صراط الذین انعمت علیہم
امام حسین علیہ السلام کی ذات سر چشمهائے نمتھائے آسمانی ہے۔ آپ کل بھی اور جب سے درود انبیا علیہم السلام کا سلسلہ انسانوں کی ہدایت کے لئے اس ارض خاکی پر شروع ہوا اس وقت سے از جانب خالق کائنات واسطہ اور ذریعہ تھے ان نعمتوں کے نزول کے جو آسمان سے زمین پر وارد ہوتی ہیں جب ہم دست دعا دراز کرتے ہیں اور خود کو بارگاہ باری تعالی کے حضور میں پاتے ہیں اور کہتے ہیں مجھے تیرے حسین کا واسطہ تو خدا کی رحمت جھومتی ہے اور شکر گزار بندوں پر اپنی بخششوں کے نہ ٹوٹنے والے سلسلے کو قائم رکھتا ہے اس سلسلہ نعمت کو وہ ذات جو لیس کمثلہ شی ہے نے اپنا امین حسین علیہ السلام کو قرار دیا ہے۔ لہذا ہم اس محسن انسانیت کی جب تک معرفت نہ حاصل کریں گے اس عظیم الشان ذات والا صفات کا کوئی حق ادا نہیں کر سکتے۔ آپ وہ ذمہ دار قسیم نعمتھائے الہی ہیں جن کے نام سے سکون قلب کی راہیں دکھائی دیتی ہے۔ جن کے ذکر سے حیات دنیوی میں امید کا چراغ ہمیشہ روشن اور تابندہ رہتا ہے، جسکے سجدہ گزاری سے ہمیں نہیں بلکہ ملائکہ کو بھی سجدہ کرنے کا سلیقہ ملتا ہے اور ہم اپنی پیشانیوں میں نور کی ایک لہر تیرتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جس کی قربان گاہ سے اٹھتے ہوئے ریگزاروں سے اہنسا امن اور آشتی کے پیام و سلام آتے ہیں اور جس کی ذات کی معرفت سے اللہ تعالی کی وحدانیت، سمدیت، رحیمیت اور عدالت پر یقین حق الیقین کی طرف گامزران ہوتا ہے اور ارتقا کی اس منزل پر بھی وارد ہو سکتا ہے جہاں سے انکشافات سلسلہ شروع ہوتا ہے ہم امام حسین علیہ السلام کی معرفت کے لئے انھیں عناصر پر اپنی فکر کو مہمیز کرنے کی سعادت حاصل کریں گے یعنی اول ذکر، دویم سجده، سویم قربان گاو، چہارم یقین اور پنجم اطمینان اور سکون۔
ذکر
بیان ورد زبان، نطق کا سلیقہ ، ادائیگی مطالب، قصد فهم، خیال اظہار، فکر، پچھتاوا و غیر ہم اتنے مفاہیم لفظ ذکر کے لئے اپنی عقلی بساط بھر لئے ہیں ورنہ اس کے معنی و مطالب کا میدان بہت وسیع ہے اسی غرض و غائت کے تحت یہ لفظ امام حسین علیہ السلام پر کیسے منطبق ہوتا ہے۔ اور ہمیں ذکر کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کی عظمت کی معرفت کیسے نصیب ہوسکتی ہے اس کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
ذکر حسین علیہ السلام
ا۔ خود سازی کی کلید ہے۔ ۲۔ روحوں کی غذا۔ ۳۔ دل کی حیات ۴۔ جان کی خوراک ۵۔ دل کا نور ۶۔ صیقل قلب۔ ۷. دل کی شفاه – ۸. کلید انس ۹- نفاق سے امان ۱۰۔ محبت اا۔ عصمت ۱۲۔ اطمینان قلب ۱۳۔ شرح صدر
انواع :
پہلے آئیے ہم دیکھیں ذکر کا انسان سے کیا رابطہ ہے اور پھر یہ کیسے اور کس نوعیت سے امام حسین علیہ السلام پر منطبق ہوتا ہے۔ ذکر انسان کی زندگی کی وہ ریسمان ہے جس کے ہمیشہ متحرک اور مضبوط رہنے سے جو انسان زندہ ہے اس کی ضمانت رہتی ہے۔ انسان نہ صرف بیداری میں بلکہ نیند، غفلت یا غشی کے عالم میں بھی فکر و فہم کی بساط بھر کسی نہ کسی زاویے سے ذکر سے عہدہ برا نہیں ہے۔ خداوند متعال نے اس ذکر و فکر کو انسان کی ذات، شخصیت، کردار، چلن کو سنوارنے، سجانے، قوی اور مستحکم بنانے، جاذبیت اور جالبیت کے پیدا کرنے، معیار کے بلند کرنے، شرافت سے اشرفیت کی طرف جنبش کرنے ضلالت سے نکل کر ہدایت کی روشنی میں آنے۔ یعنی اپنی اصالت و مرکز خلقت وجود کی طرف پرواز کرنے کی بے پناہ صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اور اس سے کہیں زیادہ عظمت و برکت کی نعمتیں انسان کے لئے اس کے خالق کی طرف سے نازل ہوتی ہیں جہاں ذکر کی وادی شکر ہے اور اگر اس سے منحرف ہو کر اسکی مذموم وادی پر نظر کر پیئے تو آپ دیکھیں گے کہ اگر انسان نے اپنی اختیاری صلاحیتوں کے بل بوتے پر وادی شکر سے گریز کرتا ہوا وادئ کفر کی راہ پیمائی میں جو رواں دواں رہا تو سہی ذکر عذاب کا آئینہ بھی دکھاتا ہے جیسے جیسے ذہنی اور جسمانی قوت ختم ہونے لگتی ہے اور موت کے سکراتی لمحے قریب آنے لگتے ہیں تو لب ہلتے ہیں اور آہستہ بیانی سے جیسے اندر کا انسان خوف و ہراس کے منہ میں دبے ہوئے شکار کی طرح یاد کرتا ہے کہتا ہے کہ میں نے حجر بن عدی کو بے گناہ کیوں قتل کروادیا۔ مثال جز سے کل کی طرف جاتی ہے ( معاویہ عالم سکرات میں متعدد بار یہ کہتا تھا) یزید بال نوچ کر کہتا تھا میں نے حسین کو کیوں قتل کیا میرا کیا بگاڑا تھا۔ معاویہ بن یزید نے کہا جس تخت و تاج پر حسین فرزند رسول کے خون کی چھوٹیں ہوں ایسے تخت و تاج کو ٹھوکر مارتا ہوں۔ کیا شاندار ذکر اسکے لبوں پر آیا۔ مروان بن حکم نے اسے قتل کر دیا گویا وادی شکر کے ذکر کا شہزادہ معاویہ بن یزید نے بھی اسی شہر شام میں ہزاروں، لاکھوں بے شمار زائروں کو دعوت و ذکر و فکر حسنہ دے رہا ہے۔ اور مست خرابه کفر کے ذلیل ترین قاتل مروان بن حکم پر ہر منصف مزاج مورخ، محقق اور تاریخ کے سیر و سلوک کا راہی نفریں کر رہا ہے۔ جب ذکر کے دو حصوں کے تفریق ہوگئی ۔ تو ظاہر ہے دونوں کے در میان ایک حد فاصل ہے۔ یعنی ایک ذکر گمراہی ہے۔ ایک ذکر ہدایت ہے۔ انسان شاکی نہ رہے اس لئے اس کے خالق نے ذکر ہدایت کے ساتھ اپنے معصوم نمائندوں کو ان کے در میان بھیجا جو گمراہ کن اور حکومت پرستوں کے آئین رسم و رواج سے ٹکرائے اور سخت سے سخت مصائب سے دوچار ہوئے لیکن ذکر، ہدایت میں اپنی جنت کو قائم کرتے رہے تاکہ انسان جاگے اور اپنے شعور کی آنکھوں سے دیکھ کر اپنے وجود کی ابدی زندگی عذاب الیم خداوندی سے بچا لے۔ اور اگر وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آیا تو اس کے لئے ذکر ہدایت کے دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں۔ خداوند متعال اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ اگر مہربان نہ ہوتا تو ایک وقت اور ایک جگہ کو متعین نہ فرماتا جہاں ضلالت کے ساتھ آدمی دنیا کی طاقت سمیٹ کر یزید بن معاویہ بن ابو سفیان حسین علیہ السلام کے جو منصب ہدایت پر فائز تھے جو معصوم تھے اللہ تعالی کے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دلبند تھے اور خاتون جنت کے جگر پارہ تھے کر بلا کے مقام پر آپ کے ایک چھوٹے سے قافلہ پر ایسی فوج کشی نہ کی ہوتی۔ اب جو ذکر حسین کرے گا وہ حرام و حلال میں فرق بھی کرے گا۔ پاکیزگی اور نجاست میں تمیز بھی کرے گا بد اخلاقی سے گریزاں اور اخلاق پر عمل بھی کرے گا۔ وہ عاشور کی بلا خیز تپش میں کربلا کے نمازیوں سے سبق لے کر کڑی سے کڑی منزل پر ذکر نماز سے کب غافل رہے گا۔ اسی کربلا پر ذکر و فکر میں آتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب ختم المر سلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ قرآن کے لئے تزکیہ نفس کرنے کے بعد انسانوں کو علم و حکمت کی تعلیم دی اور آخر میں اللہ تعالی نے تو قرآن میں صاف کہہ دیا ہے کہ ہم اپنے ان بندوں کو اس زمین کا وارث قرار دیں گے جو اس دنیا میں کمزور کر دیئے گئے ہیں۔ اس آیت کے تحت ذکر کرہلا، ذکر شہیدان کربلا، ذکر حسین مستقبل کیا اس صبح کا اعلان کر رہی ہے جب مظلوم ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے گا اور اس کی علامتوں کو توڑ چکا ہوگا۔ یا حسین علیہ السلام کس طرح اور کس زبان سے ، کون سی طاقت گویائی الاول، کہاں سے جنبش قلم پاوں جو آپ کے ذکر سے نسبت رکھتا ہے اسے بیان کروں، کس ثبات قدمی اور کتنی جرات تھی آپ کی اس آواز میں جب آپ خلیل خدا کی وراثت کا بھرپور حق ادا کر رہے تھے۔ روایت میں ہے کہ جب امام حسین جنگ کر رہے تھے اور آپ کی پیاس اس شدت پر تھی کہ سارا جہاں و اموال و انواں نظر آرہا تھا اور سینہ اقدس حسین میں کلیجہ اس زمین کی طرح تھا جس پر پانی خشک ہو جانے سے دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور تلوار کی کاٹ اور جملہ اتنا زور دار تھا کہ آخری صف کے بد بخت سپای دیوار کوفہ سے ٹکڑا رہے اسوقت جبرئیل نے چاہا کہ اپنے پیروں کا سایہ حسین پر ڈال دیا۔ امام حسین علیہ السلام نے اسوقت ارشاد فرمایا تھا۔ بندے اور معبود کے بیچ سے ہٹ جا، جبرئیل یہ وقت امتحان ہے حسین علیہ السلام اسوقت ذکر خدا کا لسانی اور عملی امتحان دے رہے ہیں؟ وہ حسین جسکے بارے میں معنی خیز حدیث مرسل اعظم نے فرمائی تھی میں حسین سے ہوں ” بالراست اپنے مالک سے اپنے نانا کی امت کے بخشوانے کا ذکر کر رہے تھے۔ وہ تفسیر اس آیت کی بیان کر رہے تھے۔ جہاں خدا نے کہا تھا یہ عہدہ امامت ظالموں کو نہیں ملے گا۔ یہ صابروں کیلئے ہے اس لئے ذکر حسین ذکر علی ہے۔ ذکر علی ذکر رسول ہے اور ذکر رسول ذکر خدا ہے اور ذکر خدا عبادت ہے بقائے عبودیت کے مضامین، عظمت عبادت کے سب سے ارفع و اعلی نشان، خاشعین کی معراج، متقین کی آبرو، صالحین کے ضمیر کی روشنی، مومنین کے ایمان کی تنویر ، چاہنے والوں کے آنسوؤں کی توقیر، بے بضاعت کی عزت، فقیر کی قناعت پر امداد غیبی، سرکشوں کی تذلیل، متکبروں کی خواری، در دیدہء دہنوں کے دندان شکن جواب اور بہت کچھ بہت کچھ ذکر حسین سے نصب ہوتا ہے۔ سلام آپ پر اے مولا حسین آپ کی حضرت کے قبہ کے تحت دعا قبول ہوتی ہے۔ دعا ذکر خدا ہے قبولیت اس کی روح ہے۔
سجده :
معلوم نہیں پیشانی آدم سے وہ کون سی نور کی کرن چھوٹی تھی کہ تمام ملائکہ منہ کے بل سجدہ میں گر پڑے تھے۔ علامہ اقبال (لاہوری) بظاہر شیعہ نہ تھے لیکن حقیقت سجدہ کے بیان میں بخیل بھی نہ تھے ورنہ یہ کیوں کہتے۔ اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے ایک ضرب به الٰہی اک سجده شبیری علامہ اقبال نے بس اس کے سوا کیا ہے کہہ کر ایک جھٹکا سادیا ہے۔ کہیں سے جیسے کچھ کرید رہے ہوں یا جیسے کچھ اور تلاش کر رہے ہوں اور جب تھک گئے ہوں اور کچھ نہ ملا تو قلم ر کھ کر عالم حیرانی میں یہ کہہ دیا کہ بس اس کے سوا کیا ہے۔ اس شعر میں مطالب ہیں۔ آثار کی پہلو داری ہے نرم مزاجی سخت روی میں تغیّر لا سکتی ہے۔ ایک مومن میں دو متضاد کیفیت کا شعور پیدا کر سکتی ہے۔ چنانچہ وہی شاعر کہتا ہے : ہو حلقہ یاراں تو ہے ریشم کی طرح نرم، رزم حق باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔ مومن جو ریشم کی طرح نرم اور ملائم ہے وہی فولاد کی طرح سخت بھی ہے۔ علامہ موصوف نے اک سجدۂ شبیری کے سوا اور کیا ہے کہ کر سجدۂ شبیری کی تحمید و تمجید میں اپنے عقل و شعور ، فکر و فہم ، علم و عمل اور عدالت و انصاف کے مظاہرے میں اپنا گویا پورا زور لگا دیا ہے۔ پوری طاقت صرف کر دی ہے۔ اللہ تعالی کی ربوبیت ، خالقیت، مالکیت قدرت مطلقه و سعت لامتناہی، رفعت بے پایاں کے سامنے سجدہ انسان کی خاشعیت، ضعف، ذلت، حقارت، مسکینیت، مستکینت کا ایک گویا دفتر احتساب ہے جس پر سجدۂ شبیری کی آخری مہر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دمک رہی ہے۔ یعنی امام حسین علیہ السلام کا وہ آخری سجدہ جو کربلا کی سر زمین پر ادا ہوا ایک قدرت کی طرف سے ایسی کسوٹی ہے جس پر بندگان سجده گذار کے جود کا اخلاص پرکھا جائیگا۔
اهمیت سجدہ
غور طلب بات ہے کہ تخلیق بشریت سے لے کر روز سزا و جزا تک اللہ تعالی کی مشیت اور مقصد تخلیق کائنات کا مرکز صرف سجدہ ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کے لئے سجدہ کو نشان نجات قرار دیا ہے اور قرآن کریم میں متعدد بار آگہی دی ہے اور فرمایا ہے :
وويش ما في السموات والأرض،
آسمان اور زمین میں جو کچھ بھی ہے اللہ کے سامنے سر بسجود ہے۔ آگے بڑھ کر قرآن کریم کا ارشاد ہوتا ہے۔
أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ يَسۡجُدُ لَهُ ۥ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَن فِى ٱلۡأَرۡضِ وَٱلشَّمۡسُ وَٱلۡقَمَرُ وَٱلنُّجُومُ وَٱلۡجِبَالُ وَٱلشَّجَرُ وَٱلدَّوَآبُّ وَڪَثِيرٌ۬ مِّنَ ٱلنَّاسِۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيۡهِ ٱلۡعَذَابُۗ
(سورہ حج ، آیت ۱۸)
کیا تم نے انہیں دیکھا کہ زمین و آسمان میں جس قدر بھی (صاحبان عقل و شعور ہیں) اور آفتاب و ماہتاب اور ستارے پہاڑ، درخت، چوپائے اور انسانوں کی ایک کثرت سب ہی اللہ کیلئے سجدہ گزار ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جن پر عذاب ثابت ہو چکا ہے۔ اور بھی محکم اور بین آیات قرآنی ہیں جن میں سجدہ، ساجد اور مسجود کا ذکر بڑی اہمیت کا حامل ہے اور سجدہ پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حتی کہ کچھ آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت کے بعد سجده واجب قرار دیا گیا ہے سجدہ کا عمل یہ ہے کہ پیشانی زمین پر ہو (یا جس پر سجدہ جائز قرار دیا گیا ہے( اور و ذکر رب جلیل کی سبحانیت )پاکیزگی( اور حمدیث یعنی ساری تعریف اللہ کی ) کا ذکر ہو۔ دین اہلبیت نے جس طرح ہماری حیات دینوی کو سازندگی کا سلیقہ سکھایا ہے اس میں سارا جہان خدا کی بندگی میں رکھا ہے اور ان تمام عقائد اور تبلیغات باطلہ سے پرہیز کرنے کیلئے حکم دیا ہے (ہاں جو عبودیت سے منحرف کرنے والے ہیں ۔ پہلے سے بھی اور کچھ آج کل کے زمانہ میں زیادہ ہی زور شور کے ساتھ دائرہ ولایت اہل بیت میں آنے والوں کے در میان ایسے شعار اور جملے سنائی پڑتے ہیں جن سے روح کانپ جاتی ہے۔ کوئی ملک کی فکر کی بستی میں گھومتا ہے تو کوئی صوفیانہ ریاضت کا ذکر کرتا ہے( بارگاہ حسینی سے یہ آواز بھی آرہی ہے کہ محبان حسین سجدہ کی اہمیت کو قرآن کی روشنی میں درک کریں اور سجده گذاری کی صف میں شامل رہیں۔ اور ذرا سجده آخر امام حسین علیہ السلام پر غور کرئے یہ وہ سجدہ ہے جو بقائے اسلام کا ضامن ہے جو مرسل اعظم کی رسالت کا روح رواں ہے جو عالم ہست و بود میں انسانیت کا نقیب ہے اور صبر ورضا کی منزلوں میں چراغ ہدایت ہے جو خلاصہ وراثت انبیاء ہے۔ یا حسین آپ کے سجده آخر پر ہمارے ماں باپ قربان آپ پر اس لئے کہ آپ کا سجدہ آخر تمام انبیاء اور مرسلین کے مجمود کا بیانہ اور میزان قرار پایا اور ہم سب شیعوں کے بے بضاعت سجدوں کو بھی درس خاشعیت عطا فرمائی ہے۔ اے کاش ہماری قوم اس دور میں اتباع سجده حسین میں سجدہ الٰہی کا قرینہ پاجائے تو آج جو وہابیت۔ پیروان ابن تیمیہ اور دشمنان اہل بیت جو پھر سے ابھر کر آرہے ہیں ان کے بدنما چہروں پر خاک پڑ جاتی۔ یا اللہ تیری آخری حجت کے واسطہ اور وسیلہ سے تیری بارگاہ میں آتے ہیں اور ان علیہما السلام کی قداست، طہارت اور پاکیزگی سے تیری بندگی کا سلیقہ پایا ہے ہم سوگوران حسین کی قوم جو تیری کنیز خاص کی دعاؤں کی برکت سے پھل پھول رہی ہے اسے امام حسین علیہ السلام دلیند علی اور زہرا(ع) کے آخری سجدہ کی معرفت عطا فرما۔ اے اللہ تیرا شکر ادا کر تا ہوں جو شکر کرنے والے تیرا شکر مصیبت کے وقت ادا کرتے ہیں اللہ کا شکر و حمد ہے عظیم مصیبت پر۔ یا اللہ مجھے نصیب ہو شفاعت امام حسین کی قیامت کے روز اور مجھے ثابت قدم رکھ اپنے نزدیک محبت میں حسین کے ساتھ اور اصحاب حسین کے ساتھ کہ جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی نصرت میں عطا فرما۔ آمین ثم آمین۔
(زیارت عاشورہ کی آخر میں دعا جو سجدہ میں پڑھی جاتی ہے (ترجمہ)
یقین
امام حسین علیہ السلام کا نام زبان پر آتا ہے تو ہر پاک نفس کی وہ استعجابی کیفیت ہوتی ہے جسے صرف وہی محسوس کر سکتا ہے اور اس کی کیفیت کا کوئی پہلو لفظوں میں ادا کرنا جیسے ایک امر محال ہے۔ اور حقیقت میں یہی ہے کہ اہل زمین اپنی ساری عقل کو سمیٹ کر چاہیں کہ وہ صفات و اقدار جو امام حسین علیہ السلام کو پروردگار نے آپ کی خلقت میں عطا فرمائے ہیں اسے کسی بھی گوشہ سے پوری طرح سمجھ لیں یہ ممکن نہیں امام حسین علیہ السلام کا ارادہ – ارادہ کے بعد اقدام ، اقدام کے بعد صبر و استقلال کے ساتھ ہر موڑ پر اسکی منزل قرار دینا۔ منصوبہ کے لحاظ سے وقت کا تعین ، مرسل اعظم کی رسالت کا بیان۔ لب اقدس سے نکلے ہوئے لفظوں میں ایک وسیع مطالب مکتوب میں اسلوب کی جاذبیت اور حفظ مراتب سفر اور حضر میں عبادت الہیہ پر ہر نہج سے قائم رہنا۔ سلوک باہمی اندرون خانہ اور بیرون ممثلات، انتخاب میں نور مودت کا تحفظ ، لیکن آپ کی ذات مرکز انوار الہیہ تھی اور ہے جو ہر طرح سے ہر پہلو سے گویا بول رہی ہے اس دنیا میں اگر سب خلقت بشر کو اس غرض و غایت کے لحاظ سے جینا ہے کہ وہ فتنہ، مکروہات، و بال اور بلاؤں سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اور اس چند روزہ زندگی کو حیات جاودانہ اور اس کی منزلوں اور اسکے درجات عالیہ سے روشناس کرانے کا علم رکھتا ہے تو اسے چاہیے حدیث کربلا کو خوب اچھی طرح پڑھ ہے۔ اور اگر ایسا کیا تو وہ آج بھی امام حسین علیہ السلام کی صدائے استغاثہ کو گوش گزار کر سکتا ہے۔ اور آپ کی نصرت میں یا حسین لبیک کہنے کا حق رکھتا ہے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے بڑے بڑے راز حقیقت انسانی اور خلقت کائنات عالم کا انکشاف ان لوگوں پر ہوا جنہوں نے مرسل اعظم کی رسالت علی ابن ابي طالب علیہ السلام کی ولایت اور آپ کے فرزند امام حسین کے منصب امامت پر یقین کو گہرائی اور استحکام کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہیں ۔ یہیں یقین ایک ایسا چراغ ہے جو انسان کی وحشت زدہ زندگی کیلئے سکون اور چین کی راہوں کو روشن کرتا ہے اور اسے حصول علم کے وہ راستے دکھاتا ہے جس پر گامزن ہونے کے بعد کوئی بھی کسی بھی فریب سے نہ گمراہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سامری اپنے رسی کے ٹکڑوں سے تبدیل ہوتے ہوئے سانپوں سے خوف زدہ کر سکتا ہے اور نہ کوئی بد فطرت خو بصورت کا روپ دھار کر طاغوتیت کا حلقہ بگوش بنانے کی جرات کر سکتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یقین کی ضوفشانی میں ایک کامیاب اور کامران زندگی بسر کرنے کا راز مضمر ہے لہذا یقین سر چشمہ معرفت خدا اور ائمہ ھداۃ معصومین ہے۔ بالاختصاص ہم کب پر تو عظمت حسین کی جھلک پا سکتے ہیں؟ اگر ہم نے اپنے یقین کی جستجو کو اس جانب جو یقین کی اعلی ترین منزل ہے یعنی امام حسین علیہ السلام کے یقین کی منزل کی طرف تیز اور تیز گام نہیں ہوں گے۔ لیکن یہ یقین جو ہر زبان کی نوک پر رہتا ہے جسے ہر کوئی اپنی اپنی زبان سے متعدد بار ادا کر تا رہتا ہے وہ ہے کیا؟ اسے کیسے سمجھایا جائے، یا اسے کسطرح احاطہ احساس میں لا سکتے ہیں اسکے معنی اور مطالب کی شرح چنداں به حد عقل کس طرح کر سکتے ہیں اور پھر امام حسین کے یقین کے بارے میں کچھ لکھنے کی جرات و حوصلہ کیسے پیدا کریں گے ؟ مضمون کا دامن چھوٹا ہے، قلم کی سکت بہت کمزور ہے تا ہم قارئین کیلئے جتنے مطالب ہو سکتے ہیں اسے تو بیان کر ہی سکتے ہیں۔
یقین کی تعریف
یقین اسے کہتے ہیں جہاں شک کا گزر نہ ہو ۔ جو لاریب ہو جہاں وہم و گمان کی دخالت ممکن نہ ہو یقین تور قلب ہے۔ یہ پاکیزہ قلوب کو اپنا مسکن قرار دیتا ہے اس تعریف کے تحت یقین کے مندرجہ ذیل شعبہ ہیں:
ا۔ تبصرہ الفطنہ ۔ وہ بصیرت چو نشر و مندوں کی املاک ہے۔
۲۔ حکمت کی جڑ تک پہونچنے کیلئے استوار بہت سے قدم آگے بڑھانا۔ سے
۳_عبرت سے نصیحت حاصل کرنا۔ جائے عبرت ہو تو اس پر اپنی فکر کو مہمیز کرنا۔
۴۔ سنت الاولین ۔ جو نیک اور صالح بندے گزر گئے ہیں ان کی سنت پر عمل کرنا۔
اگر ہم شعبہ ہائے مذکور کی طرف نگاہ کریں گے یا یوں کہوں ان شعبوں کی سیر کریں گے تو پتہ چلے گا ہمارے وجود کے ظرف نے کس درجہ یقین کی بیش بہا نعمت کو پایا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہمیں ثمرات الیقین، یعنی یقین کے پھلوں کی دستیابی ہوگی اور ہم ان کے فوائد سے حیات دنیوی کو حیات اخروی کی بشارت دیں گے۔ یہ ثمرات الیقین کیا ہیں ہم ان کے باب کو تو کھول کر تفصیل سے کام نہیں لے سکتے ہیں کہ ہر باب کے نام ضرور گنا کر اس کی تعریف میں دو جملے لکھ سکتے ہیں۔
ثمرات الیقین
۱- صبر
یہ سب سے اساسی لازمہ یقین کا ہے۔ جب صبر یقین کے ماتھے پر نور بن کا ساطع ہوتا ہے تو اسے خالق کی قدرت کا اندازہ ہوتا ہے اور اسی کے تحت تاثیر ایک عجیب رونق حیات و جود و خاکی پر پیراہن دیدہ زیب بن جاتا ہے اور ایک عجیب لذت روحانی سے انسان دوچار ہوتا ہے۔ اس کے مدارج ہیں۔ جو بلند ہو کر ایسی ارفع على منزل کی طرف جاتے ہیں جہاں سے میر حسین کی جلوہ گاو نظر آنے لاتا ہے۔ امام حسین کا صبر یقین کا معیار ہے۔ آپ کا صبر یقین کی معراج ہے۔ امام حسین آپ کے پر تو یقین سے ہمیں عبرت کا سلیقہ عنایت فرمایئے۔
۲۔ اخلاص
یہ یقین کی جڑوں کو مضبوط کرتا ہے اگر اخلاص میں ذرا بھی دراڑ آئی تو یقین متزلزل ہو جائے گا۔ اخلاص سے دین قوی ہوگا اس لئے کہ دین کی اساس یقین ہے۔
۳۔ زہد و تقوی
قرآن کا فرمان ہے یتقبل الله من المتقين
توكل ۴-
توكل على الله. اللہ پر بھروسہ رکھنا۔
۵- رضا
