خداوند عالم نے حضرت رسول خدا ﷺ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا بلکہ ان کے تمام اقوال و افعال کی بھی ضمانت لی۔ ان کی ہر گفتگو خدا کی بات ہے اور ان کا فعل خدا کا پسندیدہ فعل ہے۔ بلکہ خدا کا فعل ہے۔ سورہ مبارکہ النجم کی آیت نمبر ۳٫۴ میں ارشاد ہوتا ہے
وما ينطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى.
یہ اپنی خواہش نفس سے کوئی کلام نہیں کرتے ہیں یہ تو بس وہی فرماتے ہیں جو ان کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
اسی طرح سورہ انفال کی آیت نمبر ۱۴ میں ارشاد ہوتا ہے:
وما رميت اذ رميت ولكن الله رمى
جب آپ نے تیر چلائے تو یہ آپ نے تیر نہیں چلائے ہیں بلکہ اللہ نے تیر چلائے ہیں۔
اس طرح خداوندعالم نے پیغمبر ﷺ کے قول و فعل کو اپنا قول و فعل قرار دیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ سورہ نساء آیت نمبر 80 میں ارشاد ہوتا ہے۔
من يطع الرسول فقد اطاع الله.
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔
اور سورہ جن کی آیت نمبر ۳۳ میں ارشاد ہوتا ہے:
ومن يعص الله ورسوله فان له نار جهنم خالدين فيها ابدا.
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے سورہ حشر آیت نمبر ۷
وما اٰتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا
اور جو کچھ اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کرے اس سے دور رہو۔
ان آیات کو اور اس طرح کی دیگر آیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات ہر ایک کی سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت رسول خداﷺ کی کوئی بھی بات ان کی اپنی ذاتی اور جذباتی بات نہیں ہے۔ ذاتی محبت و قربت کی بات نہیں ہے۔ بلکہ ان کی ہر بات خدا کی بات ہے۔ ان کی زبان مبارک سے نکلا ایک ایک لفظ خداوند عالم کی مرضی کا ترجمان ہے۔ حضرت رسول خدا ﷺ کی شخصیت پوری طرح خدائی اور الوہی شخصیت ہے۔ ذات اقدس میں خداوندعالم کی صفات جمال و جلال کا پوری طرح ظہور ہے وہ مظہر تام صفات الہی ہیں۔
ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس حدیث پر غور فرمائیں۔
یعلی بن مرہ کی روایت ہے: ایک جگہ ہم لوگوں کی دعوت تھی، ہم لوگ حضرت رسول خداﷺ کے ہمراہ جا رہے تھے، راستہ میں امام حسین علیہ السلام کھیل رہے تھے، رسول خدا ﷺ ہم لوگوں کے سامنے دوڑتے ہوئے آگے گئے اور اپنے ہاتھوں کو پھیلا دیا۔بچہ ادھر اُدھر جا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت رسول خداﷺ ہنس رہے تھے۔ یہاں تک کہ آپ نے اس بچہ کو لے لیا۔ آپ نے اپنا ایک ہاتھ بچہ کی ٹھڈی پر رکھا اور ایک ہاتھ بچہ کے سر پر رکھا، اس کو گلے سے لگایا اس کے بعد حضرت رسول خداﷺ نے فرمایا:
حسين مني وانا من حسين احب الله من احب حسينا۔ الحسين سبط من الاسباط۔
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، جو حسین سے محبت کرے گا خدا اس کو دوست رکھے گا، حسین میرے نواسوں میں ایک نواسہ ہے۔
یہ حدیث سند کے اعتبار سے نہایت مستند و مستحکم حدیث ہے اس حدیث کو صاحب صحیح بخاری حافظ محمد ابن اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب ‘الادب المفرد’ کے صفحہ ۱۰۰ پر نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ جناب امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد ۲ صفحہ ۱۷۲, حافظ ابن ماجہ نے اپنی سنن جلد ۱ صفحہ ۶۴, جناب حافظ محمد بن عیسی ترمذی نے اپنی صحیح جلد ۱۳ صفحہ ۱۹۵ پر نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ۶۰ مختلف علماء و محدثین نے روایت اپنی اپنی کتابوں میں نقل کی ہے۔ یہ تمام حوالے اہلسنت کے ہیں ان میں سنن بن ماجہ اور صحیح ترمذی کا شمار صحاح ستہ میں ہوتا ہے اس میں شک نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت رسول خداﷺ اور امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے، ایک ہی شخصیت کے دو عنوان ہیں۔ یہ ‘منّیت’ اسی صورت میں ممکن ہے جب امام حسین علیہ السلام معصوم ہوں ان کی زندگی کا ہر فعل عین مرضی پروردگار ہو۔ زندگی کا ایک لمحہ بھی خدا کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔ ان کی زندگی کا ہر قدم خدا کی رضا کے مطابق ہو۔ اس حدیث کی روشنی میں رسالت و نبوت کے علاوہ وہ تمام باتیں جو حضرت رسول خدا ﷺ کے لئے ثابت ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات اقدس سے مخصوص ہے۔ جس طرح حضرت رسول خداﷺ کا احترام اور اطاعت واجب ہے بعینہ اسی طرح امام حسین علیہ السلام کا احترام اور اطاعت واجب اور لازم ہے، اور اگر آپ کی نافرمانی جائز نہیں ہے تو پھر امام حسین علیہ السلام کی نافرمانی بھی جائز نہیں ہے۔
حدیث کا دوسرا جملہ اَحبّ اللہ من احبّ حسینا، اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی زندگی میں کوئی بھی ایسا پہلو نہیں ہے جو خدا کو پسند نہ ہو امام حسین علیہ السلام کی محبت خدا کی محبت کا سبب اس وقت ہو گی جب امام حسین علیہ السلام کا ہر کام عین مرضی پروردگار ہو۔ اگر امام حسین علیہ السلام کی محبت خدا کی محبت کا سبب ہے تو امام حسین علیہ السلام کے تعلق سے ذرا بھی نفرت یا عداوت خدا کے غضب کا سبب ہو گی۔ خدا کو ناراض کرنا اسلام کا مزاج نہیں ہے، اگر کوئی شخص جان بوجھ کر خدا کو ناراض کرے گا وہ عذاب شدید کا مستحق ہوگا۔ اس حدیث شریف کی روشنی میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا ہر کام خدا کا پسندیدہ ہے۔ جب امام حسین علیہ السلام کا ہر کام خدا کا پسندیدہ ہے تو ان کے مد مقابل یزید کا ہر کام خدا کا ناپسندیدہ ہے اور خدا کا ناپسندیدہ رضی اللہ عنہ نہیں ہو سکتا۔
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے حضرت امام حسین علیہ سلام کے تعلق سے کچھ اور حدیث نقل کرتے ہیں یہ تمام حدیثیں علماء اہل سنت کی کتابوں سے نقل کریں گے۔
حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
اللهم اني اُحبّه فاَحِبّه واُحبّ من يُحبّه.
