تذکرۂ شہید اعظم در قرآن

حدیث ثقلین قرآن مجید اور اہل بیت﷨ کے لئے وارد ہوئی ہے جس کی روشنی میں مرسل اعظم نے اپنی امت کو دونوں اہل بیت اور قرآن مجید کا امین قرار دیا ہے اور اُس امانت سے متمسک رہنے اور اُس سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہ رہنے کا حکم صادر کیا ہے۔ حسین بن علی ﷦خامس آل عبا اور قرآن مجید دونوں امت کے درمیان بطور امانت تھے، ہیں اور رہیں گے۔ اس لئے کہ آنحضرتؐ نے حوض کوثر پر ملاقات تک انھیں دونوں امانتوں سے تمسک اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے اور انھیں دونوں سے متمسک رہ کر میدان قیامت میں ہدایت یافتہ اور انجام بخیر کی شکل میں آنحضرتؐ سے ملاقات ہوگی اس سے ہٹ کر میدان قیامت میں آنحضرتؐ سے ملاقات تو ہوگی مگر وہ ملاقات ضلالت و گمراہی اور حسرت و یاس کے ساتھ ہوگی۔ حسین بن علی ﷦قرآن ناطق ہیں اور قرآن مجید قرآن صامت ہے حسین بن علی ﷦کے سینہ مبارک میں وہی حقائق و معارف اور اسرار الٰہیہ ہیں جو آنحضرتؐ کے سینۂ مبارک میں پائے جارہے تھے۔ آنحضرت اصول و قانون قرآن کی وضاحت کرنے والے تھے امام حسین ﷣بھی آنحضرتؐ کی جانشینی میں اِس کی وضاحت و تشریح کرنے والے ہیں۔ نہ یہ دونوں امانتیں جدا ہوسکتی ہیں اور نہ آنحضرت کی امت ان دونوں سے الگ ہوسکتی ہے مگر یہ اہتمام سرور کائنات کا تھا کہ جب حسین بن علی ﷦کو امت کے سپرد کیا تو اس طرح منبر پر جا کر فرمایا: اے لوگوں یہ حسین بن علی ﷦ہیں انھیں پہچان لو اور انھیں سب پر برتری اور فضیلت دو،[1]؎ اس کے بعد فرمایا: خدایا! انھیں اپنی امت کے نیک افراد کے درمیان اور تیری امانت کے طور سے سپرد کرتا ہوں۔[2]؎نتیجہ صاف ہے کہ آپ (امام حسین﷣ جو مفسر قرآن ہیں اور کتاب الٰہی یعنی قرآن مبین دونوں پیغمبر اکرمﷺ کو امت میں مرسل اعظم کی عنایت کردہ ایسی امانت ہیں جو امت کو گراہی اور ضلت سے محفوظ رکھتی ہے۔

لہٰذا آپؑ اللہ تعالیٰ اور آنحضرتؐ کی امانت ہیں تمام امت کے نزدیک حتی ان لوگوں کے نزدیک جو اس زمانہ میں نہیں تھے۔ کل آنحضرتؐ اس امانت کے بارے میں امت سے دریافت فرمائیں گے کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس امانت کے تئیں سنجیدگی کے ساتھ ذرا غوروفکر کریں کہ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا گیا؟ جب کہ ان کا تعارف آنحضرت نے کرایا جس کا تعارف اللہ تعالیٰ نے کرایا، جس کا تذکرہ خداوند عالم نے اپنی دیگر آسمانی کتابوں میں کیا جن کے بارے میں اپنے انبیاء کو آگاہ کیا، جن کے بارے میں قرآن مجید میں لوگوں کو متعارف کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آپ کا خود وجود مبارک قرآن مجید سے کتنا ہم آہنگ اور مطابقت رکھتا ہے۔ذرا مسلمانوں کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ قرآن کریم، مجید اور شریف ہے۔ امام حسین ﷣بھی کریم، شریف اور مجید ہیں۔ قرآن انبیاء کے حالات واقعات اور جو مشکلات و مصائب ان پر پڑے ان تمام باتوں پر مشتمل ہے۔ حسین بن علی ﷦کا وجود مبارک بھی اللہ کی آیتوں اور حالات و نصوص پر مشتمل ہے۔ قرآن میں ایک سو چودہ سورہ ہیں امام حسین ﷣کے جسم مبارک پر تلواروں کے ایک سو چودہ زخم لگے ہیں۔ قرآن شفا و رحمت ہے۔ حسین بن علی ﷦کا وجود باطنی امراض کے لئے شفا اور آپ کی تربت پاک ظاہری امراض کے لئے شفا، قرآن نور، حسین نور، قرآن روح، حسین ریحانۂ رسول۔ غرض یہ کہ قرآن اور امام حسین ﷣ میں اتنی مناسبت اور مطابقت پائی جاتی ہے جس کا شمار اور بیان مشکل ہے۔ مگر قارئین کے لئے ہم یہاں پر چند تذکرے پیش کرتے ہیں جو اہل بیت ﷨ کے لئے عام طور سے اور امام حسین ﷣ کے لئے خاص طور سے خداوند عالم نے قرآن میں بیان کئے ہیں۔

