قاتلان امام حسین علیہ السلام کے عذاب میں تاخیر
بشر وقت کے تحت چل رہا ہے اور وقت خداوند متعال جو قادر مطلق ہے اس کی قدرت کے تحت اور تابع ہے ۔ وہ چاہے تو وقت تھم جائے ۔ وہ چاہے تو وقت کی رفتار تیز ہو جائے ۔ وہ چاہے تو وقت کا دامن تنگ ہو جائے وہ چاہے تو وقت کا دامن وسیع ہو جائے۔ شب و روز کی جلوہ گری پر نظر ڈالئے اور مختلف خطہ ہائے زمین پر نظر ڈالئے تو آج کی سائنس جس نے فاصلے نچوڑ کر رکھ دیئے ہیں وہ سامنے نظر کے آجاتے ہیں جہاں مہینوں رات کی تاریکیاں امنڈ امنڈ کر چھاتی رہتی ہیں اور جہاں ان خطوں کو اندھیروں میں ڈال دیا ہے وہیں روشنی کے لئے اسباب بھی مہیا فرماتے ہیں جہاں بشر اپنی زندگی گزارتے ہیں تاخیر او تعجیل انسان کی فطرت کے تقاضوں کا نام ہے ۔ غالب نے کہا ہے۔
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
انفرادی زندگی میں وقت کی تاثیر ایک انسان کی جب تک شعور کی آنکھیں نہیں ملتی ہیں وہ نہیں جانتا صبح کیا ہے شام کیا ہے؟ رات کیا ہے؟ سویا۔ جاگا کھیل اور دیکھتے دیکھتے وقت اس طرح گذرا کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جو چھوٹا تھا طفلگی میں تھا۔ آج اتنابڑا ہوا اور ہم اس کی بڑھت کو دیکھتے رہے لیکن یوں بھی نہ کر سکے کہ کیسے یہ رفتہ رفتہ اتنا بڑا ہوگیا۔ وقت نے اسے جوان کر دیا پھر شمع حیات رفته رفتی پگھلتی گئی اور جوانی پیری کے دائرے میں آگئی۔ اب نہ وہ جوانی کی شوخیاں میں نہ امنگ ہے نہ ترنگ ہے. نہ خیال زیبائش ہے نہ خیال خوش پوشی پر جیسے جیسے دن گذرتے گئے ہڈیوں کا رس سوکھنے لگا اور اٹھتے بیٹھتے کمزوری آخرت کا احساس دلانے لگی عیش و طیش سب اپنی اینی بساط لپیٹنے لگے۔
بقول جعفر علی اثر کے۔
اب کہاں وہ دل کہاں لطف بہار زندگی
داغ ہجراں بن گئے لیل و نہار زندگی
ثواب اور عقاب کا زوال امید کی روشنی میں انسان تعجیل اور تاخیر کبھی صبر اور کبھی بے صبری سے اس کی رسیدگی کا اندازہ لگاتا ہے اور اسے شب و روز کی پینے سے ناپتا ہے۔ لیکن کم غور کرتا ہے کہ یہی شب و روز کے پرانے سے ناپنے والا وہ دن جو اپنے میں استحکام رکھتا ہے وہی رات جو اپنے گذر کا تعین شدہ دائره سے باہر نہیں مشکلات میں دن بڑے ہو جاتے ہیں ۔ راتیں کاٹے نہیں کٹتیں یہ خدا کی قدرت کی نشانی ہے جو فطرت انسان کی گہرائیوں سے آواز دے رہی ہے۔ اے انسان تو مصلحت خدا کو اپنے انجانے احساس کے ترازو پر تول کر دیکھ۔
یہ وہی شب و روز ہیں جو مشکلوں میں طولانی ہو جاتے ہیں اور عیش میں پلک جھپکتے گذر جاتے ہیں ۔ کیا خوب نہ وقت تھرا نہ اس کی رفتاری میں کمی بیشی آئی۔ یہ سب سوچ اور فکر انسان کے تحت دل کو بجھانے اورمخاطب کرنے کے لئے ہے۔
مصلحت خداوندی
مصلحت خداوندی سے پر مخلوق کی کیا مجال کہ وہ اس کی مصلحت کو اپنی کوتاہ عقلی میں داخل کر سکے سمجھ سکے۔ یہ جائز نہیں کہ مصلحت خداوندی میں کوئی تبصرہ کوئی کشائی کی جرأت کرے اور جس نے بھی اپنی عقل دوڑائی وہ منہ کے بھل گرا۔
