مکہ جس کا دوسرا نام ام القری ہے ایک ایسا شہر ہے جو حضرت ابراہیم کے زمانہ سے آباد ہوا اور ایک مدنیت یا تہذیبی یا معاشرتی قدروں کے ساتھ اپنے قدیم کی عہد و ادوار سے گزرتا جب چھٹی صدی کے دور میں پہنچا تو اس میں بے شمار تغیر و تبدل پیدا ہو چکے تھے۔ زمزم چشمہ زمانے سے مٹی اور پتھروں کے نیچے لاپتہ ہو چکا تھا۔
آثار قدیمہ میں سے صرف خانہ کعبہ تھا۔ اور طواف کعبہ کی پرانی اور ابتدائی رسم حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔ جیسے جیسے صدیاں گذرتی گئیں باشندگان مکہ کا سماج آہستہ آہستہ بت پرستی کی طرف متشکل ہونے لگا۔ لوگوں نے خانہ کعبہ کو اصنام سے بھر دیا۔ صدیوں کی اصنام کی پرستش نے کئی قسم کے رواج کا اختراعی انداز اختیار کر لیا تھا۔ منت و غیر ہ مانے میں برہنہ طواف کی رسم برسوں سے شروع ہو چکی تھی۔ اصنام کے لئے نئے اسماء سے حل مشکلات کا عقیدہ گہرا ہو چکا تھا۔ اس شہر کی زیادہ زمین بنجر اور بے آب و گیاہ تھی۔ دو بڑے قبیلہ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے علاوہ مکہ کے دوسرے قبیلے جنکو قریش کہا جاتا تھا اپنے اپنے عشیرہ میں اپنے اپنے اجداد کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ جاگیر دارانہ نظام کے تحت بڑے قبیلے اپنا دبدبہ شہر پر قائم کئے ہوئے تھے۔ نوجوانوں کے لئے تعلیمی اداروں کا کوئی سراغ تاریخ میں نہیں ملتا۔ لیکن عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا چرچہ عام تھا۔ عربی زبان کی بقاہی نہیں بلکہ اس میں اصطلاحات روز مرہ اور ایک لفظ کے مستند و معنی و مطالب اور ایک قوی لسانی حیثیت نے شعر و سخن اور مبالغہ آرائی اور حسن و جمال کی مرقعہ نگاری مناظر کی تصویر کشی اور امرا کے لئے مدح سرائی میں قصیدوں کا ایک زور تھا جو شاید انھیں اپنے اب و جد سے ورثہ میں ملا تھا۔ عرب lزبان کے بارے میں کسی گراوٹ یا لچر کی شمولیت کے سمجھوتے پر راضی نہیں تھے۔ چنانچہ زمانہ جاہلیت کا رنگین شہزادہ امراء القیس حالت جنگ میں بھی تلوار کی تیز روکاٹ کے ساتھ اشعار کی بھی چھڑی لگا دیتا تھا۔ ہمارا موضوع مکہ شہر کا اسلام سے پہلے پس منظر ہے اور جس عہد کی بات ہو رہی تھی اس میں بنی ہاشم کا وقار بہت بلند تھا۔ زبان و بیان کے لحاظ سے اور خاندانی رکھ رکھاؤ اور وجاہت شخصی شرافت اخلاق شجاعت میں یکتائے روز گار تھے۔ بنی ہاشم کا طرز زندگی چسکا تاریخی پس منظر حیات عبد المطلب کے دور میں زیادہ روشن ہو کر سامنے آتا ہے۔ یہ موحد تھے اور خانہ کعبہ کی پاسبانی آپ کے ساتھ تھی لیکن کوئی تاریخی ثبوت یا آثار یا فعال ایسے نہیں ملے کہ آپ نے بت پرستی کو فروغ دیا ہو سوائے اس کے کہ آپ سال میں ایک روز خانہ کعبہ کے طواف کے موقع پر اپنے بیٹوں جن کی تعداد بارہ کی تھی نہایت تزک احتشام کے ساتھ حرم کعبہ میں جلوہ افروز ہوتے اسطرح کہ لوگ دیکھ کر اس خاندان پر رشک کرتے۔ آپ کے آخری بیٹے کا نام عبد اللہ تھا جو بہت خوبصورت تھے اور آپ کے جبين مبارک سے ایک نور کی کرن سی پھوٹتی دکھائی دیتی۔ آپ کی شادی آمنہ خاتون بنت وہب کے ساتھ ہوئی جن بی بی کے بطن سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ جناب عبد اللہ بیٹے کی ولادت کے ۶ ماه قبل رحلت فرما گئے۔ آپ آنحضرت کی عمر چھ سال کی تھی کہ آپ کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا اس کے بعد جناب عبد المطلب کی سر پرستی میں آپ پروان چڑھے اور بعد از وفات عبد المطلب وصیت کے مطابق جناب ابو طالب کی کفالت اور سر پرستی میں زندگی بسر کرنے لگے۔
مکہ کی دوسری جانب بنی امیہ کا ایک خانواده یا عشیره پنپ رہا تھا۔ ہے شام کی طرف اپنی ریاست قائم کر رہاتھا اور اسکے استحکام و استقامت کے اساس پر مکہ میں اپنی حیثیت کو حاکمیت کی حد تک قائم کر چکا تھا۔ یہ عشیره اپنی سیاست، دنیاوی جاہ و حشم کے حصول کے لئے ہر طرح کے حربے اخلاقی اور غیر اخلاقی۔ سب بروئے کار لاتا۔ ابو سفیان اپنے تمام تکبر اور ظلم و استبداد کے ساتھ ابھر رہا تھا۔ بعد میں اس کے خانوادہ کے تعیش کی داستان میں عام ہونے لگیں۔ اس کا محضر یا گھر مرکز تعیش تھا۔ گانے بجانے اور رقص کی محفلیں بھی آئے دن جمائی جاتیں جن میں اور بھی صاحب دول و اختیار شرکت کرتے۔ بنی ہاشم کی رفتار و گفتار اور روش زندگی ان لوگوں سے بالکل مختلف تھی اسی لئے اختلاف و انحراف کی خلیچ روز بروز بڑھتی ہی چلی گئی تھی۔ جس کا اندازہ اس سے لگایا جا تا ہے کہ عبد المطلب مرکز تفسیر سورہ فیل میں ہیں۔ جن کے تحت کی روشنی میں کعبہ کو ابرہا کے باتھیوں نے گزند پہونچانا تو در کنار سب مع لشکر سے تباہ برباد ہو گئے۔ اور یہ جمله عبد المطلب کا آج بھی تاریخ میں محفوظ ہے کہ یہ خدا کا گھر ہے اور وہیں اسی کی حفاظت کرے گا۔
جناب ابو طالب نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش اور نگہداشت میں اپنے حتی الامکان کوئی کمی نہیں چھوڑ رکھی تھی۔ مزید بر آں جناب فاطمہ بنت اسد نے آپ کی نگہبانی اور نگہداشت میں اس وقت سے تن من دھن سے لگیں تھیں جب آپ جناب آمنہ خاتون کے شکم مبارک میں تھے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ یمن کی شہزادی جو یہودی نسل کی تھی کنیز بن کر جناب آمنہ کی خدمت میں اسلئے شب روز لگی رہتی کہ موقع پاکر وہ جناب آمنہ کو ختم کر دے۔ لیکن اس کی ایک حرکت جو اس قبیل کی تھی مثلا جناب آمنہ کے بالوں میں کچھ چھپانا چاہتی تھی کہ جناب فاطمہ بنت اسد نے اسے دیکھ لیا۔ وہ فرار ہوگئی اور ایک کاروان میں غائب ہو کر یمن پہونچ گئی۔ جناب آمنہ کی خدمت گذاری میں اسی روز سے جناب فاطمہ بنت اسد ۲۴ گھنٹے بہت ہوشیار رہتی تھیں ۔ چاق چوبند رہتیں کہ کہیں اس بی بی کو کوئی اور اندرونی یا بیرونی خطرہ لاحق نہ ہو جائے۔ جب جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابو طالب کی کفالت میں اور سر پرستی میں آئے تو جناب فاطمہ بنت اسد پیکر ایثار و قربانی بن گئیں۔ یہ ناکام منصوبے جو دشمنوں کی طرف سے آئے دن اللہ کے منتخب بند و خاص محمد مصطفي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بعثت سے پہلے ہی یہاں تک کہ آپ کی ولادت سے پہلے ہی رچے جاتے۔ بنائے جاتے۔ لیکن ہر موڑ پر ہر منصوبہ خاک چاٹتا رہا۔
بعثت سے پہلے کی تاریخ اگر کنھگالی جائے تو متعدد واقعات ملتے ہیں جو آپ کے سامنے آئے اور جو آپ کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتے تھے۔ لیکن آپ کا کردار آپ کی سیرت آپ کا رویہ اپنوں سے اور غیروں سے۔ آپ کی رفتار و گشتار نشست بر خواست کے علاوہ آپ کی امانت داری نے مکہ کے لوگوں کے دلوں پر ایسا سکہ جمایا تھا کہ زمانہ جاہلیت کے پتھر دلوں میں مہر و محبت اور ایمانداری کے جذبے کروٹیں لینے لگے تھے۔
جب اعلان نبوت نہیں کیا تھا مکّہ کی سر زمین پر بسنے والوں میں جہالت کی تاریکیوں کی چیرتی ہوئی ایک انسانی تہذیب اور اخلاقی انقلاب کی آہٹیں سنائی دی گئی تھیں۔ لیکن برسوں کی جہالت زدہ قوم کب کسی ایسے انقلاب کو برداشت کر سکتی تھی جو ان کے بتوں اور اوہام پرستی پر کاری ضرب لگا رہا ہو دور جہالت پر تو بہت تبصرے ہوتے ہیں لیکن اہل قریش کی باتوں اور بد حالیوں کے ساتھ چند جاگیر داروں کے ظلم و استبداد کی روایتوں سے ساری دنیا میں جہاں جہاں انسانی معاشرہ پایا جاتا ہے شاید اسی جہالت کے واقعات کہیں رونمانہ ہوئے ہوں گے۔ خطبہ جناب زہرآ جو فدک کے مقدمہ میں آپ نے ارشاد فرمایا اس کے ایک ایک لفظ سے اس بد حالی ، افکار ناقص، بے ایمانی، اقتصادی ٹوٹتی ہوئی نسیں سب پر سے بہت کچھ پردہ ہٹ جاتا ہے۔ ایسے ماحول اور اسکی فضا میں جس قوم کے سحر و شام گذرتے تھے اگر ایک تصور ذہن میں آجائے اور اس کے بعد جناب عبد الله کے یتیم کا اعلان نبوت کرنا۔ لا الہ کی آواز بلند کرنا۔ اقدام
بت شکنی کرنا اور اس کے خلاف آواز بلند کرنا مخالفت، قتل و غارت کی زندگی کا سامنا کرنا تھا۔ دعوت ذوالعشیره گواہ ہے کہ کس طرح شکم سیر ہو کر حاضرین نیلی پیلی آنکھیں نکال کر بزم سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔ اگر کوئی بچا تھا تو اللہ تعالی کا رسول اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصی علی ابن ابیطالب۔