خدایا میں اس کو دوست رکھتا ہوں توبھی اس محبوب رکھ اور جو اس کو دوست رکھتا ہے میں اس کو دوست رکھتا ہوں۔
(معرفۃ علوم الحدیث، حاکم نیشاپوری صفحہ ۷۹)
آنحضرتﷺ نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھ کر فرمایا :
من اَحبَ هٰذا فقد احبّني.
جس نے اس سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔
(معجم کبیر طبرانی صفحہ ۱۳۳، مجمع الزوائد، جلد ۲ صفحہ ۱۸۵)
جناب جابر کی روایت ہے۔ ہم لوگ حضرت رسول خداﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر تھے، اتنے میں امام حسین علیہ السلام تشریف لائے اور وہ اس وقت پیاسے تھے حضرت ﷺ نے پانی طلب کیا جو اس وقت وہاں موجود نہیں تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں دی جس سے وہ سیراب ہو گئے۔
(مقتل الحسین خوارزمی صفحہ ۱۵۲)
ایک دن حضرت رسول خداﷺ حضرت عائشہ کے گھر سے نکل کر جنابِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لا رہے تھے اتنے میں امام حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز آئی، اس وقت آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
الم تعلمي انّ بكاءہ يوذیني۔
کیا تم کو نہیں معلوم کہ ان کے رونے سے مجھے اذیت ہوتی ہے۔
(مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ ۲۰۱, معجم کبیر صفحہ ۱۴۶)
حذیفہ بن یمان کی روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول خدا ﷺ کو دیکھا کہ وہ حضرت حسین ابن علی کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں اور یہ فرما رہے ہیں:
ایھاالناس۔ یہ حسین ابن علی ہیں۔ ان کی معرفت حاصل کرو اور ان کو دوسروں پر فضیلت دو۔ خدا کے نزدیک ان کے جدّ کا درجہ یوسف بن یعقوب کے جدۤ سے بلند ہے۔ یہ حسین ابن علی ہیں۔ ان کے جدّ بھی جنت میں ہیں، ان کی دادی نانی بھی جنت میں ہیں۔ میں ان کے والد بھی جنت میں ہیں۔ ان کے چچا بھی جنت میں ہیں۔ ان کی پھوپھی جنت میں ہیں، ان کے بھائی جنت میں اور وہ خود بھی جنت میں ہیں۔ ان کے چاہنے والے بھی جنت میں ہوں گے اور ان کے چاہنے والوں کے چاہنے والے بھی جنت میں ہوں گے۔
(مناقب ابن مغازلی صفحہ ۲۱۴, ینابیع المودہ صفحہ 278)
جس حسین کے بارے میں حضرت رسول خدا ﷺ نے اس طرح کی حدیث بیان فرمائی ہیں، کیا ان کے بارے میں خیال بھی کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے دنیا کی خاطر یا دنیا کی حکومت کی خاطر قیام فرمایا ہو۔ جب کہ خداوندعالم قرآن مجیدمیں فرعون اور قارون کا تذکرہ کرنے اور ان کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:
تلك الدّار الاخرۃ نجعلها للّذين لا يريدون علوا في الارض ولا فسادا والعاقبه للمتقين
(سوره القصص آیت ۸۳)
آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیں گے جو زمین میں نہ ذرہ برابر برتری کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ ہی فساد پھیلانا چاہتے ہیں اور عاقبت صاحبان تقوی کے لئے ہے۔
حضرت رسول خدا ﷺ کی متفق علیہ حدیث ہے:
حسنؑ اور حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں۔
جنت کے سرداری ان لوگوں کو ملے گی جو دنیا میں کسی برتری اور فساد کے خواہاں نہ رہے ہوں۔ اگر امام حسین علیہ السلام یزید کے مقابلے میں صرف خدا کے دین کی زندگی کے لئے نہ نکلے ہوتے، شریعت کی حفاظت ان کا مقصد نہ ہوتا، بلکہ دنیا ان کا مقصد ہوتی، تو ہرگز جوانان جنت کے سردار ی کا عظیم ترین منصب نہیں ملتا یہ منصب بتا رہا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد ہرگز دنیا اور اس کی حکومت نہ تھی۔ یہ بات تو صرف وہ لوگ ہی کہہ سکتے ہیں جنہیں حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذرہ برابر بھی معرفت نہیں ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھی کہ بس ایکا ایکی پیش آگئی ہوتی کہ کچھ لوگ یزید کو یہ کہہ کر بری الذمہ کردیں کہ اس کو حالات کا علم نہ تھا۔۔۔ ورنہ یہ واقعہ رونما نہ ہوتا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک ایسا واقعہ ہے جس کی خبر خود حضرت رسول خداﷺ نے دی اور بار بار اس خبر کو دہرایا ہے۔ نہ صرف شہادت کی خبر دی بلکہ جزئیات کی خبردی، قاتل کا نام اور اس کے انجام سے بھی باخبر کیا۔ ذیل میں اختصار کے پیش نظر صرف چند روایتوں کا تذکرہ کریں گے۔
خواب میں خبر دی
جناب ام سلمہ کی روایت ہے:
ایک رات حضرت رسول خدا ﷺ آرام فرما رہے تھے، آپ نیند سے بیدار ہو گئے، اس وقت آپ پریشان تھے، پھر آپ لیٹ گئے، تھوڑی دیر بعد پھر بیدار ہو گئے، اس مرتبہ بھی آپ ﷺ حیران و پریشان نظر آرہے ہیں، پھر آپ لیٹ گئے، لیکن تھوڑی دیر بعد پھر بیدار ہو گئے، اس وقت آپ کے دست مبارک میں سرخ رنگ کی تربت تھی، آپﷺ اس کا بوسہ لے رہے تھے، میں نے حضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: اے اللہ کے رسول یہ تربت کیسی ہے؟
آپﷺ نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے مجھے یہ خبر دی ہے: ‘یہ عراق کی وہ زمین ہے جہاں حسین قتل کیے جائیں گے،’ میں نے جبرئیل سے کہا مجھے وہ تربت دکھا دو جہاں یہ میرا حسین قتل کیا جائے گا بس یہ وہی تربت ہے۔
(المستدرک، حاکم نیشاپوری جلد ۴ صفحہ ۳۹۸)
گویا حضرت رسول خدا ﷺ کو خواب میں واقعہ کی خبر دی گئی، واقعہ اس قدر اہم ہے کہ یکبارگی نہیں بتایا جا سکتا ہے۔
جناب ام سلمہ کے گھر میں خبر دی۔
