خلیفہ بنی امیہ ہشام بن عبدالملک حج پر گیا اور طواف کے بعد اس نے حجر اسود کو بوسہ دینے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے اپنی پوری دنیاوی شان و شوکت کے ساتھ چل پڑا لیکن لوگ طواف اور اللہ کی تسبیح میں اتنے مشغول تھے کہ بادشاہ کو حجر اسود کی طرف جانے نہ دیا اور ہشام کے غلام نے بھی بے بس نظر آئے۔ پھر ہشام پلٹ گیا، ایک اونچے تخت پر جا بیٹھا اور حاجیوں کو دیکھنے لگا۔ اسی وقت امام زین العابدین علیہ السلام کی مسجد الحرام میں آمد ہوئی اور لوگوں نے آپ علیہ السلام کو راستہ دینا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر کر ہشام چونک اٹھا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کون شخصیت ہیں۔ ہشام نے جان کر انجان بنتے ہوئے کہا میں نہیں جانتا یہ کون ہے اور کیوں لوگ ان کے ارد گرد جمع ہیں۔ فرزدق نے، جو اس وقت وہاں موجود تھے, جواب دیا: “لیکن میں جانتا ہوں یہ کون شخصیت ہیں” اور یہ کہہ کر ایک طویل قصیدہ بیان کیا :
يَا سَائِلِي أَيْنَ حَلَّ الْجُودُ وَ الْكَرَمُ
عِنْدِي بَيَانٌ إِذَا طُلَّابُهُ قَدِمُوا
اے جودوکرم، شرافت و بزرگی کے مرکز کے بارے میں سوال کرنے والے، اس کا واضح جواب میرے پاس ہے اگر سوال کرنے والے میرے پاس آئیں۔
هَذَا الَّذِي تَعْرِفُ الْبَطْحَاءُ وَطْأَتَهُ
وَ الْبَيْتُ يَعْرِفُهُ وَ الْحِلُّ وَ الْحَرَمُ
یہ وہ ہیں جنہیں مکہ کی زمین ان کے قدموں کے نشانات پہچانتی ہے۔ خدا کا گھر (خانہ کعبہ) حرم اور حرم کے باہر کی سر زمین ان کو پہچانتی ہے۔
هَذَا ابْنُ خَيْرِ عِبَادِ اللہ كُلِّهِمُ
هَذَا التَّقِيُّ النَّقِيُّ الطَّاهِرُ الْعَلَمُ
یہ بہترین بندگان خدا کے فرزند ہیں۔ یہ پرہیزگار، پاک و پاکیزہ اور ہدایت کا پرچم ہیں۔
هَذَا الَّذِي أَحْمَدُ الْمُخْتَارُ وَالِدُهُ
صَلَّى عَلَيْهِ إِلَهِي مَا جَرَى الْقَلَمُ
یہ وہ ہیں، خدا کے منتخب کردہ رسول احمد مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے والد ہیں، جن پر خدا ہمیشہ درود و سلام بھیجتا رہتا ہے۔
لَوْ يَعْلَمُ الرُّكْنُ مَنْ قَدْ جَاءَ يَلْثِمُهُ
لَخَرَّ يَلْثِمُ مِنْهُ مَا وَطِئَ الْقَدَمُ
اگر حجر اسود کو معلوم ہو جائے کہ کون اس کا بوسہ لینے آ رہا ہے تو بلا اختیار خود کو زمین پر گرا کر ان کے قدموں کا بوسہ لیتا۔
هَذَا عَلِيٌّ رَسُولُ اللہ وَالِدُهُ
أَمْسَتْ بِنُورٍ هُدَاهُ تَهْتَدِي الْأُمَمُ یہ علی علیہ السلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے والد ہیں۔ ان کی ہدایات سے امتیں ہدایت یافتہ ہوتی ہیں۔
هَذَا الَّذِي عَمُّهُ الطَّيَّارُ جَعْفَرٌ
