إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
(سورة محمد (۴۷): آیت ۷)
اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور (راہ حق پر) تمہارے قدموں کو ثابت رکھے گا۔
یہ بات اپنی جگہ بالکل واضح ہے کہ الله تعالی کو کسی بھی طرح کی ہماری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ ذات پروردگار میں ذرہ برابر احتیاج معقول نہیں ہے وہ مطلق بے نیاز ہے۔ پھر اس نے بندوں سے نصرت کی درخواست کیوں کر کی؟
اصل میں بات یہ ہے کہ خداوند عالم اپنے اولیاء اور خصوص بندوں سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ ان کی نصرت کو اپنی نصرت، ان پر ظلم کو اپنی ذات پر ظلم اور ان کے ساتھ احسان و نیکی کرنے کو اپنے ساتھ احسان و نیکی قرار دیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا تا کہ اپنے بندوں کا امتحان لے سکے جولوگ خدا سے محبت کرنے کا دعوی کرتے ہیں انھیں اس کے اولیاء سے محبت کرنی چاہیے۔ ائمه معصومین علیہم السّلام کو مختلف زیارتوں میں آیا ہے:
من أكبة فقد أحب اللة و من آب گف فقد أتمم الله
جس نے آپ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی اور جس نے آپ کو دُشمن رکھا اس نے خدا سے دشمنی کی۔
اس بنا پر اگر کوئی چاہتا ہے کہ خداوند عالم کی نصرت کرے تا کہ پروردگار عالم کی عنایات اور اس کی غیبی امداد شامل حال ہو تو خداوند عالم کے اولیاء اور مخصوص بندوں کی نصرت و یاری کرے۔ اور اولیائے الہی کے پاک و پاکیز سلسلہ کی سب سے محبوب اور عزیز فرد کامل حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السّلام ہیں۔ یہی ذوات مقدسہ سر چشمہ فیض ربانی ہیں خداوند عالم کی جانب سے جو کچھ بندوں کو عطا ہوتا ہے وہ انہیں کے واسطے سے ہوتا ہے۔ دور حاضر میں نبوی خلافت و وصایت اور ولایت الہی کے منصب دار حضرت حجت بن الحسن العسکری علیہم السلام کا وجود مبارک ھے۔ آج وہی خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں۔
پييه ژير الورى و يؤجؤدم بين الأرض و السماء
نصرت اہل بیت علیہم السّلام کے فضائل
حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے امیر المونین علیہِ السلام سے فرمایا:
اے علی علیہ السّلام ا تمہاری مثال سورہ قل هو الله احد کے مانند ہے جس نے ایک مرتبہ تلاوت کی گویا اس نے ایک تہائی قرآن کی تلاوت کرلی، جس نے دو مرتبہ تلاوت کی اس نے گویا قرآن کی دو تہائی تلاوت کرلی اور جس نے تین مرتبہ تلاوت کی اس نے گویا پورے قرآن کی تلاوت کرلی۔ اس طرح اے علی علیہ السّلام !جو اپنے دل میں تمہاری محبت رکھتا ہے گویا اس نے دنیا کے تمام بندوں کے ایک تہائی اعمال کا ثواب حاصل کرلیا اور جو اپنے دل میں تمہاری محبت رکھتا اور زبان سے تمہاری مدد کرتا ہے گویا اس نے تمام بندوں کے اعمال کا دو تہائی اجر حاصل کر لیا اور جو اپنے دل میں
تمہاری محبت اور زبان سے مدد کرنے کے ساتھ ساتھ عمل سے بھی نصرت کرتا ہے گویا اس نے تمام بندوں کے اعمال کا ثواب حاصل کرلیا ہے۔
(محاسن، ج ۲، ص ا۲۵ ، حدیث ۴۷۳؛ بحار، ج ۲۷، ص ۹۴, ح ۵۴)
علّامہ مجلسی رضوان الله تعالی علیہ روایت کرتے ہیں: ایک مرتبہ ہشام بن حکم امام صادق علیہ السّلام کی بابرکت بارگاہ میں شرفیاب ہوئے۔ بزم امام علیہ السّلام میں اور دوسرے بزرگ اور باعظمت اصحاب بھی تشریف فرما تھے۔ ہشام بن حکم بالکل نو خیز اور کمسن جوان تھے ۔ امام علیہ السّلام نے ہشام کو دیکھا تو آپ علیہِ السلام نے عزت و احترام کے ساتھ اپنے نزدیک اور دوسروں کی نسبت انھیں قدرے بلند مرتبہ جگہ پر بٹھایا، جب کہ دوسرے افراد عمر میں بزرگ اور بڑے تھے لوگوں پر یہ بات گراں گذری، حضرت نے محسوس کر لیا اور اس طرح فرمایا:
لها تأجڑ کا بقلبه ولسانه وييه
(بحار، ج ۱۰, ص ۲۹۵, ح ۴)
(میرے نزدیک ہشام کا مرتبہ اس لئے بلند ہے کہ) یہ اپنے دل، زبان اور ہاتھ سے ہماری نصرت کرتے ہیں۔
دین اسلام پر عمل اور نصرت امام علیہِ السلام
اس دور غیبت امام میں جب ہم امام علیہِ السلام تک رسائی نہیں رکھتے ہیں۔ براہ راست خدمت میں شرفیاب ہو کر ان کی نصرت و مدد نہیں کر سکتے تو یہ ہرگز تصور نہیں کیا جاسکتا کہ غیبت میں ہماری طرف سے امام علیہ السّلام کے لئے عملی نصرت کا دروازہ بند ہے اور ہم صرف دعائیں کریں اور دعا کرنے کے علاوہ کوئی راسته نصرت امام علیہِ السلام کا نہیں ہے اگر چہ دعا بھی ایک لحاظ سے ہماری بہت بڑی ذمہ داری اور خود نصرت امام علیہِ السلام کا ایک طریقہ بھی ہے۔ مگر دعا کرنا زبانی نصرت ہے، جو عملی نصرت کے درجہ سے بہر حال ایک درجہ کم ہے آج ہم امام عصر علیہ السلام کے پر نور وجود مبارک کے دیدار سے محروم ہیں۔ اپنے محبت کے جذبات کے اظہار کے لئے گل نرجس، یوسف زہرا کی جائے پناہ تلاش بسیار کے بعد بھی نا معلوم ہے۔ تو اس رشتہ محبت اور وجود امام علیہ السّلام سے والہانہ عشق کا تقاضہ بتاتا ہے ک غیبت امام علیہ السّلام میں رہ کچھ ایسے عملی اقدامات کریں اور اپنے کو دین کی تعلیمات سے جوڑ کر اس پر حقیقی طور سے عمل کریں اور ان چیزوں کو عملا ترک کردیں جنھیں امام علیہِ السلام پسند نہیں کرتے ہیں تو اس طرح ہم امام علیہِ السلام کی اپنے عمل سے بھی نصرت و یاری کر سکتے ہیں۔ اور غیبت میں رہ کر بھی عملی نصرت امام علیہِ السلام کا مظاہرہ کر کے حضرت علیہِ السلام کے ظہور کا مقدمہ فراہم کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھیں امام علیہ السّلام کی اپنے عمل سے نصرت و یاوری کے کیا کیا راستے ہو سکتے ہیں۔
تقوائے الہی
غیبت امام علیہ السّلام میں واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں سے پرہیز کر کے یعنی صحیح تقوی اور پرہیز گاری کے ذریعہ امام علیہ السّلام کی نصرت و مدد کا عملی مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
امیر المومنین علی علیہ السّلام اپنے ایک چاہنے والے کو خط میں تحریر فرماتے ہیں:
الا و إن إمامة قي اختفى من دنياه بطيه ومن غيه يقضيه الا وإذ لا تفيدون على ذلك و لكن آعيوني بورع و اجتها ډوقة وداد
(نہج البلاغہ فیض، ص ۹۴۴-۹۴۵)
آگاہ ہوجاؤ کہ تمہارے امام نے تمہاری اس دنیا اور اس کی تمام زینتوں سے صرف دو جوڑے کپڑے اور کھانے میں سے صرف دو روٹیوں پر اکتفا کیا ہے۔ اور یہ جان لو کہ لوگ میرے اس طریقہ پر عمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہو، مگر حرام سے پرہیز اور واجبات کی ادائیگی، تقوی اور صحیح راستہ پر چل کر میری نصرت و مدد کرو۔
اس طرح کی بے شمار روایتیں معتبر کتابوں میں نقل ہوئی ہیں جن میں مختلف معصوم اماموں علیہم السّلام نے اپنے چاہنے والوں سے دستورات الٰہی پر عمل کرنے اور تقوائے الہی اختیار کرنے کے ذریعہ مدد کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اور یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے کے ظہور امام علیہ السّلام کے بعد روئے زمین پر نیکیوں کے عام ہونے اور برائیوں کے خاتمہ سے وعدہ الٰہی مکمل ہو گا جو انسانی خلقت اور کائنات کی خلقت کا اصل مقصد بھی ہے۔
ایک توقيع شریف کے ضمن میں امام عصر ارواحنافداه فرماتے ہیں:
فاتقوا الله جل جلاله و ظاهروا على انتياگه من فتنۃ ق آیاقت علیکم
(احتجاج طبرسی، ج ۲, ص ۴۹۷)
بس تقوی و پرہیز گاری اختیار کرو اور اس فتنہ سے اپنی نجات کے لئے ہماری نصرت کرو جس نے تمہیں
چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔
وضاحت
امام زمانہ علیہ السّلام کو خداوند عالم کی جانب سے اہم ترین وظیفہ اور سب سے عظیم اور بڑی ذمہ داری جو عطا ہوئی ہے وہ ہے نیکیوں اور فلاح و بہبودی کی طرفت بندگان خدا کی ہدایت و رہنمائی کرنا۔ یہی اصل مقصد اور بدف ہے جو امام کو اپنی غیبت اور عدم غیبت دونوں حالتوں میں انجام دینا ہے۔ اب اگر ایک انسان نے بندگان خدا میں سے کسی ایک بشر کی بھی خیر و صلاح کی طرف ہدایت و رہنمائی کردی تو جس قدر ہدایت و نیکی کے راستہ پر لگانے کا وسیلہ بنے گا اتنی ہی مقدار میں اپنے امام کی نصرت کا شرف بھی حاصل کرلے گا۔ اب اس بات میں کوئی فرق نہیں ہوتا کہ وہ خواہ کسی دوسرے کو نیکی و فلاح و بہبود کے راستہ کی جانب رہنمائی کرتا ہے یا خود واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز کر کے صاحب تقوی اور دستورات اسلامی پر مکمل عمل کرنے والا بنتا ہے۔ اس لئے کہ وہ خود بھی ان لوگوں میں سے ایک فرد ہے جن کی ہدایت و رہنمائی کرنا امام کا وظیفہ ہے۔
دوسری طرف انسان دوسرے کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ اگر مقام ہدایت و ارشاد میں خود دستور دین پر عمل کرنے والا نہ ہوتو زبانی ہدایت کا چنداں فائدہ نہیں ہوتا عملی ہدایت کا اثر زبانی ہدایت کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اور اس کے اعمال و کردار اور تقوی و پرہیز گاری کے آثار دوسروں تک منتقل ہوتے ہیں اس طرح امام کے لئے ایک صاحب کردار چاہنے والا فخر کے اسباب فراہم کرتا ہے جہاں امام علیہ السّلام فرماتے ہیں:
تم ہمارے لئے باعث زینت بنو، رسوائی کا موجب نہ بنو۔
خلاصہ یہ کہ جب ایک چاہنے والا محیح معنی میں متقی اور صاحب کردار بن جاتا ہے تو دل میں خون الٰہی پیدا ہو جاتا ہے اوراگرکسی کے دل میں خوف خدا پیدا ہو جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی
چیز کردار کی پاکیزگی کی ضمانت نہیں لے سکتی ہے۔ خوف خدا ہونے کی صورت میں لوگوں کے حقوق کی رعایت کرے گا، خوف خدا ہو گا تبھی ناپ تول میں انصاف سے کام لے گا اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز نہیں کرے گا۔
(۲) صاحبان تقوی کی نصرت
دنیا میں کتنے صاحبان کردار اور مومن بندے ہیں جو مُختلف پریشانیوں میں گرفتار ہیں ان کی مدد اور نصرت کے اسباب فراہم کر کے ان کی سختیوں کو دور کر دینا بھی اپنے عمل سے حضرت علیہِ السلام کی بہترین نصرت ہے۔ نصرت امام کی یہ قسم صاحبان کردار کے لئے عبادت و اطاعت کے اسباب فراہم کر کے ان کی مشکل دور کرنا ہے جیسے کسی مقام پر مؤمنین کرام ہیں مگر ہدایت و رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں، امر بالمعروف کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اسی طرح ان کی عبادت و اطاعت میں مدد کرتے ہوئے آسانیاں فراہم کرنا۔ یا پھر کچھ صاحبان تقوی کی مادی ضرورتوں اور دنیوی نیازمندیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ان کی مادی امداد کرنا ہے۔ دنیا کے مختلف گوشوں میں امام علیہ السّلام کے چاہنے والے طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ بیماری غربت فقر وتنگ دستی، جہالت، دشمنوں کا نرغہ، تعصب، زمانہ کے فتنہ، گھریلو اختلافات، خاندانی جھگڑے، طلاق و نزاع، صاحبان دختر کے لئے مناسب رشتہ کی فراہمی، کاروبار سے محرومیت غرض یہ کہ آج اگر عام طور سے مسلمان معاشرے اور خاص طور سے شیعہ معاشرہ پر توجہ دی جائے تو خود ان کی حالت مُختلف مشکلات و پریشانیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ آپ سمجھتے ہیں مذکورہ ناگفتہ بہ حالات میں سے کسی ایک میدان میں بھی وارد ہو کر مشکل آسان کر دی تو کیا یہ عمل امام وقت کے لبوں پر مسکراہٹ و تبسّم کا سامان فراہم نہیں کرے گا ؟؟!! اور جب مصیبت زدہ انسان مصیبتوں سے راحت حاصل کرتا ہے تو خود اس سے دو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں:
۱ – مشکلات میں گرفتار انسان کی مُشکِل دور کر کے اس کے قلب کو سکون عطا کریں ۔ یہ عظیم عبادت ہے۔
۲۔ مصیبت زدہ انسان جب پریشانیوں سے نکل کر بہتر انداز میں خداوند عالم کی عبادت و اطاعت بجا لاتا ہے تو در اصل اس طرح اس کے اعمال و عبادات میں بھی شریک ہونا ہے۔ حقیقت میں یہی اصل مدد اور نصرت امام ہے۔
سید ابن طاؤوس رحمۃاللہ علیہ مہج الدعوات میں تحریر فرماتے ہیں: ایک شخص نے امیر المومنین علیہ السلام سے دریافت کیا : میں نے کچھ رقم نذر کی ہے کہ اسے راہ خدا میں انفاق کروں گا تو مولا بتائیے اسے کہاں خرچ کروں جس سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو؟
فرمایا: اسے صاحبان تقوی اور ابل عبادت و اطاعت میں خرچ کرو اس لئے کہ جو چیز ان پر خرچ کی جاتی ہے گویا خداوند عالم کی عبادت کی راہ میں خرچ ہوتی ہے اس لئے کہ وہ اس سے طاقت حاصل کر کے عبادت خدا بجالائیں گے۔ اس ضمن میں آخری روایت پیش کر کے بات مکمل کر دیتا ہوں۔
تفسیر امام حسن عسکری علیہ السّلام میں اس سلسلہ میں چند روایتیں نقل ہوئی ہیں:
اگر کوئی کمزور و ناتوں انسان کی مدد کرے گا تو خداوند عالم اس کی مدد کرتا ہے اور روز قیامت کچھ فرشتوں کو مامور کرے گا کہ اسے ہولناک مقامات اور آگ کی خندق سے عبور کرائیں اور سلامتی کے ساتھ اسے بہشت پہونچادیں۔ اگر کوئی مشکل میں گرفتار انسان کی مدد کرے جس سے اس کے کاروبار میں سہارا اور مشکلات سے نجات مل جائے تو خداوند عالم قیامت کے دن اسے مشکلات سے نجات دے گا وہ برے لوگوں کے گروہ سے الگ کر کے نیک لوگوں میں قرار پائے گا۔
(تفسیر امام حسن عسکری ص ۶۳۵)
الله تعالی سے دعا کرتا ہوں خدایا! اس دنیا میں تو اپنے ولی اور حجت علیہِ السلام کی مدد و نصرت کی توفیق عطا فرما۔ اپنے اعمال و کردار سے امام حاضر کو خوشنود فرما اور راہ نصرت امام علیہِ السلام میں عملی مظاہرے کے ذریعہ آخرت سے قبل دنیا ہی میں ظہور امام علیہ السّلام کے ذریعہ ہم سب کو برے لوگوں سے الگ کر کے نیک لوگوں میں قرار فرما۔ آمین