آداب عزاداری سید الشہداء علیہ السلام

غم اور مصیبت کا تعلق جہاں ظلم و جور کی شدت اور گہرائی سے ہے وہ اعزاز سے بھی متعلق ہے جس پر ظلم و ستم ڈھایا گیا ہے چنانچہ ایک جوان کو مارا جائے اور وہی طمانچہ ایک شیر خوار بچے کو مارا جائے تو ظلم کی نوعیت میں بڑا فرق ہے۔
جو لوگ محرم میں واقعہ کربلا کے بیان کرنے پر اعتراض کرتے ہیں یا اصل محرم منانے پر اعتراض کرتے ہیں یا مجلسوں کی کثرت سے جلوسوں کی کثرت یا محرم سے متعلق دوسری باتوں پر اعتراض کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو واقعہ کربلا کو بس تاریخ کا ایک واقعہ خیال کرتے ہیں اگر ان لوگوں کو ذرا بھی احساس ہو کہ کربلا کے میدان میں چند افراد پر ظلم ڈھایا گیا ان کی شخصیتیں کیا تھی اور اس نظم کائنات میں ان کی حیثیت و منزلت کیا تھی تو یہ احساس ہوگا ہم سب مل کے ساری دنیا مل کر جو بھی غم منا رہی ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہے اگر حضرت امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کو نظر میں رکھ کر اپنی زندگی کے علاوہ کچھ اور حاصل نہیں ہوگا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام ایک عام شخص نہیں ہیں یہ حسین منی و انا من حسین کی بلند منزل پر فائز ہیں یہ وہ ہے جن کا نام عرش خدا کی زینت ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث کے مطابق عرش خداوندی پر یہ عبارت تحریر ہے ” ان الحسین مصباح الہدی و سفینۃ النجاۃ ” یہ ماسوی اللہ سب پر حجت خدا ہے خلیفۃ اللہ ہیں یہ وہ ہے جن کی امامت عرش سے فرش تک ہے کوئی ایک مخلوق ایسی نہیں ہے جس نے ان کی ولایت کا اقرار نہ کیا ہو اور ان کی فرمابرداری نہ ہو اس پوری کائنات میں ایک انسان اور دوسرے جنات ہیں جن میں خدا کے نافرمان بندے پائے جاتے ہیں ورنہ کوئی اور مخلوق خدا کی نافرمانی نہیں ہے چونکہ سب کے سب خدا کے فرماں بردار ہے لہذا وہ ان افراد کی امامت و ولایت کو تسلیم کرتے ہیں جن کو خدا نے اپنا ولی و امام قرار دیا ہے۔ یہ وہ افراد ہے جن کی بنا پر کائنات کو فیض مل رہا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی امامت صرف انسانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ انکی امامت کا قائل ہے اور ان کی امامت کا فرمانبردار ہے۔
زیارت جامعہ کبیرہ میں اس طرح کے جملے نظر آتے ہیں كهف الوراء مخلوقات کی پناہ گاہ بِکُمْ تُمْسِکُ السَّمَآءَ آپ کی بدولت یہ آسمان قائم ہے۔ بِکُمْ تُنَزِّلُ الْغَیْث آپ کی بنا پر بارش ہوتی ذَلَّ کُلُّ شَیْءٍ لَکُمْ ہر ایک آپ کے سامنے تسلیم ہے۔
