اخلاقیات ظہور – معنوی اور روحانی تیاریاں

اخلاقیات ظہور – معنوی اور روحانی تیاریاں
مقصد اور تیاری میں رابط کا ہونا ضروری ہے۔ اگر امتحان میں کامیابی مقصد ہے تو تیاری کا ایک خاص انداز ہوگا۔ اگر سفر مقصد ہے تو تیاری کا انداز دوسرا ہو گا کسی شادی میں جانے کا اندازِ مجلس غم میں شریک ہونے سے جدا ہے۔ اگر ہم لوگ اس وقت حضرت ولی عصر علیہ السلام کے ظہور پرنور کا انتظار کر رہے ہیں اور وقت ظہور ان کے اعوان و انصار میں شامل ہونا چاہتے ہیں، اس کی تیاری کا اندازہ کچھ اور ہو گا۔ یہ کسی عام جلسہ یا کسی تحریک میں شامل ہونا نہیں ہے۔ یہ ایک نظام الہی و آسمانی میں شامل ہونا یا شریک ہونا ہے جس کی سرحدیں وہاں تک ہیں جہاں تک “رب العالمین کی ربوبیت” ہے ظہور کے لئے کس طرح کی تیاری کی ضرورت ہے اس کے لئے ظہور کی خصوصیات کو سامنے رکھ کر تیاری کرنا ہوگی۔
زمانہ ظہور کی خصوصیات
زمانہ ظہور کی اپنی خصوصیات ہیں ان خصوصیات سے ہماهنگ ہونے کے لئے اسی نہج پر تیاری کرنا بھی لازم ہے۔ انہیں خصوصیات سے متصف رفتار وگفتار، غرض کردار کی ہر نوعیت کو اسی کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔
زمانۂ ظہور کی ایک واضح خصوصیت یہ ہے کہ وہ حقیقتوں کا زمانہ ہو گا۔ اس وقت تمام پردے اٹھ جائیں گے۔ حقیقتیں ابھر کر سامنے آجائیں گی کوئی بھی اپنی حقیقت کسی بھی صورت میں چھپا نہیں پائے گا۔ اس کا واقعی چهره امام وقت کے سامنے ہو گا۔ امام کو ہر ایک کے دل کا حال معلوم ہے وہ لوگوں کے درمیان جناب داؤد کی سیرت پر مل کریں گے۔
اب ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ جناب داؤدکی سیرت کیا تھی؟ اور ہمارے نبی کریم کی کیا سیرت تھی؟
جواب یہ ہے: خداوند عالم نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ظاہر کے مطابق فیصلہ کریں۔ جب کہ جناب داؤد علیہ السّلام کی ذمہ داری تھی کہ وہ واقعیت کے اعتبار سے فیصلہ کریں۔ ہمارے امام زمانہ علیہ السّلام کو خداوند عالم وہ علم عطا کرے گا جس کی بنا پر تمام واقعات اپنی حقیقتوں کے ساتھ امام زمانہ علیہ السّلام کے سامنے ہوں گے۔ ان کو کسی واقعہ کے لئے کسی گواہ اور بینہ کی ضرورت نہ ہوگی۔ واقعات پوری طرح ان کے سامنے واضح ہوں گے۔
زمانہ ظہور حقیقت اور صداقت کا زمانہ ہے۔ پردے اٹھ جائیں گے حقائق سامنے ہوں گے اس سلسلہ میں روایتوں میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جس وقت حضرت حجت کا ظہور پر نور ہو گا۔ اس وقت حضرت حجت لوگوں کے سروں پر اپنا دست مبارک پھیریں گے جس سے ان کی عقلیں کامل ہو جائیں گی۔
)كمال الدین, ص ۶۷۵, ح۳۰)
اس سے واضح ہوتا ہے ظہور کا زمانه عقل وحقیقت کا زمانہ ہے وہم و خیال کا زمانہ نہیں ہے۔ جب عقل کامل ہو جائے گی تو پھر کسی بات کو چھپانے کی ضرورت نہ ہوگی۔ عقل واقعات کو ان کی حقیقی صورت میں پیش کرے گی۔ بس آپ اتنا تصور کریں جب کامل عقلیں حقائق کو پیش کریں گی تو صورت حال کیا ہوگی۔ اس وقت لوگ ایک دوسرے کے ساتھ حقیقت کی بنیاد پر پیش آئیں گے۔ ریا کاری اور ظاہر داری کی بنیاد پر نہیں۔
اگر ہم اس وقت کے حالات کا جائز لیں اس وقت ہم لوگ نہ

معلوم کتنے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام فرماتے ہیں
