امام حسین علیہ السلام کا کرم اپنے زائرین پر

خداوند عالم نے قرآن کریم کا ایک اچھا خاصا حصہ داستانوں کو نقل کرنے کا رکھا ہے۔ امتوں کا تذکرہ، انبیاء ومرسلین علیہم السلام کا تذکرہ اور ہر داستان میں دروس رکھیں ہیں۔ یہ دروس جو واقعات سے حاصل ہوتے ہیں انسانی فطرت کو جھنجھوڑتے ہیں اور اکثر اس کی ہدایت کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ خداوند عالم نے متعدد آیات میں ایسے واقعات نقل کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔ ان میں سے ایک سورہ مبارکہ اعراف کی آیت نمبر ١٧٦ ہے جس میں صراحتاً واقعات کو نقل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمان رب العزت ہے:
( اے رسول!) پھر آپ ان کے لیے قصوں کو بیان کریں شاید وہ غور وفکر کرنے لگیں ۔
معلوم یہ ہوا کہ واقعات کو نقل کرنا عین مطابق حکم خدا ہے، سنت خدا و رسول ہے اور اس سے مردہ دلوں کو زندہ کیا جاتا ہے۔ اور زرخیز زمین یعنی نفس انسانی کو قدرتی توانائی عنایت کرتا ہے۔ اسی لیے ہم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث شریف، جس کے راوی عبداللہ بن طحان ہیں، اس کو قارئین کی خدمت میں پہنچانے کا شرف حاصل کیا ہے۔ حضرت علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن ہر ایک یہ تمنا کرے گا کہ کاش وہ امام حسین علیہ السلام کا زائر ہوتا ۔ کیونکہ ہر ایک اس دن خدا کی بارگاہ میں زوار حسین علیہ السّلام کی عزت و کرامت کا مشاہدہ کرے گا۔
( کامل الزیارات ، فصل ۵۰ ،ح۱ ،ص ٤٤١)
قارئین یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے تمام آئمہ معصومین علیہم السلام اپنے چاہنے والوں اور خصوصاً زائروں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ذیل میں ہمارا ان واقعات اور داستانوں کے نقل کرنے کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں۔
١) ہمارے اس عمل خیر میں تیزی کا سبب ہو۔
۲) حضرات آئمہ معصومین علیہم السلام کے چاہنے والوں اور زوّار کی عزت و وقار ہماری نظروں میں بڑھ جاۓ اور ہم کسی ایک کو بھی حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ ہر ایک دوسرے کو اپنے سے اچھا جانیں اور مانیں ۔
۳) ہم سب خداوند عالم کی خدمت میں ان آئمہ معصومین علیہم السلام کے ماننے والے ہونے کا تہہ دل سے شکریہ ادا کریں تاکہ ہماری اس محبت و ولایت میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے:
اگر تم شکر ادا کرو گے تو ہم نعمت میں ضرور اضافہ کریں گے۔
(سوره ابراہیم، آیت ٧)
قارئین ذیل میں ہم واقعات کو نہ صرف معتبر کتابوں سے باحوالہ نقل کریں گے بلکہ ان سے حاصل ہونے والے دروس پر بھی غور وفکر کریں گے۔
پہلا واقعہ
آقائے عبد الرسول خادم سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے مرحوم عبد الحسین سے نقل کیا ہے کہ ایک رات میں نے ایک عرب کو ننگے پیر خون آلود زخم سے بھرے ہوئے پیر کے ساتھ ضریح اقدس حضرت امام حسین علیہ السلام سے لپٹے ہوئے دیکھا۔ میں نے اس سے گفتگو کی اور بالآخر اس ڈر سے کہ کہیں اس کے زخم و خون کی وجہ سے حرم مقدس آلودہ اور نجس نہ ہو جائے اسے حرم مطہر سے باہر جانے پر مجبور کیا۔ اس شخص نے حرم سے مخاطب ہو کر کہا”یا حسین! میں نے سوچا تھا کہ یہ آپ کا گھر ہے لیکن معلوم یہ ہوا کہ کسی اور کا گھر ہے۔“ اسی رات انھوں نے خواب دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام کے صحن میں سرسبز منبر ہے اور ارواح مومنین ان کے سامعین میں سے ہیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے خادموں سے شکایت کر رہے ہیں کہ مرحوم سید عبد الحسین کھڑے ہوئے اور امام حسین علیہ السلام سے با عجزو پشیمانی گذارش کیا مولا ہم سے کیا بے ادبی وبے احترامی و گستاخی ہوئی ؟ حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ”آج کی رات میرے عزیز ترین مہمان کو میرے حرم سے باہر بھیج دیاگیا ۔ میں تم سے راضی نہیں ہوں اور نہ ہی خداوند عالم تم سے راضی ہے جب تک تم اسے راضی نہ کر لو۔“ انہوں نے فرمایاکہ آقاومولا میں اسے پہنچانتا بھی نہیں ہوں اور معلوم نہیں وہ کہاں ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ فی الحال وہ حسن پاشا کے گھر خیمہ گاہ کے پاس آرام کر رہا ہے ۔ اس کو مجھ سے کام تھا وہ یہ کہ وہ اپنے بیٹے کی شفا چاہتا تھا وہ میں نے عطا کر دی ہے۔ کل قبیلے والوں کے ساتھ آۓ گا اس کا بہت اچھے سے استقبال کرنا ۔ مرحوم عبد الحسین نیند سے بیدار ہو ۓ کچھ خادموں کو ساتھ لیا اور اس جگہ پہنچے۔ اس شخص سے ملاقات کی ۔ اس کا ہاتھ چوما۔ عذر خواہی کی ۔ اپنے گھر لے گئے۔ مہمان نوازی کی ۔ دوسرے دن پھر وہ شفا یافتہ بچے کے ساتھ ( جس پر فالج کا اثر ہو گیا تھا) دوسرے قافلے والوں کے ساتھ حرم میں بھی آیا اس کا بہت اچھے سے خیرمقدم کیا۔
( داستانہای شگفت، صفحہ ١٦٤)
قارئین ملاحظہ فرمایا آپ نے امام حسین علیہ السلام ہر زائر پر پوری پوری نظر رکھتے ہیں۔ اس کی رہائش گاہ سے بھی واقف ہیں۔ اس کے ساتھ ہونے والے سلوک سے بھی آگاہ ہیں۔ ذرا سی دل شکنی زائر کی حضرت کو نہ صرف یہ کہ گوارہ نہیں بلکہ حضرت کی اور خداوند عالم کی ناراضگی کا سبب ہے۔ ہم سب کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ زائر کا نہ صرف احترام کریں بلکہ بے احترامی نہ کریں اور خود بھی مودب رہیں اور زائرین کی اہانت نہ کریں۔
دوسرا واقعہ
فاضل جلیل القدر آخوندملا علی محمد طالقانی نے حرم مقدس امام حسین علیہ السلام کے بزرگ سادات مجاور سے نقل کیا ہے کہ ایک قافلے والے نے ان سے نقل کیا کہ زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے میں قافلے کے ساتھ اپنی زوجہ کے ہمراہ ایران سے روانہ ہوا ۔ میری زوجہ کی بیماری کی وجہ سے ان لوگوں نے مجھے”قرنطینہ“ میں چھوڑ دیا جہاں میری زوجہ کا زچگی کے دوران انتقال ہوگیا۔ زوجہ کے کفن و دفن کے بعد میں نے نومولود بچے کو ساتھ لیا اور چل پڑا۔ کیونکہ علاقہ اہل سنت کا متعصب علاقہ تھا لہذا کسی دایہ کا انتظام بھی نہیں ہوسکا۔ اور بچہ بھی نومولود تھا پستان کے علاوہ کسی اور چیز کو قبول بھی نہیں کررہا تھا۔ شدت سے گریہ و زاری کر رہا تھا۔ جتنا تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا اتنا زیادہ وہ گریہ کرتا تھا۔ آخر میں نے سوچا کہ بچہ ہے خالی پستان اور بھرے ہوئے پستان میں فرق تھوڑی کر پاۓ گا۔ میں نے اپنا پستان اس کے منہ میں دینے کی کوشش کی کہ شاید خاموش ہو جائے۔ بچے نے بھی اسے اپنے منہ میں لے لیا اور چوسنے لگا۔ خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب میں نے غور سے دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ جب وہ منہ چلاتا ہے تو کوئی چیز اس کے منہ سے باہر نکل رہی ہے۔ میں نے اپنے پستان سے بچے کا منہ نکالا اور باتعجب مشاہدہ کیا کہ میرے پستان سے دودھ جاری ہے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے فضل وکرم سے اپنے ننھے زائر کے لیے رزق کا انتظام کردیا ہے۔ یہ سلسلہ کاظمین اور سامرہ میں بھی جاری تھا یہاں تک کہ میں بچے کو لے کر کربلاء پہنچا۔ وہاں جب میں نے بچے کے منہ میں اپنا پستان دیا تو اب دودھ آنا بند ہو گیا تھا۔ میں سمجھ گیا یہ رزق کا انتظام اس لیے تھا کہ کوئی قابل قبول و اعتماد دایہ کا انتظام ممکن نہیں تھا۔ اب کربلاء میں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ پاکدامن بامحبت و ولایت دایہ مل جائے گی لہذا اب دودھ آنا بند ہو گیا اور دایہ کا انتظام بھی ہو گیا۔
( کتاب دارالسلام، عراقی، ص ٥٠٦)
