سید سجاد زین العابدین حضرت علی ابن حسین علیہ السلام نے اپنے دور امامت میں کس قدر عظیم کارنامہ انجام دیا اس کا اندازہ لگانا نہایت مشکل اور دشوار ہے۔ ان خدمتوں کے سمندروں سے صرف بقدر قطرہ شبنم بلکہ اس سے بھی کم لیکن ایک جائزہ مقصود ہے اس کے لیے اس وقت کے حالات کو جاننا ضروری ہے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۲۳ برس کی رسالتی زندگی میں قدم قدم پر اہل بیت علیہ السلام کا تعارف کرایا۔ خدا و رسول کی بارگاہ میں ان کی عظمتوں، منزیلتوں اور قربتوں کا ذکر کیا۔ میدان قیامت میں ان کی شان و شوکت کا تذکرہ کیا۔ جنت کی سرداری، شفاعت کبریٰ کی طرف بارہا لوگوں کو متوجہ کیا، مسجد النبوی کے ممبر سے ان کا سلسلہ دار تذکرہ فرماتے رہے۔ نقل حدیث پر تمام تر پابندیوں اور سینسرشپ کے باوجود فریقین کی کتابیں اس طرح کی حدیثوں سے بھری ہوئی ہیں۔ فضائل و مناقب اھل بیت علیھم السلام کی حدیثیں کسی بھی صورت میں تفسیر قرآن، احکام اور اخلاق حدیثوں سے کم نہیں ہیں۔ یہ ساری حدیثیں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہِ و سلم کے زمانے سے آج تک علماء اور محدثین بیان کرتے چلے آئے ہیں اور ذکر کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس قدر حدیثوں اور آیتوں کے باوجود صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی موجودگی میں ان کے ہاتھوں، ان کے ذریعہ کربلا کے کھلے میدان میں حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اعزاء و اصحاب کے ساتھ شہید کر دیئے گئے۔ لوگ صرف آپ کے قتل پر شرمندہ نہیں تھے بلکہ ان کے قتل پر حاکم وقت یزید سے بڑے بڑے انعامات کے امیدوار تھے۔ ذہن کس طرح بدل دیے گئے تھے۔ لوگوں کے دل و دماغ سے اھل بیت علیھم السلام کی عظمت و منزلت کس طرح ختم کردی گئی تھی۔
اس کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اہل بیت علیہم السلام سے صرف خلافت و حکومت اور فدک نہیں غصب کیا گیا تھا بلکہ پوری طرح سے ان کی عظمتوں کو لوگوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہو رہی تھی۔ خلافت اس طرح غصب کی گئی، دوسروں کو ناحق جانشین رسول معین کیا گیا، فدک پر اپنے پہرےدار بیٹھا دیے۔ علمی شخصیت کو مجروح بلکہ ختم کرنے کے لئے ان لوگوں سے مسائل دریافت کیے جانے لگے جو اسلامی تعلیمات کے الف ب سے بھی واقف نہ تھے۔ قرآن کریم کی تفسیریں ان لوگوں سے اخذ کی جا رہی تھیں جو قرآن کریم سے آشنا نہیں تھے۔ اسلامی اخلاق کے بجائے جاہلیت کی پرانی رسموں کو زندہ کیا جا رہا تھا۔ اہل بیت علیہم اسلام کو نہ صرف خانہ نشیں کر دیا گیا تھا بلکہ اس قدر لوگوں کی نظروں میں ان کی عظمت و منزلت کو گرا دیا گیا تھا کہ شام سے سفر کرتے ہوئے لوگ مدینے آتے تھے اور ان کو نازیبا کلمات سے یاد کرتے تھے۔ یہ حاکم شام کی تبلیغ باطلہ کا آلہ کار تھا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور اہل بیت علیہم السلام کی اسیری نے اس دور کے شیعوں کے تمام حوصلے پست کردئیے تھے آپ خود سوچیں جس زمانے میں جوانان جنت کے سردار کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ کھلے عام بے دردی سے قتل کر دیا جائے اس وقت ان کے چاہنے والوں کی جان کی کیا قیمت ! حضرت نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد قیام کرنے کی کوشش کی مگر کوئی بہت بڑی کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ اس طرح کی تحریک کچھ دنوں کے بعد ختم ہو گئی جس سے بقیہ شیعوں کے رہے سہے حوصلہ بھی ختم ہو گئے ان حالات میں عقیدہ امامت عظمت اہل بیت علیہم السلام اور شیعیت کو باقی رکھنا کس قدر دشوار کام تھا۔ اگر کسی عقیدہ اور صاحبان عقیدہ پر اس کا دسواں حصہ بھی ظلم ہوا ہوتا تو اس کا نام ونشان مٹ جاتا۔.
