رخسارِ پنہاں سے پردہ کا اٹھنا

كَشْفُ الْاَسْتَارِ عَنْ وَجْهِ الْغَاءِبِ عَنْ الْاَبْصَارِ

سامرا، بخوشگوار آب و ہوا کا ایک شہر عراق کے جنوب میں دجلہ کے کنارے تیسری صدی ہجری میں بسایا گیا۔ اور دجلہ کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے بعض عباسی خلفاء کی حکومت کی راجدھان رہا ہے۔ اور اس زمانے میں امام ہادی اور امام حسن عسکری علیہم السّلام کے اجبار اس شہر میں سکونت اختیار کرنے کی وجہ سے اہل ایمان کے لئے اس مقدس قرار پایا۔ اسی سرزمین پر امام حسن عسکری علیہ السّلام کا بیت الشرف تھا جہاں امام ولی العصر علیہِ السلام کی ولادت واقع ہوئی جس گھر میں بوقت ولادت آسمان سے حوریں فرش پر اتر کر آئیں۔ صبح کا ذب صبح صادق کی کرنوں کے انتظار میں تھی۔ عرش کے منازل کی جلوہ گری کی شاہد جناب حکیمہ خاتون تھیں۔ نہ اس صبح کی جو و صبح ولادت امام زمانہ علیہ السّلام ہے، نہ اس بیت کی جو جائے ولادت امام عصر علیہ السّلام ہے، نہ اس شہر کی جس میں یہ رشک فردوس جو خانه عسکری تھا، کسی زبان میں اتنی سکت نہیں ہے کہ جو اس کی فضیلتوں کو بیان کر سکے یا اسے سپرد قلم و قرطاس کر سکے۔ اسی لئے وہ جگہ آج ہزاروں مومنوں کے لئے زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔
اس طرح، تیسری صدی ہجری سے، ہمیشہ اس شہر کو دو زاویہ سے دیکھا گیا : ایک تو اس کا قدرتی بساؤ اور حاکموں کی عیش بھری
زندگی اور مادی لذتوں کے ساتھ دجلہ کے آب باری سے لطف اندوز ہونا اور دوسری طرف اہل ایمان کی توجہ خاندان نور یعنی شاخ پر بار شجرہے طیّبہ نبوت و امامت کی طرف، اس شہر کی رونقوں میں اضافہ کرتا ہے۔ اہل ایمان میں ولایت و انتظار موعود کے آب جاری کو سامرا میں دیکھا اور پھر ان کے انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف ظلمت پرست ایک تابناک مرکز نور کو اپنی پھونکوں سے خاموش کرنے کا اراد کے بیٹھے ہیں۔ لیکن خدا نے اس کے دوام کا وعدہ کیا ہے اور اسے پورا کرے گا، اگرچہ مُلک تاریک کے شیدائیوں کو ناگوار ہی کیوں نہ لگے۔
شهر سامرا زمانے کے گذرنے کے ساتھ تیرہویں صدی ہجری تک آپہونچا۔ تقریبا ۱۲۹۰ ھ میں ایک روشن بین و دانا ہوشیارو جامع شناس عالم، مرحوم آیت الله میرزا حسن شیرازی نجف سے سامرا تشریف لائے اور اس شہر کے معنوی چہرے کو زندہ کر دیا اور دوباره اس سرزمین کو دیار امامت و انتظار کا مرکز بنادیا۔ اس تاریخی ہجرت کی برکت سے، درس علوم دینی کے جلسات، شہری ترقی اور شہری خدمات، سفر زیارتی و غیرہ سامرا میں بڑھ گئے یہاں تک کہ کئی دہائیوں تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اس مقدس ہجرت کے آثار اب تک اس شہر میں نمایاں ہیں۔
نامور محدث مرحوم میرزا حسین نوری طبرسی ایک ایسے عالم تھے جو میرزای بزرگ شیرازی کے چہیتے اور مورد اعتماد تھے اور اس تاریخی ہجرت میں ان کے ہمراہ تھے اور میرزای شیرازی کی رحلت (۱۳۱۲ ھ ) تک سامرا میں ان کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد ۱۳۱۴ ھ میں وہ نجف لوٹے۔ مرحوم محدث نوری قدس سرہ کی چند کتابیں اور خاص طور سے “مستدرک الوسائل” سامرا میں قیام کے دوران لکھی گئی۔ مستدرک کی تین جلدیں ۱۳۰۵ ھ، ۱۳۱۰ ھ ۱۳۱۳ ھ میں سامرا میں تکمیل کو پہونچیں اور اُسکے فوراً بعد “خاتمتہ مستدرک الوسائل” لکھنا شروع کیا اور ۱۳۱۸ ھ میں نجف میں مکمل کیا۔
