تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
اسلامی کیلنڈر میں سب سے اہم رات اور بافضیلت شب “شب قدر” ہے پورے سال میں ۳۵۵ دن رات میں جس رات کو سب سے زیادہ عظمت و مرتبت حاصل ہے وہ یہی شب قدر ہے۔ قرآن کریم نے اس رات کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا ہے یعنی ایک رات کی عبادت ۳۸۳ سال کی دن رات عبادت سے بہتر ہے یعنی اگر کوئی شخص ایسے ۳۸۳ سال گذارے جس میں شب قدر نہ ہو اور ۳۸۳ سال دن رات عبادت کرے تب بھی وہ شب قدر کی عبادت کی برابری نہیں کرسکتا ہے۔ یہ رات دنیا کے تمام مسلمانوں کے نزدیک اہم ترین رات ہے اور یہ رات ماه مبارک رمضان کی ایک رات ہے وہ چاہے شیعوں کے نزدیک ۱۹-۲۱-۲۳ کی کوئی ایک رات ہو یا اہلسنت کے نزدیک ۲۷ رمضان المبارک کی رات ہو۔ تاریخوں کا فرق ضرور ہے مگر یہ رات ہر ایک کے نزدیک با فضیلت ہے۔ اس رات مسجدوں اور دیگر مقام عبادت میں عبادت خداوندی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے یہ رات لوگ عام طور سے عبادت میں بسر کرتے ہیں۔
رات اس بناء پر اہم ہے کہ اس رات سال بھر کی تمام باتیں طے کی جاتی ہیں عمر، رزق، اولاد، شادی، سر بلندی، عزت، ذلت، بارش، قحط، سیلاب، جنگ بد امنی … جو کچھ اس دنیا میں رونما ہونے والا ہے وہ سب اس ایک رات میں طے ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
اس رات ملائکہ اور سب سے عظیم ملک “روح” بھی نازل ہوتے ہیں سب خدا کے حکم سے نازل ہوتے ہیں۔
“من كل أمر” تمام امور کے ساتھ اس بات کو سورہ مبارک دخان کی تیسری چوتھی آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (دخان : ۳ -۴)
ہم نے قرآن کریم شب قدر میں نازل کیا ہم انجام کار سے باخبر کرتے ہیں اس رات تمام کمت کی باتیں طے کی جاتی ہیں۔
شب قدر ہر سال آتی ہے
ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ بات آئے جس طرح قرآن کریم حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کی حیات طیبہ میں نازل ہوا تھا اور نزول قرآن آنحضرت کے زمانہ میں مکمل ہوگیا اور اب اس زمانہ میں نزول قرآن کا کوئی تصور نہیں ہے اس طرح کی فکر میں ایک بڑا نقص پایا جاتا ہے۔ گویا وہ شب قدر کو نزول قرآن کی یادگار سمجھ کر اپنی عبادت سے اس شب کو سجاتے ہیں۔ جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ نقص کو ذہن و فکر میں اس لئے کوئی جگہ نہیں دینا چاہئے کیونکہ شب قدر کی دو عظیم ترین فضیلتیں ہیں۔ ایک نزول قرآن جس میں تمام رطب و یابس کی حقیقتیں موجود ہیں۔ اور روز آفرنیش سے دنیا تغیرات کی آماجگاہ رہی ہے۔ زمانے کی پیش فیتی کا حساب، سال مہینوں اور ایام پر ہے۔ ان تغیرات کے اشارے وہ ہیں جو وہی سمجھ سکتا ہے جو راسخون في العلم ہوتا ہے بنابر این سال کی ایک مدت قرار دے کر اس درمیان میں جو تغیرات رونما ہونے والے ہوتے ہیں ان سب کا ایک مکمل دستور اور حساب لے کر ملائکہ عرش سے فرش زمین پر آتے ہیں اور تمام امور بذریعہ وہ عظیم الشان فرشتہ جسے روح کہتے ہیں ایک مرکز پر آ کر اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ آگے چل کر ہم اس کی توضیح کریں گے۔
نہیں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ شب قدر ہر سال ہے۔ پہلی وجہ ہے دنیا کے تمام مسلمان جو ہر جگہ شب قدر کا اہتمام کرتے ہیں خود قرآن کریم نے سورہ قدر میں اس حقیقت کو بیان بھی فرمایا ہے۔ نزول قرآن کریم کو ماضی کے صیغہ بیان فرمایا ہے:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
ہم نے قرآن کریم شب قدر میں نازل کیا۔
سوره مبارکه دخان میں بھی ماضی کا صیغہ استعمال کیا۔
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ
ہم نے قرآن کو بابرکت رات میں نازل فرمایا۔
لیکن جب نزول ملائکہ اور امور کی تقسیم و تقدیر کا ذکر فرمایا تو مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا:
اس قدر کی رات میں ملائکہ اور روح نازل ہوتے رہتے ہیں۔
یہ تو سورہ قدر کی آیت تھی۔ سوره مبارک دخان میں تمام امور کی تقسیم و تقدیر کا ذکر کیا تو وہاں بھی مضارع کا صیغه استعمال فرمایا
فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
اس بابرکت رات میں تمام حکمت کی باتیں طے ہوتی رہتی ہیں۔
صاحبان علم جانتے ہیں عربی زبان میں مضارع کا صیغه دوام اور تسلسل بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چونک نزول قرآن کریم وقتی کام تھا اور یہ کام ایک خاص وقت میں مکمل ہو گیا اب نزول کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے اس کو ماضی کے صیغه “انزل” سے بیان فرمایا شب قدر اور اس میں ملائکہ و روح کا نزول اور امور کی تقسیم و تقدیر کا سلسلہ جاری رہنے والا تھا اس لئے اس کو مضارع کے صیغہ سے بیان فرمایا:
فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
“تنزل‘‘ و “يفرق” دونوں مضارع کے صیغہ ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ شب قدر کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس امت پرخداوند عالم کا یہ عظیم احسان ہے۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم سے روایت ہے:
خداوند عالم نے میری امت کو شب قدر مرحمت فرمائی ہے جب کہ دوسری امتوں کی سعادت نہیں دی تھی۔
(تفسیر نمونہ ج ۲۷, ص ۱۹۰)
شب قدر ماه مبارک کی ایک رات ہے
شب قدر ماه مبارک رمضان کی ایک رات ہے یعنی شب قدر ماه مبارک رمضان میں ہے سال کے بقیہ گیارہ (۱۱) میں نہیں ہے۔ سورة بقرہ آیت ۱۸۵ میں ارشاد خداوندی ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ
رمضان کا مہینہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔
سورة قدر میں ارشاد ہوا:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
ہم نے قرآن کریم قدر کی رات میں نازل کیا۔
سورة دخان میں ارشاد ہوا:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ
ہم نے قرآن کریم بابرکت رات میں نازل کیا۔
لہذایہ طے ہے شب قدر ماه مبارک رمضان کی ایک رات ہے۔
کون سی رات؟
خداوند عالم نے ماہ مبارک رمضان میں عبادت کا بے پناہ ثواب رکھا ہے۔ یہاں تک کہ روزہ دار کی سانس کو تسبیح اور سونے کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ دوسری طرت ہم سب کو میدان قیامت میں مغفرت گناه میدان قیامت کی سختیوں سے نجات، پل صراط سے گذرنے اور جنت میں جانے کے لئے بہت ہی زیادہ ثواب کی ضرورت ہوگی، لہذا خداوند عالم کی رحمت و رافت کا تقاضا ہواشب قدر چند راتوں میں پوشیدہ رکھی جائے تا کہ اسی بہانے انسان کچھ عمل تو کر لے اور اپنے ثواب کے حساب میں اضافہ کرلے۔
لہذا کبھی اس طرح بیان کیا گیاشب قدر ماه مبارک رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتیں ہیں اور کبھی اس طرح بیان فرمایا گیا۔ انیس ۱۹, اکیس ۲۱, تیئیس ۲۳، کی راتیں۔ حضرت امام جعفر صادق الاسلام نے ان تین راتوں کو اس طرح بیان فرمایا:
اَلتَّقْدِیْرُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ تِسْعَۃَ عَشَرَ وَ الْاِبْرَامُ فِیْ لَیْلَۃِ اَحْدَیْ وَ عِشْرِیْنَ، وَ الْاِمْضَاءُ فِیْ لَیْلَۃِ ثَلَاثَ وَ عِشْرِیْن۔ (کافی، ج ۴, ص ۱۵۹،ح ۹)
انیسویں رات میں طے کیا جاتا ہے کیا ہونا ہے۔ اکیسویں کی رات میں اس پرفیصله کیا جاتا ہے اور تئیسویں کی رات میں آخری فیصله کیا جاتا ہے۔ اور حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اہلسنت حضرات ستائیسویں کی رات کو شب قدر قرار دیتے ہیں۔
ہم لوگ ان عظیم راتوں کی برکتوں سے غافل ہیں لہذایہ تین راتیں بھی پوری طرح عبادت میں بسر نہیں کرتے ہیں۔ اگر ہم ذرا یہ خیال کریں یہ راتیں ہماری مغفرت کا بہترین ذریعہ ہیں خاص کر امیر المومنین علیہ السّلام کی شہادت کا غم تو اور بھی خدا سے قربت کا سبب ہو جاتا ہے۔ ان راتوں کو زندگی میں غنیمت جانیں اورکوشش کریں آل محمد علیہم السّلام کے واسطہ سے خدا کی بارگاہ میں اس طرح حاضر ہوں کہ ان راتوں میں اپنی مغفرت اور جنت میں جانے کا پروانہ حاصِل کر لیں۔ ورنہ روایتوں میں ملتا ہے جو ماه مبارک رمضان میں نہ بخشا گیا وہ سال بھر نہیں بخشا جائے گا مگر یہ کہ اس کو حج کی سعادت نصیب ہو اور میدان عرفات میں مغفرت طلب کرے۔
ملائکہ کس پر نازل ہوتے ہیں؟ أمر الہی کون دریافت کرتا ہے؟
قرآنی آیتوں کی روشنی میں جب شب قدر میں ملائکہ اور روح نازل ہوتے ہیں اور سال بھر کے تمام امور طے کئے جاتے ہیں تو سوال یہ ہے یہ ملائکہ کس پر نازل ہوتے ہیں اور سال بھر کے یہ تمام امور دوسروں لفظوں میں انسانوں کے لئے خدا کی سالانه پلاننگ کس کے حوالے کی جاتی ہے؟ وہ کون ہے جو مرکز نزول ملائکہ اور مرکز در یافت امر خداوندی ہے؟
دنیا کے تمام عقالا کا یہ طریقہ ہے اور ہر جگہ طریقہ رائج ہے یہی عقل کا طریقہ ہے۔ پیغام ارسال کرنے سے پہلے پیغام دریافت کرنے والا معین ہونا چاہئے عقل سلیم اس کو قبول کرتی ہے۔ پیغام پر پیغام آرہے ہوں اور ان کو دریافت کرنے والا کوئی نہ ہو۔
پیغام لانے والا چوراہے پر کھڑا تلاش کر رہا ہو یہ پیغام کس کے حوالے کرے؟
خداوند عالم کی سنت کیا ہے؟ پیش خداوندی کیا ہے؟ کیا اس نے آسمان سے فرشته بغیر پتہ بتائے نازل کر دیئے اور فرشته زمین پر آنے کے بعد حیران و سرگرداں ہوں کس کے پاس جائیں؟ اور وہ بھی اس صورت میں جب شب قدر میں عظیم ترین فرشتہ روح نازل ہور ہا ہو۔ روایتوں کے مطابق جو عرش خداوندی سے سال میں صرف ایک مرتبہ نازل ہوتا ہے اور وه سال بھر کے تمام اہم امور لے کر؟
سنت خداوندی یہ ہے کہ اس نے جب بھی کسی فرشته کو وحی، پیغام، کتاب، صحیفہ… لے کر زمین پر بھیجا تو یہ بھی بتادیا کہ فرشته کس کی خدمت میں حاضر ہو اور کس کو یہ امانت خداوندی سپرد کرے چنانچه صحیفوں کے لئے جناب ابراہیم علیہ السّلام کو معین فرمایا توریت کے لئے جناب موسیٰ علیہ السّلام، انجیل کے لئے جناب عیسی علیہ السّلام قرآن کریم کے لئے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کو معین فرمایا۔ جناب جبرئیل اور دیگر تمام فرشتوں کو معلوم تھا وه کس کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل کررہے ہیں۔
عقل کا حتمی فیصلہ ہے جب شب قدر میں امر نازل ہورہے ہیں تو “صاحب امر” “ولی امر” کا وجود ضروری ہے۔ جو تمام امور خداوندی کو دریافت کر سکے. جب فرشتے اور روح کا نزول ہو رہا ہے تو ایک محبت خدا کا وجود ضروری ہے جس کی خدمت اقدس میں یہ لوگ حاضر ہوسکیں۔
حضرت امام حسین علیہ السّلام کی زیارت میں یہ جملے اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں:
اِرَادَۃُ الرَّبِّ فِیْ مَقَادِیْرِ اُمُوْرِہٖ تَہْبِطُ اِلَیْکُمْ وَ تَصْدُرُ مِنْ بُیُوْتِکُمْ
(مفاتیح الجنان، زیارات مطلقه امام حسین علیہ السّلام، زیارت اول)
امور کی تقدیر و تقسیم کے تعلق سے خداوند عالم کا ارادہ آپ علیہ السّلام کی خدمت میں نازل ہوتا ہے اور آپ علیہ السّلام کے بیت الشرف سے صادر ہوتا ہے۔
یعنی اہل بیت علیہم السّلام ہیں جن کی خدمت اقدس میں تمام امور خداوندی نازل ہوتے ہیں۔ شب قدر کا ہر سال آنا اور باقی رہنا اس بات کی مستحکم دلیل ہے کہ اس دنیا میں کوئی صاحب قدر ضرور ہے وہی حجت خدا اور وہی امر ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام نے فرمایا:
اے شیعوں تم سورة انا انزلنا کے ذریعه و دلیل قائم کرو۔ یقینا کامیاب ہو گے۔ خدا کی قسم یہ سورہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کے بعد لوگوں پر خدا کی حجت و دلیل ہے جو تمہارے دین کا سید و سردار ہے۔
اے گروہ شیعه تم لوگ سوره حم دغان سے استدلال کرو خدا فرماتا ہے:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
ہم نے قرآن بابرکت رات میں نازل کیا اور ہم ہی انجام کار سے باخبر کرنے والے ہیں اس بابرکت رات میں تمام امر حکیم معین کئے جاتے ہیں یہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کے بعد ان کے اولیاء سے مخصوص ہے۔
اے لوگو خداوندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (سورة قاطر ، آیت ۲۴)
کوئی ایسی اُمت نہیں جس میں اس نے کوئی نذیر نہ بھیجا۔ (نذیر یعنی حجت خدا)
لوگوں نے عرض کیا: اے فرزند رسول ! کیا رسول الله اس امت کے نذیر نہیں ہیں؟
فرمایا: درست کہا لیکن کیا وہ اس وقت موجود ہیں؟ عرض کیا: نہیں
امام علیہ السلام نے فرمایا: تو کیا حضرت رسول خدا کی طرح اس امت کے لئے کسی نذیر کی ضرورت نہیں ہے؟
عرض کیا: جی ہاں ضروری ہے۔
فرمایا: حضرت رسول خدا اس دنیا سے جانے سے پہلے اس امت کے لئے نذیر معیّن کر کے گئے تھے۔
عرض کیا: کیا اس سلسلے میں قرآن کریم کافی نہیں ہے؟
فرمایا: ہاں جب قرآن کا مسفر اور علم موجود ہو۔
عرض کیا: کیا حضرت رسول خدا نے پوری تفسیر بیان نہیں فرمائی؟
فرمایا : ضرور لیکن صرف ایک شخص سے اور امت سے اس شخص کا تعارف بھی کرایا اور وہ علی بن ابی طالب علیہ السّلام ہیں۔
عرض کیا: کیا یہ ایک خاص بات ہے جس کو عام لوگ دریافت نہیں کر سکتے۔
فرمایا: ہاں خداوند عالم نے یہ طے کیا ہے جب تک اس کے دین کے غلبہ اورعلنی اظہار کا وقت نہیں آتا اس وقت تک خاموشی سے اس کی عبادت کی جائے۔
جس طرح حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم اور جناب خدیجه سلام اللہ علیہا نے اس وقت تک بات ظاہر نہیں کی جب تک انہیں اظہار کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
عرض کیا : صاحب دین اور صاحب امر کے لئے ضروری ہے کہ وه پوشیدہ رکھے؟
فرمایا: حضرت علی بن ابی طالب علیہماالسلام نے حضرت رسول خدا کے ہمراہ اس وقت تک اعلان نہیں کیا جب تک خدا کا حکم نہیں ہوا۔
عرض کیا: جی ہاں ایسا تو ہے۔
فرمایا: ہماری بات بھی اسی طرح ہے۔
….حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ….(سورہ بقرہ، آیت ۲۳۵)
یہاں تک کہ کتاب اپنی معینہ مدت تک پہونچ جائے۔
(تاویل الايات، ج ۲، ص ۸۲۴-۸۲۵, نقل از کافی، ج ۱, ص ۲۳۹، ح ۶ ؛ بحار الانوار، ج ۲۵, ص ۸, ح ۶۸)
لہٰذا نزول امر کے لئے ولی امر کا وجود لازم و ضروری ہے۔ بس ان لوگوں کی شب قدر شب قدر ہے جو ولی امر حضرت حجت بن الحسن العسکری علیہِ السلام کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ ہر لمحہ ان کے ظہور پر نور کا انتظار کر رہے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر ان کے جلد از جلد ظہور کی دعائیں مانگ رہے ہیں خاص کر شب قدر میں یہ دعا ضرور مانگتے ہیں ایک شب ذرا امام کے ساتھ گزارنے کی سعادت نصیب ہو۔
شب قدر میں خداوند عالم جو امور معین فرمانے والا ہے ان امور میں اس سال سب سے پہلے ہمارے امام، ہمارے آقا، ہمارے سردار، ہمارے ولی نعمت۔ واسطه فیض خداوندی مرکز پرکار وجود سبب قیام زمین و آسمان، حضرت حجت ابنِ الحسن العسکری علیہ السّلام کا ظہور پر نور معین و مقدر فرمائے اور ہم سب کو ان کے
غلاموں و خدمت گذاروں میں شمار فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