جس تند اور تیز بہاؤ کے ساتھ تغیرات کا سیلاب عہد حاضر میں عالی پیانے پر آیا ہے شاید تکوین بشریت سے لے کر اس عہد کی ابتداء سے پہلے تک بھی نہیں آیا۔ عہد حاضر سے مراد نصف صدی کے ایک دہائی قبل کا زمانہ جس احاطہ میں آتا ہے۔ سائنس کی ایجادات اور نئے نئے شعبہ ہائے زندگی پر دسترسی کی نے بے شمار مادی ارتقاء کے حقائق پر سے پردے جو ہٹے تو انسان کے افلاکی حوصلے افلاک کے کناروں کو چھونے کی جرات کرنے لگے۔ جب ایسا انقلاب پیش نظر ہے گویا کائنات کا تختہ ہی پلٹ گیا ہے اور تمام ارض کائنات پر گویا ایک دوسری دنیا آباد ہو گئی ہے تو دیکھتا ہے کہ ایک شیعہ قوم جو اسی دنیامیں بس رہی اس پر کیا اثرات قائم ہوتے ہیں۔
اس قوم کی انفرادی اور اجتماعی فکر ،روش، چلن، طرز حیات، رفتار و گفتار، اختلافات و اختلاط، نسلی امتیاز میں خلط ملط تبلیغات ، بیانات، نظریات، خیالات مختلف منطقوں میں رہنے والوں کے مزاج دوسری قوموں سے ارتباط کے طور طریقے ، روایات و رواداری ، مصلحت اندیشی، اکتسابی اور اقتصادی ذرائع کی طرف مالیت ایسے بے شمار عوامل ہیں جن کا ایک ایک کر کے جائزہ لینا چند سطروں میں ممکن نہیں۔ لیکن قومیاتی پر جب کبھی کسی محاسبہ کا محور بنتا ہے تو وہ ہے مذہبیات ہے جن کے دو پہلو ہوتے ہیں احکامات اور عقائد اس کا وجود حالا نکہ قدیمی ہوتا ہے لیکن رسیدگی کے دائرے پھیلتے جاتے ہیں اور رسومات کی ادائیگی میں اختراعیت پید اہونے لگتی ہے۔
نتیجے کے طور پر جو حقیقت جہاں بینی کے پر تو سے ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ مذہبیات کے محور پر ہی قوم کی پہچان بنتی ہے اور کیا مذہبیات کے تمام پہلو قومیات کی تشکیلات سے ابھرتے ہیں یا مذہب ایک لیبل یا سائین بورڈ کی طرح ہوتا ہے اور قومیات کے ریشے اس سے میل نہیں کھاتے ہیں یا دونوں کے ریشے ایک دوسرے سے اسطرح جڑے ہیں کہ ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔
۱۸۵۷ہجری کی بغاوت کی داستان کے ہولناک مناظر سے یہ بات طے ہوگئی تھی کہ قومیات کے لحاظ سے یہ دل دہلا دینے والے واقعات ایک بڑی مثال تھی کہ دہلی کے چاروں طرف صرف مسلمانوں کی لاشیں لگی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ بہت سے مسلمانوں کو قتل گاہ میں قطار بنا کر کھڑا کر دیا گیا تھا اور انگریز ان مسلمانوں کو ایک ایک کر کے گردن زدنی کے لئے اس خون آشام تصویر میں رنگ بھر رہا تھا۔ یہ انگریز قوم عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ جنہوں نے کئی صدی کا بدلہ مسلمانوں سے لینے کی ٹھان لی تھی۔ ایک طرف یہ اپنے مذہب کے پاسدار بھی تھے اور دوسری طرف انسانیت کے نام پر بے رحمی اور شقاوت کے مبلغ بھی ابھی زیادہ دن نہیں گذرے ہیں الجیریا کے جانباز مسلمانوں نے جب فرانس کی جارحانہ حکومت کے خلاف آواز بلند کی تو راقم الحروف کے پاس وہ ریکارڈ موجود تھا جو مظالم کے جہنم زار اور دہکتی ہوئی آگ میں مسلمانوں کی چربی سے اٹھتے ہوئے شعلے مشرق وسطی میں دور دور تک دکھائی پڑرہے تھے۔ یہ مظالمین و متکبرین سب ایک قوم تھے اور عیسائی تھے یعنی تثلیت پرست تھے۔ تاریخ ایسے خونچکا داستانیں پرانی ہیں لیکن اس کا احتساب و انتساب بعد از ہجرت یعنی خاتم المرسلین کی مدینہ میں اسلامی تبلیغات اور اسلامی مزاج فکر اور شعور کی آبیاری کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی تھی اس کا جائزہ لیں تو اس کے آثار آج تک کافی واضح طور پر مل رہے ہیں۔ قدیم زمانے سے لے کر جب کسی قوم میں تشریعی نبی آئے ہیں تو اس وقت اور اس زمانہ میں عوام کی اکثریت ظلم کی چکی میں پس رہی ہوتی ہے۔ جس کی گلو خلاصی نے جابر حکمرانوں سے ٹکّر لیا ہے۔ لیکن حکومتی مزاج دانوں نے جب نبی کے آئین کو دیکھا کہ یہ عامہ کو انقلابی اور اپنے حق کا طالب بن کر زور پکڑ رہے ہیں تو اسی کا سہارا لے کر اسی آئین میں تغیر و تبدل کے ساتھ اپنے سیاسی آلہ کار کو اپنا وطیرہ بنایا جو سب سے پہلا دم اس کوشش میں اٹھا وہ یہ تھا کہ مذہب کو فروغ دو نرم و نازک لہجوں میں انصاف کے ترازو پر انسانیت کو تولا جائے۔ بے رحمی کو جائزنہ قرار دیا جائے۔ اخلاقی قدروں کے ابلاغ میں انتہا پسند ہو جاؤ۔ منکسر ہو جاؤ۔ تعلیمات کے اداروں میں اضافہ کر و لیکن اسکو ایک الگ پلیٹ فارم دید و جو پاپائیت کے تحت کام کر تا ہے اور اس دوسرے مذاہب کے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے رہیں اور اسکی شرافت کو قبول کرتے رہیں۔ اور اسی طرح سیاست حکومت حکمرانیت کو بادشاہت یا جمہوریت کا نام دے کر ایک الگ پلیٹ فارم دیدو اس لئے عیسائیت کو Mother of Religion نہیں کہتے ہے لیکن برئش ڈبا کریسی کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے ( (Mother of Democracyجب ۱۸۵۷ء کے غدر کے بطور بے شمار گھروں کے فاقوں سے عوام کرا رہی تھی تو ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں مذہبی قانون کے تحت محدود شہنشاہیت کے کارندے ملک میں زخموں کا مرحم لے کر آگے آئے تو ان میں اصول اور اساسی حکومت سازی کو آئینہ بنا کر پھر ماضی کی طرف پلٹے اور اسی ترتیب کے ساتھ مدینہ کی اسلامی ثقافت کو پرکھا اور پحچهورا جائے تو وه مدینہ جو صدر اول کے زمانہ میں ایک اسلامی تہذیب کی بنیاد پر ارتقاء کی طرف چل پڑا تھا لیکن خاتم المرسین کی رحلت کے بعد آئین شریعت میں تغیرات آنے لگے۔ گویا اس کے کناروں میں حکومت سازی کی دیمک پیدا ہونے لگی۔ تبلیغات رسالت پر پردے پڑنے لگے۔ غدیر کو فراموش کیا گیا اور سقیفہ کو جمہوریت کی ماں کہا جانے لگا۔ اس طرح وہ پلیٹ فارم جو شریعت اور سیرت محمدی کی لائی ہوئی ثقافت کے لئے قائم ہوا تھا اس کے پر تو میں سیاست اور حکمرانيت کا پلیٹ فارم قائم ہو گیا۔ چنانچہ صاحب غدیر کو گوشہ نشین کر دیا گیا اور انتخابی اصولوں پر اسلام کو اس پلیٹ فارم سے ایک تکان ملنے گی۔
لیکن یہ آخری آسمانی اور الوہی نظام تھالہذا اس کے محافظ بھی آسمانی اور الوہی کردار کے تھے۔ اسلام اس پلیٹ فارم سے ہٹ کر خالص مذہبی پلیٹ فارم پر خاموشی کے ساتھ چلتا رہا۔ نظام حیات کو سب سے بڑا جھٹکا کا اسوقت لگا جب تیسری انتخابی خلافت کی بد عنوانیوں نے عوام کا جینا حرام کر دیا تھا۔ اور لوگ علی علیہ السلام کے دروازہ پر ہجوم پر ہجوم فریاد کر رہے تھے۔ علی علیہ السلام پھر اس بیس سال میں جو حکمرانی پلیٹ فارم اسلام کے پر تو میں وجود میں آیا تھا اسے مسمار کر دیا۔ لہٰذا سازش گر ان وقت نے پھر شورش برپا کی جسکا سب سے ہولناک منظر جنگ نہروان کا پس منظر تھا۔ خلافت علی کے بعد پھر شام کی طاقتوں نے زور پکڑا اور وہ سیاسی پلیٹ فارم پر اتنا زور پکڑنے لگا کہ حق و باطل کے مباحث میں علی اور معاویہ کے | انتقام پر خوب بحثیں ہونے لگی۔ بریر بندانی اور یزید بن معقل کی بحثیں تاریخ کے اوراق میں آج تک موجود ہیں جو کربلا کے میدان میں مباہلہ کی شکل میں رونما ہوئیں۔ کربلا میں جب یزید بن معقل عمر سعد کے کہنے پر میدان میں آیا تو بریر ہمدانی امام حسین علیہ السلام کے سامنے مچل گئے اور فرمانے لگے اسکے مقابلہ میں مولا مجھے بھیج دیجئے یہ لوزان کی گلیوں میں بحد امکان مولا علی علیہ السلام کی حقانیت پر ڈٹا ہوا تھا۔ بریر کو اجازت ملی اور آنے کے بعد اجمالا عرض کرنا ہے کہ بریر نے کہا بارگاہ خداوندی میں ہم دونوں عہد کریں کہ جو باطل پر ہو حق والے کے ہاتھوں قتل ہو۔ ابن معقل نے قبول کیا۔ دونوں گھوڑے سے اتر کر بارگاہ الہی میں وست بدعا ہوئے۔ ایک نمائندہ اس پلیٹ فارم کا تھا جو اسلام کے پر تو میں سیاست اور حکمرائیت کی تبلیغات پر یقین رکھتا تھا اور دوسرا وہ تھا جو صرف اور صرف آئیں تعلیمات ختم الانبیاء کے پلیٹ فارم کا اسوۃ نظام اور اساس ثقافت کا حامی تھا۔ بریر کے ہاتھوں ابن معقل قتل ہوا اور حق سامنے آگیا۔
الیاس شوقی علی جواد زیدی کی کتاب ”اسلامی ترقی پسندی” کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں انسانی سماج میں استحصال کا سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے اور آج بھی جاری ہے لیکن اس استحصال میں مذہب کو بطور حربہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ علی جواد زیدی اپنی اس کتاب مذکور میں تحریر کرتے ہیں دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کے دائرہ میں صورت حال جداگانہ تھی۔ یہاں عیسائیت کی طرح کوئی منظم چری یا ملائی نظام نہ تھا۔ اسلامی علما تابع مهمل بھی نہیں تھے جہاں کچھ علما درباروں سے وابستہ رہے ہیں وہاں تاریخ گواہ ہے کہ ایسے بھی اکابر علمائے دین تھے جنہوں نے سلطنتوں سے ٹکریں لی ہیں اور جلال شاہی کی فکر نہ کر کے قید و بن ور صلیب و دار کی منزلوں سے بھی گذرے اور دین کے معاملے میں مصلیت سے انکار ر دیا۔ اسلام کی طاقت منظم ملائیت اور ریاست کے تال میل سے نہیں بلکہ ائمہ مسلمین کے خلوص و اعتقاد عمل سے حاصل ہوئی تھی۔
راقم الحروف، علی جواد زیدی جیسے قدرآور مفکر، صاحب نظر، صاحب قلم نے خود اسلام میں دو پلیٹ فارم پر منقسم حکومتی تشکیلات جو معاویہ کے زمانے سے زور پکڑتی گئی اور ایک پلیٹ فارم جو ائمہ معصومین کا تھا اسکو واضح طور پر کیوں نہیں بیان کیا۔ بھر کیف مصلحت کچھ بھی رہی ہو لیکن یہ بات قابل یقین تک ضرور پہونچھتی ہے کہ ان کا نظریہ اور فکر “مسلمین” سے مراد ‘ معصومین’ ہی رہا ہو گا اس لئے کہ پوری کتاب اقوال و خطبات امیر المومنین سے بھری پڑی ہے۔ اس لئے کہ اسلامی ترقی پسندی اور بقول معترف استحصال کا سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا تھا۔