(رجوع کرو: سالماشمار زندگی مرحوم نوری در : علامہ محدث نوری : عبد الحسین طالعی و محمّد حسین صفا خواہ ص ۴۸-۵۴)
مستدرک، خاتمہ کے ساتھ نئی اشاعت میں دس جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔
آیت الله میرزاومحمد شیرازی ، نمایاں خصوصیات کے حامل تھے اور عمل کی خصوصیات ان کے شاگردوں میں منتقل ہوئی۔ اسی وجہ سے دو خصوصیات مکتب سامرا“ کے عنوان سے یاد کی جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض خصوصیات “استاد فقید سید صلاح الدین مھدوی” کے نقل کے مطابق، اس طرح ہیں:
* تهذیب نفس اور خودسازی پر توجہ اور اخلاق و سلوک کا محور مبنی برشرع
* دین کے عملی پہلو پر توجہ اور اجتماعی و فرهنگی وسماجی جگہوں پر انہماک کے ساتھ حاضری
* زمانہ شناسی اور وظیفہ شناسی
* مخصوص توجہ مقام ولایت اہل بیت علیہم السّلام پر
* مخصوص توجه امام عصر عجل الله تعالی فرجه الشریف کی امامت کے دفاع پر
* بیگانوں کے نفوذ کی مخالفت
* مظلومین کے حقوق کا دفاع
ایک خصوصیت، زیادہ سے زیادہ توجه حضرت امام مہدی علیہِ السلام سے علاقہ و محبت ہے اور یہ توجہ اور خصوصیت مکتب سامرا کے تربیت یافتہ لوگوں کی اکثریت میں پائی جاتی ہے۔
البتہ بعض صاحبان نظر، اس طرز عمل کے اصلی عامل کو فرقہ بابیت کے ظہور میں آنے اور ان (بابیوں) کی نصوص مہدوی کی ناروا اور غلط توجیہات کو جانتے ہیں اور ان کے مطابق مکتب سامره نے اس وقت کے علما کا نصوص مہدوی کے دفاع اور ان کے صحیح بیان کرنے پر آمادہ کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس عامل کو خارجی سبب و علت قرار دینا چاہیے داخلی عوامل پر، اس معنی میں حتی کہ اگر عامل خارجی منفی اس زمانے میں واقع نہیں ہوئے تھے، داخلی عوامل؛ اس حد تک قوت پیدا کر چکے تھے کہ اس مکتب کے تربیت یافتگان کو مہدویت کے دفاع جانانہ کے لیے دینی تربیت کے محوری عنصر کے عنوان سے آمادہ کیا۔ یہ اجمالی جائزہ ہے اس کی تفصیل کسی اور موقعہ پر انشاء اللہ۔
محدث محقق، عقیدوں کی حدوں کی حفاظت کرنے والے، داخلی اور خارجی کی بدعتوں کو اجاگر کرنے والے، میرزا حسین نوری ۱۸ شوال ۱۲۵۴ ھ میں شہر نورمازندران کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات “یالو” میں پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں آپ کے والد میرزا محمد تقی نوری کا انتقال ہوگیا۔ بالغ ہونے کے بعد مولی محمد علی محلاتی کے زیر نگرانی آئی اور انہوں نے محدث نوری کو عالم میں فقیہ زاہد ورع نبیل بنایا۔ اس کے بعد بارہا عراق گئے اور آئے، منجملہ ۱۲۷۳ ھ میں شیخ عبد الرحیم بروجردی کے ساتھ چار سال نجف میں رہے، پھر ۱۲۷۸ ھ میں سفر کیا تو عالم نحیر، فقیہ جامع شیخ عبد الحسین تہرانی کے پاس پہونچے اور ان کے ہمراہ کربلا چلے گئے اور دو سال کاظمین میں تھے۔ ۱۲۸۰ھ میں شیخ مرتضیٰ انصاری کی زندگی کے آخری چھ مہینوں میں ان سے استفادہ کیا۔ پھر ۱۲۸۶ھ میں نجف لوٹ آئے اور اس مرتبہ آپ میرزا محمد حسن شیرازی کے محضر میں پہونچے یہاں تک کہ ۱۳۱۲ھ یعنی میرزای شیرازی کی وفات تک نجف و سامرا میں ان کے ساتھ رہے اور آپ کا شمار معتمدین خاص میں ہوتا تھا۔ ۱۳۱۴ھ میں سامرا سے نجف لوٹے اور ۱۳۲۰ھ میں ۶۶ سال کی عمر میں وفات پائی۔
