قطرۂ نجات

آج سے کئی ہزار سال قبل اس کار زارِ ہستی پر جب بشریت کا شجر اُگایا گیا ۔ جس کی شاخیں زمین نہیں بلکہ آسمان میں پیوست تھیں، وہ ہدایت و رہبری کا شجر جس کو تمام مخلوق کے لئے پروردگار نے سایہ قرار دیا تھا۔ وہ ہستیاں انبیاء و مرسلین علیہم السلام تھیں۔ یہ وہ سلسلہ تھا جس کی ابتداء جناب آدم علیہ السلام سے ہوئی اسی کے زیرسایہ بنی آدم کی کشتی نجات کا سفر ہونا تھا جناب آدم علیہ السلام سے لے کر جناب خاتم تک انبیاء علیہم السلام نے حتیٰ الامکان کوشش کی اور نجات انسانی کا راستہ واضح اور روشن کرتے رہے ۔
اگر لغت کی طرف رجوع کریں تو قطرہ کے معنی ہیں قلیل، مختصر، جو کہ کسی کثیر سے ملنے کے بعد اُس میں شامل ہو جاتا ہے۔ یعنی اُس کا خود کا وجود مختصر ہے لیکن جب کسی سے منسلک ہو اپنی حالت تبدیل کرلیتا ہے ۔
نجات ہے کیا اور کیوں اس کو رکھا گیا، یہ قابل غور بات ہے کہ انسان جب دنیا میں بھیجا گیا تو اس انسان کے ساتھ ایک اور شخصیت جو ”عدو مبین“ کے نام سے جانی جاتی ہے وہ بھی موجود تھی اور جس نے اپنے حربہ استعمال کرنا شروع کر دئے تھے جس کا خمیازہ جناب آدم علیہ السلام اور جناب حوا کو جنت سے نکل کر دینا پڑا۔
پروردگا ر اپنی مخلوق سے بہت محبت کرتا ہے لہٰذا اسے ان کو سزا دینا پسند نہیں اُس نے جنت اور جہنم خلق تو کیے لیکن اُس کا ارادہ یہی تھا کہ میری تمام مخلوق نجات حاصل کرے اور جنت اُن کا ابدی مسکن ہو۔ لیکن اُس کے علم میں یہ بھی تھا کہ یہ ”عدو مبین “ یعنی ابلیس اور ابلیسیت کے کارندے ہرگز ہرگز اس کی خوشبو نہیں سونگھ پایئں گے اور خود کے ساتھ ساتھ دیگر کو بھی اس سے دور لے جائیں گے۔ اس لئے ذات کریم کا یہ فضل تھا کہ اُس نے ابلیسیت کے شر سے بچنے کے لئے منجی یعنی انبیاء و اوصیاء علیہم السلام بھیجے ۔
اس نجات دلانے کے سفر میں انبیاء و اوصیاء علیہم السلام نے بڑی محنتیں کیں اور کئی صعوبتیں برداشت کیں۔ لوگوں کو اللہ کی عبادت کی طرف متوجہ کروایا اُس کی رضامندی اور ناراضگی کو لوگوں کے سامنے پیش کیا جس پر عمل پیرا ہوکر لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں اور ہلاکت سے محفوظ ہو سکیں ۔
اسی نجات دلانے کے سفر میں حجت خدا نے کبھی پتھر کھائے لوگوں کے ظلم برداشت کئے آگ میں پھینکے گئے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کی فاقہ کئے گھر لٹا قتل ہوئے لیکن مقصد ایک تھا کہ لوگوں کو ہدایت مل جائے، خدا کا دین اُن کے دلوں میں پیوست ہوجائے اور وہ کامیاب ہوجائیں۔
گزشتہ تمام انبیاء علیہم السلام نے جو تبلیغ دین میں محنت کی تھی سردارِ انبیاء نے اُس کو یکجا کرکے ایک ساتھ دنیا والوں کے سامنے ایک کامل دین ،دین اسلام کی شکل میں پیش کیا جو کہ قرآن کریم کے مطابق پروردگار کا پسند یدہ دین ہے۔ خود سرکارِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی محنت اور گزشتہ تمام انبیاء علیہم السلام کی محنت کا نچوڑ اس دین اسلام میں موجود تھا۔
اعلان غدیر کےبعد اب لوگوں پر حجت تمام تھی کہ دین مکمل ہو چکا ہے اور جو تعلیمات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے بیان کی ہیں بس وہی دین کا حصہ ہیں اور جو لوگ اس پر عمل پیرا ہونگے بس اُنھیں کی نجات ممکن ہے۔ لہٰذاتمام فروع اب صرف اس شرط کے ساتھ قبول ہونگے کہ وہ ارشادات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور قرآن کے مطابق ہوں گے ۔ تب جاکے وہ موضوع کہ جس کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں، نجات ممکن ہو پائے گی ۔
