لفظ عاشورہ سنتے ہی امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی قربانی نظروں کے سامنے مجسم ہو جاتی ہے اور دوسری طرف اللہ کے لئے قربانی دینے کا جذبہ اور شوق پیدا ہوتا ہے اور شاید یہی وہ اہم وجہ ہے اور یہی وہ راز ہے جسکے لئے ایک طرف اہل بیت علیہم السلام نے ہر زمانے میں یہ کوششیں کی کہ عاشورہ زندہ اور تابندہ رہے۔ آج جو ہمارے پاس کربلا سے متعلق سیکڑوں مقاتل پائے جاتے ہیں اس سلسلے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ سب کے سب علم رجال کے معیار پر کھرے اترتے ہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ ان میں بہت سی روایتیں اور حدیثیں سو فیصد عاشورہ کے واقعات کی عکاسی کرتی ہیں اور یہ سب اہل بیت علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ ورنہ جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو ایک طرف میں عاشورہ کی عظمت اور اہمیت کو بتانے والے افراد نظر آتے ہیں تو دوسری طرف عاشورہ کی عظمت کم کرنے اور عاشور کو تاریخ کے دامن سے محو کرنے والے حضرات اپنی ساری توانائی کو صرف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ایک طائرانہ نظر ان دونوں پہلوؤں پر ڈالنے کی ایک ادنی سی کوشش ہے
(۱)عرفان اور تصوف کا راستہ : **
شیخ عبد القادر گیلانی، اہل سنت کے بلند درجہ کے علماء اور صوفی مانے جاتے ہیں۔ بغداد میں انکی قبر زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔ وہ اہل **،بات شروع کرنے سے پہلے اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے علماء اہل سنت اور صوفیوں میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جو امام حسین علیہ السلام کی محبت سے سرشار اور یزید سے بیزار ہیں۔ وہ یزید کو قاتل تسلیم کرتے ہیں۔ قابل لعنت جانتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے ذکر کو ان کی شہادت کے تذکرہ کو اپنے لئے سر مایہ افتخار و نجات جانتے ہیں لیکن چند ایسے بھی ۔ ہیں جو ذکر شہادت و مصائب کو اچھا نہیں سمجھتی ہیں۔ ذیل میں انہیں چند کا ذکر ہے۔ ورنہ اکثریت امام حسین اپ کی عزاداری میں شریک ہے۔
سنت پر ہونے والے اعتراض کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
قد طعن قوم علی من ہذا صام الیوم العظیم و ما ورد فیہ من التعظیم و زعموا انہ لا یجوز صیامہ الاجل قتل الحسین بن علی رضی اللہ عنہا فیہ، و قالو! ینبغی ان تکون المصیبۃ فیہ عامۃ لجمیع الناس ففقدہ فیہ، و انتم تتخذونہ یوم فرح و سرور و تأمرون فیہ بالتوسعۃ علی العیال و النفقۃ الکثیرۃ والصدقۃ علی الفقراء و الضعفاء والساکین و لیس ہذا من حق الحسین علی جماعتہ المسلیمن۔
بعض لوگ اہل سنت پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیوں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہو، یہ کام صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس روز حسین ابن علی علیہ السلام شہید ہوئے ہیں اور مناسب ہے کہ مصیبت کے دن (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند) تمام لوگ عزاداری کریں اور آپ لوگ اہل سنت کیوں اس دن کو خوشی اور جشن کا دن قرار دیتے ہو اور لوگوں کو خوشی منانے اور نئے کپڑے پہننے اور عید سے متعلق اچھے کھانے کی دعوت دیتے ہو؟ اور آپ لوگوں کا یہ کام صحیح نہیں ہے۔ پھر خود اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