اودهر اعلان نبوت ہوا۔ لا الہ اللہ کا شعار بلند ہوا اودهر مکہ کی سرزمین میں زلزلہ آ گیا چاروں طرف ہلچل مچ گئی۔ تلواروں پر سان چڑھنے لگی بچوں کے ہاتھوں میں پتھر تھے۔ بڑے بوڑھے بھی تو اپنے بتوں کے غضبناک ہونے سے ڈر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ اس آواز کو اس مشن کو اس الوہی تبلیغی تحریک کو چاہے جان لینا پڑے یا جان دینا پڑے بہر حال اس کا سد باب کرنا لازم ہے۔ چنانچہ غارتگری کے منصوبے تیار ہونے لگے ۔ گروہ در گروہ لوگ اسی آواز کو دبانے کے لئے شدت اور جارحیت کے لئے کھڑے ہو گئے۔
سب سے پہلا اور سب سے بڑا اور خطرناک منصوبہ
بانی اسلام ختم المرسلین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابو سفیان کے نت نئے منصوبوں اور اسلام دشمنی کی نئی نئی سازشوں سے گزرتے ہوئے شعب ابو طالب کے تین سال جن مصائب و آلام اور سخت گیر دور سے گذرے صرف ان کے بیان سے ایسی دلسوزی پید اہوتی ہے کہ جس کے بیان سے زبان میں چھالے پڑ جائیں۔ پھر جن پاکیزہ نفوس پر وہ کٹھن وقت آن پڑا تھا کیسے گزرا ہوگا ۔ لیکن اسلامی شریعت جو اللہ کی امانت تھی اسی امین نے جس نے اپنی امانت داری کا سکہ کفار مکہ پر بھی بیٹھا دیا تھا ذرہ برابر بھی آنچ نہیں آنے دیا تھا۔ اور آخر الامر مکہ کی سر زمین کو خیر باد کہہ کر اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ یہاں اسلام کے تہہ دامن جهاں مہاجر تھے وہیں انصار بھی تھے۔ ایک نے مہمان داری کا حق ادا کیا تو دوسرے نے میزبانی کا یہاں تک کہ صیغہ اخوت کی ٹھنڈی چھائوں میں سب برابر ہو گئے۔ یہاں تک مساوات کا عمل درآمد شروع ہو گیا کہ شام کے گردن میں غلامی کی ریسماں کے ریشے ٹوٹنے لگے۔ اگر پہلا منصوبه شعب ابو طالب میں محصوریت کا تھا دوسرا منصوبہ جو وقت ہجرت پیش آیا۔
دوسرا ناکام منصوبہ
هجرت
سب سے بڑا خطر ناک اور خاموشی سازش کے ساتھ یہ طے پا گیا کہ ہر قبیلہ کے سردار شب کی تنہائیوں میں اللہ کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیک وقت حملہ کر دیں گے۔ نہ رہیں گے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نہ رہے گا یہ اسلام کا مشن۔ لیکن بستر محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر علی کو دیکھ کر ہر قبیلہ کے سرداروں کی تلوار نیام میں چھپ گئی اگر کوئی بول رہی تھی تو وہ چادر جسکو اوڑھکر علی پہلی رات گہری نیند سوئے تھے۔ کفار مکہ کے اس منصوبے کی ناکامی نے غارتگری کی جراتوں کی کلائی توڑ دی۔
تیسرا ناکام منصوبہ
جب جناب جعفر طیار نے سورہ مریم کی تلاوت کی اور حبش کا بادشاہ گریہ کناں تھا۔ اور وہ کفار مکہ جو ان کی گرفتاری کے منصوبے کے تحت زر و جواہر کے گراں بہا تحفہ کے ساتھ گئے ناکامی کا انجام دیکھ کر منہ لٹکائے ہوئے مکہ واپس آگئے تھے
چوتھا ناکام منصوبہ