۱۔ سورۂ بقرہ:

آنحضرتؐ سے روایت ہے کہ جب حضرت آدم ﷣ جنت سے ترک اولیٰ کی بنا پر باہر آئے تو جبرئیل نے آکر عرض کیا خدا سے دعا کیجئے اللہ تعالیٰ آپ کی توبہ قبول فرمائے گا۔ عرض کیا کیسے دعا کروں جبرئیل نے کہا: خدا سے ان پنجتن پاک کے ذریعہ سوال کیجئے جنھیں آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ آپ کی صلب سے ظاہر کرے گا، فرمایا: ان کے نام کیا ہیں، کہا: اس طرح عرض کیجئے : خدایا بحق محمد و علی اور بحق حسن و حسین اور بحق فاطمہ ہم پر رحم فرما اور ہماری توبہ قبول فرما۔ حضرت آدم ﷣ نے ان اسماء کے ذریعہ دعا کی خداوند عالم نے توبہ قبول فرمالی اور آیۂ کریمہ : ’’فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَبِّہٖ بِكَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ‘‘ سے یہی مقصود ہے۔

(تفسیر فرات ۱۳-۲۴)

۲۔ سورۂ نساء:

آیت ’’اَطِیْعُوْ اللہَ وَ اَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَ اُوْلِیْ الْاَمْرِ مِنْكُمْ‘‘ کے بارے میں امام محمد باقر ﷣ نے فرمایا جب لوگوں نے دریافت کیا کہ یہ آیت کس کی شان میں نازل ہوئی ہے تو آنحضرت﷣ نے فرمایا علی حسن حسین ﷨ کے بارے میں۔

(اصول کافی، ج۱،ص ۱۸۵، کتاب العمۃ ح۱۱)

۳۔ سورۂ اعراف:

’’وَ عَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ‘‘ کے بارے میں ابن عباس سے نقل ہے کہ اس سے مراد آنحضرت، علی، فاطمہ، حسن و حسین ﷨ ہیں کہ بہشت کی دیواروں پر (نقش) ہیں اور اپنے دوستوں اور اپنے دوستوں اور دشمنوں کو ان کی مخصوص نشانیوں کے ذریعے پہچانتے ہیں۔

(تفسیر فرات، ص ۴۷)

۴۔ سورۂ حج:

عجلی امام محمد باقر ﷣ سے آیۂ کریمہ ’’وَجَاہِدُوْا فِیْ اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ہُوَ اجْتَبَاكُمْ‘‘کے ذیل میں حدیث نقل کرتے ہیں: اس سے خداوند عالم نے ہمارا ارادہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندہ ہم ہیں۔

(اصول کافی، ج۱، کتاب الحجۃ، ص ۱۹۱، ح۴)

۵۔سورۂ فرقان:

حضرت ختمی مرتبتﷺ سے نقل ہے کہ آیۂ کریمہ ’’وَالَّذِیۡنَ  یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا‘‘ کے بارے میں میں نے جبرئیل سے عرض کیا: ’’اَزْوَاجِنَا‘‘ سے کون مراد ہے، فرمایا: خدیجہ، عرض کیا: ’’وَ ذُرِّیّٰتِنَا‘‘ سے ؟ تو کہا: فاطمہ، عرض کیا: قُرَّۃَ اَعْیُنٍ سے کون مراد ہے؟ تو فرمایا: اس سے حسن و حسین ﷦۔ عرض کیا: ’’لِلْمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا‘‘ہے؟ کہا: علی بن ابی طالب ﷦۔

