دربار یزید میں خطبء جناب زینب علیھا السلام

جلیل القدر عالم شیخ طبرسی اپنی گراں قدر کتاب الاحتجاج، ج۲ص ۳۰۷ پر نقل فرماتے ہیں :
جب امام علی بن حسین علیہما السلام اہل حرم کے ساتھ دربار یزید میں وارد ہوئے تو انہیں سر اقدس امام حسین علیہ السلام کے پاس لایا گیا جو ایک طشت میں رکھا ہوا تھا اور یزید ان کے ہونٹوں پر چھڑی سے مار رہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا،
لَعِبَتْ ہَاشِمُ بِالْمُلْکِ فَلَا خَبَرٌ جَاءَ وَ لَاوَحْیٌ نَزَلَ لَیْتَ اَشْیَاخِیْ بِبَدْرٍ شَہِدُوْا جَزَعَ الْخَزئرَجِ مِنْ وَقْعِ الْاَسَلِ لَاَہَلُّوْاوَ اسْتَہَلُّوْا فَرَحًا وَ لَقَالُوْایَایَزِیْدُ لَا تُشَلَ فَجَزَیْنَاہُمْ بِبَدْرٍ مِثْلَہَا وَا َقَمْنَا مِثْلَ بَدْرٍ فَاعْتَدَلَ
لَسْتُ مِنْ خِنْدِفَ اِنْ لَمْ اَنْتَقِمْ مِنْ بَنِیْ اَحْمَدَ مَا کَانَ فَعَلَ
بنی هاشم نے حکومت کے ساتھ ایک کھیل کھیلا تھا نہ کوئی خبر آئی تھی اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی تھی کاش میرے بدر میں مرنے والے بزرگ دیکھتے اور ( احد میں) زخموں سے چور خزرج کے گریہ کناں لوگ اگر وہ یہاں ہوتے تو خوشی سے میری تعریف کرتے اور کہتے اے یزید تیرے ہاتھ کبھی شل نہ ہوں ہم نے ان کے خاندان سے بدر کا انتقام لیا اور اب میرے اس انتقام سے بدر کا انتقام پورا ہوا میں یہ نہ کرتا تو میں خندف کی نسل سے نہ ہوتا اگر میں نے بنی احمد سے ان کے کاموں کا بدلہ نہ لیا ہوتا۔
جب جناب زینب علیھا السلام نے یہ دیکھا تو آپ علیہا السلام نے ایک حزین و غمزدہ آواز میں ایسی صدا بلند کی جس سے دل کانپ جائیں :
یَاحُسَیْنَاہُ! یَاحَبِیْبَ رَسُوْلِ اللہِ! یَاابْنَمَکَّۃَوَ مِنٰی! یَاابْنَفَاطِمَۃَالزَّہْرَاءِسَیِّدَۃِ النِّسَاءِ! یَا ابْنَ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفٰی!
اس درد بھری ندا سنکر تمام لوگ رونے لگے اور یزید خاموش ہو گیا۔ پھر جناب زینب علیھا السلام کھڑی ہوئیں اور لوگوں سے مخاطب ہو کر ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے اپنے جد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات کا مظاہرہ کیا اور یہ اعلان کیا کہ انہوں نے رضائے پروردگار کی خاطر صبر کیا خوف و دہشت کی بنا پر نہیں ۔ پھر دختر علی و فاطمہ علیھا السلام کی آواز گونج اٹھی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلَاۃُ عَلٰی جَدِّیْ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ صَدَقَ اللہُ سُبْحَانَہٗ کَذَالِکَ یَقُوْلُ (ثُمَّ کَانَ عَاقِبَۃَالَّذِیْنَ أَسَاؤُاالسُّوْأَی اَنْ کَذَّبُوْابِآیَاتِاللہ ِوَ کَانُوْبِہَایَسْتَہْزِؤُنَ۔
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جو ساری کائنات کا پروردگار ہے اور درود و سلام ہو میرے جد بزرگوار سید المرسلین پر۔ بیشک خدائے سبحان نے سچ فرمایا ہے۔
اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ہوا کہ انہوں نے خدا کی نشانیوں کو جھٹلا دیا اور برابر ان کا مذاق اڑاتے رہے۔
)سورہ روم، آیت۱۰(