اس مضمون میں ہمارا موضوع آپ کی کتاب کشف الاستار کا تعارف ہے۔ اس لیے یہیں بات کو روکتے ہوئے اصل موضوع پر آتے ہیں۔ آپ کی جد و جہد اور آثار کے لیے رجوع کروالمنتظر، خصوصی شمارہ شعبان المعظم ۱۴۱۶ھ، صفحہ ۲۲، ۲۳,۲۴ اور ۲۱
ربیع الثانی ۱۳۱۷ھ اس میں محمود شکری آلوسی کالکھا ہوا ایک قصیده نجف اشرف میں پہونچا جو قصيدة بغدادیہ کے نام سے مشہور ہوا۔
قصیدہ کا مطلع اس طرح تھا:
اَیَا عُلَمَاءُ الْعَصْرِ یضا مَنْ لَہُمْ خَیْرٌ بكل دقيق حار في مثله الفكر
اے علما عصر جن کے بارے میں یہ خبر ہے کہ ان کی فکر دقیق سائل میں ہمیشہ حیران و پریشان ہے۔
آلوسی نے اس قصیدہ میں ۲۵ اشعار میں امام عصر علیہِ السلام کے وجود، طول عمر، غیبت اور آپ کی بعض خصوصیات پر شبہ پیدا کیا ہے۔ جب یہ قصیدہ نجف پہونچا اس وقت محدث نوری قدس سرہ شدت کے ساتھ خاتمتہ المستدرک لکھنے میں مشغول تھے۔ آپ نے اس دور میں دوسری بہت سی تالیفات کی درخواست کو خاتمه مستدرک پر موکول کر رکھا تھا جیسا کہ “لولو و مرجان” کے مقدمہ میں اشارہ کیا ہے کہ سید مرتضیٰ جونپوری نے ہندوستان سے مجھے بارہا لکھا کہ اہل منبر اور ان کی آسانیوں کے لیے احادیث اور مقتل لکھوں، لیکن “مستدرک” میں مشغول ہونے کی وجہ سے انہیں جواب دینے میں تاخیر کی۔ خلاصۃ یہ کہ ۱۳۱۸ھ میں خاتمہ مستدرک کی تکمیل کے بعد ۱۳۱۹ ھ میں “لولو و مرجان” مکمل ہوئی۔
آپ کی مصروفیت کے اس دور میں آلوسی کا قصیدہ درمیان میں آگیا جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خاتمہ مستدرک کے لیے آپ تمام کاموں کو موخر کرتے رہے لیکن یہاں قصہ کچھ اور ہی تھا: بات تھی دین کے رکن رکین عقیدہ کی، اور وہ بھی اشعار کی شکل میں اور مخصوصاً عربوں کے درمیان اثر کرنے والے کلام کی۔ اسی وجہ سے محدث نوری نے کمر ہمت کسی اور بہت ہی مختصر مدت یعنی دو مہینہ میں آلوسی کے ناروا اشکال و شبہات کا جواب لکھ ڈالا۔ اس کتاب “کشف الاستار عن وجه الغائب عن الابصار” کو ۹/ جمادی الثانی ۱۳۱۷ھ کو مکمل کیا۔ یعنی خاتمہ مستدرک کو پیچھے چھوڑ دیا اور اس کو مقدم کر دیا۔ کتاب کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے محدث نوری نے خود اس کی اشاعت کا اہتمام کیا اور ۱۷ جمادی الاول ۱۳۱۸ھ میں تہران کے “مطبعہ حاج احمد موید العلماء” کے ذریعہ کتاب چھپ گئی۔
یہ کتاب ایک مقدمہ اور دو فصلوں پر اور خاتمتہ الکتاب و ملحقات کتاب پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں تالیف کا سبب اور متن میں قصيدہ بغدادیہ آیا ہے۔ فصل اول (صفحہ ۳۷ تا ۱۵۴) محدث نوری نے امام مہدی علیہِ السلام کی ولادت کے بارے میں مسلمانوں کے نظریات کو بیان کی ہے۔ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ حضرت مهدی علیہِ السلام عالمی نجات دهندہ ہیں اور اس سلسلہ میں روایات تواتر
سے وجود رکھتی ہیں، لیکن دو معاملات میں علمائے امامیہ کا بعض علمائے اہل سنت سے اختلاف ہے:
پہلا اختلاف یہ کہ مہدی حسنی ہیں یا حسینی؟ دوسرا اختلاف یہ کہ وہ پیدا ہو چکے ہیں یا نہیں؟
