برائت یا دشمن سے بیزاری تقاضائے ایمان ہے

دین اسلام وہ مذہب ہے جس کے تمام اصول و قوانین پاکیزہ فطرت اور عقل سلیم کی مستحکم بنیاد پر استوار ہیں اسلام کا کوئی بھی حکم نہ فطرت کے خلاف ہے اور نہ ہی عقل کے مخالف ہے۔ جہاں ان قوانین اور اصول کا تقاضا ہے کہ خدا اور سول اور اہل بیت اور ان کے دوستوں سے محبت اور مودت میں سرشار رہو سہی ایمان کی اساس ہے وہیں ان کے دشمنوں سے نفرت و بیزاری ایمان کی بنیاد کے مستحکم ہونے کی دلیل ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ خیال کرے اسلام صرف محبت اور محبت کا مذہب ہے نفرت اور بیزاری اسلام کا شعار نہیں ہے۔ اس بناء پر وہ دشمنان خدا اور رسول اور خاص کر دشمنان اہل بیت سے بیزاری کا قائل نہ ہو اس کو اسلامی تعلیمات کے خلاف سمجھتا ہو تو وہ بعید از عقل و خرد ہو گا۔ اس لئے کہ ہر چیز اپنے ضد سے پہچانی جاتی ہے جیسے رات کے وجود سے دن پہچانا جاتا ہے۔
قرآن حکیم اور دشمنوں سے بیزاری
قرآن کریم کی روشنی میں دشمنوں سے بیزاری اظہار محبت و مودت سے پہلے ہے۔ سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۵۶۔ جو آیت الکرسی کی ایک آیت بھی ہے جو ہر ایک کی زبان پر ہے۔
فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا
بس جس نے طاغوت کا انکار کیا اور خدا کا اقرار کیا اور وہ ایمان لایاوہ یقینا مضبوط ترین رسی سے متمسک ہو گیا۔
اس آیت میں طاغوت سے انکار کو ایمان باللہ سے پہلے ذکر کیا گیا | ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خداوند عالم پر ایمان اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہو سکتا ہے جب تک طاغوتی یعنی غیر خدا کی طاقتوں سے مکمل انکار نہ ہوں۔ کلمہ توحید جو مسلمان اور مومن ہونے کی پہلی شرط ہے اور سب سے بنیادی کلمہ ہے جہاں سے اسلام کی ابتداء ہوتی ہے۔ وہاں بھی خدا کے اقرار سے پہلے غیر خداؤں کی خدائی کا مکمل انکار کیا گیا ہے۔ ”لا اله الا الله ‘‘ انکار کو اقرار سے پہلے قرار دیا گیا ہے۔ اس انکار کے بعد اقرار کی منزل ہے۔
اب ذرا ان آیتوں پر غور فرمائیں
أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
(سورہ انعام، آیت ۱۹)
(کافروں اور مشرکوں سے خطاب ہے) کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ خدا کے علاوہ بھی اور خدا ہیں؟ اے پیغمبر آپ کہدیجئے۔ میں اس طرح کی ہر گز گواہی نہیں دیتا ہوں اورکہدیجئے۔ یقینا بے شک وہ اللہ بس ایک ہے اور تم لوگ جس کو خداکا شریک قرار دیتے ہو میں یقینا اس سے بری اور بیزار ہوں۔
جناب ہود علیہ السلام کی زبانی بیان ہوتا ہے
قَالَ إِنِّي أُشْهِدُ اللَّـهَ وَاشْهَدُوا أَنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
(سورہ ہود، آیت ۵۴ )
اور انھوں نے کہا۔ میں خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں اور تم سب اس بات پر گواہ رہنا تم جن بندوں کو خدا کا شریک قرار دیتے ہو میں اس سے بری اور بیزار ہوں۔