اگر ایک خاندان ایسا ہو جس میں ہزاروں افراد ہیں اور ان تمام کی ذمہ داری ایک شخص کے ذمہ ہو اور وہ ان کی تمام ضرورتیں پورا کر رہا ہو۔ ہر ایک کا برابر سے خیال رکھ رہا ہو۔ ہر ایک اس کے فیض سے بہرہ مند ہو رہا ہو۔ ہر ایک کی زندگی کا دارومدار اس پر ہو۔ اب اگر کوئی ظالم اس شخص پر ظلم کرے اس کو ستائے اس کو بے دردی سے قتل کرے تو اس سے کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔ اس سے وہ تمام افراد متاثر ہوں گے جو اس سے فیض یاب ہو رہے تھے اس کے غم کا دائرہ وہاں تک جائے گا جہاں تک اس کے فیض کی وسعت ہوگی۔
حجت خدا کی عنایتوں سے ساری کائنات بہرہ مند ہوتی ہے۔ تو خدا زمین میں خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام حجت خدا ہیں ولی خدا ہی ساری کائنات پر ان کے احسانات ہیں ان کے فیوض و برکات ہیں۔ اسی بنا پر ملتا ہے جب حضرت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو ساری کائنات نے غم منایا۔ عثمان نے سرخ ہوکر اپنے غم کا اظہار کیا۔ سرخ آندھیوں نے چل کر اپنے درد کو ظاہر کیا۔ چاند اور سورج گہن زدہ ہوئے۔ زمین کے ذرات کو اٹھایا جاتا تو خون نکلتا۔ دیوار و در پر خون۔ جب غم شدت اختیار کر لیتا ہے تو آنسو نہیں نکلتے بلکہ آنکھوں سے خون نکلتا ہے۔ یہ کائنات پر شدّت غم کا اثر تھا کہ ایک امام حسین علیہ السلام کے غم میں خون کے آنسو بہا رہا تھا اور بہا رہا ہے اور جب تک ان مظلوموں کے خون کا بدلہ نہیں لیا جائے گا ظالموں اور قاتلوں کو واقعی سزا نہیں مل جاتی اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا اگر دنیا میں نہ ملے تو میدان قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اس ظلم کے اثرات صرف ۶۱ ہجری میں تمام نہیں ہوئے ہیں آج تک ظلم کے اثرات ہیں لہذا یہ سلسلہ غم بھی ہمیشہ جاری رہے گا۔ عجیب بات ہے لوگ ظلم اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر کے اس کو بند کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ اس کے خلاف فتوے دیتے ہیں ان لوگوں کو مظلوموں کا غم منانے سے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ظالم کے کوڑوں کی آواز بری نہیں لگتی ہے لیکن ماتم کی صدائوں سے بہت درد ہوتا ہے۔ یہ ظالموں کی ہمدرد، دنیا ہم کمزوروں پر پابندیاں عائد کرسکتی ہے ! کیا یہ سورج چاند اور آسمانوں پر بھی پابندی عائد کر سکتے ہیں کیا زمین کو خون کے آنسو بہانے سے روک سکتے ہیں. حضرت امام حسین علیہ السلام کا غم صرف ہماری دنیا کی سرحدوں میں محدود نہیں ہے. عظیم کہکشاؤں سے زمین کے معمولی سے ذرات تک ہر ایک عزادار ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے انداز سے اظہار غم کر رہا ہے۔ یہ غم انفسی بھی ہے اور آفاقی بھی۔.
