حسین کا ذکر درد ہے اور مداواۓ درد

وَجَلَّتْ وَعَظُمَتْمُصِیْبَتُکَفِیالسَّمَاوَاتِعَلٰیجَمِیْعِاَہْلِالسَّمَاوَاتِ
آپ علیہ السلام کی مصیبت بہت بڑی اور بہت گراں ہے آسمانوں میں تمام ساکنان آسمان پر۔
زمین اپنے محور پر چکر لگاتی ہوئی خورشید ضیاپاش کے چاروں طرف گھوم رہی ہے۔ خاتم الانبیاء محمد صل اللہ علیہ و الہ و سلم کا نواسہ جو وارث رحمت انبیاء و مرسلین تھا ۶۱ہجری کو روز عاشورہ کربلا کی تپتی زمین پر تین روز کی تشنہ لبی کے باوجود صبح سے سہ پہر تک راه خدا میں اپنے اصحاب و انصار اور جگر گوشوں کو بقائے دین اسلام کے لئے کفر و نفاق، دنیا پرست چند روزہ زندگی میں چند سکوں کےلئے اغیار نابکار نام نہاد مسلمانوں سے جنگ کرتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں اپنی آخری قربانی پیش کی اور جناب زینب شریکتہ الحسین علی کی شیر دل بیٹی، ثانی زہرانے جو عالمہ غیر معلمہ ہیں اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور فرمایا۔ اے آسمانوں اور ساکنان آسمان کے خالق ہماری اس قربانی کو قبول فرما گویا آواز دے رہی تھیں یہ وہ قربانی ہے جس نے ذبح عظیم کے اس وعدہ کو جو تونے حضرت ابرایم علیہ السلام سے اس وقت کیا تھا جب آپ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر ذبح کرنے کے ارادے سے تیزدار چھری رکھ چکے تھے کو عملی جامہ پہنایا اور تمام زینتوں کے ساتھ تکمیل وعده پر اتمام حجت کی ایک مہر ایسی ثبت کر دی جو انسانیت کے ماتھے پر تا صبح قیامت دمکتی رہے گی۔ اور اہل زمین کے باسواد و باشعور انسان اس کی روشنی سے صراط مستقیم پر گامزن ہیں سواد منزل انھیں اپنی طرف بلاتا رہے گا۔ زمین پر واقع ہونے والے اس عظیم حادثہ کا وہ منظر جب امام حسین فرزند رسول، جان بتول، خاتون جنت کی آغوش کے پروردہ کے بے سر لاشہ کے قریب کھڑے ہو کر مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام صاحب ذوالفقار ، فاتح بدر و حنین کی بیٹی اپنے جد کی نیابت میں آسمان کی طرف دونوں ہاتھ بلند کر کے کہہ رہی تھی۔ اے آسمانوں اور اہل آسمان کے خالق ہماری اس قربانی کو قبول فرما تو وہ خدا وہی ہے جو ایسا صاحب قدرت ہے کہ صحرا کے ذروں کو گویائی دے سکتا ہے۔ اپنے حسین علیہ السلام کی اس قربانی کے لئے عرش کے ستونوں سے آواز نہ دی ہو گی۔ یقینا سہی کنگره عرش سے آواز آئی ہو يَـٰٓ
َيَـٰٓأَيَّتُہَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَٮِٕنَّةُ (٢٧) ٱرۡجِعِىٓ إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً۬ مَّرۡضِيَّةً۬ (٢٨) فَٱدۡخُلِى فِى عِبَـٰدِى (٢٩) وَٱدۡخُلِى جَنَّتِى (٣٠) ام المصائب، مثانی زہرا، خواہر حسین علیہ السلام کی آواز افلاک میں گونج اٹھی ہوگی۔ متحیر ملائک اور فرشتگان آسمان یہ مناظر دیکھ کر اپنے اوپر رنج و غم اور سوگواری کی کیفیت کو طاری ہوتے ہوئے محسوس کیا تو کہہ اٹھے اے حسین علیہ السلام مظلوم اے بقائے دین اسلام کے ضامن اور اے بنائے لا الہ کی فرد فرید تجھ پر ہم اہل آسمان سلام کرتے ہیں اور آپ کی مصیبت ہم آسمان والوں کے لئے بڑی سخت اور گراں ہیں اور ہم سب آپ کی مصیبت میں سوگوار ہیں۔