بیزاری لازمہ ایمان
اس طرح کی اور بھی آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں جس میں غیر خدا کی طاقتوں سے باقاعدہ اظہار برات کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ توحید کا لازمہ ہے غیر خدائی طاقتوں سے برات۔ ان آیتوں میں تو غیر خدائی یا خدا کے مقابلہ کی طاقتوں سے برأت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی آیتوں میں ان تمام لوگوں سے عدم دوستی اور دوری کا اظہار کیا گیا ہے جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےدشمن ہیں۔
جو تعلیمات قرآنی ہے وہی درس ہائے مکتب اہل بیت علیہم السلام ہے چنانچہ بہترین عمل کے بارے میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ اَفْضَلَ الدِّیْنِ الْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ۔
(غرر الحکم ، میزان الحکمت شمارہ ۳۱۸۳)
یقیناً افضل دین خدا کی خاطر کسی سے محبت کرتا اور خدا کی خاطر بغض و نفرت رکھنا۔ یہی نہیں بلکہ جس عالم نے عقل و خرد سے انصاف کیا ہے اور اپنے علم کو حق کی کسوٹی پر پرکھا ہے اس نے بھی اسی خط پر چلنے کی کو شش کی ہے۔ اس ذیل میں قارئین کے لئے یہ روایت نقل کرتے ہیں۔ یہ روایت اہل سنت کے عالم دین متقی ہندی نے کنز العمال (شماره ۲۴۶۳۸) میں نقل کی ہے۔
اَفْضَلُ الْاَعْمَالِ الْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ
مامون نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے سوال کیا۔ آپ خالص دین اور اس کا خلاصہ اور اس کی روح بیان فرمائیں۔ امام علیہ السلام نے من جملہ باتوں کے یہ بات بیان فرمائی۔
وَ حُبُّ اَوْلِیَاءِ اللہِ تَعَالیٰ وَاجِبٌ وَ کَذَالِکَ بُغْضُ اَعْدَائِ اللہِ وَ الْبَرَاءَۃُ مِنْہُمْ وَ مِنْ اَئِمَّتِہِمْ۔
(عیون اخبار الرضا، ج ۳، ص ۱۲۱)
الله کے اولیاء سے محبت کرنا واجب ہے اور اسی طرح اللہ کے دشمنوں سے نفرت و عداوت رکھنا ان کے دشمنوں سے اور ان کے رہنماؤں سے برأت کرنا بھی واجب ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں جہاں خدا اس کے رسول اور اس کے اولیاء سے محبت لازمی ہے وہیں ان کے دشمنوں سے نفرت وبرات بھی لازم ہے اگر کوئی شخص خدا، رسول اور ان کے اولیاء سے محبت تو رکھتا ہے لیکن ان کے دشمنوں سے بیزار نہیں ہے تو اس کا ایمان ناقص ہے اور اصطلاح میں اس کو منافق کہا جاتا ہے۔ یہ محبت و نفرت اس قدر اہم ہے کہ :
خداوند عالم نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی: اے موسی کیا تم نے میرے لئے کوئی کام انجام دیا ہے۔ جناب موسیٰ نے عرض کیا: ہاں پروردگار میں نے تیری خاطر نماز پڑھی، تیری خاطر روزہ رکھا۔ تیری راہ میں خرچ کیا اور ہمیشہ تیری یاد میں رہتا ہوں۔ خدانے فرمایا: نماز تمھارے لئے حق کی نشانی و علامت ہے۔ روزه آتش جہنم سے سپر ہے۔ میری راہ میں خرچ کرنا قیامت میں سایہ دار درخت ہوگا، میری یاد نور ہے۔ یہ بتاو تم نے میرے لئے کونسا عمل انجام دیا۔ جناب موسی علیہ السلام نے عرض کیا: خدایا اس سلسلے میں تو یہی میری رہنمائی فرما۔ خدا نے فرمایا
