تاریخ اسلام پر غائرانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ کربلا کے واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے تاریخ نزول اسلام اور تاریخ ابلاغ پیغام اسلام ہے اور کربلا اور کربلا کے بعد کی تاریخ، تاریخ بقاء اسلام ہے۔ اسلام آیا ضرور لیکن اسلام کے دشمن صدر اسلام ہی سے اس کے مٹانے کے درپے تھے۔ واقعہ کربلا کی تاریخ اسلام کا ایسا واقعہ ہے جس نے اسلام کے دشمنوں کے چہرے سے نقاب ہٹایا اور رہتی دنیا تک کے لئے اعلان کر دیا اور کرتا رہے گا کہ اسلام کے مٹانے والے کون لوگ تھے اور ہیں اور اسلام کو بچانے والے کون لوگ تھے اور ہیں ۔ اس مضمون میں ہم ان دشمنوں اور مخالفین کی تفصیل بیان نہیں کرنا چاہتے البتہ ہم نے ارادہ کیا ہے کہ واقعه عاشورا کے بعد کربلا سے شام تک اسیران کربلا اور بالخصوص حضرت زینب بنت امیر المومنین علیھا السلام نے کیا کیا مصیبتیں برداشت کیں اور کس طرح سے شہادت امام حسین علیہ السلام اور اپنے جد بزرگوار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی حفاظت کے لئے دشمنوں کے پیغامات کی اشاعت کی بعض واقعات کا تذکر ہ کریں۔
قبل اس کے کہ ہم اصل موضوع پر آئیں اختصار کے ساتھ یہ لکھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ کاروان اسراء کربلا، کربلا سے شام تک کن راستوں سے گزرا ہو گا۔
کوفہ اور شام کے سفر کے لئے تین راستے ہیں اور احتمال یہ ہے کہ کاروان اسراء اُنہیں تینوں راستوں میں سے کسی ایک سے گذرا ہے، سب سے کم مسافت والا راسته بادية الشام“ کا ہے جو تقریبا آٹھ سو کلو میٹر پرمشتمل ہے ۔ دوسرا راستہ فرات کے کنارے کنارے ہے اور بعض جگہوں سے پانی سے بھی گذرنا ہوتا ہے اور تقریبا بارہ سو کلومیٹر کا راستہ ہے، اور تیسرا راستہ سب سے طولانی ہے سولہ سو کلومیٹر جو مُختلف شہر جیسے تکریت ، موصل نصیبین اور حلب وغیرہ سے گذرتا ہے۔ آج کی تاریخ میں اگر ان راستوں کو دیکھا جائے تو کئی ملک سے ہو کر گزرتے ہیں ۔ ایک راستہ راہ سلطانی بھی ہے اور تقریباً ۱۵۴۵ کلومیٹر ہے۔
معتبر و قدیم تاریخ ہمارے پاس نہیں ہے کہ اسیروں کا قافلہ مذکورہ راہوں ہی سے گذرا ہے اور اہل بیت کی کوئی حدیث بھی ہمارے پاس اس سلسلہ میں نہیں ہے البتہ جو کچھ ہماری دسترس میں ہے۔ کچھ جزئی اور نا کافی نشانیاں جو پراکنده اور منتشر صورت میں بعض کتابوں میں آئی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ داستانیں اورغیر معتبر واقعات بعض نا قابل استناد کتابوں میں آگئے ہیں اور پھر وہی دوسری کتابوں میں تکرار ہوئے ہیں۔
بہر حال جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ بعض واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں اسیران کربلا کی ملاقات مختلف شہروں اور مقامات پر مختلف لوگوں کے ساتھ ہوئی ہے اور یہ واقعات معتبر کتابوں میں نقل ہوئے ہیں لہذا ان شواہد کی بنا پر او “بادية الشام” کو دیگر راستوں پر ترجیح دی جاسکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یھی بتائی جاتی ہے کہ اموی حکومت نے عاشورا کے فورا بعد کوفہ میں امام سجاد علیہ السلام اور جناب زینب کے شجاعانہ اور دلیرانہ خطبوں سے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر اسرا، لوگوں کے درمیان پہنچیں گے تو اموی حکومت کے ظلم و جور کی تشہیر ہوگی لہذا حکومت نے پایا کہ اسراء کی رسائی کم سے کم لوگوں تک ہو اور “بادية الشام” کا راستہ کم آباد اور بڑے شہروں سے خالی ہے۔