اے یزید ! کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ زمین و آسمان کے تمام راستہ ہم پر بند کر کے اور خاندان نبوت کو عام قیدیوں کی طرح در بدر پھرا کر خدا کی بارگاہ میں ہمارا جو مقام تھا اس میں کوئی کمی آگئی اور تو خود بڑا عزت دار بن گیا؟ پھر تُو اس خام خیالی کا شکار ہے کہ وہ المیہ جس سے ہمیں تیرے ہاتھوں دو چار ہونا پڑا اس سے تیری وجاہت میں کچھ اضافہ کیا اور شاید اسی غلط فہمی کے باعث تیری ناک اور چڑھ گئی ہے اور غرور کے مارے تو اپنے کندھے اچکانے لگا ہے۔ ہاں یہ سوچ کر تو خوشی سے پھولے نہیں سمارہا ہے کہ تیری طغیانی حکومت کی حدیں بہت پھیل چکی ہیں اور تیری سلطنت کی نوکر شاہی بڑی مضبوط ہے۔ کیا تو یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ ہماری مملکت میں تجھے بغیر کسی خطرے کے پھیل پھیل کر اطمینان سے اپنا حکم چلانے اور من مانی کرنے کا موقع ملا ہے؟ ٹہر یزید ٹہر ایک دو سانسیں اور لے نے کیا تو اللہ عز و جل کا یہ قول بھول گیا ہے۔
وَلَا يَحۡسَبَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَنَّمَا نُمۡلِى لَهُمۡ خَيۡرٌ۬ لِّأَنفُسِہِمۡ‌ۚ إِنَّمَا نُمۡلِى لَهُمۡ لِيَزۡدَادُوٓاْ إِثۡمً۬ا‌ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ۬ مُّهِينٌ۬
اور خبر دار یہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر مہلت دے رہے ہیں وہ ان کے وقت میں کوئی بھلائی ہے، ہم تو صرف اس لئے مہلت دے رہے ہیں کہ جتنا گناہ کر سکیں کرلیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے
)سورة آل عمران، آیت ۱۷۸(
اے ہمارے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد ! کیا یہی عدل ہے؟ کہ تو نے اپنی عورتوں اور کنیزوں تک کو پردے میں بٹھا رکھا ہے اور نبی زادیوں کی چادریں چھین لیں؟ ان کی حرمت کو تونے پارہ پارہ کر دیا؟ ان کے دشمن انہیں ہے پردہ ، سر برہنہ ایک شہر سے دوسرے شہر لے جاتے ہیں؟ حتی کہ شہروں اور دیہاتوں کے باشندے انہیں دیکھتے ہیں، دور و نزدیک کے لوگوں نے انہیں تماشا بنارکھا ہے ، ذلیل و شریف لوگ انکی طرف اپنے نگاہیں اٹھاتے ہیں۔ ان کی کیفیت یہ ہے کہ ان کے مردان کی سرپرستی کے لئے موجود نہیں ہیں اور نہ وہ حمایتی پاتی ہیں ۔ یہ الله سے بغاوت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ ہے اور جو کچھ وہ خدا کی بارگاہ سے لائے تھے اس کی مخالفت ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں اور ایسے شخص سے عطف و مهربانی کی کیا امید کی جائے جو ان کی اولاد ہو جنہوں نے اسلام کے پاکیزہ شہیدوں کے جگر کو چھپانا پسند کیا ہو، جس کا گوشت نیکوکار لوگوں کے خون سے بنا ہو، جو نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی رکھتا ہوں جو لوگوں کو جمع کرتا ہو اور ان کے بغض کو پھیلاتا ہو۔ جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہر انور پر تلوار چلائی ہو، جو عربوں میں الله کا سب سے شدید ترین مخالفِ ہو، اس کے رسول کا سب سے بڑا منکر ہو جس نے بر سر عام ان کے خلاف دشمنی کا اعلان کیا ہو اور خداوند عالم کی نظر میں سب سے بڑا کافر و باغی ہو؟
یہ جان لے (اے یزید ) ! یہ کُفر کا نتیجہ ہے۔ یہ جنگ بدر میں تیرے آباو اجداد کی شکست کی وہ چھپکلی ہے جو تیرے دل میں رینگ رہی ہے؟ پھر وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت علیہم السلام سے اپنے بغض میں کمی کرسکتا ہے جس نے ہم پر ہمیشہ نفرت و عداوت و کینہ کی نظر ڈالی ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کرتا ہو، اسے بیشرمی سے بات کرتا ہو اور ان کے فرزند اور ان کی ذریت کے بچوں کو قتل کرنے کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اسلاف سے یہ کہے اگر وہ کہاں ہوتے تو خوشی سے میری تعریف کرتے اور کہتے اے یزید تیرے ہاتھ کبھی نہ شل ہوں اب تو حضرت اباعبدالله (حسین) کے ہونٹوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ ہونٹ جنکا پوسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیا کرتے تھے تو ان پر چھڑی مار رہا ہے ! یقین یہ (ہونٹ )ان کے سرور کا باعث تھے۔