اس فصل کی ابتداء میں امام مہدی علیہِ السلام (ہمنام پیغمبر اور فرزند امام حسن عسکری علیہ السّلام میں اور ۲۵۵ھ میں پیدا ہوئے) کی طرف اشارہ کیا ہے اور چالیس علماء اہل سنت کا تذکرہ کیا ہے کہ جنھوں نے امام مہدی علیہ السّلام کی ولادت کی گواہی دی ہے اور اعتراف کیا ہے۔ ان علماء کی عظمت علمی کا ذکر سنّی رجالی کتابوں کے حوالہ سے کیا ہے بعض کا تزکرہ براہِ راست مربوط منابع سے نقل کیا ہے اور بعض کا تذکر مرحوم میر حسین ہندی (عبقاتی)کی کتاب “استقصاء الفحام” کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ اس فصل میں بعض مطالب فارسی زبان میں ہیں۔ فصل اول میں اجمالی دلیل کے ذکر کے ساتھ کہ مهدی موعود وہی حجت بن الحسن العسکری علیہم السّلام ہیں اور ان کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے اور اس سلسلہ میں جو بحثیں آئی ہیں منجملہ یہ ہیں:
کچھ حدیثیں بارہ اماموں پر دلالت کرتی ہیں، کبھی یہ کلی طور پر “اثنا عشر خلیفہ” کے عنوان سے اور کبھی ائمہ کے ناموں اور ان کی خصوصیات کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ ملاحظہ ہو:
وَ اَخْرَجَ مُسْلِمٌ فِیْ صَحِیْحِہٖ مِنْ حَصِیْنٍ عَنْ جَابِرٍ بْنِ سَمْرَۃٍ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ اَبِی عَلَی النَّبِّیِ فَسَمِعْتَہٗ یَقُوْلُ: اَنَّ ہٰذَا الْاَمْرُ لَا یَنْقَضِیْ حَتّٰی یَمْضِیْ فِیْہِمْ اِثْنَا عَشَرَ خَلِیْفَۃً۔ قَالَ ثُمَّ تَکَلَّمَ بِکَلَامٍ خَفِیَ عَلَیَّ قَالَ: قُلْتُ لِاَبِیْ مَا قَالَ؟ قَالَ کُلَّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ۔
مسلم نے اپنی کتاب (صحیح) میں حصین سے اور اس نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے کہ میں اپنے والد کے ہمراہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا: یقینا یہ امر (اسلام) ختم نہ ہو گا یہاں تک کہ بارہ خلیفہ نہ ہو جائیں۔ جابر بن سمره نے کہا : پھر پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے کچھ آہستہ سے کہا تو میں نے اپنے والد سے دریافت کیا کہ کیا کہا؟ میرے والد نے بتایا (کہ پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے فرمایا): وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔
(کشف الاستار، ص ۱۰۸)
وَ اَخْرَجَ الْبُخَارِیُّ: یَکُوْنُ بَعْدِیْ اِثْنَا عَشَرَ اَمِیْرٌ۔ وَ قَالَ کُلُّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ۔
بخاری نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے اپنے جانشینوں کے بارے میں فرمایا: میرے بعد بارہ امیر ہوں گے اور یہ بھی فرمایا کہ وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ (کشف الاستار، ص ۱۰۹)
اسی طرح شارح (غاية الاحکام) نے اپنی اسناد سے نقل کیا کہ ابی قتادہ نے کہا کہ میں نے سنا رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
اَلْاَئِمَّۃُ بَعْدِیْ اِثْنَا عَشَرَ عَدَدُ نُقْبَاءِ بَنِیْ اِسْرَافِیْلَ وَ حَوَارِیْ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے فرمایا: میرے بعد نقباء بنی اسرائیل اور عیسیٰ علیہ السّلام کے حواری کی تعداد میں بارہ امام ہوں گے۔
اور (امام) حسین بن علی ابن ابی طالب علیہ السّلام نے فرمایا کہ :
