امام حسین علیہ السلام میں قرآنی صفات

مذہب امامیہ کا ایک بنیادی اصول ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ اور جانشین وہی ہو سکتا ہے جو سہو ونسیان اور گناہ و معصیت سے بالکل محفوظ ہو اور معصوم عن الخطا ہو ، اس لئے کہ جانشین پیغمبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کردہ دین و شریت کا گراں اور محافظ ہوتا ہے ، امام اور خلیفہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت میں اسلام و شریعت کے قوانین و اصول اور احکام کا بیان کرنے والا اور بوقت ضرورت ان کی تشریح کرنے والا ہوتا ہے لہٰذا جس طرح خداوند عالم نے اسلام و قرآن کو ہر کس و ناکس کے توسط سے لوگوں کی نہیں پہونچایا کہ لوگ اس میں اپنی خواہش نفس سے تبدیلیاں کر ڈالتے اس کی شکل و صورت محو کر ڈالئے اسی طرح خداوند عالم کے عین منشا اور حکمت کا تقاضہ تھا کہ یہ شریعت و قرآن سے قیامت تک باقی رہتا ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر محض تیر ساٹھ (۶۳) سال ہے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قیامت تک اس دین و شریعت کو اس کی اصل شکل و صورت میں باقی رکھنے کے لئے کسی ایسے ہی ماند و نگراں کے دست زبردست کی ضرورت ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح معصوم عن الخطا و گناه و معصیت سے پاک ہو خواہش نفس سے کلام نہ کرتا ہو حالات کے نشیب و فراز کا اسیر نہ ہوا ہو وہ جب ان خصوصیتوں کا حامل ہو گیا تو لوگ اس پر اعتماد کر ینگے اس کی اطاعت و فرماں برداری کریں گے ورنہ دین کا ذمہ دار ہمارے ہی میں کوئی عام انسان بن جائے گا تو کون اس کی ضمانت دے گا کہ وہ مسلمان کی ہدایت و خیر خواہی میں حالات زمانہ کی سیاستوں کا شکار نہیں ہے۔ پیام دین کی نشر واشاعت یا تشریح دین میں خواہش نفس اور ہوس اقتدار و شہرت کا دلدادہ نہیں ہے جیسا کہ آج کوئی بھی صاحب شعور دین کے کسی بھی شعبہ میں مشغول افراد کے حالات سے بے خبر نہیں ہے، اسی لئے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حُکم خداسے اپنے بعد قیامت تک باقی رہنے والے دین کے لئے بارہ معصوم افرادو کو اپنا جانشین منتخب فرمایا اور ان کے لئے متعدد طریقہ سے نص فرمائی تا که دین خدا تحریف اور ہر شخص کی اپنی رائے اور خواہش نفس کا اسیر نہ ہو جائے۔ اور ان معصوم جانشینوں کے سلسلہ کی پہلی کڑی حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور آخری معصوم جانشین امام مہدی علیہ السلام ہیں جو فرمان رسول کے مطابق عدل قرآن اور امت مسلمہ کے درمیان گراں قدر امانت ہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث معروف ثقلین میں قرآن و عترت کو ایک ساتھ رہنے اور ان کے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی خبر دی ہے۔ قرآن معجیزئے پیغمبر ہے، عترت آل پیغمبر ہیں، قرآن میں جو کچھ ہے عترت پیغمبر اس کا مکمل نمونہ ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن عترت رسول کا تعارف کراتا ہے اور عترت اصل اور مکمل قرآن کی ترجمانی فرماتے ہیں کلام خدا قرآن صامت ہے عترت پیامبر قرآن ناطق ہیں اور عترت رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارہ معصوم جانشین سے عبارت ہیں جس سلسلہ کی تیسری کڑی حضرت امام حسین علیہ السلام ہیں جنہوں نے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی عظیم قربانی دیگر دین اسلام کو یزید پلید اور اس کے بعد آنے والے یزید صفت لوگوں کے ناپاک ارادوں سے قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا، امام حسین علیہ السلام اور قرآن فرمان رسول کے مطابق ہدایت و ارشاد کا محور و مرکز ہیں، حسین بن علی علیہ السلام کے اوصاف قرآن میں اور قرآن کے صفات امام حسین علیہ السلام میں ملیں گے اور انہیں خصوصیتوں اور مناسبتوں کی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں آیئے دیکھیں امام حسین اور قرآن مجید ایک دوسرے کی کس طرح آئینہ داری کرتے ہیں ۔ یہاں پر مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ منہ دیکھتا ہے آئینہ آئینہ ساز کا