حضرت امام سید سجاد علیہ السلام کو نہ صرف امام تو شیعیت کو باقی رکھنا تھا بلکہ واقعہ کربلا کو بھی ان کی خصوصیات کے ساتھ زندہ رکھنا تھا یہ کام اس لیے دشوار تھا کہ سارے مورخین اور قلم حکومت کے ماتحت تھے۔ حکومت وقت کے خلاف کوئی بات کرنا اپنی جان سے کھیلنا تھا۔
حضرت سید سجاد علیہ السلام کے سامنے کئی مسائل تھے ایک طرف یزید کی ظالمانہ حکومت، اس کے بعد بنی امیہ کی حکومت کا سلسلہ تو دوسری طرف عبداللہ بن زبیر کا فتنہ جس نے چند دن کے اقتدار میں نماز جمعہ کے خطبے میں صلوات پڑھنا بند کر دی تھی۔ محمد حنفیہ ابن عباس کو چاہ زمزم میں قید کردیا تھا۔ جس کے حل میں جس کی اہل بیت علیہم السلام سے دشمنی جنگ جمل کا سبب ہوئی تھی۔ تیسری طرف وہ لوگ تھے جو غلو کا شکار تھے۔
ان حالات میں بےپناہ رنج و الم اٹھانے والا اپنے سامنے اپنے عزیز ترین افراد کے بے سرو ہے کا فن پارہ پارہ لاشیں دیکھنے والا، جس نے طوق و سلاسل میں گرفتار ہو کر اپنی ماں بہنوں اور پھوپھیوں کو یزید و ابن زیاد جیسے ظالم و نحس و خبیث کے درباروں میں رسن بستہ کھلی سر دیکھا ہو وہ روحی طور پر کس قدر شکستہ اور دل آزردہ ہوگا اس کے نفسیات کس قدر مجروح ہوں گے ! مگر امامت اور ولایت الہیہ کا کمال یہی ہے کہ ان حالات میں وہ کارنامہ انجام دیا جس کی بنا پر آج تک دین مقدس اسلام باقی اور زندہ ہے۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کو ایک ساتھ کئی محاذ پر جہاد کرنا تھا :
(۱) حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی قربانی اور اس کے عالی ترین مقصد کوزندہ رکھنا یعنی اس دین کی حفاظت جو میدان غدیر میں اعلان ولایت سے کامل ہوا تھا۔
(۲) کربلا اور اس کے بعد جو مظالم ڈھائے گئے ان کو باقی رکھنا. یہ کام آسان نہیں تھا کیونکہ مظالم کا بیان براہ راست حکومت کو بے نقاب کرنا تھا۔
(۳) دل شکستہ, پژ مردہ، منتشر، پرا گندہ، ٹوٹے، بے حوصلہ شیعوں کی حفاظت، ان کو زندگی کا حوصلہ دینا، اس ماحول میں ان کی دینی و اخلاقی تربیت۔
(۴) غلات کا مقابلہ۔
(۵) سب سے اہم امامت کی حفاظت دینی تعلیمات میں قرآن اور رسول کی نظر میں اس کی اہمیت خاص کر اس دور میں جہاں امام حجّت خدا کو کھلے عام بے دردی سے شہید کر دیا گیا ہو وہاں امامت کی منزلت کو اجاگر کرنا اس کو زندہ رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
(۶) حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے کے لیے ایسے شاگرد تیار کرنا جو اس فرصت سے پورا پورا استفادہ کر سکیں۔
یہ بات خوب اچھی طرح ذہن میں رہے ان تمام باتوں کے لیے عوام سے رابطہ ضروری تھا جب کہ ان حالات میں عوام سے رابطہ نہایت دشوار تھ۔ا ہر طرف اور ہر وقت حکومت کے جاسوس گھوما کرتے تھے۔ حالات سے شکست کھا لینا اور سمجھوتہ کر لینا امامت الٰہیہ کا شیوہ نہیں ہے۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے وہ راستہ اختیار فرمایا جس پر پابندی کا کوئی امکان نہ تھا اور جس کی تاثیر بے پناہ تھی۔
