قیام حسینی اور امربمعروف

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام اور امر بمعروف کے سلسلے میں گفتگو کرنے سے پہلے اس بات پر غور کریں حضرت امام حسین علیہ السلام نے جس دین کی زندگی اور بقاء کے لئے قیام فرمایا اس کا بنیادی مقصد کیا تھا۔ اور خداوند عالم نے انبیاء اور مرسلین کو کس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا؟ حضرت امام حسین علیہ السلام وارث انبیاء ہیں ان کی روش اور ان کے قیام کا مقصد انبیاء علیہم السلام کی روش اور مقصد سے ہر گز جدا نہیں ہے۔ مضمون کی محدودیت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختصر آعرض کرینگے۔ قرآن کریم نے بعثت انبیاء کے مقاصد اس طرح بیان فرمائیں۔
ا۔ دعوت توحید
قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد اس طرح بیان کیا گیا ہے (سورہ نحل، آیت ۳۶) اور ہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا۔ (جس کا پیغام یہ تھا) کہ بس خدا کی عبادت کرو اور غیر خدائی طاقتوں سے دوری اختیار کرو۔ اسی طرح سورہ اعراف آیت ۵۹ میں جناب نوح کی زبانی اور آیت نمبر ۶۵ میں جناب ہود کی زبانی آیت نمبر ۷۳ میں جناب صالح کی زبانی آیت نمبر ۸۵ میں جناب شعیب کی زبانی اور اسی طرح سورہ مبارک ہود کی آیت۔ ۵۰٫۶۱٫۸۴، میں انھیں انبیاء کی زبانی یہ پیغامِ بیان کیا گیا ہے۔
یَا قَوْمِ اعْبُدُواللہَ مَا لَکُمْ مِنْ اِلٰہ ٍغَیْرُہٗ
اے میری قوم بس خدائے واحد کی عبادت کرو خدا کے علاوہ کوئی اور تمہارا معبود نہیں ہے۔
اس طرح انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور تعلیم کا بنیادی نقطہ توحید کی دعوت تھی وہ بھی اس انداز کے ساتھ کہ خدائے واحد کے اقرار کے ساتھ تمام دوسری طاغوتی طاقتوں کا انکار۔ انسان صرف اور صرف اپنے خالق الله کا بندہ ہے اور اس کی زندگی میں بس اللہ کی حکمرانی ہے دنیا کی ہر بڑی طاقت خدا کے سامنے ہیچ ہے۔ خدا کے علاوہ کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا ہے۔ اس کے سامنے بس خدا کی خوشنودی ہے وہ خدا کے مقابلے میں کسی کی بھی خوشنودی کو نظر میں نہیں لاتا ہے۔ وہ مخلوقات کی خوشنودی صرف اس صورت میں حاصل کرتا ہے جب اس میں خدا کی خوشنودی پوشیدہ ہو۔ توحید صرف زبانی اقرار نہیں ہے۔ بلکہ یہ دل کی گہرائیوں سے خدائے واحد کے سامنے تسلیم ہو جانا ہے اور اپنے سارے امور خدا کے سپرد کر دینا ہے خدا کو اپنے تمام اعمال بلکہ اپنے تمام افکار و خیالات میں خدا کو حاضر و ناظر جاننا ہے۔ بندہ ہر وقت یہ احساس رکھتا ہے کہ خدا اس کو دیکھ رہا ہے۔ الم یعلم يا الله یری
جس کی بنا پر وہ گناہوں سے پر ہیز کرتا ہے۔ سرکشی وہ کرتا ہے جو خود کو آزاد تصور کر تا ہے اور گناہ وہ کرتا ہے جو خدا کو حاضر و ناظر نہیں جانتا ہے۔
۲- رفع اختلاف
انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا دوسرا مقصد قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔
كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً۬ وَٲحِدَةً۬ فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّـۧنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ بِٱلۡحَقِّ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ
(سورہ بقرہ ، آیت ۲۱۳)
لوگ ایک امت تھے خدا وند عالم نے انبیاء بھیجے جو لوگوں کو نعمتوں کی بشارت دیتے تھے اور عذاب خدا سے ڈراتے تھے اور ان کے ہمراہ حق کی کتاب نازل کی تا کہ لوگوں کے اختلافات میں فیصلہ کریں۔
وَمَآ أَنزَلۡنَا عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَـٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ‌ۙ وَهُدً۬ى وَرَحۡمَةً۬ لِّقَوۡمٍ۬ يُؤۡمِنُونَ