وَ الْمَقْتُولُ حَمْزَةُ لَيْثٌ حُبُّهُ قَسَمٌ
جناب جعفر طیار اور جناب سید الشہداء حمزہ ان کے چچا ہیں۔ یہ وہ شیر الہی ہیں ہے کہ بہادر اور دلیر جن کی قسم کھاتے ہیں۔
هَذَا ابْنُ سَيِّدَةِ النِّسْوَانِ فَاطِمَةٍ
وَ ابْنُ الْوَصِيِّ الَّذِي فِي سَيْفِهِ نَقَمٌ
یہ عورتوں کی سردار فاطمہ زہرا سلام اللّٰہ علیہا کے فرزند ہے اور وصی پیغمبر کے فرزند ہیں جن کی تلوار میں (مشرکین و کافرین) کی موت چھپی ہوتی ہے۔
إِذَا رَأَتْهُ قُرَيْشٌ قَالَ قَائِلُهَا
إِلَى مَكَارِمِ هَذَا يَنْتَهِي الْكَرَمُ
قریش ان کو دیکھ کر اعتراف کرتے ہیں کہ شرافتیں اور بزرگیاں ان کی ذات پر ختم ہوتی ہیں۔
يُنمِي إِلَى ذِرْوَةِ الْعِزِّ الَّتِي قَصُرَتْ
عَنْ نَيْلِهَا عَرَبُ الْإِسْلَامِ وَ الْعَجَم
یہ عزت کی اس بلندی پر فائز ہیں جہاں عرب و عجم پہنچنے سے قاصر ہیں۔
وَلَيْسَ قَوْلُكَ مَنْ هَذَا بِضَائِرِهِ
الْعَرَبُ تَعْرِفُ مَنْ أَنْكَرْتَ وَ الْعَجَم
)اے ہشام( تیرا یہ کہنا کہ “یہ کون ہیں” اس سے ان کا کوئی نقصان نہیں ہے جس کو تو نہیں پہچانتا اس کو عرب و عجم پہچانتے ہیں۔
يُغْضِي حَيَاءً وَ يُغْضَى مِنْ مَهَابَتِهِ
فَمَا يُكَلِّمُ إِلَّا حِينَ يَبْتَسِمُ
وہ حیا سے آنکھیں جھکائے رکھتے ہیں لوگ ان کی ہیبت سے نظر اٹھا کر انہیں دیکھ سکتے. ان سے گفتگو بس اس وقت ممکن ہے جب ان سے لبوں پر مسکراہٹ ہو.
يَنْجَابُ نُورُ الدُّجَى عَنْ نُورِ غِرَّتِهِ
كَالشَّمْسِ يَنْجَابُ عَنْ إِشْرَاقِهَا الظُّلَمُ
ان کی پیشانی کے نور سے تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ جس طرح آفتاب اندھیروں کو دور کردیتا ہے۔
مَا قَالَ لَا قَطُّ إِلَّا فِي تَشَهُّدِهِ
لَوْ لَا التَّشَهُّدُ كَانَتْ لَاؤُهُ نَعَمٌ
وہ اس قدر سخی ہے اگر تشہد میں ‘لا’ (نہیں) ہوتا تو ان کی زبان مبارک سے کبھی ‘لا’ نہ جاری نہ ہوتا۔
مُشْتَقَّةٌ مِنْ رَسُولِ اللہ نَبْعَتُهُ
طَابَتْ عَنَاصِرُهُ وَ الْخَيْمُ وَ الشِّيَمُ
ان کی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ پاک و پاکیزہ اخلاق، کردار بہترین عادات و اطوار
حَمَّالُ أَثْقَالِ أَقْوَامٍ إِذَا قَدِحُوا
حُلْوُ الشَّمَائِلِ تَحْلُو عِنْدَهُ نَعَمٌ
قوم کی ہدایت کا بارگراں کاندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں، جس کو اٹھانے سے پہاڑ انکار کرتے ہیں۔
إِنْ قَالَ قَالَ بِمَا يَهْوَى جَمِيعُهُمْ
وَ إِنْ تَكَلَّمَ يَوْماً زَانَهُ الْكَلِمُ
اگر وہ لوگوں کو جنبش دیں تو سب ان کی بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو فصاحت و بلاغت کی زینت ہے۔
هَذَا ابْنُ فَاطِمَةَ إِنْ كُنْتَ جَاهِلَهُ