مکہ کی سر زمین پر ایک ہلچل مچی تھی ۔ اور مدینہ میں اسلام کی بہار آئی تھی۔ برسوں پرانی دشمنی بنی خزرج خوریج اور بنی اوس کی ختم ہوئی تھی۔ مہاجر کو اعزاز و احترام کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔ ناقہ رسول نے ابو ایوب انصاری کی چوکھٹ کو زیارت گاہ بنادیا تھا۔ خوش آمدید کے قافلے یہاں آکر سکونت پذیر ہوئے تھے۔ مدینہ کے بر سر اقتدار یہودی کی مکہ کی طرف آمد ورفت تیز ہو گئی تھی۔ مکہ کی سربراہی ابوسفیان کے ہاتھ میں تھی۔ نوبت به اینجار سید کے غزوات کے سلسلے شروع ہو گئے۔ ناکام منصوبے کے بعد دیگرے سامنے آنے لگے۔ بڑے بڑے نازک موڑ آئے۔ پہلی جنگ بدر کی جنگ تھی۔ على علیہ السلام کے ہاتھوں یہ جنگ فتح ہوئی۔ لیکن جنگ احد میں منصوبہ بندی میں یہودیوں اور کفار مکہ نے ملکر بڑی چالاکی اور غور فکر کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ اسلام کے جاں نثاروں کے سامنے جنگ اس وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب اپنے آدمیوں کو اپنے سپاہیوں کو ان کی فوج میں داخل کر کے ان میں ایک خانہ جنگی کی صورت پیدا کر دی جائے اور اس نقشہ پر عمل کرتے ہوئے عبد اللہ بن ابی نے اسلام میں ایک جگہ بنانے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوا۔ اس نے اپنی بیٹی کی شادی حنظلہ بن عامر سے کر دیا۔ دونوں کی بڑی دوستی تھی۔ خدا کی مصلحت کون جانے۔ حنظلہ نے صدق دل سے اسلام قبول کیا اور راہ اسلام میں شہادت کی تمنا اس کے دل میں جاگی۔ ہر فرعون را موسٰی کی مثل مشہور ہے۔ جنگ احد میں عبد الله بن أبی تین سو آدمی کو لے کر مدینہ واپس ہو گیا جس کے نتیجہ میں ایک ہزار کے لشکر میں صرف سات سو جنگ کرنے والے رہ گئے۔ احد کی جنگ بھی علی علیہ السلام کے ہاتھوں فتح ہوئی۔ بڑا نقصان ہوا بڑی عظیم شخصیتیں شہید ہو گئیں۔ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درود و سلام ہو آپ پر آپ کے دانت شہید ہوئے۔ علی علیہ السلام کے جسم پر ۹۹ زخم لگے۔ لیکن جب افق سے بادل ہٹے تو منصوبہ بندوں اور سیاست گروں کے چہرے سامنے آگئے اور اب یہ زاویہ تیار ہونے لگا کہ جتنا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب جا سکتے ہوں جا کر اپنی سیاست کی آڑ میں اپنی صحابیت اور جاں نثاری کا مقدمہ تیار کر کے تاریخ کو دے دیں اور آہستہ آہستہ حکومت سازی کے لئے زمین تیار کرتے رہیں۔ کعبہ اللہ تعالی کا گھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے رسول، اسلام اللہ تعالی کا دین، اگر ساری دنیا کی طاقت سمٹ کر غارت گری پر اتر آئے تو سوائے ناکامی کے اور کیا ملے گا اور اب تو اسلام کی جڑیں مضبوط ہو کر زمین پكڑ رہی تھیں۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو ایک ایسا وصی عنایت کیا تھا جس کے لئے ڈاکٹر اقبال تمنا کرتے ہیں یہ کہہ کر جسے نان جویں بخشی ہے تو نے۔ اسے بازوے حیدر بھی عطا کرے جو خوف خداسے بوقت مناجات مثل چوب خشک ہے جان سا معلوم ہوتا تھا اور جب میدان جنگ میں عرب کے سورما اسکا نام سنتے تو ان کی آدھی جان تو وہیں نکل جاتی تھی۔ اب اسلام کی فضائیں یہ صدا گونجنے لگی تھی لا فتى الا على لا سیف الا ذو الفقار نہیں ہے کوئی جوان سورما مگر علی اور نہیں ہے کوئی تلوار گر ذوالفقار۔ دوسری سمت منصوبہ بندی کے بھنور میں کچھ شناور اس مرحلہ میں سارا زور لگائے تھے کہ آج نہیں تو کل ایک علی اور ایک ذوالفقار کا کیر کیچار اگر نہیں لائے تو علی کے ہاتھوں اسلام کا پرچم سارے عالم میں لہرانے لگےگا۔ چنانچہ خلیفہ اول کے زمانہ میں مالک بن نویرہ کے قاتل اور اسی شب اس کی بیوی کے ساتھ ہم بستر ہونے والے جیسے گناہ گار خالد کو سیف اللہ کے خطاب سے خلیفہ اول نے سرفراز فرمایا اور آج کی دنیا میں اردو میں ایک کتاب اللہ کی تلوار کے نام سے شائع ہو کر منظر عام پر آگئی اور یہ چرچے عام اسلام میں ہونے لگے کہ کیا کوئی اسلام میں ایسا پیدا ہوا ہے جو نہ کبھی شکست کھایا ہو اور جنگ سے بھاگا ہو یا پیٹ دکھائی ہو سوائے خالد بن ولید کے ۔ اسی کو سفید جھوٹ کہتے ہیں۔ عجیب رنگ اور ترنگ کے شعار اور نعرے گونجنے لگے جسکے لیے میں تاریخ کو پڑھنے والے اکثریت کی تاریخ پڑھ کر چیخ اٹھے۔ بوئے خوں آتی ہے اسلام کے فسانوں سے۔
دشمنان اسلام کے منصوبے کفار مکہ میں کھلے عام اپنی تحریک اپنے تشدد کے ساتھ آئے تھے لیکن مدینہ میں منافقین آہستہ آہستہ اسلام کی نقاب ڈالکر جس انداز سے سامنے آئے اس کا ایک حد تک خلاصہ صدر اسلام کی حیات طیبہ تک سپرد قلم کر سکا ہوں لیکن اس کے نتائج اتنے با خبر تھے کہ اب تک تمام اسلامی قدریں پامال ہونے کی نوبت تک پہونچ چکی تھیں اور یزید اپنے ماضی کا وہ نمائندہ تھا جس نے اپنی تحریک کو ابن زیاد کے ساتھ ملکر اسلام کے خاتمہ کا اعلان کر رہا تھا اور اپنے قصیدہ میں اس نے کہا۔ نہ کوئی وحی آئی نه کوئی دین آیا۔ بنی ہاشم نے ایک کھیل کھیلا تھا اس نے (اپنے زعم ناقص میں( ختم کر دیا گویا اسلام کی اب کوئی قدر و قیمت باقی نہیں ہے اور حکومت سازی، بادشاہت و ملک گیری، ظلم و تشدد ہی قانون سازی کا ایک ذریعہ ہے۔ راقم الحروف نے غارتگران اسلام کے ناکام منصوبوں کے ذیل میں تاریخ کے بہت سے موڑ کی جانب مجمله چند کی طرف دعوت فکر و نظر دی ہے اور اس منزل پر ٹھر کر قارئین کو کربلا کی عظیم اور افلاکی قدروں کی طرف لے جانا مقصود تھا۔ انشاء الله آئندہ (گذشتہ سے پیوستہ( منزل بمنزل غارتگران اسلام کے ناکام منصوبوں کو قارئین کے لئے سپرد قلم کریں گے۔ کربلا کے پہلے اور کربلا کے بعد امام حسین علیہ السلام نے کس طرح منصوبہ بندی کے قلعوں کو مسمار کیا اس کا خاطر خواہ جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔
مزید بر آں
چوں خلافت رشته از قرآن گیسخت رفته رفته ز ہرا ند کام ریخت۔ یہ زہر زمانہ کے ساتھ پھیلتا گیا اور اس کے اثرات حکمرانی کے وہ اسباب مہیا کرنے لگے جس کے تحت ایسے قانون وضع ہونے لگے جن سے مستضعفین کی آواز دبا دی جائے اور تشدد کی رگوں میں خون دوڑنے لگے۔ اور تعلیمات رسالتماب صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اساس کو کمزور کر دیا جائے۔ چنانچہ آدھی صدی میں بڑے بڑے طوفان اٹھے شام میں معاویہ کا زور بڑھ گیا۔ بنی امیہ کے سازشیں اب رنگ لا رہی تھیں اسلام کے دائرے میں رہ کر انکار اور ان بیان میں ایک زبردست تغیر آچکا تھا۔ شریعت کی آڑ میں حکومت سازی کے تباہ کاری کے منصوبے کارگر ہوتے دکھائی دیتے تھے اس طرح امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد اسلام کی بنیاد دہل جائے گی اور حکومت سازی کے لئے میدان صاف ہو جائے گا۔
اس نظریہ کے تحت امام علی علیہ السلام کی شہادت کے ۲۰ سال تک جب دیکھا ماحول ساز گار ہے یزید اور عمرو عاص نے شام کی حکومت کی سربراہی کے نشہ میں آکر ان چھے ڈھکے منصوبوں کا پردہ فاش کر دیا کھل کر سامنے آگیا۔ لیکن اس کے مشیر کار حسینی عزم اور ارادوں سے واقف تھے اور یہ جانتے تھے کہ یہ ایک وہ ذات ہے جو گوشہ نشینی کی زندگی میں شب وروز مشغول عبادت رہتا ہے ان غارتگروں کا سامنا کرے گا۔ لیکن حسین علیہ السلام کی آواز دبانے میں ان کی اتنی بڑی طاقت کافی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے سامنے غارتگران اسلام کے سارے حربے تھے۔ آپ نے ۲۸ رجب کو مدینہ چھوڑ دیا اور مکہ کے قیام کے بعد کوفہ کی طرف روانہ ہوئے اور اسطرح کربلا کو سجایا اور وہ رونق اور وہ دائمیت اور وہ چراغ روشن کر دیئے کہ متوکل اور صدام حسین جیسے ظالموں کے بس میں نہ تھا کہ کربلا کی عظمت و وقار کو کوئی صدمہ پہنچا سکتے۔ ابھی دشمنان اسلام کے منصوبوں کی ایک بڑی فہرست ہے ہم اس کا ایک جائزہ لیں گے جو کربلا کے بعد تک منتھی ہوتا ہے۔ اتنا آخر میں اشارہ کرتا چلوں کہ کربلا کے عظیم سانحہ کے بعد جب مختار ثقفی نے قیام کیا تو اسی کے ساتھ ساتھ عبد اللہ بن زبیر کی کبھی شورش تھی۔ جس کا مقصد بنی امیہ کی دشمنی تھی انتقام خون حسین نہ تھا۔ اس شورش نے بہت نقصان پہونچایا جس سے بہت سے لوگ سر چشمہ تعلیمات اہل بیت میرانی سے سیراب نہ ہو سکے اور پھر وہی نشہ حکومت کے جادو کا سر پر سوار ہو گیا۔ لیکن جیالے مختار اور ان کے ساتھیوں نے جیسے ابراہیم بن مالک اشتر نے قاتلان حسین سے بھر پور انتقام لے لیا اور حسین مشن کو قیامت تک کے لئے یابندہ اور تابندہ کر دیا۔ گو اسی عبد اللہ بن زبیر کی فوج نے آپ کو شہید کر دیا۔ اسوقت جناب مختار ثقفی کی عمر ۶۷ سال کی تھی۔