ہم میں سے بارہ مہدی ہیں۔ ان میں کے اول علی بن ابی طالب علیہ السّلام اور آخری القائم- اس کے علاوہ صحاح اور مسانید و سنن میں نقل ہوا ہے۔ (کشف الاستار، ص ۱۰۹)

تذکر
محدث نوری نے دلیلیں قائم کی ہیں کہ پیغمبر کے بعد بارہ خلیفہ پر وارد ہونے والی حدیثیں صحیح ہیں اور ان پر سبھی کا اجماع ہے۔ اور علماء امامیہ نے جو کچھ نقل کیا ہے، ان تمام لوگوں پر ظاہر ہے جو اپنے ساتھ انصاف کرتے ہیں کہ یہ احادیث نبوی سوائے مذہب امامیہ کے کسی اور مذھب پر منطبق نہیں ہوتیں۔
قابل توجه
اس حدیث کو تمام سنّی علماء نے میں جانا ہے۔ اس کے معنی پر بھی پورا اتفاق ہے لیکن اس کے “مصداق” میں اختلاف ہے ۔ بارہ خلیفہ کی فہرست سنی علماء نے الگ الگ بنائی ہے مثلا ان کے مطابق خلفاء راشدہ اور بنی امیہ کے حکمراں یا بنی عباس کے حکمراں لیکن جو بھی فہرست بنی وہ شرائط پر پوری نہ اتری مثلاََ سب کے سب قریش سے ہوں یا دین کو ان کے وجود سے عزت و طاقت ملی ہو۔ یا مثلاً خلیفہ رسول خصال حمیدہ کا حامل ہو اور خصال قبیحہ سے پاک و پاکیزہ ہو، ہدایت یافتہ ہو، دین حق پر ہو وغیره –
محدث نوری قُدس سرّہ نے بڑی حُسن خوبی کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ اور بھی صحیح روایتوں کی روشنی میں بارہ خلیفہ یا بارہ جانشین پیغمبر صرف اہلِ بیت پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم ہیں، جن سے تمسک کے لیے پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے تاکید فرمائی۔ مولف مرحوم نے سنّی حوالوں سے حدیث ثقلین کو نقل کیا ہے مثلا ابی سعید الخدری نے نقل کیا ہے کہ:
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ، یَقُوْلُ: اِنِّیْ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ خَلِیْفَتَیْنِ اِنْ اَخَذْتُمْ بِہِمَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِیْ، اَحَدُہُمَا اَکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ کِتَابَ اللہِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ (اَوْ قَالَ مِنَ الْاَرْضِ) وَ عِتْرَتِیْ اَہْلِ بَیْتِیْ اَلَا وَ اِنَّہُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوضَ۔
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا: یقیناً میں نے دو قیمتی خلیفہ تمہارے درمیان میں چھوڑ اگر انہیں لے لو تو ہرگز میرے بعد گمراہ نہ ہو گے، ان میں سے ایک اکبر ہے دوسرے سے، وہ کتاب خدا ایک طولانی رسی آسمان سے زمین تک (یا فرمایا زمین سے آسمان تک)۔ اور میری عترت اہلِ بیت۔ آگاہ ہو جاؤ کہ یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک دونوں ہی میرے پاس حوض (کوثر) پر پلٹیں گے۔
تذکر
یہ حدیث متعدد موقعوں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے بیان فرمائی ہے۔ حجة الوداع کے موقعہ پر مقام عرفات میں، غدیر خم کے مقام پر، مدینہ میں زندگی کے آخری لمحات میں جب پورا حجرہ صحابیوں سے بھرا ہوا تھا، طائف سے لوٹنے کے بعد خطبہ میں اور اس کے علاوہ موقعوں پر بھی اسکی تکرار کی ہے۔ خلاصہ یہ کہ محدث نوری نے سنیوں کے مصادیق کو بارہ اماموں کے سلسلہ میں نہ صرف رد کیا ہے بلکہ یہ ثابت کیا ہے کہ اہل بیت اطہار علیہم السّلام ہی جانشین پیغمبر ہیں اور اس لحاظ سے آج امام مهدی علیہِ السلام زندہ و موجود ہیں۔