بنائے لا الہ

چلچلاتی دھوپ آفتاب نصف النہار کا جلال اپنے شباب پر تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اپنی تیز دھار کرنوں سے زمین کو جلا کر خاک کر دے گا۔ لیکن میں بھی آفتاب کی حملہ آور تپش کے مد مقابل فضا میں اس کی سوزشوں کا جواب دے رہی تھی۔ برہنہ سر و پا ہاتھوں کو زنجیر سے خود کو جکڑ کر لباس شاہی سے گریز کرتا ہوا ایک لشکر کے ساتھ پیدل ایک فقیر کے مزار کی طرف اکبر آباد سے امیر کی طرف غربت زدہ کی طرح سفر کر رہا تھا۔ وہ دور تھا جب بھی صاف ستھری لمبی سڑکوں پر سفر سامنے تھا تو کبھی بنجر زمین تھی اور کہیں خار و خاشاک مسافر کے لئے سيدراہ تھے مسافر ضدی تھا۔ دہن کا پکا تھا لگن لگی ہوئی تھی ایک مراد کی یہ کہتا ہوا جارہا تھا۔ آج بادشاه فقیر کی صورت ایک فقیر کی بارگاہ میں جارہا ہے۔ سطوت شاہی کو کوسوں پیچھے چھوڑ کر مسائل فقر کا مارا۔ محتاج ہے حاجت ہے ایک اولاد کی۔ یہ بر صغیر ہندوستان کا شہنشاہ اکبر اعظم تھا۔ ہندوستان کی سر زمین پر دور دور تک پھیلی ہوئی سلطنت کے ہر گوشہ میں اسی کا انتظام و انصرام آئین اکبری کے تحت انجام پارہے تھے۔ اس زمانہ میں رات رات تھی دن دن تھا۔ صبح کا گجر بجنے کے بعد بستیاں جاگ اٹھتی تھیں۔ بازاروں میں چہل پہل لشکر کی چھاونیوں میں تلوار و تیر و تبر کی مشقیں،اہلکاروں کی آمد و رفت دکھائی دینے لگی تھی۔ اسی کی ایک صبح کو وہ عظیم شخصیت ہے اکبر اعظم کہتے ہیں ایک فقیر حاجت مند کی عورت اپنے محل سرا کو چھوڑ کر سلیم چشتی کی مزار کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب مزار پر پہونچاتو سر پر گرد سفر – چہرے پر تھکن کے آثار ،پسینہ میں شرابور ، ایک فقیر کے در پر کھڑا ہاتھ پھیلائے مانگ رہا تھا۔ ایک اولاد کی مراد لے کر آیا ہوں خواجہ۔ آج میں بادشاہ نہیں ہوں آج میں حاکم نہیں ہوں، محکوم ہوں، آج میں بے بس بے چارہ، تہی دست، تہی دامن ، مجبور تیری بارگاہ میں آیا ہوں کہ اگر تو چاہے تو میری سفارش کر دے اس قادر مطلق خدائے یک و تنہا جسکی قدرت ہر شہ پر غالب ہے کہ وہ اس بندائے ناچیز کو ایک اولاد سے نواز دے۔
یہ وہ اکبر اعظم ہے جس کے نو رتن میں ابو الفضل اور فیضی جیسی علمی شخصیتیں تھیں جن کا علمی عروج ایسا تھا کہ قلمدان وزارت خارجہ کی وزارت خارجہ سے بیرون ملک کے ممالک ہندوستان کو ایک مضبوط اور غیر مفتوح حکومت تصور کرتے تھے۔ انشائے ابو الفضل کتاب کی شکل میں آج بھی موجود ہے ان کے تبحر علمی کی شاہد ہیں۔ آپ کے والد بزرگوار اسی زمانہ کے ایک جلیل القدر شیعہ عالم تھے۔
