خامس آل عبا اور علامہ اقبال

عجیب ساده و رنگین ہیں واستان حرم
نہایت جس کی حسین ابتداء ہیں اسماعیل
عالیجناب حسن صدر ایک کتاب کے مصنف ہیں جس کا نام ہیں ”مرد لا متناہی” یہ کتاب حضرت علی علیہ السلام کی سیرت پر لکھی گئی ہے جو آپ کے حیات طیبہ کے ان کارناموں پر روشنی ڈالتی ہے جو اسلام کے تہذیبی، ثقافتی، سماجی، معاشرتی، تربیتی، علمی میدان عمل میں ایسے کارنامے ہیں جو چودہ سو برس گذر جانے کے بعد بھی تیسری دنیا کے پسے ہوئے افراد کے لئے امید کی وہ شمع فروزان ہے جسکی روشنی میں اول الذکر افراد اپنی زندگی بھی لیتے ہیں اور انہیں میں سے افراد با سواد ابھر کر سامنے آتے ہیں اور اپنے پس ماندہ بھائیوں کے لئے مثالی کردار بن جاتے ہیں۔
دنیاکی طاقتور اقوام کے منکرین علم کو سیاست گری کا ایک قوی حربہ بنا کر سارے عالم میں بے شمار مشکلات کو ایجاد کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں اور نت نئے فتنے لمحہ بہ لمحہ جگارہے ہیں۔ ہر اصلاح کے بطن سے فساد اور خون آشام منصوبوں کی سانسیں باہر آرہی ہے۔ اسی صورت حال میں على علیہ السلام کی سیرت اور کردار پر عمل کرنے سے صیہونی طاقتوں کی بمباری سے معصوم اور بے گناہوں کی عمارتوں کو تباہی اور بربادی سے بچایا جاسکتا ہے۔ شاید اسی نظریہ کو مد نظر رکھتے ہوئے حسن صدر مصنف کتاب هازا اس سوال کا‘ ذات لامتناہی تو صرف خدا کی ذات ہے آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اس صفت سے کیوں متصف کیا؟” جواب دیتے ہوئے لکھے ہیں‘ عقول انسانی کی انتہا سے کہیں اور مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں اس کے ثبوت میں آپ کا یہ ہلکا سا اشارہ کافی ہے میں زمین کے راستوں سے زیادہ آسمان کے راستوں سے واقف ہوں۔ یہی مرد لا موتناہی کے فرزند حسین علیہ السلام ہیں جن کے لئے دشمنوں نے کہا تھا یہ حسین ہیں ان کے سینے میں علی کا دل دھڑک رہا ہے اور جس کے لئے رسول اکرم نے فرمایا تھا میں حسین سے ہوں۔
امام حسین علیہ السلام خامس آل عبا ہیں۔ آپ حدیث کساپر صداقت کی وہ آخری مہر ہیں جسکی دمکتی ہوئی تحریریں اسلام کو سیاست گروں کی نخچری سے حفاظت کیلئے قربانی کی ایک داستان بیان کر رہی ہیں جسکے متعلق علامہ اقبال نے یہ شعر کہا :
عجیب ساده و رنگین ہیں واستان حرم
نہایت جس کی حسین ابتداء ہیں اسماعیل
محو حیرت ہونے کی بات ہے وہ بالغ نظر فلسفی، شاعر ، نابغہ تاریخ و سیر سے واقف جسکی شہرت ایران کے نگارستان تک ہے اس نے حرم اور داستان حرم کا ساز تو چھیڑا لیکن اس کی نغمگی کو صرف اپنے اشعار کی جنبش تار تک باقی رکھا جبکہ ذات حسین کی آفاقیت پر آپ کا گہرا یقین تھا۔ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام پر ذبح عظیم کی فضیلتوں کا یہ ایک دستاویزی شعر کہا ہے۔
عجیب ساده و رنگین ہیں واستان حرم
نہایت جس کی حسین ابتداء ہیں اسماعیل
اور جس کی شرح و بسط میں آپ فرماتے ہیں۔