لو تكاشف ما تداف
(امالی صدوق، ص ۵۳۱, ح ۹/۷۱۸)
اگر تمہارے راز ایک دوسرے پر منکشف ہو جائیں تو تم ایک دوسرے کو دفن نہ کرو
یعنی ایک دوسرے کو مسلمان سمجھو۔ اس وقت خداوند عالم کا بڑا احسان ہے۔ ساری حقیقتوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ورنہ زندگی کس قدر دشوار ہو جائے۔ موجودہ حالات جہاں روز مرہ کی زندگی کے لئے ایک عظیم نعمت ہی ہے۔ وہیں پر وقت مناسب اور بہترین فرصت بھی ہے ظہور امام علیہ السّلام سے پہلے خود کو تیار کرنے کے لئے خود کی اصلاح کے لئے اس وقت کچھ اس انداز سے اپنی اصلاح کریں کہ کل جب امام علیہ السّلام کے سامنے جانے کی سعادت نصیب ہو اس وقت شرمندگی نہ ہو۔
اس وقت کچھ پردے تو خداوند عالم کے رحم و کرم نے ڈال رکھے ہیں اور کچھ پردے خود ہم نے اپنے آپ پر ڈالے ھوئے ہیں جن کی بنا پرتمام عیوب ونقائص کے باوجود اس وقت زندگی آسان ہے۔ لیکن لظہور کے زمانے میں نہ فساد کرنے کا موقع ملے گا اور نہ ہی فساد کرانے کا۔ اس وقت حضرت ولی عصر علیہ السلام خداوند عالم کا دین الہی و آسمانی پیغام تمام جزئیات کے ساتھ نافذ کریں گے اس وقت تقیہ وغیرہ کا کوئی موقع نہیں ہو گا اس وقت ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود کو کچھ اس طرح سے تیار کریں کہ ظہور کے بعد حقیقت کا سامنا کرنے میں کوئی دقت و پریشانی او کسی طرح کی شرمندگی محسوس نہ ہو۔
یہ ظہور سے پہلے کا زمانہ ہماری اصلاح کا بہترین وقت ہے۔
حقیقت و صداقت کا سامنا کرنے کی تیاری کا وقت ہے اس انمول فرصت سے بہترین استفادے کا وقت ہے ظہور کے وقت ایسا بھی موقع آئے گا جب لوگوں سے ان کی جائیداد واپس لے لی جائے گی اور کہا جائے گا یہ زمین کا گھر تھارا نہیں ہے، کسی اور کی ملکیت ہے۔ یہ زمین اور گھر اس کو دیا جائے گا جو اس کا واقعی حقدار ہے۔ ابھی سے اپنے ذہن کو اس بات کے لئے تیار کرلیں۔ تا کہ اگر اس وقت ہم کو ہماری جگہ زمین، گھر، منصب و عہدہ سے ہٹایا گیا تو ہم اس کے لئے تیار ہوں اور کوئی احتجاج نہ کریں بلکہ امام کے حکم کے سامنے پوری طرح تسلیم ہوں۔
اس وقت ہمیں حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہونا چاہیے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے لئے بڑے بڑے عنوان تیار کر لیتے ہیں۔ مختلف منصب اور عہدہ اپنے لئے منتخب کر لیتے ہیں اور اس خیال میں زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ خیالی سلسلہ جاری رہا اور امام کا ظہور ہوگیا اور ان کی خدمت اقدس میں حاضری کا شرف ملا اور امام علیہ السّلام نے فرمایا “تمہاری تو کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔” تمہارے سارے عنوانات خیالی ہیں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس وقت کیا ہوگا؟ اس وقت ہماری واقعی قدر و قیمت سامنے آئے گی کیونکہ یہ دن وہ دن ہو گا جس دن قرآن کے بقول:
…هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ…
(سورہ مائدہ : آیت ۱۱۹)
یہ دن وہ ہوگا جس دن سچ بولنے والوں کو ان کی صداقت فائدہ مند ہوگی۔