کاش اے کاش اکبر اعظم نے جسکا عہد حکومت سولویں اور سترھویں صدی کے درمیان تھا اپنی حسرتوں کے ہجوم سے کسی مایوسی کی اندھیری رات میں عقل و خرد کا چراغ لے کر ابو الفضل کے والد بزرگوار کے پاس آکر دو زانو بیٹھ جاتا۔ ادب سے گذارش کرتا کی کوئی دین اسلام کا دین پناہ ہے۔ کیا کوئی تاریخ میں ایک واقعہ ملتا ہے جس نے لا الہ کی بنیاد کو اس ارض خاکی پر مستحکم کیا ہو۔ کیا کوئی ایسا بندہ الہ ہے جو زمین کے ساتھ افلاک کی بستیوں پر بھی خدائے بزرگ و بالا کی طرف سے حاکمیت رکھتا ہو۔ جو اس کے بے شمار بندوں کی تقدیر سے واقف بھی ہو اور اسے عطا کر نے کی اجازت بھی ہو تو شاید اسے جواب ملتا۔ سن اے بے بس، ہے چارہ، ہےکس مایوس حسرت زدہ شہنشاہ ہند ذرا پلٹ کر ایک ہزار برس قبل کی تاریخ کو پڑھ لے مرسل اعظم کا دور رسالت ہے۔ مدینہ مسلمانوں کی شریعت اور قانون الہی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مسجد نماز گذاروں سے بھری ہوئی ہے۔ مسجد نبوی کے پاکیزہ صحن میں اللہ تعالی کا محبوب نبی کی جلوہ افروز ہے۔ زانوں پر نواسہ رسول جس کا اسم گرام حسین ہے تشریف فرما ہے۔ ایک شخص ایک عرب راہب داخل مسجد ہوا دو زانو کر یم آقا کے حضور میں بیٹھ گیا۔ اس کے پاس سب کچھ تھا اور کچھ بھی نہیں تھا صاحب دول تھا۔ بڑا سا گھر جس میں کئی کمرے، سامنے صحن اور پائیں باغ بھی،اسباب رزق کثیر تھے۔ ملازم اور غلام بھی تھے۔ لیکن بن اولاد گویا کچھ بھی نہیں تھا۔ صحن اور کمروں میں سناٹوں کا بس بسیرا تھا۔ زندگی سپاٹ گذر رہی تھی نہ قہقہے گونج رہے تھے نہ اولاد کی محبت میں دل کی کمک کروٹیں لے رہی تھی۔ جینا ہے اس لئے بھی رہے ہیں مرنا ہے اس لئے مر جائیں گے۔ وہ کہتا ہو گا یہ بھی کوئی زندگی ہے غم کی ساری زندگی حضور سرور کائنات کے حضور میں اپنی ساری مایوسیاں سمیٹ کر حاجت روا کے پاس اپنی حاجت بیان کر رہا ہے۔ اے اللہ کے نبی میری زندگی صحرا اور بیابانوں کی طرح خاموش ہے اسے آباد کر دیجئے۔ میں راہب ہوں لیکن ایسا لگتا ہے کسی غیبی طاقت نے مجھے یہاں تک پہونچادیا ہے۔ ایک اولاد کی تمنا ہے۔ آپ اگر اللہ کے حبیب اور رسول ہیں آپ دعا کریں گے تو ضرور قبول ہوگی اور ایک اولاد سے میرا گھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا۔
مرسل اعظم نے غیب کے پردوں کو ہٹایا اس کی تقدیر کا لکھا پڑھا۔ جواب دیا تیری قسمت میں اولاد نہیں ہے۔ کاتب تقدیر نے تیرے مقدر میں اولاد نہیں تحریر کیا ہے زانو پر بیٹھے ہوئے حسین نے ان کا چہرہ دیکھا۔ کہا ہوگا راہ خدا میں شہادتوں کی طویل فہرست رکھنے والے کے سامنے سے سائل خالی ہاتھ جارہا ہے۔ یہ بھی گوارا نہیں اور لب کشاہوا۔ نانا میں نے اسے ایک اولاد عطا کی“ نانا نے جواب میں کہا۔ میرے دلبند اس کے مقدر میں اولاد نہیں ہے۔ حسین علیہ السلام نے جواب دیا نانا میں نے دو اولاد دیے جب نانا اور نواسے کی بات سات اولاد تک پہونچ گئی سائل نے کہا اے میرے حسین میرا دامن مرادوں سے بھر گیا۔ زمانہ گذرتا گیا سائل کی سات اولاد جوان ہو گئیں۔ اے ہندوستان کی مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی زمین پر حکومت کرنے والے عظیم شہنشاہ تو زمین کے ایک خطہ پر حکومت کرنا ایک عہد اور پھر زمانے کے دور تک نہیں جانتا ہے تو کیا جانے جہاں تو ایک فقیر اور سائل کی صورت پایه زنجیر چلا جارہا ہے صرف اتنے کم شعور کے اجالے میں جانتا ہے کہ وہ خدا رسیدہ بندہ ہے۔ محبوب بارگاہ الٰہی ہے لیکن یہ نہیں جانتاوہ جس کے آگے دامن پھیلائے کھڑا ہے وہ بشر ہے لیکن اس کی خلقت بشری و خاکی ہے کسی کی محبت میں ڈوب کر ابھرا تو وہ ایسا بن گیا جس کے در پر عظمت سلطانی اور سطوت شاہی کا تاج سر سے اتار کر اس کے مزار پر جاروب کشی کرتے ہیں۔ یقین نہ ہو تو اس کے مزار پر جسکی محبت نے ذرہ سے آفتاب بنادیا جھوم جھوم کے جو شعر پڑھتا تھا آج تک لکھا ہوا ہے۔ کافی تھا اگر وہ کہ د یتا حسین دین (اسلام) ہیں تھا مگر نہیں آگے کہتا جارہا ہے دین اسلام( کی پناہ گاہ ہیں۔ اے عالم اسلام کے مسلمانوں کان دھر کے سنو عقل و خرد کو کان دو صرف دین کی پناہ گاہ کہہ کر اکتفا نہیں کیا بلکہ محبت حسین میں سرشار حقیقت آشنا ملکوتی بستیوں کا سیاح قرب الہی کی منزل کی طرف جانے والا مسافر حسین کی خلقت نوری کی کتاب کا متعلم معرفت قدرت خداوندی میں خلاق عالم کی شاہکار خلقت حسین کے نور سے جب ایک نور کی کرن نے ولایت تکوینی کی روشنی دیکھی تو متحر ہو کر کہ اٹھا۔ حقا کہ بنائے لا الہ است حسین قسم ہے ان کی لا الہ کی بنا ہےحسین۔
افسوس ہے اس مزار سلیم چشتی رحمتہ اللہ الیہ پر گروہ در گروہ دور دراز کے فاصلوں کو طے کرتے ہوئے ہری اور سرخ چادریں قبر پر چڑھانے کے لئے زائر چلے آتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ یہ شرف بہ منزلت، یہ کشف و کرامات، یہ معجز نمائی اللہ تبارک و تعالی نے کس کے طفیل نے اور کن کاوشوں کی صلہ میں عطا فرمائی ہیں۔ اکبر اعظم شہنشاہ ہند نے ایک اولاد مانگی تھی صرف ایک اولاد اگر اس اولاد سے بقائے سلطنت مانگی ہوتی تو شاید وہ بھی مل جاتی وہ اس کو عطا کی گئی لیکن اگر ذرا حسین کا واسطہ دے کر بقائے سلطنت مانگ لیا ہوتا تو عہد بہ عہد مغلیہ بادشاہت عروج سے زوال کی طرف نہ ڈھلکتی۔ حسین حسین ہیں۔ کربلا میں اپنے خطبہ میں کئی مرتبہ فرمایا اگر تم لوگ سوالی بن کر آئے ہوتے تو اے گروهان اشقیاء میں میرے بیت الشرف میں خدمت گزار ملائکہ کے پر ان کی خوشبو سے تمہاری بند آنکھوں کو کھول دیتا۔