(۱) آپ نے مقصد امام حسین علیہ السلام اور واقعات کربلا کے لیے زبان کے بجائے آنسوؤں کو ترجمان بنایا۔ ظاہر ہے کوئی بھی ظالم مظلوم کے گریا پر پابندی عائد نہیں کر سکتا ہے۔ ظلم کا گریہ خود ایک اثر رکھتا ہے وہ بھی امام معصوم کا گریہ۔ گریا نے اپنا اثر دکھایا۔ لوگ امام علیہ السلام سے گریا کا سبب دریافت فرماتے مجھے آپ جواب میں واقعات کربلا بیان فرماتے تھے وہ بھی چشم دید واقعات۔ لوگ جب صبر کی باتیں کرتے امام علیہ السلام فرماتے “جناب یعقوب علیہ السلام کا ایک فرزند صرف نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا اس قدر روئے کے آنکھیں سفید ہوگئی۔ میرے تو اٹھارہ جوان شہید کر دیئے گئے” جب لوگ شہادت کی میراث کی بات کرتے تو فرماتے شہادت میراث ہے مگر شام کے دربار میں جانا کیا یہ بھی میراث ہے؟, اس قدر گریہ فرماتے ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔ کسی میں جرات نہ تھی کہ ان واقعات کی تردید کر سکتا۔ اس کے علاوہ امام زین العابدین علیہ السلام نے مجلسیں قائم کی جہاں عورتیں باقاعدہ شہدائے کربلا پر گریہ کرتی اور امام ان کے کھانے کا انتظام کرتے تاکہ گریہ کا سلسلہ جاری رہے اور واقعہ کربلا و شام مسلسل بیان ہوتے رہیں۔ جب عورتیں گریہ کرتی تھی تو صرف آنسو نہیں بھاتی تھی بلکہ مصائب بیان کرتی تھی۔ اس طرح واقعاتِ کربلا لوگوں تک پہنچتے رہے۔
اس کے علاوہ امام زین العابدین علیہ السلام نے مصائب اہل بیت علیہم السلام پر آنسو بہانے کا ثواب کا ذکر فرمایا۔ روایتیں بیان کی۔ لوگوں کا ان سے متاثر ہونا لازمی و ضروری تھا۔ امام علیہ السلام نے وہ راستہ اختیار کیا جس کے سامنے حکومت وقت بے بس تھی۔ ایک گوشہ نشین نے حکومت وقت کو بے دست و پا کر دیا تھا۔ اسے کہتے ہیں امامت کی سیاست۔ جس مدینے سے حضرت امام حسین علیہ السلام کو نکلنا پڑا تھا اسی مدینے میں عزاداری امام حسین کی ایسی بنیاد رکھی گئی کہ آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس شان و انداز سے واقعات کربلا بیان فرمائے کہ وہ حکومت اور وہ لوگ جو قتل امام حسین علیہ السلام پر فخر کر رہے تھے اور انعامات کی تمنا رکھتے تھے وہی آج اپنا دامن بچا رہے تھے اور ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ مذکورہ بالا دبی ہوئی تحریکیں پھر سے ابھرنے پر سر راہ آرہی ہیں۔
(۲) جب یہ احساس ہو گیا کہ ان حالات میں لوگوں سے عوامی رابطہ ممکن نہیں ہے یا حالات کا تقاضا نہیں ہے تب امام زین العابدین علیہ السّلام نے خطاب کا انداز بدل دیا۔ آپ علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کو دعاؤں کا پیراہن عطا کیا۔ حمد خدا اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوات بھیج کر توحید اور نبوت کے اعلیٰ مطالب بیان فرمائے۔ ایک طرف صحیح توحید اور نبوت کا بیان تھا تو دوسری طرف ان تمام نظریات کی اصلاح یا تردید تھی جو راہ راست سے منحرف ہو چکے تھے۔ ایک مرتبہ صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں کا بغور مطالعہ تو کریں کہ کس قدر عظیم اور نایاب مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام سے جو دعائیں وارد ہوئی ہیں وہ صرف صحیفہ سجادیہ میں منحصر نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی دعائیں ہیں جو اسی نام کی دوسری جامع کتابوں میں موجود ہیں۔ ظاہر ہے حکومت تقریر پر پابندی لگا سکتی ہے دعاؤں پر نہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے بلاؤں کے دور کرنے اور مصائب پر صبر کی دعائیں تعلیم دیں مثلا دعا نمبر 4 ان لوگوں سے متعلق ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ دعا نمبر ۷ جب کوئی بلا نازل ہو۔ دعا نمبر ۸ سختیوں میں پناہ حاصل کرنے کے لئے۔ دعا نمبر ۱۱ انجام بخیر ہونے کے لئے. دعا نمبر ۲۳ شدید تکلیف اور پریشانیوں میں۔ دعا نمبر ۴۱ دشمنوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے. اس طرح کی دعائیں نہ صرف خداوند قدوس کی بارگاہ میں مناجات ہیں بلکہ دل شکستہ پژ مردہ شیعوں کی تسکین اور تقویت کا سبب ہے۔ اگر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے چاہنے والوں کی تربیت کا یہ طریقہ نہ اختیار کیا ہوتا تو ان کی دوبارہ زندگی کا کوئی سوال نہیں تھا۔
(۳) امام سجاد علیہ السلام کا وجود مقدس شہر مدینہ میں جہاں شام سے اور دیرینہ خلافت کی روِش سے عامہ کا ایک بڑا حصہ اسلام کی تہذیب سمجھ کر اس پر عامل تھا وہیں اب ذہن پلٹ رہے تھے اور ان گروہوں میں، جو کثرت کے مقابلے میں قلیل تھے، اصالت اسلام کی مہمیز ہو رہی تھی۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو تنویر امامت کو ہدایت سے مستفیض ہو رہے تھے اور کچھ اعجاز امامت سے متاثر ہوکر تجاوز کر بیٹھے۔ یہاں تک کہ عقیدت میں اس طرح غوطہ زن ہوئے کے روایت پیش نظر نہ رہیں اور عقیدت جب عقل اور روایات سے جدا ہو جاتی ہے تو غلو کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کچھ لوگ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں غلو کا شکار ہوئے۔ آئمہ معصومین علیہ السلام نے ان لوگو کی سختی سے تردید کی ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے اہل عراق سے فرمایا۔
اَحِبُّوْنَا حُبَّ الْاِسْلَامِ وَلَا تَرْفَعُوْنَا فَوْقَ حَدِّنَا
دیکھو ہم سے اسلام کی حدود میں محبت کرو حد سے آگے مت بڑھاؤ۔
ایک دوسری جگہ اسی طرح فرمایا :
اَحِبُّوْنَا حُبَّ الْاِسْلَامِ وَلَا تُحِبُّوْنَا حُبَّ الْاَصْنَامِ
ہم سے اسلام کی خاطر محبت کرو اس طرح محبت مت کرو جس طرح لوگ بتوں سے محبت کرتے ہیں۔
ابو خالد کابلی سے فرمایا :
اِنَّ قَوْمًا مِنْ شِیْعَتِنَا سَیُحِبُّوْنَا حَتَّی یَقُوْلُوْا فِیْنَا مَا قَالَتِ الْیَہُوْدُ فِیْ عُزَیْرٍ وَمَا قَالَتِ النَّصَاریٰ فِیْ عِیْسٰی بْنِ مَرْیَمَ فَلَاہُمْ مِنَّا وَلَا نَحْنُ مِنْہُمْ۔
ہمارے شیعوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہم سے محبت کا دعوی کرتے ہیں اور ہمارے بارے میں وہی کہتے ہیں جو یہودی جناب عزیر علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں اور جو عیسائی جناب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں،نہ وہ ہم سے ہیں اور نہ ہم ان سے ہیں۔
بحار الانوار جلد ۴۵ صفحہ ۲۸۸ حدیث نمبر ۴۴