ہَلْ وَالَیْتَ لِیْ وَلِیًّا وَ ہَلْ عَادَیْتَ لِیْ عَدُوًّا قَطُّ فَعَلِمَ مُوْسیٰ اَنَّ اَفْضَلَ الْاَعْمَالِ الْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ۔
سفیتہ البحار ، ج ۱، ص ۲۰۱، تفسیر نمونه، ج ۲۳، ص ۲۷۳-۲۷۴)
کیا تم نے میری خاطر کسی کو دوست رکھا ہے۔ کیا صرف میری خاطر کسی سے دشمنی کی ہے۔
اس وقت جناب موسیٰ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ سب سے افضل عمل خدا کی خاطر محبت کرنا اور خدا کی خاطر دشمنی رکھنا ہے۔
خیر کی پہچان
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ تم میں کچھ اچھائی اور خیر ہے تو اپنے دل پر نظر کرو اگر وہ خدا کے مطیع و فرمانبرداروں کو دوست رکھتا ہے۔ گناہ گاروں اور نافرمانوں سے نفرت کرتا ہے تو اللہ تم کو دوست رکھتا ہے اور اگر وہ مطیع و فرمانبرداروں سے نفرت کرتا ہے گناہ گاروں اور نافرمانوں کو دوست رکھتا ہے تو تم میں کوئی اچھائی اور خیر نہیں ہے اور خدا تم سے نفرت کرتا ہے تمہیں ناپسند کرتا ہے کیونکہ انسان اپنے چاہنے والوں کے ساتھ ہے۔
(سفینة البحار، ج ۱، ص ۲۰۱، تفسیر نمونہ، ج ۲۳، ص ۴۷۴)
یہ بات بالکل واضح ہے کہ اہل بیت علیہم السلام سے زیادہ کوئی بھی خدا کا مطیع و فرمانبردار نہیں ہے۔ اور یہ اس قدر خدا کے مطیع و فرمانبردار ہیں کہ ان کی اطاعت خدا کی اطاعت، ان کی محبت خدا کی محبت ہے۔ اب جب یہ حضرات مجسم مظہر اطاعت و محبت پر ور دگار ہیں تو ہر وہ شخص جو ان کا مخالف ہے وہ خدا کا نافرمان ہے اور ان کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ اب اگر کوئی شخص اپنے آپ کو پرکھنا چاہتا ہے اور اپنے وجود میں خیر و اچھائی کو جاننا چاہتا ہے۔ تو دیکھے اس کے دل میں محمد و آل محمد علیہم السلام سے کس قدر محبت و الفت ہے اور ان کے دشمنوں سے کس قدر نفرت و بغض ہے۔ اگر محبت کا احساس تو ہے مگر دشمنوں سے نفرت نہیں ہے تو یہ وہ شخص ہے جس میں خیر نہیں ہے۔ کیونکہ ایک دل میں دو متضاد باتیں ہر گز جمع نہیں ہوسکتی ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی محبت کے ساتھ ان کے دشمنوں سے لگاؤ بھی۔ خدا اور صنم ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے جس دل میں اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں سے لگاؤ ہو اور دل میں ان دشمنوں کے لئے کوئی نرم گوشہ ہو تو ایسے آلودہ دل میں کبھی کسی اور کی محبت آئے تو آئے مگر پاک و پاکیزه صاحبان آیت تطہیر کی محبت ہر گز نہیں آسکتی ہے۔ لیکن اس کسوٹی پر اترنے کے لئے کوئی ایسا طرز طرح یا اسلوب بھی تو ہونا چاہئے جو خود بول اٹھے یہ حق ادا ہوا ہے اظہار محبت کا اور یہ حق ادا ہوا ہے اظہار برائت کا۔ اس تشنگی کو پورا کرنے کے لئے ہمارے معصوم رہبروں نے ہمیں زیارات کا مجموعہ دیکر اسے پڑھنے کا سلیقہ بھی سکھایا اور اس کے معارف سے ہمیں آشا بھی کیاہے