وہذا القاتل خاطئی و مذہبہ قبیح فاسد، لأن اللہ تعالی۴ اختار لسبط نبیہ (ص( الشہادۃ … یوم عاشورہ لا یتّخذ یوم مصیبۃ۔ لان یوم عاشوراء ان یتخذ لیس باولی من ان یتخذ ییوم موتہ فرح و سرور……
اعتراض کرنے والے نے غلطی کیا ہے اور اسکا عقیدہ غلط اور فاسد ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے شہادت کو پیغمبر کے نواسے کے لئے منتخب کیا ہے۔ اور عاشورہ کے دن مصیبت کا دن نہیں قرار دینا چاہئے، کیونکہ عاشق اپنے معشوق کے پاس پہونچ گیا ہے اس لئے یہ دن خوشی کا دن ہونا چاہئے۔ عبد القادر جیلانی آگے لکھتے ہیں :
اگر عاشورہ کے دن کو غم اور عزاداری کا دن قرار دینا ہو تو بہتر ہے کہ ہم دوشنبہ کے دن کو عزا کا دن قرار دیں کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر صدیق کی روحیں اس دن قبض کی گئی ہیں۔
توجیہ
کمزور توجیہ پر عصبیت کی سیاہی نے بصارت اور بصیرت دونوں چھین لیا۔
(۲( تقوی اور پرہیز گاری کا طریقہ
امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں شک اور تردید پیدا کرنے کے لئے کچھ لوگ تقوی اور پرہیز گاری کا راستہ اپناتے ہیں۔ غزالی اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں تقوی اور پرہیز گاری کا بیان بنا کر کوشش کرتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی اہمیت کو گھٹادے۔ وہ لکھتا ہے کہ پہلے تو امام حسین علیہ السلام کا قتل یزید سے منسوب ہو اور یزید قاتل ہو یہ ثابت نہیں ہے اور دوسرے امام حسین علیہ السلام کا قاتل کوئی بھی ہو۔ شاید مرنے سے پہلے اس نے توبہ کر لیا ہو۔ اسی بناء پر امام حسین علیہ السلام کے قاتل پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ (اسے بوکھلابٹ کہتے ہیں )
(احیاء العلوم الدین ج ۳، ص ۱۲۵)
وہ آگے چل کر لکھتا ہے: انصاف کی بات تو یہ ہے کہ عزاداری سے بہتر اللہ کا ذکر ہے۔ یعنی لا الہ الا اللّٰہ۔ امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر لعنت کرنے سے لا الہ الا اللہ کہنا زیادہ بہتر ہے۔
(۳) عاشورہ کا سرے سے انکار یا جھٹلانا
ابن تیمیہ عاشورہ کے انکار کرنے کے لئے اس روش کو اپناتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یزید نے ہر گز امام حسین علیہ السلام کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی اس نے اہل بیت علیہم السلام کو اسیر کیا اور یہ باتیں سرے سے جھوٹ ہیں۔ وہ اس طرح لکھتا ہے :
ان یزید لم یأمر بقتل الحسین باتفاق اہل النقل و لکن ان ابن زیاد ان یمنعہ عن ولایۃ العراق والحسین رضی اللہ عنہ کان یظن ان اہل العراق ینصرونہ ……فقاتلوہ حتی قتل شہیدا مظلوما رضی اللہ عنہ۔ ولما بلغ ذلک یزیا ظہر التوجع علی ذالک و ظہر البکاء فی دارہ و لم یسب لہ حریما اصلاً بل اکرمہ اہل بیتہ و أجازہم حتی ردہم الی بلدہم۔
(منهاج السنہ ۴/۴۷۲)
یقیناً یزید نے امام حسین کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا(اور تمام علماء راوی اور مؤرخ( اس بات پر متفق ہیں کہ صرف یزید نے ابن
زیاد کو خط لکھا تھا کہ تم حسین علیہ السلام کی حکومت عراق میں قائم نہ ہونے دو۔