یہودی جناب عزیر علیہ السلام کو اور عیسائی جناب عیسی بن مریم کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ ان کو عبدیت کی منزل سے نکال کر الوھیّت کی منزل میں قرار دیتے تھے، ان کو خدا سے ملا دیتے تھے، بندہ کو خدا بنا دیتے تھے۔ امام علیہ السلام نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ اس طرح کے لوگوں کا ہم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ امامت کا مزاج بے جا تعریفیں سننا نہیں ہے۔ اور لوگ اسی کو محبت و عقیدت قرار دیتے ہیں جبکہ امام علیہ السلام اس طرح کے لوگوں سے پوری طرح بیزاری کا اعلان فرما رہے ہیں۔
(۴) اس وقت سب سے اہم مسئلہ اہل بیت علیہم السلام کی عظمت کو اجاگر کرنا اور دین مقدس اسلام میں امامت کی اہمیت کو واضح کرنا تھا۔ واقعہ کربلا میں ایک مختصر سی جماعت تھی جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھی۔ اکثریت ان لوگوں کی تھی جو مخالف سمت میں کھڑے ہوئے تھے۔ جو لوگ کسی بنا پر امام حسین علیہ السلام کے سامنے میدان جنگ میں نہیں تھے وہ بھی ساتھ نہیں تھے۔ عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، جو بظاہر مسلمانوں میں صحابہ کا فرزند ہونے کی بنا پر ایک حیثیت رکھتے تھے وہ اپنی الگ ایک دنیا بنائے ہوئے تھے۔ یہ ایک کوشش تھی اہل بیت علیہ السلام کو اسلامی منظرنامہ سے دور کرنے کی اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کہ دین اسلام میں امامت کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ جو کچھ اہمیت ہے بس خلافت کی ہے اور بس وہی خلیفہ ہے جس کو امت خلیفہ تسلیم کر لیں۔ اس نظریہ کو حکومت وقت کی باقاعدہ تائید حاصل تھی اور وہ لوگ بھی حکومت کے مورد نظر تھے جو اس طرح کے نظریہ کی تائید کرتے تھے اور عملی طور پر ساتھ رہتے تھے۔ اعلان غدیر کے بعد اسلامی سماج میں اس طرح کے نظریہ کا پروان چڑھنا اس بات کی دلیل تھی کہ اھل بیت علیہم السلام اور امامت کے خلاف کس طرح منظم طور پر کام کیا گیا تھا تھا۔ نبوت کے عقیدہ کو برقرار رکھتے ہوئے تعلیمات اور تاکیدات نبوت کو پوری طرح بھلا دیا گیا تھا اور بھلا دینے والے ہی محترم سمجھے جاتے تھے۔
امامت اور رہبری کا سب سے بڑا وطیرہ یہ ہے کہ وہ ایسا نباض ہوتا ہے کہ بیماری کو خوب سمجھتا ہے اور اس کی ضلالت کے طور طریقہ سے خوب واقف ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں امام علیہ السلام نے سب سے پہلے عقیدہ کی صحت جو مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے تعلیم دیا تھا اسے دعاؤں کے ذریعے استعمال کیا تاکہ خدا، رسول اور امام پر عقائد کی تجدید ہو سکے۔
دعا انسانی زندگی میں اور خاص کر اسلامی تعلیمات میں نہایت اہم درجہ رکھتی ہے۔ دعا معرفت الہی کا ذریعہ ہے۔ دعا احساس بلندی اور بندگی کا ذریعہ ہے یعنی خدا وہ ہے جو خالق بلند وہ برتر ہے، صمد ہے، بے نیاز ہے اور انسان مخلوق ہے، محتاج ہے۔ دعا خدا کی عدالت پر یقین کا سبب ہے۔ جزا انسان کو خیر کی طرف مائل کرتی ہے اور سزا شر کا نتیجہ ہے۔ دعا متنبہ کرتی ہے کہ دنیا مزرعہ آخرت ہے۔ ایک طویل زمانے سے لوگ اسے فراموش کر بیٹھے تھے جس کو امام سجاد علیہ السلام نے زندگی بخشی۔.
