پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
سامنے گھنیرا بہت بڑا ہرا بھرا درخت ہے۔ سبز اور چھوٹی چھوٹی پتیوں سے لدی ٹہنیوں سے شاخیں بکھری ہوئی ہیں جب ہوا کے جھونکے آتے ہیں تو یہ لچکتی ہوئی شاخیں جھوم جھوم کر اٹھتی ہیں۔ مئی کا مہینہ تھا۔ تمازت آفتاب نصف النہار پرگرمی برساتی ہوئی دو پہر چاروں طرف قہر آلود ماحول تھا۔ و ہیں کچھ جانور اور اور انسان اس کے سایہ میں ٹھنڈک کے لئے آجاتے ۔ ایسے بہت سے درخت ہیں جو سڑک کے کنارے چلے گئے ہیں ۔ ایک درخت پر سرخ اور سفید پھول مالا لئے درخت سے اس کے بیچ کے دائرے میں اتنی کثرت سے کھلے ہوئے تھے کہ بس دیکھتے ہی بنتی تھی۔ کی فکر انسانی قدرت الہی کی طرف جب بھی عقل درد کے آنکولوں سے اس طرف آجاتی ہے تو تعجب اور تحير میں اس لئے غوطہ زن ہونے لگتی ہے کہ کہاں اتنی کڑی دھوپ کا موسم دوپہر سے لے کر شام تک آگ برستی رہتی ہے، اور کہاں یہ نرم و نازک پنکھڑیوں والے پول کس طرح جلتی چلچلاتی کرنوں سے ہنس ہنس کر گلے مل رہے ہیں۔ آدمی اور جانور اس تمازت اور گرمی میں دم بھر کے لئے آرام پانے کے لئے ٹھہرے ہوتے ہیں ۔ ماتھے سے پسینہ ٹپک رہا ہے اور یہ پھول کی طرح زبان بے زبانی سے خوشی کے نئے نغمے گا رہے ہیں۔ یامدح صانع کر رہے ہیں ۔ سچ ہے کے اجتماع ضد ین محال ہے لیکن قادر مطلق کے لئے ہر شےکا وجود ممکن ہے۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام سے لے کر ہارون مکی تک معلوم نہیں کتنے حیرت انگیز ایسے واقعات اس عالم فانی میں گذرے ہوں گے جو تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو گئے یا وقت کے خاموش مگر تیز دھاروں میں بہہ گئے ہوں گے جہاں پھول کی نرم و نازک اور خوشنما پنکھڑیوں نے دہکتے انگاروں کو شکست دے کر اسے روند ڈالا ہو۔ چشم بینا کو اجالے میں لا کر دیکھتی ہے ۔ امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ جب تاریخ کی ورق گردانی کرو تو سمجھ لو کہ تم اسی دور میں اسی زمین پر اسی ماحول میں وہیں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ چل رہے ہو ۔ تاریخ نویسی کو زندگی بخشنے والی کربلا کے حادثات میں اس واقعہ اور حادثہ کے پاس ذرا کھڑے ہو کر دیکھئے۔ ایک ہلکا سا تبسم جو ششماہے علی کے لبوں پر ظاہر ہوا تھا کتنے پتھر دل انسانوں کو شکست فاش دے کر ایک ایسی تاریخ بنائی جس کی تفصیلات کے تحت ہزاروں راز ہائے درون الہی جو پوشیدہ تھے منکشف ہو گئے۔
ارشاد باری تعالی ہے کہ ہم احسان کریں گے ان پر جو اس زمین پر کمزور کر دئیے گئے ہیں اور ہم ان کو امام قرار دیں گے اور ہم اس زمین کا وارث قرار دیں کے۔ ایک دوسری جگہ اس وراثت کی بھی یہ کہہ کر تعریف کر دی کہ یہ زمین اور آسمان سب اللہ کی میراث ہے جسےچاہے اسے دیدے۔ اور پھر بار بار تکرار ہے قرآن مجید میں وہ رحیم ہے۔ بخشنے والا ہے غنی ہے اپنی مخلوق کا چاہنے والا ہے۔ انسان کو بڑے بڑے رتبه د پینے والا ہے۔ اعلی اور ارفع مدارج پر فائز کرنے والا ہے اگر انسان غغرور اور تکبر سے بچا رہے جس کے نتیجہ میں ظلم اور ستمگری اس کے کمزور بندوں کو بھلانا پڑتا ہے۔ انسان کو اتنا ضرور بنایا ہے ۔ اختیارات ضرور دئیے ہیں لیکن اسی کے ساتھ اس کے اختیارات پر قانون کی حد بندی لگا دی ہے۔ الله تبارک وتعالی کے قانون کے نفوذ کے لئے اپنے خاص بندوں کو ان کی نورانیت کو جو ان کی اصل تخلیق ہے پیکر خاکی دے کر زمین پر اتارا۔ یہ سلسلہ تکوین عالم سے ہی شروع ہوگیا تھا اور زمانہ جب تک اپنے مستقبل کو حال کے سانچے میں ڈھالتا رہے گا حق تعالی اس کا ولی اس کا خلیفہ اس کی زمین پر بستیوں پر، اس کی مخلوق پر اس کے بندوں پر اس کی جانب سے اپنے منصب ولایت و خلافت کے فرائض منصبی کو انجام دینے کے لئے غیبت کے نورانی جلوہ گاہوں سے انجام دیتا رہے گا۔ اور اس کے ہدایتی اشاروں، احکام و فرمان قرآن کی طرف صاحبان عقل و خرد اور نیک طینتوں کو اس طرح دعوت فکر دیتا ہے کہ دیکھو تمہارے لئے اجتماع ضد ین محال ہے ۔ خالق کائنات کے لئے کوئی شے محال نہیں ہے غور کرنے کی بات ہے کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہو رہا ہے ۔ جس خدا کے قبضہ میں سارے جہان کی بادشاہت ہے وہ بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمالے کے تم میں سے کام میں سب سے اچھا کون ہے اور وہ غالب اور بڑا بخشنے والا ہے۔ “اس آیہ کریمہ میں آزمائش کے ساتھر الله جل جلالہ کی قدرت، بادشاہت اور غلبہ کا ذکر ہے۔ یہاں جستجوئے علم و حکمت کا تقاضہ ہے کہ اس شب روز کی زندگی میں اس کی قدرت، بادشاہت اورغلبہ کو جانے سمجھے اور آزمائش کے لئے تیار رہے۔ تو پھر مزکورہ صفات الٰہیہ کا مظہر کا مشاہدہ کیسے ہو۔ اس کا مظہر ہے تو اسی جلوہ کی طرف انسان کی نیک فطرت متوجہ رہے۔
جو لوگ جستجوئے حق میں اپنی فکر کو محميز رکھتے ہیں ان کے لئے قرآن کریم راہ روشن کر دیتا ہے۔ چنانچہ سخت لفظوں میں کہتا ہے۔ قرآن پر فکر کیوں نہیں کرتے کیا ان کے قلب پر تالے پڑ گئے ہیں جب اس آیت کے ذریعہ فکر کو جھنجھوڑتا ہے چونکاتا ہے تو آگے بڑھ کر اس کی فکر و روشنی دیتا ہے یہ کہہ کر: لقد….. ہم نے رسول کو بھیجا روشن نشانیوں کے ساتھ اور کتاب اور میزان اس کے ہمراہ نازل کیا۔
روشن نشانیاں :
انبیاء و مرسلین کے سلسلوں کے بعد خاتم الانبیا کی حیات طیبہ اور پھر ابو الاآئمہ سے لے کر خاتم الاآئمہ کی حیات کا ہر لمحہ اگر پیش نظر رہے اور سیرت مقدسہ کو سامنے رکھيے تو جہاں طاقتوروں اور ظالم حکمرانوں اور مکروہ سیاستدانوں کے ظلم و ستم اور مکر و فریب کا یلغار ہے وہیں ہادیاں بر حق کی ہدایات اور روشن زندگی اور اصلاح معاشرہ کے لئے اقدام و ابلاغ پر غور کرے تو ایسا لگتا ہے ظلم کے تمام حربے مظلوم کی آواز کے سامنے بیکار ہو جاتے ہیں۔
سچ ہے یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ “پھول کی پیشی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جیگرششماہے علی اصغرکا لبوں پر ایک تبسم وہ تھا جس نے کتنے پتھر دلوں کا جگر توڑ دیا۔
کتاب :