وقت کے گذر جانے کے بعد انجام تک پہنچنے کا نام تا خیر ہے اور حسب منشا وقت سے پہلے کی انجام کار کو دیکھ لینے کا نام تعجیل ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی شہادت :
اسی تعجیل اور تاخير جس سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں شامل اپنے ظلم کی انتہا پر مفاخرت کرنے والوں پر خدا جس کی بارگاہ سے عدالت کے بغیر کوئی پتہ نہیں پاتا اب تک کتنی مدت کے گذر جانے کے بعد بھی سینہ چوڑا کیے نہروانی صورت لئے آزاد گھوم رہے ہیں اور عذاب الہی کے غیبی شکنجوں سے آزاد ہیں ۔ آخر یہ تاخیر کیوں چاہنے والوں کی فریاد میں مختلف آواز میں سنائی دے رہی ہیں مثلا : مولا کب تک روئیں ۔ سچ ہے ہم رونے کے لئے ہی پیدا کئے گئے ہیں لیکن ہر قطره اشک کسی انتقام کی دہائی دے رہا ہے۔
حادثہ کر بلا :
نینوا کے چٹیل میدان میں جہاں چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے ایک قافلہ اترا۔ خیمے نصب ہوئے ۔ دوسری محرم ۶۱ھ کی تاریخ تھی۔ یہ خیمہ گاہیں پہلے فرات کے کنارے تھے حر کے لشکر نے حر کی سرکردگی میں یہ خیمہ ہٹائے گئے اور فرات کی نہر پر پہرے بٹھا دئیے گئے۔ کربلا سے کچھ دور پر فرات کی نہر بہہ رہی تھی ۔ اجمالا ایک جھلک اس جنگ یا اس حادثہ عظیم کی جس کے واقع ہونے کے بعد اس کی مثال نہ ما سبق زمانہ میں واقع ہوئی ہے اور نہ کبھی آئندہ صبح قیامت تک کبھی واقع ہوگی خوب کہا ہے: رقمطرازہوں اب کربلا نہ ہوگی کبھی کربلا کے بعد یہ بات قابل غور شکر ہے کہ کربلا کتے الوہی ترتیب، توثیق، تنصیب، تنظیم، تقدم، ہدایت اپنے وقت پر منضبط بہ مرضی الہی اور تعمیل فرمان الٰہی ایک ايسا زائچہ اور نقشا ملتا ہے جس کے ہر لمحے سے معرفت حقیقی کی روشنی سے جو یاں حق کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق ملتی ہے ۔ کربلا والوں کے سامنے کم سے کم تعداد تیس ہزار سے زیادہ کی بتائی جاتی ہے۔ یاد رہے جب حر کے لشکری دستہ نے امام حسین علیہ السلام کا راستہ روکا تھا اور جلال وارث شجاعت حیدر کرار کی تلوار نیام سے باہر آچکی تھی اور حُکم امام سے غلاف صبر میں چلی گئی اگر … اگر اسی وقت فیصلہ ہو جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا صبر حسینی نے تاخیر اور مہلت کا اقدام کیا اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو حر کو عاشور کی صبح نصیب نہ ہوتی۔ وہب کلبی اورحبیب ابن مظاہر کی زیارت گاہ عرش الٰہی کی طرف اشارہ کرتی ہوئی خدا شناسی اور جنگ میں جرآت و شجاعت کے مظاہر سے نہ دیتیں علی اصغر سے لے کر عباس علمدار کا طور و طرف کردار قلمبند نہ ہوتے۔ وہب کلبی اور مسلم ابن عوسجہ کہ ننھے بچے سے لے کر جوان اور پیری میں حوصل مند جنگجوؤں کا ذکر کبھی نہ ملتا۔ اور آخر میں حق شناسوں کی قربانیوں سے مفکر مشرق یہ نہ کہتے
نقش لا اللّٰہ بر صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت
اگر چودہ سو برس بعد وہ شاعر مشرق جسے ایران میں اقبال ہندی کہتے ہیں اپنے سقیفائ گردوپیش کے ماحول سے بالاتر ہو کر حقیقت اور حقانیت کی صدائے حق یہ کہ کر بلند نہ کرتا