امام حسین علیہ السلام کا وجود مبارک کلام خدا کے وجود کے مانند ہے کلام خدا قرآن صامت ہے امام حسین علیہ السلام قرآن ناطق ہیں۔
دونوں امت کے در میان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانتیں ہیں لیکن امانت کے طور سے دونوں کو امت کے سپرد کرنے میں رسول اللہ نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ خاص اہتمام فرمایا کہ انھیں بالائے منبر لے جا کر فرمایا
اے لوگوں! یہ حسین بن علی (علیہ السلام( ہیں انہیں خوب پہچان لو اور تمام لوگوں پر انہیں مقدم کرو۔
(بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۲۶۲؛ امالى صدوق مجلس ۸۷، ص۴۷۸؛ متب طریحی ، ج ۱، ص ۱۱۷)
اس کے بعد فرمایا :
اے اللہ ! میں اسے تیرے سپرد کرتا ہوں اور جو امت کے نیک افراد ہیں ان کے حوالے کرتا ہوں۔
(بحار الانوار، ج۴۵، ص۱۱۸، مثیر الاحزان، ص ۷۲ ؛ امالی طوسی، ج ۱، ص ۲۵۸)

امام حسین علیہ السلام تمام صفات میں قرآن کے ساتھ ہیں
جملہ صفات، خصوصیات، اور فضائل میں سید الشہداء حضرت امام حسین بن علی علیہ السلام قرآن کے ساتھ شریک ہیں۔
ا۔ قرآن لوگوں کے لئے ہدایت، خاتم الانبیاء کا معجزہ اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کا ذریعہ ہے۔ اور امام حسین علیہ السلام ایمان کی طرف لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور حق و باطل کے راستہ میں امتیاز پید اکرنے کا ذریعہ ہیں۔
( بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۰۵؛ کمال الدین، ج ۱، ص ۲۶۵)
۲۔ قرآن کا نزول شب قدر میں ہوا *……….. اور امام حسین علیہ السلام کی شب ولادت شب قدر کے مانند ہے جب ملائکہ امر پروردگار سے آسمان سے نازل ہو رہے تھے، اور روح الامین جناب جبرئیل خدائے متعال کی جانب سے تہنیت پیش کرنے گروہ ملائکہ کے ساتھ خانہ وحی میں اتر رہے تھے۔
(بحار الانوار، ج ۴۳، ص ۲۴۳؛ امالى صدوق، مجلس ۲۸، ص ۱۱۸)
۳ ۔ قرآن مجید روز قیامت ان لوگوں کی شفاعت کریگا جو اس کی مسلسل اور پابندی کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام بھی اپنے زائر اور مصائب پر گریہ کرنے والوں کی شفاعت فرمائیں گے۔
(بحار الانوار، ج ۴۴، ص ۲۸۱؛ امالی شیخ طوسی ج ۱، ص ۵۴)
۴- قرآن مجید فصاحت و بلاغت اور اپنے معالى اسلوب میں معجزہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا سراپا وجود ( سر، بدن، خون بلکہ تربت کربلا) معجزہ اور کرامت ہی کرامت ہے جیسا کہ دنیا کے گوشه و کنار میں ان سے نسبت رکھنے والی چیزوں سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔

۵۔ قرآن کی تازگی دائمی ہے جسے بار بار تلاوت کرنے سے اس میں مال اور خستگی کے آثار نمایاں نہیں ہوتے ہیں ۔ امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ اور آپ کے مصائب کا بیان بھی ہمیشہ زنده تازہ رہتا ہے اور بیان کرنے والے یا سنے والے کا دل کبھی اس سے اچاٹ نہیں ہو تا ہے۔
۶۔ قرآن کریم کی تلاوت عبادت ہے، اسے سننا عبادت ہے، اس کی طرف نظر کرنا عبادت ہے، امام حسین علیہ السلام کے لئے نوحہ و مرثیہ پڑھنا عبادت ، اس کا سنا عبادت، مجلس عزا میں بیٹھنا گریہ کرنا، اور دوسروں کو آپ کے مصائب میں رولانان، آپ پر گریہ کرنے والوں کے مانند گریہ کرنے کی کوشش کرنا سب عبادت ہے۔
( بحار الانوار، ج۴۴، ص ۲۸۹؛ کامل الزیارات، باب ۳۳، ص۱۰۶)
۷ ۔ قرآن کے بارے میں مسلمانوں پر واجب ہے اس کا احترام کریں، اس کی بے حرمتی نہ کریں، بغیر طہارت کے اسے مس نہ کریں، اسے بيع و شراء کی منزل میں قرار نہ دیں۔ امام حسین علیہ السلام کے لئے بھی علم خدا و رسول کے مطابق مسلمانوں پر واجب ہے ان کا احترام کریں اور ان کی بے حرمتی نہ کریں مگر مسلمانوں نے اس حکم کا خیال نہیں کیا ان کی بے حرمتی کی۔ انہیں خاک و خون میں آلودہ کیا، اپنے دین کا ان کے قتل سے معاملہ کر لیا جس کے عوض چند درہم مل گئے اور شہر رئی کی حکومت کی لالچ میں جو نصیب بھی نہیں ہوئی اتنے عظیم گناہ و کفر کا ارتکاب کیا۔