رمز قرآن از حسین آموختیم
زاتش او شعلہ ہا اندوختیم
اے صبا اے پیک دور افتادگاں
اشک ما بر خاک پاک اوفشاں
اس شاعر نے امام حسین علیہ السلام کے اسوہ حیات پر ایسی کوئی کتاب کیوں نہیں لکھی جو حسن صدر کی کتاب ”مردے لاموتناہی“ کے برابر رکھ کر دوسرے قلم کاروں کے سامنے یہ کہہ سکتے یہ اقبال ہندی ہیں جنہوں نے رمز قرآن کے رطب ویا پس کا طائر لا ہوتی کی طرح مشاہدہ کیا ہے۔ اور آپ نے جس داستان حرم سے اپنی شاعری کے لئے اسلامی فلسفہ کی بنیاد قائم کی جس کی ابتدا حضرت اسماعیل سے ہوئی اس حرم کا سفر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کیسے شروع ہوا؟ کہاں اس کا منتہی تھا؟ اور وہ کر بلا جو آج بھی پیاسی ہے اسکی کیفیات کو کیوں نہیں قلمبند کیا؟ موانع بر طرف انصاف فکر و شعور، صداقت و لتافت کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں علامہ اقبال کے اشعار کے آئینے میں آپ کیا علمی صلاحیت۔ آپ کا مطالعہ، آپ کی توحید پرستی، آپ کا زور قلم بے شک اسلایک کلچر میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہند اور بیرون ہند میں دانشگاہوں اور دانش جو بیان اور دانشوروں میں آپ کی فکر کے چرچے آپ کی شاعری میں اسلامی تہذیب، ثقافت اور معاشرتی شعبوں میں اختلافات سے در گذر ان چراغوں کی طرح ہیں جو آپ کی تحریر کے معنی اور مطالب کو روشنی دیتے ہیں اور واضح کرتے ہیں۔ آپ نے جمہور اسلام میں اسلامی اصطلاحات جیسے فلسفہ خودی، عقل اور عشق، مقاسیہ ، ہے تیغ ہے لڑتا ہے، سپاہی مومن کا غیروں میں آہنی کردار اور دوستوں میں مشل ریشم نرم، رشتہ و پیوند مثل تبان وہم و گمان ، اور من جملہ تمام اصطلات کے ایک عنوان فقر کا اٹھایا۔ اور اشرف مخلوقات کے لئے اس فقر سے بادی دنیا میں ننچیریت کی پستی اور روحانی دنیا میں اسکی عظمت، اسکی شان، اس کی بلندی کی نشاندہی کی ہے۔ اور یہاں تک کہا ہے کہ میں روح ہدایت ہے اور آگے بڑھ کر کہتے ہیں وہی اس ملت کا رہبر سکتا ہے جسکی ارفع و اعلى منزل فقر ہو۔ چنانچہ کہتے ہیں اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری اور اِسی میری و سرداری کو ملت اسلامیہ کی وراثت انبیاء اور ائمہ قرار دیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں مادی فقر کو صیاد کی ننچیری اور انسان کی مسکینی و دلگیری کے اسباب سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور جب یہ فقرہ اسلامی نظریے کے تحت سمجھاجائے تو مولائے کائنات کا قول سامنے آتا ہے جہاں آپ فرماتے ہیں ”الفقر فخری“ یہ میر افقر ہے جس پر میں فخر کرتا ہوں۔ علامہ موصوف کے ان تمام نظریات و افکار جو آپ کے اشعار کے سانچے میں ڈھلے اسکو نشر کی دستاویزوں میں بند کی طرح رکھا گیا اور آپ اہل بیت کی ولایت سے کسب ضیا کرتے ہیں اور اس کا اظہار آپ نے اس وقت کیا جب اپنے ایک سید شیعہ دوست جو فلسفہ پر ریسرچ کر رہے تھے کو خط میں لکھتے ہیں کہ تم کہاں یونانی فلسفہ کے اس جال میں چنے ہو جو خیالی ہے تم سیّد ہاشم کی اولاد ہو۔ مجھے دیکھو میرے اب و جد لاتی و مناتی تھے تاہم میں نے تمہارے جد کے علی ضیا پاشی سے استفادہ کیا جس میں راز ہائے خلقت عام ہے۔ اس طرح وہ ظلمت کی آہنی چادروں کو توڑ کر رموز الہی سے واقف ہوئے اور اہل بیت علیہم السلام کی معرفت کے لئے آپ پر ذہن و شعور کے دریچہ وا ہوئے۔ علامہ موصوف کے سامنے اہل بیت علیہم السلام کی سیرت طیبہ تھی اور اذہان و افکار میں وہ روشن گوشے بھی تھے جن سے ذوات اہل بیت علیہم السلام کے ازلی اور نورانی خلقت ہونے کا مستحکم عقیدہ بھی موجود تھا یہی نہیں بلکہ مرکز حدیث کساء جناب زہرا جس بی بی کے لئے تمام جمہور اسلام نے متفقہ طور پر شہادت دی ہے کہ بہ لحافظ فرمان رسول اکرم آپ اور صرف آپ خاتون جنت ہیں اور آپ کے علاوہ کوئی اور اس لقب کا مستحق نہیں ہے علامہ اقبال نے آپ کی اس شان و عظمت و بزرگیکے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے چنانچہ آپ معصومہ کونین کے لئے فرماتے ہیں وہ فاطمہ علیھا السلام جس کے پدر بزرگوار خیر البشر تھے، جن کا شوہر نامدار تاجدار بل اتی تھی۔ جن کا ایک پسر سالار کاروان عشق تھا اور دوسرا پر نقطه مرکز پر کار عشق تھا۔ جہاں آپ نے امام حسین علیہ السلام کی مدح اور معرفت پر قلم اٹھایا ہے وہیں آپ کو عشق کے دائرے کا مرکزی نقطه قرار دیا ہے۔ راقم الحروف کی نظر سے تو نہیں گذرا کہ علامہ اقبال کے فلسفہ پر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں کسیے آپ کے فلسفه عشق پر توکئی اشعار نقل کئے یہاں تک کہ عشق کو دل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آپ نے فرمایا ہے اور اسے بھی نقل کیا گیا؟ لیکن خارج از دائره عشق کے ان سیاستگر ان کی طرف قارئین کو بلکل متوجه کیا جو اسلام کی غارتگری پر آمادہ تھے اور جن کے زر خرید مفتیوں نے حکومت کے سر براہان کے ہر ظلم ناروا کو جائز قرار دینے میں جسارت سے کام لینے میں کوئی کمی نہیں اٹھارکھی اس کی وجہ صاف ہے۔ حدیث کساء جو جس پیرائے میں بیان ہوئی ہو حقیقت کے ایسے انمٹ نشان چھوڑے ہیں جو ظاہر کر دیتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام اس بزم مصطفوی میں داخل ہونے والے وہ آخری فرد تھے جس کے بعد ہر کس و ناکس کے لئے دروازہ بند ہو گیا تھا اور اہل بیت علیہم السلام کی شناخت کے لئے ان پانچ ذوات مقدسہ کے علاوہ اب کوئی مجاز نہ تھاجو دائرے اہل بیت علیہم السلام میں داخل ہو سکتا۔ اب یہ نا انصافی نہیں تو اور کیا ہے جو کہتے ہیں اہل بیت علیہم السلام میں غیر از پنجتن کو بھی شمار کر لیا جائے۔ ایک حدیث پر علامہ اقبال کی گہری نظر تھی اور آیہ اناما کی یہی تفسیر آپ کے پیش نظر تھی ورنہ آپ عشق دل مصطفیٰ کے بعد یہ نہ کہتے اس عشق کا مرکزی نکتہ حسین علیہ السلام ہیں اور یہ نہ کہتے ’’ان پسر یک نقطہ پر کار عشق “.