رمز قرآں از حسین آموختیم
شعلہ ہا از آتش انڈوختیم
سچ ہے اگر تاخیر ہے عذاب الہی میں تو وجہ تاخیر ھی صاف ذہن میں آجاتی ہے۔
وقت کے چودہ سو برس کے فاصلوں نے صاحبان عقل و خرد افراد جویاں شعور و فکر ریاست کے وسیع افق سے کربلا والوں کی شہادت کو درک کرنے سے قاصر رہ جاتے اور بارگاہ ایزدی میں جب به مصداق راجعون حاضر ہوتے تو شکوہ برلب ہو جاتے ۔اسی لئے وقت کے پاؤں میں حادثه کربلا سے چھالے پڑتے گئے لیکن وقت گزرتا گیا تا کہ الله تبارک وتعالی جس کی سر پرستی کرتا اسے ظلمات سے نور کی طرف لے آتا ہے۔ یہی تاخیر عذاب الٰہی بر قاتلان امام حسین علیہ السلام اور راضی بر آن نسل در نسل مہارت پاتے گئے اور عذاب ان کے سر پر منڈلاتا رہا۔
راقم الحروف نے تاخیر عذاب بر دشمنان اہل حرم آج بھی بلتمکین مزاج کو پر غورور دماغ میں بھرے ہوئے ہیں ۔ آج بھی بے رحمی ۔ ایسی ویسی کے بیان سے روشنی کے بجاۓ قلم اس بے رحمی پرخون اگلنے لگے۔ یہ انشا نہیں بلکہ عین حقیقت ہے کیا بعد شهادت امام حسین علیہ السلام بعد دو پہر اندھیرا نہیں چھا گیا۔ پھر اٹھاؤ تو زمین سے خون ابلنے نہیں لگا۔ آسمان خون کے آنسو رویا فرات کا پانی نیزوں اچھلنے لگا۔ آثار قیامت تھے صرف یہ تو آثار تھے قیامت کے لیکن قیامت کیوں ٹھہر گئی قیامت کیوں پرپا نہیں ہوئی یہ مالک یوم الدین کی دی ہوئی اس مہلت پر مبنی ہے جو خالق وقت نے وقت معلوم کے لئے ٹال دیا ہے۔ روایات میں ہے کہ جتنے خون ناحق میں شریک تھے تین سال کے اندر اندر واصل جنم ہوئے۔ آپ نے عبدالله ابن حر جعفی سے سفر میں جب آپ تھے تو کہہ دیا تھا تو اتنی دور چلا جا که میری صدائے استغاثہ تیرے گوش گزار نہ ہو ورنہ یاد رہے جو میری آواز استغاثہ کو سنے گا اور میری طرف نصرت کے لئے حرکت نہیں کرے گا وہ صرف تین سال اپنی حیات کے کاٹ لے بعدئ ہلاکت لازم ہے۔ یعنی اس پر عذاب کا شکنجہ بالیقین ہے۔ (یہاں بھی ۳سال کی مدت قابل غور ہے۔ یہ آقا کا رحم کا ایک زاویہ ہے۔) ایک روایت میری نظر سے گذری ہے ایک شخص ایک محب اہل بیت اور عاشق حسین کے گھر میں مہمان ہوا۔ رات آئی۔ میزبان سے مخاطب ہوا کھا سنا ہے حسین ابن علی نے کہا تھا جو میرے قاتلوں میں ہے نہیں بلکہ میری آواز استاد کو سنے گا اور میری مدد کے لئے قدم نہیں بدھائیاگا وہ تین سال میں ہلاک ہو جائے گا۔ میں تو سنا ہی ہوں اور لشکر یزیدی میں کربلا میں موجود تھا۔ حسین کے خلاف جنگ کی تین سال گذرنے کو آئے شاید ایک یا دو دن باقی ہوں گے لیکن مجھ پر قول حسین بن علی صادق نہیں آیا۔ بوقت استراحت و سامنے چراغ کے پاس اسے گل کرنے کے لئے گیا۔ چراغ کی لو نے اس کی داڑھی کو پہلے گرفت میں لیا اور اس کے بعد وہ ملعون جل کر اپنی منزل عذاب کو پہونچ گیا۔ میزبان نے کہا کتنا صادق القول ہے میرا مولا حسین۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حادثه کربلا کے بعد ایک ایسا عذاب کیوں نہیں آیا جو مشرق سے لے کر مغرب تک تمام دشمنان حسین پر نازل ہوتا اور ظالمین اپنے معذب ہونے پر یا نیست و نابود ہو جاتے یا اپنے معذب چہرے کے ساتھ دکھائی دیتے۔ اس لئے کہ روایت میں ہے کہ اضعاف عذاب مسخ ہے۔ اب تک اس کے مصداق بھی بہت کم ملتے ہیں شاید اس کی وجہ رہی ہو کہ امام حسین علیہ السلام اپنے استغاثہ کی آواز کی قید کر دی تھی اور اس کے لئے تین سال کی مدت بھی دی تھی ۔ وہ امام رحمت کا نواسہ جس پر یا ایتھا النفس سے مخاطب ہو کر ارجعی کا امر ارشادی اللہ کی طرف سے پہلے ہی صادر تو چکا تھا اس نے ارض خاکی کو مہلت اور بڑی مہلت دی ہے۔ ویسے تو خدا نے فرعون اور قارون کو بلاک کر دیا مگر آج تک شیطان کو زندہ رکھا تاخیر عذاب شدت عذاب کی علامت ہے۔
مہلت اورعذاب :
مہلت : جب مہلت کا لفظ فکر کے بھنور سے ابھر کر زبان میں آتا ہے تو کوئی متنفس ایسا نہیں ہے جو اپنے اعمال و افعال کردار۔ ارتکاب گناہ اور اپنی روش کے محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا یہ اور بات ہے کہ اس کی آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑ جائیں اور وہ اس مہلت کے سفر میں بجائے اس کے کہ ٹہر کر غور و فکر کرے اور اصلاح کی طرف جائے۔ استغفار اور توبہ سے کام لے۔ پرہیز گاری اختیار کرے یا اپنی سعی بلیغ کو پرہیز گاری کی طرف ڈال دے۔ بلکہ کہہ رہا ہے ان لوگوں پر اب تک عذاب نازل کیوں نہیں ہوا۔ آج بھی طرفداران ظلم وستم کے بہترین ایسے بدترین ایسے بد بخت کہ بیان اس سے قاصر ہے عذاب کے شکنجوں سے بالکل آزاد سينہ تانے گھوم رہے ہیں بلکہ اور زیادہ تعداد میں ہیں اور تمام تبلیغات باطلہ جو اس زمانہ میں مروج ہے اس پر قابض ہیں۔ مسجدوں میں محبان حسین علیہ السلام فریاد اور ناله و بکا کے ساتھ کہ رہے ہیں مولا کب تک گریہ کریں گے۔ مولا میرے مولا آپ منتقم خون حسین ہیں۔کب ایسا ہوگا کہ آپ چن چن کر بدلا لیں گے ۔ کیا یہ نالہ وزاری۔ استضعاف کے مارے شیعیان علی یا حسین کے چاہنے والے ۔ دنیا کے ہر گوشہء و کنار میں تہے تیغ آچکے ہیں لیکن یہ نہ دعائے مادر حسین علیہ السلام اور انتقام خون حسین سے ایک لمحے کے لئے بھی مایوس اور نا امید نہیں ہیں۔
تاخیر عذاب الہٰی بر قاتلان حسین ایک مہلت :
پہلی علت جو سمجھ میں آتی ہے وہ ایک ایسی حالت ہے جس سے ہر عاشق حسین اپنا اچھی طرح سے محاسبہ کرے کہیں ایسا تو نہیں خود اپنی قوم میں بے پردگی، بے حیائی اور اس پر بے جا تاویل کی بحث تو نہیں آگئی ہے کہیں ایسا تو نہیں غیبت تساہلی از عبادت، یا توجه در عبادت، خانوادہ میں کردار سازی کے امر به معروف ونہی از منکر کے تذکروں کا فقدان تو نہیں آگیا۔ یاد رہے جیسے جیسے زمانہ ترقی کے نام پر انسانیت جیسی رجیمیت لباس زبیان تن کر افراد و ملت کے کردار میں چیونٹی کی طرح تو نہیں رینگنے لگی ہیں انسان کش ہوتا جارہا ہے برہنگی اور درندگی ۔ یہی دور امتحان ہے۔ دس روز کی عزاداری درسگاہ ہے جو انجام بخیر کی طرف دعوت دے رہی ہے اور عذاب کی مہلت کو اپنے لئے بھی سبھلنے کے لئے حق تعالی کی طرف سے توفیق اور نعمت بزرگ درک کرنا ہے عین مقصد عزاداری ہے۔ دوسری وہ علّت ہے جس کو چاہنے والوں نے امامان معصوم سے دریافت کیا اور آپ نے ان کی تسکین قلب او تسلیت ذہنی و فکر و شعور کے لئے معصوم نے بیان فرمائیں ہیں ۔