امام نے دعاؤں میں قدم قدم پر آل محمد علیہم السلام کا تذکرہ کیا ہے اور ان پر درود و سلام اور صلوات بھیجا ہے۔ یہ تذکرہ اس حقیقت کی ترجمانی تھی کہ خداوندعالم کی بارگاہ میں اہل بیت علیہم السلام کو کیا عظمت و منزلت حاصل ہے۔ اس طرح کا تذکرہ ان تمام لوگوں کے لیے درس تھا جو اہل بیت علیہم السلام کی منزلت کم کر رہے تھے۔ دیکھو اہل بیت علیہم السلام وہ لوگ ہیں جن کا ذکر خداوندعالم سے مناجاتوں میں ہے۔ جن لوگوں کا تذکرہ دعاؤں میں ہوں جن پر برابر درود و سلام بھیجا جارہا ہو کیا وہ اس لائق ہے کہ ان کو ستایا جائے؟ اور ان پر ظلم ڈھایا جائے؟ تمہارے ظلم کرنے اور قید کرنے سے اھل بیت علیھم السلام کی عظمت و منزلت کم نہیں ہوتی۔
ان دعاؤں میں نہ صرف اہل بیت علیہم السلام پر درود اور سلام کا تذکرہ ہے بلکہ حج کے موقع پر جہاں دنیا کے ہر گوشے سے مسلمان جمع ہوتے ہیں, عرفات کے دن جو دعاؤں اور مغفرت کا دن ہے جہاں حاجیوں کے ساتھ ساتھ حکومت کے جاسوس اور کارندے بھی بڑی تعداد میں موجود رہتے ہیں، اس حساس موقع پر امام زین العابدین علیہ السلام نے دعائے عرفہ میں باقاعدہ، امامت کا تذکرہ فرمایا ہے، یہاں اس دعا کے چند اقتباسات نقل کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں اور اختصار کے پیش نظر صرف ترجمہ پر اکتفا کرتے ہیں۔
یہ صحیفہ سجادیہ کی ۴۷ ویں دعا ہے۔ اس دعا میں سب سے پہلے بہترین انداز میں خداوندعالم کی مدح و ثناء ہے یعنی توحید کے نہایت بلند درجہ مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ چونکہ توحید تمام عقائد کی بنیاد ہے لہذا بڑی وضاحت سے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مختلف انداز سے خداوندعالم کی قدرت، حکمت، خلقت، رحمت و کرم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ عقل انسانی کسی بھی صورت میں توحید کی کنہ تک نہیں پہنچ سکتی ہے۔
توحید کے بعد اسی طرح نبوت کا ذکر فرمایا ہے :
رَبِّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الْمُنْتَجَبِ الْمُصْطَفٰی الْمُکَرَّمِ الْمُقَرَّبِ……
“خدایا محمد آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام نازل فرما جن کو تو نے تمام مخلوقات میں منتخب کیا ہے چن لیا ہے جو تیری بارگاہ میں نہایت باعزت اور مقرب ہیں ان پر بہترین درود، برکتیں رحمتیں ۔۔۔۔۔ نازل فرما۔”
مختلف انداز سے صلوات بھیجی ہے۔ یہ مختلف انداز سے صلوات بھیجنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ خداوندعالم کی بارگاہ میں نبوت کا درجہ کس قدر بلند ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے تعلق سے ہماری ذمہ داری کیا ہے۔ اس صلوات کا ایک ایک جملہ معرفت نبوت کا ایک باب ہے۔
توحید اور نبوت کے بعد امامت کا ذکر فرمایا ہے۔ موت کے فورا بعد بلا فصل امامت کا تذکرہ امامت کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔ فرماتے ہیں :
رَبِّ صَلِّ عَلیٰ اَطَائِبِ اَہْلِ بَیْتِہٖ الَّذِیْنَ اخْتَرْتَہُمْ لِاَمْرِکَ۔