اس مختصر مقدمہ کے بعد ہم اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں۔ کر بلا سے شام کے راستوں میں کوفہ نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔
کوفہ کی طرف
۱۱ محرم ۶۱ھ بعد از ظہر اہل بیت اطہار کا قافلہ کربلا سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔ اب امام زین العابدین علیہ السلام زمانہ کے امام تھے۔ اس قافلہ کے تمام امور کے آپ ذمہ دار تھے اور سب پر آپ کی اطاعت واجب تھیں۔ اہل بیت کی سب سے بزرگ اس قافلہ میں جناب زینب علیھا السلام تھیں جو بیمار امام، حضرت سجاد علیہ السلام اور پورے قافلہ کی حفاظت پر مامور تھیں، گویا آپ قافلہ سالار تھیں۔
عورتیں اور بچے جنھوں نے عاشور کے دن رنج و مشقت اور غم برداشت کئے تھے۔ اپنی آنکھوں سے دہلا دینے والے واقعات کا مشاہدہ کیا تھا، عزیزوں کی لاشوں کو دیکھا تھا گھوڑوں کی ٹاپوں سے لاشوں کو پامال ہوتے دیکھا تھا، ایسی عورتوں اور بچوں کی ذہنی کیفیت کیا رہی ہوگی، اس کا اندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔ ان حالات میں ان کو نبھانا آسان کام تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جناب زینب علیھا السلام نے ان سب کو سنبھالا۔
امام حسین علیہ السلام اور اصحاب امام حسین علیہ السلام کے لاشے بے گور و کفن بیابان میں چھوڑ دیے گئے اور عمر سعد نے اہل بیت کو کربلا سے کوفہ روانہ کر دیا عورتوں، بچوں، کنیزوں اور امام سجّاد کو ہے کجاوہ اونٹوں پر سوار کر دیا گیا۔ کامل بہائی میں لکھا ہے کی بیس عورتیں تھیں اور امام باقر چار سال کے تھے اور امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ ساتھ تھے ۔ خدا نے دونوں کو محفوظ رکھا۔
)نفس مہموم ج ۵, ص ۲۰۹(
امام سجاد علیہ السلام کی بے تابی
شہداء کے سروں کو نیزوں پر بلند رکھا گیا تھا، یہ قافلہ کوفہ پہونچا، امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تم اہل بیت اور دیگر عورتوں کو اونٹوں پر سوار کر کے کوفہ روانہ کرنے لگے تو میں نے شہدا کو خون میں لت پت زمین پر دیکھا۔ یہ میرے لئے بہت گراں تھا۔ جو کچھ دیکھ رہا تھا اس سے آشفتہ اور حیران تھا اور نزدیک تھا کہ میری جان نکل جائے اس وقت میری پھوپھی حضرت زینب علیھا السلام نے میرے حزن و پریشانی کے آثار کو دیکھا اور مجھ سے کہا: اے میرے جد اور میرے بابا اور میرے بھائی کے باقی ماندہ تم اس وقت اپنی جان کو اپنی ہتھیلی پر رکھے ہو کیا تم اپنی جاندے دو گے؟ میں نے کہا (اے پھوپھی اماں) میں کیوں کر بتیاب نہ ہوں؟ کیوں نہ میرا صبر جاتا رہے؟ میں اپنے سید و سردار اور بھائیوں اور چچاؤں اور اپنے متعلقین کو خون میں آلودہ زمین پر دیکھ رہا ہوں۔ ان کے لباس کو لوٹ لیا گیا، نہ کوئی کفن دینے والا ہے اور دفن کرنے والا ہے۔
