حسین و منی و انا من الحسین ایک فکری موازنہ

پہلا شہید
روز عاشورا محرم ۶۱ ہجری کی صبح کاذب و صبح صادق کے دھندلکے میں رفتہ رفتہ گزر چکی تھی انصار و اصحاب جو وفا کی بے مثال ہستیاں تھیں اپنے کردار کی تاریخ جو تبلیغات رسالت مآب کی اساس پر تھی مکمل کر چکے تھے۔ اپنے امام کی قیادت و امامت میں نماز فجر ادا کر چکے تھے۔ زہیر بن قین اور سعید نے نماز گزاروں پر آتے ہوئے باران تیر کو روکا تھا۔ سعید کا سینہ تیروں سے چھلنی ہو چکا تھا۔ امام کے زانوں پر سر تھا۔ دم آخر تھا۔ سسکیاں لیتے ہوئے لب کشا ہوئے اور عرض کیا مولا حسین آپ مجھ سے راضی ہوئے۔ امام حسین علیہ السلام نے جواب میں تاریخی جملہ ارشاد فرمایا۔ “سعید تم دنیا میں بھی سعید تھے اور آخرت میں بھی سعید ہو۔” سعید اس وقت تبسم ریز ہوئے اور دنیا فانی سے رخصت ہو گئے۔ سعید نے جو کچھ دیکھا اس مرقعہ کے لیے ہم لوگ لایبصرون میں سے ہیں۔ کاش کہیں کوئی آسمان کا ایک دریچہ کھل جاتا اور ہم سوگواران حسین مظلوم اس جلوہ گاہ کی بے شمار دلکش کرنوں میں سے ایک کرن بھی جھلک پا لیتے اور ہم یبصرون کی صف میں آ جاتے۔ تاریخ بار بار اپنے کو دہراتی ہے تاکہ حجّت الٰہیہ یہ اس طرح قائم ہو جائے کہ پھر قابیل اور اس کی نسل ہابیل کی قربانیوں کے آثار اور اس کی نسل کو جس کے سر پر اشرفیت کا تاج اپنی تمام زینتوں کے ساتھ جگمگا رہا ہے اسے اپنی ریاکاری، فسوں سازی فریب کی گلکاریوں سے کبھی مٹا نہ سکے۔ ابھی تقریبا ۷۳ برس نہیں گزرے تھے جب پہلی مرتبہ حق تعالیٰ کے محبوب ترین فرستادہ خاتم المرسلین محمد امین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ فاران کی چوٹیوں سے “لاالہ اللہ” کی آواز بلند کی تھی جس سے سرزمین مین مکہ میں ہلچل مچادی تھی۔ کفر و نفاق، اشبار، شہنشاہیّت کے تحت ظلم و ستمگری، استبداد اور ان تمام عناصر کی جسے ماں کہاں جائے یعنی انسانیت سوز سیاست کے اندھیرے گہرے ہونے لگے اور اتنا اندھیرا تھا کہ لوگوں نے یزید کی بیعت فرزند رسول سے طلب کرنے میں بڑی جسارت سے کام لیا تھا اور فرزند رسول نے پھر تاریخ کے دھارے کو موڑ تے ہوئے جواب دیا تھا “میرے جیسا یزید جیسے کی بیعت کر لے ناممکن ہے۔”
ہجرت
فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ چھوڑا قبر رسول سے رخصت ہوئے مکہ میں قیام کیا. حج کو عمرہ میں بدل کر مکہ کی سرزمین چھوڑ دیں. عراق کی طرف چلے. کربلا کی سرزمین میں استقبال کیا. ذرائع ۷۳ برس قبل سرزمین مکہ کی تاریخ پڑھیئے۔
ہے آب و گیاہ کا مارا شہر، جہاں پانی جمع ہو جاتا تھا اور اس کے اطراف اونٹ کی غلاظت ہوتی اسے صاف کر کے پیاسے اپنی پیاس بھوجا لیتے۔ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کا خطبہ فدک میں اس کی پوری حقیقت بیان ہو چکی ہے ادھر کربلا، دریائے فرات سے دور، چھوٹے چھوٹے ٹیلوں سے ایسا لگتا جیسے زمین کے سینے پر آبلے پڑ گئے ہوں۔ یہاں پیاسے کے لئے پانی کی کوئی سبیل نہیں۔