جناب ام سلمہ کی روایت ہے حضرت رسول خدا ﷺ میرے گھر میں تشریف فرما تھے اور حسین میرے پاس تھے، وہ ان حضرت کے پاس جانا چاہتے تھے میں نے گود میں لے لیا اس پر وہ رونے لگے تو میں نے چھوڑ دیا پھر وہاں حضرت کے پاس جانے لگے میں نے پھر گود میں لے لیا پھر وہ رونے لگے میں نے پھر چھوڑ دیا۔ اس وقت جبریل نے آنحضرت سے کہا: اے محمد کیا آپ ان کو چاہتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ کہا عنقریب آپ کی امت ان کو قتل کرے گی، اگر آپ چاہیں تو آپ کو وہ تربت دکھا دوں جہاں یہ قتل کئے جائیں گے، جبرئیل نے ہاتھ بڑھا کر وہ تربت دکھائی جس پر رسول خدا ﷺ رونے لگے۔ (عقد الفرید جلد ۲ صفحہ ۲۱۹)
اس حدیث میں خبر شہادت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ تربتِ کربلا کو دیکھ کر رونا سنت رسولﷺ ہے۔
جب یہ خاک، خون ہوجائے
جناب ام سلمہ سے روایت ہے: میں نے دیکھا حضرت رسول خدا ﷺ امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس پر محبت سے ہاتھ پھیر رہے ہیں اور رو رہے ہیں، میں نے رونے کا سبب دریافت کیا تو فرمایا:
جبرئیل نے مجھے یہ خبر دی ہےکہ میرا یہ فرزند اس زمین پر قتل کیا جائے گا جس کو کربلا کہتے ہیں۔
اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے مجھے مٹھی کے سرخ رنگ کی مٹی دی اور فرمایا۔ یہ اس زمین کی مٹی ہے جہاں یہ قتل کیا جائے گا، جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے تو سمجھ لینا کہ قتل کر دیا گیا۔ میں نے یہ مٹی ایک شیشی میں رکھ لی اور اس کے بعد فرمایا جس دن یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے گی وہ دن بڑا عظیم دن ہوگا۔
(ذخائر العقبي صفحہ ۱۴۷ صفحہ ۳۱۹)
جناب ام سلمہ مدینہ میں تھیں اور امام حسین علیہ السلام کربلا میں شہید کئے گئے لیکن عاشور کے دن اس خاک کا خون میں تبدیل ہو جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اثرات کہاں تک گئے ہیں اور کس طرح شہادت کی خبر پہنچی ہے آگے اس طرح کی ایک روایت کا ذکر کریں گے۔
قاتل پر لعنت ہو
جناب ابن عباس کی روایت ہے:
حضرت رسول خدا ﷺ اپنے انتقال سے چند روز قبل سفر پر تشریف لے گئے کچھ دنوں کے بعد واپس تشریف لائے اس وقت آپ کے چہرے اقدس کا رنگ بدلا ہوا تھا، چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا۔ آپ نے اس وقت مختصر مگر نہایت بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس وقت آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں دواں تھے، آپ کی زبان مبارک پر یہ کلمات تھے:
ایھا الناس، یقینا میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں، اللہ کی کتاب اور میری عترت۔۔۔
یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: ہاں ذرا غور کرو یقینا جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے فرزند حسین کو کربلا کی زمین پر قتل کرے گی۔
اس کے قاتل پر خدا کی لعنت ہو اور ہمیشہ ذلت نصیب ہو۔
(مقتل خوارزمی جلد ۱ صفحہ ۱۶۴)
سر زمین کربلا کا دیدار کروایا
جناب ابن عباس کی روایت ہے حضرت امام حسین علیہ السلام رسول خدا ﷺ کی آغوش میں بیٹھے ہوئے تھے، جناب جبرئیل نے حضرت رسول خداﷺ سے دریافت کیا، کیا آپ ان کو چاہتے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
میں انہیں کیوں نہ چاہوں، یہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔ اس وقت جبرئیل نے کہا:ہاں آپ کی امت ان کو قتل کرے گی۔ آیا میں آپ کو ان کی قبر کی جگہ نہ دکھاؤں؟ جبرئیل نے ایک مٹھی خاک اٹھائی، یہ سرخ رنگ کی مٹی تھی۔
(البدایہ و النہایہ ابن کثیر جلد ۶ صفحہ ۲۳۰)
سنۃ 60 ہجری میں شہادت ہوگی
جناب ام سلمہ کی روایت ہے:
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: حسین بن علی میری ہجرت کے ساٹھویں سال کی ابتداء میں قتل کئے جائیں گے۔
(مجمع الزوائد جلد ۹ صفحہ ۱۹۰)
یزید قاتل ہے
حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
خدا کبھی بھی یزید کو برکت نہ دے اسی کی بنا پر مجھے حسین کے قتل کی خبر ملی ہے اور مجھے قاتل کے بارے میں خبر دی گئی ہے، جن لوگوں کے سامنے یہ جنگ ہوگی اور جو لوگ ان کی نصرت و مدد نہیں کریں گے خداوندعالم ان سب پر اپنا عذاب عام کرے گا۔
(منتخب کنزالعمال بر حاشیہ مسند احمد جلد ۵ صفحہ ۱۱۱)
ایک دوسری روایت میں ہے:
جو لوگ مدد نہیں کریں گے خدا ان کے صدر اور قلب میں اختلاف ڈال دے گا۔ بدترین افراد کو ان پر مسلط کرے گا۔
جناب عائشہ کی روایت
عروہ بن زبیر نے جناب عائشہ سے روایت نقل کی ہے: حسین بن علی حضرت رسول خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت آپ پر وحی نازل ہو رہی تھی، امام حسینؑ اس وقت رسول خدا کی پشت پر کھیل رہے تھے، جبرئیل نے حضرت رسول خداﷺ سے دریافت کیا: کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ فرمایا: اے جبرئیل، کیا میں اپنے فرزند سے محبت نہیں کروں گا۔ جبرئیل نے کہا: آپ کے بعد آپ کی امت اس کو قتل کرے گی۔ پھر جبرئیل نے ہاتھ بڑھا کر سفید مٹی دی اور کہا: اس زمین پر آپ کا یہ فرزند قتل کیا جائے گا اور اس زمین کا نام طف ہے۔ (کربلا کا ایک نام طف بھی ہے) جب رسول خدا ﷺکی خدمت اقدس سے واپس چلے گئے رسول خدا ﷺ گھر سے باہر تشریف لے گئے اور آپ کے دست مبارک میں وہ مٹی تھی اور آپ رو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: اے عائشہ جبرئیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے، میرا فرزند زمین طف میں شہید کیا جائے گا۔ میرے بعد میری امت کا بڑا امتحان ہوگا۔ جب رسول خدا ﷺ اصحاب کے پاس آئے اس وقت اصحاب نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ کس چیز نے آپ کو رلایا؟ فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے، میرے بعد میرا فرزند حسین سرزمین طف پر قتل کیا جائے گا۔ اور مجھے یہ تربت دی ہے، یہیں اس کی قبر ہوگی۔
(معجم کبیر طبرانی صفحہ ۱۴۴)