اللہ کے فیصلہ پر رضامند رہنا۔
۶۔ تسہیل مصائب
مصائب سے گھبرانا نہیں، اللّٰہ اپنے بندے کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف میں مبتلا نہیں کرتا۔ اب جب بات یقین کی آہی گئی ہے تو اس کی پہچان کیسے ہو، اس کا بھی ذکر کرتا چلوں اس لئے کہ لفظ یقین کو لوگ ادا کرنے میں بڑے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔ ہر ظالم پر دنیا پرست ہر ہٹی یا ضدی اپنے حصول مال اور حصول شہرت اور دنیا کیلئے ہی نہیں بلکہ اس لفظ کو استعمال کرکے خود کو کیا فریب دیتا ہے اسوقت جب ظلم کرتا ہے یا جب کسی کا کردار بد اخلاق، بد نفس حکمرانوں کے حکم کو مان لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کی باتوں پر یقین کرتا ہوں۔ بہت سے ایسے مراحل اور مواقع ہر دن در پیش آتے رہتے ہیں جہاں لوگ اپنے لئے یقین کا لفظ استعمال کر کے خود کو فریب دیتے رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے عقل کے بارے میں جب معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ جس کے بل پر وہ اپنی حکومت چلاتا تھا تو وہ صاحب عقل تھا۔ اس کے جواب میں معصوم نے فرمایا معاویہ کے پاس یہ عقل نہیں تھی جس کے ذریعے وہ حکومت کرتا تھا بلکہ عقل کی ایک ضد ہے جسے نکرہ کہتے ہیں وہ تھی۔ وہ اس کرہ کے سہارے تمام افعال شنیعہ کا مرتکب ہوتا تھا۔ ورنہ وہ حجر بن عدی کو کیوں قتل کرواتا۔ وہ یزید کی خلافت کیلئے سارے سیاسی داؤں پیچ کیوں بروئے کار لاتا۔ یہ عقل کا فیصلہ نہ تھا بلکہ نکرہ کے ذریعہ طلب دنیا اور اقتدار حکومت کیلئے اقدام کرنا تھا۔ بعینہ اسی طرح جحود و یقین کی ضد ہے۔ ہم یہاں جحود پر کچھ قارئین کرام کی نظر کرنے کیلئے سعی کریں گے۔ ہر چیز اپنے ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ ہے۔ چنانچ یقین محکم ہے یقین کمزور ہے۔ اوسط درجہ پر ہے۔ یقین نہیں ہے اس کا بھی ایک پیمانہ ہے اللہ تعالی کی تمام نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ ہر انسان اپنی فطرت میں اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت کردہ قوت فیصلہ رکھتا ہے۔ جیسے جیسے یقین کی ضد جود انسان کے یقین پر غالب آتا ہے یا اپنے اثرات یقین میں سرائت کرتا ہے ویسے ویسے ایک کیفیت این خود بخود اس پر ظاہر ہوتی ہے۔ انسان ایسی صورت میں تاویلات یا بہانہ تراشی سے کام لے کر خود کو مطمئن یا منزل یقین پر سمجھنے کی بات کر تا ہے ۔ امروز و فردا میں ہر ایک جو حق کے سامنے کھڑے باطل کی حمایت کرتے ہیں وہ کیفیت کو جانتے ہوئے باطل پرستی پر ڈٹے رہتے ہیں۔ یہ منزل یقین نہیں ہے منزل مجود ہے جو کا اپنا شکر ہے ہم یہاں اس کے چند سر براہوں کا ذکر کریں گے۔
اول: ہوائے نفسی: ہوا و ہوس پر آدمی کیا نہیں کر گزرتا۔ آج شہوات نفسانی کے کتنے مراکز کھلے ہیں اور اسکو ہنر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وہ عامل ہے جو انسان کے یقین کے چراغ کی لو کو بالکل مدھم کر دیتا ہے۔ اور اسے زندگی کے اوصاف حمیدہ اس دھند لگے میں بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔
حرص: لالچ – طمع: دولت کا زیادہ سے زیادہ جمع کرنا، عیش کوشی کیلئے تمام اسباب کی فراہمی جائز ناجائز، حرام حلال، اچھا برا، ان سب میں تمیز نہ کرنا احتیاط برتنے سے بالکل غافل ہو جانا اور پھر جب کوئی کمزور ہونے لگیں تو خود کو کسی تاویل کے زریعے یہ حلق ، یقین میں تصور کرنا۔