قارئین ذرا مضمون کے مقدمے کی طرف پلٹائے، مڑکر اس منظر کو سامنے رکھئے جب کے زخم سے بھرا تھا۔ تیر کھا گر گئے تھے۔ سر زانوئے امام پر تھا نظریں آسمان کی طرف تھیں۔ اس پہلے شہید کا ہر قطرہ خون زمین پر ٹپکا تھا۔ آغاز رسالت کا اعلان حضور سرور کائنات کے اس جملے سے معانی اور مطالب کی شرح کر رہے تھے۔ “انا من حسین” گویا مشیت الہی نے پھر وہی زمین دھوپ سے دہکتی ہوئی زمین پانی سے ترستی پیاسی زمین، بنجر اور ٹیلوں سے بھری زمین سے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق تعالیٰ کا فرستادہ رسول امین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز لاالہ الااللہ کو دہرا رہا تھا اور قول رسول انا من حسین پر صداقت کی مہر لگا دی۔ سچ ہے تاریخ نے اپنے کو دہرایا تاکہ اتمام حجت ہو جائے۔درکار ہے غور و فکر، جس کے آئینے میں وہ جو نہیں دیکھنے والوں میں ہیں ان کی آنکھیں کھلی اور وہ کم سے کم چشم بصیرت سے دیکھ سکیں۔ اور ابو سفیان نے کس بے دردی اور ظلم شعاری سے بھرے دل کے ساتھ قتل کیا تھا اور ان سے پہلے اسلام پر جان دینے والوں نے آخری سانس میں بھی “احد” کہہ کر دم توڑا اور یقین احدیت اپنے یقین کے آخری سرحد کو پار کر گئے۔ سعید نے بھی کہا مولا آپ مجھ سے راضی ہوئے۔ یہ ایک موازنہ کی ہلکی سی مثال ہے جو حسین منی کے تقاضوں کو انا من حسین نے گویا لبیک کی آواز میں مضمر کر دیا تھا۔
قارئین کرام اِس مضمون میں موازنہ تبلیغات رسالت کے دوران جو سلسلے اور موڑ آئے آن کا مقایسہ حسین علیہ السلام نے محافظت کانا قابل تسخیر جو قلعہ تعمیر کر دیا ہے ایک فکری جائزہ ہے۔
ہجرت ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے اسلام نے اپنی حقانیت کا نشان قائم کر دیا۔ اور اس کے عظمت افلاکی ہونے کے ایسے ثبوت پیدا کیے تھے شاید اسی موازنہ کو ڈاکٹر علامہ اقبال اپنی فکر اور فلسفیانہ تجزیہ کے تحت رکھ کر کہا تھا۔
نقشہ الا اللہ بر صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت
ضرورت ہے فکر کو مهمیز کرنے کی دونوں ہجرت میں کتنی مماثلث سکھانے اور کتنے مشترک عوامل ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے جب مدینہ کو کنگھالا تو وہ اچھی طرح جانتے تھے یہ وہی مدینہ ہےجہاں خاتون جنت مولا علی علیہ السلام کے ساتھ اہلیان مدینہ کے پاس رات کی تاریکی میں تشریف لے گئیں اور علی علیہ السلام کے حق کو غصب ہونے سے بچانے کی درخواست کی تھی اور صرف ۴۰ افراد نے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی. یعنی مدینہ رسول کی ہجرت کے زمانے کا مکہ ہو گیا تھا اور گویا انا من حسین کی کتاب کھل رہی تھی اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ہجرت نہ کرتے تو اسلام مکہ کے حدود میں کفر کی شدید ترین حملوں کے درمیان دست گریباں رہ کر اپنے حقانیت کے آفتاب پر بادلوں کے پردوں کا سامنا کرتا رہتا۔ بالکل اسی طرح امام حسین علیہ السلام ہجرت نہ کرتے اور کربلا نہ جاتے تو اسلام حجابن مستورا کے ایک پردہ کے پیچھے دوسرا اور پھر متواتر ہزاروں پردوں میں چھپ جاتا۔ علامہ اقبال کے سامنے امام حسین علیہ السلام کی ہجرت کے اسباب و علل تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پر مغز حدیث انا من حسین کانوں میں گونج رہی تھی لہذا انہوں نے اپنے تمام فکر کو سمیٹ کر یہ شعر “نقش….” رقم کرکے انصاف پسندی کا ثبوت دیا ہے۔.
