اسناد دعائے عہد

اس دعائے شریف کو معتبر شیعہ علماء اور محدثین نے اپنی گراں قدر کتابوں میں نقل کیا ہے جیسے علامہ شیخ محمد باقر مجلسی رحمۃاللہ علیہ نے بحار الانوار میں جلد ۵۳، ص ۹۵، باب ۲۹، ح ۱۱۱ سید ابن طاؤوس رحمۃاللہ علیہ کی مصباح الزائر سے نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ، محدث نوری رحمۃاللہ نے مستدرک الوسائل میں ( ج ۵ ص ۳۹۳، باب ۴۱، ح ۶۱۶۹) اور شیخ عباس قمی رحمۃاللہ نے مفاتیح الجنان میں اسے درج کیا ہے۔ بر صغیر کی مشہور دعاؤں کی کتاب تحفة العوام میں بھی یہ دعا موجود ہے۔
علّامہ مجلسی رحمۃاللہ لکھتے ہیں: “شیخ محمد ابن علی الجبعی کی تحریر سے نقل کیا گیا ہے جنہوں نے شیخ علی ابن السكون (قدس الله روحهما ) که مجھے خبر دی ہمارے استاد اور ہمارے سید السید الاجل العالم الفقيہ جلال الدين ابو القاسم عبد الحمید بن فخار بن معد بن فارالعلوی الحسینی الموسوی الحائری ( الله نے انہیں عمر طولانی عطا فرمائے) انکے سامنے قرآت کرتے انکے سامنے قرآت کرتے ہوئے جسکا وہ اس نسخہ سے مقایسہ کر رہے تھے جو ان کو انکے والد (رحمه الله ) کی طرف سے ملا تھا ۶۷۶ھ میں انہوں نے کہا کہ میرے والد (رضی اللہ عنہ) نے مجھے خبر دی کہ عالم اجل تاج الدین ابو محمد ابن علی ابن حسین ابن الدربی ( الله انہیں طولانی عمر عطا فرمائے) نے مجھے خبر دی کہ انہوں نے سنا ان الفاظ میں ۵۹۶ھ میں ربیع الاول کے مہینے میں اور پھر یکے بعد دیگر و راوی اپنے استاد کے سامنے قرآت کرتے ہوئے الشیخ الفقیہ العالم قوام الدین ابو عبد الله محمد ابن عبد الله البحرانی الشیبانی (رحم الله) ۵۷۳ھ میں انہوں نے شیخ ابو ذکریہ یحییٰ ابن کثیر سے، انہوں نے السيد الا جل محمد ابن علی القرشی سے اور انہوں نے احمد ابن سعد سے، انہوں نے شیخ علی ابن الحکم سے انہوں نے الربیع ابن محمد المصلی سے انہوں نے ابو عبد الله ابن سلیمان سے اور انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السّلام سے یہ دعا ان لفظوں میں نقل کی ہے۔
(بحار الانوار، ج ۹۱, ص ۴۱ طبع بیروت)
دعائے عہدی افادیت اور اس کا ثواب
دبائے عہد صادق آل محمد امام جعفر صادق علیہ السّلام سے منقول ہے۔ آں حضرت علیہ السّلام نے فرمایا:
جو اللہ سے دعا کرے چالیس صبح اس عہد اور ایمان کے ساتھ، وہ ہمارے قائم کے انصار میں شمار کیا جائے گا۔ اگر وہ ان کے ظہور سے پہلے مر گیا، الله تعالی اس شخص کو اس کی قبر سے باہر نکالے گا اور (اس دعا کے) ہر لفظ کے بدلے اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دے گا اور ایک ہزار گناہوں کو محو کر دے گا اور وہ دعا اس طرح ہے۔”اللهم رب »
دعائے عہد کے الفاظ اور انکے معنی
(۱) اَللّٰهُمَّ رَبَّ النُّوْرِ الْعَظِيْمِ وَ رَبَّ الْكُرْسِيِّ الرَّفِيْعِ وَ رَبَّ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ وَ مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَ الْاِنْجِيْلِ وَ الزَّبُوْرِ وَ رَبَّ الظِّلِّ وَ الْحَرُوْرِ وَ مُنْزِلَ الْقُرْاٰنِ الْعَظِيْمِ وَ رَبَّ الْمَلَاۤئِكَةِ الْمُقَرَّبِيْنَ وَ الْاَنْبِيَاۤءِ وَ الْمُرْسَلِيْنَ

دعائے عہد کا آغاز مندرجہ بالا فقرے سے ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ دعا ہے، اس لئے خطاب باری حق سے ہوتا ہے اللہم یعنی اے الله – لغت کے اعتبار سے یہ منادی مفرد اور معرفہ ہے۔ در اصل، یہ تھا یااللہ لیکن حرفِ ندا کا “یا” جو گرا دیا گیا اور ایک میم مشد کو الله سے مُلحق کر دیا گیا، لیکن معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے، مطلب وہی ہو گا۔ “اے اللہ” آیئے لفظ جلال الله پر روایات کی روشنی میں نظر ڈالیں۔
ہشام بن حکم نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے سوال کیا،