یعنی مستضعف اور متکبر کے در میان صدیوں سے ٹکراؤ چلا آرہا ہے۔ اور یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمیشہ مستضعف نے متکبر کو ٹھوکروں پر مارا ہے۔ اسلام آئین الٰہی ہے اور اسکی مدافعت اور حفاظت کا بھی انتظام خداوند قادر مطلق کے ہاتھ میں رہا ہے۔ مرسل اعظم ان ایام کے ساتھ علی علیہ السلام سایہ کی طرح رہے اور امین رسالت کا پہرہ دیتے رہے۔ علی علیہ السلام کے ساتھ مالک اشتر تھے جو عالم ، عابد اور مزاج آئین اسلام سے واقف تھے۔ پھر جب متکبرین نے استحصال کا زور بڑھایا تو حسین علیہ السلام تھے اور آپ کے ساتھ عباس علیہ السلام پر چمدار فوج اسلام تھے۔ حضرت عابد علیہ السلام کے ساتھ ساتھ جناب زینب علیھا السلام تھیں اور جب آپ مدینہ تشریف لائے تو چار آپ کے ایسے صحابی تھے جو امام کی پہرہ داری اور پاسبانی کا حق ادا کر رہے تھے۔ امام باقر علیہ السلام کے عہد میں مکتب اہل بیت علیہما السلام قائم ہو چکا تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے میں درس گاہیں تھیں ایک عوام کیلئے اور دوسری مدینہ کے باہر ان خواص کے لئے جو علمی اعتبار سے معارف کے اعلی درجوں پر فائز تھے۔ اسی زمانہ میں جعفری فقہ کا دستور بندی پر مکمل کام ہوا۔ امام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ سب تھے اور اب تو ایران اور عراق میں تعلیمات اہل بیت کے مکاتب قائم ہو چکے تھے۔ اور حکومت کے متکبر اب اس حکمت عملی پر گامزن نظر آرہے تھے کہ فرزندان رسول کو ولی عہدی کے جال میں پھنسالو چنانچہ امام رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا اور اسی پیش کش پر عمل ہوا۔ اور جب دو سو سے زائد سال گذر گئے تو امام علی نقی اور امام عسکری علیہ السلام کے وجود ہاۓ اقدس سے قصر سلاطین کے پائے ہلنے لگے تھے کہ غدیر میں رسالت مآب کی پیشن گوئی سچ ہو کر رہے گی۔
لہٰذا محله عسکر میں مقیم کیا اور وہیں ۲۵۵ء آخری جانشین متولد ہوکر ایک پلیٹ فارم پر چلنے والی قوم کا نگہبان بن گیا گویا حقانیت کا سورج بادل کے پیچھے سے اپنے کاروان کی رہنمائی کرتارہا ہے جسے ہم غیبت کبری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اب ہم یہ کہہ سکتے قید و بند صلیب و دار سے وار ثان زمین جو کمزور کر دیئے گئے ہیں ان پر کوئی آنچ نہیں آسکتی ہے۔
زندگی اور موت تو دو کیفیتوں کا نام ہے۔ لیکن اس حیات دنیوی میں اہل بیت کی تعلیمات پر جو عمل پیرا ہیں اور پرہیز گاری میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں ان کی حفاظت، پاسبانی، پاسداری، عزت، وقار اور کردار کی حفاظت غیب سے ہوتی رہے گی۔ یہ مذہب کے نام پر دو پلیٹ فارم تیار کرنے والے کہیں دہشت گرد ہیں کہیں مصلحت اندیش ۔ اپنا جو مذہب ہے وہی قومیاتی راہ گزر ہے۔ یہی راہ گذر ہمیں کربلا والوں نے دکھائی ہے۔ لاکھ مدینه تاراج ہو بنی باشم محفوظ و مصون رہے۔ اتنا ضرور ہے جب بقول غالب دل جگر تشنه فر یاد آیا تب تب منتقم خون حسین کے ظہور کے لئے زندگی کی بے چینیاں بڑھ جاتی ہیں اور خود کو خیمہ فرزند رسول کے قریب پاتا ہوں اور کہتا ہوں مولا کسی پہلو شکستہ ماں یعنی آپ کی دادی خاتون جنت اپنے لال حسین پر گریہ زاری میں آج بھی مصروف ہیں۔ اللہ تعالی آپ کے ظہور میں تعجیل کرے۔