علامہ اقبال نے امام حسین علیہ السلام کو میراث دین حنیف کا وارث قرار دے کر میری اور سرداری اور ہادی برحمت کی حیثیت سے اس لئے تسلیم کیا کہ فقر شبیری کی قدریں آفاق میں سے کہیں زیادہ وسیع تر ہیں اور اس فقر کی روح آپ کا مصیبتوں پر صبر ہے اور ظلم و جور و بیداد گری و درندگی و حیوانیت اور صیہونیت کے پر شور سمندر کی موجوں کا دم توڑ دینے کی طاقت اور قوت امام حسین علیہ السلام کے اسی صبر میں ہے جس نے ڈٹ کر باطل کے خلاف قدم اٹھایا اور اس کے بد نما چہرے کو بے نقاب کر دیا۔ سخن گستری صحیح لیکن بن کہے بھی بات نہیں بھی اس لئے کہ شکوہ کا چھہ سلیقہ ہم نے انہیں سے سیکھا ہے اور وہ یہ کہ علامہ اقبال نے اپنے آنسوؤں کے دو گرانبہا تحفے جو باد صبا یعنی پیک دور افتادگاں کے ہاتھوں خاک پاک حسین علیہ السلام پر افشانی کے لئے جیتے تھے اس میں سے کچھ قطرات کو روشنائی بنا کر اپنی تحریر کے ذرایہ ان دہشت گروں کو جو اسلام کے نام پر ایک کلنک ہیں۔ اسلام کے نام پر انہیں اسلام کے دامن پر بد نما داغ ہیں جو یتیم اور بیواؤں کے سر سے ان کے سرپرستوں کا سایہ چھین لیتے ہیں اور انہیں بے رحمی سے قتل کر دیے ہیں اور ساری دنیا میں ان کی ستمگری سے فریاد بلند ہو رہی ہے جو بے گناہ انسانوں کے خون سے اس عہد کے اسلام کی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں (علامہ موصوف( متنبہ کر دیئے ہے کہ ابھی خداوند متعال نے وارث حسین کو اس لئے زندہ رکھا ہے وہ ان خون آشام درندوں کو نیست و نابود کر کے ربیع الانام اپنی جان بہار بن کر اسلام کی وہ قدریں جو سلامتی، آشتی، خدا پرستی، اطمینان سکون اور چین کے وہ تمام اسباب لے کر پردہ غیب سے ظاہر ہو گا۔ علامہ اقبال نے بالکل سچ فرمایا ہے۔
رمز قرآن از حسین آموختیم
اور اسی کے تحت آپ بقية الله خیر لکم ان کنتم مومنین کے معانی و مطالب سے ضرور آشنّا رہے ہوں گے لہٰذا میر تقاضہ بے معنی نہیں ہے۔ اور ہم اس امید میں نہیں کہ شاید آجائے کوئی آبلہ پا آپ کے بعد اور کہے لے تیرے خط کا جواب آیا۔ شاید کوئی اور آجائے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے امام حسین عالی کے تاریخی سفر کو لے کر تاہواخامس آل عبا کے اس مشن کی جسے کربلا کہتے ہیں مشرق سے مغرب تک اس کی دلنشین آواز پہونچادے جس میں بلکتے اور سسکتے انسان سکون کی چند سانسیں لے سکیں۔
حسین ازم ( (Husainism
حسینیت درد دل کا علاج ہے۔ حسنیت ہمت و حوصلہ ہے ان افراد کے لئے جن سے ان کے حقوق چھین لئے گئے ہیں۔ حسینیت جرآت و شجاعت ہے ان لوگوں سے مقابلہ کیلئے جو مال و زر اور ظلم و جور کے ذرا یہ کمزور اور ضعیف کو پسپائی کی طرف ڈھکیل رہے ہیں۔ حسینیت ایک مشن ہے جو عالم میں پھیلی ہوئی بے شمار ذہنی فکری، شعوری اقتصادی اور معاشرتی بے شمار بھیالجھی ہوئی بیماریوں کے لئے حفاظت اور مصونیت کی دیوار ہے جسے کوئی توڑ نہیں سکتا۔ غرض کہ اسلام کی ۲۳ سالہ رسالت کا خلاصہ کتاب کربلا ہے۔ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ، نجف اشرف، کربلائے معلی ، مشہد مقدس، کاظمین شریف، سامرہ یہ وہ منزلیں ہیں جہاں تبلیغ رسالت کے تاریخی قافلے نے ٹہرکر اپنے سفر کے سنگ میل قائم کئے اور کہیں سے ایک منارہ نور ہدایت کا تعمیر کرکے ساری دنیا کو صلح و آشتی کا پیغام دیا۔ ان مقامات میں کربلا ایک ایسا مرکز قرار پایا جہاں سے پتا چلتا ہے کہ سید احمد مرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ہے جو بارگاہ خداوندی میں ہمیشہ کی طرح لبیک سے نوازی گئی۔ یہ وہ سر زمین ہے جہاں تسلیم و رضا کی وہ کتاب لکھی گئی جو رمز قرآنی کا درس دے رہی ہے جس کے لئے اقبال نے کہا تھا۔
رمز قرآن از حسین آموختیم