حضرت امام حسین علیه السلام فرزند رسول و علی و زهرا علیہما السّلام ہونے کے ساتھ ساتھ حجت خدا ولیہ خدا خلیفہ خدا۔۔۔۔ ہیں اور ان کو کسی ذاتی دشمنی کی بنا پر قتل نہیں کیا گیا ان کو حجت خدا اور ولی خدا ہونے کی بنا پر قتل کیا گیا لہذا یہ حملہ ان پر نہیں بلکہ خدا پر ہے اس بنا پر امام حسین علیہ السلام ثاراللہ ہے اسی وجہ سے جہاں تک خدا کی خدائی ہے وہاں تک حضرت امام حسین علیہ السلام کا غم ہے۔
یہ غم تمام انبیاء مرسلین اولیاء آئمہ، شہدا، صدیقین، صالحین، متقین، مومنین و سالمین کا غم ہے ہر وہ شخص جو اپنے دل کی گہرائیوں میں خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے اس کی بندگی کو شرف و عزت سمجھتا ہے وہ حجّت خدا کا غم ضرور مناتا ہے۔ خدا کی معرفت جس قدر زیادہ ہوگی غم کا احساس بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ محرم کا چاند دیکھ کر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اس قدر غمزدہ ہوتے تھے چہرہ پر ذرا بھی آثار مسرت نمایاں نہیں ہوتے تھے۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے تھے۔
اس غم نے ہماری آنکھوں کو خون آلود کر دیا ہے آنسوؤں کا سیلاب جاری کر دیا ہے۔
)بحارالانوار جلد ۴۴ صفحہ ۲۸۴ حدیث ۱۸(
حضرت امام حسین علیہ السلام ثاراللہ ہیں خدا نے اس غم پر اس قدر ثواب کا وعدہ کیا ہے جتنا کی دوسرے اعمال پر نہیں ہے صرف آنکھوں کے نر ہونے پر اس قدر ثواب ہے جس کا اندازہ نھیں کیا جاسکتا ہے۔
جس طرح نماز روزہ حج وغیرہ کے آداب ہیں غم کے بھی آداب ہیں۔
ماہ محرم گریہ و بکا کا مہینہ ہے آل محمد علیہم السلام کے غم و حزن کا مہینہ ہے۔ بیت غدیر کی تجدید و تاکید کا مہینہ ہے آنسوؤں کے بدلے خون کے آنسو بہانے کا مہینہ ہے۔ ولایت و امامت سے وابستگی کے اظہار کا مہینہ ہے۔ ماتم و مجلس کا مہینہ ہے۔ دشمنان اہل بیت علیہم السلام سے بیزاری کا مہینہ ہے ظلم و ظالم سے اظہار نفرت کا مہینہ ہے اہل بیت کے فضائل و مصائب بیان کرنے کا مہینہ ہے۔ دین اسلام کی تعلیمات کی حیات نو کا مہینہ ہے لہذا اس کے خاص آداب ہیں۔
اس مہینے میں چونکہ محمد و آلِ محمد علیہمالسّلام کے فضائل و مصائب زبان پر جاری ہوں گے لہذا زبان کی مراتبت اور حفاظت ضروری ہے۔ اگر ہم ایک گندے گلاس میں شربت پیش کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو گناہوں سے آلودہ زبان پر کس طرح اہل بیت علیہم السلام کے فضائل و مصائب جاری کر سکتے ہیں جبکہ شربت اتنا پاک نہیں ہے جتنا اہل بیت علیہم السلام کی طہارت ہے۔ یہ حضرات مرکز نزول آیت تطھیر ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ اس مہینہ کی شرافت و تقدس کا خیال رکھتے ہوئے اوئے زبان کو جھوٹ، تہمت، غیبت اور خدا کی ناپسند باتوں سے آلودہ نہ کریں زبان ذکر خدا، صلوٰۃ اور استغفار سے پاک کریں۔ ان دنوں ہمارا دین گلاب سے زیادہ پاک کو خوشبو دار ہو۔ اس قدر پاکیزہ ہو کے صاحبان تطہیر کا ذکر مزید قداست و طہارت کا سبب ہو۔ ہم سب یہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام اور گناہوں میں کوئی بھی رابطہ نہیں ہے وہ گناہوں کو حد درجہ ناپسند کرتے ہیں تو کیا یہ مناسب ہے کہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والے اسی زبان سے امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ کریں جس سے کبھی جھوٹ بولتے ہیں کبھی غیبت کرتے ہیں کبھی تہمت لگاتے ہیں۔ کیا زبان بھی ایک کیسٹ اور سی ڈی ہے کہ اس پر کبھی گانا ٹیپ ہوگیا اور کبھی قرآن و نوحہ۔ نہیں یہ زبان ہے یہ خدا کی بارگاہ میں جوابده ہے ہم زبان کی قداست و طہارت کو برقرار رکھیں تاکہ ذکر حسین اس پر زیب دے سکے۔ ذکر حسین ضمانت ہے ہر گناہ کی آلودگیوں سے دور رہنے کی۔
آنسو واحد عمل ہے جو ریا کاری سے پاک ہے ہر عمل میں ریاکاری کا امکان ہے اور سب جانتے ہیں ریاکاری عمل کو باطل کر دیتی ہے۔ ریاکارانہ عمل قربت خدا کا نہیں بلکہ خدا سے دوری کا سبب ہے وہ ایک عمل جو ریا کاری کی آفتوں سے محفوظ ہے وہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے غم میں نکلنے والا آنسو ہے۔ یہ آنسو جتنا پاک و پاکیزہ ہے جس قدر گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے وہاں اس کی پاکیزگی ہماری آنکھوں سے یہ مطالبہ کرتی ہیں دیکھو جن آنکھوں کو امام حسین علیہ السلام کے غم کے آنسوؤں سے پاک کیا ہے اس کو نامحرموں اور دیگر حرام چیزوں کے دیکھنے سے آلودہ اور نجس نہ کرو صاحبانِ تطھیر کا غم ہے آنکھوں کی طہارت کا خیال رکھو۔ پاکیزہ آنکھوں سے پاکیزہ آنسُو نکلیں تاکہ پاکیزہ افراد کی ہم نشینی نصیب ہو۔
ہم ان باتوں کا بھی خاص خیال رکھیں کیونکہ ہم انہی ہاتھوں سے حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کا علم اٹھانے والے ہیں انہی ہاتھوں سے امام حسین علیہ السلام جناب علی اکبر علیہ السلام، جناب علی اصغر علیہ السلام دیگر شہداء کربلا کا نام لے کر ماتم کرنے والے ہیں زنجیر لگانے والے ہیں انہیں ہاتھوں سے پاکیزہ آنسوؤں کو پوچھنے والے ہیں انہیں ہاتھوں سے تبرک لینے والے ہیں انہیں ہاتھوں سے فرش عزا بچھا نے والے ہیں انہیں آنکھوں سے عزا خانہ سجانے والے ہیں۔ ضریح تابوت، تعزیہ دیگر تبرکات کو مس کرنے والے ہیں۔ یہ ہاتھ خیانت ظلم و جور سے آلودہ نہ ہو۔ یتیم نواز ہو یتیموں کو ستانے والا نہ ہو۔ یہ ہاتھ ظاہر نجاست سے بھی پاک ہو اور باطنی نجاست سے بھی۔
ہم اپنے پیروں کا بھی خیال رکھیں ہم اِن پیروں سے مجلسوں میں جائیں گے جلوسوں میں جائیں گے حرم جائیں گے زیارت کو جائیں گے مسجد جائیں گے جماعت میں شرکت کریں گے۔ مصلے پر کھڑے ہوں گے۔ اب ان پیروں سے حرام جگہوں پر نہ جائیں۔ والدین کی خدمت کرے غریبوں محتاجوں کو مدد کریں۔ اچھی جگہوں پر جائیں تاکہ فرش عزا پر بیٹھنے کی سعادت حاصل کر سکیں مجلسوں اور جلوسوں میں شریک ہو سکیں۔
اس مقدس مہینے میں سید الشہداء سے منسوب تبرک اور جلوس کا حصہ کھانے کی بھی یہ سعادت نصیب ہوگی اپنے شکم کو حرام غذاؤں سے محفوظ رکھے تاکہ پاکیزہ تبرکات کے اثرات نمایاں ہو حلال وحرام مخلوط نہ ہونے پائے۔