معارف زیارت
حضرات ائمہ معصومین علیھم السلام کی جو زیارتیں نقل ہوئی ہیں ان میں اسلامی تعلیمات کو نہایت حسین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ زیارتیں دراصل حدیث اور روایتیں ہیں جو زیارتوں کی شکل میں بیان کی گئی ہیں۔ جو باتیں ان زیارتوں میں بیان کی گئی ہیں وہ حق ہیں ان کو تسلیم کرنا اور ان کے مطابق اپنے عقائد احکام اور اخلاق کو مرتب کر نا تمام محبان اہل بیت علیہم السلام کی ذمہ داری ہے۔ یہ زیارتیں اسلامی تعلیمات کا وہ قد آور آئینہ ہیں جس کو دیکھ کر انسان اپنی زندگی کے تمام پہلو ائمہ معصومین علیھم السلام کی سیرت کے مطابق ترتیب دے سکتا ہے۔ سند کے اعتبار سے اکثر زیارتیں معتبر اور مستند ہیں لیکن ان زیارتوں میں زیارت عاشورا اور زیارت جامعہ کبیرہ کو خاص اہمیت حاصل ہے کہ وہ زیارتیں ہیں جو سند کے اعتبار سے نہایت ہی معتبر اور مستند ہیں ائمہ معصومین علیھم السلام اور خاص کر امام زمانہ علیہ السلام نے ان زیارتوں کو بار بار پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے یہ ائمہ معصومین علیھم السلام کی تاکید کا اثر ہے کہ ہر دور کے علماء ان کی زیارتوں کے پابند رہے ہیں علماء کرام کا یہ مسلسل عمل ان زیارتوں کے معتبر اور مستند ہونے کی ایک اور دلیل ہے۔ اختصار کے پیش نظر زیارت عاشورا اور زیارت جامعہ کے چند جملے نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
زیارت عاشورا اور برائت
ا۔ زیارت عاشوراء میں ۷ جگہ برائت کا تذکرہ ہے۔ یہ تکرار نہیں ہے بلکہ برائت کی اہمیت پر تاکید ہے۔ یہ بھی احساس رہے کہ برائت اور لعنت دو مستقل فریضہ ہیں ۔ دشمنان اور قاتلان اہل بیت علیہم السلام پر لعنت کرنے کے بعد یہ جملہ ہے
بَرِئْتُ اِلَی اللہِ وَ اِلَیْکُمْ مِنْہُمْ وَ (مِنْ( اَشْیَاعِہِمْ وَ اَتْبَاعِہِمْ وَ اَوْلیَائِہِمْ
میں خدا کی بارگاہ میں اور اے اہل بیت آپ کی بارگاہ میں ان تمام لوگوں سے ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے، ان کی پیروی کرنے والوں سے اور ان کو دوست رکھنے والوں سے اپنی برائت اور بیزاری کا اعلان کرتا ہوں۔ اس جملہ میں صرف ان لوگوں سے برائت کا اظہار نہیں ہے جنھوں نے امام حسین علیہ السلام پر ظلم کیا اور ان کو شہید کیا بلکہ ان لوگوں سے بھی بیزاری کا اعلان ہے جو ان ظالموں اور قاتلوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ان کی پیروی کر رہے یا ان کو دوست رکھتے ہیں چونکہ اس طرح کے لوگ ہر زمانہ میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں اسی بنا پر برائت کا اظہار بھی ہر زمانہ میں لازم ہے۔