(سوره نحل، آیت ۶۴)
اور ہم نےآپ پر کتاب صرف اس لئے نازل فرمائی کہ آپ لوگوں کے اختلافات میں ان کی راہنمائی کریں یہ کتاب صاحبان ایمان کے لئے ہدایت ورحمت ہے۔
ان آیتوں کی روشنی میں انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد لوگوں کو متحد کرنا ہے اور آپسی اختلافات کو دور کرنا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم کو لوگوں کا اتحاد کس قدر پسندہے اختلاف و انتشار سے کسی قدر نفرت ہے یہ ہماری بد بختی ہے کہ ہم نے اختلاف ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے۔
انبیاء علیہم السلام تمام اختلافات کو دور فرماتے تھے چاہے وہ فکر و نظر کے اختلافات ہوں چاہے زمین و جائیداد کے اختلافات ہوں چاہے وہ دو شریک کے باہمی معاملات ہوں چاہے عقیدہ و عمل کے اختلافات ہوں مختصر یہ کہ انسانی زندگی میں جتنے بھی اختلافات ہو سکتے ہیں انبیاء علیہم السلام ہر ایک کو حل کر سکتے ہیں۔
قیام عدل ۳ –
انبیاء علیہم السلام کے بعثت کا ایک مقصد عدل و انصاف قائم کرنا ہے ارشاد خداوندی ہے۔
لَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِٱلۡبَيِّنَـٰتِ وَأَنزَلۡنَا مَعَهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡمِيزَانَ لِيَقُومَ ٱلنَّاسُ بِٱلۡقِسۡطِ
(سور و تدبیر ، آیت ۲۵)
یقینا ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان بھی نازل کی تا کہ لوگ عدل و انصاف کی زندگی بسر کریں۔
آج دنیاکی تمام تباہی اور بربادی اس بناء پر ہے کہ عدل و انصاف نہیں ہے۔ کسی کے پاس دولت اس قدر ہے کہ اس کا کوئی حساب و کتاب نہیں ہے اور کوئی اس قدر محتاج و فقیر ہے کہ اس کو ایک لقمہ روٹی کبھی میسر نہیں ہے طاقت اور قدرت کی بھی یہی صورت حال ہے کہ کچھ لوگ اور ممالک یہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی تمام طاقت و قدرت ان کے پاس رہے اور دنیا کے تمام لوگ ان کے دست نگر رہیں ان کے محتاج رہیں ان کے سامنے تسلیم رہیں غریب اور کمزور اپنی زندگی کا فیصلہ خود نہ کریں بلکہ یہ طاقتیں ان غریبوں کی تقدیر معین کریں اور ان کی قسمت سے کھیلتے رہیں۔ انبیاء علیہم السلام نے انھیں طاغوتی اور سرکش طاقتوں کے مقابلہ میں عدل و انصاف کا پرچم بلند کیا جناب موسی علیہ السلام نے اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت یعنی اس وقت کے سُپر پاور فرعون کے سامنے عدل و انصاف کا پرچم بلند کیا اور اس سے کہا۔ اگر تم کفر و شرک ظلم و استبداد ، نا انصافی اور نا برابری کا راستہ چھوڑ کر توحید و ایمان عدل و انصاف، مساوات کا راستہ اختیار کرتے ہو تو مجھے تمہاری سلطنت اور بادشاہت سے کوئی سروکار نہیں ہے تمہیں مبارک ہو لیکن تم ظلم و ستم کا راستہ چھوڑ دو تا کہ دنیا میں عدل قائم ہو اور تمام لوگ امن و امان کے ساتھ چین کی زندگی بسر کر سکیں۔
عدل و انصاف صرف اجتماعی زندگی میں نہیں بلکہ انفرادی زندگی کے ہر ایک مرحلہ میں ہے کیونکہ عدل کے معنی کسی چیز کو اس کی مناسب جگہ پر رکھنا جسکی ضد ظلم ہے جس کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کو وہاں رکھنا جو اس کی جگہ نہیں ہے۔ اس بناپر فکر و نظر اور عقیدہ کی منزل میں توحید عدل ہے۔ شرک ظلم ہے۔ ایمان عدل ہے کفر ظلم ہے۔ عمل کی منزل میں خدا کی اطاعت عدل ہے نافرمانی ظلم ہے۔ صلحہ رحم عدل ہے قطع رحم ظلم ہے۔ والدین کی اطاعت عدل ہے ان کی طرف سے لا پرواہی ظلم ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے انسانی زندگی کے ہر مرحلہ میں عدل و انصاف قائم کرنا چاہتے تھے اور خداوند عالم نے اسی قیام عدل کے لئے انھیں مبعوث فرمایا تھا۔