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر نہ صرف جناب ام سلمہ، ابن عباس اور جناب عائشہ سے نقل ہوئی ہے بلکہ اس طرح کی حدیثیں حضرت علیؑ، انس بن حارث، معاذ بن جبل، ابی امامہ، زینب بنت حجش، ام الفضل بنت حارث، انس بن مالک۔۔۔ وغیرہ سے بھی نقل ہوئی ہیں۔ جو حضرات اس سلسلہ میں تفصیل کے طالب ہوں وہ احقاق الحق جلد ۱۱ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ان حدیثوں پر ایک نظر کرنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ حضرت رسول خدا ﷺ نے اپنی زندگی میں متعدد بار اور متعدد جگہوں پر اور مختلف لوگوں کے سامنے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر دی۔ نہ صرف خبر دی بلکہ قتل کی زمین بتائی، اس زمین پر قتل کی جگہ بھی بتائی اور مقتل کی مٹی بھی دکھائی۔ مٹی نہ صرف دکھائی بلکہ اس کی حفاظت کا بھی حکم دیا۔ قتل کی تاریخ بھی بتائی اور قاتل کا نام بھی بتایا۔ واقعہ جب بھی بیان فرمایا اس وقت آنحضرت ﷺ نے گریا بھی فرمایا، یعنی رو رو کر یہ واقعہ بیان فرمایا۔ جب شہادت سے پہلے انحضرت ﷺ پر یہ اثر تھا تو شہادت کے بعد ان کی حالت کیا ہوگی۔ اس سلسلہ میں جناب ام سلمہ اور جناب ابن عباس کی روایت ملاحظہ فرمائیے:
علامہ محمد بن عیسی ترمذی نے اپنی صحیح میں سلمیٰ سے روایت کی ہے میں جناب ام سلمیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئی، دیکھا وہ رو رہی ہیں، میں نے رونے کا سبب دریافت کیا۔ فرمایا: میں حضرت رسول اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا، آپ کے سر اقدس اور ریش مبارک پر خاک تھی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، یہ آپ کی کیا حالت ہے؟فرمایا: میں ابھی حسین کی شہادت دیکھ کرآرہا ہوں۔(صحیح ترمذی جلد ۱۳ صفحہ 193)
اس روایت کو ترمذی کے علاوہ ۱۲۶ افراد نے اور نقل کیا ہے.
( احقاق الحق جلد ۱۱ صفحہ ۳۵۵ تا ۳۵۹)
جناب ابن عباس سے روایت ہے:
میں نے حضرت رسول خدا ﷺ کو دوپہر کے وقت خواب میں دیکھا۔ وہ کھڑے تھے ان کے سر و صورت پر گرد و غبار ہے، ان کے ہاتھوں میں ایک شیشی ہے جس میں خون ہے۔
میں نے عرض کیا؛ اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان، یہ آپ کی کیا حالت ہے؟ فرمایا: یہ حسین اور ان کے اصحاب کا خون ہے، آج صبح سے میں یہ خون جمع کر رہا ہوں۔ جناب ابن عباس کا بیان ہے: جب ہم نے شمار کیا تو یہ دن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا دن تھا۔
(مسند احمد جلد ۱ صفحہ ۲۸۳)
ان اہم اور معتبر روایتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت حضرت رسول خدا ﷺ خود کربلا کے میدان میں موجود تھے۔ نہ صرف شہادت کا منظر دیکھ رہے تھے، بلکہ اس قدر متاثر تھے کہ آپ پوری طرح غبار آلود تھے۔ جنگ میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے اور اپنے دست مبارک سے ان کے پاکیزہ خون کے قطرے جمع کر رہے تھے۔
ایک دوسری روایت میں حضرت رسول خدا ﷺنے فرمایا:
ابن عباس کیا تم کو معلوم ہے میری امت نے میرے بعد کیا کیا؟ حسین کو قتل کردیا۔ یہ حسین اور ان کے اصحاب کا خون ہے اور اس کو خدا کی بارگاہ میں پیش کروں گا۔
(البدایہ و النہایہ جلد ۸ صفحہ ۲۰۰)
جس خون کو حضرت رسول خدا ﷺ اپنے دست مبارک سے جمع کر کے خدا کی بارگاہ میں پیش کریں وہ خون کس قدر اہم ہوگا اور جن لوگوں نے یہ خون بہایا ہو، کیا کوئی مسلمان ان لوگوں سے ہمدردی رکھ سکتا ہے؟
کیا تاریخ میں کوئی واقعہ ہے جب حضرت رسول خدا ﷺ نے شہیدان راہِ خدا کا خون جمع کیا ہو۔ لیکن کربلا کے میدان میں حضرت رسول خدا ﷺ کا امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب باوفا کا خون جمع کرنا کیا اس بات کی علامت نہیں ہے کہ ان کی شہادت تمام شہادتوں سے افضل ہے اور کربلا کے شہید تمام شہداء سے افضل ہیں۔
اس کے علاوہ کیا حضرت رسول خدا ﷺکسی ایسے شخص کا خون جمع کرسکتے ہیں اور اس کی شہادت پر اس طرح غم زدہ ہو سکتے ہیں جو معاذ اللہ حکومت کے حصول کے لئے نکلا ہو؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ بات صرف وہ لوگ کہہ سکتے ہیں جو حضرت رسول خدا ﷺ کی معرفت اور ان کی عظمت سے بالکل محروم ہیں۔
حضرت رسول خدا ﷺ کا میدان کربلا میں خود موجود رہنا امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب باوفا کا خون جمع کرنا کیا اس بات کی حقانیت نہیں ہے کہ شہادت کا ایک ایک قطرہ خدا کی راہ میں گرا ہے۔ یہ شہادت صرف اور صرف اللہ کے لئے تھی، اب اگر کوئی اس عظیم سعادت کو خالصتاً اللہ کی راہ میں شہادت تسلیم نہ کرے تو اس سے شہادت کی عظمت متاثر نہیں ہوتی بلکہ یہ خود اس کی بدبختی و شقاوت کی دلیل ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ حضرت رسول خدا ﷺ کا یہ تاثر امام حسین علیہ السلام کے نواسے ہونے کی بنا پر نہیں تھا یعنی یہ بشری تقاضا نہ تھا بلکہ اس عظمت کی بنا پر تھا جو امام حسین علیہ السلام اور ان کی شہادت کو خدا کی بارگاہ میں حاصل ہے۔
رسول خدا ﷺ خدا کی بارگاہ میں
علامہ خوارزمی نے اپنی کتاب مقتل الحسین جلد ۱ صفحہ ۱۷۳ پر یہ روایت نقل کی ہے:
معاویہ نے یزید سے یہ وصیت کی کہ ابن عباس نے حضرت رسول خدا ﷺکی یہ روایت مجھ سے بیان کی۔
حضرت رسول خداﷺ کی وفات کے وقت ان کی خدمت میں حاضر تھا۔ یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات تھے وہ امام حسین علیہ السلام کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے۔
یہ میری نسل کا بہترین اور پاکیزہ ترین میری عزت کا نیک ترین اور میری ذریت کا سب سے بہتر فرد ہے۔ جو میرے بعد اس کی قدر نہ کرے خدا اسے برکت نہ دے.