بِجَدِّهِ أَنْبِيَاءُ اللہ قَدْ خُتِمُوا
اگر تو انہیں نہیں جانتا تو جان لو یہ فرزند فاطمه ہیں۔ انہیں کے جد پر نبوت و رسالت کا اختتام ہوا
اللہ فَضَّلَهُ قِدْماً وَ شَرَّفَهُ
جَرَى بِذَاكَ لَهُ فِي لَوْحِهِ الْقَلَمُ
خدا نے ان کو اولین و آخرین پر فضیلت و شرف عطا کیا ہے۔ لوح محفوظ کے قلم نے ان کے بارے میں یہی تحریر کیا ہے۔
مَنْ جَدُّهُ دَانَ فَضْلُ الْأَنْبِيَاءِ لَهُ
وَ فَضْلَ أُمَّتِهِ دَانَتْ لَهُ الْأُمَمُ
یہ وہ ہے جن کے جد کے فضائل کے سامنے تمام انبیاء علیہم السلام کے فضائل ہیچ ہیں۔ ان کے جد کی امت کو بھی تمام انبیاء علیہ السلام کی امت پر فضیلت حاصل ہے۔
عَمَّ الْبَرِيَّةَ بِالْإِحْسَانِ وَ انْقَشَعَتْ
عَنْهَا الْعَمَايَةُ وَ الْإِمْلَاقُ وَ الظُّلَمُ
ان کی بخشش و عطا ساری مخلوقات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ضلالت, گرسنگی اور تاریکی ان سے کوسوں دور ہے۔
كِلْتَا يَدَيْهِ غِيَاثٌ عَمَّ نَفْعُهُمَا
تَسْتَوْكِفَانِ وَ لَا يَعْرُوهُمَا عَدَمٌ
ان کے دونوں ہاتھ خدا کے ابر رحمت کی طرح ہیں۔ جس سے ہر ایک فیضیاب ہو رہا ہے۔ عدم محرومی کا یہاں گذر نہیں ہے۔
سَهْلُ الْخَلِيقَةِ لَا تُخْشَى بَوَادِرُهُ
يَزِينُهُ خَصْلَتَانِ الْحِلْمُ وَ الْكَرَم
ایسے نرم و نیک ہیں کہ سختی کا گزر نہیں ہے۔ انہوں نے بردباری اور شرافت کو زینت دی ہے۔
لَا يُخْلِفُ الْوَعْدَ مَيْمُوناً نَقِيبَتُهُ
رَحْبُ الْفِنَاءِ أَرِيبٌ حِينَ يُعْتَرَمُ
یہ اس قدر بابرکت ہیں کہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے ہیں۔ ان کی بارگاہ ہر ایک کیلئے پناہ گاہ ہے۔
مِنْ مَعْشَرٍ حُبُّهُمْ دِينٌ وَ بُغْضُهُمُ
كُفْرٌ وَ قُرْبُهُمُ مَنْجَى وَ مُعْتَصَمٌ
یہ اس بزرگ خاندان کے فرزند ہیں جن کی محبت دین، جن کی دشمنی کفر اور جن سے قربت نجات اور سعادت کا سبب ہے۔
يُسْتَدْفَعُ السُّوءُ وَ الْبَلْوَى بِحُبِّهِمْ
وَ يُسْتَزَادُ بِهِ الْإِحْسَانُ وَ النِّعَمُ
ان کی محبت و ولایت سے ہر فتنہ و شر دور ہوتا ہے۔ ان کی بخشش وعطا میں برابر اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
مُقَدَّمٌ بَعْدَ ذِكْرِ اللہ ذِكْرُهُمُ
فِي كُلِّ فَرْضٍ وَ مَخْتُومٌ بِهِ الْكَلِمُ
خدا کے نام کے بعد ہر ابتدا اور انتہا میں ان کا نام لیا جاتا ہے۔
إِنْ عُدَّ أَهْلُ التُّقَى كَانُوا أَئِمَّتَهُمْ
أَوْ قِيلَ مَنْ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ قِيلَ هُمُ
اگر پرہیزگاروں کا تذکرہ ہو تو یہ پرہیزگاروں کے سردار ہیں۔ اگر دریافت کیا جائے ساری دنیا میں سب سے بہترین کون تو بس ان كا نام لیا جائیگا۔
لَا يَسْتَطِيعُ جَوَادٌ بُعْدَ غَايَتِهِمْ
وَ لَا يُدَانِيهِمُ قَوْمٌ وَ إِنْ كَرُمُوا
ان کی سخاوت کے بعد کسی سخی کی سخاوت کا ذکر نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی قوم کے شریف اور بزرگان کے ہم رُتبہ نہیں ہیں۔
هُمُ الغُيُوثُ إِذَا مَا أَزْمَةٌ أَزِمَتْ
وَ الْأُسْدُ أُسْدُ الشَّرَى وَ الْبَأْسُ مُحْتَدِمٌ
قحط کے زمانہ میں یہ باران رحمت ہیں اور جب جنگ کی آگ بھڑک اٹھے تو یہ مرد میدان ہیں۔
يَأْبَى لَهُمْ أَنْ يَحِلَّ الذَّمُّ سَاحَتَهُمْ
خَيْمٌ كَرِيمٌ وَ أَيْدٌ بِالنَّدَى هُضُمٌ
پستیاں ان کی بارگاہ میں قدم نہیں رکھ سکتی۔ ایسے بزرگ ہیں جن کا دست کرم بارش کی طرح ہمیشہ فیض پہنچاتا رہتا ہے۔
لَا يَقْبِضُ الْعُسْرُ بَسْطاً مِنْ أَكُفِّهِمُ
سِيَّانِ ذَلِكَ إِنْ أَثْرَوْا وَ إِنْ عَدِمُوا
تنگی نے کبھی بھی ان کے وجود کو متاثر نہیں کیا۔ تنگی اور فراوانی ان کے یہاں ایک جیسی ہے۔
اَیُّ الْقَبَائِلَ لَيْسَتْ فِي رِقَابِهِمْ
لِأَوَّلِيَّةِ هَذَا أَوْ لَهُ نِعَمٌ
وہ کونسا خاندان اور قبیلہ جس کی گردن پر ان کا اور ان کے بزرگواروں کا احسان نہ ہو۔
مَنْ يَعْرِفِ اللہ يَعْرِفْ أَوَّلِيَّةَ ذَا
فَالدِّينُ مِنْ بَيْتِ هَذَا نَالَهُ الْأُمَمُ
جو خدا کو پہچانتا ہے وہ ان کے آباء و اجداد کی معرفت رکھتا ہے۔ لوگوں نے انہیں کہ بیت الشرف سے دین اور ہدایت حاصل کی ہے۔
بُيُوتُهُمْ فِي قُرَيْشٍ يُسْتَضَاءُ بِهَا
فِي النَّائِبَاتِ وَ عِنْدَ الْحِلْمِ إِنْ حَلُمُوا
قریش میں صرف ان کا گھرانہ ہے جہاں لوگوں کی مشکلات حل ہوتی ہیں۔ اسی گھر میں صحیح اور حقیقی فیصلہ کیئے جاتے ہیں۔
فَجَدُّهُ مِنْ قُرَيْشٍ فِي أَزِمَّتِهَا
مُحَمَّدٌ وَ عَلِيٌّ بَعْدَهُ عَلَمٌ
ان کے جد بزرگوار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے بعد دوسرے جد بزرگوار حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ہیں جو امام اور پرچمِ ہدایت ہیں۔
بَدْرٌ لَهُ شَاهِدٌ وَ الشِّعْبُ مِنْ أُحُدٍ
وَ الْخَنْدَقَانِ وَ يَوْمَ الْفَتْحِ قَدْ عَلِمُوا
ان کی بہادری، قربانی اور خلوص پر جنگ بدر، احد کی گھاٹی، جنگ خندق فتح مکہ سب گواہ ہیں۔
وَ خَيْبَرٌ وَ حُنَيْنٌ يَشْهَدَانِ لَهُ
وَ فِي قُرَيْضَةَ يَوْمٌ صَيْلَمٌ قَتَم
خیبر و حنین ان کی عظمتوں کا قصیدہ پڑھتے ہیں۔ جنگ بنی قریض اور جنگ تبوک ان کی مدح خواں ہیں۔
(بحار الانوار جلد ۴۶ صفحہ ۱۲۴ سے ۱۲۸ حدیث ۱۷ نقل از مناقب ابن شہر آشوب حلیۃالاولیاءاور الا الغانی)
ہمارا مخلصانہ سلام ہو اس بزرگ مرتبہ شاعر اہلبیت علیھم السّلام پر !