(تفسیر فرات، ص ۱۰۶)

۶۔ سورۂ شوریٰ:

امام صادق ﷣ نے ابو جعفر احول سے آیۂ کریمہ ’’قُلْ لَا اَسْئَلُكُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی‘‘ کے بارے میں بصرہ والے کیا کہتے ہیں؟

جواب دیا: میں آپ پر قربان، وہ لوگ کہتے ہیں۔ آنحضرتؐ کے قریبی رشتہ داروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ آپؑ نے فرمایا: وہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں: یہ آیت صرف ہم اہلبیت کی شان میں نازل ہوئی ہے یعنی : علی و فاطمہ حسن و حسین ﷨ جو اصحاب کساء ہیں۔

(تفسیر برہان، ج۴، ص ۱۲۱، ح۲)

۷۔ سورۂ رحمٰن:

یحییٰ بن سعید کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق ﷣ سے سنا آپ فرما رہے تھے آیت’’مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ‘‘ میں امیر المومنین ﷣ مراد ہیں اور ’’یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْلُؤْ وَالْمَرْجَانْ‘‘سے حسن و حسین ﷦ مراد ہیں۔

(تفسیر برہان، ج ۴،ص ۲۶۵، ح ۱)

۸۔ سورۂ والفجر:

ابن فرقد کہتے ہیں: امام صادق ﷣ نے سورۂ فجر کو واجب اور مستحب نمازوں میں تلاوت کرنے کی تاکید فرمائی اور فرمایا:

خدا تم پر رحمت نازل کرے اس سورہ کی طرف دل و جان سے توجہ کرو کہ بیشک یہ سورہ، سورہ امام حسین ﷣ ہے۔ ابو اسامہ بھی اس نشست میں بیٹھے ہوئے تھے، دریافت کیا : کس طرح یہ سورہ امام حسین ﷣ سے خصوصیت رکھتی ہے ؟ فرمایا: کیا اس آیت کی تلاوت نہیں کرتے کہ خدا فرماتا ہے’’ یٰۤاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ‘‘ اس سے حسین بن علی ﷦مراد ہیں۔ بیشک نفس مطمئنہ اور راضیا مرضیا کے مالک ہیں اور ان کے اصحاب باوفا قیامت کے دن آل محمد اور اللہ تعالیٰ سے راضی رہنے والے   خدا بھی ان سے راضی ہوگا۔

(بحار، ج۴۴،ص ۲۱۸،ح۸)

شیخ جعفر شوشتری ﷫ سورۂ فجر ’’امام حسین ﷣ کی ایک مناسبت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’وَ الْفَجْرِ ﴿۱﴾ۙ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ ﴿۲﴾ۙ وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِ ﴿۳﴾ۙ‘‘ (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی اور جفت و طاق کی، اور رات کی جب وہ جانے لگے)امام حسین ﷣ فجر ہیں کہ وہ نور ہدایت ہیں اور آپ کی مصیبتوں کی راتیں لیالی عشر ہیں اور دونوں برادر شفیع (جنت) ہیں۔ اور جب آپؑ نرغۂ اعدا میں تنہا رہ گئے تو آپ ہی وَتر کہلائے کتنا بابرکت اور پاکیزہ ہے امام کا وجود مبارک۔

۹۔ سورۂ نور و حدید:

صالح بن سہل کہتے ہیں: امام صادق ﷣ ’’اَللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ ‘‘ میں مشکاۃ سے حضرت فاطمہ زہرا﷥ ’’فِیۡہَا مِصْبَاحٌ‘‘ سے حسن﷣ اور ’’اَلْمِصْبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ‘‘ سے حسین ﷣مراد ہیں۔

(اصول کافی، ج ۱، کتاب العمہ، ص ۱۹۵، ح۵)

۱۰۔ سورۂ نساء:

حسن بن زیاد امام صادق ﷣ سے نقل کرتے ہیں: آپ نے آیۂ کریمہ ’’كُفُّوْا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ‘‘ (اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نماز قائم کرو)کے بارے میں فرمایا اس سے مراد امام حسن ہیں ’’فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ‘‘ (اور جب ان لوگوں پر قتال فرض کردیا گیا) امام حسین ﷣ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ خداوند عالم نے اہل زمین پر مقرر کردیا کہ آنحضرتؐ کے رکاب میں جہاد کریں۔