قارئین ملاحظہ فرمایا آپ نے حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے ایک ایک زائر کا بالکل ویسے ہی خیال رکھتے ہیں جیسے زندگی میں رکھتے تھے۔ شاید دنیا والے زندہ رہ کر بھی اپنے مہمان کا اتنا خیال نہ رکھ پائیں جتنا خیال حضرات آئمہ معصومین علیہم السلام رکھتے ہیں۔ لہٰذابلا جھجک راستوں کی صعوبتوں کا خیال نہ کرتے ہوئے زیارت کا ارادہ کرنا چاہئے اور یہ واقعی دنیا و آخرت کی سعادت کا بہترین سرمایہ ہے والدین کے لیے بھی اور بچوں کے لئے بھی۔ بچوں کو اپنے ساتھ زیارت پر لے جانا چاہئے۔ خداوند عالم ہم سب کو اپنے والدین اور بیوی بچوں کے ساتھ جلد از جلد اور بار بار آئمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کی توفیق عنایت کرے۔
تیسرا واقعہ
جناب سلیمان بن اعمش سے روایت ملتی ہے کہ آپ نقل کرتے ہیں کہ کوفہ میں میرا ایک پڑوسی تھا میں نے ایک روز اس سے سوال کیا کیوں تم زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے نہیں جاتے؟ جواب میں اس نے عرض کیا اس لیے کہ (نعوذباللہ من ذالک) وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور اس کا کرنے والا جہنمی ہے۔ میں نے جب اس سے یہ ساری چیزیں سنی تو وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے گھر آگیا۔ شب جمعہ میں سوچا کہ صبح جاکر اس پڑوسی کو فضائل حضرت امام حسین علیہ السلام کی حدیثیں سناؤں گا تاکہ اس کی غلط فہمیاں دور ہو جائیں اور وہ راہ راست پر گامزن ہو جائے۔ میں اس کے گھر پہنچا تو گھروالوں نے بتایا کہ وہ کل رات زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے کربلاء گئے ہے۔ مجھے تعجب ہوا اور میں بھی جلدی تیار ہو کر کربلاء کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا وہ رکوع و سجود میں مصروف ہے اور بالکل تکان کے اثرات اس سے ظاہر نہیں ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا ”تم نے تو مجھے زیارت امام حسین علیہ السلام کے قائل ہونے پر نازیبا الفاظ کہے تھے۔“ اس نے جواب دیا ”اے میرے دوست تم صحیح بول رہے ہو۔ اس وقت تک میرا عقیدہ وہی تھا۔ پچھلی رات ( شب جمعہ) میں نے خواب میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام، تمام انبیاء اور حضرات آئمہ معصومین علیہم السلام کو دیکھا کہ سب امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آۓ ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ ایک عماری بھی ہے۔ میں نے دریافت کیا اس عماری میں کون ہے جواب ملا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں جو اپنے بیٹے کی زیارت کے لئے آ ئی ہوئی ہیں۔ میں عماری کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اس سے مستقل کاغذ کا رقعہ نکل رہا ہے۔ میں نے رقعہ کے لیے دریافت کیا تو جواب ملا کہ یہ رقعہ زائرین امام حسین علیہ السلام کے لئے شب جمعہ میں خدا کے عذاب سے امان کا رقعہ ہے۔اسی درمیان منادی کی نداء بھی سنا کہ ہم اور ہمارے شعیہ بلند ترین درجات بہشت میں ہوں گے۔ میں نے سوال کیا یہ لوگ کون ہیں جواب ملا حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء و معصومین علیہم السلام۔ جب میں نے ان مناظر کا مشاہدہ کیا تو فوراً نیند سے بیدار ہوا یہاں آکر توبہ و گریہ و زاری کی اور اپنے آپ سے وعدہ کیا اب جب تک زندہ رہوں گا اس عمل خیر سے غافل نہیں رہوں گا۔ سلیمان بن اعمش فرماتے ہیں میں نے بھی اسے بہت دعائیں دیں اور رخصت چاہی اپنے گھر واپس آیا۔
( تحفتہ المجالس، ص ٢١٢)
قارئین ملاحظہ فرمایا آپ نے آج بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گرانقدر حدیث ”إنَّ الحُسَينَ مِصباحُ الهُدى وسَفينَةُ النَّجاةِ “ منکرین زیارت میں شوق زیارت پیدا کر دیتی ہے۔
اس لئے شب جمعہ ہمیں ہمارے آباءو اجداد ( خدا ان پر رحمت نازل کرے) نے مجالس کا اہتمام اور زیارت وارثہ پڑھنے کی تاکید کی ہے۔ خداوند عالم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ ہمیں ان پر عمل کرنے اور تاحیات زیارت کی توفیق بیوی بچوں اور والدین کے ساتھ عنایت فرماۓ ۔ آمین