وہ لوگ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کے لئے کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ انہیں مظلومیت کے ساتھ شہید کر دیا۔ اور جب یہ خبر یزید کو پہنچی تو وہ بہت ناراض ہوا اور اس نے گریہ کیا اور اس نے ہر گز اہل بیت علیہم السلام کو اسیر نہیں کیا بلکہ انہیں عزت اور احترام کے ساتھ ان کے شہر اور انکے دیار میں پہونچادیا۔ اور آگے وہ تحریر کرتا ہے۔
لیس ما وقع من ذالک باعظم من قتل الانبیاء…… و قتل النبی أعظم دنیا و مصیبۃ۔
(منهاج السنہ ج ۴, ص ۵۵)
حسین ابن علی کے قتل کی مصیبت اور گناہ انبیاء الہی سے پڑھ کر تو نہیں ہے پس آئیں انبیاء کی شہادت پر گریہ اور ماتم کریں۔
قارئین آپ نے ملاحظہ کیا کہ علماء اہل سنت مختلف حیلے اور بہانہ سے عاشورہ کی اہمیت ختم کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں اور آج بھی مختلف انداز میں کوشاں ہیں۔ کبھی بدعت اور حرمت کا فتوی دے کر تو کبھی بے جا اعتراض سے عاشورہ کی اہمیت کم کرنا چاہتے ہیں۔ اب ہر انصاف پسند کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہے لوگ اتنے عظیم واقعہ کو جھٹلا رہے ہیں۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ عزاداری ایک انقلابی نعرہ ہے جسکا تیر معاویہ ، معاویہ کے اصحاب کے سینے کو چاک کر دیتا ہے۔ اگر ہم امام حسین علیہ السلام کا نام بار بار زبان پر لائیں گے تو ہر شخص کی زبان پر یہ سوال آئے گا کہ کسی نے امام حسین کے قتل کا اسباب فراہم کیا اور لا محالہ معاویہ ابن سفیان کا نام آئے گا۔ اس لئے یہ لوگ عاشورہ کے خلاف ہیں اور جھٹلاتے ہیں تا کہ ان صحابہ کو پا سکیں جو معاویہ اور یزید کے ہم پیالہ اور نوالہ ہیں۔ اور جنہوں نے یزید کی بیعت کی تھی۔ اب ان کو بچانا ہے تو عاشورہ کے انکار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور یہ بات آپ کی علماء کی زبان پر کہیں نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ مثلا عبد المغيث حنبل بغدادی یزید کے اوپر ہونے والے اعتراض کے بارے میں لکھتا ہے اسکے باپ کے احترام میں اسکو کچھ نہیں کہنا چاہئے۔ ہاں بیشک ہمیں نہیں کہنا چاہئے کیونکہ یزید شراب میں دو بار رہتا تھا اور اپنے محارم کے ساتھ نکاح کرتا تھا۔ اس طرح ہم تفتازانی کو دیکھتے ہیں کہ یزید کے دفاع میں لکھتا ہے کہ :
فان قیل فمن علماء المذہب من لم یجوز اللعن علی یزید مع علہم بانہ سیحق ما یربو علی ذلک و یزید۔ قلنا لہ تحامیا من عن ان یرتقی الا الاعلی فالاعلی۔
اگر لوگ کہیں کہ علماء مذہب یزید پر لعنت کو جائز نہیں جانتے جبکہ آپ جانتے ہو کہ وہ لعنت کا مستحق ہے تو وہ لوگ لعنت سے زیادہ کے حقدار ہیں کیونکہ یزید پر لعنت کرنے سے روکتے ہو۔ اس لئے کہ یہ سلسلہ آگے تک بڑھ جائیگا۔
(شرح المقاصد ، ج۵، ۳۱۰)
ان کے جواب میں کہیں گے کہ یزید پر لعنت سے اس لئے روکتا ہوں کہ کہیں یہ لعنت اس کے باپ تک نہ پہونچے اور باپ سے بزرگوں تک نہ پہونچ جائے۔ عاشورہ پر ہونے والے اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو خود شیعوں نے مخطوط لکھ کر کربلا بلایا تھا اور پھر انہیں شہید کر دیا اور کرنے کے بعد آج تک روتے ہیں؟ آج تک اس اعتراض کا ہزار بار ہزار طریقہ سے جواب دیا جا چکا ہے۔ چونکہ اعتراض ہر زمانے میں الفاظ اور انداز بدل کر کیا جاتا ہے اس لئے اس کا جواب بھی ہمیشہ دیا جانا چاہئے۔ اس کا بہترین جواب اور کئی حضرات کے کتابوں میں موجود ہے اور خود سید الشہداء کے كلام میں بھی اس کا جواب موجود ہے۔ مثلا طبری اپنی سند سے نقل کرتا ہے کہ ابن زیاد کے لشکر میں یزید ابن معقل امام حسین علیہ السلام کا دشمن تھا بریر ابن خضیر جو کوفہ شہر کے مشہور قرآن کے عالم تھے اور امام حسین علیہ السلام کے جانثاروں میں تھے کہتا ہے دیکھو اللہ نے تمہاری قسمت میں یہ دن لکھا تھا۔ بریر ہمدانی نے جواب دیا خداوند عالم نے جو میری قسمت میں لکھا ہے وہ سعادت اور نیکی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور تمہاری قسمت میں بد گئی اور ہلاکت کے علاوہ کچھ نہیں لکھا ہے۔ یزید بن معقل کہتا ہے : تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم اس سے پہلے بھی جھوٹے تھے۔ کیا تمہیں یاد ہے کہ جب تم بنی لوذان کے قبیلہ میں اس طرح کا جھوٹ عثمان کے لئے بکتے تھے اور معاویہ کو گمراہ اور گمراہ کرنے والا بتاتے تھے اور علی علیہ السلام کو اپنا بر حق پیشوا اور ہدایت کرنے والا بتاتے تھے تو بریر نے جواب دیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میر عقیدہ اور میرا نظریہ ہی ہے جو تو کہہ رہا ہے۔ یزید ابن معقل چونکہ جانتا تھا کہ وہ علی علیہ السلام کی ولایت پر ایمان رکھتا ہے اس لئے اس نے کہا: میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ تم گمراہوں میں سے ہو۔ بریر نے کہا: کیا تم پہلے مباہلہ اور پھر مجھ سے جنگ کے لئے آمادہ ہو۔
یزید ابن معقل نے جواب دیا: ہاں۔ اس وقت دونوں آگے بڑھے اور جنگ سے پہلے ہاتھوں کو بلند کر کے دعا کرتے ہیں اور جھوٹے پر لعنت کرتے ہیں اور الله سے چاہتے ہیں کہ جو حق پر ہو اس کو کامیاب کرے اور جو باطل پر ہے اس کا وجود مٹا دے اور پھر جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور بریر یزید ابن معقل کو قتل کر دیتے ہیں۔
(تاریخ طبری، ج ۵، ص ۴۳۱-۴۳۳)
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عاشور کے دن جنگ علی علیہ السلام اور عثمان کی حقانیت اور علی علیہ السلام اور عثمان کے نظریہ کے درمیان تھی۔ مباہلہ کے نتیجے میں علی علیہ السلام کے پیروکار بریر کامیاب ہوتے ہیں۔ اب میں اعتراض کرنے والوں سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یزید ابن معقل شیعہ تھا جبکہ وہ اپنی زبان سے کہہ رہا ہے میں بنی امیہ اور خاص طور سے عثمان اور معاویہ کا پیروکار ہوں۔
اس طرح طبری ایک اور واقعہ کا ذکر کرتا ہے: کہتا ہے جب نافع ابن ہلال امام حسین علیہ السلام کے سپاہیوں میں سے جنگ کے لئے گئے۔ رجز پڑھا اور فرمایا میں علی علیہ السّلام کے دین پر عقیدہ رکھتا ہوں۔ ابن زیاد کے لشکر سے ایک شخص مزابل ابن حریث نام کا مبارزہ کرنے کے لئے نکلا اور نافع کے جواب میں کہتا ہے میں بھی ان کے دین پر عقیدورکتاہوں۔
(طبری، ج۵، ص۴۲۵)
ابن جوزی اپنی کتاب کامل التاریخ میں نافع کے اس رجز کا ذکر کرتا ہے لیکن نافع کے مقابل دشمن کا جواب نہیں لکھتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ کسی کو امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کا پتہ نہ لگ جائے۔ اور صدیوں کے بعد یہ کہہ سکیں کہ معاذ اللہ معاذ الله امام حسین علیہ السلام کے قاتل تو خود شیعہ تھے۔