کیا قیامت کے دن کوئی بھی شخص امام کے سامنے اپنی باطل حقیقت پیش کر کے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اپنا اصلی چہرہ چھپا سکتا ہے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ اس دن حقیقت کی بنیاد پرحساب وکتاب

ہو گا۔ حساب و کتاب کا معیار تقوی پرہیز گاری اور ایمان ہو گا۔ وزن بڑھانے اور شخصیت کو اونچا کرنے کے تمام باطل معیارختم ہو جائیں گے اس وقت بس “حق” معیار ہوگا. کسی بھی صورت میں اپنی حقیقت کو امام سے چھپا نہیں سکتے ہیں اس وقت حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا۔ تو کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہم ابھی سے حقیقت پسند زندگی بسر کرنے کی عادت ڈال لیں تا کہ وقت ظہور بھی اسی طرح رہیں جیسے اس وقت ہیں۔
جب اس وقت میں ہماری حقیقت دکھادی جائیگی تو کیایہ مناسب ہے کہ اس وقت اجتہاد کا دعوی کر دیں اور اپنے نام کے سامنے مجتہد لکھوائیں جب کہ واقعاً اجتہاد کے بلند مرتبہ پر فائز نہ ہوں۔ امام وقت کی نیابت عامہ کا دعوی کریں جب کہ تقوی و پرہیزگاری کی اس منزل پر نہ ہوں۔ ان امور کی سر پرستی اور ان اداروں کی سربراہی قبول کریں جب کہ اس کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔
چونکرہ ظہور کا کوئی وقت معین نہیں ہے کسی وقت بھی ظہور ہوسکتا ہے خود اپنا حساب کریں۔ اپنے ظاہر و باطن کو ایک کریں۔ باطل خیالات اور خیالی عنوانات سے خود کو پاک وصاف کریں حقیقت کے آئینہ میں اپنا مشاہدہ کریں خود اپنا محاسبہ کریں تا کہ اچانک کسی ایسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کے لئے ہم تیار نہ ہوں کیونکہ قیامت کے دن یہ منظر بار بار دیکھنے کو ملے گا جب کچھ لوگ یہ کہ رہے ہوں گے “کاش ہمیں ایک موقع اور مل جاتا” اور جواب ملے گا ہرگز نہیں اگر ان کو وقت دے بھی دیا جائے تو وہی کریں گے جو اب تک کرتے رہے ہیں۔ کیونگ ظہور کے بعد پھر کوئی معذرت کام نہیں آئے گی۔
زمانہ ظہور کے بعض تقاضے
حضرت حجت علیہِ السلام کے ظہور کا زمانہ حقیقتوں کا زمانہ ہوگا صداقتوں کا زمانہ ہوگا۔ اس زمانہ ظہور کے کچھ تقاضے ہیں بعض کا تذکرہ کرتے ہیں۔
۱ – صداقت کردار:
اس وقت ہماری ایک ذمہ داری ہے۔ ہم خود اپنی ذات اپنے نفس و روح کے سامنے حقیقت پسند ہوں پاکیزہ کردار رکھتے ہوں۔ جو شخص خود اپنے آپ کے سامنے سچا ہے وہ مطمئن اور پرسکون ہے وہ اپنی حقیقت پر پردہ ڈالنے کا محتاج نہیں ہوگا۔ وہ اپنی ذات کے لئے بھی سعادت مند ہے اور دوسروں کے لئے بھی سعادت و خوشی کا سبب ہے۔ لوگ اس کا احترام کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی ذات کو حقیقت و صداقت سے بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرتا ہے ۔ وہ لوگوں کا احترام کرتا ہے لوگ اس کا احترام کرتے ہیں۔
۲۔ دینی تعلیم:
اپنے نفس کو احکام خداوندی کا پابند بنانے کے لئے تعلیمات اسلامی کا جانا لازمی و ضروری ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات احکام خداوندی اہل بیت علیہم السّلام کی گرانقدر میراث ہے۔ یہ دنیا کا بے انتہا قیمتی خزانہ ہے جو اہل بیت علیہم السّلام نے عطا فرمایا ہے۔ وہی تعلیمات ہیں جو ان کے عظیم اصحاب نے ہم تک پہنچائی ہیں۔ اُنہیں تعلیمات کی نشرو اشاعت کے لئے اس کی حفاظت کے لئے، دوسروں تک یہ میراث پہونچانے کی خاطر، ان لوگوں نے طرح طرح کی اذیتیں برداشت کی ہیں۔ اسی راہ پر سینکڑوں افراد نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ شہید اول سے لے کر آج تک شہداء اسی راه سعادت پر چلتے ہوئے شہادت سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں۔ اہلِ بیت علیہم السّلام کی تعلیمات پر مشتمل ایک صفحہ لکھ کر محفوظ رکھیں اور دوسروں تک پہنچادیں۔ یہ عظیم کارنامہ دینی مدارس اور حوزات علمیہ نے انجام دیا ہے کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ یہ علماء، مدارس و

حوزات میں غسل و وضو اور حیض و نفاس کے مسئلہ بیان کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں کرنا احکام خداوندی کا مذاق اڑانا ہے۔ دینی تعلیمات صرف چند سماجی اور سیاسی مسائل کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اور یہی آسمانی میراث ہے۔
اگر ہم یہ جانتے ہیں کے ظہور کے وقت ہم ایسے انسان ثابت ہوں جو امام عصر علیہ السلام کی نظروں میں قابل قبول ہوں تو چاہیے کہ ابھی سے دینی تعلیمات سے آشنا ہوں تا کہ اپنی حیات کو، اپنی نفس کو اس کے مطابق شکل وصورت رنگ و انداز عطا کرسکیں اس کے لئے اجتہاد کی عظیم منزل تک پہونچنا ضروری نہیں ہے لیکن زندگی میں پیش آنے والے ضروری مسائل کا جاننا ضروری ہے۔ عبادت، نماز، روزہ، زکوۃ، خمس، نجاست……. ایک دوسرے کے حقوق … وغیرہ مسائل کا باقاعدہ جاننا ضروری ہے تاکہ ہم اپنی زندگی الٰہی تعلیمات کے مطابق بسر کر سکیں اپنا ظاہر و باطن اپنی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکیں۔
۳ بصیرت کامل:
ظہور سے پہلے کی تیاریوں میں ایک مرحلہ، جس کی وقت ظہور بہت ہی زیادہ اہمیت ہوگی وہ بصیرت و معرفت کے ساتھ صحیح عقیده ہے۔ اگر وقت ظہور عقیدہ درست نہ ہو یا عقید مستحکم نہ ہو بلکہ متزلزل ہو۔ عقائد کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی ہو اور صحیح جگہوں سے عقیده نہ لیا ہو۔ تو ظہور کے وقت بہت ہی زیاد مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ جس کو امام اور امامت کی پوری معرفت نہ ہوگی امامت کی اہمیت اور اس کے اختیارات سے واقف نہ ہو گا اور دل کی گہرائیوں سے قبول نہ کرتا ہو گا تو ہوسکتا ہے کہ ظہور کے وقت امام علیہ السّلام کے فیصلوں پر اعتراض کرے۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں جو امام کے لشکر میں ہیں لشکر کے سربراہ ہیں مگر امام علیہ السّلام کے فیصلوں پر راضی نہیں ہیں بلکہ امام علیہِ السلام پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کی سزا اس زمانہ میں قتل ہوگی کیونکہ امام علیہ السّلام کا ہر فیصلہ حقیقت پر مبنی ہو گا اس میں ذرہ برابر اشتباہ اور خطاو جذبات نہیں ہوں گے اس صورت میں اعتراض کرنا واضح حقیقت کا انکار کرنا ہے اور اپنی عقل کو امام علیہ السّلام سے بہتر سمجھنا ہے اور یہ عقیدہ امامت کے تصریح خلاف ہے۔