(تفسیر برہان، ج۱،ص ۳۹۵، حدیث ۶)

۱۱۔ سورۂ حج:

اللہ تعالیٰ سورۂ حج آیت نمبر ۴۰ میں ارشاد فرماتا ہے: الَّذِیۡنَ اُخْرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمْ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللہُ (یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں میں بلا کسی حق کے نکال دئیے گیے ہیں علاوہ اس کے کہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔) یعنی وہ یہ کہنے کی بنا پر کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے نکال دئیے گئے۔ کتاب اصول کافی میں امام صادق ﷣ سے نقل ہے کہ یہ آیت حضرت ختمی مرتبت، امام علی، جناب حمزہ و جعفر ﷨ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ آیت امام حسین ﷣ کی حالت کو بھی بیان کررہی ہے۔

مرحوم قمی ﷫ نے لکھا ہے: اس سے حسین بن علی ﷦ مراد ہیں کہ جب یزید ملعون نے امام حسین ﷣ کو طلب کیا کہ انہیں شام لے جایا جائے تو اس وقت امام حسین ﷣ کوفہ کی جانب روانہ ہوگئے اور دشت کربلا میں فوج یزید نے حکم یزید سے بڑی بے رحمی سے سوکھا گلا کاٹ کر شہید کردیا۔

(تفسیر صافی مذکورہ آیت کے ذیل میں)

اس کے علاوہ معدم بن مستنیز نے امام محمد باقر ﷣ سے ایک روایت نقل کی ہے آپ نے فرمایا:

یہ آیت رسول اللہ  و علی  و جعفر و حمزہ ﷨ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور امام حسین ﷣ کے بارے میں جاری ہوئی ہے۔

(تفسیر برہان، ج۳،ص ۹۳، ح ۱)

(یعنی آپ کی اس مخصوص کیفیت کے بارے میں وضاحت کرنے والی ہے جو مدینہ سے نکلتے وقت کی تھی)

۱۲۔ سورۂ فاطر:

خداوند عالم فرماتا ہے : ’’وَمَایَسْتَوِیْ الْاَحْیَاءُ وَالْاَمْوَاتُ‘‘ (زندہ اور مردہ دونوں برابر کیا ہوسکتے ہیں) ابن عباس سے نقل ہے کہ اس سے مراد علی و حمزہ و جعفر و حسن و حسین فاطمہ و خدیجہ﷨ ہیں۔ اور مردہ سے مراد کفار مکہ ہیں۔

(بحار، ج۲۴، ص ۲۸۰، باب ۶۵، ح ۱)

۱۳۔ سورۂ نازعات:

خدا فرماتا ہے : ’’یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ ﴿۶﴾ۙ تَتْبَعُہَا الرَّادِفَۃُ ﴿۷﴾ؕ‘‘ (جس دن زمین کو جھٹکا دیا جائے گا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا لگے گا) امام صادق ﷣ نے فرمایا:

’’الرَّاجِفَۃُ‘‘ سے امام حسین ﷣ اور ’’الرَّادِفَۃُ‘‘ سے علی بن ابی طالب ﷦ہیں۔

۱۴۔ سورۂ بلد:

’’ اَلَمْ نَجْعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ﴿۸﴾ۙ وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ﴿۹﴾ۙ‘‘ (یعنی کیا ہم نے انسان کے لئے دو آنکھیں ایک زبان دو لب قرار نہیں دئیے) اس بارے میں امام محمد باقر ﷣ فرماتے ہیں:

دو آنکھوں سے حضرت ختمی مرتبت ﷺاور لسان سے امیر المومنین ﷣اور دو لب سے امام حسن اور امام حسین ﷦ مراد ہیں اور ’’وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجْدَیۡنِ‘‘ سے ائمہ معصومین ﷨ کی ولایت و امامت کی طرف انسان کی ہدایت و رہنمائی مراد ہے۔

(بحار، ج۲۴، ص ۲۸۰، باب ۶۵، ح ۱)

اور ابو بکر حضرمی نے امام باقر ﷣ سے روایت نقل کی ہے کہ امام نے فرمایا:

اے ابو بکر اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’وَ وَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ‘‘ میں مقصود علی بن ابی طالب ﷦ہیں اور ’’وَمَا وَلَدَ‘‘ حسن و حسین ﷦ ہیں۔

