب ہوگیا تو کیا کہنا اور آپ ہی سے دریافت کروں گا۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: بتاؤ کون سا عمل افضل ہے؟
اعراب : الله تعالی کی ذات پر ایمان رکھنا۔
امام: آخرت میں ہلاکت سے بچنے کا ذریعہ کیا ہے؟ اعرابی: الله پر اعتماد رکھتا۔ امام: انسان کی زینت کس چیز میں ہے؟
اعرابی : علم اور اس کے ساتھ بردباری۔
فرمایا: اگر یہ نہ ہو تو کس سے زینت ہوگی؟
عرض کیا: مال اور اس کے ساتھ صبر و تحمل کرے،
فرمایا: اگر یہ بھی نہ ہو؟
عرض کیا: پھر ایسا انسان حقدار ہے ک بجلی گرے اور تباہ ہو جائے۔
روایت کہتی ہے کہ جیسے ہی اس نے یہ آخری جواب دیا امام مسکرا دئیے اور وہ تھیلی جس میں ہزار دینار رکھے تھے اس کے حوالے کر دیا۔ تم امتحان میں کامیاب ہو گئے لہذا سب لے جاؤ اور اپنی انگوٹھی دیتے ہوئے
فرمایا: لو یہ انگھوٹی جس کے نگینہ کی قیمت دوسو درہم ہے لے جاؤ تھیلی سے اپنا قرضہ ادا کرو اور اس انگشتری کو اپنے خرچ میں استعمال کرو۔
اعرابی نے بڑھ کر اسے اٹھایا اور عرض کیا۔
اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ
اللہ بہتر جانتا ہے رسالت و امامت کہاں قراردے۔
(جلاء العیون، ج ۲، ص ۳۲۸)
آپ کی سادہ زندگی:
امام حسین علیہ السلام کی شخصیت آنتی بلند تھی کہ اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔ جس وقت آپ اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے ساتھ پیدل حج کو تشریف لے جاتے تھے اس وقت اسلام کی بڑی بڑی شخصیتیں آپ کے احترام میں پیادہ ہو جاتی تھیں معاشرے میں آپ کو جو عزت و احترام حاصل تھا اس کی ایک وجہ تھی کہ آپ سماج میں زندگی بسر کرتے تھے لوگوں سے کنار کش نہیں رہتے تھے ۔ دل و جان سے سماج کے مسائل میں شریک رہتے تھے اور دوسروں کی طرح خود بھی مصائب و مشکلات برداشت کرتے تھے۔ لوگوں سے ہمدردیاں آپ کو فکر مندی میں مبتلا رکھتی تھیں۔ آپ کے پاس نہ محل نہ لشکر نہ کمر بستہ غُلام، نہ دربان تھے نہ حاجب۔ آپ کی زندگی بادشاہوں جیسی نہ تھی بلکہ فقیروں، ضرورت مندوں کی مدد اور کمک کرنے میں پیش پیش رہے اور اس میں سامان لے کر پہنچتے تھے۔
شعیب بن عبد الرحمن خزائی کا بیان: “جب امام حسین علیہ السلام شہید کر دئیے گئے تو آپ کی پشت مبارک پر گھٹے کے نشانات دیکھے گئے لوگوں نے امام زین العابدین علیہ السلام سے اس کا سبب دریافت کیا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد شب کی تاریکی میں پشت پر روٹیاں رکھ کر بیواؤں، یتیموں اور فقیروں میں تقسیم فرماتے تھے یہ اُسی کے نشانات ہیں۔
(مناقب ، ج ۲، ص ۲۲۲)
علائلی اپنی کتاب میں لکھتا ہے: انسانی تاریخ میں ایسی عظیم شخصیت ملتی ہیں جن کی عظمتوں کے پہلوؤں نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے کسی نے شجاعت میں کسی نے زہد میں کسی نے سخاوت میں لیکن امام حسین علیہ السلام کی شخصیت ہر پہلو سے عظیم نظر آتی ہے۔ ان کی شخصیت تمام نعمتوں اور بلندیوں کا مجموعہ ہے۔
(سموا لمعنی ج ۱۰۴)
جو لامحدود مملكت نبوت کا وارث ہو، جو عظمت، عدالت اور شجاعت علی علیہ السلام کا آئینہ دار ہو جو جاہ و جلال فضیلت و رفعت فاطمہ علیھا السلام کا وارث دار ہو۔ جو شان و شوکت صلح و حلم حسن علیہ السلام کا ذمدار ہو اُس کی ذات بلندیوں اور انسانی صفات کا کو ہسار نظر کیوں نہ آئے؟ ہم تمام پیروان مکتب اہل بیت علیہم السلام کے لئے لازم ہے کہ ان کی ذات والا صفات کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں۔
ہم سب کا کروڑوں سلام ہو اس کی ذات پاک پر اس امید کے ساتھ که خداوند عالم جب اپنے آخری ولی حجّت ابن الحسن السکری علیہم السلام کو ظاہر کرے گا تو اس کے ہم رکاب قاتلان حسین علیہ السلام سے انتقام لینے والوں میں ہم کو بھی قرار دے۔ آمین۔