امام علیہ السّلام کو کسی ایک کو بھی قتل کرنے کا شوق نہیں ہے، وہ علیہِ السلام تو لوگوں کو زندگی عطا کرنے آئے ہیں، دنیا کو عدل و انصاف سے آباد کرنے آئے ہیں۔ اس بنا پر ظہور سے پہلے جس کا عقیدہ قرآن و حدیث کی مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں ہوگا ، اہل بیت کی کامل معرفت نہ ہوگی اس طرح کے لوگ امتحانات میں ناکام ہوں گے کیونکہ ظہور کے بعد ایسے واقعات پیش آئیں گے کہ جب امام فرمائیں گے اب تک تم لوگ جس بات کے عادی تھے وہ غلط تھیں صحیح بات یہ ہے جو آپ فرمائیں گے۔
اگر ہمارا عقیدہ نہایت مضبوط اور مستحکم ہو گا اس بات کا پورا یقین ہوگا کہ امام حجت خدا ہیں معصوم ہیں ان کے کسی بھی حکم میں ذرہ برابر جذبات اور خطا و اشتباہ نہیں ہے اور اس حکم پر عمل کرنا ہی ہماری سعادت ونجات کا سبب ہے تو ان کے سامنے تسلیم ہونا نہایت آسان ہوجائے گا اور دل میں بھی کوئی خلش پیدا نہیں ہوگی۔ ہماری نمازیں حکم امام کے سامنے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ اگر اس میں تشکیک کا شائبہ ہے۔ ہرگز اس طرح کا خیال بھی دل میں نہ لائیں گے کے امام علیہ السّلام کا یہ حُکم ان کے اجداد کی شریعت کے خلاف ہے۔ البتہ جن لوگوں کا عقیدہ امامت مستحکم ہو گا وہ اس طرح کے اعتراضات کر سکتے ہیں کہ آپ کا حکم روایات کے خلاف ہے۔ اس

طرح کا اعتراض کرنے والے اپنے علم و تحقیق کے خیال میں اس حقیقت سے غافل ہوں گے جن باتوں پر ان کی نظر ہے اور جو روایتیں ان کے سامنے ہیں وہ سب امام علیہ السّلام کے سامنے اس طرح واضح ہیں جیسے ہتھیلی پر سکہ۔ امام علیہ السّلام کے سامنے اپنے علم و تحقیق کا اظہار کرنا اس بات کی واضح علامت ہے کہ اس شخص کا عقیدہ امامت درست اور مستحکم نہیں ہے۔
اس بنا پر اس وقت ہماری اہم ذمہ داری ہے کہ ہم علم دین حاصل کرنے کی واقعا سنجیدہ کوشش کریں اس طرح کے جلسات اور کلاس میں باقاعدہ شریک ہوں جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں درس دیا جاتا ہے۔ کورس مکمل کرنے کے بعد تعلیم کا سلسلہ ترک نہ کریں مسلسل درس حاصل کرتے رہیں تا کہ بات ہمیشہ تازه رہے اور دل کی گہرائیوں میں اترتا چلا جائے۔ ہماری رگ و پے میں سما جائے اور ہماری ذات کا جزو بن جائے۔
آسانیاں نہیں ذمہ داریاں
جب حضرت حجت علیہِ السلام کے ظہور کا تذکرہ ہوتا ہے تو عام طور سے ذہنوں میں آسانیاں، فراوانیاں اور نعمتیں ہی آتی ہیں۔ وہ زمانہ وہ ہوگا اس وقت کوئی درد وغم نہ ہوگا۔ قتل و غارت گری نہ ہوگی۔ فتنہ و فساد نہ ہو گا۔ ہر طرف امن ہی امن ہو گا… اس وقت یقینا آسانیال ہوں گی اور ایسی آسانیاں ہوں گی جس کا اس وقت تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ زمانہ ہی کچھ اور ہو گا۔
ان آسانیوں کے ساتھ ساتھ زمہ داریاں بھی ہوں گی نہایت ہی اہم، جن کی پابندی میں ہوشمندی اور احتیاط لازم ہوگی۔
امام علیہ السّلام کی حکومت پوری کائنات پر ہوگی ساری دنیا پر اسلامی حکومت اور وہ بھی غدیری اسلام کی حکومت ہوگی یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہو جائے گا بلکہ تمام باطل طاقتیں مقابلہ پر آئیں گی۔ غدیری اسلام کو پھیلنے سے روکیں گی۔ سارے کام معجزہ سے نہیں ہوں گے۔ جنگ ہوگی جنگ میں سپاہیوں کی ضرورت ہوگی۔ ساری دنیا میں اسلام ہوگا آپ بس تصور کریں اس وقت سارا چین، روس، یورپ، امریکہ، افریقہ ایشیاء کے تمام ممالک اسلام قبول کر لیں گے اس وقت ان کو اسلامی تعلیمات اور احکامات کی ضرورت ہوگی سب کے سب ایک رات میں تو عالم فاضل نہیں ہو جائیں گے اس وقت کثیر تعداد میں اسلامی تعلیمات سے باقاعدہ آشنا مبلغین کی ضرورت ہوگی۔
