امام حسین پر گریہ کا ثواب و فضیلت

اسرار الشھادت کی ایک انفرادیت یہ ہیکہ مرحوم اور در بندی نے اپنی کتاب کے دوسرے مقدمہ میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کی فضیت ثواب عظیم عبادت ہونے کے بارے میں مکمل بحث کی ہے۔ مثل منتخب سے ایک حدیث امام صادق علیہ السلام کی نقل کرتے ہیں : جب محرم کا چاند افق پر نمودار ہوتا تھا امام کا حزن و غم شدید ہو جاتا تھا اپنے جد امام حسین علیہ السلام پر بےحد گریہ کرتے تھے، اور چاروں طرف سے لوگ امام حسین کا پرسہ دینے کے لئے آتے تھے اور امام کے ساتھ مل کر امام حسین کی مصیبت پر نوحہ وماتم کرتے تھے اور جب گریہ تمام ہو جاتا تھا تو امام ان لوگوں سے کہتے تھے: اے لوگو جان لو آگاہ ہو جاؤ امام حسین اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور رزق جیسا چاہتے ہیں پارہے ہیں، اور وہ ہمیشہ کربلا کی طرف جہاں شہید ہوئے تھے اور انکے ساتھ جو لوگ شہید ہوئے تھے دیکھتے ہیں، اور اپنے زائرین اور رونے والوں اور عزاداروں کو دیکھتے ہیں، اور وہ اپنے عزاداروں کو چاہتے ہیں اور ان کے نام اور انکے والدین کے نام کو جانتے ہیں اور جنت میں انکے درجہ اور رتبہ سے بھی آگاہ ہیں اور بیشک امام اپنے اوپر گریہ کرنے والوں کو جانتے ہیں اور انکے لئے استغفار کرتے ہیں اور اپنے جد بزرگوار، والد بزرگوار مادر گرامی اور شفیقی بھائی سے گر یہ کرنے والوں اور عزاداری کرنے والوں کے لئے استغفار کی درخواست کرتے ہیں۔
اور فرماتے ہیں: اگر میری زیارت کرنے والے اور میرے اوپر رونے والے اللہ کے نزدیک اپنے ثواب اور رتبہ کو جانتے تو وہ رونے سے زیادہ خوش ہوتے۔ اور بیشک میرا زائر اور میرے اوپر رونے والا اپنے گھر والوں کے پاس خوش و خرم واپس آئے گا۔ اور وہ مجلس سے جب کھڑا ہوگا تو اسکے اوپر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور وہ شخص ایسا ہو جائے گا ہے اس کی ماں نے اسے پیار کیا تھا۔
اور پھر ایک حدیث معاویہ ابن وہب سے نقل کرتے ہیں: معاویہ ابن وہب کہتے ہیں میں نے امام صادق علیہ السلام سے ورود کے لئے اذن طلب کیا امام نے بار یابی کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ میں امام کے پاس جب گیا تو میں نے دیکھا کہ امام اپنے مصلے پر ہیں، میں بیٹھ گیا یہاں تک کہ امام نے اپنی نماز مکمل کر لیں۔ پھر میں نے سنا کہ امام اللہ سے مناجات کرتے ہوئے کہہ رہے تھے :
اے وہ ذات جس نے ہمیں عزت و شرف عطا کیا، اور ہمیں وصایت کے لئے منتخب کیا، اور شفاعت کا وعدہ کیا ۔۔۔مالکوں کا علم عطا کیا، اور لوگوں کے دل ہماری طرف جھکا دیئے۔ مجھے میرے بھائیوں اور میرے بابا حسین کے زائروں کو معاف کر دے۔ جنہوں نے اپنے مال ہماری راہ میں خرچ کئے اور اپنے بدن پر ہماری محبت میں سختیاں برداشت کیں۔ اس امید میں کہ تیرے نزدیک ہماری بناء پر معظیم ثواب ہے۔ اور انہوں نے تیرے نبی کے دل کو خوش کیا ہے۔ اور ہمارے حکم پر لبیک کہا ہے اور ہمارے دشمنوں کو جلایا ہے اور اس سے وہ تیری رضا چاہتے ہیں، پاس اے پروردگار تو ہماری بناء پر انکے عمل سے راضی ہو جا اور شب و روز کی خبر گیری فرما۔ پروردگارا ان لوگوں نے اپنے اہل و عیال کو چھوڑا ہے انہیں بہترین حالات میں قرار فرما۔ اور ہر ستم گر کے ستم سے انکی حفاظت فرما اور ان کا ساتھ دے، اور اپنی ہر قوی اور ضعیف مخلوق سے انکو محفوظ فرما اور پروردگار اپنے وطن سے جن خواہشات کو لے کر آئے ہیں انہیں بر آور فرما، اسی بناء پر کہ انہوں نے اپنی اولاد اپنے جسموں اور اپنے رشتہ داروں سے دور اور اپنی ازواج پر ہمیں ترجیح دیا ہے اور ایثار کیا ہے۔