اس طرح مورخین لکھتے ہیں کہ ابن زیاد نے جو عمر سعد کو خط لکھا کہ: حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے لئے پانی بند کر دو اور ایک قطرہ پانی ان تک نہ پہونچنے دو ، جس طرح عثمان ابن عفان خلیفہ کے ساتھ ان لوگوں نے کیا تھا۔
(تاریخ طبری، ج ۲، ص ۴۱۲)
اسکے علاوہ جب اسیرانِ اہل بیت علیہم السلام واپس مدینہ آے بنی ہاشم کے گھروں میں آہ و بکا کی آوازیں بلند ہو گیں۔ راوی کہتا ہے: اس وقت میں عمر ابن سعید اشرق کے پاس گیا۔ عمر اس منظر کو دیکھ کر قہقہہ لگا رہا تھا اور اہل بیت نبوت کی دشمنی میں اس نے شعر پڑھا اور اسکے بعد کہتا ہے
ہذہ واعیۃ بواعیۃ عثمان ابن عفان۔
(طبری، ج۵، ص۴۶۶)
یہ وہ آہ و بکا اور مصیبت عثمان ابن عفان کی مصیبت کے مقابل میں ہے۔
یہ چند شواہد ہیں جو اس بات کو بتانے کے لئے کافی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے والے بنی امیہ اور آل سفیان کے پیرو کار تھے۔ اسکے علاوہ ایک اور حقیقت ہے دشمنان اہل بیت حضرات جس کا انکار کرتے ہیں اور اپنی بات ثابت کرنے کے لئے سینکڑوں صفحات سیاہ کر چکے ہیں وہ یہ ہے کہ یزید نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنے کا نہ فرمان جاری کیا اور نہ ہی لشکر بھیجا۔ جبکہ تاریخ اور مکتب اہل بیت علیہم السلام سے آشنا ہر شخص کے لئے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اہل شام سے لشکر پر شکر آیا تھا اور یزید ہی کا ناپاک ہاتھ امام حسین علیہ السلام کے خون سے آلودہ ہے۔ من جملہ دلیلوں میں ایک وکیل یہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام سے کسی نے نویں اور دسویں محرم کے روزہ کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا :
تَاسُوْعَا یَوْمٌ حُوْصِرَ فِیْہِ الْحُسَیْنُ وَ اَصْحَابُہُ بِکَرْبَلَاءَ وَاجْتَمَعَ عَلَیْہِ خَیْلُ اَہْلِ الشَّامِ وَ اَنَاخُوْا عَلَیْہِ وَ فَرِحَ ابْنُ مَرْجَانَۃَ وَ عُمَرَ بْنُ سَعْدٍ بِتَوَافُرِ الْخَیْلِ وَ کَثْرَتِہَا وَاسْتَضْعَفُوْا فِیْہِ الْحُسَیْنَؑ وَ اَصْحَابَہُ وَ اَیْقَنُوْا اَنَّہٗ لَا یَاْتِیْ الْحُسَیْنَ نَاصِرٌ وَلَا یُمِدُّہٗ اَہْلُ الْعِرَاقِ بِاَبِیْ الْمُسْتَضْعَفِ الْغَرِیْبَ……
(کافی، ج ۴، ص۱۴۷)
نویں محرم وہ دن ہے جس دن امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کا کربلا میں شام کے لشکر نے محاصرہ کر لیا۔ ابن زیاد اور عمر سعد اپنے لشکر کی کثرت دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اور وہ لوگ عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر مسلط ہو گئے اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ اہل عراق سے کوئی انکی مدد اور نصرت آنے والی نہیں ہے۔
اس روایت کے مطابق یہ لوگ اس وقت خوش ہوئے جب شام کا لشکر کربلا میں وارد ہوا۔ اس سلسلہ میں شیخ صدوق نے اپنی سند سے نقل کرتے ہے کہ :
وَ نَظَرَ الْحُسَیْنُ ؑ یَمِیْنًا وَ شِمَالًا وَلَا یَرَی اَحَدًا فَرَفَعَ رَاْسَہُ اِلَی السَّمَاءِ فَقَالَ اللّٰہُمَّ اِنَکَ تَرَی مَا یُصْنَعُ بِوَلَدِ نَبِیْکَ …… وَ اَقْبَلَ عَدُوُّ اللہِ سِنَانٌ الْاِیَادِیُّ وَ شِمْرُ بْنُ ذِی الْجَوْشَنِ الْعَامِرِیُّ لَعَنَہُمَا اللہُ فِیْ رَجَالٍ مِنْ اَہْلِ الشَّامِ۔
(امالي صدوق، ص ۲۲۶)