میں قسم خاتی ہوں، جوانان جنت کے سردار فرزند سردار عرب، آل عبد المطلب کے سورج کا خون بہا کر تو نے زخمی کیا ہے تو نے برباد کیا ہے اور اپنے آبا و اجداد کا انتقام لیا ہے۔ ان کا خون بها کر تونے اپنے اسلاف کے کافروں سے تقرب حاصل کیا ہے اور پھر تونے اپنی آواز بلند کی ہے۔
میں قسم کھاتی ہوں، بیشک تو نے یہ ندا دی کہ اگر وہ تجھے دیکھتے تو عنقریب تو انہیں اور وہ تجھے دیکھیں گے اور تو یہ چاھیگا کہ کاش تیرے ہاتھ مفلوج ہوجاتے اور تو یہ خواہش کریگا کہ کاش تیری ماں نے تُجھے اپنے شکم میں نہ رکھا ہوتا اور کاش تیرے باپ نے تجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا جب تو نے اللہ کے غیض کی طرف اقدام کیا تب تیرے اور تیرے باپ کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں گے۔
پروردگارا! ان لوگوں سے ہمارے حق کو وصول فرما! ان ظالموں سے ہمارا انتقام لے تو اس پر اپنا غیض و غضب نازل فرما جس نے ہمارا خون بہایا ہے۔ جس نے ہمارے حق کو پايمال کیا۔ ہماری حمایت کرنے والوں کو قتل کیا اور ہمیں بے پردہ کیا۔ تو نے جو کیا سو گیا۔ (اے یزید! اپنے اس عظیم گناہ سے) تونے خود ہی اپنی کھال نوچی ہے تونے اپنے ہاتھوں سے اپنے گوشت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے ۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ تُجھے انتہائی ذلت و خواری کے عالم میں رسول خدا کا سامنا کرنا پڑے گا جب کہ ان کی ذریت کا خون تیری گردن پر ہوگا اور ان کی حرمت کو تونے پایمال کرنے، ان کی عترت کا خون بہانے اور ان کے گوشت کو پارہ پارہ کرنے کا عذاب تو اپنی گردن پر رکھتا ہوگا۔ پھر دیکھنا کس طرح الله ریاض رسالت صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بکھرے ہوئے پھولوں کو اکٹھا کرتا ہے کس طرح ان کے حالات کو بہتر بناتا ہے اور کس طرح جور و جفا کرنے والے باغیوں سے ہم کو ہمارا حق دلاتا ہے۔ اس خلاق عالم کا ارشاد ہے
وَلَا تَحۡسَبَنَّ ٱلَّذِينَ قُتِلُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمۡوَٲتَۢا‌ۚ بَلۡ أَحۡيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمۡ يُرۡزَقُونَ۔ فَرِحِينَ بِمَآ ءَاتَٮٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِ
اور خبردار راہِ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی طرف سے رزق پارہے ہیں ۔ خدا کی طرف سے ملنے والے فضل و کرم سے خوش ہیں۔
)سورة آل عمران، آیت ۱۶۹-۱۷۰(
تیرے لئے تو بس اتناہی جاننا کافی ہے کہ الله ہمارا ولی ہے اور وہی فیصلہ کریگا، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدعی ہوں گے اور جبرئیل امین مددگار ہوں گے۔ اور عنقریب وہ لوگ بھی اپنا انجام دیکھیں گے جنہوں نے زمین ہموار کر کے تُجھے اس جگہ بینچایا اور مسلمانوں پر مسلط کیا کیوں کہ
بِئۡسَ لِلظَّـٰلِمِينَ بَدَلاً۬
ظالمین کے لئے بدترین بدلہ ہے ۔
)سورہ کہف ، آیت ۵۰(
اسی وقت یہ بھی واضح ہو جائیگا کہ تم لوگوں کا شَرٌّ۬ مَّكَانً۬ا وَأَضَلُّ سَبِيلاً۬ ٹھکانہ بدترین ہے اور وہ بہت زیادہ بہکے ہوئے ہیں۔
)سوره فرقان، آیت ۳۴(
)اے یزید) اگر چہ معاش کے مصائب نے مجھے تجھ سے گفتگو کرنے پر مجبور کردیا ہے لیکن میری نظر میں تو نہایت پست اور ذلیل شخص ہے تو نے (میرے بھائی اور خاندان کی مصیبت میں) مسلمانوں کی آنکھوں کو گریاں کر دیا اور ان کے سینوں کو چھلنی کر دیا۔