امام علیہ السلام کا جواب :
ابن بابویہ بسند معتبر فرماتے ہیں کہ ایک روز ابو الصالت نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے دریافت کیا قاتلان امام حسین علیہ السلام پر عذاب الٰہی انتقام کی صورت میں وقت ظہور امام نازل ہوگا اور قاتلان حسین کے فرزندوں سے امام مہدی علیہ السلام انتقام لیں گے ۔ امام رضا علیہ السلام نے تصدیق کی اور کہا ایسا ہی ہوگا ۔ ابو الصلت ہروی نے پھر سوال کیا مولا! قاتلان امام حسین علیہ السلام کی نسل کے لوگوں میں جو اس وقت معذب ہوں گے یا قتل ہوں گے ان کا گناہ کیا ہوگا جس کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوگا۔ امام نے ارشاد فرمایا حق تعالی کے انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر کوئی ظالم کی مظلوم کو مشرق میں قتل کرے گا اور کوئی شخص مغرب میں اس کے اس ظلم پر راضی ہوگا تو اس کے لئے بھی وہی سزا ہے جو اصل قاتل کے لئے ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل زمان کا ہو یا زمین کا سزا جس طرح ظالم کے لئے ہے اسی طرح اس کے لئے بھی ہے جو اس پر راضی ہوا۔ امام سجاد علیہ السلام نے اس بابت ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل کے لئے خداوند متعال نے بروز شنبہ مچھلی کا شکار کرنے کے لئے منع فرمایا اور بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی جس کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا اور بعد جو روز شنب مچھلی کا شکار کرتا ہے وہ کوئی بھی ہو اس پر بھی عذاب الہی نازل ہوگا۔
بس ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک جماعت اولاد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی ہتک حرمت کرے حالانکہ اس دنیا میں اگر وہ عذاب سے مہلت پائے ہوئے ہے اس کا مطلب ہی نہیں ہے کہ آخرت میں وہ اس کے لئے وہ عذاب مہیّا نہ کیا گیا ہو۔ اضعاف گناه اگر مسخ ہو جاتا ہے تو وہ آخرت میں بھی مسخ ہوگا اور جو آپ کے قتل کو سن کر راضی ہوں گے اور امام کے ظہور میں زندہ رہیں گے صاحب ذوالفقار انہیں تہہ تیغ کر دیں گے ۔ اسی مجلس میں ایک شخص نے امام سے دریافت کیا اگر روز شنبه شکار ماہی موجب عذاب ہے تو خدا دشمنان اہل بیت اور قاتلان حسین جو ان سے کہیں زیادہ گناہ گار ہیں ان کے چہروں کو مسخ کیوں نہیں کر دیتا ہے۔ اسی قسم کے سوال مخالفوں کی طرف سے بھی اٹھتے ہیں۔ اس پر امام نے جواب دیا بہت سے ایسے ہیں جن پر خدا نے عذاب بھیجا لیکن شیطان پر عذاب نہیں کیا اور اسے مہلت دی اور خدا کی حکمت و مصلحت پر زبان کھولنا جائز نہیں ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے دنیا میں کم گناہ کئے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جنہوں گناہ کرنے میں پیش قدمی کی ہے ان سب کے لئے قیامت میں بڑے سخت عذاب کی منزل ہے۔