جس اسلام نے رسالت مآب محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعلیم کی بعثت پر روز اول پہلا کام فلاح کی بنیاد پر رکھ کر دنیا بھر کے لوگوں کو سلامتی کا پیغام دیا تھا اور جب کربلا میں وہ حسین علیہ السلام جس کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا یہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اور آپ نے یہ کچھ کر دکھایا تھا جسے شاعر نے بڑے اچھے انداز میں کہا ہے۔
ڈوب کر پار ہو گیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے
تو اسی اسلام کو نام نہاد اسلام کے نام پر حکومت کرنے والوں نے اپنی اس طاقت پر جس کے ذریعه وہ حکومت کرتے تھے ایک کاری ضرب جان کر حسینیت پر پردہ ڈالنے کے لئے سیاست گری، باطل تبلیغات، زر خرید علماء، بڑے بڑے فتنہ پرور اور دنیا پرست دماغوں میں جادو و مال کا حرص پیدا کر کے تمام کوششیں جتنی ممکن ہو سکتی تھیں کر ڈالیں جس کے نتیجے میں اسلام میں معلوم نہیں کتنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں تیار ہو گئیں اور اس طرح اسلام فرقوں میں بٹ گیا۔
ملل عالم کو امن کا پیغام، صلح و آشتی کی زندگی بسر کرنے کا سبق، سر اٹھا کر اور قدم جما کر جینے کا سلیقہ دینے والے وارث انبیاء و مرسلین حسین تھے۔ آپ کو ماں نے چکی پیس کر پالا اور مصائب جو دن کی روشنی کو سیاہ رات میں بدل دینے والے تھے سب کو صبر اور شکر الٰہی کے ساتھ اٹھا لیے لیکن بابا کی وصیت کے مطابق اور اپنے نوارانی کردار اور معصوم سیرت کے تقاضے کی بناء پر امت مسلمہ اور دین حنیف کے نام لینے والوں کو بد دعا نہ دے کر کفران نعمت کرنے والوںکو عذاب شد بد سے بچالیا۔
جب معاویہ کا عہد گزر گیا تھا اور یزید تخت حکومت پر بیٹھا تو اس وقت سر براہان حکومت اور مشیر کاران یزید کے سامنے بڑے پیچیده اور گہری تشویش کے مسائل سامنے تھے۔ ان مسائل سے دوچار افراد کے ذہن میں لشکر کشی یعنی فوجی طاقت کا استعمال بے گناہ بستیوں پر جارحانہ حملے۔ حق گویوں کی زبان بندی حکومت کے نظام میں دین کا استحصال اور تلوار کی دھار پر ایمان و صداقت اور تبلیغات رسالت باب کی بات کرنے والوں کی خونریزی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔
وه مسائل کیا تھے ان چند کا ذکر کر کے آگے بڑھیں گے۔ اول تو یہ عہد یزیدی ۶۰ ھ کے اواخر سے شروع ہو اپنی رسالت ماب صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے ابھی صرف پچاس سال گذرنے تھے۔ ابھی شہر مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں حبیب خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ جسے ہم سیرت نبوی کہتے ہیں اور آپ کے احکام اہل بیت علیہم السلام سے متعلق اور آپ کی احادیث اپنے وصی و جانشین علی علیہ السلام سے وابستہ آپ کے پر معنی اور پر مغز اقوال امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی معرفت سے تعلق رکھنے والے جو زبان وحی سے ادا ہوئے تھے۔ کے چرچے عام تھے۔ ان میں ابھی تاویلات اور مطالب و معانی میں تغیرات کی جد و جہد شروع نہیں ہوئی تھی۔ مثال کے طور پر غدیر خم کا وہ زبردست تاریخ کا موڑ جس میں اعلان تاجپوشی ولایت و خلافت کی وہ آواز بلند ہوئی تھی جو لاکھ دبانے پر بھی دبی نہیں تھی اور جسکی احیا میدان رہنا میں علی علیہ السلام نے کر دی تھی۔ حسین سردار جوانان جنت ہیں۔ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین علیہ سے ہوں۔ میری بیٹی فاطمہ الزہر علیھا السلام خاتون جنت ہے۔ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت پہونچائی اس نے مجھے اذیت پہونچائی اور پھر بعد وفات نبی آخر الزماں مین تحریک خلافت میں اسی قول کے سامنے معصومہ کونیں علیھا السلام کے دروازہ سے آگ کے شعلے بھی بھڑکتے دیکھے تھے عقل و فکر و شعور رکھنے والے اہالیان مدینہ اور جہاں جہاں اسلام پہونچ چکا تھا وہاں کے مسلمانوں میں ابھی بھی انصاف کرنے کی استعداد اور ختم نہیں ہوئی ابھی فرزندان اسلام کثرت سے تھے جو حق اور باطل میں تمیز کرتے تھے اور حق گوئی میں جرات مندی سے کام لیتے تھے مدپینہ تاراج نہیں ہوا تھا۔ ابھی غلاف کعبہ نذر آتش نہیں ہوا تھا۔