“پروردگار ان کے اہل بیت اطہار علیہم السلام پر رحمت نازل فرما جنہیں تو نے اپنے حکومت ولایت کے لئے منتخب فرمایا ہے۔ اپنے علم کا خزینہ دار اور اپنے دین کا محافظ اور زمین میں اپنا خلیفہ، جانشین اور بندوں پر اپنی حجت قرار دیا ہے اور ارادہ تکوینی سے ہر قسم کی نجات آلودگی سے پاک و صاف رکھا، جنہیں اپنی بارگاہ قدس تک پہنچنے کا وسیلہ اور جنت تک آنے کا راستہ قرار دیا ہے۔”
اس کے بعد مختلف انداز سے درود و سلام کا تذکرہ ہے. اب اس کے بعد اس حقیقت کی طرف توجہ فرما رہے ہیں کہ امامت ایک تسلسل ہے ہدایت کا. یہ سلسلہ ہر دور میں جاری و ساری ہے. فرماتے ہیں:
اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ اَیَّدْتَ دِیْنِکَ فِیْ کُلِّ اَوَانٍ بِاِمَامٍ اَقَمْتَہٗ عَلَمًا لِعِبَادِکَ……
“بار الاہا تو نے ہر زمانے میں ایک ایسے امام کے ذریعہ اپنے دین کی تائید فرمائی ہے جسے تو نے اپنے بندوں کے لئے نشان راہ قرار دیا ہے اور شہروں میں منار ہدایت بنا کر قائم کیا جب کہ تو نے اپنے عہد و پیمان، اطاعت و بندگی کو اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے وابستہ کیا، جس کو تو نے اپنے رضا و خوشنودی کا ذریعہ قرار دیا اور جسکی اطاعت کو لازم و ضروری قرار دیا، اور جس کی نافرمانی و مخالفت سے منع کیا، جس کا کہنا ماننے کا حکم دیا اور وہ جن باتوں سے منع کر رہا ہے ان سے دور رہنے کا حکم دیا۔ ان سے آگے نہ بڑھے اور نہ ہی پیچھے رہے۔ جو اس کی پناہ میں آتا ہے وہ گناہوں سے محفوظ رہتا ہے، یہ مومنین کی پناہ گاہ ہے، تمسک کرنے والوں کے لئے مضبوط رسی ہیں۔”
صلوات کے ذریعے جہاں خدا کی بارگاہ میں نزول رحمت کی درخواست ہے وہاں امام کے فضائل و کمال کا بھی ذکر ہے۔ ہر انصاف پسند اتنا ضرور غور کرے گا وہ کون ہے جس پر اس طرح درود و سلام بھیجا جا رہا ہے۔ اگر اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور ہو تو دنیا پیش کرے۔ جس امام و امامت کو لوگوں نے پوری طرح نظر انداز کر دیا تھا امام زین العابدین علیہ السلام میدان عرفات میں اسی امامت کو مستحکم کر رہے ہیں کہ لوگوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کروا رہے ہیں امامت سے کنارہ کشی اختیار کرکے کتنا بڑا نقصان اٹھایا۔ اس کے بعد امام علیہ السلام ان لوگوں کا تذکرہ فرماتے ہیں جو امامت کے راستے پر ثابت قدم ہیں۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ اَوْلِیَائِہِمُ الْمُعْتَرِفِیْنَ بِمَقَامِہِمُ الْمُتَّبِعِیْنَ مَنْہَجَہُمْ
معبود ان کے دوستوں پر، ان کے چاہنے والوں پر، ان کی محبت و ولایت کا دم بھرنے والوں پر درود و سلام نازل فرما۔ جو ان کی منزلت و عظمت و مقام کا اعتراف کرتے ہیں، ان کے نقش قدم پر قدم رکھتے ہیں، ان کے نشان راہ پر گامزن ہیں، انکی دوستی و ولایت سے متمسک، ان کی امامت و رہبری سے وابستہ، ان کی امامت کے پیرو، ان کے احکام کے فرمانبردار، ان کی اطاعت میں سرگرم ان کے زمانہ اقتدار کے منتظر، ان کے لئے چشم براہ ہیں۔”
ایسی رحمت جو بابرکت, پاکیزہ, بڑھنے والی اور صبح و شام نازل ہونے والی ہو, ان پر, ان کی پاکیزہ روحوں پر سلامتی نازل فرما, ان کی توبہ قبول فرما۔ بیشک تو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا، سب سے زیادہ اور سب سے بہتر معاف کرنے والا ہے۔ ہمیں اپنی رحمت کے وسیلے سے دارالسلام (جنت) میں ان کا ہم نشین قرار دے یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