۲۔ یَا اَبَا عَبْدِ اللہِ اِنِّیْ اَتَقَرَّبُ اِلَی اللہِ وَ اِلیٰ رَسُوْلِہٖ وَ اِلیٰ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَ اِلیٰ فَاطِمَۃَ وَ اِلَی الْحَسَنِ وَ اِلَیْکَ بِمُوَالَاتِکَ، وَ بِالْبَرَئَۃِ مِمَّنْ اَسَّسَ اَسَاسَ ذَالِکَ وَ بَنَی عَلَیْہِ بُنْیَانَہُ وَ جَرَی فِی ظُلْمِہٖ وَ جَوْرِہٖ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی اَشْیَاعِکُمْ۔
اے ابا عبد الله – حسین بن علی۔ میں خدا کی بارگاہ میں قربت چاہتا ہوں، اس کے رسول کی بارگاہ میں ، امیر المومنین کی بارگاہ میں جناب فاطمہ زہرا کی بارگاہ میں و امام حسن کی بارگاہ اور آپ کی بارگاہ میں۔
(ذرا غور کریں خدا اور پنجتن پاک کی بارگاہ میں قربت، کیا دنیا میں خدا اور پنجتن پاک سے بھی زیادہ کوئی عظیم ہستیاں ہیں جس سے قربت حاصل کی جائے اور جو چیز ذریعہ قربت قرار پائی اس سے اہم اور کون سی چیز ہوگی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ زیارت کا یہ فقرہ صرف گناہ گار افراد ادا نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ فقرہ معصومین علیھم السلام نے بھی ادا فرمائے ہیں جو خود ہی خدا سے نہایت درجہ قریب ہیں لیکن یہ فقرہ ظاہر کر رہا ہے خدا اور پنجتن کی بارگاہ میں قربت اور مزید قربت کا مقصد ہے تو اس کا طریقہ ہے۔ اور جب بارگاہ خدا اور پنجتن میں یہ جملہ قربت کا ذریعہ ہے تو بقیہ امت کے لئے اس سے زیادہ معتبر اور کیا بات ہو سکتی ہے۔
آپ کی محبت و مودت اور ان لوگوں سے بر آت و بیزاری کے ذریہ جن لوگوں نے اس ظلم و جور کی بنیاد رکھی اور ان لوگوں سے بھی جنھوں نے اس کی بنیاد پر عمارت تعمیر کی۔ اور ان لوگوں سے بھی جو اس ظلم کے راستہ پر چلے جنہوں نے آپ پر ظلم کیا اور آپ کے شیعوں پر ظلم کیا۔

۳،۴،۵ :
بَرئْتُ اِلَی اللہِ وَ اِلَیْکُمْ مِنْہُمْ وَ اَتَقَرَّبُ اِلَی اللہِ ثُمَّ اِلَیْکُمْ بِمُوَالَاتِکُمْ َ مُوَالَاۃِ وَلِیِّکُمْ وَ بِالْبَرَئَۃِ مِنْ اَعْدَائِکُمْ وَ النَّاصِبِیْنَ لَکُمُ الْحَرْبَ وَ بِالْبَرَائَۃِ مِنْ اَشْیَاعِہِمْ وَ اَتْبَاعِہِمْ۔
(ان چند جملوں میں تین مرتبہ لفظ برائت استعمال ہوا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ دشمنان خدا، رسول اور اہل بیت علیہم السلام سے بیزاری کس حد تک ضروری ہے۔)
میں خدا کی بارگاہ میں اور آپ حضرات کی بارگاہ میں ان تمام لوگوں سے برأت اور بیزاری کا اعلان کرتا ہوں اور خدا سے قربت حاصل کرتا ہوں پھر آپ حضرات کی بارگاہ میں قربت کا طلبگار ہوں آپ کی محبت و مودت کے ذریعہ اور آپ کے چاہنے والوں کی محبت کے ذریعہ اور ان تمام لوگوں سے برأت اور بیزاری کے ذریعہ جو آپ کے دشمن ہیں جو آپ سے برسر پیکار ہیں میں ان لوگوں سے بھی بری اور بیزار ہوں ان کے چاہنے والوں سے بھی اور ان کی پیروی کرنے والوں سے بھی بری ہوں۔ زیارت کے اس فقرہ میں نہ صرف اہل بیت علیہم السلام سے محبت و مودت اور ان کے دشمنوں سے برآت و بیزاری قربت خدا اور اہل بیت کا ذریعہ ہے بلکہ اہل بیت علیہم السلام ان کے چاہنے والوں کی محبت اور اہل بیت علیہم السلام ان کے نہ صرف دشمنوں سے بر آت و بیزاری بلکہ ان کے دشمنوں کے چاہنے والوں اور ان کی پیروی کرنے والوں سے بھی بر آت و بیزاری قربت خدا کا ذریعہ ہے۔ لہذا جب تک اس دنیا میں اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والے اور ان کے دشمنوں کے چاہنے والے موجود ہیں اس وقت تک یہ محبت و برائت کا سلسلہ جاری ہے چونکہ اس طرح کے لوگ ہر جگہ ہیں لہذا ہر جگہ محبت و برائت لازم و ضروری ہے۔
۶۔
فَاَسْئَلُ اللہَ الَّذِیْ اَکْرَمَنِیْ بِمَعْرِفَتِکُمْ وَ مَعْرِفَۃِ اَوْلِیَائِکُمْ وَ رَقَنِیْ الْبَرَئَۃَ مِنْ اَعْدَائِکُمْ اَنْ یَجْعَلَنِیْ مَعَکُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ۔
خداوند عالم کی بارگاہ میں دست بدعاہوں جس نے آپ حضرات کی معرفت اور آپ کے دوستوں کی معرفت عطا کر کے عزت و کرامت بخشی اور آپ کے دشمنوں سے برأت و بیزاری کا عظیم ترین رزق عطا کیا۔ دنیا میں آخرت میں ہمیں آپ کے ساتھ قرار دے۔
دنیا و آخرت میں کسی کا بھی مرتبه و درجہ محمد وآل محمد علیھم السلام سے بلند نہیں ہے۔ نہ کوئی نبی نہ کوئی رسول نہ کوئی شہید نہ کوئی ملک مقرب، نہ کوئی عبادت گزار ، نہ کوئی سب سے بلند درجہ و منزلت محمد و آل محمد علیہم السلام کو حاصل ہے دنیا میں بھی اور آخرت کا کیا پوچھنا آخرت میں محمد وآل محمد علیہم السلام کی جو شان و منزلت ہو گی اس کو دیکھ کر بارگاه خداوندی کے مقرب ترین افراد بھی رشک کرینگے۔ دنیا و آخرت میں ان بلند ترین منزلت پر فائز شخصیتوں کے ساتھ ساتھ رہنے کے لئے دو شرطیں ہیں۔ ایک محمد و آل محمد اور ان کے دوستوں کی معرفت اور دوسرے ان کے دشمنوں سے برأت و بیزاری۔ پرواز کے لئے دو پر ضروری ہیں صرف ایک پر سے پرواز ناممکن ہے۔ قربت خداوندی اور ہمراہی محمد و آل محمد علیہم السلام کی اعلی ترین منزل تک پرواز کے لئے دو پر لازم ہیں ایک ولایت و محبت کا پر اور دوسرے برآت و بیزاری کا پر۔ جس کا کوئی ایک پر شل ہو گیا یا کمزور ہو گیا وہ پستیوں میں پھڑ پھڑاتا رہے گا۔
۷ –
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَتَقَرَّبُ اِلَیْکَ فِیْ ہٰذَا الْیَوْمِ وَ فِیْ مَوْقِفِیْ ہٰذَا وَاَیَّامِ حَیٰوتِیْ بِالْبَرَئَۃِ مِنْہُمْ وَاللَّعْنَۃِ عَلَیْہِمْ وَ بِالْمُوَلَاتِ لِنَبِیِّکَ وَ آلِ نَبِیِّکَ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمُ السَّلَامُ۔
خدایا میں تیری بارگاہ اقدس میں تقرب حاصل کررہا ہوں آج کے دن اور اس جگہ بلکہ اپنی زندگی میں روزانہ ان (دشمنان اہل بیت سے برأت و بیزاری اور ان پر لعنت بھیج کر اور تیرے نبی اور تیرے نبی کی آل (خدایا ان پر اور ان کی آل پر تیرا سلام ہو) کی مودت و محبت و ولایت کے ذریعہ۔
یہاں بھی قربت خدا کے لئے دو چیزوں کو ضروری قرار دیا گیا ہے ایک محبت اور دوسرے برائت لیکن اس اضافہ کے ساتھ یہ قربت صرف ایک دن یا ایک خاص جگہ سے مخصوص نہیں ہے ”ایام و حیاتی” ساری زندگی اور روزآنہ یعنی جب بھی قربت خدا کا ارادہ ہو اور بارگاہ الہی میں حاضری کا ارادہ ہو تو یہ دو چیزیں لازمی ہیں۔