پروردگار ہمارے دشمن انکے گھروں سے نکلے (یعنی زیارت ( پر طعنہ دینے ہیں اور عیب لگاتے ہیں پھر بھی انہیں کوئی چیز ہمارے پاس آنے سے روک نہیں سکتی ہے۔ ان لوگوں کے بر خلاف جو ہماری مخالفت کرتے ہیں۔ پس اے اللہ تو ان چہروں پر رحم کر جنہیں سورج کی تپش نے بدل دیا ہے، اور ان رخساروں پر رحم فرما جو امام حسین علیہ السلام کی قبر پر ملتے ہیں، اور ان آنکھوں پر رحم فرما جو ہمارے غم میں رحمت کی بناء پر روتی ہیں۔ اور ان دلوں پر رحم فرما جو ہمارے لئے تڑپنے اور بے چین ہوتے ہیں۔ اور ان چیزوں پر رحم فرما جو ہمارے لئے بلند ہوتی ہیں۔
پروردگار میں ان لوگوں کو ان کے جسموں کو تیرے حوالے چھوڑتا ہوں یہاں تک کہ تو حوض کوثر پر انہیں ہمارے پاس اس دن پہونچا دے جو دن شدید پیاس کا دن ہو گا۔
امام مسلسل سجدہ کی حالت میں الله سے یہ دعا کر رہے تھے اور جب امام دعا سے فارغ ہو گئے تو میں نے کہا: میری جان آپ پر قربان ہو جائے ، یہ دعا جو میں نے آپ سے سنی ہے اگر وہ ایسے شخص کے لئے ہو جو الله کو نہیں پہچانتا ہے تب بھی مجھے یقین ہو جاتا کہ جہنم کی آگ اسے مس کبھی نہیں کر سکتی تھی۔
اور خدا کی قسم میں آرزو اور تمنا کرتا ہوں کہ اے کاش میں نے زیارت کیا ہوتا اور حج نہ کیا ہوتا ( یہاں حج سے مراد واجب نہیں ہے) کہ امام نے مجھ سے کہا: میں نے تمہیں اس سے قریب کر دیا، کیا چیز تمہیں زیارت سے روکتی ہے؟ پھر کہا: اے معاویہ، زیارت کو ترک نہ کرو۔ میں نے کہا مجھے اس سلسلے میں اتنا معلوم نہیں تھا۔ امام نے کہا: اے معاویہ ، امام حسین علیہ السلام کے زائروں کے لئے زمین سے زیادہ آسمان میں دعا کرنے والے ہیں ، تم چاہتے ہو کہ اللہ تمہاری ذات کو ان لوگوں میں قرار دے جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی و فاطمہ علیہما السّلام اور تمام ائمہ علیہم السلام دعا کرتے ہیں؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم ان لوگوں میں قرار پاؤ جو اس دنیا سے گذشتہ تمام گناہ سے معاف ہو کر ستر سال کا گناہ معاف کرا کے رخصت ہوئے ہیں؟ کیا تم نہیں چاہتے کہ کل تم ان لوگوں میں قرار پاؤ جو ملائکہ سے مصافحہ کرتے ہیں؟ اور کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ کل جب تم اس دنیا سے جاؤ تو تمہارے کاندھے پر کوئی گناہ تمہارا پیچھا نہ کر رہا ہو؟ کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ کل تم ان لوگوں میں قرار پا جو اللہ کے رسول سے مصافحہ کریں گے؟
(وسائل، ج ۱۰، ص ۳۲۰)
اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد مرحوم در بندری کہتے ہیں گریہ و زاری اور زیارت کے بارے میں جو حدیتیں میں نے نقل کیا ہے وہ ایک مشت از خروار گندم ہے اگر معاویہ ابن وہب کی حدیث کے علاوہ اگر اور حدیث نہ ہوتی تو بھی ہمارے لئے یہ حدیث کا فی ہوتی۔