(برہان، ج۴، ص ۴۶۳، ح۶)

قرآن کریم کی محض انھیں چند سوروں میں شہید کربلا کا تذکرہ نہیں آیا بلکہ سورہای شعراء و اعراف، اسراء، نور، انعام، تین، تغابن، نمل، صافات، تکویر وغیرہ کی آیتیں نیز آیۂ مباہلہ اور آیۂ قربیٰ و آیت تطہیر جیسی محکم آیتیں بھی امام حسین ﷣ کی عظمت و منزلت اور عصمت و طہارت کی صراحت کرتی ہیں جس کے بعد امام حسین ﷣ کی عظمت و منزلت کے بارے میں کسی طرح کا شک و تردید نہیں رہ جاتی ہے۔

آخرِکلام میں سورۂ اسراء کی ۳۳ ویں آیت کے بارے میں مختصر حقائق کی طرف اشارہ کرکے بات تمام کرنا چاہتا ہوں۔ خداوند عالم فرماتا ہے:

وَ مَنۡ قُتِلَ مَظْلُوۡمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفۡ فِّی الْقَتْلِ

اور جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دے دیتے ہیں۔

آیۂ کریمہ کے بارے میں امام باقر ﷣ سے روایت نقل ہے کہ آپ نے فرمایا اس سے امام حسین ﷣ مراد ہیں کہ جنھیں ظلم کے ذریعہ شہید کردیا اور ان کے ولی (وارث) حضرت قائم عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہیں۔

شیخ جعفر شوشتری ﷫ جو نہایت معتبر اور عارف کامل اور عظیم ترین فقیہ اور اپنے زمانہ کے نایاب اور نابغہ شخصیتوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ جن کی وفات پر لوگوں نے باقاعدہ آسمان کے تارے ٹوٹتے ہوئے محسوس کیا۔ اپنی عظیم کتاب خصائص حسینیہ میں اس آیت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

امام حسین ﷣ کو مظلوم قتل کئے جانے کے چند معنیٰ ہیں جو سب کے سب آپ ﷣ پر منطبق ہوتے ہیں:

۱۔     عام معنیٰ کہ کسی انسان پرظلم و تجاوز کرکے اس کے مال و اسباب لوٹ لئے جائیں اور اصحاب و انصار اولاد و قرابت داروں کو قتل کرکے اسے بھی بڑی بے رحمی سے قتل کردیا جائے۔ اگر اس معنیٰ کا کلی مصداق کسی ذات پر ختم ہوتا ہے تو وہ شہید کربلا، مظلوم نینوا حضرت امام حسین ﷣ ہیں۔ اسی لئے کلمۂ مظلوم آپ کے لئے ’’علم‘‘ (شناخت) کا ذریعہ بن گیا دعا میں بھی جب اللہ سے مناجات کی جاتی ہے تو عرض کرتے ہیں: اُنْشِدُكَ دَمِ الْمَظْلُوْمِ(تجھے مظلوم حسین ؑ کے خون کی قسم دیتا ہوں)

۲۔     قتل اور شہید کئے جانے کی کیفیت میں مظلوم ہونا، انسان کسی انسان کے قتل کے بارے میں جس کیفیت کو بھی تصور کرسکتا ہے کرلے۔ اس کے بعد بتائے کہ کسی کو اس بے رحمی سے قتل کیا جاسکتا ہے۔ اسلام دین مقدس ہے اس نے قربانی جیسے مستحب عمل کے لئے بھی کچھ ضروری اور مستحبات بتائے ہیں۔ چاقو تیز کرلے اس کے سر کو بالکل جدا نہ کردیے۔ اس کے جیسے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے۔ ہاتھ پاؤں نہ باندھے۔ اسے مثلہ (سر کے ٹکڑے) نہ کرے۔ پیاسا ذبح نہ کرے، پانی دے دے، امام حسین ﷣کی شہادت میں یہ ظلم کی کیفیت میں انتہا نہ تھی تو کیا تھا کہ جن چیزوں کی رعایت کو جانوروں کے ساتھ بھی اسلام تاکید کرتا ہے ان میں سے کسی ایک کی بھی پیغمبر ﷺ کا کلمہ پڑھنے والوں نے نواسۂ رسول کے حق میں رعایت نہیں کی!!!