کوئی ان کی طرف نہیں آتا اور کوئی ان کے پاس نہیں ہے۔ گویا یہ لوگ ہمیں مسلمان نہیں جانتے میری پھوپھی نے فرمایا۔
راوی بشارت، جناب زینب علیھا السلام
امام سجاد علیہ السلام کے اضطراب پر عالمہ غیر معلمہ حضرت زینب علیھا السلام نے فرمایا یہ باتیں تمہیں بیتاب نہ کریں، رسول خدا کا وعده ہے تمہارے جد (علی علیہ السلام) اور تمہارے والد (امام حسین علیہ السلام) اور تمہارے چچا (امام حسن علیہ السلام) سے، اور خدا نے اس امت کی ایک جماعت سے عہد و پیمان لیا ہے کہ زمین کے فرعون انھیں نہیں پہنچنے گے لیکن انسانوں کے فرشتے انہیں پہچان لیں گے اور وہ ان بکھری ہوئی ہڈیوں کو جمع کریں گے اور ان خون آلودہ پیکروں کو سپرد خاک کریں گے اور اس طف (کربلا) میں تمہارے والد سید الشهداء علیہِ سلام کی قبر پر نشانی رکھیں گے کہ جس کا اثر کبھی پرانا نہ ہوگا اور اس کا نشان راتوں اور دنوں کے گذرنے کے ساتھ ختم نہ ہوگا۔ کفر کے راہبر اور گمراہیوں کے پیروکار اس کے مٹانے کے لئے کوشاں ہونگے لیکن وہ اس حال میں بھی ظاہر ہوگا اور یہ کام ایسے ہی آگے پڑھے گا ، یعنی اس کی رفعت و بلندی بڑھتی رہے گی۔
)نفس مہموم ف ۵, ص ۲۱۰(
تزکر: یہ حدیث اخبار غیب اور معجزات ائمہ علیہم السلام سے ہے۔ یہ حدیث کتابوں میں موجود ہے اور ساڑھے تیرہ سو سال سے زیادہ گزر چکے ہیں اور جناب زینب علیھا السلام کی نقل کردہ یہ پیشین گوئی آج اور بھی واضح و روشن اور سچّی نظر آتی ہے۔ کریلا آباد ہے۔
کوفہ میں جناب زینب علیھا السلام
شیخ مفید اور شیخ علوی بھائی نے خزلم بن ستیر سے روایت کی ہے کہ اس نے نقل کیا کہ میں ۶۱ ھ محرم میں وارد کوفہ ہوا اور اِسی وقت حضرت علی بن حسین علیہ السلام کو اور اہل بیت کی عورتوں اور بچوں کو کوفہ میں لایا گیا اور ابن زیاد کے لشکر نے انھیں گھیرا ہوا تھا اور کوفہ کے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر تماشا دیکھ رہے تھے۔ جب اہل بیت کو بے کجاوہ انٹوں پر وارد کوفہ کیا گیا تو کوفہ کی عورتوں پر رقت طاری ہوئی اور انھوں نے گریہ و ندبہ شروع کر دیا، اس وقت میں نے علی بن حسین علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ شدید مرض اور ضعف کی حالت میں طوق و زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ آپ علیہ السلام کے ہاتھ گردن پر بندھے ہیں اس وقت آپ علیہِ سلام نے آہستہ سے پوچھا کہ کیا یہ عورتیں ہم پر گریہ کر رہی ہیں پس ہم کو کس نے قتل کیا ہے؟
اس وقت حضرت زینب علیھا السلام نے خطبہ کا آغاز کیا اور خدا کی قسم میں نے ایسی باحیا با عفت، فصیح و بلیغ جناب زینب بنت علی علیہالسّلام اس سے بڑھ کرکسی عورت کو نہ دیکھا کہ اپنے باپ کی زبان سے گفتگو کر رہی ہیں اور کلمات امیر المونین علیہِ سلام ان کی زبان سے نکل رہے ہیں۔ اس شور و غل والے اژدھام میں جہاں ہر طرف سے صدائیں بلند تھیں۔ لوگوں کی طرف اِشارہ کیا کہ خموش ہوجاؤ۔ جیسے ہی اشارہ ہوا تمام لوگ نے سکوت اختیار کیا۔ اونٹ کی گھنٹیوں کی آواز بھی رک گئے اور لوگ اپنی اپنی جگہ پر ٹھہر گئے ۔ پھر آپ نے خطبہ شروع کیا اور خدا کی حمد و ثنا اور خواجہ لولاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد آغاز کیا۔