آئیے اب اپنے زاویے کو بدلیں ہم دیکھیں کہ بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کیا وہ سوالاکھ انبیاء علیہم السلام کی کئی سوسالہ محنت کا استحصال نہیں ہونے لگا تھا ۔
دھیرے دھیرے آہستہ آہستہ وہی ابلیس اور ابلیسیت اُسے اندر سے کھوکھلا نہیں کرنے لگی تھی لوگ خدا کی فرما برداری اور نافرمانی کے امتیاز کو بھولتے جا رہے تھے ۔ اور ہوتا بھی کیوں نہ جب کہ جانشین پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے ہٹ کر دین کو حاصل کرنے کی قواعد عام ہو گئی تھی۔ دین سڑکوں اور چوراہوں پر نیلام ہونے لگا تھا ۔ حکمران اسلام مال و دولت اور اقتدار کے بھوکے ہو چکے تھے ۔ پاسبان ِ اسلام نظر بند کئے جا چکے تھے ۔
گویا راہ نجات غیر ممکن اور غیر معروف ہوچکی تھی۔ کیا ایسے ماحول میں جہاں لوگوں کے دل جھوٹ، چوری، ظلم، حق تلفی اور نہ جانے کتنی کثافتوں سے پُر ہو چکے تھے، نجات پا سکتے تھے؟ کیا ایسے ماحول میں ہدایت کی ایک کرن کافی تھی جو ایک مخصوص علاقے کو روشن کرتی یا کہ پورا آفتاب چاہئے تھا جو اس کائنات کو روشن کرے اور روشن ہی نہ کرے بلکہ باطل پرستوں کی آنکھوں کو خیرہ کردے اور نجات کے خواہش مندوں کو ظلمات سے نکال کر نور میں لے آئے ۔
وہ آفتاب کہ جس کی تمازت اہل باطل کو جھلسا دے اور اہل حق کے قلوب کو ٹھندک بخشے وہ ہستی وہ کشتی نجات امام حسین علیہ السلام تھے جو کہ یزید جیسے ملعون کہ جس نے ابلیس کے دین کو دین اسلام سے پلٹنے کی پوری تیاری کرلی تھی اُس کو نابود کرنے والے تھے ۔
اب ایک طرف تمام انبیاء اوصیاء علیہم السلام کی محنتیں تھیں جس کے وارث امام حسین علیہ السلام تھے یعنی جس کو جناب آدم علیہ السلام کی محنت دیکھنی تھی تو وہ امام حسین علیہ السلام کو دیکھتا جسے جناب ابراہیم علیہ السلام کی محنت دیکھنا تھی وہ امام حسین علیہ السلام کو دیکھتا جسے جناب نوح علیہ السلام کی محنت دیکھنا تھی وہ امام حسین علیہ السلام کو دیکھتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی محنت کو دیکھنا ہوتا تو وہ امام حسین علیہ السلام کو دیکھتا گویا امام حسین علیہ السلام تمام انبیاء اور اوصیا علیہم السلام کی محنتوں کا مجسمہ تھے وہ انبیاء علیہم السلام کے جو نجات دلانے آئے تھے جن کا وجود پروردگار کی یاد کا باعث تھا، اُن کا عکس امام حسین علیہ السلام میں تھا ۔
اگر امام حسین علیہ السلام اُس وقت اپنی اور اپنے اہل و عیال و اصحاب کی قربانی نہ دیتے تو وہ ظلمات کے بادل جو آہستہ آہستہ تیز ہوتے جارہے تھے وہ بحر ظلمات سے ملحق ہو کر ایسا سیلاب برپا کرتے کہ جس میں عالم بشریت غرق ہوجاتا ۔
امام حسین علیہ السلام کے قربانی دیتے ہی وہ سر جو شیطانیت کی سجدہ گاہوں پر سر خم کئے ہوئے تھے اُن کے سر پھر خانہ خدا کی جانب مڑ گئے وہ سطریں جو حق کو باطل اور باطل کو حق لکھ رہیں تھیں امام حسین علیہ السلام کے لہوکی چھینٹوں نے اُنھیں مٹا کر رکھ دیا۔ اور پھر گیارہ محرم کو جو سورج اُفق پر نمودار ہوا وہ یہ کہتا ہوا نمودار ہوا کے امام حسین علیہ السلام ہی کشتی نجات ہیں ۔