اس کے علاوہ ایام عزا میں ہماری زندگی کا رنگ دوسرا ہوں اس طرح ہو کہ محسوس ہو کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں تعزیت پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ایام عزا سے پہلے اپنے تمام کام انجام دے لیں تاکہ ایام عزا باقاعدہ مجالس عزا میں شرکت کرسکیں۔ مجالس میں شرکت کو ترجیح دیں اور اس کو بنیادی پروگرام قرار دیں۔ ایسا نہ ہو کہ دن بھر دوسرے کاموں میں اس قدر مصروف و مشغول ہو جائیں یا مجالس کے لیے وقت نہ نکال سکے اور اگر آئیں بھی تھکے تھکے۔ نہ صرف امامباڑے اور عزا خانے میں محرم کے آثار ہو بلکہ ہمارے گھروں کی بھی حالت ویسی ہو کہ پتہ چلے کہ ہم عزادار ہیں۔ یہ غم کے دن ہیں خوشی کے نہیں۔ سیاہ لباس پہنے، سیاہ پرچم لگائیں، مختصر یہ کہ ہماری پوری زندگی عزاداری سید الشہداء کا آئینہ ہو۔ ہم اپنے ہر عمل سے امام حسین علیہ السلام کا غم ان کی شہادت اور ان کے پیغام کے پہنچانے والے ہوں۔ سب کو محسوس ہو ہم وہ نہیں ہیں جو کل تھے۔ آج ہم عزادار ہیں۔
اس بات کی طرف خاص توجہ رہے کہ خداوندعالم نے عزاداری سید الشہداء علیہ السلام کا جو شرف ہم لوگوں کو عطا فرمایا کوئی معمولی شرف نہیں ہے۔ یہ وہ عزت ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی تمام بادشاہت ہیچ ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے کس طرح عزاداروں کی منزلت کا ذکر فرمایا ہے فرماتے ہیں :
رَحِمَ اللہُ شَیْعَتَنَا: شِیْعَتُنَا وَاللہِ الْمُؤْمِنُوْنَ فَقَدْ وَاللہِ شَرِکُوْنَا فِیْ الْمُصْیْبَۃِ بِطُوْلِ الْحُزْنِ وَالْحَسْرَۃِ۔
)ثواب الاعمال صفحہ ۲۵۷ حدیث ۳(
خدا ہمارے شیعوں پر رحم کرے خدا کی قسم ہمارے شیعہ ہی مومن ہے خدا کی قسم یہ مسلسل حزن و غم کے ذریعے ہماری مصیبت میں شریک رہتے ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اس حدیث شریف میں اس حقیقت کو بیان فرما رہے ہیں۔ شیعہ ہی حقیقی اور واقعی مومن ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی مسلسل عزاداری کے ذریعے اہل بیت علیہم السلام کے غم میں شریک رہتے ہیں۔
ایک اور معتبر روایت میں ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے سجدہ میں یہ دعا فرمائی۔ یہ یاد رہے کہ عبادت کا کمال سجدہ ہے اور سجدہ کی دعا نہایت اہم ہوتی ہے اور وہ بھی وہ دعا جس میں آنسو جاری ہوں دعا کی قبولیت کی علامت ہے اب ذرا غور فرمائیں امام وقت کی دعا وہ بھی سجدہ میں دعا اور بہتے ہوئے آنسو کے ساتھ اگر ہم اس دعا کا مصداق قرار پانا چاہتے ہیں تو اس کے مطالب پر پوری طرح عمل کریں۔
عزیزو ! موت کے وقت سے قیامت تک اور قیامت میں حساب و کتاب تک اور حساب و کتاب سے خدا کے فیصلے تک ہر مرحلہ اس قدر دشوار اور سخت ہے جس کو برداشت کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے. یہ وہ مراحل ہے جن کی سختیاں پہاڑ برداشت نہیں کر سکتے ہیں تو ہم نازک جو ایک معمولی سا نزلہ زکام برداشت نہیں کر سکتے ہم نازک کہا؟ یہ سختیاں کیوں کر برداشت کر سکیں گے. اور وہ دعا یہ ہے۔