کتاب یعنی قرآن نے کیسے کیسے انداز میں اشارے کئے ہیں کہ خدا کی قدرت کو پہچانو۔ معرفت حق تعالی کی طرف بڑھو۔ كتاب الٰہی میں جو ارشادات میں اس کے ذریعہ کردار ساز زندگی کی طرف کوشاں ہو جاؤ عشق الہی کے لئے اس کی قدرت اس آیہ کریمہ سے تمھارے وجود کو اوج ثریا سے بھی بالا تر لے جائے گا۔
وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ﴿٥٩﴾
اور اس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں اور اس کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو کچھ خشکی اورتری میں ہے اس کو بھی وہی جانتا ہے اورکوئی پتہ بھی (کسی درخت سے) نہیں گرتا مگر وہ اسے ضرور جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کی تاریکیوں میں ہے اور کوئی ہری نہ کوئی خشک چیز ہے مگر یہ که روشن کتاب (لوح محفوظ ) میں موجود ہے۔
(سورۃ انعام آیت ۵۹)
میزان :
عقل و دانی کے ساتھ انسان جب وحشت زدہ اور متحیر ہو کر کسی ایسے میزان یا پیمانے کو تلاش کرتا ہے جس کے ذریعہ وه اوہام کے تار و بود کو توڑ کر یقین اور پھر عین یقین پر ثابت قدم ہے یا نہیں ہے اس کو جان لے اور ثابت قدم رہے تو خدا نے اپنے بندوں کے لئے میزان قائم کر دیتے ہیں مثال کے طور پر زہیر قین کا کردار، حر کی بے چینی چند دقیقے امام مظلوم کے قریب میں کیا ملے ابدی زندگی کا یقین محکم مل گیا۔ کھنگال کر دیکھا تو اس کا وجود میزان پر نہیں اتر رہا تھا۔ دشمنی کی تہوں نے گر گر کر رفاقت کی طرف اتنا بڑھا کی تاریخ اس کی حیات کو ہمیشہ ہدایت کہ سنگِ میل سمجھتی رہےگی۔ حر کس طرح ہے چین ہوا۔ دیکھا اس کا کردار میزان سے گر رہا ہے۔ صبح عاشور کس طرح اپنے مولا کے قدموں پہ سر رکھ دیا تھا۔ ابھی کچھ دنوں کا واقعہ ہے۔
شیخ حسن نے جو عالم تھا۔ صاحبِ ضمیر تھا۔ حق کا طلبگار تھا۔ اپنے علم كو جب میزان پر رکھ کر تولہ تو پتہ چلا جہنم کی طرف جا رہا ہے۔ مصر کے ظلوماتی ماحول میں ابھر کر آیا اور یہ اس کے الفاظ میں کہ اگر مولا حسین حر کو معاف کر سکتے ہیں تو کیا میری خطاؤں کو معاف نہیں کرسکیں گے۔ جب میزان پر پورا اترا تو اب قتل کا فتوی اس کے لئے شہد سے شیریں تھا۔ قتل کر دیا گیا۔ لاش سڑکوں پر گھسیٹی گئی۔ سر جلتے ہوئے آتش کدہ ڈال دیا۔ کیا فرق پڑا۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے سر پرستی کی اور اپنے بندے کو ظلمت سے نور کی طرف لے آیا میزان پر ہر ایک کو اپنے کردار اور حسن سلوک اخلاق کو پرکھنے کا موقع اسی زندگی اسی مختصر سے عرصہ حیات میں نصیب ہوگا۔ ایام عزاداری ہے۔ منبروں سے درس اہل بیت جاری ہے۔ اگر آغنام کی چالیس ہزار درسگاہیں کھلی ہیں تو ہمارے لاکھوں منبر سے ہر گاؤں ۔ ہر بستی ہر شہر میں حسینیت، امامت، رسالت، قیامت کا درس ہورہا ہے ۔ ہمارے سیاہ لباس اس کی پہچان ہے۔ اگر یہ ہماری توجہ کی تصدیق ہے۔ فرش عزا پر امام وقت کی نظر میں ہماری فضیلت ہے اور رومال زہرا ہمارے آنسوؤں کے لئے گویا میزان پر اپنے کردار۔ اپنے خانوادہ کے کردار کو پرکھنے کی سند ہے جو بوقت ظہور اور پرورش داور گھر کے سامنے پیش کرنے کے لئے کچھ تو ہے جو ذریعہ نجات ہوگا۔ اس آگ برساتے ہوئے زمانہ میں جناب زہرا کے چاہنے والوں کا گر یہ آپ کے لال حسین کی شہادت پر اسی طرح ہے جیسے مقدمہ میں اپنی بساط بھر مشاہدہ کے زیر اثر یہ کہا تھا: کہاں آگ برساتی ہوئی گرمی اور کہاں نرم و نازک پنکھڑیوں والے پھول اور وہ کس طرح اس جہاں سوز گرمی میں اپنی شادابی اور خوشنمائی کی طرف حیرت زدہ نظروں کو اٹھا کر دیکھنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔ اب معترض تیکھے ترچھے انداز میں امام حسین علیہ السلام کے شیدائیوں کی طرف احتسابی تجاوز کی انگلیاں یہ کہہ کر نہ اٹھائی کے محشر کے ہنگامے میں جہاں انسان اپنے پسینے میں ڈوبا ہوگا، آفتاب سوا نیزے پر ہوگا، دماغ پک رہے ہوں گے، اس رستاخیز ماحول میں امام علیہ السلام کی چاہت سے منسلک افراد با سوا دٹھنڈی چھاؤں میں ہوں گے۔ سیراب ہوں گے لبوں پر شکر خدا ہوگا۔ حیات دنیوی میں جو آنسو چشم ہائے گریاں سے ٹپکے تھے وہ گہرہائے آبدار بن کر چاروں طرف بھیخرے ہوں گے اور محشر کی رحمتوں کے پیام و سلام ہوں گے۔ پیشانیوں سے انوار مودت کی کرنیں پھوٹ کر ہم جلسوں کو متوجہ کرتی رہیں گی اگر آج کی دنیا اپنے مادی ارتقا کو مقدر سمجھ کر قدرت خدا جس کا غلبہ مشرقین و مغربین پر ہے منکر ہو کر خو گر ظلم وستم ہو جائے تو وہ یاد کرے کہ اللہ جو خالق کائنات ہے اس نے یہ دنیا ان کے لئے نہیں بلکہ ان مستمندوں اور بیکسوں کے لئے بنائی ہے جو اس کی دنیا میں کمزور کر دیئے گئے ہیں ۔ امام حسین علیہ السلام کے پاس کون سا لشکر تھا؟ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام عالم نے زندگی کا بیشتر حصہ زندان میں گذارا۔ امام رضا علیہ السلام کے سامنے ہارون اور مامون کی مکروہ سیاست اور کثیر فوج اور بڑی طاقت کے سامنے کون سے دفاعی ہتھیار تیر، تبر، نیزے، تلوار، سپاہی، ماہرین جنگ تھے لیکن ذرا نظر اٹھاکر دیکھئے صدیاں گذریں عاشقان امام کے قافلے جوق در جوق چلے جارہے ہیں ۔ روز عرفہ کربلا میں ایک خلقت اُمڈ پڑی تھی۔ یا حسین یا حسین دلنشیں آواز سے فضا گنبد حرم کی طرف لہک رہی ہے۔ کیا ہوا کیسے ہوا کس نے کیا۔ یہ مظلوموں کی آرام گاہوں کی طرف کون سے لوگ ہیں جو امام حسین علیہ السلام کے حرم سے عباس جری علیہ السلام کے حرم کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ کہ مولا اپنے حرم میں آنے کی اجازت دیدیں۔ وہ دربار ابن کریم ہے۔ سب کی دعا قبول ہوتی ہے۔ سب کی حاجتیں لے کر کب جاتے ہیں۔ وہ تو اس لئے جاتے ہیں کہ انھیں وہ توفیق ملے کہ وہ دنیا کے سخت امتحان سے ہنستے مودت کے پھولوں کی خوشبو لیے اس دنیا میں جب تک زندہ رہیں ساتھ ساتھ چلیں اور انجام اسی راہ پر چل کر بخیر ہو اور وہ حوصلہ ملے جو وہ نرم جان پھولوں کی پتیوں سے آفتاب کی جانسوز کرنوں کے حوصلوں کو پست کر دیں۔
سچ ہے اس حوصلہ کے لئے ضمیر چاہیے، علم چاہیے، عرفان امامت جستجو چاہیے، کسب نور کے لئے سخت دلی رقیق القلب درکار ہے اچھی بات قبول کرنے کے لئے قلب سلیم آگے بڑھے۔ اس وقت یہ بات سمجھ میں آجائے گی۔
پھول کی پتی سےکٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر۔