اب قارئین کرام کی نظریں ہمارے عنوان پر مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ وہ قطرۂ نجات یعنی وہ ایک آنسو جوسرکار سید الشہداء علیہ السلام کے غم میں نکلا در اصل اُس ایک آنسو کے پس منظر میں نجات کی پوری کائنات پنہاں ہے۔
رونا یا گریہ کرنا ایک روۓ صداقت ہے یہ خدا کی طرف سے دی ہوئی فطرت میں ایک چراغ ایک روشنی کی حیثیت رکھتا ہے ، جب بچہ روتا ہے تو والدین سمجھ جاتے ہیں کہ اسے کوئی حاجت ہے یا کوئی تکلیف ہے ۔ رونا جب تقاضہ فطرت ہے تو جیسے جیسے عقل آگے بڑھتی ہے اُسے اس بات کا احساس ہونے لگتا ہے کہ کب رونا ہے کیوں رونا ہے۔ ظالم کبھی نہیں روتا لیکن مظلوم کے لئے آنسو ضرور نکلتے ہیں۔
لیکن انہیں آنسوؤں نے پوری ایک قوم کی تشکیل دی اور صداقت کا ایک ایسا محل تعمیر کردیا جس کی بنیادیں روز قیامت تک ٹس سے مس ہونے والی نہ تھیں ۔اور انہیں آنسوؤں نے ثابت کردیا کہ مظلوم کون ہے اور کون ظالم، دین کا نگہبان کون ہے اور دین کا مخالف کون ہے۔
ایک قوم پیدا ہوئی قول رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی صداقت کا اعلان کرتی ہوئی بہت ہی قلیل تعدادمیں وہ قوم گریہ کناں ہوئی جب جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جناب زہرا سلام الله علیہا کا مقدس گھر جلایا گیا جس سے اُن کی شہادت واقع ہوئی اور اُس کے بعد آپ سلام الله علیہا ۷۵ یا ۹۰ دن زندہ رہیں ۔ کیا وہ گریہ کناں قوم جو نہایت قلیل تعداد میں تھی کیا ختم ہو گئی یا بڑھتی گئی وصی رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی مسجد کوفہ میں شہادت واقع ہوئی۔ صداقت کا یہ پہلا اعلان تھا کہ یہ قوم بڑھتی چلی جائیگی اس قوم کی آنکھوں سے گرے ہوئے آنسو دریا کا ایک سرچشمہ ہوتے جا رہے تھے امام حسن علیہ السلام کے جنازے پر تیر برسائے گئے اُن کے کلیجے کے ۷۲ ٹکڑے طشت میں گرے۔ آپ کو اپنے نانا صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پہلو میں دفن ہونے نہ دیا گیا۔ اُس قوم کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوں کا دریا اپنے سر چشمہ سے پہاڑ کی سنگینیوں کو چاک کرتا ہوا ایک سیلاب کی صورت اختیار کرتا ہوا عرب کی وادیوں میں بہنے لگا ۔ اس دریا کا سیلاب کربلا کے بعد بجائے تھمنے کے کفر و ضلالت کو روندتا ہوا ایمان کی وادیوں کو سیراب کرتا رہا جو دنیا کے گوشے گوشے میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی پیشنگوئی کی صداقت کو پھیلاتے ہوئے نجات کا اعلان کرتا رہا۔
وہ ایک آنسو جو غم میں بہتا ہے جو ایک لمحہ میں آنکھوں سے نکل کر رخسار تک پہنچتاہے وہ اُس ایک لمحہ میں سوا لاکھ انبیاء علیہم السلام کی محنت کو درک کر چکے ہوتے ہیں، وہ اُس قربانی کو درک کر چکے ہوتے ہیں جو کہ امام حسین علیہ السلام نے دی وہ اُس دین کی اہمیت کو درک کرلیتے ہیں جس کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے اہل و عیال و اصحاب کی جان کو قربان کیا۔ وہ ایک قطرہ اتنا خالص ہوتاہے کہ شاید ہی کوئ عبادت اتنا خلوص رکھتی ہوگی۔
دوسری طرف پروردگار کے جس دین کی حفاظت کی خاطر امام حسین علیہ السلام نے اپنا سب کچھ لٹا دیا اور اُس کے حقیقی دین کو لوگوں کے سامنے آشکار کردیا پھر کیوں خدا وند عالم اُس پر گریہ کا ایک بھی آنسو رائیگاں جانے دے ۔