تاریخ بول رہی ہے سارا اسلام یعنی دنیا کے تمام مسلمان سن رہے ہیں پھر بھی تغافل اہل عارفانہ کے چنگل میں صیدزبوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں یعنی مدینہ سے ہجرت گویا انا من حسین کی آواز بلند کر رہا تھا۔
ہجرت کے بعد غزوات اور دوپہر تک کی کربلائے کی جنگ
ہم نے اس وقت کی فضا اور ماحول کا تقابل حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی بعثت کے بعد اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے وقت کے حالات کا جائزہ لیا ہے مدینہ آنے کے بعد تقریبا اسی غزوات کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ ذرا کربلا کی جنگ جو طلوع آفتاب سے شروع ہوئی اور بعد دوپہر ختم ہوئی اس پر منصفانہ نظر ڈالتے۔ ۷۲ کا ذکر متواتر ذکر کرتے ہیں لیکن کچھ اور بھی شہید ہیں۔ تقریبا اول الذکر کے برابر کربلا کی جنگ درمیان حق و باطل ہوتی ہے۔ اطلاعا عرض ہے۔
پہلا حملہ جنگ مغلوبہ کا تھا۔ یعنی حسین علیہ السلام کے جیالے مجاہدوں کے ساتھ ایک بڑے لشکر کے کے حملے کا سامنا تھا۔ جو پسپا ہوا اور اغنام پیچھے ہٹے تھے پھر ایک ایک مجاہد کے حملہ کا ذکر تاریخ میں ترتیب وار آیا ہے یعنی ہر ایک مجاہد کی جنگ ہو یا حضور سرور کائنات کے زمانے کی جنگ گویا نیابت کی جنگ تھی۔ ہر جنگ شیر الہی کی جنگ تھی۔ حضرت قاسم ۱۳ برس کے تھے. ازرق شامی کے چار بیٹوں کو داخل جہنّم کرنے کے بعد ازرق شامی کو دوزخ کا ایندھن بنا دیا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام اٹھارہ برس کے تھے لشکر یزید کو پیچھے دھکیل کر اپنے بابا کے پاس آئے اور فرمایا بابا پیاس مارے ڈال رہی ہے، پیاس کی بڑی شدت ہے۔ عباس علمدار علیہ السلام اپنے فرائض جو ولایت امام کی بندشوں پر ادا کرتے ہوئے دریا دشمنوں سے چھین کر کوفیوں اور شامیوں کے رخسار پر بھرپور طمانچہ مارا تھا۔ معلوم نہیں کس کی لکھی ہوئی مقاتل کی داستان سے ابوالکلام آزاد کی آنکھوں پر عصبیت کا چشمہ لگا رہا جب آپ لکھ رہے تھے یزید کی فوج میں صرف ۷۲ ہی مارے گئے تھے۔.
مباہلہ
تبلیغ رسالت میں مباہلہ ایک ایسا موڑ ہے جسے کوئی اور اس کو جھٹلا نہیں سکتا کیونکہ قرآن کریم تا قیامت آئینہ دکھاتا رہے گا۔ ذرا کربلا کے مباہلہ پر بھی قارئین ایک نظر ڈالیں۔ جب معقل جو فوج یزید کا سپہ سالار تھا اور كوفی تھا۔ کوفہ میں فوزان کی گلی میں بریر ہمدانی کے مکان کے قریب رہتا تھا۔ مقابلہ کے لئے آواز بلند کی تو بریر ہمدانی اس کے مقابلے میں گئے۔ معقل نے کہا یہاں بریر ہم کہتے تھے اللہ کی رحمتیں ہمارے ساتھ ہیں اور ہم سب سیر و سیراب ہیں جس پر بریر نے کہا معقل مناظرہ بہت ہو چکا ہے اب آؤ مباہلہ کر لیا جائے معقل نے کہا وہ کس طرح۔ کہا ہم دونوں اللہ تعالی پر فیصلہ چھوڑ دے اور یہ دعا کریں حق پر باطل کو فتح ہوں جو حق پر ہو اس کی تلوار ہے باطل پر رہنے والا قتل ہو۔ معقل نے منظور کرلیا۔ دونوں نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ دونوں میں تلوار سے جنگ ہوئی اور بریر کے ہاتھوں معقل ختم ہوکر واصل جہنم ہوا اور اس طرح مباہلہ کی روایت کو دہرا دیا۔
مقصد بیان یہ ہے کہ ششما ہے علی اصغر علیہ السلام سے لے کر معمر ترین مسلم ابن عوسجہ تک ہر ایک کی جنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کی جنگ کی تصویر تھی۔ اور صادق القول رسول ثقلین کا قول انا من حسین اعلان بلند بانگ تھا۔
شہادت امام حسین اور وقت رحلت حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت سے قبل کے ایام :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رحلت سے پہلے جسمانی طور پر اتنا ضعف محسوس کیا کہ ابوبکر نے نماز جماعت کی امامت کی کوشش کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہایت ضعف کے باوجود نماز پڑھانے نہیں دی اور خود امامت فرما کر لوگوں کو مستقبل کے باب میں پیغام دے دیا۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پس نماز کے برابر بیٹھ کر نماز ادا کی یہ بھی تاریخ میں ہے۔(