اس معاملہ میں تیرے یاور و مددگار بہت تنگ دل ہیں۔ تو نے سرکش نفوس، خدا کے غضب او لعنت رسول سے بھرے اجسام اور اس گروہ کا سہارا لیکر قدم اٹھایا شیطان نے جہاں اپنا آشیانہ بنا رکھا ہے اور انڈے رکھتا ہے۔
تعجب ہے ! سخت تعجب ہے متقین اور فرزندان انبیاء آزاد کردہ غلاموں، ولدالزنا و فاجروں کی اولاد کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ہمارے خون تمہارے پنجوں سے ٹپک رہے ہیں اور ہمارے گوشت تمہارے دہنوں سے باہر آئے ہیں۔ زمین پر پڑے ان پاک و طاہر جسموں سے بھیڑئے سرکش کرتے ہیں اور سیال ان کو مٹی میں غلطاں کررہے ہیں۔
اگر تو یہ گمان کر رہا ہے کہ آج تونے غنیمت حاصل کرلی ہے اور فائدہ پالیا ہے تو بہت جلد تو نقصان اٹھائیگا۔ اس وقت تیرے ہاتھ وہی آئیگا جو تو پہلے بھیج چکا ہے اور خداوند عالم کبھی بھی اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ہم خدا سے شکایت کرتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ تو جو مکر کرنا چاہتا ہے کر۔ جو کوششیں کرنا چاہتا ہے کر۔
قسم ہے مجھے اس پروردگار کی جس نے ہمیں وحی اور کتاب(قرآن)، نبوت اور اپنے خاص بندے ہونے کا شرف عطا کیا! تو ہمارے مرتبہ کو درک نہیں کرسکتا، ہماری انتہا تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہمارے ذکر کو مٹا نہیں سکتا اور جو تونے ہمیں بے پردہ کیا ہے (اس جرم سے) تو اپنے ہاتھ دھو نہیں سکتا۔
یزید ! تیری فکر کچھ نہیں سوائے بدگمانی کے۔ تیری زندگی میں بس چند دن باقی رہ گئے ہیں تیری بساط الٹنے والی ہے ۔ وہ دن قریب ہے جب منادی ندا دیگا ظالم اور سرکشی کرنے والے پر لعنت ہے۔
حمد و سپاس ہے اس پروردگار کے لئے جو عالمین کا پالنے والا ہے جس نے اپنے اولیاء کے لئے سعادت کا حکم دیا اور اپنے اوصیاء کے لئے ان کی مرادوں تک رسائی کو مکمل کیا، انہیں اپنی رحمت، رفعت، رضا اور مغفرت کی جانب منتقل کیا۔ اور ان کے ذریعہ (اے یزید ) تیرے علاوہ کوئی شقی نہیں بنا اور عذاب میں گرفتار نہیں ہوا۔
ہم خدا کی بارگاہ میں درخواست کرتے ہیں کہ انہیں (شهیدان کربلا کو) مکمل اجر دے، ان کے ثواب کو فراواں اور ان کے وارثوں اور جانشینوں کو اپنے حُسن کرم سے بہرمند فرمائے ۔ یقینا وہی رحم کرنے والا اور محبّت کرنے والا ہے۔
خلاصۃ
اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ شخصیتیں ہیں جن کے کمالات کو انسانیت درک نہیں کرسکتی ۔ میدان جنگ میں جب اسلام پر وقت آ پڑا تو علی اور اولاد علی علیہ السلام نے سہارا دیا لیکن بعد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی وہ علی تھے جنہوں نے غیرت سرور کائنات پر عمل پیرا ہو کر اپنا حق چھن جانے پر بھی ایک عظیم صبر کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح میدان کربلاء میں جب خداوند عالم نے دنیا کے سامنے صبر کی انتہا کی مثال قائم کرنا چاہی تو امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے اصحاب کی قربانیوں کے ذریعہ خدا کے اس مقصد کو پورا کیا لیکن بعد کربلا جب مقصد خداوندی اور پیغام الٰہی کو نجات دینے والے حسین علیہ السلام کی شہادت کو بغاوت بیعت یزید کے انجام کار کے طور پر پیش کیا جانے لگا تب فصاحت، بلاغت اور خطابت کے امیر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی دختر کے اس خطبہ میں لیجہ حیدری کی گرج نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ ظلم اور ظالم کو بے نقاب کرنا خاندان عصمت و طہارت کی روش ہے۔
خدایا تُجھے اہل حرم کی ہے پردگی کا واسطہ منتقم خون امام حسین، حضرت امام زمان علیہ السلام کے ظہور پر نور میں تعجیل فرما آمین۔