امام حسین علیہ السلام داہنے بائیں دیکھا اور جب کوئی نظر نہ آیا تو آسمان کی طرف سر بلند کر کے فرمایا: اے اللہ تو دیکھ رہا ہے کہ تیرے پیغمبر کے بیٹے کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ اس وقت سنان ابن انس، شمر بن ذی الجوشن اور شام کے کچھ لوگوں نے آپ پر حملہ کر دیا۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اہل شام کا لشکر امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے آیا تھا۔ جی ہاں۔ بنی امیہ کے لوگ عاشور کو اسی خوشی میں روزہ رکھتے ہیں ۔ اور ان کی بعض وہابی کہتے ہیں :
ذلک یوم قتل الحسین، فان کنت سامتاً فصم۔
عاشور کا دن حسین علیہ السلام کے شہید ہونے کا دن ہے اور اگر اہل بیت علیہم السلام سے اس دن خوشی کا اظہار کرنا چاہتے ہو تواس دن روزہ رکھو۔
عاشورہ کے دن روزہ رکھنا بنی امیہ کی سیرت رہی ہے۔ کیونکہ شیخ طوسی رحمت اللہ علیہ امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا :
اِنَّ آلَ اُمَیَّۃَ لَعَنَہُمُ اللہُ وَ مَنْ اَعَانَہُمْ عَلَی قَتْلِ الْحُسَیْنِ مِنْ اَہْلِ الشَّامِ نَذَرُوْا نَذْرًا اِنْ قُتِلَ الْحُسَیئنُ (ع) وَ سَلِمَ مَنْ خَرَجَ اِلَی الْحُسَیْنِ وَ صَارَتِ الْخِلَافَۃُ فِی آلِ اَبِیْ سُفْیَانَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا ذَالِکَ الْیَوْمَ عِیْدًا لَہُمْ یَصُوْمُوْنَ فِیْہِ شُکْرًا فَصَارَتْ فِیْ آلِ اَبِیْ سُفْیَانَ سُنَّۃً اِلَی الْیَوْمِ فِی النَّاسِ۔
(امالی طوسی، ص ۶۱)
بیشک آل امیہ اور شام کے لوگوں میں سے جن لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنے میں مدد کی تھی انہوں نے نذر کیا تھا کہ اگر حسین علیہ السلام کو قتل کرنے پر کامیاب ہو گئے اور قتل کر دیا اور خلافت کو آل ابی سفیان نے حاصل کر لیاتو اس دن کو عید منائیں گے اور شکرانے کے طور پر روزہ رکھیں گئے اور یہ آل ابو سفیان کے لئے آج تک ایک سنت کے عنوان سے چلا آرہا ہے۔
قارئین یہ چند شواہد ہیں جن سے عاشورہ پر اعتراض اور عاشورہ میں گریه و نوحہ و ماتم کی مخالفت کا فتوی صادر کرنے کی وجہ آپ جان سکتے ہیں۔ اس جگہ سے اپنارخ مضمون کے دوسرے رخ کی طرف کرتے ہیں اور یہ ذکر کرتے ہیں کہ عاشورہ کی بقاء کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم سلام نے کیا کیا ہے۔
(۱) عاشورہ کے بعد ہونے والے حادثات
عاشورہ کے بعد دنیا میں مختلف حادثات و واقعات رونما ہوئے۔ من جملہ چاند گرہن لگنا۔ زمین سے جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے پیچھے سے خون ابلتا تھا۔ اس سلسلے میں چند روایت اہل سنت کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں اور وہ لوگ ان حدیثوں کی صحت کا اقرار کرتے ہیں (اس طرح کی روایتوں کا پایا جانا معجزہ سے کم نہیں ہے( طبرانی کہتے ہیں ام حکیم کہتی ہیں
قتل الحسین ؑ و انا یومئذ جویر فہکثت المساء ایاماً مثل العقلۃ۔
(مجمع الزوائد، ص ۱۹۶۹)
جب امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو میں جوان تھی اس دن کے بعد آسمان مدتوں سرخ تھا۔
ابو بکر ہیثمی اس روایت کے بعد کہتے ہیں: اس حدیث کے راوی سب کے سب صحیح ہیں۔ پھر ابو بکر ہیثمی مزید کہتے ہیں ابو قبیل کہتا ہے
لما قتل الحسین ابن علی ؑ انکسفت المشس کسفۃ حتی بدت الکواکب نصف النہار، حتی ظننا…ہی۔