مصلحت :حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصلحت وہ جو خدا کی مرضی سے ہی کلام کرتا ہے وہ جانتا ہے لیکن شعور انسانی کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رسول کی نظر مستقبل کی دور انداز یعنی صبح قیامت کے اسلام کے سفر کی منزلوں کو دیکھ رہی تھی۔ اسی مسجد میں ابوبکر ہوں گے۔ قضیہ فدک کا ہوگا۔ پہلی جھوٹی حدیث بیان ہوگی۔ فدک پر غاصبانہ قبضہ ہوگا۔ پہلے خاتون جنت کے گھر کو نذر آتش کیا جائے گا۔ علی علیہ السلام کے گلے میں ریسماں ہوگی، کبھی ذوالفقار غلاف میں تڑپ کر علی علیہ السلام کے صبر پر محو حیرت رہے گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات طیبہ کی کچھ دن یا کچھ پہر ابھی باقی تھے کہ آپ نے قلم اور قرطاس طلب کیا کہ لاؤ میں ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس کے تحت تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب محرم نامہ میں اس منظر کو تحریر فرمایا ہے جب ایک بڑ بونگ مچ گیا۔ بنی ہاشم کے لیے یاد رہے کہ قبل از رحلت یہ تو مخالفین یعنی جنہوں نے قلم اور کاغذ دینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع سے انحراف کیا ان کے حلق سے بات اُگالوائی کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں لکھ دیں گے۔
حسن نظامی محرم نامہ میں لکھتے ہیں کہ بنی ہاشم کہتے تھے کاغذ اور قلم دیا جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کی اتباع واجب ہے۔ عمر نے کہا نہ دیا جائے اور ورنہ یہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت (یعنی میرے بعد علی خلیفہ ہوں گے) کے بارے میں لکھ دیں گے. ان حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غضب ناک ہوئے اور سب کو بزم سے نکال دیا۔
مسئلہ خلافت کا حل :
مشیعت الہی کا سورج نکلتا ہے حقیقت صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔ تمام اختلاف بر طرف یہ بات طے ہو گئی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت مسلمہ کی ہدایت کے لئے علی کو اپنا جانشین مقرر کر گئے جس کا اعتراف دوست اور دشمن سب نے کر لیا۔ تحریر امتداد زمانہ سے دشمن کے ہاتھوں شاید ختم ہو جاتی لیکن مخالفین کے اقرار لسان کے الفاظ تاریخ سے اب کبھی نہ مٹیں گے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اس کے حبیب کی رحلت ہو گئی اور علی علیہ السلام نے اور ان کے چند اصحاب نے تجہیز و تکفین اور تدفین کیا۔
اہل دنیا کار دنیا ساختند
مصطفی را بی کفن انداختند
شہادت امام حسین علیہ السلام
ذرا آئیے کربلا آجائیئے، مرزا دبیر کے مرقعه نگاری کا یہ بند ملاحظہ فرمائیے
حسین جب کہ چلے بعد دوپہر رن کو
نہ تھا کوئی کے جو تھامں رکاب توسن کو
سکینہ جھاڑ رہی تھی عبا کے دامن کو
حسین چپ کے کھڑے تھے جھکائے گردن کو
نہ آسرا تھا کوئی شاہ کربلائی کو
فقط بہن نے کیا تھا سوار بھائی کو
یہ بندہ مرثیہ کا فقط رثائی شاعری کی تخیل یا مضمون نگاری میں معرکہ کہ تشیع کا ایک بے مثال نمونہ نہیں ہے بلکہ صاف صاف تاریخ کا مجمل خلاصہ ہے جسے شعر کے قالب میں ڈھال کر مرزا دبیر نے سپرد قلم کر دیا ہے اور شاہد اس مضمون کی ادائیگی شعر میں اپنے سر پر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا سایہ رکھتی ہے جو ظلم کی تاویلات سے کبھی کبھی پثر مردہ نہ ہوگا۔ تقریباً وہی بے بسی کا عالم رہا ہو۔ لیکن یہ ہماری نگاہ ظاہری اسباب، ماحول اور تنہائی کے عالم پر رہتی ہے۔ امام کی نظر قیامت، اور حشر و نشر، جزا و سزا کی مدت کی سرحدوں تک رہتی ہے۔ حسین تنہا تھے۔ مجبور نہیں تھے، حسین شکستہ دل تھے غموں اور رنج و الم سے لیکن شجاعت ایسی جس کے خوف سے لشکر بدخصال کے دل کانپ رہے تھے۔ کبھی خندک کبھی خیبر سب یاد آنے لگے۔ حسین دور تک پھیلے ہوئے لشکر کے سامنے آنے والے تھے۔ عرب کے نمک حرام، بد خصال، بدطینت لشکریوں کا سامنا تھا۔