رام الحروف آسمانوں پر غم کی کچھ جھلکیاں سپرد قلم کرنا چاہتا تھا کہ امام مظلوم کی شہادت کا المناک حادثہ سلسلہ وار کچھ اس طرح ذہن میں اترنے لگا کہ دل کی رگیں گویا ٹوٹنے لگیں اور اس طرح دل بھر آیا کہ بے ساختہ چشم ہائے گریاں سے اشکباری شروع ہو گئی۔ میں نے قلم رکھ دیا اور تادیر روتا رہا۔ سامنے میری نواسی ابیہ فاطمہ بیٹھی ہوئی تھی وہ اوٹ پٹانگ سوال مجھ سے اکثر کرتی اور میں اسے جواب دینے میں سکون محسوس کرتا۔ اس روز جب میں اپنے منہ پر پانی کی چھیٹیں مار کر اپنی نشست پر آبیٹا تو وہ میری طرف متوجہ ہوئی اور اس نے مجھ سے کچھ سوال کئے جس کا میں نے حسب مقدور جواب دیا اور پھر کچھ وقفہ کے بعد میرا دل کہنے لگا کہ اسے اس لئے قلمبند کر دوں کہ یہ میرے اس مضمون کے لکھنے کا عندیہ اور مرکزی خیال تھا۔
سوال: نانا آپ یکا یک بیٹھے بیٹھے بے ساختہ کیوں گریہ کرنے لگے؟
جواب میں رویا میں نے گر یہ کیا یہ میری محبت کے وہ تقاضے ہیں جو پورا ہو کر رہتےہیں۔
سوال: لیکن اس وقت اس کا کیا محل تھا کہ آپ لکھتے لکھتے بے قرار ہو کر رونے لگے۔
جواب: میں نے زیارت عاشورہ کے اس جملہ پر جب اپنی فکر اور جذبے اور حس کو تکان دی جہاں معصوم نے ہمیں تعلیم بھی دی ہے اور معصوم امام اسے اپنی زبان سے دہراتا ہے تو جیسے کلیجے میں ایک درار سا پڑ جاتا ہے جو صرف گریہ کرنے سے بھر جاتا ہے۔ اور وہ جملہ یہ ہے کہ یا ابا عبد اللہ آپ کی مصیبت آسمانوں پر اہل آسمان کے لئے بہت سخت اور گراں ہے۔
سوال: اس جملہ میں وہ کون سا درد سمٹ گیا ہے جس نے آپ کو بے چین کر دیا۔
جواب : بیٹا یہ سورج آسمان کے نیچے چمک رہا ہے یا آسمان کے اوپر جس کے سات بالائی حصے ہیں۔
سوال: نانا آپ کیسی باتیں کرتے ہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہیں یہ سورج آسمان تلے مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں ڈوب جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو سارا نظام کائنات درہم برہم ہو جائے۔ تمام دنیا جل کر راکھ ہو جائے د نیا خلا میں کہاں چلی جائے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کہ اس کے جاذبہ اور دافعہ کی قوت سے یہ اپنے مستقر پر قائم ہے اور اس کے نظام سے ہر مخلوق خدا زندہ ہے۔ موسم بدلتے ہیں زمین میں روئیدگی پائی جاتی ہے۔
جواب : ارے تم تو میرے ایک چھوٹے سے جواب میں معلوم نہیں کتنی باتیں مجھے سمجھا دی ہیں۔ ایسا لگتا ہے میں طالب علم اور تم معلّم ہو۔
غور کرو وہ سورج جو آسمان کے تحت میں ہے۔ جب اہل آسمان ایسے غمزدہ ہوتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت ان پر گراں گذرتی ہے سخت ہے تو سوائے رحمت خدا کے رحمت للعالمین کے نواسے کے کرم کے وہ کون سی ایسی شہ ہے جو اس غم کے اور وزن سے زیر آسمان سورج کے سارے نظام کو درہم برہم کرنے سے روکے ہوئے ہے۔
سوال: میں سمجھ گئی اگر ہم اپنے آقا حسین علی علیہ السلام کے رحم و کرم، جو دسخا کی بے شمار برکتوں کا صرف اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آقا حسین اور ہم پر کتنا بڑا احسان کر گئے ہیں ہماری آنکھوں کو اپنے علم میں رونے کا وه مد اوائے درد جگر دے گئے ہیں جس سے ہمارے دلوں میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ عمل کے جذبے ابھرتے ہیں اور ان کی راہ پر چلنے کی توفیق ملتی ہے۔ ان کی بتائی تہذیب انسانی کے راستے پر ہمیں گامزن رکھتی ہے ورنہ جس کے غم سے اہالیان آسمان کے کاندھے جھک رہے ہیں ہماری کیا بساط ہے لہذا غم حسین علیہ السلام درد ہے گر یہ مد اوائے درد بھی ہے۔