ابن قولویه بسند معتبر روایت نقل کرتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: خدا قسم بہت زیادہ قاتلان حسین علیہ السلام قتل ہو چکے ہیں لیکن خون حسین علیہ السلام کی فریاد کم نہیں ہوتی ہے۔ رجعت اور قیامت میں جب سب کو تہہ تیغ کیا جائے گا تب کہیں خون امام حسین علیہ السلام طلب انتقام ساکت ہوگا۔ اس سلسلہ میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار حق تعالی نے وحی کے ذریعہ ارشاد فرمایا: میں نے جب جناب یحییٰ علیہ السلام کے خون کا بدلا لیا تو ستر ہزار لوگوں کو قتل کر کے بدلا لیا اور خون حسین علیہ السلام کے بدلے میں بھی ستر ہزار لوگو کو قتل کرکے بدلا لیا اور خون حسین علیہ السلام کے بدلے میں بھی ستّر ہزار کو زیر خنجر لاونگا۔ امام جعفرصادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں سو ہزار قاتلان حسین قتل ہو چکے ہیں لیکن خون آنحضرت ابھی ساکت نہیں ہوا ہے۔ امام سجاد علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ بخدا جب مرے بابا کسی منزل پر ایسا نہیں ہوا ہے کہ قیام کرتے وقت اور وہاں سے روانہ ہوتے وقت جناب یحییٰ علیہ السّلام کو یاد نہ کیا ہوا۔ آپ نے فرمایا ہو کہ ایک معصوم نبی کو قتل کیا ایک بدکار اور زنا کار عورت کو ان کا سر پیش کیا گیا تو خدا نے ستر ہزار خیانت کاروں کا جب تک خون نہ بہا دیا ہو جناب یحییٰ علیہ السلام کا خون ساکت نہیں ہوا۔ بخدا سو گناہ میرا خون بھی ساکت نہ ہوگا جب تک منافقین خیانت کار اور میرے قتل پر راضی ہونے والوں کو جو بھی ہے جہاں بھی ہے بلتعداد ستر ہزار لوگوں کا خون نہ بھیگا میرا خون ساکت نہ ہوگا۔ خدا قسم میرا خون ساکت نہ ہوگا یہاں تک کہ میرا فرزند مہدی آخر الزماں ظہور کرے اور ستر ہزار منافقین کو قتل کرے گا۔
امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں میں وہ بھی شریک ہیں جو آپ علیہ السلام کے خون ( جسے ثار اللہ) کہتے ہیں بہانے پر راضی ہوئے اور ان پر عذاب نازل ہوا ہے۔ نازل ہو رہا ہے اور ایک بڑے عذاب کا پیش خیمہ ہے جو وقت ظہور امام زمان علیہ السلام جو منتقم خون حسین ہیں ظاہر ہوگا۔ جو رجعت سے بچ جائیں گے روز قیامت ان کا جو حشر ہوگا اس کا تصور ذہن انسانی سے اس لئے بعید ہے کہ اس وقت وہ عذاب دےگا جسکی قدرت اور جسکا غلبہ لامحدود ہے۔
راقم الحروف کا سلام ہو ان ماؤں پر جن کا پاکیزه شیر خون بن کر ماتمیان مظلوم کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور وہ قاتلان حسین پر عذاب الہی کی تاخیر سے بے چین ہیں ۔ ایسے بے چین کہ ان کے دل کی رگیں ٹوٹتی ہیں اور آنسو بن کر آنکھوں سے ظاہر ہوتی ہیں پھر بھی ہر آنکھ ظہور امام علیہ السلام کی طرف کی ہوئی ہیں کہ آپ علیہ السلام کا ظہور ہوگا کہ آپ خوان امام حسین علیہ السلام کا بدلہ لیں گے عجل علی ظہورک ۔ آمین۔