الله مما هو مشتق قال فقال لی یا هشام الله مشتق من الہ و الإله يقتضی ما لؤها لفظ اللہ کس مشتق کیا گیا ہے؟ امام علیہ السّلام نے مجھ سے فرمایا:
“اے ہشام! اللہ (لفظ) الہ سے مشتق ہوا ہے اور الہ کا تقاضہ یہ ہے کوئی مالوہ بھی ہونا چاہئے“
(الکافی، ج ۸۷ باب المعبود ح ۲ نقل از علی ابن ابراہیم القمی رحمۃاللہ علیہ)
یہ حدیث نصّ صریح ہے اس بات پر کہ لفظ جلا له اللہ مشتق ہے۔ جامد نہیں ہے۔ یہ اسم علم میں ہے جیسا کہ جو لوگوں کا نظریہ ہے۔ اس لفظ کا مادّہ و-ل-ہ ہے یا ا-ل ہ عربی نحو میں اسے اشتقاق کبیر کہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ لفظ جلال الله معرفہ ہے نکرہ نہیں۔ الف اور لام اسم کو معرفہ کرنے کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔
آئے خدا کے اس اسم پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے اقوال معصومین علیہم السّلام کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں:
عبدالله ابن سنان نے امام صادق علیہ السّلام سے بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کی تفسیر کے تعلق سوال کیا:
شنقي اله بين سيستاني قال شالت أبا عميا الله عليه الشلام عن تفسير بشير الله الان الرجيم قال الباء بهاء الله و الښين شاء الله و الييم تجد الله و روی بعضهم البيه ملك الله و الله الله شی الرحمن بجميع خلقه و الرجيم بالمؤمنين ځا
امام علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا: “ب” اللہ کے بہاء کی طرف اشارہ ہے “س” اللہ کی بلندی کی طرف اور “م’ اللہ کے مجد کی طرف۔
اور کچھ لوگوں نے یہ روایت نقل کی ہے کہ “م” سے مراد الله کا ملک ہے اور اللہ ہر چیز کا معبود ہے، جو رحمان ہے تمام مخلوقات کے لئے لیکن رحیم ہے صرف اور صرف مومنین کے لئے ۔
(الکافی، ج ۱, ص ۱۱۴, ح ۱, باب معاني الأسماء و اشتقاقها)
امام موسی بن جعفر علیہم السلام سے لفظ جلاله اللہ کے بارے میں سوال کیا گیا۔ آپ نے جواب میں فرمایا:
استولى على ما دق وجل

(اللہ کا مطلب ہے کہ) وہ ہر چیز پر مسلط ہے، چاہے وہ دقیق اور لطیف ہو یا جلیل (یعنی دبیز)۔
(الکافی، ج ۱, ص ۱۱۴, ح ۳ باب معاني الأسماء واشتقاقها)
ایک شخص نے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام سے بسم الله الرحمن الرحیم کے بارے میں سوال کیا۔ آپ علیہِ السلام نے فرمایا:
فقال إن قولك الله آعظم اسم من اسماء الله و جل و هو الاثم الي لا ينبغي أن شتی په غير الله لن يه به خلوق فقال

الرجل فما تفسير قول الله قال هو البني يتاله إليه عنت اوج و القتايي گل مخلوق عند انقطاع الرجاء من جميع من گونه و تقطع الشباب من گل من بيو او ذلك أن كل متری في هزي اليا و متعه فيها وإن عظم تاؤ وخيائه و گرت كول من دونه إليه قام تاون ځواج لا يفي عليها لها التعاه و گذيك هدا التقاﺅه يتاج إلى حوائج لا يقي عليها فينقطع إلى الله عند ورته وفاقيه كیادا گفت که عاد إلى شر که آماتش الة مم وجل يقول قل ) رایگان آتاگو عذاب الله أو أتنگ الشاعا غير الله تؤ إن ثم صادقين بل اياه تؤن فیکشف ما تدون اليه ان شاء و تؤ مار گؤ فقال الله جل جلاله يوباي آيها الفقراء إلى مرات الترم الحاجة الي في ل حالي و لة التموينية في كل وقت قال فاوا في كل أمر تأتون فيه و تﺅ جؤن نامه و بلوغ غايته قال إن أردت أن أغطية لة يقي غيرن على منگه وان أردت أن أمتعة لقم يقي غيري على اعطایگن فأنا أحق من شئل و أولي من ع إليه فقولوا عند افتتاح لي أمر صغير آؤ عظیچ پشيما ن الرحيم آی آشتين على هدا الأمر الله البنين لا و البيباد لغير الخي اذا اشيري و الجيب اذا دعي الخمي الیائی ای کم پشیم الرزق علينا الي بافي آذاننا ويانا و آخرت قمم علينا اليين وجعله فلا فيقا وهو كتابتيزنا عن أعاديه.
تیرا کہنا اللّٰہ (اس سے مراد) الله عزوجل کے عظیم ترین ناموں میں سے ہے اور یہ وہ نام ہے جو سوائے خدا کے لئے کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا ہے اور کوئی مخلوق اسے اپنے لئے استعمال نہیں کر سکتی ہے۔
راوی نے لفظ اللّٰہ کی تفسیر دریافت کی۔ آپ علیہِ السلام نے فرمایا:
الله وہ ذات ہے کہ جس میں پناہ لی جاتی ہے ہر حاجت اور پریشانی کے وقت جب اسکے علاوہ سب سے امیدیں منقطع ہو جاتی ہیں اور اس کو چھوڑ کر تمام اسباب اور وسائل منقطع ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اس دنیا کا ہر پڑا آدمی (جواپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے) اور جسکی تعظیم کی جاتی ہے، چاہے ان کے پاس کتنی ہی دولت کیوں نہ ہو یا کتنا سرکش کیوں نہ ہو اور متعدد افراد انکے پاس آکر اپنی حاجتوں کو پوری کرتے ہیں لیکن انکی کئی ضرورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو یہ رئیس پوری نہیں کرسکتا ہے۔ اسی طرح اِس عظیم شخصیت کی خود کئی حاجتیں ہوں گی جن کو وہ خود پوری نہیں کرسکتا ہے۔ پس جب وہ اپنی لاچاری اورمحتاجی کا وجدان کرتا ہے، وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے لیکن جب اللہ اسکی حاجت کو بر لاتا ہے، تو

وہ پھر اپنے شرک اور سرکشی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ اللہ عزوجل – فرماتا ہے: (اے پیغمبر ) کہہ دیجیئے، تم کیا سمجھتے ہو کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر آئیگا یاقیامت آجائیگی، تم اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکاروگے، اگر تم سچے ہو؟ نہیں تم صرف اور صرف اسے پکاروگے پھر اگر وہ چاہے گا تو جس پریشانی کے لئے تم اسے پکار رہے تھے اسے برطرف کر دیگا اور تم جو شرک کرتے تھے اسے بھول جاؤ گے۔ اللد- جل جلالہ- اپنے بندوں سے خطاب کرتا ہے اے میری رحمت کے محتاجوں ! یقینا، میں نے تمہیں ہر حالت میں اپنی ذات سے باندھ دیا ہے حاجتوں کے ذریعہ اور بندگی کی ذلت کو ہر وقت لازم کر دیا ہے۔ پس ہر مسئلہ میں جس میں تم پریشان ہوتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ حاجت پوری ہو اور تمہاری مراد بر آئے، صرف مجھ میں پناہ لو۔ کیوں کہ اگر میں نے ارادہ کرلیا تمہیں عطا کروں تو مجھے کوئی روک نہیں سکتا اور اگر میں نے طے کرلیا که تمہیں نہ دوں تو کوئی تمہیں عطا نہیں کرسکتا۔ لہذا، میں اس لائق ہوں کہ مجھ سے مانگا جائے اور مجھ سے گڑگڑا کر طلب کیا جائے۔ جب کوئی کام شروع کرو تو کہو بسم الله الرحمن الرحیم یعنی میں اس امر میں الله سے مدد طلب کرتا ہوں، وہ اللہ کہ جسکے علاوہ کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، جب اس سے پناہ طلب کی جاتی ہے وہ پناہ دیتا ہے، جب اس سے دعا مانگی جاتی ہے وہ مستجاب کرتا ہے ۔ وہ رحمن جو ہمیں رزق عطا کرتا ہے اور جو ہمارے دین، دنیا اور آخرت میں ہم پر رحیم ہے۔ اس نے دین کو ہمارے لئے ہلکا کر دیا اور اسکو بالکل سہل اور آسان بنا دیا اور وہ ہم پر رحم کرتا ہے کیونکہ ہم اسکی حدوں کو تجاوز کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔
(توحید صدق, ص ۲۳۰، باب ا۳، ج ۵، بحار الانوار، ج ۹۲، ص ۲۳۲، باب ۲۹, ح ۱۴)
رب النور العظيم : یہاں حرف نداء یا کو کاملا حذف کر دیا گیا ہے ۔ رب النور کیونکہ منادی مرکب ہے۔ اس لئے رب منصوب ہے (یعنی اس پر زبر پڑا ہے)۔
لفظ رب ، رب یَرُبَّ ( علیے مدّ یَمُدُّ سے اخذ کیا گیا ہے اور یہ ثلاثی مجرد کے باب نَصَرَ یَنْصُرُ کے وزن پر ہے۔ جیسے فَرَّ یَفِرُّ (باب ضَرَبَ يَضْرَبُ) سے بنا ہے۔ رب عربی
صرف کے اعتبار سے صفت مشبہت بالفعل ہے ربیب کے وزن پر جیسے خشین یا ربیب کے وزن پر جیسے حسین۔ صرف میں ایسے فعل کو مضاعف بھی کہتے ہیں یعنی وہ فعل جسکے مادہ میں ایک حرف کو دوبارہ دہرایا گیا ہے۔
تعجب یہ ہے کہ کچھ اہل ادب نے ربِّ کے معنی تربیت کے کئے ہیں۔ یہ صریحاً اشتباہ ہے کیونکہ تربیت کا مادّہ ر – ب – و ہے اور صرف کے اعتبار سے ناقص وادی ہے جبکہ ربِّ مضاف ہے۔ اسکے علاوہ ر – ب – و کا اسم فاعل باب تفعیل میں مربی ہے جسکے معنی ہے تربیت کرنے والا جبکہ ربِّ کا مطلب ہے مالک، سید، صاحب، وغیرہ ۔ البتّہ یہ بتانا لازم ہے کہ عربی اسماعیلی میں مترادفات نہیں پائے جاتے ہیں کیونکی لغت المہامی اور آسمانی ہے۔ بالخصوص اسماء خدا میں مترادفات ہر گز نہیں پائے جاتے ہیں اور ہر ایک اِسم کا ایک خاص معنی و مفہوم ہوتا ہے جو ایک خاص حقیقیت خارجی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
رب اللہ کے دیگر الاسماء الحسنی کی طرح ہے جو ذات خدا کے

لئے وضع کئے گئے ہیں اور انکا واضع یعنی بنانے والا خود اللہ ہے اور کوئی نہیں۔ لہذا اس معنی کے اعتبار سے یہ اِسم کسی اور کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا سوائے ذات حق کے۔ ہاں اگر اشتراک لفظی کے اعتبار سے ہے تو پھر اسکا استعمال کرنا جائز ہے جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے۔
قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ
(اے رسول) کہہ دیجئے : کیا میں اللہ کے علاوہ کوئی رب تلاش کروں جبکہ وہ (الله ) ہر چیز کارب ہے۔
(سورة انعام. (۶): آیت ۱۶۴)
اورصحیفہ سجادیہ میں یوم عرفہ کی دعا( شماره ۴۷) میں امام زین العابدین علیہِ السلام ارشاد فرماتے ہیں: رب الرب یعنی ربوں کا ربّ۔
النور العظیم : یعنی وہ نور عظیم جے خدانے پیدا کیا۔ یہ وہ نور ہے جو اللہ کی مخلوق ہے یعنی مقام نوراني رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا کہ روایت میں ملتا ہے۔
أول ما خلق الله نور ونبيك ياجابر
اے جابر! جو چیز اللہ نے سب سے پہلے خلق کی وہ تمہارے ہی نبی کا نور تھا۔
(بحارالانوار، ج ۵ا، ص ۲۴، ح ۴۳)
یہ وہ عظیم نور ہے جس سے بقیہ تمام انوار قدسیه مشتق کئے گئے ہیں جیسے نور وجود، نور الحياة، نور القدرت، وغیرہ۔
نور کی رب کی طرف اضافت بتارہی ہے کہ مخلوق پروردگار ہے اور خود خدا نہیں۔ دیگر لفظوں میں، یہ نور نہ تو ذات خدا کا حصہ ہے۔ نہ تو حلول کیا گیا ہے اور نہ ہی ذات خدا سے مشتق ہے۔ بلکہ مخلوق پروردگار ہے اور اسکی تحت تسخیر ہے۔
یوں تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے مقام نورانی کی گفتگو بہت طویل ہے لیکن کیونکہ اس مختصر سی شرح کے دامن میں گنجائش نہیں ہے لہذا وہ قارئین کرام جن کو اس موضوع کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی ہے وہ رجوع کر سکتے ہیں بحارالانوار، ج ۵ا پہلا باب یا حياة القلوب، دوسری جلد کی طرفِ۔
(باقی آئندہ انشاء اللہ)