جناب شیخ عباس قمّی رحمت اللہ علیہ مفاتیح الجنان میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے باب میں لکھتے ہیں کہ یہ زیارت جناب یونس بن ظبیان کے ذریعہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے یہ روایت سند کے اعتبار سے معتبر و مستند ہے۔ یہ بہترین زیارت ہے اس زیارت میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت اور اس کی عظمت، وسعت کا ذکر کیا گیا ہے اور نظام کائنات میں اہل بیت علیہم السلام کی عظمت اور ان کے وسیلہ و ذریعہ کو بیان کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ خدا کی بارگاہ سے جو بھی عنایت اور افضل ہوتا ہے سب محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے ہے اس زیارت کا آخری فقرہ یہ ہے۔ تین مرتبہ کہے : اَنَا اِلَی اللہِ مِمَّنْ خَالَفَکَ بَرِیْ ءٌ۔
جن لوگوں نے آپ کی مخالفت کی میں خدا کی بارگاہ میں ان سے برآت اور بیزاری کا اعلان کرتا ہوں۔
زیارت جامعہ اور برائت
زیارت جامعہ کا یہ فقرہ کس قدر بلیغ ہے کن کن لوگوں اور گروہوں سے برآت و بیزاری کو ضروری قرار دے رہا ہے۔
فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لَا مَعَ غَیْرِکُمْ اٰمَنْتُ بِکُمْ وَ تَوَلَّیْتُ اٰخِرَکُمْ بِمَا تَوَلَّیْتُ بِہٖ اَوَّلَکُمْ وَ بَرِئْتُ اِلٰی اللہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ اَعْدَائِکُمْ وَ مِنَ الْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَالشَّیَاطِیْنِ وَ حِزْبِہِمْ الظَّالِمِیْنَ لَکُمْ وَالْجَاحِدِیْنَ لِحَقِّکُمْ وَالْمَارِقِیْنَ مِنْ وَلَایَتِکُمْ وَالْغَاصِبِیْنَ لِاِرْثِکُمْ وَالشَّاکِّیْنَ فِیْکُمُ الْمُنْحَرِفِیْنَ عَنْکُمْ وَ مِنْ کُلِّ وَلِیْجَۃٍ دُوْنَکُمْ وَ کُلِّ مُطَاعٍ سِوَاکُمْ وَ مِنَ الْاَئِمَّۃِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ۔
پس میں آپ کے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ ہوں۔ میں آپ کے غیر کے ساتھ نہیں ہوں۔ آپ کے اول و آخر کی ولایت و امامت کا قائل ہوں لیکن تمام اماموں کی امامت کا قائل ہوں۔ اور خداوند عالم کی بارگاہ میں برآت و بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔
اب ذرا غور فرمائیں کن کن لوگوں سے برآت و بیزاری کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ اس سے اندازہ ہو جائیگا کہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کا اقرار ان کی محبت و مودت کا تقاضا ہے کہ ان تمام لوگوں سے برآت اور بیزاری اختیار کی جائے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