جدال: طبعیت پر قابو نہ رکھ کر خوب بحث میں مصروف رہنا اور بحث میں اپنی دفاع میں جو کچھ کیا ہے یہ کہا ہے اسے صحیح ثابت کرنا۔ آج کل ہمارے جوان اسی الٹی سیدھی بحثوں میں انسانیت کے حد سے گزر جاتے ہیں۔
حب المال: یہ ایک بہت کڑا اور سخت امتحان ہے۔ جاد اور مال کی اسکی چاہت جس پر اپنے فیصلہ کو خدا کا فیصلہ سمجھتا ہیں جیسے مسلم بن عقبہ۔ یہ وہ شخص ہے جو یزید ملعون کی طرف سے سپہ سالار تھا اور جس نے کعبہ کے حدود میں آگ کے گولے برسائے ، غلاف کندہ جلا دیا اور انہدام کعبہ کا مرتکب ہوا۔ خدا نے اسے وہیں مرض الموت میں مبتلا کیا۔ اور جب واصل جہنم ہونے لگا تو اپنے سرداروں کو بلا کر کہا تم لوگ گواہ رہنا کہ میں نے یزید کے ہاتھ پر بیت کی تھی اور خلیفہ یزید کے کہنے پر کعبہ پر حملہ کیا تھا۔ یہ جحود کی وہ منزل ہے جہاں تلقین کی پوری، بھر پور ضد سامنے آجاتی ہے۔ دنیاپرستوں کے ساتھ رہنا: جحود کا ایک سب سے بڑا اور قومی حربہ دنیا پرستی ہے دنیا پر ستی کچھ ایسے جال پھینکتی ہے جس میں اگر کوئی چنا تو پھر حق پرستی کی طرف اگر مائل ہونا بھی چاہے تو اس جال کے چندے اسکو جکڑ کر رکھتے ہیں۔
قیامت پر ایمان نہ رکھنا: معلوم نہیں کتنی باتیں قیامت پر ہوتی ہیں ہر اسلام قبول کرنے والا قیامت پر ایمان رکھنے کا دعوی کرتا ہے۔ پر قاری قرآن قیامت کو اپنا حاصل ایمان جانتا ہے کون مسلمان ایسا ہے جو یہ کہے کہ اسکا ایمان قیامت پر نہیں ہے لیکن اگر نچوڑا جائے تو اکثریت وہ نکلے گی ۔ جو سرکش، مطلق العنان اور قیامت کے دان سے بے خوف نظر آئے گی۔
یقین: کتاب کا نور ہے، قلب انسان کی روح کا مرکز ہے ، زبد تقوی اس کا فانوس ہے، صبر ، اخلاص، توکل، رضا، تبوین مصائب یقین کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب ہم یقین کی بات کرتے ہیں اور اس بات میں کچھ دم ہوتا ہے کچھ زور ہوتا ہے کچھ روشنی ہوتی ہے تو یاد آتا ہے امام حسین علیہ السلام کا یقین کیا ہو گا، وہ کون سی بلندیاں ہوں گی، کون سی رفعتیں ہوں گی جہاں آپ کا یقین جلوہ گر ہو گا۔
ایثار و قربانی: اے منی کی سرزمین، فخر کر کربلا کے شہیدوں پر میج عاشور سے عصر عاشور تک وارث خلیل و اسمعیل نے بہتر شہیدوں کو یکے بعد دیگر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا “هذا قربان تقبل منا اور جب امام حسین خود شہید ہوئے تو پہلو میں بہن کھڑی ہو کر دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کر کے کہہ رہی تھیں اقر بان تقبل منا۔ کیا خوب کہا علامہ اقبال نے
عجیب سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت جسکی حسین ابتداء ہیں اسمعیل
سکون قلب: کون سا ایسا مذہب ہے جو سکون قلب کی تلقین نہ کرتا ہو لیکن کون سی ایسی تدبیر کسی نے یا کون سی صورت ایسی نکالی ہو جس سے سکون قلب حاصل ہو۔ یا حسین آپ پر سوگواروں کے بر ناو پیر بچے عورتیں کیسا بیتاب ہو کر آپ کے مصائب پر گریہ کرتی ہیں اور بے شمار لوگوں سے یہ کہتے سنا ہے جب امام حسین علیہ السلام کے مصائب سن کر جی بھر کر رولو تو قلب کو سکون ملتا ہے۔ یا حسین آپ سرچشمہ اطمینان قلب ہیں۔ اے پردہ غیب کے سوگوار مولا حجّت ابن الحسن علیہ السلام ہماری قوم کے قلوب کو ذکر حسین، سجدہ حسین، یقین حسین، ایثار و قربانی حسین اور اطمینان قلب حسین کے صدقے میں ہمیں ایسی توفیقات عطا فرمائے جو بارگاہ حسینی میں ہمیں منہ دکھانے کے قابل بنادیں۔ آمین۔