یَااَہْلَالْکُوْفَۃِیَااَہْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ وَ الْخَذْلِ اَلَا فَلَا رَقَاتِالْعَبْرَۃِ……
(منتہی الامال از شیخ عباس قمی ج ای -۴۱۰؛ احتجاج طبرسی ج ۲, ص ۱۱۰، جلاء العیون ، باب ۵, ص ۴۱۰)
اے اہل کوفہ ! اے گروہ دغا و دغل دشاو دل، اے مکار و خیانت کار لوگوں ! کیا تم ہم پر روتے ہو اور نالہ و گریہ ہمارے لئے ہے ،خدا کرے تمہاری آنکھوں سے آنسوؤوں کا سیلاب نہ رکے، تمہارے سینوں سے کبھی نالوں کا سلسلہ ختم نہ ہو تم اس عورت کی مانند ہو جو اپنے سوت کو مضبوطی سے کاتنے کے بعد اس کے دھاگوں کو کھول دے۔ تم نے ایمان کی رسی بٹی اور اسے کھول دیا اور کفر کی طرف پلٹ گئے۔ تم میں کوئی اچھی عادت اور خصلت نہیں ہے۔ البت تم شیخی بگھار نے خود پسندی کرنے، دشمنی کرنے، جھوٹ بولنے اور لونڈیوں کی طرح چاپلوسی کرنے اور دشمنوں کی طرح آنکھ سے اشارہ کرنے، چغلخوری کرنے والے ہو، تمہاری مثال اس گھاس کی سی ہے جو کوڑے پر اُوگی ہوئی ہو یا سفیدی جو قبر کے اوپر لگائی گئی ہو پس تم نے برا توشہ اپنی آخرت کے لئے بھیجا ہے اور خود کو ہمیشہ کے لئے جہنمی بنا لیا ہے۔ آیا تم ہم پر گریہ کرتے ہو جب کہ تم نے ہمیں قتل کیا؟ خدا کی قسم تم کو بہت رونا چاہئے اور کم ہنسنا چاہئے کیونکہ تم نے ابدی ذلت و رسوائی، عیب و عار و ننگ کو اپنے لئے خریدا ہے۔ اس ذلت و رسوائی کا دھبہ کسی پانی سے نہ چھوٹے گا۔ جگر گوشہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جوانان جنت کے سردار علیہما السّلام کے قتل کا تدارک کسی چیز سے نہیں کیا جاسکتا تم نے اس کو قتل کیا ہے جو تمہارے نیک لوگوں کی پناہگاہ تھا۔ ہر نازل ہونے والی مصیبت و بلیات میں اس کے ذریعہ نجات پاتے تھے، اپنے دین و شریعت کو اس سے سیکھتے تھے۔ تم پر لعنت ہو کہ تم نے بد گناہی کیا، خود کو رحمت خدا سے نا امید کر لیا، دنیا و آخرت میں نقصان کا سودا کرلیا، خدا کے عذاب کے مستحق ہو گئے، ذلت و رسوائی کو خود کے لئے خرید لیا تمہارے ہاتھ کٹ جائیں۔
وائے ہو تم پر اے اہل کوفہ اس طرح تم نے جگر گوشہء رسول کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اور کس طرح تم نے پردہ دار مخدرات حجورات کو بے پردہ کر دیا ہے اور اس طرح تم نے ان کے برگزیده فرزندوں کے خون کو بہا یا کس طرح تم نے ان کی حرمت کو ضائع کیا۔ تم نے ایسا قبیح، رسوائی کا کام کیا ہے کہ زمین و آسمان کو تہ و بالا کر دیا، کیا تعجب کرتے ہو تمہارے اس کام سے آسمان نے خون برسایا۔ یاد رکھو آخرت میں جو کچھ اس کا اثر ظاہر ہوگا وہ تمہارے ان اعمال کے اثر سے کہیں زیادہ عظیم ہوگا۔ پس اس مہلت پر جو تمہیں مل گئی ہے خوش اور مغرور نہ ہو کیونکہ خدا انتقام لینے میں عجلت نہیں کرتا اور اسے یہ خوف نہیں کہ انتقام کا وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اور خدا گناہ گاروں کی گھات میں ہے۔