صلح حسن کی یہ شرط بھی اپنی قدر کو زندہ رکھے ہوئے تھی کہ معاویہ کے بعد صرف بنی ہاشم ہی کی اولاد سربراہی کریں گی۔ اور مرگ معاویہ کے بعد کوفے اور بصرہ میں اور مدینہ اور اطراف میں اطمینان کی سانس لی جارہی تھی کہ شاید جارحانہ حکومت کا دور ختم ہو گا اور ہمیں نور چشم رسول الثقلین امام حسین علیہ السلام کی قیادت نصیب ہوگی۔ رسم بیت ابھی تک زندہ اور تابندہ تھی لہذا اسی نظریہ کے تحت بے شمار خطوط امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے کہ آپ تشریف لائیں اور ہم آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ایسے اور بھی مسائل تھے جو یزید کی حکومت کیلئے بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہے تھے وہ خطرات جو حکومت کے سامنے تھے جن کا اجمالی ذکر اوپر کیا گیا ہے اسکی نوعیت یہ تھی کہ ایک طرف شام کی حکومت تھی جس کے سر برا و مشیر کار اور اسلام میں حکومتی نظام کے قیام کے لئے علمائے زر خرید تھے۔ حکومت کے لئے منصوبہ بندی کی وہ بنیاد ڈال رہے تھے جو ان کے بتائے قانون اور شریعت اسلامی کے امتزاج کے مسالے سے تیار ہورہی تھی تو دوسری طرف کونے سے مدینہ کی طرف آوازیں آرہی تھیں جو امام حسین مولانا کو پکار رہی تھیں جو وارث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور روح تبلیغات رسالت تھے اور جو مقصد اسلام کے محافظ تھے۔ آپ کی وہ ذات تھی جو اپنے خود کے رمز و رموز تبلیغات شریعت اسلامی پر سیاست کی گرد نہیں بیٹھنے دے رہے تھے۔ یہی وجہ تھی یزید نے تحت حکومت پر بیٹھتے ہی حسین علیہ السلام سے بات کا مطالبہ کیا اور اپنی طاقت و حکومت کی بنا پر اس زعم ناقص کے ساتھ کے اگر حسین علیہ السلام بیت سے انکار کریں تو ان کا سر قلم کر دو۔ لیکن ایک طرف تلوار گردن زدنی قتل و غارت کی دھمکیاں تھیں تو دوسری طرف صبر، حمل، صلح و آشتی اور اسلام میں خونریزی سے پر ہیز کرنے والے نقیب امام حسین علیہ السلام تھے۔ ایک طرف فلسفه اسلامی تھا جو کہہ رہا تھا بے گناہ کو قتل کرنا تو در کنار پریشان بھی مت کرو۔ دوسری طرف خونریزی ہی سے اسلامی حکومت چل سکتی ہے کا سیاسی حربہ اپنے اصول کی تدوین کر رہا تھا۔
اے میرے، ہمارے ہم سب کے حسین اہنسا کے بادشاہ حسین انسانیت کے تاجدار حسین پیاسے حسین صابر حسین، خاتون جنت کے دل کا چین حسین، نانا رسول زمن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کے نور حسین، شیعیان علی کی کشتی بھنور میں ہے۔ آپ کو بازوئے عباس کا واسطہ اس کشتی کو طوفان سے نکال کر اس کو چین اور راحت کے ساحل پر لے آئے۔ یہ طوفان سکون پذیر ہو گا جب لوگ حسینیت اور آپ کے مشن کو سمجھیں گے اس پر عمل کریں گے۔ علامہ اقبال مفکر مشرق نے پیغام عشق کا نیا اسلوب اور نیا انداز دنیائے اسلام کو دیا ہے۔ آپ نے عشق میں ڈوب کر یہ کہا تھا مسلمانوں ! عشق کے زور سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے اور یہ رسالتماب اپنی زبان وحی سے فرماتے ہیں حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اور شاید علامہ موصوف رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس جملہ کی اول بھی محمد اوسط کبھی محمد اور آخر بھی محمد کی شرح لکھنا چاہتے ہیں۔
بارگاہ خداوندی میں اب صرف ایک دعا ہے وہ آخری محمد حجت ابن الحسن علیہ السلام جس کے انتظار میں ساری دنیا ہے۔ اس کے ظہور میں تعجیل فرما، آمین۔