۴۔ دین اسلام عالمی اور ابدی دین
خدا صرف ایک خطہ یا ایک خاص جماعت و فرقہ کا خدا نہیں ہے بلکہ وہ تو تمام عالم ارض و سماء کا خدا ہے پوری کائنات اپنی تمام تر و سعتوں کے ساتھ اس کی مخلوق ہے اور ہر لمحہ اس کی عنایتوں کی محتاج ہے خدا سب کا رب ہے۔ اور اس نے سب کے لئے ہدایت کے اسباب فراہم کئے ہیں سورہ الیل کی آیت ۱۲ میں ارشاد ہوتا ہے۔
إِنَّ عَلَيۡنَا لَلۡهُدَىٰہدایت کے اسباب فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۵ میں ارشاد ہوتا ہے شَہۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدً۬ى لِّلنَّاسِ… ماه مبارک رمضان جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ یہ تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے۔ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے سورہ سبا آیت ۲۸ میں ارشاد ہوا۔
وَمَآ أَرۡسَلۡنَـٰكَ إِلَّا ڪَآفَّةً۬ لِّلنَّاسِ بَشِيرً۬ا وَنَذِيرً۬ا وَلَـٰكِنَّ أَڪۡثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعۡلَمُونَ
اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اس کو سمجھتے نہیں ہیں۔
اسی طرح خدا وند عالم نے قرآن کریم کو ساری دنیا کے لئے ہدایت اور حضرت پیغمبر اکرم اس ایپ کو ساری دنیا کے لئے عادی و شیر و نذیر بناکر بھیجا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ دین مقد کن اسلام کسی خاص علاقہ اور فرقہ و جماعت سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک عالی اور ابدی دین ہے۔ أن الدين عند الله الاسلام دین تو پس خدا کے نزدیک اسلام ہے۔ جب خداوند عالم نے دین مقد کی اسلام کو سلامی دین قرار دیا ہے اور یہ بھی ارشاد فرمایا۔
وَمَن يَبۡتَغِ غَيۡرَ ٱلۡإِسۡلَـٰمِ دِينً۬ا فَلَن يُقۡبَلَ مِنۡهُ وَهُوَ فِى ٱلۡأَخِرَةِ مِنَ ٱلۡخَـٰسِرِينَ
(سورہ آل عمران، آیت ۸۵)
جو ون مقدس اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرے گا وہ ہر گز قبول نہیں کیا جائیگا اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرے گا وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔ البذا اتمام حجت کے لئے خداوند متعال نے ایسے افراد کو پیدا کیا جو اس پیام الہی کی حفاظت کریں اور اس کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں ایک ایک تک پہونچائیں تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ دین اسلام کی تعلیمات ہم تک نہیں پہونچی اور اس بناپر ہم گمراہ ہوئے۔ ہے ایک طرف دوسری طرف شیطان اور اس کا گروہ اس دین اسلام کا شدید مخالف ہے۔ وہ ہدایت نہیں طلالت چاہتا ہے۔ امن کے بجائے فساد چاہتا ہے۔ توحید کے بجائے شرک چاہتا ہے۔ ایمان کے بجائے تقات چاہتا ہے اس نے یہ تم کھائی ہے کہ ہر ایک کو گمراہ کر کے چھوڑے گا کسی ایک کو جنت میں جانے نہیں دینا چاہتا ہے۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغۡوِيَنَّهُمۡ أَجۡمَعِينَ
(سوره ص، آیت ۸۲)
خدایا تیری عزت کی قسم ضرور بالضرور سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔
لیکن یہ کبھی اعتراف کیا۔ باد مثه المخلصين (سورہ ، آیت ۸۳ )ہاں تیرے قلم بندوں پر میرا کوئی قابو نہیں ہے۔ اس طرح شیطان نے ابتداء سے خدا کے مخلص بندوں کے مقابلے میں اپنی شکست کا اعتراف کر لیا ہے۔ خدا کے مخلص بندے کبھی بھی شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئینگے اور وہ بھی گمراہ نہیں ہوں گے شیطان کے علاوہ انسان کا نفس اماره. إن النفس لأمارة بالسؤ (سورہ یوسف، آیت ۵۳) یقینا بہت زیادہ برائی کا حکم دیتا ہے۔