لہذا ہم شیعوں کی ذمہ داری ہے اس ذمہ داری کو قبول کرنے کی ابھی سے تیاری کریں کوئی معمولی ذ مہ داری نہیں ہے ہم بھی ایک رات میں عالم فاضل نہیں ہو جائیں گے لہذا بس ابھی سے اس کی تیاریاں شروع کردی جائیں۔ اس میدان میں عورتوں کی ذمہ داری مردوں سے کم نہیں ہے۔ اس وقت عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے باقاعدہ پڑھی لکھی عورتوں کی ضرورت ہو گی یہ بات عرض کر چکے ہیں ہر کام معجزہ سے نہیں ہو گا بلکہ اپنی طبیعی روش سے ہو گا۔ میدان جنگ میں عورتوں کی ضرورت ہوگی۔ لیکن تعلیم و تربیت کے میدان میں تعلیم یافتہ اور صحیح عقیدہ رکھنے والی عورتوں کی شدید ضرورت ہوگی اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس طرح کے مبلغین اور مبلغات کی ضرورت سپاہیوں سے زیادہ ہوگی۔ سپاہیوں کا کام تو فتح کے بعد ختم ہو جائے گا مگر تعلیم وتربیت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ اس بنا پر اس وقت اس میدان میں کام کرنا ہم شیعوں کی نہایت اہم ذمہ داری ہے۔
اس کے علاوہ اس وقت نظام دنیا پانے کے لئے اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ اذہان کی بھی بہت شدید ضرورت ہوگی

ان تمام میدانوں میں ذمہ داریاں انجام دینے کے لئے ابھی سے کام کرنا ہو گا۔
لہٰذا ظہور کا زمانہ سرف آسانیوں کا زمانہ نہ ہوگا بلکہ ذمہ داریوں کا زمانہ ہو گا اس وقت ظہور سے پہلے خود کو ان ذمہ داریوں کے لئے تیار کرنے کا زمانہ ہے۔ لہذا قبل اس کے کہ وقت گذرجائے اپنے حصے کی تیاری اور کام کرلینا چاہئے۔
یہاں اس حقیقت کی طرف توجہ دینا نہایت ضروری ہے ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے صرف علمی میدان میں مہارت ضروری نہیں ہے صرف عقیدہ کافی نہیں ہے بلکہ اپنی نفس کی اس مرحلہ تک تربیت کرنا ہے جو امام علیہ السّلام کے ہر حکم کے سامنے اس طر تسلیم ہو جس طرح جناب ہارون مکی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے تسلیم تھے۔
ہارون مکی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
تربیت نفس اور امام علیہ السّلام کے سامنے مکمل تسلیم ہونے کی خاطر یہ واقعہ نہایت سبق آموز ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کی خدمت میں سہل بن حسن خراسانی آتے ہیں۔ سلام کرتے ہیں اور نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں فرزند رسول آپ اہل بیت علیہم السّلام ہیں اور منصب امامت پر فائز ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت ہے آپ اپنے حق کے لئے قیام کیوں نہیں فرماتے ایک لاکھ شیعہ تلوار لئے آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔ امام علیہ السّلام نے فرمایا: خراسانی بیٹھ جاؤ۔ خدا تمہارے حق کی حفاظت کرے۔ اس وقت امام علیہ السّلام نے اپنے غلام سے فرمایا۔ تنور روشن کرو۔ جب تنور روشن ہوا اور آگ کے شعلہ بھڑکنے لگے تو امام علیہ السّلام نے فرمایا: اے خراسانی اس تنور میں بیٹھ جاؤ۔ خراسانی نے کہا:فرزند رسول مجھے آگ کا عذاب نہ دیجیۓ۔ مجھے معاف فرمائیں۔ امام علیہ السّلام نے فرمایا : میں نے معاف کیا۔ اسی درمیان جناب ہارون مکی آن پہونچے ان کے ہاتھوں میں نعلین تھی۔ فرزند رسول آپ پر سلام ہو۔ امام علیہ السّلام نے فرمایا: نعلین رکھ دو اور تنور میں بیٹھ جاؤ۔ ہارون مکی نعلین ہاتھ سے پھینکی اور تنور میں بیٹھ گئے۔ اس کے بعد امام علیہِ السلام خراسانی سے خراسان کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا امام علیہ السّلام وہاں موجود ہی نہیں اور خراسانی بہت ہی بے چین تھے۔ امام علیہ السّلام نے خراسانی سے کہا جاؤ دیکھو تنور میں کیا ہے؟ خراسانی کا بیان ہے میں نے دیکھا کہ ہارون آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ امام علیہ السّلام نے ہارون سے کہا باہر آؤ بارون باہر آئے اور امام کو سلام کیا۔
اب امام علیہ السّلام نے خراسانی سے دریافت کیا: “خراسان میں اس طرح کے لوگ کتنے ہیں؟“ خراسانی نے کہا: اس طرح کا تو ایک آدمی بھی نہیں ہے۔
امام علیہ السّلام نے فرمایا۔
خدا کی قسم ایک بھی نہیں ہے۔ ہم اس وقت تک قیام نہیں کریں گے جب تک اس طرح پانچ افراد مارے مددگار نہ ہوں ہم مناسب وقت کو بہتر جانتے ہیں۔
(مناقب آل ابی طالب، ج ۳، ص ۳۶۲-۳۶۳)
ظہور کے وقت جب حضرت حجت علیہِ السلام کی حکومت قائم ہوگی اس وقت حقیقت و صداقت کا زمانہ ہو گا حقیقت کے علاوہ کوئی اور چیز قبول نہ ہوگی۔ ہم یہ نہیں کہتے اس وقت سب کو بارون کی ہو جانا چاہیے اور پوری طرح تسلیم ہو جانا چاہیے۔ ہارون مکی کے درجہ تک پہونچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے مگر کم از کم اس راستے پر قدم تو رکھنا چاہیئے۔ تسلیم کے درجات کے لئے نفس کو آمادہ کرنا چاہیے۔
اس زمانہ میں کچھ لوگ روایتوں پر اعتراض کرتے نظر آتے

ہیں۔ کبھی کہتے ہیں روایتیں ضعیف ہیں۔ کبھی کہتے ہیں خلاف عقل ہیں۔ یہ لوگ اپنی عقل کو امام علیہ السّلام کے او پر حاکم قرار دے رہے ہیں۔ جب اس وقت نفس چند روایتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور اعتراض کر رہا ہے تو ظہور کے بعد امام کے فیصلوں پر کس طرح راضی رہے گا اور کس طرح حکم امام علیہ السّلام کو تسلیم کریگا۔
اس طرح کی تسلیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم بت پرست ہیں بلکہ تسلیم اس عقیدہ کی بنا پر ہے کہ ہم امام کو معصوم جانتے ہیں۔ حجت خدا جانتے ہیں ان کی مکمل اطاعت کو ضروری جانتے ہیں۔ حضرت امام علی علیہ السّلام نے اپنے بعض اصحاب کی صفت اس طرح بیان فرمائی ہے۔
وثقوا بالقاء فاتبعوہ د
(نہج البلاغہ، خطبہ ۱۸۲)
اس قائد و امام پر پورا پر اعتماد رکھتے ہیں اور پیروی کرتے ہیں۔
امام سے ملاقات
ہم سب کی یہ دلی خواہش ہے اور بار بار دعا کرتے ہیں کم ازکم زندگی میں ایک مرتبہ ہی حضرت ولی عصر علیہ السلام سے ملاقات ہو جائے اگر اس وقت زمانہ غیبت میں امام علیہِ السلام سے ملاقات کا شرف نصیب نہیں ہو رہا ہے تو ظہور کے زمانہ میں یہ سعادت حاصل ہوگی۔ اس وقت نہ ان کے دیدار کا شرف نصیب ہورہا ہے اور نہ ہی ان کی دلنواز آواز سننے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔ اس وقت نہ ان کے پاس بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل کر سکتے ہیں۔ جب حضرت حجت علیہِ السلام ظہور فرمائیں گے اس وقت یہ شرف و سعادت ہر ایک کو حاصل ہوگی۔ دیدار امام کی آرزو ہر ایک مومن کے دل میں ہے اس سعادت کو حاصل کرنے کے لئے نہ معلوم کس قدر آنسو بہائے گئے ہیں۔ ہزاروں سال سے مومنین نے نماز شب میں گڑ گڑا کر دیدار امام علیہ السّلام کی دعائیں مانگی ہیں۔ دعائے عہد کے ذریعہ ہر صبح دیدار امام کے لئے دست بدعا رہتے ہیں۔ زندگی بھر ایک نظر کے لئے تڑپتے رہتے ہیں۔
ایک سوال یہ ہے وہ ذات اقدس و اکمل جو تمام گذشتہ انبیاء و اولیاء کی صفات کا مجموعہ ہے، جو عطر گلستان نبوت و امامت و عصمت ہے، وہ جو حجت خدا ہے، بقیة الله الاعظم علیہِ السلام ہے، جو دروازه قربت خداوندی ہے، جس کے ذریعہ اولیاء، اوصیاء، انبیاء فرشتگان مقرب، حاملین عرش کرسی نشینان، جن کی خدا کی بارگاہ میں رسائی ہے اور جس کے ذریعہ سب کو خدا کافیض حاصل ہورہا ہے کیا اس ذات اقدس و اکمل کی زیارت اور ان سے گفتگو کرنے کا شرف آسان ہے۔ ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیئے کہ حضرت حجت کی ملاقات آسان نہیں ہے۔ اس نور مجسم کی زیارت کا شرف جن بزرگوں کو نصیب ہوا آنکھ بھر کر زیارت نہ کر سکے نظریں جھک گئیں غشی کا عالم طاری ہوگیا۔ ہونا بھی چاہیے جب جناب موسی ان کے شیعوں کی تجلی برداشت نہ کر سکے اور غش کھاکر گر پڑے تو اس نور امامت و ولایت کی تجلّی کو کون برداشت کر سکتا ہے؟
اس دیدار کے لئے واقعأ صلاحیت و استعداد کی ضرورت ہے ہر چیز ہر ایک شخص نہیں دیکھ سکتا ہے دونوں میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضروری ہے۔
جب کہ اس وقت ہماری صورت حال یہ ہے بعض جزئی اختلاف کی خاطر ہم دوسرے برادر مومن کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے کے لئے تیارنہیں ہیں جبکہ ایمانی درجات میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے جب معمولی سا اختلاف ملاقات اور گفتگو کا دروازہ بند کر دیتا ہے تو ہم حضرت حجت علیہِ السلام کے دیدار کی تمنا کی نظر کر سکتے ہیں؟
اگر هم واقعا امام کے دیدار کی تمنّا رکھتے ہیں تو اخلاق، عقائد، اعمال تقوی، عبادت، تزکیہ نفس …. میں اس راستے پر قدم رکھنا ہوگا جو امام کا راستہ ہے ہم یقیناً تمام کوششوں کے باوجود اس عظیم منزل تک نہیں پہنچ سکتے ہیں لیکن اس راستے پر قدم تو رکھ سکتے ہیں اس سمت میں چل تو سکتے ہیں اس رنگ و انداز کو اپنانے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔
نہیں معلوم کس وقت ظہور ہو جائے کس وقت خانہ کعبہ سے آواز ظہور بلند ہو جائے ملاقات اسلام کا وقت آپہنچے اور ہم اپنے عقائد و اخلاق … کے لحاظ سے اس کے لئے تیار نہ ہوں۔ خدا کی بارگاہ میں واقعا صدق دل سے دعا کریں کہ ظہور سے پہلے ہمیں ان صفات وکمال سے آراستہ کردے ہمارے وجود کو ان خوبیوں سے مالا مال کر دے جو دیدار امام کے لئے ضروری ہیں۔ ایسا نہ ہو ہم ملاقات کے لئے جائیں اور وہ منہ پھیر لیں۔ ہم کچھ اس طرح ہو جائیں وہ ہمارا استقبال اس طرح کریں جس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام نے جناب حر کا کیا تھا۔
(یہ مضمون حضرت حجت الاسلام و مسلمین جناب حاج آقای سید علاء الدین موسوی دام ظلہ نجف اشرف کے ایک مضمون کا اقتباس ہے)