خداوند عالم نے اس دنیا کے انسان کو کمال حاصل کرنے کے لئے بنایا ہے اور الله نے انتظام بھی کچھ ایسا کیا ہے کہ اگر حضرت انسان اس کے بنائے ہوئے قانون اور طریقہ پر چلے تو بڑی آسانی سے دنیا اور آخرت میں کامیابی کی منزلیں طے کر سکتا ہے، لیکن جناب آدم علیہ السلام کے زمانے سے آج تک دنیا میں اکثر لوگوں نے نہ ہی الہٰی قانون کو شعار بنایا ہے اور نہ ہی تعلیمات الھی پر پوری طرح عمل کیا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر لوگوں نے گمراہی اور ضلالت کا راستہ اختیار کیا ہے اور ہمیشہ اولیاء الہٰی، انبیاء اور اماموں کو شہید کیا ہے، چونکہ ان جرائم کے باوجود اللہ کی سنت ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ ہدایت اور رہنمائی کا انتظام مسلسل ہوتا ہے اور دنیا میں فساد اور گمراہی نہ پھیل سکے اسی لئے مختلف قوموں کی گمراہیاں حد سے زیادہ بڑھنے کے باوجود کبھی اللہ نے انہیں عذاب میں مبتلا کیا اور کبھی ان کے توبہ کرنے سے انھیں معاف کر دیا یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک نبی رحمت، دنیا کے لئے رحمت بن کر آئے اور ۲۳ سال میں ایک ایسا عظیم انقلاب برپا کر دیا جس کی نظیر نہیں ملتی ہے لیکن اس کے باوجود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی الٰہی تعلیمات کا کیمیائی اور کچھ ہی لوگوں پر ہوا ہے اور اکثر لوگ شیطان کے فریب سے خواب غفلت میں سوتے رہے اور جب شیطان نے ان کے دلوں میں اپنی پوری نسل تیار کر لی تو یہ لوگ ہدایت کا چراغ بجھانے کے لئے کربلا میں آگئے لیکن قادر مطلق نے شیطانی وسوسہ اور گمراہی، کو طالبان حق کے لئے اتنا واضح اور روشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا کہ قیامت تک کوئی اس پر گرد بھی ڈال نہ سکے اس لئے اس انقلاب کی بنیاد ایسے فطری عناصر پرکھی کہ دنیا کا ہر انسان اس پر سرسری نظر ڈالنے کے باوجود حق مانے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور اس کے دل میں ظلم اور فساد کے خلاف ایسی چنگاری پیدا کر دیتا ہے جو ہر شیطانی فساد کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ اسی وجہ سے کربلا کے میدان میں جس عظیم انقلاب کی بنیاد ڈالی گئی تھی اسی میدان میں اس عظیم انقلاب کا بھی اعلان کیا گیا تھا جو دنیا کو تمام ظلم و جور سے پاک کر کے عدل و انصاف کا پرچم لہرادے گا۔ زیر نظر مضمون میں طائرانہ نظر اس انقلاب کی بنیاد پر ڈالنے کی ایک ادنی سی کوشش ہے تاکہ عظیم انقلاب کے انتظار کرنے والوں کی خدمت میں یہ گوش گزار کرایا جا سکے کہ امام حسین علیہ السلام کے مشن اور انقلاب کو یاد کئے بغیر اصحاب حسین کی خصوصیات کو اپنائے بغیر کوئی شخص اس عظیم انقلاب میں سہم نہیں ہو سکتا ہے اس کی دلیل امام حسین علیہ السلام کا یہ ارشاد گرامی ہے جو انھوں نے اپنے جد بزرگوار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں اپنے اصحاب سے فرمایا :
فَقَدْ اَخْبَرَنِیْجَدِّیْ اَنَّ وَلَدِیَالْحُسَیْنَ عَلَیْہِ السَّلَامُ یُقْتَلُ بِطِفِّ کَرْبَلَاءَ، وَحِیْدًا عَطْشَانًا، فَمَنْ نَصَرَہٗ فَقَدْ نَصَرَنِیْووَ نَصَرَ وَلَدَہُ الْقَائِمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔
(فواعد المشاهد ص ۴۶۶)
بہ تحقیق میرے جد نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسین کربلا میں، غربت و تنہائی اور پیاسا شہید کیا جائےگا۔ پس جس نے اس کی مدد کی یقیناً اس نے میری اور اس کے فرزند (قائم علیہ السلام( کی مدد کی ہے یعنی امام حسین علیہ السلام کے اصحاب خود امام زمانہ علیہ السلام کے اصحاب و انصار ہیں، گویا کربلا کے میدان میں امام حسین علیہ السلام کے ہم رکاب جنگ کرنے والے نے امام زمانہ علیہ السلام کی مدد کے لئے قدم آگے بڑھایا ہے۔
اصحاب حسین علیہ السلام کی خصوصیات
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب باوفا نے اپنے ولی نعمت کے لئے انسانی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ۔ یعنی اپنی جان کو شکار کر دیا اور شہداء کے سرداروں کے زمرہ میں شامل ہو گئے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا
وَ خَیْرُ الْخَلْقِ وَ سَیِّدُہُمْ بَعْدَ الْحَسَنِ عَلَیْہِ ا لسَّلَامُ اِبْنِیْ، اَخُوْہُالْحُسَیْنَ عَلَیْہِ السَّلَامُ الْمَظْلُوْمُ بَعْدَ اَخِیْہِ، اَلْمَقْتُوْلُ فِیْ اَرْضِ کَرْبٍ وَ بَلَائِ، اَلَا اَنَّہٗ وَ اَصْحَابَہٗ مِنْ سَادَاتِ الشُّہَدَاءِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
( بحار ج ۳۶ ص ۲۵۳)
بہترین مخلوق اور ان کا سردار میر ابیٹا حسن ان کے بھائی حسین ہے جو اپنے بھائی کے بعد مظلوم ہو گا۔ بلا و مصیبت کی سرزمین کربلا میں شہید کیا جائے گا۔ جان لو کہ وہ اور ان کے اصحاب قیامت کے دن شہیدوں کے سرداروں کی فہرست میں ہوں گے۔
امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت سے پہلے تک، جناب حمزہ بن عبد المطلب کا لقب سید الشهداء تھا اور ۶۱ ہجری کے عاشورہ کے بعد یہ لقب عام طور سے امام حسین علیہ السلام کے لئے استعمال ہونے لگا۔ اور امام کے اصحاب بھی امام حسین علیہ السلام کے صدقے میں شرافت اور سرداری کے منصب دار ہیں۔ اور شہداء کے سرداروں کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔
چونکہ ان لوگوں نے اپنی جان ، محبت، معرفت اور اخلاص سے اپنے امام کی مدد کرتے ہوئے اپنی قربانیوں کو پیش کیا اس لئے اپنے امام کی مدد میں سب سے عظیم رتبہ کو کسب کرلیا امیر المومنین علیہ السلام بھی اہل بیت علیہم السلام کی نصرت کو سب سے عظیم اور بلند مرتبه مدد اور نصرت ان کے دشمنوں سے جنگ کرنے کے بارے میں ہی فرماتے ہیں :
مَنْ اَحَبَّنَا بِقَلْبِہٖ وَ اَعْانَنَا بِلِسَانِہٖ وَ قَاتَلَ مَعَنَا اَعْدَاءَنَا بَیَدِہٖ فَہُمْ مَعَنَا فِیْ دَرَجَتِنَا۔ وَ مَنْ اَحَّبَنَا وَ اَعْانَنَا بِلِسَانِہٖ وَ لَمْ یُقَاتِلَ مَعَنَا اَعْدَاءَنَا فَہُوَ اَسْفَلُ مِنْ ذَالِکَبِدَرَجَۃٍ۔
(بحار ج ۲۷ ص ۸۹، ح ۳۹)
جو شخص ہمیں دل سے چاہتا ہو اور اپنی زبان سے مدد کرتا ہو اور ہمارے ساتھ، ہمارے دشمنوں سے لڑے۔ پس (قیامت( میں ہمارے ساتھ اور ہمارے درجہ میں ہوگا۔ اور جو شخص ہم کو چاہتا ہے اور اپنی زبان سے مدد کرتا ہے لیکن ہمارے ساتھ ہمارے دشمنوں سے جہادنہ کرے، وہ نچلے درجہ میں ہوگا۔
اس حدیث سے نتیجہ نکلتا ہے کہ دشمنان اہل بیت سے لڑنا اور اپنی جان قربان کر امام کی مدد کرنے میں سب سے عظیم رتبہ و منزلت ہے اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب اس سلسلے میں سب سے بلند و بالا ہیں۔
جو لوگ غیبت امام زمانہ علیہ السلام کے زمانہ میں اپنی زندگی ، شب و روز گذار رہے ہیں، انھیں اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ اللہ انھیں ایک معرفت عطا کر دے جس سے وہ سمجھ جائیں کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں نہیں تھے لیکن ہم اس راستے پر چلنے کی توفیق پانے کے لئے ہمہ جہت آمادہ ہیں۔
آج کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام کی نصرت
امام حسین علیہ السلام ۶۱ ہجری میں شہید ہوئے۔ ہمیں آج ۱۳۷۲ سال گزر چکے ہیں پھر بھی ہم امام کی نصرت کر سکتے ہیں اور اس راستے سے ہم امام زمانہ علیہ السلام کی نصرت کرنے والوں میں شمار ہوں گے۔ ایک راستہ امام حسین علیہ السلام کی نصرت کا ان لوگوں کے لئے جو کربلا میں نہیں تھے یہ ہے کہ دنیا میں اپنے دل کو امام مبینہ کی محبت سے لبریز کر لیں اور امام کی گہری محبت سے اس عظیم رتبہ کو پالیں۔
جابر بن عبد اللہ انصاری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باوفا صحابیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کی امامت کا زمانہ دیکھا تھا لیکن عاشورہ کے دن امام حسین کے لشکر میں شریک ہونے کی توفیق ان کو نہیں ملی تھی۔ جابر اسی سال چہلم میں امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کا شرف پاتے ہیں چونکہ نابینا تھے اس لئے عطیہ کوفی سے درخواست کیا کہ میرا ہاتھ امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پر رکھ دو، پھر غم و اندوہ کی شدت کی بنا پر بے ہوش ہوگئے اور قبر پر گر پڑے، جب ہوش آیا تین بار “یا حسین” کہا اور پھر کہتے ہیں :
حَبِیْبٌ لَا یُجِیْبُحَبِیْبَہٗ
وہ دوست جو اپنے دوست کو جواب نہیں دیتا ہے۔
پھر امام حسین سے مخاطب ہو کر کہا اور شہداء کی روحوں کو سلام کیا اور کہا: اس اللہ کہ جس نے پیغمبر کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہم آپ کے ساتھ جس چیز میں آپ داخل ہوئے، شریک ہو گئے۔ عطیہ نے جابر سے پوچھا! ہم نے دشت، بیابان کا سفر نہیں کیا اور نہ ہی ہم نے تلوار چلائی جب کہ ان کے بدن اور سر میں جدائی اور ان کے اور ان کے بچوں کے در میان جدائی ہو گئی اور ان کی عورتوں نے اپنے شوہروں کو کھو دیا۔ پس ہم کیسے ان کے ساتھ شریک ہو گئے؟ جابر نے جواب میں کہا :
یَاعَطِیّۃُ سَمِعْتُ حَبِیْبِیْ رَسُوْلَ اللہِ (ص) یَقُوْلُ: مَنْ اَحَبَّ قَوْمًا حُشِرَ مَعَہُمْ، وَ مَنْ اَحَبَّ عَمَلَ قَوْمٍ اَشْرَکْفِیْعَمَلِہِمْ……
اے عطیہ میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ: جو شخص، ان کے ساتھ محشور ہو گا اور جو شخص کسی گروہ کے کام کو پسند کرے گا تو ان کے عمل میں شریک ہوگا۔ پھر مزید کہتے ہیں :
وَالَّذِیْ بَعَثَ مُحَمَّدًا (ص) بِالْحَقِّ اِنَّ نِیَّتِیْ وَ نِیَّۃَاَصْحَابِیْعَلٰی مَا مَضٰ عَلَیْہِ الْحُسَیْنُ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ اَصْحَابُہٗ
( بحار ج ۱۰۱, ص ۱۹۶)
قسم اس خدا کی جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، بے شک میری اور میرے دوستوں کی نیت ویسی نیت ہے جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی تھی۔
جابر بن عبد الله انصاری نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی سے اللہ کا ایک قانون بیان کیا ہے۔ محبت، ایک قلبی اور اختیاری کام ہے جو انسان کو اپنے محبوب تک پہونچادیتی ہے اس لحاظ سے جو لوگ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا میں نہیں تھے۔ جس زمانے میں بھی ہوں وہ اپنی نیت اور محبت سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ امام علیہ السلام ان کے ہم رکاب جنگ کرنے کا ثواب بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ یعنی دنیا اور آخرت میں اصحاب امام حسین علیہ السلام کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اہم نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ اس قانون الہی کو تسلیم کرے یعنی دل و جان سے اس سنت الہی پر یقین کرے اور اس سلسلے میں اللہ کے وعدہ پر حسن ظن رکھے تا کہ اپنی نیت کے ذریعہ امام کے باوفا اور نفرت کرنے والے اصحاب میں شامل ہو جائے۔ اس بات میں مزید یقین پیدا کرنے کے لئے ایک اور حدیث امام صادق علیہ السلام کی نقل کرتے ہیں امام صادق علیہ السلام ۶۱ ہجری میں پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ امام باقر علیہ السلام اس سفر میں تقریبا پانچ سال کے تھے۔ اس کے باوجود امام صادق علیہ السلام خود اور اپنے تمام شیعوں کو کربلا کے شہداء کی فہرست میں قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں :
اِنِّیْ لَوْ اُخْرِجُ نَفْسِیْ مِنْ شُہَدَاءِ الطُّفُوْفِ وَلَا اَعَدُّ ثَوَابِیْ اَقَلَّ مِنْہُمْ۔ لِاَنَّ مِنْ نِیَّتِیْالنُصْرَۃَ لَوْ شَہِدْتَذَالِکَالْیَوْمَ وَ کَذَالِکَشِیْعَتُنَاہُمُالشُّہَدَاءُ وَ اِنْ مَاتَوْا عَلَیفُرُشِہِمْ۔
(مکیال المکارم ج۲ص۲۲۸)
میں اپنے آپ کو کربلا کے شہداء کی فہرست سے الگ نہیں سمجھتا اور نہ میں اپنے ثواب کو ان سے کم سمجھتا ہوں، کیونکہ میری نیت یہ ہے کہ میں اگر اسی روز کو پالیتا تو ضرور امام حسین علیہ السلام کی مدد کرتا۔ اسی طرح ہمارے شیعہ شہداء میں شمار ہوں گے اگر چہ انھیں اپنے بستر پر ہی موت آئی ہو۔
اسی طرح امام رضا علیہ السلام نے شبیب کے بیٹے سے فرمایا :
جو پہلی محرم کو امام کی خدمت میں پہنچا تھا اس طرح لکھا :
یَا بْنَ شبیب: اِنَّ سَرَّکَ اَنْ یَّکُوْنَلَکَ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلُ مَا لَمِنِ اسْتُشْہِدَ مَعَ الْحُسَیْنِ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَقُلْ حَتّٰی مَا ذَکَرْتُہٗ۔ یَالَیْتَنِیْکُنْتُمَعَہُمْفَاَفُوْزُ فَوْزًا عَظِیْمًا۔
(بحار ج ۴۴ ص۲۸۶)
اے شبیب کے فرزند! اگر خوش ہونا چاہتے ہو کہ تمہیں بھی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ شہید ہونے والے باوفا صحابیوں کا ثواب مل جائے تو جب بھی ان کی یاد آۓ تو کہو: اے کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو عظیم کامیابی پالیتا۔
امام عصر علیہ السلام اور ان کے اصحاب کا نعرہ
ظہور کے زمانے میں امام زمانہ علیہ السلام کی ایک اہم ذمہ داری امام حسین علیہ السلام کے دشمنوں سے انتقام لینا ہے یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ امام عصر کا ایک بنیادی نعرہ قرار دیا گیا ہے۔ ناحیه مقدس کی ایک زیارت میں ہم امام زمانہ علیہ السلام سے اس طرح مخاطب ہوتے ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلَی الْاِمَامِ الْعَالِمِ الْغَائِبِ مِنَ الْاَبْصَارِ وَالْحَاضِرِ فِیْ الْاَمْصَارِ، وَالْغَائِبِ مِنَ الْعُیُوْنِ وَالْحَاضِرِ فِیالْاِفْکَارِ، بَقِیَّہِالْاَخْیَارِ الْوَارِثِ ذَالْفِقَارِ، اَلَّذِیْیَظْہِرُفِیْبَیْتِ اللہِ الْحَرَامِ ذِیْ الْاِسْتَارِ وَ یُنَادِیْ بِشِعَارِ یَا لَثَارَاتِ الْحُسَیْنِ، اَنَا الطَّالِبُ بالاوتار۔ اَنا قاصِمُ کُلِّ جَبَّارٍ، الْقَائِمُ الْمُنْتَظَرُ ابْنُ الْحَسَنِ عَلَیہ و آلہ وَ اَفْضَلُ السَّلَامِ۔
(بحار ج ۱۰۲، ص ۱۹۴-۱۹۳)
عالم و آگاه اور نظروں سے پوشیده امام پر سلام جو شہروں میں موجود ہے، نظروں سے پوشیدہ اور فکروں میں موجود، نیک لوگوں کا ذخیرہ، ذوالفقار کا وارث، وہی جو اللہ کے پردہ دار گھر سے ظاہر ہوگا اور خون حسین علیہ السلام کے انتقام کا نعرہ دے گا اور کہے گا( کہ میں خون ناحق کا قصاص لینے والا ہوں۔ میں ہر ظالم و جابر کو ختم کر دوں گا اور میں وہ قائم ہوں جس کا لوگ انتظار کر رہے ہیں، امام حسن عسکری علیہ السّلام کا بیٹا ان پر اور ان کے پاکیزہ خاندان پر درود و سلام ہو۔
نعرہ عام طور سے ہر شخص کے مقصد کو اجاگر کرتا ہے، ظہور کے وقت امام زمانہ علیہ السلام کا خون امام حسین علیہ السلام کے انتظام کا نعرہ اللہ اور امام علیہ السلام کے نزدیک اس کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ امام علی علیہ السلام کے اصحاب کی بھی امام علیہ السلام کی اتباع میں ایک صفت یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گئے اور اللہ کی راہ میں شہید ہونے کی توفیق کی آرزو ہے۔ امام صادق علیہ السلام ان کی صفات بتاتے ہوئے فرماتے ہیں :
یَتَمَنَّوْنَ اَنْ یُقَتْتَلُوْافِیْسَبِیْلِ اللہِ، شِعَارُہُمُیَا لَثَارَاتِ الْحُسَیْنِ ؑ… بِہِمْیَنْصُرُ اللہُ اِمَامَ الْحَقِّ۔
(بحار ج ۵۲، ص ۳۰۸, ح ۱۸۳)
اللہ کی راہ میں شہید ہونے کی تمنا کریں گے۔ یا ثارات الحسین کا نعرہ بلند کریں گے۔ اللہ ان کے ذریعہ امام برحق مدینہ کی مدد و نصرت کرے گا۔ یا ثارات الحسین کا معنی امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینے کے لئے گریہ کریں گے۔ گویا یہ نعره امام زمانہ علیہ السلام کے عظیم انقلاب کا مظہر ہے۔ اس لحاظ سے امام زمانہ علیہ السلام کے باوفا اصحاب بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب کی معرفت زیادہ سے زیادہ حاصل کریں تا کہ ہمیں پتہ چل سکے کہ اس خون نا حق کے بننے کی اہمیت اللہ کی نگاہوں میں کیا ہے، یہاں تک کہ اللہ نے تمام انبیاء اولیاء اور اوصیاء اور اچھے لوگوں سے اس خون ناحق کا بدلہ لینے کے لئے اس عظیم امام کا وعدہ کیا۔ پس ضروری ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے باوفا اصحاب سے معرفت، محبت، اخلاص، فداکاری کو امام علیہ السلام کی راہ میں قربان کردینا سیکھیں۔
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے حالات
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب جب تک زندہ تھے انھوں نے یہ برداشت نہ کیا کہ آل رسول علیہم السلام کی کوئی اولاد میدان کارزار میں جائے، بلکہ اپنی اور اپنے بچوں کی جان امام علیہ السلام اور ان کے بچوں پر قربان کر دی، اس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اپنی وفاداری کا اعلان کرتے رہے اور عملا بھی دل سے محبت کا اظہار کیا ۔ مثال کے طور پر چند کو ذکر کرتے ہیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ واقعا جو لوگ اپنے امام کی مدد اس طرح کرنا چاہتے ہیں ان کی نیت، عقیدہ اور معرفت کس حد تک مضبوط ہونا چاہیے۔ جب عاشور کی شب آگئی امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو اکٹھا کیا اور اللہ کی حمد وثنا نے کے بعد ان سے فرمایا: اصحاب آپ سے بہتر نہیں جانتاہوں اور اپنے اہل بیت علیہم السلام ان سے بہتر اور نیک کسی کو نہیں جانتا ہوں اللہ تم لوگوں کو میری طرف سے جزائے خیر دے، رات کی تاریکی نے تم سب کو گھیر لیا ہے پس اس کو اپنی سواری سمجھو اور تم میں سے ہر ایک میرے اہل بیت علیہم السلام میں سے کسی کا ہاتھ پکڑ لے اور رات کی تاریکی میں چلا جائے اور مجھے کو اس قوم نابکار کے ساتھ چھوڑ دے کیونکہ ان لوگوں کو میرے علاوہ کسی سے کام نہیں ہے۔
امام علیہ السلام کے بھائیوں اور بچوں اور بھانجوں نے کہا: کیوں ہم یہ کام کریں؟ اس لئے کہ آپ کے بعد زندہ رہ جائیں؟ خدا کی قسم ہم ہر گز یہ کام نہیں کریں گے۔ سب سے پہلے قمر بنی ہاشم اور بعد میں دوسروں نے اس طرح امام سے خطاب کیا۔
اور جب اصحاب کی نوبت پہونچی تو مسلم ابن عوجہ نے کہا: ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ، جب دشمن نے آپ کو گھیر رکھا ہے ، نہ آپ سے منھ موڑیں گے اور نہ ہی جائیں گے؟ نہیں خدا کی قسم، اللہ مجھے وہ دن نہ دکھائے، میں ایسا نہیں کروں گا سوائے اس کے کہ میں اپنے نیزہ کو ان کے سینوں میں توڑ دوں۔ اور جب تک میرے ہاتھوں میں شمشیر ہے ان سے لڑوں گا اور اگر بغیر اسلحہ کے ہو جاؤں گا تو ان سے پتھر سے جنگ کروں گا اور آپ سے اس وقت تک جدانہ ہوں گا جب تک اپنی جان آپ کے قدموں میں نثار نہ کر دوں۔
اس کے بعد سعيد ابن عبد اللہ حنفی اٹھے اور فرمایا: نہیں خدا کی قسم اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے فرزند! یہاں تک کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ ہم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت کو آپ کے سلسلہ میں پاسداری اور حفاظت کی ہے۔ اور اگر جان جاؤں کہ آپ کی رکاب میں شہید ہو جاؤں گا اور پھر زندہ کریں گے اور میرے بدن کے ٹکڑے کو ہوا کے حوالے کر دیں گے اور اشقیا میرے ساتھ یہ کریں گے پھر بھی آپ سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ اپنی جان آپ کے قدموں میں نچھاور کر دوں جب کہ یہاں پر تو ایک سے زیادہ بار قتل نہیں کیا جائے گا اور اس کے بعد ہمیشہ کے لئے عظمت و بزرگی حاصل ہو گی ، پس کیوں میں یہ کام نہ کروں؟ پھر زہیر ابن قین اٹھے اور کہا: اللہ کی قسم اے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند! میں چاہتاہوں کہ ہزار بار قتل کیا جانوں اور زندہ ہو جائیں اور میرے قتل ہونے سے آپ اور آپ کے بھائی اور بچے اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام بچ جائیں۔ مزید کے لئے لہوف ص ۹۱ ص ۹۳ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
آپ نے ان الفاظ پر غور کیا کہ کس طرح امام حسین علیہ السلام کے اصحاب باوفا اپنے امام سے کہہ رہے تھے کہ ہزاروں بار آپ کے لئے اور آپ کے اہل بیت کے لئے شہید ہو جائیں اور یہ شہادت ہمارے لئے ہی ہے۔ آج کون ہے جو سچّائی سے کہہ سکے ہم اہل بیت علیہم السلام کے لئے اپنی جان و مال سب کچھ قربان کرنے کے لئے آمادہ ہیں؟ یقیناً ان لوگوں کے دلوں میں اپنے امام علیہ السلام کی محبت بہت زیادہ تھی، امام حسین علیہ السلام کے اصحاب اس طرح تھے اور انھوں نے عاشورہ کے دن ثابت کیا اس طرح کہ جان دینے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کرتے تھے۔ مثلا سعيد ابن عبد اللہ حنفی سے جب ظہر کے وقت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے سامنے کھڑے ہو جاؤ تا کہ میں نماز خوف پڑھ سکوں۔ امام اپنے بعض اصحاب کے ساتھ نماز پڑھنے جیسے ہی کھڑے ہوئے تو سعید امام کی طرف آتا ہوا ہر تیر اپنے سینے پر لیتے یہاں تک کہ زمین پر گر پڑے بلکہ امام کے دشمنوں پر لعنت کر رہے تھے اور کہتے تھے پروردگار اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میر اسلام پہونچادے اور انھیں میرے زخم سے آگاہ کر دے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کی مدد کا اجر و ثواب چاہتا ہوں۔ پھر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی طرف رخ کیا اور کہا: اے فرزند پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں نے اپنا عہد پورا کیا ؟ تو امام نے فرمایا ہاں تم جنت میں میرے آگے ہو گے۔
اس کے علاوہ آپ مقاتل میں اصحاب باوفا کے بھی کلمات اخلاص اور محبت سے بھرے ہوئے ملاحظہ کر سکتے ہیں جو ان کی محبت، معرفت، وفاداری کی بہترین دلیل ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی نصرت، زیارت حسین علیہ السلام کے ذریعہ
امام حسین علیہ السلام کی نصرت کی ایک نشانی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا شوق اور لگاؤ ہے اور یہ لگاؤ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ اس کو نیکی دینا چاہتا ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
مَنْ اَرَادَ اللہُ بِہِالْخَیْرَ، قَذَفَ فِیْقَلْبِہٖ حُبَّ الْحُسَیْنِ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ حُبَّ زِیَارَتَہِ
(کامل الزیارات باب ۵۵ ح ۳)
اللہ اگر کسی کے لئے نیکی اور اچھائی چاہتا ہے تو اس کے دل میں امام حسین علیہ السلام اور ان کی زیارت کی محبت و شوق ڈال دیتا ہے۔
ممکن ہے امام حسین علیہ السلام کے پاکیزہ روضے کی زیارت کا شرف کسی کو سالوں سال شوق رکھنے کے بعد کبھی نہ ملے۔ لیکن یہ شوق اور لگاؤ امام حسین علیہ السلام سے محبت اور دلی لگاؤ کی علامت ہے اور دل سے امام کی مدد کرنے کی نشانی اور علامت ہے۔
بہر حال امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت ، اللہ کے حقوق میں سے ایک حق بندوں کے ذمہ ہے جو انسانوں کے رات دن عبادت کرنے سے پورا نہیں ہو تا ہے امام صادق علیہ السلام نے فرمایا
لَوْ اَنَّ اَحَدَکُمْ حَجَّ اَلْفَ حَجَّۃٍ ثَمَّ لَمْ یَاتِ قَبْرَ الْحُسَیْنِ بْن عَلیٍعَلَیْہِمَ السَّلَامُ، لَکَانَ قَدْ تَرَکَ حَقَّ مِنْ حُقُوْقِ اللہِ، وَ سُئِلَ عَنْ ذَالِکَ، فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ حَقُّ الْحُسَیْنِؑ مَفْرُوْضٌ عَلَیکُلِّ مُسْلِمٍ۔
(کامل الزیارات باب ۷۸ ح ۶)
اگر تم میں سے کوئی ہزار حج کرے لیکن امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت نہ کرے تو اس نے اللہ کے حقوق میں سے ایک حق کو ترک کر دیا ہے اور اس کو تاہی کے لئے اس سے سوال کیا جائے گا، پھر فرمایا: امام حسین علیہ السلام کے حق کی ادائیگی ہر مسلمان پر واجب ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے قبر کی زیارت ، الله ، رسول اور اہل بیت کا حق ہے، اس میں کوتاہی کرنا اہل بیت علیہ السّلام کے حق کی ادائیگی نہ کرنا اور حقوق میں شمار ہوتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام کا ایک صحابی کہتا ہے۔ میں نے پوچھا آپ کی نظر میں وہ شخص کیسا ہے جو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے پر قادر ہے لیکن زیارت نہیں کرتا ہے؟ امام نے فرمایا: میری نظر میں اس طرح کا شخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہم اہل بیت علیہم السلام کی نافرمانی کی ہے اور ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ اہل بیت علیہم السلام کے حق سے منھ موڑنا گناہ کبیرہ اور سزا جہنم ہے۔ ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص بغیر کسی عذر کے امام حسین علیہ السلام کے قبر کی زیارت کو نہ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ امام نے فرمایا
ہٰذَا رَجُلٌ مِنْ اَہْلِ النَّارِ
(کامل الزیارات باب ۴ ح ۳)
یہ شخص جہنمی ہے۔
ایک اور حدیث میں اس طرح وارد ہوا ہے۔ امام پنجم علیہ السلام سے
اگر لوگوں کو امام حسین علیہ کی زیارت کی فضیلت کا پتہ ہوتا تو شوق سے جان نکل جاتی ہے اور حیرت میں ان کی رو چھلنی ہو جاتی۔
یہ چند چیزیں ہیں جن سے ہم امام حسین علیہ السلام کی مدد کر کے امام زمانہ علیہ السلام کی مدد کر سکتے ہیں۔ آخر میں خداوند عالم کی بارگاہ میں دست بدعا ہے کہ اللہ ہمیں امام حسین علیہ السلام اور امام کے ناصروں میں شمار کرے اور ان کے ظہور پر نُور میں تعجیل فرمائے۔ آمین ثم آمین۔