۵- اسلام انسانیت کی سعادت کا ضامن
خداوند عالم نے دین اسلام کو ہر ایک فرد بشر کی ہدایت و سعادت کے لئے نازل کیا۔ اور انسانوں کی ہد ایت و سعادت کی خاطر انبیاء و رسلین جھیے۔ دوسری طرف شیطان اور اس کا گروہ انسانوں کی برایت و سعادت کا دشمن ہے۔ ہر موڑ پر گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔ اس بناء پر ایسے گروہ کا وجود ضروری ہے جو لوگوں کو ہدایت و سعادت کی دعوت دیں اور گرانی و بد بختی سے رد کیں۔ جس طرح انسان کے خون میں سرخ و سفید سل (cells ( ہو تے ہیں ایک بدن کے لئے مفید اجزاء کو جذب کرتا ہے اور دوسرا نقصان دہ عناصر اور جراثیم کو دن میں داخل ہونے نہیں دیتا۔ اور جب تک یہ توازن بر قرار رہتا ہے انسان مستند رہتا ہے۔ اور جب یہ توازن بگڑ جاتا ہے تو صحت متاثر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح انسانی سماج کی اصلاح اور اس کی سعادت و کامرانی کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو معاشرے کے ایک ایک فرد کو مفید باتوں (معروف( کا حکم دیتے رہیں اور نقصان دہ چیزوں (منکر( سے روکتے رہیں۔ دین مقدس اسلام نے انسانی زندگی کے اس حیائی عنصر کو امر بمعروف اور نہی از منکر سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنڪَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱلللہ
(سورہ آل عمران، آیت ۱۰۹)
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی خیر و فلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔
ان آیتوں سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ مسلمان اس وقت تک بہترین امت ہیں جب تک وہ امر بمعروف اور نہی از منکر کے فریضہ کو انجام دیتے رہتے ہیں اور ان کی کامیابی کی ضمانت اسی صورت میں ہے کہ جب وہ اس فریضہ الہی کو انجام دیتے رہیں۔ جس طرح امر بمعروف اور نہی از منکر کی انجام دہی ان کو کامیابی کی ضمانت اور ان کو بہترین امت قرار دیتا ہے۔ وہیں اس عظیم فریضہ سے غفلت اور لاپرواہی ان کو ذلیل و خوار کر دے گی۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا :
امر بمعروف اور نہی از منکر ایک عظیم فریضہ ہے جس کی بنا پر بقیہ تمام واجبات قائم اور باقی رہتے ہیں راستے پرامن رہتے ہیں تجارت کا کاروبار حلال رہتا ہے۔ ظلم کی روک تھام ہوتی ہے زمین آباد ہوتی ہے دشمنوں سے انتقام اور بدلہ لیا جاتا ہے۔ اس کی روشنی میں بقیہ تمام امور اپنی مسیح ڈگر پر چلتے ہیں۔
(وسائل الشیہ کتاب امر بمعروف باب احادیث ۳۹۵)
اس بناپر امر بمعروف اور نہی از منکر انسانی معاشرہ کی وہ شہ رگ ہے جس سے سارا نظام درست رہتا ہے۔ اگر اس میں خلل واقع ہو گیا تو پھر سارا نظام در هم و بر هم ہو جاتا ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں
امر بمعروف اور نہی از منکر کی بنا پر شریعت قائم رہتی ہے اور خدا کے قوانین اجراء ہوتے ہیں۔
(غرر الحاکم، ح ۶۸۱۷، میزان الحکمہ ج ۸، ص ۳۶۹۸)
امر بمعروف اور نہی از منکر کی اہمیت اس حدیث سے اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا :
امر بمعروف اور نہی از منکر کے مقابلے میں تمام نیک اعمال یہاں تک کہ خدا کی راہ میں جہاد بھی ایسا ہے جیسے سمندر کے مقابلے میں ایک چلو پانی
( نہج البلاغه حکمت ۳۷۴)
۶- اولیاء خدا کی زمہ داری