(بحار الانوار، ج۴۴، ص ۳۸۴، مقتل خوارزمی، ج ۱، ص ۲۳۹)
امام حسین علیہ السلام اور سورہ حمد کی خصوصیتیں
سوره حمد کے لئے جو جو خصوصیتیں ذکر ہوئی ہیں وہ امام حسین علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ہیں آیئے دیکھیں اور غور کریں :
ا۔ سوره حمد کو ام الکتاب کہا گیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام بھی ابو الا ائمہ ہیں۔
(بحار الانوار، ج ۳۴، ص۲۹۵؛ مناقب شہر آشوب، ج۳، ص ۲۶۷)
۲۔ سوره حمد کنز اطاعت ہے۔ امام حسین علیہ السلام اسباب شفاعت ہیں۔
(بحار الانوار، ج۴۴، ص ۲۴۲ منتخب طرحی، ج ۱، ص ۴۸)
سوره حمد وافیہ (وفا اور ادا کرنا ) امام حسین علیہ السلام بھی اسباب مغفرت کو پورا کرنے والے ہیں۔ ۳-
۴۔ سوره حمد شافی (شفا عطا کرنے والی) امام حسین علیہ السلام کی تربت خاک شفا ہے۔
(بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۲۱؛ امالی طوسی ،ج۱، ۳۲۴-۳۲۵)
۵۔ سورہ حمد کو کافیہ (کفایت کرنے والی) کہا ہے امام حسین علیہ السلام کی محبت بھی کافی ہے۔
۶- سورة حمد عدل قرآن ہے ، امام حسین علیہ السلام شریک قرآن اور معادل قرآن ہیں ( حدیث ثقلین) ہے۔
۷- سورہ حمد میں سات آیتیں ہیں اور دو دفعہ نازل ہوئی اس لئے اسے سبع المثانی کہتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے لئے بھی یہ خصوصیت ثابت ہے کہ آپ آسمان سے دو مرتبہ نازل ہوئے اور دو مرتبہ عروج فرمایا۔ جب آپ کی ولادت ہوئی تب آپ کی روح نازل ہوئی اور وقت شہادت روح بلند ہوئی به طرف آسمان جسطرح بقیہ ائمہ و انبیاء علیہم السلام کے لئے ہوا۔ اور امام حسین ایران کے جسم مطہر کو آسان کی طرف لے جایا گیا اور پھر دوبارہ اتارا گیا۔ یہ خصوصیت صرف آپ کی ذات اقدس سے مخصوص رہی۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ جب یزیدیوں نے آپ کو شہید کر دیا۔ اور سر مبارک کو نیزہ پر بلند کر کے کوفہ کی جانب لے جایا گیا تو ملائکہ نازل ہوئے اور آپ کے جسم مطہر کو اسی حالت میں پانچویں آسمان پر لے گئے اور جس مقام پر حضرت علی علیہ السلام کی تصویر (شبیہ) رکھی تھی اسی کے ساتھ ملا کر رکھ دیا اور جب تمام آسمان والوں نے ان کے خون آلودہ جسم کی طرف نگاہ کیا تو ان کے قاتل پر لعنت کرنے لگے اس کے بعد آپ کے جسم نازنین کو دوبارہ اسی مقام پر زمین کربلا میں رکھ دیا۔
(بحار الانوار، ج۴۵، ص ۲۲۹، کتاب المختصر ،ص ۱۲۶-۱۲۷)
۸- سورہ حمد کے ظاہر و باطن پر ایمان رکھتے ہوئے اگر اس کی کوئی تلاوت کرے تو خداوند عالم اسے ایسی نیکی عطا فرماتا ہے جو تمام دنیا سے افضل ہے۔
(بحار الانوار، ج۸۹، ص ۲۲۷؛ مجمع البیان، ج ۱، ص ۱۸؛ عیون الاخبار، ج ۱، ص ۳۰۲)
امام حسین علیہ السلام کا ذکر کرنے والے اور ان پر گریہ کرنے والے کو خداوند منان اسے ہر آنسو کے عوض ایسی نیکی عطا فرماتا ہے جو دنیا وما فیھا سے افضل ہے، اور جو ان کی زیارت کر تا ہے خداوند عالم اسے ہر حرف کے بدلے ایسی نیکی دیتا ہے جو تمام دنیا سے بہتر ہے۔
(کامل الزیارات اور ثواب گریہ سے متعلق کتاب کی طرف رجوع فرمائیں)
آخر میں امید رکھتا ہوں کہ ہر وہ مسلمان جو قرآن پر ایمان و عقیده رکھتا ہے اور اپنے نبی کا اتباع کرتا ہے، اس کے لئے اتنی باتیں معرفت حسین علیہ السلام کے ضمن میں دعوت فکر و عمل کا باعث ہوں گی اور مزید تشویق اور توفیقی کے لئے ہر مومن قرآن کی آیت کریمہ میں امام حسین علیہ السلام کی سیرت کا مشاہد ہوگا۔
الله تعالی ہم سب کو صراط مستقیم پر قائم فرما! قرآن و عترت پیغمبر کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق عنایت فرما! وارث حسین علیہ السلام حضرت امام عصر علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما ان کے جاں نثاروں میں شمار فرما۔