بعد شہادت
حسین علیہ السلام جانتے تھے شہید ہو جائیں گے۔ فکر ناموس کے خیموں کے جلنے کی تھی۔ یتیموں کی پیاس، بے کسی، لاغری اور ظلم کی چکی میں پسنے کی تھی۔
رک کر سوچئے کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی فکر نہ رہی ہوگی۔ بیٹی کا گھر جلایا جائے گا، محسن شہید ہونگے۔ علی کے گلے میں رسی ہوگی، ذرا نانا اور نواسے کی فکر کی مما ثالث پر غور کریں۔ اتمام حجت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کیا۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی کیا۔ جب آپ کوفیوں اور شامیوں سے جنگ کے لیے آئے تو فرمایا کیا “تم مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟ کیا میں نے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیا ہے؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ اور جواب ملا تھا “ہم کو تمہارے باپ سے بغض, ہے جس کا بدلہ ہم تم سے لے رہے ہیں” امام علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا میں جانتا ہوں تمہارے شکم حرام غذا سے بھرے ہیں اور اس لیے تم برسرِ پیکار ہو. اتمام حجت نانا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتمام حجت کو سلام کر رہی تھی۔ اور حسین منی کی تصدیق کر رہی تھی۔
امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے۔ بہن نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے کہا ” تَقَبَّلْ مِنَّا اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ” گویا جناب زینب سلام اللہ علیہا حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت زہراء سلام اللہ علیہا، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام علی علیہ السلام کی نیابت کا حق ادا کر رہی تھیں۔
قرآن نے بڑھ کر لبیک کہا۔
يَـٰٓأَيَّتُہَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَٮِٕنَّةُ (٢٧) ٱرۡجِعِىٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً۬ مَّرۡضِيَّةً۬ (٢٨) فَٱدۡخُلِى فِى عِبَـٰدِى (٢٩) وَٱدۡخُلِى جَنَّتِى (٣٠)
)سورہ فجر آیت ۲۷-۳۰(
اختتام میں دو شعر پڑھ کر اکتفا کرنا پڑے گا اس لئے کہ موازنہ کے اگر ریشہ ریشہ پر ستم زدگان ذوق خامہ فرسا، اپنی فکر اور عملی کاوشوں کو مہمیز کریں تو ایک مبسوط کتاب بعنوان انا من حسین پر تیار ہو کر منظر عام پر آ سکتی ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحلت کے بعد مدینہ سقیفہ میں الٹ گیا تھا، صرف علی علیہ السلام اور آپ کے چند اصحاب بوقت تدفین میں موجود تھے۔
اهل دنیا کار دنیا ساختند
مصطفی را بی کفن انداختند
بعد شھادت امام حسین علیہ السلام کون سوگوار ایسا ہے جو اس المیہ کا غم نہ گریز اپنے دل میں نہیں بسائے ہوئے ہے۔
تم سا کوئی غریب کوئی خستہ تن نہیں
مرنے کے بعد گور نہیں اور کفن نہیں
ذرا نانا رسول زمن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حسین علیہ السلام شہید کے مشترک عوامل بے کفنی پر غور کریں تو سمجھ میں آئے گا حسین منی وانا من حسین۔ میرے مولا امام زمانہ جو وارث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وارث حسین علیہ السلام ہیں خدا آپ کے ظہور میں تعجیل کرے اور آپ انتقام لیں۔