آج کے حالات میں اس دعا کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے. جس زمانے میں لوگ خلافت کو دوسروں کا حق قرار دیتے ہوں، عوام الناس کی خلافت کے معتقد ہوں وہاں خلافت الہیہ اور امامت ربانیہ کے کھلے عام ذکر کرنا عظیم ترین جہاد ہے۔
(۵) امام زین العابدین علیہ السلام جانتے تھے آئندہ چند برسوں میں بنی امیہ اور بنی عباس میں اقتدار جنگ ہوگی۔ اس وقت میرے فرزند امام محمد باقر علیہ السلام اور ان کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام کو غدیری اسلام اور واقعی دین کی تعلیمات بیان کرنے کا موقع ملے گا۔ علم کے لئے استاد کی موجودگی کے ساتھ ساتھ با استعداد طالب علم بھی ضروری ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے دوران امامت یہ کارنامہ اس طرح انجام دیا کہ مخالفین امامت اس کی بو بھی نہیں سونگ سکے۔ اس کے لئے امام علیہ السلام نے ایک طرف غلاموں کو خریدا کچھ مدت تک اپنے ساتھ رکھ کر ان کی تربیت کی اور ان کو آزاد کر دیا یہ آزاد ہونے والے غلام اور کنیز امام کی امامت اور ان کے اخلاق و عادات کے بہترین مبلغین قرار پائے اس کے علاوہ صحابہ و طالبان علوم کی تربیت کی۔ جب امام علیہ السلام حج کے لیے تشریف لے جاتے تقریبا ایک ہزار افراد آپ کے ہمراہ تھے۔ امام علیہ السلام نے اس طرح ان لوگوں میں طالب علم کا جذبہ بیدار کیا اور اس قدر ان کو علوم الہیہ سے تشنہ لب کیا کہ جب امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے درس دینا شروع کیا تو مسجد لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ ملتا ہے اِس زمانہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے درس میں چار ہزار افراد شرکت کرتے تھے۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے ان حالات میں امامت و ولایت الہیہ کو زندہ کیا اور حفاظت کی، اہمیت کو واضح کیا، غدیری اسلام کو بچایا، اور شیعیت اور شیعوں کی اس طرح حفاظت فرمائی کے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اِس مختصر مضمون کو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام پر درود اور سلام کے ذریعہ ختم کرتے ہیں۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ سَیِّدِ الْعَابِدِیْنَ الَّذِیْ اسْتَخْلَصْتَہٗ لِنَفْسِکَ وَ جَعَلْتَ مِنْہُ اَئِمَّۃَ الْہُدیٰ الَّذِیْنَ یَہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِہٖ یَعْدِلُوْنَ الَّذِیْ اخْتَرْتَہٗ لِنَفْسِکَ وَطَہَّرْتَہٗ مِنَ الرِّجْسِ وَاصْطَفَیْتَہٗ وَ جَعَلْتَہٗ ہَادِیًا مَہْدِیًّا اَللّٰہُمَّ فَصَلِّ عَلَیْہِ اَفْضَلَ مَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اَحَدٍ مِنْ ذُرِّیَۃِ اَنْبِیَائِکَ حَتَّی یَبْلُغَ بِہٖ مَا تُقِرُّ بِہٖ عَیْنَہٗ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ اِنَّکَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔
مفاتیح الجنان/ صلوات بر حجج ظاہرہ علیہ السلام