ابن عباس نے کہا: اس کے بعد آنحضرت ﷺ پر غشی طاری ہو گئی پھر کچھ دیر بعد افاقہ ہوا اور فرمایا:
اے حسین قیامت کے دن خدا کی بارگاہ میں تیرے قاتل کا مقدمہ ہوگا اور خدا کی بارگاہ میں مقدمہ میں پیش کروں گا۔ میں اس پر خوش ہوں کہ قیامت کے دن خدا مجھے تمہارے قاتل کے مقابلے میں کھڑا کرے گا۔
اس کے بعد معاویہ نے یزید سے کہا: اے میرے فرزند یہ تو ابن عباس کی روایت تھی میں خود ایک روایت بیان کرتا ہوں جو میں نے خود رسول خدا ﷺ سے سنی ہے۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
ایک دن میرے حبیب جبریل میرے پاس آئے اور کہنے لگے، اے محمد آپ کی امت آپ کے فرزند کو قتل کرے گی اور ان کا قاتل اس امت کا سب سے زیادہ لعنتی شخص ہے اور رسول خدا ﷺنے بار بار حسین کے قاتل پر لعنت کی ہے۔
معاویہ کا اپنے بیٹے یزید کو دو حدیثیں سنانا نہ معلوم کس بات پر آمادہ کرنا تھا۔ آیا یزید کو امام حسین علیہ السلام کے قتل سے روکنا تھا یا فضائل بیان کرکے آتش حسد کو اور زیادہ بھڑکانا تھا۔
جناب زہرا سلام اللہ علیہا خدا کی بارگاہ میں۔
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے حضرت رسول خدا ﷺ سے روایت نقل کی ہے۔
میری بیٹی فاطمہ قیامت میں اس طرح آئے گی اس کے ہاتھوں میں خون بھرا ہوا پیراہن ہوگا اور وہ عرش کے پائے کو پکڑ کر فریاد کرے گی۔ اے صاحب عدل میرے اور میرے فرزند کے قاتل کے درمیان فیصلہ کر۔ حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا کعبہ کے رب کی قسم خداوندعالم میری بیٹی کے حق میں فیصلہ کرے گا۔
(مقتل حسین خوارزمی صبح ۵۲)
صاحب ینابیع المودہ علامہ قندوزی نے ایک روایت اس طرح نقل فرمائی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے حضرت رسول خدا سے روایت نقل کی ہے:
قیامت کے دن ایک منادی عرش کے نیچے سے صدا دے گا۔ ‘اے اہل قیامت اپنی آنکھیں بند کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد، حسین کے خون آلود پیراہن کے ساتھ گزر جائیں’۔ وہ عرش کے پائے کے پاس تشریف لائیں گی اور فرمائیں گی: “خدایا! تو جبار ہے صاحب عدل ہے میرے اور میرے فرزند کے قاتل کے درمیان فیصلہ کر دے”۔ رب کعبہ کی قسم خدا میری بیٹی کے حق میں فیصلہ کرے گا۔
اس کے بعد جناب فاطمہ زھرا فرمائیں گی: خدایا! جو لوگ میرے فرزند کی مصیبت پر روئے ہیں ان کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ خدا ان سب کے حق میں ان کی شفاعت قبول کرے گا۔
(ینابیع المودہ صفحہ ۲۶۰)
ان روایتوں سے واضح ہوتا ہے کہ میدان قیامت میں حضرت رسول خدا ﷺ اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خداوند عادل کی بارگاہ میں امام حسین علیہ السلام کے قتل کا مقدمہ پیش کریں گے۔ جب مدعی یہ افراد ہوں تو قاتل کا انجام معلوم ہے۔
یہ روایت اس بات کی مستحکم دلیل ہے کہ وہ تمام افراد جو امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک تھے اول تو انہیں توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہو گی اور اگر ان کے قاتلوں سے ہمدردی رکھنے والوں کی بات بفرض محال مان لیں کہ ان لوگوں نے توبہ کی تھی تو یہ توبہ خدا کی بارگاہ میں ہرگز قبول نہیں ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ امام حسین علیہ السلام کا قتل حقوق الناس میں آتا ہے اور امام حسین علیہ السلام کے ولی و صاحب انتقام حضرت رسول خداﷺ کو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا علیہم اجمعین اور ان کے دیگر فرزند ہیں۔ ان لوگوں نے ہرگز قاتلوں کو معاف نہیں کیا ہے ورنہ میدان قیامت میں خدا کی بارگاہ میں مقدمہ پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
قاتل امام حسین آگ کے تابوت میں ہوگا۔
حضرت رسول خدا ﷺ نے نہ صرف میدان قیامت میں امام حسین علیہ السلام کے قتل کا مقدمہ پیش کرنے اور اس کے فیصلے کے بارے میں فرمایا ہے بلکہ قاتل کے لیے بدترین عذاب کا بھی ذکر کیا ہے اور اس طرح کی روایتیں زیادہ ہیں جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے آباؤ اجداد کے واسطے سے یہ روایت نقل کی ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا،
حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
امام حسین کا قاتل آگ کی ایک تابوت میں ہوگا جس پر نصف جہنم کا عذاب ہوگا اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیروں کی زنجیروں میں بندھے ہوں گے اور وہ اوندھے منہ آگ میں گھسیٹا جا رہا ہوگا یہاں تک کہ اس کو جہنم کے سب سے نچلے حصے میں ڈال دیا جائے گا اس کی بدبو اس قدر ناگوار ہوگی کہ اہل جہنم خدا کی بارگاہ میں اس کی بدبو کی شکایت کریں گے اور وہ اس دردناک عذاب میں ہمیشہ رہے گا جب بھی اس کی کھال ختم ہو جائے گی دوسری کھال آ جائے گی تاکہ دردناک عذاب کا ذائقہ چکھتا ر ہے۔