حسین علیہ السلام شہید ہو گئے تو سورج کو گرہن لگ گیا اور آسمان میں اس طرح اندھیرا چھا گیا کہ ستارے نکل آئے یہاں تک کہ مُجھے گمان ہونے لگا کہ قیامت آگئی ہے۔
ہیثمی دوسرے شخص سے ایک اور حدیث اس طرح روایت کرتے ہیں :
لما قتل الحسینؑ انتبہت جزور من عسکرہ، فما طبقت اذا ہی دم۔
جب حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا، امام کے لشکر سے کسی نے ایک اونٹ چوری کر لیا تھا، جب اس اونٹ کو ذبح کیا اور پکایا تو اس کا گوشت خون میں تبدیل ہو گیا۔
ہیثمی کہتے ہیں اس حدیث کے تمام راوی صحیح ہیں۔ ابن کثیر دمشقی بھی اس سلسلے میں کہتے ہیں اسکی بات پر توجہ کریں کیونکہ یہ ابن تیمیہ کا شاگرد ہے۔ وہ اپنی تاریخ میں لکھتا ہے :
اکثر وہ روایتیں جو قاتلین حسین پر نازل ہونے والی بلاول اور آفتوں پر مشتمل ہیں صحیح ہیں۔ یہ لوگ طرح طرح کی مصیبت اور بلا اور بیماری میں مبتلا ہوئے اور ان میں سے اکژ دیوانگی میں مبتلا ہوئے۔
۲ – عزاداری اور امام حسین علیہ السلام پر گریہ و بکا :
امام حسین علیہ السلام پر گر یہ اور بگا کے سلسلے میں اتنی حدیثیں پائی جاتی ہیں جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ روایتیں فریقین کی کتابوں میں موجود ہیں (ان حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر تمام ائمہ علیہم السلام نے عاشورہ کی بقاء کے لئے خاص انتظام کیا )۔ من جملہ امام احمد ابن حنبل ایک شخص سے جو صفین میں امام علی علیہ السلام کے ساتھ تھا اس طرح روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتا ہے: کوفہ سے پلٹتے وقت جب امیر المومنین علیہ السلام کر بلا پہونچے :
فنادی علی ؑ: اصبر یا ابا عبداللہ! اصبر یا ابا عبداللہ بشط الفرات۔ قتلت: وما ہذا قال: دخلت علی النبی(ص( ذات یوم و عیناہ تفیضان۔
(مسند احمد، ج ۲، ص ۷۸)
علی علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کو صدا دیتے ہیں:اے ابا عبد اللہ صبر کرو، اے اباعبد الله صبر کرو۔ فرات کے کنارے صبر کرو۔ راوی کہتا ہے: میں نے ان جملوں کی وضاحت امام سے چاہی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: ایک دن یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھا جبکہ حضرت کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ اس وقت کربلامیں فرات کے کنارے (حسین علیہ السلام( کے شہید ہونے کی مجھے خبر دی۔
امام حسین علیہ السلام بھی جنگ صفین میں تھے اور پورے سفر میں علی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ اس روایت کے نقل کرنے کے بعد ابو بکر ہیثمی کہتا ہے: اس حدیث کے تمام راوی سچھے ہیں: اس طرح ام سلمہ کی روایت کو طبری نے معجم الکبیر میں نقل کیا ہے۔ اختصار کے پیش نظر پیش کرنے سے معذور ہیں۔
عزاداری کا مختلف انداز
ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام سے جابر نے پوچھا: جزع کیا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا
اَشَدُّ الْجَزَعِ الصُّرَاخُ بِالْوَیْلِ وَالْعَوِیْلِ وَ لَطْمُ الْوَجْہِ َالصَّدْرِ وَ جَزُّ الشَّعْرِ مِنَ النَّوَاصِیْ۔
زور سے چلانا۔ واویلا کرنا۔ سر و سینہ کوٹنا اور سر کے بال اکھاڑنا ہے۔
اور ایک حدیث میں امام علیہ السلام سے وارد ہواہے
کُلُّ الْجَزَعِ وَ الْبُکَاءِ مَکْرُوْہٌ سِوَی الْجَزَعِ وَالْبُکَائِ عَلَی الْحُسَیْنِ ؑ۔
(وسائل، ج ۳، ص ۲۸۲، ح ۳۶۵۷)