لہٰذایہ اُس کی ربوبیت کے شایانِ شان ہے کہ وہ پوری کائنات کو ایک قطرہ آنسو کے عوض نجات عطا کرے، جو قطرہ امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر رواں ہو۔ کیونکہ امام حسین علیہ السلام نے ایک واقعہ کربلا سے قیامت تک لوگوں کے دلوں پر بات ثبت کردی کہ وہ دین جس پر عمل پیرا ہو کر کامیابی حاصل کرنا ہے وہ دین امام حسین علیہ السلام کے راستے پر ملے گا۔
اسی لئے گریہ کا ثواب اور گریہ کی اہمیت ہے یہ گریہ و زاری وہ راستہ ہے جو دلوں کو خالص کرتا ہے اور دین کی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے وہ محبت کہ جو اجر رسالت ہے اُس میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔
اس لئے وہ کتب جو بالخصوص کربلا کی تاریخ یا اما م حسین علیہ السلام سے منسوب ہیں ان میں بھی یہ روایتیں عام طور سے پائی جاتی ہیں جیسے شیخ جعفر شوشتری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ”خصائص الحسینیہ“ میں گریہ کی آٹھ فضیلتیں بیان کی ہیں جس میں سے ہم پانچ بیان کریں گے۔
۱۔ گریہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر احسان ہے۔
۲۔ سید الشہدا علیہ السلام پر گریہ کرنا گویا جناب صدیقہ کبری فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کی تاسی ہے کہ وہ مظلومہ روزانہ اپنے فرزند مظلوم پر گریہ کرتی ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
کیا تم یہ نہ پسند کروگے کہ تمہارا شمار جناب فاطمہ کے یارو انصار میں ہو۔
(بحار الانوار ، ج٤٥، ص٢٠٨)
۳۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ گریہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے حق کی ادائیگی ہے۔ اور روایات بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ ہمارے مصائب پر گریہ کرنا ہمارے حق کو ادا کرنا ہے۔
۴۔ امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا گویا ہر زمانہ میں آپ کی نصرت کرنا ہے۔
۵۔ گریہ اسوہ حسنہ اور پیغمبران ماسبق ملائکہ اور جملہ خاصان خدا کی متابعت ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
ہر وہ مومن جو امام حسین علیہ السلام کے قتل پر آنسو بہائے اور وہ آنسو اُس کے رخسار پر بہنے لگیں تو اللہ اُنھیں بہشت میں جگہ عطا فرمائے گا اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
( بحار الانوار، ج ۴۴، ص ۲۸۵ )
ہر عمل کے لئے ایک حد مقررکی جاتی ہے اس سے کم پہ اس عمل کے مقبول ہونے کا امکان نہیں ہوتا۔ لیکن سید الشہدا ء علیہ السلام پر گریہ وہ عمل ہے جس کے لئے کوئ حد مقرر نہیں ہے اُسی طرح اس عمل پر ملنے والے ثواب کی بھی کوئ حد مقرر نہیں ہے ۔ اگر رونے والے کی آنکھ سے اشک جاری نہ ہو لیکن اگر وہ شخص رونے والے کی شکل بنائے تو اس کے لئے بھی وہی ثواب مقرر ہے۔ یہ امر عجائبات میں سے ہے ایسے انسان کے لئے روایتوں میں ”فتباکی“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی جو رونے والے کی شکل بنائے ۔ گریہ نہ کرے لیکن اپنے سر کو مصیبت زداں کی مانند نیچے ڈال دے گریہ کی آواز بلند کرے اور رقت و غم کا تاثر دے ایسے افراد بھی گریہ کے ثواب میں برابر کے شریک ہیں۔
یہاں ہم نے اپنے موضوع میں ایک قطرہ آنسو پر گفتگو کی لیکن روایات میں رونے جیسی شکل بنانے کو بھی برابر کے اجرو ثواب سے نوازا گیا ہے ۔ تمام انبیاء وآئمہ علیہم السلام اس امر میں شریک ہیں خود امام زمانہ علیہ السلام دن و رات گریہ میں مشغول ہیں اور کیوں نہ ہو یہ اللہ کے دین کی حفاظت میں بہائے گئے ایک ایک قطرہ خون پر گریہ ہے جو خداوند عالم کو محبوب ہے۔ در حقیقت اس ثواب کا باعث وہی خالص اللہ کی خوشنودی کا شامل ہونا ہے جس کے سبب یہ ثواب حاصل ہو رہا ہے۔
حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :
جس شخص کی آنکھ سے امام حسین علیہ السلام کی مصیبت میں آنسورواں ہو جائیں اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہوں، خداوند اس کے گناہ کو معاف کردیتا ہے اگرچہ دریا کے جھاگ کے برابر گناہ ہوں۔
)بحار الانوار،ج ۴۴، ص۲۹۳(
چاہے وہ ایک قطرہ ہو یا آنسووں کی قطار صدائے بکا ہو یا گریہ کی صورت ثواب کا معیار اخلاص ہے۔ اور وہ ایک قطرہ انسان کی نجات کا سبب بن جاتا ہے جو غم امام حسین علیہ السلام میں آنکھوں سے جاری ہوجاتا ہے۔
آنسو کا مسکن بھلے ہی انسانی آنکھیں ہیں لیکن یہ نکلتا پروردگار کے اذن سے ہی ہے تو ایک طرح سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ جو گریہ کرتا ہے اُس گریہ میں خداوندے عالم کی رضا مندی شامل ہے۔ اور جو عمل پروردگار کی رضا مندی کے ساتھ ہو اُس کو انجام دے کر کیوں نہ نجات پائی جائے خواہ وہ کتنا قلیل ہی کیوں نہ ہو یعنی مکھی کے پر کے برابر بھی اگر ہو تو وہ قطرہ قطرۂ نجات بن جاتا ہے۔
جس کے غم میں بہایا گیا ایک قطرۂ نجات کی ضمانت بن جائے اُسے سیدالشہداء علیہ السلام کہتے ہیں۔ یہ نجات کا مفہوم تو ایک جانب ہے لیکن دوسری جانب وہ مظلومیت ہے جس کے سبب مومنین کے قلوب ہمیشہ غم زدہ رہیں گے ۔ خدا کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں اُس قوم میں پیدا کیا جس کا مقدرغم حسین علیہ السلام میں گریہ و زاری کرنا ہے ۔ وہ مظلومیت جو مومنین کے قلوب کو تا قیامت حرارت بکشتی رہیگی وہ غم کے جس کے سبب وارث حسین علیہ السلام امام زمانہ علیہ السلام صبح مساء آنسوؤں کے بدلے خون رو رہے ہیں ۔
یہاں تک کہ آج دنیا کے کونے کونے میں امام حسین علیہ السلام کے سوگوار اشک بار نظر آتے ہیں۔ یہ قوم جو نجات کا پیغام لئے نہایت قلیل تعداد سے شروع ہوئی تھی سارے عالم کے کفرو ضلالت کو روندتی ہوئی سارے عالم میں نجات کی شادابی روز بروز اپنے عروج پر بکھیرتے ہوئے اپنے بلند بالا مرتبہ پر فائز ہوتی گئی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ صر ف ایک قطرہ آنسو ہے لیکن وہ قطرہ دل کی رگوں کو توڑتا ہوا اگر سامنے دریا میں گرجائے وہ بھی ایک دریا کی طرح اپنا مقام بنا لیتا ہے ۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہوجائے
اے ہر شہ پر قدرت رکھنے والے خالق کائنات ہمیں توفیق عطا فرما ہم پر اپنا لطف کرم عنایت فرما اس طرح کہ ہمارے قلیل آنسوجو بہت قلیل ہیں اُن آنسوؤں میں شامل ہو جائیں جو منتقم خون حسین علیہ السلام کے چشم مبارک سے ابر باراں کی طرح مسلسل جاری ہیں اور ایک دریا ہے جو موجیں مار رہا ہے ۔
اے میرے آقا اے میرے مولا اے میرے مظلوم امام ہماری دعاؤں کو بارگاہ الہی میں قبولیت کا شرف عطا فرمائیں ۔ ہمیں اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے والوں میں شمار فرمائیں تاکہ روز محشر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اور جناب زہرا سلام الله علیہا کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔ آمین یا رب العالمین