مذکورہ حدیثوں سے امر بمعروف کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ خدا وند عالم نے جہاں اپنے اولیاء کو بلند ترین درجات مرحمت فرمائے ہیں وہیں ان کی ذمہ داریاں بھی دوسرے لوگوں سے مختلف ہیں۔ حنین کے موقع پر ایک شخص نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ عراق واپس چلے جائیں اور ہم شام واپس چلے جاتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
میں جانتا ہوں تم یہ بات محبت میں کہہ رہے ہو۔ اللہ تبارک تعالی اس بات سے راضی نہیں ہے کہ زمین پر اس کی نافرمانی ہوتی رہے۔ لوگ گناه انجام دیتے رہیں اور اس کے اولیاء خاموش تماشائی بنے رہیں امر بمعروف اور نہی از منکر انجام نہ دیں۔ اس لئے میرے لئے جنگ کرنا جہنم کی زنجیروں میں جکڑنے سے زیادہ آسان ہے۔
(میزان الحکمہ حدیث نمبر ۱۲۶۹۱)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دینا اور اپنے اپنے کام میں لگ جانا خد ا کو پسند نہیں ہے۔ خداوند عالم نے اپنے اولیاء کے جہاں درجات بلند کیئے ہیں وہیں ان کی یہ ذمہ داری بھی قرار دی ہے وہ احکام خداوندی کی مخالفت کے تعلق سے خاموش تماشائی نہیں رہیں گے بلکہ وہ گناہ روکیں گے چاہے اس کے لئے ان کو جنگ کیوں نہ پڑے۔
حضرت امام حسین علینا نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے :
کسی مومن کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ خدا کی نافرمانیوں کو دیکھ کر اپنی آنکھیں پھیر لے یہاں تک کہ وہ حالات کو تبدیل نہ کرلے۔
(تنبیه الخواطر ، ج ۲، ص ۱۷۹؛ میزان الحکمت، ح ۱۲۷۰۰)
خداوند عالم نے مومن کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے گناہوں کے تعلق سے غیر جانبدارنہ رہے۔ اور آنکھیں جھکا کر راہ سے گزر نہ جائے بلکہ مومن کی ذمہ داری ہے کہ حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
اگر کوئی برائی اور گناہ کو دیکھے۔ اس کو روک سکتا ہو اور نہ روکے تو وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ نظر او نمد عام کی نافرمانی کی جائے جو شخص یہ پسند کرے گا کہ خدا کی نافرمانی کی جائے۔ اس نے خدا سے دشمنی مول لی ہے۔
(تفسیر عیاشی، ج ۱، ص ۳۶۰ میزان الحکمت اح ۱۲۷۰۱)
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک مومن کی شان یہ ہے کہ نہ خود گناہ کرے اور نہ گناہ کرنے دے گناہ پسند کرنا خداوند عالم سے دشمنی مول لینا ہے۔ جب ایک مومن کی یہ شان ہے تو اولیاء الٰہی اور مقربان بارگاہ خداوندی کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا :
یقینا امر بمعروف اور نہی از منکر انبیاء کا راستہ اور نیکو کاروں کا طریقہ ہے۔
(کافی، ج ۵، ص ۵۶)
۷امام حسین علیہ السلام وارث انبیاء –
زیارت وارثہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو جناب آدم، جناب نوح، جناب ابراهیم، جناب موسیٰ، جناب عیسیٰ، حضرت محمد مصطفي، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا وارث قرار دیتے ہوئے سلام کرتے ہیں امام حسین علیہ السلام صرف نسلی طور پر ان انبیاء کے وارث نہیں ہیں بلکہ وہ ان کے دین، ان کی شریعت ان کی تعلیمات کے وارث ہیں اس بناء پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی زمہ داریوں میں توحید کی طرف دعوت دیا باہمی اختلافات کو دور کرتا اور دنیا میں خاص کر انسانی معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کرنا شامل ہے۔