وَارْحَمْ تِلْکَ الْاَعْیُنَ الَّتِیْ جَرَتْ دُمُوْعُہَا رَحْمَۃً لَنَا وَارْحَمْ تِلْکَ الْقُلُوْبَ الَّتِیْ جَزِعَتْ وَاحْتَرَقَتْ لَنَا وَارْحَمِ الصَّرْخَۃَ الَّتِیْ کَانَتْ لَنَا اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْتَوْدِعُکَ تِلْکَ الْاَنْفُسَ وَ تِلْکَ الْاَبْدَانَ حَتّٰی نُوَافِیَہُمْ عَلَی الْحَوْضِ یَوْمَ الْعَطَشِ
)کافی جلد ۴ صفحہ ۴۸۲ حدیث ۱۱(
خدایا ان آنکھوں پر رحمت نازل کر جو ہماری ہمدردی اور محبت میں ہم پر آنسو بہاتی ہیں۔
خدایا ان دلوں پر رحم کر جو ہمارے لئے درمند ہوتے ہیں پریشان ہوتے ہیں۔
خدایا رحم کر ان فریادوں اور نالوں پر جو ہمارے لئے بلند ہوتے ہیں۔
خدایا میں ان روحوں کو اور ان جسموں کو تیری امانت میں دیتا ہوں یہاں تک کہ پیاس کے دن حوض کوثر پر ان سے ملاقات کروں۔
دنیا کی یہ عزاداری حوض کوثر پر امام جعفر صادق علیہ السلام سے ملاقات کا سبب ہوگی”صرخه” بلند آواز میں گریا کو کہتے ہیں امام جانتے ہیں امام حسین علیہ السلام کے غم میں گریا کی آوازیں بلند ہونگی۔ غم کا احساس جس قدر شدید ہو گا گریا کی آواز اتنی ہی بلند ہوگی۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں کمیت نامی شاعر حاضر ہوئے انہوں نے امام علیہ السلام کے سامنے مرثیہ پڑھا امام علیہ السلام کے آنسو رواں ہوئے امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا :
مَا مِنْ رَجُلٍ ذَکَرَنَا اَوْ ذُکِرْنَا عِنْدَہٗ فَخَرَجَ مِنْ عَیْنَیْہِ مَائٌ وَلَوْ قَدْرَ مِثْلِ جَنَاحِ الْبَعُوْضَۃِ اِلَّا بَنَی اللہُ لَہٗ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَ جَعَلَ ذَالِکَ حِجَابًا بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ النَّارِ۔
)کفایۃ الاثر صفحہ ۲۴۸ بحارالانوار جلد ۲۶ صفحہ ۳۹۰(
اگر کوئی ہمارا تذکرہ کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر ہو اور اسکی آنکھوں سے مچھر کے پر کے برابر پانی نکل آئے خداوند عالم اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا اور یہ آنسو اس کے اور جہنم کی آگ کے درمیان پردہ و حجاب ہوگا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک عزاداری سید الشہداء کس قدر اہم ہے اور یہ سعادت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی ہے۔
عزاداری صرف محرم و صفر سے مخصوص نہیں ہے یہ مہینہ گرچہ مکمل طور سے عزا اور سوگواری کے مہینہ ہیں لیکن اس حدیث کا انداز بتا رہا ہے کہ جب بھی تذکرہ ہو تو یہ ثواب ملے گا۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جب بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کا نام لیا جائے تو تین مرتبہ کہو
صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِاللہِ
اسی طرح یہ روایت ہے :