(مقتل الحسین خوارزمی جلد ۲ صفحہ ۸۳)
خطیب خوارزمی کے علاوہ آٹھ اور علماء نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔
ان روایات سے صاف ظاہر ہے کے قاتلان امام حسین علیہ السلام کے لئے توبہ کا واقعہ ان کے بہی خواہوں کی خود اپنی ایجاد ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
قاتلان امام حسین علیہ السلام کے دردناک عذاب کے بارے میں اور بھی روایتیں ہیں جن میں مختلف طرح کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ اختصار سے پیش نظر ان کو ذکر نہیں کر رہے ہیں۔
قاتل کون
کچھ لوگ صرف ان لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جو کربلا کے میدان میں موجود تھے۔ چو نکہ یزید کربلا کے میدان میں موجود نہیں تھا اس لئے کچھ لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ یزید کو بری الذمہ قرار دیں۔
یہ بات بارہا ذکر ہو چکی ہے کہ شیعہ علماء کے علاوہ اہل سنت کے معتبر ترین علماء یزید کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں یہاں اختصار کے پیش نظر صرف دو باتیں ذکر کرتے ہیں:
1۔قرآن کریم سے سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت نمبر ۴۷ سے ۹۸ تک مختلف انداز میں یہودیوں کو مخاطب کیا ہے۔ یہ خطاب مخاطب اور حاضر کے صیغہ میں ہے۔ یعنی ان لوگوں کو مخاطب کیا جا رہا ہے جو اس وقت وہاں موجود ہیں اور وہ بات کہی جارہی ہے جس کا ارتکاب زمانہ پیغمبر اکرم ﷺ کے یہودیوں نے نہیں کیا ہے بطور مثال:
جب ہم نے تم کو آل فرعون کے عذاب سے نجات دی (۴۹)
جب ہم نے تمہارے لیے دریا میں راستہ بنایا۔(۵۰)
تم نے گوسالہ کی پوجا کر کے اپنے اوپر ظلم کیا (۵۴)
پھر جب تم نے موسیٰ سے کہا ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں (۵۵)
پھر ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور منّ و سلویٰ نازل کیا (۵۷)
اور تم نے یہ کہا کہ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کر سکتے (۶۱)
پھر تم نے سنیچر کے بارے میں جو ظلم و زیادتی کی (۶۵)
اور جب تمہارے پاس اللہ کی طرف رسول آتا تھا جس کو تم پسند نہیں کرتے تھے تو کچھ کو تم جھٹلا دیتے تھے اور کچھ کو قتل کر دیتے تھے (۸۷)
اس طرح کی اور بھی آیات قرآن کریم میں موجود ہیں۔ خدا نے ان لوگوں کو کیوں مخاطب قرار دیا اور کیوں ان کی جم کر سرزنش تھی۔ ان پر لعنت ملامت کی۔ جب کہ زمانہ پیغمبراسلام ﷺ کے یہودی ان کاموں میں خود براہ راست ملوث نہیں تھے اور نہ انہوں نے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیا۔
قرآن کریم نے ان کو اس لئے مخاطب قرار دیا اور ان کو ان تمام باتوں کا ذمہ دار قرار دیا کہ یہ لوگ اپنے بزرگوں کی باتوں پر راضی تھے وہ ان کے برے اعمال سے اظہار برائت نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے بزرگوں پر فخر کرتے تھے اور ان کی روش پر قائم تھے۔ لہذا قرآن کریم نے یہ قانون دیا ہے اگر کسی شخص نے کوئی فعل انجام دیا ہے اب اگر کوئی اس پر راضی ہو تو وہ بھی فعل انجام دینے والوں میں شمار کیا جائے گا اور اس کی بھی اسی طرح لعنت ملامت کی جائے گی۔
۲۔یزید کربلا کے میدان میں موجود نہیں تھا مگر ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر اسی نے بنایا۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یزید نے شام میں اپنے دربار میں اہل بیت علیہم السلام کے قافلہ کو بلایا اور اہلبیت اس کے دربار میں قیدی بنے کھڑے رہے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر اس کے سامنے رکھا ہوا تھا۔
کیا یہ باتیں اس بات کی واضح دلیل نہیں ہے کہ یزید قتل امام حسین علیہ السلام پر راضی تھا۔ اب ذرا ان واقعات کو ملاحظہ فرمائیے۔ ان واقعات کو اہل سنت کے علماء نے اپنی تاریخوں میں لکھا ہے۔ کیونکہ یہ تاریخی واقعات ہیں، لہذا تاریخ کی کتاب میں ان کا ذکر کیا ہے۔
“ابن زیاد نے اہل حرم کوفہ میں قید کیا اور جس قید خانے میں اہل حرم قید تھے ایک پتھر میں خط لپٹ کر اس قید خانے میں بھیجا جس میں یہ تحریر تھا :
تمہارے امور سے متعلق ایک قاصد یزید کے پاس بھیجا ہے وہ وہاں سے کیا خبر لاتا ہے، شام سے قاصد واپس آیا اور یہ پیغام لایا آل حسین کو شام روانہ کرو”.
(طبری جلد ۶ صفحہ ۲۶۶)
ابن زیاد نے حجر بن قیس ابا بردہ بن عوف ارزی، طارق ابن ظبیان اور کوفہ کی ایک جماعت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے سروں کو یزید کے پاس روانہ کردیا.
)طبری جلد ۶ صفحہ ۲۶۴ ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۳۴ بدایه جلد ۸ صفحہ ۱۹۱(
اور ان سروں کے ساتھ ساتھ علی ابن حسین کو بھی اس طرح روانہ کیا کہ ان کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے اور ان کے اہل حرم ان کے ساتھ تھے۔
)طبری جلد ۶ صفحہ ۲۵۴(
حالت ایسی تھی جس کو دیکھ کر بدن کا رویاں رویاں کانپ اٹھتا تھا۔
(تاریخ قرمانی صفحہ ۱۰۸)
اور یافعی مرآۃ الجنان میں اس طرح ہے: حسین بن علی کی بیٹیاں قیدی بنا کر لے جائی گئیں اور زین العابدین ان کے ساتھ تھے، وہ اس وقت مریض تھے، وہ اس طرح لے جائے جارہے تھے جس طرح قیدی۔
جس نے یہ کیا، خدا اس کو غارت کرے۔
(مرآۃ الجنان جلد ۱ صفحہ ۱۳۴)
اہل حرم کا یہ قافلہ پہلی سفر کو شام پہنچا۔
(طبری جلد ۶ صفحہ ۲۶۶)
اس وقت یزید ‘جرون’ نامی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا۔ جب اس نے قیدیوں اور نیزوں پر سروں کو دیکھا۔ اس وقت ایک کوّا کاؤں کاؤں کرتے ہوئے وہاں سے گزرا، اس وقت یزید نہیں اشعار کہے۔
لما بدت تلك الحمول واشرقت
تلك الرؤوس على شفا جبرون
نعب الغراب فقلت قل او لا تقل
فقد اقتضيت من الرسول ديوني
جبرون میں جب وہ سواریاں اور سر نمودار ہوئے۔ اس وقت ایک کوّے نے کاؤں کاؤں کی۔ میں نے کہا، تو کچھ کہے یا نہ کہے، میں نے تو رسول (اللہ) سے اپنا قرض چکا لیا۔
اس شعر کی بنا پر ابن جوزی، قاضی ابو یعلی، تفتازانی اور جلال الدین سیوطی نے یزید کے کفر اور اس پر لعنت کرنے کا حکم دیا ہے۔
(روح المعانی آلوسی جلد ۲۶ صفحہ ۷۳)
آلوسی نے کہا ہے یزید کا یہ جملہ میں نے تو رسول خدا ﷺسے اپنا قرض چکایا لیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر جس طرح رسول اللہ ﷺ نے میرے خاندان والوں کو قتل کیا تھا میں نے ان کا بدلا لے لیا، یہ تو بالکل واضح کفر ہے۔
کیا یہ باتیں اس بات کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے کہ یزیدنہ صرف امام حسین علیہ السلام کے قتل پر راضی تھا بلکہ ان کے حرم کی قید اور ان کے سروں کو نیزوں پر بلند دیکھ کر خوش بھی ہو رہا تھا۔ اگر یزید کو امام حسین علیہ السلام کے قتل پر افسوس ہوتا تو کیا اس طرح جشن مناتا۔ اس طرح کے واقعات کافی ہیں۔پیش نظر مختصرا عرض کرتے ہیں۔
اہل حرم کو یزید کے دربار میں لے جانے سے پہلے سب کو ایک رسی میں باندھا گیا اسی کا ایک سرا زین العابدین علیہ السّلام کی گردن میں بندھا تھا۔ زینب و ام کلثوم اور رسول خدا ﷺ کی دوسری بیٹیوں کے گلے بھی اسی رسی میں بندھے ہوئے تھے۔ جب یہ لوگ چلتے چلتے رک جاتے تھے تو ان کو مارا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کو یزید کے سامنے پیش کیا گیا اس وقت یزید تخت پر بیٹھا تھا۔
اس وقت علی ابن الحسین زین العابدین نے یزید کو مخاطب کرکے فرمایا:
اگر رسول خدا ﷺ اس حال میں ہم کو دیکھ لیں تو تیری کیا حالت ہوگی؟
یہ سن کر موجودہ لوگ رونے لگے۔ یزید نے رسی کاٹنے کا حکم دیا۔
(لہوف صفحہ ۱۰۱؛ تذکرۃالخواص صفحہ ۴۹)
اہل حرم کو مسجد کے دروازے پر قیدیوں کی طرح کھڑا رکھا گیا اور امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس یزید کے سامنے رکھ دیا گیا۔
(مرآۃ الجنان یافعی جلد ۱ صفحہ ۱۳۵)
یزید نے امام حسین علیہ السلام کا سر منگا کر اپنے سامنے سونے کے طشت میں رکھا۔
(مرآۃ الجنان یافعی جلد ۱ صفحہ ۱۳۵)
عورتیں پیچھے کھڑی ہوئی تھیں، سکینہ اور فاطمہ بار بار سر اقدس کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھیں، یزید چھپانا چاہتا تھا مگر جب ان کی نظر سر اقدس پر پڑی تو رونے لگیں۔
(کامل ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۳۵؛ مجمع الزوائد جلد ۹ صفحہ ۱۹۵)
لوگوں کو دربار میں آنے کی اجازت دی گئی گی۔
(کامل ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۳۵)
تاریخ کے اس جملے پر غور فرمائیے اور دل تھام کر یہ واقعہ پڑھئیے:
یزید نے ایک چھڑی لی اور امام حسین علیہ السلام کے لبوں پر مارنا شروع کیا۔
(طبری جلد ۶ صفحہ ۲۶۰؛ کامل ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۳۰ ؛ صواعق محرقہ صفحہ ۱۱۶؛ مجمع الزوائد جلد ۹ صفحہ ۱۹۵؛ بدایۃ ابن اثیر جلد ۸ صفحہ ۱۹۲)
کیا اس کے بعد بھی یزید کو امام حسین علیہ السلام کے قتل سے بری کیا جا سکتا ہے؟ اگر صرف اس بنا پر یزید کو بری الذمہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کربلا میں موجود نہیں تھا تو دنیا کے تمام ظالم حکمرانوں کو پاک دامن قرار دینا ہوگا۔ کیونکہ اکثریت نے خود اپنے ہاتھوں سے براہ راست ظلم نہیں ڈھایا ہے۔
لیکن تمام دنیا اور دنیا کے تمام انصاف پسند افراد ظالم حکمرانوں کی اس بنا پر مذمت کرتے ہیں اور ان کو تمام مظالم کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، ان کے خلاف مقدمات دائر کرتے ہیں، ان پر لعنت ملامت کرتے ہیں، کہ سب کچھ ان حکمرانوں کے سامنے ہو رہا تھا ان کی مرضی سے ہو رہا تھا۔
شام کے واقعات اس بات کے پختہ ثبوت ہیں کہ کربلا میں جو ہوا وہ یزید کی مرضی سے ہوا اور یزید اس پر خوش تھا۔ اس طرح کسی بھی صورت میں یزید کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے بلکہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب باوفا کے قتل اور ان کے حرم کی اسیری کا اصل مجرم یزید ہے۔ اگر دنیا میں بات سمجھ میں نہ آئے تو میدان قیامت میں سب واضح ہو جائے گا، اس دن کا انتظار کرو جس دن معذرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
آخری بات
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دل میں آج بھی یزید کے لئے نرم گوشہ ہے۔ وہ یزید کو واقعات کربلا سے بری الذمہ قرار دینے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ یزید براہ راست شریک نہیں تھا اور کبھی کہتے ہیں کہ یزید نے توبہ کرلی۔ لہذا اب اس وقت اس پر لعنت کرنا نہیں چاہئے۔ ان دوستداران یزید (خدا ان کو یزید کے ساتھ محشور فرمائے) بس اتنا کہنا ہے۔
۱۔ حضرت رسول خدا ﷺ کے انتقال کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، اب ان لوگوں کو کس نے خبر دی کہ اللہ نے توبہ قبول کر لی۔ یہ خدا کی طرف سے کس نے خبر دی؟ کیا اس طرح کی باتیں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہیں کرتی کہ یہ لوگ بھی اپنے لئے ایک طرح کی وحی کے قائل ہیں۔ جبکہ یہ نظریہ تمام ملت اسلامیہ کے خلاف ہے۔
۲ ۔ تاریخ کی معتبر کتابوں نے جس طرح یزید کو واقعات کربلا کا ذمہ دار قرار دیا ہے، کیا اسی طرح یزید کی توبہ کو بھی نقل کیا ہے؟
۳۔ اگر واقعہ کربلا پر یزید شرمندہ ہوتا اور اس نے صدق دل سے توبہ کی ہوتی تو ہرگز ہرگز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر حملہ نہ کرتا۔ مکہ اور مدینہ پر یزیدی فوج کا حملہ کیا یہ نہیں بتا رہا ہے کہ یزید نہ صرف حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل خاندان کو شہید کرنا چاہتا تھا، بلکہ خدا اور رسول کا بھی نام و نشان مٹا دینا چاہتا تھا۔ جو شخص مکہ مدینہ پر حملہ کرے تو کیا اس کو مسلمان کہا جا سکتا ہے؟
۴۔ ان باتوں کے علاوہ حضرت رسول خدا ﷺ کی ان متعدد حدیثوں کو کس طرح نظر انداز کیا جاسکتا ہے جس میں قاتل کو جہنمی قرار دیا گیا ہے۔ مومن کے قاتل کو مشرک و کافر کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے، اور یہ کہا گیا ہے جس طرح شرک ناقابل معافی گناہ ہے اس طرح مومن کا قتل بھی یا قاتل سے زیادہ قتل کا حکم دینے والا عذاب کا مستحق ہوگا۔
حدیثوں کو ملاحظہ فرمائیں۔
الف) حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
كل ذنب عسى الله ان يغفر الا من مات مشركا او قتل مؤمنا متعمدا.
خداوند عالم تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے، مگر اس شخص کو ہرگز معاف نہیں کرے گا جو دنیا سے مشرک گیا ہو یا جس نے جان بوجھ کر مومن کو قتل کیا ہو۔
(کنزالعمال جلد ۱۵ صفحہ ۲۰ حدیث ۳۹۸۸۹)
اس حدیث میں قتل مومن کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے یعنی جس طرح مشرک کی بخشش نہیں ہے اسی طرح قاتل کی بھی۔
ب) جہنم کی آگ کے ۷۰ حصہ کیے گئے ہیں، ۶۹ حصہ اس کے لئے ہے جو مومن کے قتل کا حکم دے اور ایک حصہ اس کے لیے جو اس حکم پر عمل کرتے ہوئے قتل کرے۔
تاریخ کے واقعات اس بات پر گواہ ہے کہ یزید نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تھا۔
ج) اگر کوئی شخص کسی مومن کے قتل میں ایک لفظ سے بھی مدد کرے تو وہ قیامت میں خدا سے اس طرح ملاقات کرے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا
آيِسُ من رحمۃِ الله
یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔
(کنزالعمال جلد ۱۵ صفحہ ۲۲ حدیث ۳۹۵۸۹)
د) اگر تمام اہل زمین و آسمان کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو تو خدا ان سب کو منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا۔
(ماخذ سابق حدیث ۳۹۸۹۳)
کیا یزید امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک نہیں تھا۔
وہ لوگ جو یزید کے توبہ کی بات کرتے ہیں وہ ذرا ٹھنڈے دل سے اس حدیث پر غور کریں۔ وہ یزید کی توبہ کا افسانہ پڑھ کر حضرت رسول خدا ﷺ کی تکذیب کے بد ترین گناہ کا ارتکاب نہ کریں۔
ھ) اَبَىَ اللهُ ان يجعل لقاتل المؤمن توبه
خدا اس بات پر ہرگز راضی نہیں ہے کہ وہ مومن کے قاتل کی توبہ قبول کرے۔
(کنزالعمال جلد ۱۵ صفحہ ۱۹ حدیث ۳۹۸۸۲)
ح) میں نے خدا سے دریافت کیا: کیا مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہوگی؟ خدا نے فرمایا: ہرگز نہیں۔
(کنزالعمال جلد ۱۵ صفحہ ۲۷ حدیث ۳۹۹۲۰)
ط) میں نے خدا سے درخواست کی کہ وہ مومن کے قاتل کی توبہ قبول کر لے، خدا نے قاتل مومن کی توبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
(کنزالعمال جلد ۱۵ صفحہ ۲۲ حدیث ۳۹۹۱۹)
اس طرح کی اور بھی حدیثیں ہیں کیا ان واضح حدیثوں کے بعد بھی یزید کی توبہ کے امکانات باقی رہ جاتے ہیں؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔
بس کچھ دنوں کی بات ہے یہ لوگ عنقریب قیامت میں اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیں گے کہ یزید جہنم میں کس قدر درد ناک عذاب میں مبتلا ہوگا۔ کیا اچھا ہو کہ طرفداران یزید جہنم میں اپنے یزید کے ساتھ ہوں۔