چوتھا واقعہ
روایت ہے کہ شہر موصل میں ایک طبیب ( حکیم ) رہتا تھا جو زمانہ امام حسین علیہ السلام میں نہ صرف یہ کہ حضرت کی امامت کا قائل نہیں تھا اس نے حضرت کا امتحان لیا اور اس کے بعد حضرت کی امامت کا قائل ہوا، اپنا واقعہ یوں بیان کرتا ہے کہ میرے پڑوس میں حضرت امام حسین علیہ السلام کو چاہنے والی ایک بیوہ رہتی تھی جو بیمار ہوئی تو اپنے یتیم بچے کو میرے پاس بھیجا ۔اس نے والدہ کی کیفیت بتایا تو میں نے اس سے کہا دوا میں بنا دوں گا اور وہ صحت یاب بھی ہو جائے گی لیکن مجھے فلاں رنگ کے گھوڑے کا بالکل تازہ جگر چاہئےہوگا۔ اس بیچارے نے عذر خواہی کی کہ میں کہاں سے لا سکوں گا۔ تو میں (حکیم) نے کہا تیرے آقا امام حسین علیہ السلام کے پاس جا اور سوال کر کے دیکھ کیا وہ تیری مدد کر سکتے ہیں۔ لڑکا حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور بات رکھی۔ حضرت نے فوراً اسی رنگ کا گھوڑا منگوایا اسی کے سامنے ذبح کیا اور اس کا جگر نکال کر دےدیا۔ یہ یتیم میرے پاس لیکر آیا ۔ مجھے تعجب ہوا لیکن میں نے اسے یکے بعد دیگرے کل پانچ بار الگ الگ خصوصیات کے گھوڑے کے جگر لانے کو کہا اور وہ سب کے سب یکے بعد دیگرے امام حسین علیہ السلام سے لےکر حاضر ہوا۔ مجھے بڑا تعجب ہوا اور اس سخاوت کریمانہ سے میں اتنا متاثر ہوا کہ اس یتیم کے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے آپ کو ان پر گرا دیا۔ ان کی امامت کا قائل ہو گیا۔ اس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام مجھے وہاں لے گئے جہاں وہ پانچوں گھوڑوں کے لاشے پڑے تھے ۔ اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا یہ تو پھر بھی آسان امر تھا میں تجھے اس سے بھی افضل فعل بتاتا ہوں یہ کہہ کر حضرت امام حسین علیہ السلام نے ان گھوڑوں کی لاشوں کے کنارے کھڑے ہوئے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور عرض کیا پروردگار تیری رضا کے مطابق تیرے بندے کی خاطر ان گھوڑوں کو ذبح کیا تھا۔ اور تو اس بات پر قادر ہے کہ ان سب کو دوبارہ زندہ کردے۔ اگر میرے آباءو اجداد تیرے نزدیک با عزت و وقار ہیں تو تجھے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، میرے والد علی ابن ابی طالب علیہماالسلام اور میری والدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور میرے بھائی حسن مجتبی علیہ السلام کا واسطہ ان گھوڑوں کو دوبارہ زندہ کردے۔ ابھی حضرت کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ پانچوں گھوڑے دوبارہ زندہ ہوگئے اور میں واقعاً یہ سب دیکھ کر اپنے کہےپر پشیمان ہوااور صدق دل سے حضرت کی امامت پر ایمان لے آیا۔
( تحفتہ المجالس، ص ١٨٨)
قارئین ملاحظہ فرمایا آپ نے یہ تو ان لاتعداد واقعات میں سے کچھ تھے جنھیں علماء نے اپنی گرانقدر کتابوں میں نقل کرکے ہم تک پہنچایا ہے۔آج بھی زا ئرین اور حضرات آئمہ معصومین علیہم السلام کے چاہنے والے نزدیک سے یا دور سے حضرت امام حسین علیہ السلام سے لو لگا کر اپنی جائز اور ان کے حق میں بہتر حاجتوں کو حاصل کرتے ہیں۔ ہم سب کی امام حسین علیہ السلام کے واسطے سے خدا وند متعال سے دست بدعا ہیں کہ ان کے منتقم خون حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرماۓ اور ہم سب کو ان کے ساتھ مل کر پہلے مدینہ میں اہل بیت رسول پر کئے گئے مظالم کا بدلہ لینے کی توفیق عنایت کرے پھر تمام آئمہ معصومین علیہم السلام پرکئے گئے مظالم کا بدلہ لینے کی توفیق عنایت فرماۓ ۔ جب تک زندہ رکھے حضرات آئمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت سے مشرف فرماۓ ۔ آخرت میں ان کی شفاعت اور قربت عنایت فرماۓ۔آمین