وہ نہ توحید کے پیغام کو ختم ہوتے دیکھ سکتے تھے، نہ ہی امت کے اختلافات کو برداشت کر سکتے تھے اور نہ ہی ظلم و جور پر نہ ہی ظلم و جور پر خاموش رہ سکتے تھے۔ جن پاک و پاکیزه آغوش میں انھوں نے تربیت پائی تھی اور جو مقدس و مطہر خون ان کی رگوں میں دوڑ رہا تھا اس کا تقاضا تھا کہ وہ یزید اور اس کے خاندان کے ایجاد کردہ حالات پر خاموش نہ رہیں۔ وہ خدا کی زمین پر خدا کی نافرمانی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ امر بمعروف اور نہی از منکر کا عظیم فریضہ انہیں ایک ایسے قیام کی دعوت دے رہا تھا جس کے بعد پیر توحید کے پیغام پر کوئی آنچ نہ آسکے اور عدل و انصاف کا سورج ہے نور نہ ہو سکے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے حالات اس طرح بیان فرمائے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے قیام کا سبب بھی بیان فرمایا ہے۔
بصرہ والوں کے نام خط میں تحریر فرمایا :
اما بعد۔ یقینا خدا وند عالم نے مریم کو اپنی تمام معلومات میں نتې کیا تموت کے قر یہ ان کو بزرگی و عزت عطا قربانی اپنی رسالت و پیام کے لئے انہیں منتخب کیا پھر خدا نے ان کو اپنے پاس بلالیا ۔ انہوں نے خدا کے بندوں کو نصیحت کی اور جو کچھ ان پر نازل کیا گیا تھا وہ پیغام پہنچا دیا۔ خدا کا درود و سلام ہو ان پر۔ اور ہم ان کے اہل ہیں ان کے اولیاء ہیں ان کے اوصیاء ہیں ان کے وارث ہیں ان کے منصب کے ہم سب سے زیادہ حقدار ہیں لوگوں نے ہمارے اوپر دوسروں کو ترجیح دی ہم نے صبر کیا اور اختلاف کو ناپسند کیا امن و امان کو دوست رکھا۔ جب کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس منصب کے ہم ہی سزاوار ہیں اور اس کو واپس لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔ میں تم لوگوں کے پاس اس خط کے ذریعہ اپنا نمائندہ بھیج رہا ہوں۔ اور میں تم لوگوں کو خدا کی کتاب اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ کیونکہ سنت رسول کو مٹا دیا گیا ہے اور بد عنوں کو زندہ کر دیا گیا ہے۔ تم میری بات کو سنو اور میرے علم کی اطاعت کرو۔ میں تم کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کروں گا۔ والسلام علیکم و رحمة الله
(مقتل الحسین، مقرم، ص ۱۵۹)
اس خط میں امام حسین علیہ السلام نے خود کو منصب ہدایت کا حقدار قرار دیتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ہم نے اپنے حق خلافت کے غصب ہونے پر اس بنا پر صبر کیا کہ ہم امت میں اختلافات بر پا کرنا نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی امن و امان کو درهم و برہم کرنا چاہتے تھے۔ پھر حالات کا تذکرہ اس طرح فرمایا۔ سنت رسول کو مٹا دیا گیا ہے اور بد عتوں کو زندہ کیا گیا ہے یعنی اسلامی تعلیمات مٹائی جارہی ہیں اور جاہلیت کے رسم و رواج کو دوباره زنده کیا جا رہا ہے۔ جب راستہ میں حر کے لشکر کا سامنا ہوا۔ اس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام نے حر کے سپاہیوں کو اس طرح مخاطب کیا۔
اے لوگو! حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: جو شخص ایسے ظالم و جابر حکمراں کو دیکھے جو حرام غد اکو حلال کر رہا ہوں۔ سنت رسول کی مخالفت کر رہا ہو بندوں کے ساتھ گناه و سرکشی کا بر باد کر رہا ہو اور کوئی اس کے خلاف نہ اقدام کرے اور نہ کوئی آواز اٹھائے تو خدا کے لئے سزاوار ہے ان کو ان کی جگہ پر پہونچا دے۔ (لین جہنم میں داخل کر دے) اور یقینا ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت پر کمر باندھ لی اور رحمان کی مخالفت کر رہے ہیں فساد پھیلا رہے ہیں احكام و حدود خداوندی کو معطل کر دیا ہے اپنی مرضی سے بہت اموال خرچ کر رہے ہیں۔ حرام خداوندی کو حلال کر رہے ہیں اور اس کے حلال کو حرام کر رہے ہیں۔ میں دوسروں سے زیادہ حق رکھتا ہوں ۔
(کامل، ج ۳، ص ۲۸۰:طبری، ج ۴، ص ۳۰۰: قیام حسین، قزوینی، ص ۹۱)
حضرت رسول خدا سے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان فرما کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا :
ظالم و جابر حکمرانوں اور احکام خداوندی کو بدلنے والوں کے خلاف آواز اٹھانا اقدام کرنا قیام کرنا سنت رسول ہے حکم خداہے۔
اس کے بعد اس زمانے کے حالات کا ذکر کیا حر کے سپاہیوں کی خاموشی امام حسین علیہ السلام کے بیان کی تصدیق تھی۔ یعنی سب یہ اعتراف کر رہے تھے کہ اسلامی تعلیمات منائی جارہی ہیں دین خدا برباد کیا جارہا ہے۔ آخر میں یہ فرما کر میں دوسروں سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ یعنی ان حالات کو تبدیل کرنا ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف قیام کرنا میری ذمہ داری ہے یعنی میرا یہ قیام شخصی و ذاتی دشمنی کی بناپر نہیں ہے بلکہ یہ میری شرعی ذمہ داری ہے اس وقت خدا و رسول کا یہی مطالبہ ہے۔
بصرہ والوں کو جو آپ نے آ گھی دی ہے وہ قیام کے آغاز میں ہے اور حر کے لشکر سے گفتگو دوران سفر ہے۔ اور اب کر بلا جو اس عالمی اور ابد کی قیام کا آخری پڑاؤ ہے۔ وہاں بھی امام حسین علیہ السلام نے اس انداز میں خطاب فرمایا۔ یہ روز عاشور کی بات ہے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے امام حسین علیہ السلام یزید کی فوج سے اس طرح مخاطب ہوئے ہیں :
اما بعد۔ اس وقت جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ سب تم لوگوں کے سامنے ہے دنیا بدل گئی ہے حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ نیکیاں ختم ہو گئی ہیں اور اگر باقی بھی ہیں تو بس اتنی جتنا برتن خالی کرنے کے بعد ذرا سا پانی رہ جاتا ہے وہ بھی ساڈے ہوئے چارہ کی طرح زندگی بہت پست ہوگئی ہے۔ کیا تم لوگ نہیں دیکھ رہے ہو کہ دین پر عمل نہیں کیا جارہا ہے اور شہ باطل سے کنارہ کشی اختیار کی جارہی ہے۔
اس وقت مومن کو خدا سے ملاقات کی تمنا کرنا چاہیے میرے نزدیک موت اس سعادت و کامیابی ہے اور ظالم کے ساتھ زندگی بسر کرنا اس ذلت ورسوائی ہے۔
(مقتل الحسین، محسن امین، ص ۹۰)
یہاں بھی امام حسین علیہ السلام نے اس حقیقت کی طرف سب کو متوجہ کیا ہے اس وقت حالات اس قدر بدل گئے ہیں کہ معروف منکر ہو گیا ہے اور منکر کو معروف کا لباس پہنا دیا گیا ہے جو لوگ خد اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے اس وقت خاموش نہ رہیں بلکہ انھیں اور قیام کر ہیں۔
۸- امام کی زمہ داری
امام حسین علینا نے جب کوفہ والوں کے خطوط کے جواب میں جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کو اپنا نما نثر د اور معتبر خاص بنا کر کوفہ روانہ کیا۔ اس وقت خط تحریر فرمایا اس میں خداوند عالم کے معین کر دہ امام وقت کی ذمہ داریوں کو اس طرح بیان فرمایا :
خدا کی قسم امام نویسی کتاب خداوندی کے مطابق عمل کرنے والا عدل و انصاف قائم کرنے والا ہے دین خدا کے مطابق عمل کرنے والا خدا کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے والا ہے۔
(مقتل الحسین، محسن امین، ص ۳۳ قیام حسینی قزوی ، ص ۴۶)
امام حسین علیہ السلام نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے قرآنی احکام سنت رسول اور تعلیمات اسلامی کی حفّاظت عدل و انصاف کا قیام خدا کے متعین کر وہ ایام کی ذمہ داری ہے۔ یہیں سے یہ بھی واضح ہو جاتا۔ جو لوگوں کا منتخب کردہ ہوتا ہے وہ کیسا ہوتا ہے۔ معاشرہ کی یہ ساری تباہیاں اور تعلیمات اسلامی کی بربادی کی اسی انتخاب کا نتیجہ ہے۔
۹-اعلان قيام