جب بھی کوئی پانی پیتے وقت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کو یاد کرتا ہے اور ان کے قاتلوں پر لعنت بھیجتا ہے۔
خداوند عالم اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے ایک لاکھ گناہ معاف کرتا ہے اور ایک لاکھ درجات بلند کرتا ہے۔
)امالی صدوق صفحہ ۲۰۵(
اس سے واضح ہوتا ہے عزاداری ایک مسلسل ذمہ داری ہے۔ آج اسی عزاداری پر دین اہل بیت علیہم السلام باقی ہے ان آنسوؤں نے ظلم و جور کے تمام بادشاہوں کو نیست و نابود کر دیا ہے کسی بھی ظالم کو اس کے منصوبے میں کامیاب ہونے نہیں دیا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے عزاداری کی یہ تاثیر ہے جس نے دشمنان اہل بیت علیہم السلام کو کبھی بھی اور کہیں بھی کامیاب ہونے نہیں دیا ہے اس وجہ سے عزاداری پر طرح طرح کے فتوے دئیے جاتے ہیں مگر سب ناکام ہوجاتے ہیں اور نقش بر آب ہوجاتے ہیں اور قیامت تک اسی طرح ہوتا رہے گا انشاءاللہ۔۔
عزاداری کے اس عظمت و منزلت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری ذمہ داری ہے ہم عزاداری اس طرح برپا کریں جس پر اہل بیت علیہم السلام کی بارگاہ سے دعاؤں پر دعائیں نصیب ہوں۔
اس عزاداری میں ہم ہر طرح کی مقابلہ آرائی، دکھاوے، شہرت طلبی، نام و نمود سے پرہیز کریں نیت کو اس قدر خالص کریں کہ خدا اور اس کی رضا و خوشنودی کا اجر قرار پائے۔ مراسم عزا میں اپنی پسند یا کسی شہر و مقام میں منعقد ہونے والے پروگرام اور اس سے متعلق تعریفوں کو معیار قرار نہ دیں بلکہ اہل بیت علیہم السلام کی خوشنودی اور ان کی پسند کو معیار قرار دیں اگر بات واضح نہ ہو تو معتبر و مستند علماء سے رجوع کریں تاکہ ایسا نہ ہو ہم جس فعل کو ثواب سمجھ کر انجام دے رہے ہو اس میں کوئی ثواب نہ ہو اور میدان قیامت میں حسرتوں کا سامنا کرنا پڑے۔
مقتل کی معتبر کتابوں میں جو مصائب بیان کئے گئے ہیں وہ اس قدر دردناک ہیں ان کو برداشت کرنا آسان نہیں ہے۔ گریا کا تعلق نئے نئے واقعات سے نہیں ہے بلکہ بارگاہ حضرت سید الشہداء سے قلبی لگاؤ ہے اور دل کی گہرائیوں سے ہے۔
جناب زینب سلام اللہ علیھا نے جب کوفہ میں تقریر کی تو مصائب سن کر جانور رو رہے تھے۔ دل کی گہرائیوں سے غم و الم میں ڈوبا ہوا ایک جملہ کہرام برپا کرسکتا ہے۔
مجلسیں کچھ اس طرح ہوں ہر مجلس کے بعد اہل بیت علیہم السلام سے قربت اور ان کے دشمنوں سے نفرت کا احساس بڑھتا جائے۔ ہمارے عقائد اخلاق و اعمال پر اہل بیت علیہم السلام کا رنگ اس قدر زیادہ ہو کہ ان کی بارگاہ اقدس سے “ہم اہل بیت میں سے ہے” (مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ ) کی سند ملے۔
یہی صورتحال تمام مراسم عزا کی ہو. یہ پتہ چلے اس پوری قوم پر بس اہل بیت کی حکومت ہے. جنگ ڈھنگ چال ڈھال سب جگہ اہل بیت علیہم السلام کی جھلک ہو۔
مختصر یہ کہ ہم کچھ اس طرح عزاداری برپا کریں کہ ہمارا ہر پروگرام ایسا ہو جس میں اہل بیت علیہم السلام اور خاص کر امام زمانہ علیہ السلام شریک ہو کر دعائیں دیں۔