سوال: لیکن آپ نے سورج اور آسمان کا ذکر فرمایا اس کے تعلق سے کوئی جواب نہیں دیا۔
جواب: سورج آسمان کے تحت ہے اور انسان کی عظمت بزرگی اور وہ وسعت تقریبا لامتناہی جیسی ہے( جس کا اور چھور انسان کے عقل و خرد سے بعید ہے ) سورج ایک محدو اور چھوٹی شہ ہے یعنی سورج ایک گوشہ آسمان میں مقید ہے تو غور کرو آسمان پر اہل آسمان کے لئے جو غم حسین علیہ السلام سخت اور گراں ہے کہ وہ چیخ اٹھے ہیں تو اس غم کا بوجھ اور وزن جب سورج پر پڑے گا تو کیا عالم ہوگا۔ سورج کی کیا حیثیت ہے جو اسے برداشت کر سکے۔ یہی وجہ تھی روز عاشوره بعد قتل حسین سورج پر ایسا گہن لگا کہ سہ پہر کی دھوپ رات میں بدل گئی۔ لیکن پھر دن نکلا پھر رات آئی شام غریباں گزری صبح ہوئی اور قافلہ بیکسوں کا کربلا سے باہر گذرنے لگا۔ یہ اعجاز صبر حسین ہے جو مخلوق خداوندی میں درد پیدا کر سکتا مگر اسے ٹوٹنے نہیں دیتا بلکہ دور بقائے حیات کا ضامن ہو جاتا ہے اسے جلا بخشتا ہے۔ نکھارتا ہے اور جینے کا سلیقہ دیتا ہے۔
سوال ہے۔ لیکن ایک بات صاف نہیں ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ساکنان آسمان رنج و غم ، خوشی و مسرت ، ڈر اور بیم سے مبرا ہیں۔
جواب: یہ تم نے کس سے سنا ہے۔ تم نے سنا نہیں ہے کہ فطرس فرشتہ کو جب بال و پر مل گئے تو کس خوشی اور کس مسرت کے ساتھ اپنے بازوں کو جنبش دے رہا تھا اس کا اندازہ اہل زمین نہیں لگا سکتے۔ اور کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی وَيُسَبِّحُ ٱلرَّعۡدُ بِحَمۡدِهِۦ وَٱلۡمَلَـٰٓٮِٕكَةُ مِنۡ خِيفَتِهِ اور بجلیاں تسبیح و تحلیل کرتی ہیں اور ملا نکہ اسکے (اللہ کے خوف سے لرزتے ہیں اور کیا یہ بات قابل غور و فکر نہیں ہے کہ جبرئیل نے زیر کسا اہل بیت النبوة کو دیکھ کر بڑے استعجاب سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں سوال کرتے ہیں۔ بار الہا یہ کون ذوات مقدسہ ہیں۔ یہاں ایک بات عقل کو روشنی دیتی ہے اور بات واضح کرتی ہے جب انوار پنجتن یکجا ہوئے تو شاید جبرئیل کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اس لئے کہ یہ انوار مذکورہ کی خلقت مقدم ہے اور جبر ئیل کا معرض وجود میں آنا موخر ہے۔ پھر اہل آسمان میں انبیاء ہیں اوصیاء ہیں صالحین ہیں اخبار و ابرار ہیں۔ خاتون جنت اور ان کی خدمتگذاری پر مامور حوریں اور نیک سیرت وہ بھی بیاں جن کا ذکر قرآن میں پایا جاتا ہے۔ جیسے جناب آسیہ ، جناب مریم اور کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا حضرت عیسی علیہ السلام فلک پر ہیں۔
سوال: اتنی مدت سے ساکنان آسمان دکھ اور غم میں مبتلا ہیں تو زمین پر بھی اور اسکی ساری کائنات پر غم کا سیاہ پردہ پڑا ہوا ہے یہ کب دور ہو گا۔ کب زمین پر بہار آئے گی۔ کب آسمان کے رہنے والوں کے لئے یہ عمل مسرت میں بدل جائے گا۔ ؟؟ اس قبیل کے اور بہت سے سوال جواب :جب قائم آل محمد عليهم السلام کا ظہور ہو گا۔ وہ ربیع الا نام ہے وہ منتقم خون حسین ہے۔ سوال : منتقم خون حسین کا ظہور کب ہو گا نانا۔
جواب :وہ جلد آئیں گے یا دیر میں خدا جانے ابیہ نے بے ساختہ کہا “عجل على