جس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام مدینہ منورہ سے نکل رہے تھے اس وقت انھونے نے اپنے قیام کا مقصد اور قیام کا طرز و انداز اسی وقت واضح کر دیا تھا۔ اس سے یہ واضح ہو جائیگا دین مقدس اسلام میں امر بمعروف اور نہی از منکر کس قدر اہم ہے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کرتے ہوئے ہمیں اس مقصد کو نظر میں رکھنا چاہئے اور اپنی عزاداری سے اس مقصد کو زندہ رکھنا چاہئے نہ کہ بھولا دینا چاہئے۔ فرماتے ہیں۔
میرے قیام کا مقصد نہ شر اور نہ تکبّر نہ فساد ہے اور یہ ظلم۔ میں صرف اور صرف اپنے جید صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں میں امر بمعروف اور نہی از منکر کر نا چاہتا ہوں۔ یہاں تک قیام کا سبب اور مقصد بیان فرمایا۔ اس قیام میں طرز و انداز کیا ہوگا وہ اس طرح واضح فرمایا :
میں اپنے جد اور اپنے والد علی بن ابی طالب کی سیرت و روش پر چلنا چاہتا ہوں۔ جو حق کے ساتھ میری باتوں کا انکار کرے گا میں صبر کروں گا یہاں تک کہ خدا کے ساتھ میرے اور اس قوم کے در میان فیصلہ کر دے وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
(مقتل خوارزمی، ج 1، ص ۸۸)
قیام کا مقصد امر بمعروف اور نہی از منکر ہے۔ قیام کا انداز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی مرتضی ان کی سیرت ہے۔ میری روش خلفاء کی روش سے بالکل مختلف ہوگی میں جس کا وارث ہوں اس کے راستے پر چلوں گا دوسروں سے مجھے کیا سروکار۔ اگر ان کی ہی روش اختیار کرنا ہوتی تو اس قیام کی ضرورت کیا تھی۔
۱۰۔ آخری فیصلہ اور قیام
جب امام حسین علیہ السلام ہر طرح سے لوگوں کو سمجھا چکے ہر انداز سے حقیقت کو واضح کر چکے ۔ اگر تم مسلمان ہو خدا اور رسول و قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو تم کس طرح دین کی تبدیلی کو برداشت کر رہے ہو کیا تم سنت رسول کو مٹتے ہوئے نہیں دیکھ رہے ہو۔ کیا تمھارے سامنے بد عتیں اور زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج زندہ نہیں کئے جارہے ہیں ۔ تم لوگ اپنے قول کے پابند نہیں ہو اور نہ ہی اپنے وعدے کے وفادار ہو۔ تم لوگ ہر طرف سے مجھے گھیر کر لشکر و فوج کے اور یہ ظلم و ستم کے ذریعے۔ یہ چاہتے ہو میں اپنا راستہ تبد یل کر دوں۔ یا خاموش ہو جاؤں اور دین کو برباد ہوتے ہوئے دیکھتا رہوں۔ تو کان کھول کر سن لو۔
فرزند بدکار پسر فرزند بد کار (ابن زیاد) نے مجھے دو چیزوں کے در میان کھڑا کر دیا ہے۔ ایک موت اور دوسرے لذت ہم ہر گز ذلت قبول نہیں کرینگے۔
امام حسین علیہ السلام صاف صاف بیان فرمارہے ہیں۔ باطل کے سامنے خاموش رہنا ذلت ہے۔ زندہ رہنا کمال نہیں ہے عزت کے ساتھ زندہ رہنا کمال ہے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنا دو ٹوک فیصلہ اس انداز میں سب کو سنادیا۔
خدا اور اس کا رسول اور مومنین اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ میں ذلت برداشت کروں۔ اور پاک و پاکیزه آغوش۔ غیرت دار افراد، بزرگ مرتبہ اشخاص اس بات کی اجازت نہیں دیئے کہ ہم عزت کی موت پر پست لوگوں کی اطاعت کو ترجیح دیں۔ میں اس کم تعداد اور قلیل انصار کے ساتھ قیام کروں گا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے شہادت قبول کر کے عزت کی موت کو گلے لگا کر اسلام اور اس کی تعلیمات کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔ علامہ اقبال نے اس بیان کی اپنے اشعار میں مکمل تصدیق فرمائی ہے۔
زنده و از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
تا قیامت قطع استبد کرد
موج خون او چمن ایجاد كرد
بہر حق در خاک و خوں غلطیده است
بس بنائی لا الہٰ گردیدہ است
تیغ بھر عزت دین است و بس
مقصد او حفظ آئین است و بس
نقش الا اللہ بار صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت