امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کے ہلاکت

امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کے ہلاکت

الله تبارک و تعالی قرآن مجید میں سورہ شعراء کی آیت نمبر ۲۲۷ میں ظالموں کے انجام کے سلسلہ میں ارشاد فرما رہا ہے۔
سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْأاَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُوْنَ
عنقریب ظالمین کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ جگہ پلٹا دئے جائیں گے۔
اگر ہم اس آیت پر غور کریں تو یہ آیت اس بات کی طرف نشاندہی کر رہی ہے کہ ظالم بہت ہی جلد اپنے انجام بد تک پہونچیں گے۔ اور یہی وہ آیت ہے کہ جس کی تلاوت امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک نے کی تھی کہ جب ظالموں نے آپ کے سر بریدہ کو ایک درخت پر آویزاں کیا تھا۔
سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْأاَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُوْنَ
(تفسیرِ نور الثقلین، ج ۴ ص ۷۴)
ہم اپنے اس مختصر سے مضمون میں ان واقعات و احادیث پر نظر کریں گے کہ کس طرح وہ لوگ جو امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شامل تھے الله نے بہت ہی جلد انہیں اپنے عذاب میں مبتلا کیا اور ان کی وہ دنیوی آرزو میں پوری نہ ہوئیں جس کی لالچ میں وہ امام حسین علیہ السلام کے قتل پر آمادہ ہوئے تھے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے عمر سعد ملعون سے ارشاد فرمایا۔ بے شک میرے (قتل) کے بعد تو عراق کی گندم نہیں کھائے گا تو اس ملعون نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر گندم نہیں تو میں جو ہی کھا لوں گا۔ اور جیسا امام حسین علیہ السلام نے اسے پیش گوئی کی تھی ویسا ہے ہوا شہر رے تک نہ پہنچ سکا اور جناب مختار نے اسے قتل کر دیا ۔
(مناقب ابن شہر آشوب)
ایک دوسری حدیث میں ملتا ہے کہ جو کچھ بھی خوشبو امام حسین علیہ السلام کے خیام سے لوٹی گئی تھی وہ جس عورت نے بھی استعمال کی وہ برص میں مبتلا ہوئی۔
ابوالقاسم نے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے امام حسین علیہ السلام سے کہا کہ اے حسین علیہ السلام آپ کو فرات سے ایک قطرہ بھی پانی نہیں ملے گا یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے یا یہ کہ آپ ابن زیاد کے حکم کو قبول کر لیں امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :
پروردگار! اسے پیاس سے ہلاک کر اور اسے ہرگز نہ بخشنا۔ پس اس شخص پر پیاس کا غلبہ طاری ہوا۔ وہ جس قدر پانی پیا تھا اس کی پیاس نہیں بجھتی تھی، وہ پائے پیاس چلاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا۔
یہ وہ بد بخت لوگ تھے جو امام حسین علیہ السلام کی حقیقی معرفت نہیں رکھتے تھے ۔ دنیا کی محبت نے انھیں آخرت کے دردناک عذاب کے خون سے بے پروا بنا دیا تھا۔ ان لوگوں نے امام حسین علیہ السلام پر پانی بند کیا جب کہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ امام وقت کہ وجود مقدس کی وجہ سے اللّٰہ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور پانی جیسی عظیم نعمت کائنات کو حاصل ہوتی ہے۔ یہ وہ اہل جہنم تھے کہ جنھوں نے امام حسین علیہ السلام کے لئے پانی پر پہرے لگا دئیے جب کہ یہ پانی امام ہی کے صدقہ میں زمین اور اہل زمین کو سیراب کرتا ہے۔ پروردگار جن لوگوں نے امام حسین علیہ السلام پر پانی کی بندش کی اور ان پر مظالم ڈھائے ان پر اپنا بد ترین عذاب نازل کر۔ اور جو لوگ بھی امام حسین علیہ السلام کے قتل پر راضی ہیں انھیں دنیا اور آخرت میں ذلیل و رسوا کر اور ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم قرار دے۔
ایک والد الزنا نے جو قبیلہ دارم سے تھا، امام حسین علیہ السلام کو تیر مارا جو آپ علیہ السلام کے گلوئے مبارک پر لگا۔ جس میں سے خون نکلتا تھا اور امام حسین علیہ السلام اس خون کو آسمان کی طرف پھینکتے تھے۔ اس کے بعد وہ شقی ایسی بلا میں مبتلا ہوا کہ سردی اور گرمی سے فریاد کرتا تھا۔ اس کے پیٹ سے آگ شعلہ ور ہوتی تھی اور اس کی پیٹھ سردی سے کانپتی تھی۔ لوگ اس شقی کے پشت سر آگ روشن کرتے تھے اور سامنے کی طرف پنکھا جھلتے تھے۔ اور اس کے شکم پر برف رکھتے تھے۔ وہ ملعون پیاس سے فریاد کرتا تھا، پانی پیتا تھا مگر پیاس سے سیراب نہ ہوتا تھا یہاں تک کے اُسکا پیٹ پھٹ گیا۔
ابن بابویہ نے بسند معتبر یعقوب بن سلیمان سے روایت کی ہے کہ حجاج کے زمانہ میں جب ہم خوفزدہ ہوئے تو ہم میں سے کچھ لوگ شہر سے چھپتے چھپاتے کوفہ سے باہر آ گئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ یہاں تک کہ ہم کربلاء پہنچے اور وہاں کوئی آرام کرنے کی جگہ تلاش کی ہمیں فرات کے کنارے ایک خیمہ نظر آیا اور ہم نے کہا کہ ہم اس میں پناہ لے لیتے ہیں ۔ ہم اس خیمہ میں آرام کر رہے تھے کہ ایک اجنبی شخص ہمارے پاس آیا اور کہا کہ میں مسافر ہوں، کیا میں تم لوگوں کے ساتھ اس خیمہ میں رات گذار سکتا ہوں؟ ہم نے اسے اجازت دی ۔ پس جب سورج غروب ہو گیا اور رات کا اندھیرا چھانے لگا ہم نے چراغ روشن کیا اور امام حسین علیہ السلام اور ان کی مصیبتوں کا تذکرہ کرنے لگے ۔ ہم نے کہا کہ جو لوگ امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شامل تھے اللہ نے ان کو دنیوی بلاؤں میں مبتلا کیا۔
اُس اجنبی شخص نے کہا۔ میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا ہے لیکن اللہ کی قسم آج تک مجھ پر کوئی مصیبت نہیں پڑی۔ بے شک تم لوگ جھوٹ بولنے والی قوم ہو۔ پس ہم نے خاموشی اختیار کی۔ اسی اثناء میں چراغ کی روشنی کم ہوئی اور شخص اٹھا کہ اپنے ہاتھ سے اس کی بتی کو درست کرے لیکن آگ اس کے ہاتھ میں اس کی داڑھی میں لگ گئی ۔ وہ فریاد کرتا ہوا، آگ کو بجھانے کی غرض سے فرات میں کود پڑا۔ خدا کی قسم ہم نے دیکھا کہ اس نے اپنا سر پانی میں ڈالا اور آگ پانی کے اوپر تھی ۔ وہ جس جگہ پانی سے اپنا سر باہر نکالتا وہاں آگ پہونچ جاتی تو وہ پھر اپنا سر پانی میں ڈال دیتا۔ وہ ایسا کرتا رہا یہاں تک کہ وہ ملعون جہنم واصل ہوا۔
ابن بابویہ نے قاسم ابن اسبغ سے روایت کی ہے کہ بنی دارم سے ایک شخص جو امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شامل تھا میرے پاس آیا، اس کا چہرہ سیاہ تھا۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ شخص بہت ہی خوبصورت تھا۔ میں نے اس سے کہا۔ میں تو تیرے چہرہ کے رنگ کی تبدیلی کی وجہ سے تُجھے پہچان ہی نہ پاتا۔ تیرے چہرے کا رنگ کیسے بدل گیا؟ اس نے کہا کہ میں نے امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک خو برو شخص کو قتل کیا ہے کہ جسکی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہیں اور میں اس کا سر لایا ہوں ۔
قاسم کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ اس کے گھوڑے کے پیروں سے ایک سر معلق ہے اور گھوڑے کے پائے کی وجہ سے وو گھوڑے سے ٹکراتا تھا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ کاش یہ سر مبارک کو تھوڑی اونچی جگہ رکھتا تاکہ اس سر مبارک کے ساتھ یہ معاملہ پیش نہ آتا۔ میرے والد نے کہا۔ اے میرے بیٹے جو مصیبت اس قاتل پر پڑتی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ شدید ہے جو اس سر مبارک پر گھوڑے کے پیروں کی وجہ پڑ رہی ہے میرے والد نے مجھ سے کہا کہ اس قاتل نے مجھے بتایا ہے کہ جب سے میں نے اسے شہید کیا ہے ہر رات جب میں سوتا ہوں ایک شخص میرے خواب میں آتا ہے اور میرا گریبان پکڑ کر کھینچتا ہوا مجھے جہنم لے جاتا ہے اور مجھے اس میں پھینک دیتا ہے اور میں صبح تک اس میں رہتا ہوں۔
عمران ابن عمیر تمیمی کا بیان ہے کہ جب ملعون ابن زیاد اور اس کے ملعون ساتھیوں کا سر کوفہ میں لایا گیا تو میں بھی ان لعینوں کے سر کا تماشہ دیکھنے کے لئے گیا تو دیکھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں، وہ آیا پس ایک سانپ آیا اور ان سروں میں سے ملعون ابن زیاد کا سر ڈھونڈھنے لگا۔ جیسے ہی اسے اس ملعون کا سر مل گیا تو وہ اس کے ناک سے کیا اور باہر آیا پھر دوباره ناک سے گیا اور باہر آیا۔
ابن شہر آشوب نے روایت کی ہے کہ ابجر ابن کعب ملعون کے ہاتھ جن ہاتھوں سے اس لعین نے بعض جامہ ہائے امام حسین علیہ السلام اتارے تھے گرمیوں میں مثل دو لکڑیوں کے خشک ہو جاتے تھے اور جاڑوں میں ان دونوں ہاتھوں سے خون بہتا تھا۔
روایت میں ہے کہ جیسے ہی جابر بن یزید نے امام حسین علیہ السلام کا عمامہ اپنے سروں پر باندها وہ دیوانہ ہوگیا۔
ابن عاشر کہتا ہے کہ ہمارا ایک ساتھی امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ کے لئے گیا۔ جب وہ واپس لوٹا تو وہ اپنے ساتھ ایک اونٹ اور زعفران لایا۔ جب اس زعفران کو پیا جاتا اس میں سے آگ نکلتی۔ اس کی زوجہ نے وہ زعفران اپنے ہاتھوں پر ملی تو وہ برص میں مبتلا ہوئی ۔ اور جب اس اونٹ کو ذبح کیا گیا تو اس کے جس حصہ پر بھی چھری چلتی اس میں سے آگ نکلتی۔
خالد کہتا ہے کہ میں اپنے والد ابی رجاء عطاری کے پاس بیٹھا تھا۔ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ اہل بیت علیہم السلام کے لئے سوائے خیر کے اور کچھ نہ کہنا۔ اسی دوران ایک شخص آیا جو امام حسین علیہ السلام کے خلاف کربلا میں موجود تھا اور اس نے امام حسین علیہ السلام کے لئے نازیبا الفاظ ادا کئے۔ پس اللہ نے اس پر دو تیر پھینکے کے اور اس کی دونوں آنکھوں کی بینائی زائل ہو گئی ۔
جن لوگوں نے اہل بیت علیہم السلام پر ظلم کی بنیاد رکھی، انھوں نے نہ صرف یہ کہ دنیا کو بہترین رہر اور مربی سے محروم کر دیا بلکہ ظلم کے سلسلہ کو اور دراز کر دیا۔ لہذا اہل بیت علیہم السلام سے محرومیت کے سبب جو مسائل ایجاد ہوئے، جو آپس میں لڑائیاں ہوئیں، جس طاقتور نے کمزور پر ظلم کیا وہ سب ان لوگوں کی بنا پر تھا جنھوں نے لوگوں کو اہل بیت علیہم السلام سے دور کر دیا۔ لہذا تاریخ اسلام کے چودہ سالہ دور میں کوئی بے گناہ نہیں مارا جاتا، کسی ظُلم پر ظلم نہیں کیا جاتا، کسی حقدار کا حق نہیں چھینا جاتا مگر یہ کہ اس کی بنیادی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے لوگوں کو باب مدینۃ العلم سے دور کر دیا، ان پر مظالم ڈھائے اور ان کے مقابل پرست اور کم ظرف لوگوں کو، جھوٹے واقعات کے ذریعه محترم بنا ڈالا۔ لہذا جب قاتلان حسین کی فهرست تیار کی جائے گی تو پہلا نام اُس شخص کا ہوگا جس نے مولا کائنات کے حق کو غصب کیا۔
سید ابن طاؤس نے اپنی کتاب ملہوف میں عبد الله ابن ریاح سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میری ملاقات ایک اندھے شخص سے ہوئی جو امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شامل تھا۔ اس سے اس کی بینائی زائل ہونے کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے کہا۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے گئے تھے ۔ میں ہمراہ نو آدمیوں کے تھا۔ میں نے جنگ میں کوئی نیز نہیں لگایا، نہ ہی تلوار چلائی اور نہ کوئی تیر پھینکا۔ جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا اور میں گھر لوٹا تو میں نماز عشاء پڑھ کر سو رہا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا، چل تجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلاتے ہیں ۔ میں نے کہا مجھے ان سے کیا کام۔ اس شخص نے میرا جواب نہ دیا اور میرا گریبان پکڑ کے مجھے خدمت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لے گیا۔ میں نے دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحرا میں مخزون و غمگین بیٹھے ہیں اور آستینوں کو کہنیوں تک چڑھائے ایک حربہ دست مبارک میں لئے ہیں ۔ ایک فرشہ کھڑا ہے اور ایک شمشیر آتشی اس کے ہاتھ میں ہے اور ان نو شخصوں کو جو میرے رفیق تھے قتل کر رہا ہے۔ اپنی تلوار جس شخص کے لگاتا ہے۔ آگ اس کے بدن میں مشتعل ہوتی ہے اور وہ جل جاتا ہے، پھر وہ زندہ ہوتا ہے اور پھر وہ فرشتہ اسے قتل کرتا ہے۔ میں نے جب اس حالت کا مشاہدہ کیا تو دو زانو بیٹھ کر کہا ۔ اسلام علیک یا رسول اللہ۔ آنحضرت نے جواب سلام نہ دیا۔ اور ایک ساعت سر مبارک جھکائے رہے اور کہا۔ اے دشمن خدا تو نے میری ہتک حرمت کی میری عترت کو قتل کیا، میرے حق کی رعایت نہ کی۔ میں نے عرض کی ۔ یا رسول اللہ میں نے کوئی نیز و، تیر وتلوار نہیں لگایا۔ آنحضرت نے فرمایا تو سچ کہتا ہے لیکن تو اس لشکر میں تھا اور ان اشقیا کے لشکر کی سپاہ کو زیادہ کیا تھا۔ میرے نزدیک آ، جب میں قریب گیا تو دیکھا کہ ایک طشت خون سے بھرا ہوا ہے اور آنحضرت کے آگے رکھا ہے۔ پس آنحضرت نے فرمایا یہ خون میر حُسین علیہ السلام کا ہے۔ اس خون سے دو سلائیاں میری آنکھوں میں پھیر دیں ، جب میں جاگا اندھا ہو گیا تھا۔
لہذا وہ لوگ جو کربلا میں موجود تھے اور جنھوں نے تیر و تلوار سے امام حسین علیہ السلام سے جنگ نہیں کی مگر وہاں رہ کر دشمن کی تعداد میں اضافہ کیا وہ بھی اللہ کے عذاب کے تحت ہوئے۔ اور بالکل اسی طرح وہ لوگ جو آج کے زمانہ میں ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے قتل پر راضی ہیں ان سب سے وارث امام حسین علیہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنے ظہور کے بعد بدلہ لیں گے۔ یہی وجہ ہے کے ہم لوگ قاتلان امام حسین علیہ السلام پر لعنت بھیج کر یہ ثابت کرتے ہیں کے ہم امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے راضی نہیں۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگر پارہ جنابِ زہرا علیھا السلام کا حق چھیننے والوں، اُن پر ظلم کرنے والوں، ان پر جلتا ہوا دروازہ گرانے والوں پر لعنت بھیج کر ان سے اظہار برائت کر تے ہیں۔ اور خدا کی بارگاہ میں اہل بیت علیہم السلام کا وسیلہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ پروردگار اپنی آخری حجت کے ظہور میں تعجیل فرما۔ اور ہمیں اُن کے انصار و اعوان میں کرنا اور ہمارے دلوں کو دشمنان اہل بیت سے تادم آخر بیزار رکھنا۔ آمین