۳۔     اصل قتل اور خود شہید کئے جانے میں مظلوم ہونا۔ یعنی کسی کو ناحق اور بغیر شرعی جواز کے قتل کرنا اور خون مباح قرار دینا یعنی اسلام میں انسان کے قتل کا حکم قصاص یا حد یا فساد برپا کرنے وغیرہ کی بنا پر دیا جاسکتا ہے۔ امام حسین ﷣ کے بارے میں ان میں سے کسی ایک سبب کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب اسباب قتل میں کوئی سبب قتل کا نہ تھا تو کیوں قتل کیا گیا ؟ یہ خود بڑی مظلومیت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قتل کے بارے میں روز قیامت دریافت کرے گا ’’بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ‘‘[3]؎ اس لئے تو امام حسین ﷣ نے فرمایا تھا :

وائے ہو تم پر ! تم مجھے کیوں قتل کرتے ہو تم ہم سے کس چیز کو طلب کررہے ہو؟ کیا میں نے کسی کا قتل کیا؟ کہ قصاص چاہتے ہو۔ یا کوئی مال لیا یا دین میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے؟!؟!

(بحار، ۴۵/۷؛ ارشاد مفید، ۲/۱۰۱)

۴۔     انسان کو بے رحمی سے قتل کردیا جائے یعنی قتل میں ظلم، قتل کی کیفیت میں ظلم، قتل سے قبل ظلم یہ سارے مظالم تو انسان تصور کرسکتا ہے مگر کسی پر قتل کرنے کے بعد بھی ظلم کیا جائے اس کا لباس کہنہ بھی چھین لیا جائے اس کے اعضاء ٹکڑے ٹکڑے کردئیے جائیں۔ اسے پامال کردیا جائے،[4]؎ بغیر کفن ودفن کے خاک و خون میں غلطاں زمین پر چھوڑ دیا جائے۔یہ عظیم اور اپنے آپ میں تنہا ظلم صاحب کربلا، شہید اعظم حسین ابن علی ﷦ ہی کے حق میں روا رکھا گیا کہ شہادت کے بعد آپ کے جسم پاک پر جگہ جگہ سے پارہ اور کہنہ لباس بھی ظالموں نے نہ چھوڑا اسے بھی لوٹ لیا۔

(مقتل خوارزمی، ۲/۳۸-۳۹؛لہوف، ص ۵۶؛ بحار،۴۵/۵۷-۵۸)

خداوند عالم نے ہر مظلوم کا ولی قرار دیا ہے جو اس کے ظلم کا بدلہ لے سکے آج روئے زمین پر حسین بن علی﷦ کا وارث، نسل پیغمبرﷺ کا آخری جاشین، منتقم خون حسین، حکم خدا کا منتظر، ولی وارث، ظالموں سے خون حسین کا انتقام لینے والے حضرت امام حجۃ ابن الحسن العسكری﷣ہیں جو خدا كے حكم كا انتظار كر رہے ہیں۔

خدایا! دشت نینوا سے آج بھی بچوں کی صدائے العطش آرہی ہے۔

خدایا! ثانیٔ زہرا ﷥کی وہ آواز آج بھی چاہنے والوں کو لرزہ براندام کردیتی ہے، پسر سعد! میرا ماں جایا ذبح ہورہا ہے او رتو کھڑا دیکھ رہا ہے!!

خدایا! ہر طرف ظلم و تجاوز، دین کا مذاق، قرآن کی بے حرمتی، اسلام کی بربادی و تباہی کے اسباب فراہم کئے جارے ہیں۔

خدایا! کربلا سے ظلم و بربریت کے اٹھنے والے تاریک اندھیرے نے اب ساری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مظلوم کربلا کے خون ناحق کا انتقام لینے والے اور کائنات سے ظلم کو ختم کرنے اور اسے نور ہدایت(عدل و انصاف) سے منور کرنے والے کے ظہور میں تعجیل فرما! آمین۔

[1]    بحار۴۳/۲۶۲؛ امالی صدوق مجلس ۸۷،ص ۴۷۸؛ منتخب طریحی ۱/۱۱۷

[2]    بحار ۴۵/۱۱۸؛مثیر الاحزان ص ۷۲؛امالی طوسی ۱/۲۵۸

[3]    بحار، 44/221؛ كامل الزیارات، باب 18، ص 62 نقل از خصاص حسینیہ

[4]    بحار ۴۵/۵۹؛لہوف ص ۵۸-۵۹