(1) آپ کے دشمنوں سے، (۲) جبت سے، (۳) طاغوت سے، (۴) شیاطین سے، (۵) اس کے گروہ سے، (۶) جن لوگوں نے آپ پر ظلم کیا ان سے، (۷) جن لوگوں نے آپ کے حق کا انکار کیا ان سے، (۸) ان لوگوں سے جو آپ کی امامت و ولایت سے نکل گئے، (۹) ان لوگوں سے جن لوگوں نے آپ کی میراث غصب کی، (۱۰) ان لوگوں سے جو آپ کی امامت و حقانیت میں شک کرتے ہیں،(۱۱) ان لوگوں سے جو آپ سے منہ پھیرے ہوئے منحرف ہیں، (۱۲)ان لوگوں سے جو ناحق خود کو دین و شریعت کا زمہ دار قرار دیتے ہیں، (۱۳) ان لوگوں سے جو آپ کے مقابلہ میں اپنی اطاعت ضروری قرار دے رہے ہیں، (۱۴) اور ان تمام رہنماؤں سے جو جہنم کی دعوت دے رہے ہیں۔
اس طرح یہ چودہ گروہ ہیں جن سے برآت و بیزاری ضروری ہے۔ اس بنا پر جب ہم زیارت جامعہ پڑھیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ اس طرح کے جملہ ادا کرتے ہوئے بلکہ زیارت کا ہر جملہ ادا کرتے ہوئے دل اور زبان ایک ساتھ ہو۔ زبانی بیزاری سے پہلے دل کی بیزاری ضروری ہے۔ ان میں سے ہر ایک جملہ با قاعدہ تشریح طلب ہے۔
آیات قرآنی اور مکتب اہل بیت علیھم السلام سے وارد ہونے والی زیارتوں سے ایک نہایت ہی اجمالی اور مختصر تجزیہ کیا ہے لیکن یہ بڑا دلچسپ اور وسیع موضوع ہے جس پر وارد ہونے کے لئے چند صفحات کا فی نہیں ہیں لہذ اہم حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا پر حسن اختتام کی سعادت حاصل کرتے ہیں :
خدایا میں تجھ سے تیری محبت کی درخواست کرتا ہوں اور ان لوگوں کی محبت جو تجھ سے محبت کرتے ہیں اور ہر اس عمل کی محبت جو تیری قربت کا سبب ہے۔ خدایا تیری محبت مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو اور میری یہ محبت تیری جنت کے لئے رہنما قرار پائے۔
(مناجات محبين، مناجات ۹)
حسینیت کی معلوم کیسے آثار و برکات ہیں جس نے عصبیت کے آہنی قلعوں کی سرحدوں کو توڑ کر ہر صاحبان فکر و نظر اور درد مند دل اور انسانیت سے انصاف کرنے کا کوئی گوشہ اگر روشن ہے تو وہ امام حسین کے صبر، استقلال، عزم مقام اور امام حسین نے حق کی پاسبانی میں جس جرأت اور حوصلہ کا مظاہرہ کیا ہے اور آپ کے اہل جرم نے جن منزلوں سے گذر کر اسلام کا وقار اس کی عزت اور اس کا احترام بچایا ہے اس کا لوہامان لیا ہے اور امام حسین کا شیدائی ہو گیا ہے اور آپ کے دشمنوں سے بیزار ہو گیا ہے۔ اس زمرے میں ایک ہندو شاعر نے مرقعہ نگاری کو ایک الگ رنگ دیا ہے جناب زینب جب اپنی مادر گرامی کی قبر پر جاتی ہیں تو فرماتی ہیں :
کربلا جلوه گیر شان خدا تھی بی بی کربلا مرکز معراج وفا تھی
کربلا احمد مرسل کی دعا تھی بی بی کربلا منزل تسلیم ورضا تھی بی بی
دین کی جلوہ گری عرش تلک جاتی تھی زندگی رقص میں تھی موت مری جاتی تھی
اس بند میں مرکز معراج وفاء منزل تسلیم و رضا کی آخری منزل احمد مرسل کی دعا ایسا لگتا ہے ایک ایک عنوان ہے کتاب کربلا کے لئے اور یہ کمال حسن شاعری ہے کہ زندگی پھولے نہیں سماتی تھی اور موت مری جاتی ہے کی صنعت تجنیس اور استعارہ کچھ اس انداز میں ہے کہ بات دل میں اتر جاتی ہے۔