ہر قسم کا چیخنا چلانا اور رونا مکروہ ہے سوائے غم حسین علیہ السلام میں رونے کے۔
مجلسوں میں شرکت
راوی کہتا ہے میں نے امام کاظم علیہ السلام سے سوال کیا: میر بیوی اور ابن مارد کی بیوی مجلس عزا میں شر کت کو آئی ہیں اور ہم جب انہیں منع کرتے ہیں تو وہ کہتی ہیں اگر ہماری شرکت حرام ہے تو کہو ہم نہیں جائیں گے اور اگر حرام نہیں ہے تو ہمیں کیوں منع کر رہے ہوں۔ اگر کوئی ہمارا دنیا سے رحلت کر جائے گا تو دوسرے لوگ بھی ہماری مجلس عزامیں نہیں آئیں گے۔ امام کاظم علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :
عَنِ الْحُقُوْقِ تَسْاَلَنِیْ کَانَ اَبِیْ (ع) یَبْعَثُ اُمِّیْ وَاُمَّ فَرْوَۃَ تَفْضِیَانِ حَقُوْقَ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ۔
تم معاشرہ کے حقوق کے بارے میں مجھ سے سوال کر رہے ہو۔ میرے بابا (امام صادق علیہ السلام) میری ماں اور ام فروہ کو مدینہ کے گھروں میں عزاداری کے لئے بھیجتے تھے تا کہ انکے حقوق ادا کر سکیں۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ عزاداری کی مجلسوں میں شریک ہونا اہل بیت علیہم السلام کا طریقہ تھا اور عورتوں کو مجلسوں میں شرکت سے روکنا نہیں چاہئے ۔
عزاداروں کے لئے کھانا بھیجنا
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :
جب جعفر تیار شہید ہو گئے اور انکا پورا گھر عزاداری میں مشغول تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے گھر والوں کے لئے کھانہ پکاؤ اور تین دن تک اُن کے گھر کھانہ بھیجو تا کہ وہ عزاداری میں مشغول رہیں۔
(وسائل الشیعہ، ج ۳، ص ۲۲۱)
سیاہ کپڑے پہننا
ابن ابی الحدید معتزلی لکھتا ہے کہ جب علی علیہ السلام کی شہادت ہوئی تو امام حسین علیہ السلام سیاہ لباس پہن کر باہر نکلے۔ اور چھٹے امام علیہ السلام سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے :
لَمَّا قُتِلَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلَیِّ ؑ لَبِسَ نِسَاءُ بَنِیْ ہَاشِمٍ السَّوَادَ وَالْمُسُوْحَ وَ کُنَّ لَا یَشْتَکِیْنَ مِنْ حَرٍّ وَلَا بَرْدٍ وَ کَانَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ (ع( یَعْمَلُ لَہُنَّ الطَّعَامَ لِلْمَاتَم۔
جب امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے بنی ہاشم کی عورتوں نے سیاہ لباس زیب تن کیا اور مجلس عزا قائم کی اور امام سجاد علیہ السلام ان کے کھانے کا انتظام کرتے تھے۔
کاروبار بند رکھنا
طبری کہتا ہے عزاداری کے لئے بازار اور کاروبار بند رکھنا مرسوم تھا :
و مکث الناس یبکون علی الحسین سبعا ما تقوم الاسواق
لوگ ایک ہفتہ تک بازار عزاداری کے لئے بند رکھتے تھے اور امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرتے تھے۔
(طبقات الکبری )ترجمه امام حسین( ص ۹۰)
یہ چند چیزیں ہیں جو ہمیں اس بات کا درس دیتی ہیں کہ ہمیں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی بقاء کے لئے ہر وہ کام کر نا چاہیئے جس سے عزاداری میں رونق پیدا ہو اور عزاداری کی بقاء کا ضامن ہو۔
آخری میں خداوند عالم کی بارگاہ میں دست بدعا ہے کہ خدا ہمیں امام حسین علیہ السلام کے عزاداروں میں قرار دے اور امام حسین علیہ السلام کے خون ناحق کا بدلہ لینے کے لئے وارث حسین کے ظہور میں تعجیل فرمائے۔