آج امام حسین علیہ السلام کی ضریح مبارک کے پاس ایک جگہ معین ہے۔ دورکعت نماز کے بعد اس جگہ حاجت مند پہلی دعا اللہ کی بارگاہ میں کرے گا اس کی قبولیت کی ضمانت مولا حسین علیہ السلام نے لی ہے۔ کربل کا یہ شرف، یہ عظمت، یہ بزرگی ، یہ کمال، یہ معجزه، یہ محیر العقول دعوی، یہ رابطه انسانی، یہ لوح قلم کی تحریر پر تحریر کی قدرت ایک عام اعلان ہے جو تمام دنیا میں جہاں جہاں حسین علیہ السلام کے ماننے والے ہیں سب جانتے ہیں۔ کوئی چھپی ڈھکی بات نہیں اس اعلان میں کوئی اختصاص نہیں ہے۔ شاہ ہو یا گدا صرف اتنی سی شرط ہے کہ دل حسین علیہ السلام کی محبت کا مکین ہو کبھی اس کے دو قطرے آنسو کے رومال ما در حسین علیہ السلام میں جگہ رکھتے ہوں۔ آج لاکھوں کا مجمع ہے جو ضریح اقدس کے پاس ٹوٹا پڑ رہا ہے۔ ہر عقیدت مند کی پہلی دعا قبول ہوتی ہے کوئی دامن خالی واپس نہیں آتا کوئی سلطان کو ضرورت نہیں ہے کہ پابہ زنجیر چلے ، دست رسن بسته چلے سرننگے چلے یا پیادہ چلے، اشک ریزاں چلے ، خاک بہ سر چلے دل پریشاں چلے نہیں نہیں یہ اس کریم آقا کا دربار ہے جہاں چاہنے والوں کے قافلے بس چلے آرہے ہیں۔ چاروں طرف یا حسین یا حسین کی آواز گونج رہی ہے۔ اے ہم سب کے پیارے حسین خواجہ نے آپ کو دین ہی نہیں بلکہ دین پناہ بھی کیا اس تکرار کا راز کیا ہے۔ شاید جواب ملے علی اصغر کی ننھی سی زبان سوکھے ہونٹوں پر پھرتی ہوئی، جلا ہوا جھولا رباب کی اساس حیات، سکینہ کا جلا ہوا کرتا، قاسم کی کٹے ہوئے جنازہ، علی اکبر کے سینے سے ابلتا ہوا خون، عباس کے کٹے ہاتھ، حسین کا نوک نیزہ پر بلند سر تاریخ بول رہی ہے کہ بہت سے اور غلاموں کی روز عاشورہ ایثار و قربانی سعید کا چھلنی کلیجہ، زہرقین کی شہادت، حبیب و شبیب جیسے جاں نثاروں کی شجاعت و دلیری، حر کے زخمی سر پر رومال زہرا علیھا السلام، حضرت عابد علیہ السلام کی زنجیروں کے ساتھ سجدہ معبود میں شکر گزاری، کوفہ و شام کے دربار میں ظلم کے چہرے کو سیاہ کر دینے والی مظلومیت اور ام المصائب جناب زینب علیھا السلام کے خطبے۔ ایک فهرست ہے اس لشکر کی جو دین اسلام کی پناہ گاہ کے لئے ٹا صبح قیامت کا فی ہیں جس فہرست کے سرورق حسین کی آخری وصیت جو اپنی بہن سے کی ہے بہ عنوان جلی لکھ دی گئی ہے
“بہن مجھے نماز شب میں کبھی فراموش نہ کرنا۔“
ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو راہب کے واقعہ کی سندیت پر اعتراض ہو لیکن سید الشہداء نواسہ رسول نور عین بتول خالق کی بارگاہ میں اس قدر عظیم ہیں کہ ان کی بات ٹالی نہیں جاتی ہے۔
زندگی ہے بر سر آتش نشانی یا حسین
آگ دنیا میں لگی ہے آگ بانی با حسین