راوی کہتا ہے کہ جگر گوشه فاطمہ زہرا علیھا السلام خاموش ہوگئیں اور میں نے دیکھا کہ کوفہ کے لوگ یہ باتیں سن کر حیرت زدہ ہو گئے اور وہ رو رہے تھے اور اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے کاٹ رہے تھے۔ میں نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا کہ اس کے آنسو نے اس کے چہرے اور داڑھی کے بالوں کو تر کر دیا اور وہ کہ رہا تھا :
کُہُولُکُمْ خَیئرُالْکُہُوْلِ وَنَسْلُکُمْ اِذَا عُدَّ نَسْلٌ لَا یَبُوْرُ وَلَا یَخْزَی
ان کے بوڑھے بہترین بوڑھے ہیں اور ان کی نسل جب شمار کی جائیں تو نا امید اور رسوا نہ ہوئی۔
احتجاج کی روایت کے مطابق اس وقت علی بن حسین علیہ السلام نے فرمایا :
اے پھُوپھی اماں خاموش ہو جائیں۔ باقی رہنے والے گذشتگان سے عبرت حاصل کریں اور آپ تو بِحَمْدِ اللہِ عَالِمَۃٌ غَیْرُمُعَلِّمَۃٍ، فَہِمَۃٌغَیرُمُفَہَّمَۃٍ میں یعنی آپ بغیر تعلیم کے تعلیم یافتہ ہیں اور دانہ ہیں کہ درسگاہ سے سیکھنے کی جس کو ضرورت نہ ہوئی گریہ و بکا رفتگان کو پلٹا نہیں سکے گا۔
پھر جناب زینب علیھا السلام خاموش ہوگئیں۔
تذکر: اس خطبه بلیغہ کا ترجمہ بالغاء اور فصحا کے نزدیک ایک مشکل کام ہے کیونکہ اس خطبہ کے الفاظ وكلمات امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی حضرت زینب علیھا السلام کی زبان سے نکلے ہیں اور اس خطبے کو سننے والوں نے ہی کہا ہے گویا امیر المومنین علیہ السلام خطاب فرما رہے ہیں۔ ہم نے اس کے ترجمہ کے لئے درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔
۱- دمع السجوم ترجمہ نفس مہموم شیخ عباس قمی قدس سرہ اور ترجمه فارسی از آقای حاج میرزا ابو الحسن شعرانی
۲۔ جلاالعیون از علامہ مجلسی رحمۃاللہ علیہ ( فارسی)
٣۔ احتجاج تالیف شیخ جلیل ابو منصور احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی رحمۃاللہ علیہ (فارسی)
۴- منتہی الامال از مرحوم شیخ عباس قمي رحمۃاللہ علیہ
۵۔ لہوف از سید ابن طاووس رحمۃاللہ علیہ
جیسا کہ ہم نے نقل کیا ہے کہ ترجمہ ایک مشکل کام ہے، یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم نے مفہوم لکھے ہیں البتہ بعض عبارتوں کے بعینہ ترجمہ کئے ہیں۔ مفہومی ترجمہ میں بعض جگہوں پر ضمیریں میں بدلی ہوئی ہیں لیکن اصل مفہوم نہیں بدلا ہے۔
غورطلب: امام زین العابدین علیہ السلام نے جناب زینب علیھا السلام کو جان القاب سے نوازا ہے ان سے جناب زینب علیھا السلام کی عظمت و جلالت بخوبی واضح ہوتی ہے اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ چشمہ وحی سے سیراب ہوئی ہیں اور آپ کا علم عالم بشری سے بلند تھا۔ آپ مکتب ولایت کی تربیت یافتہ تھیں۔ آپ کا قلب علم و معرفت کے نور سے منور تھا۔
دوسری غور طلب بات یہ کہ جناب زینب علیھا السلام معاشرہ شناس تھیں۔ کوفہ کے لوگوں کو خود ان کا تعارف ان کے سامنے کیا۔ یہ معاشرہ شانسی بھی آپ علیہا السلام کو اپنے والد سے میراث میں ملی تھی ۔ عربی ادب کا ماہر جاحظ کہتا ہے۔ “لوگوں کے اصناف اور ہر قوم وقبیلہ کی عادت کے لحاظ سے امیر المومین علیہ السلام خطاب فرماتے تھے اور جناب زینب علیھا السلام کا یہ فصیح و بلیغ خطبہ ان کے والد کے خطبہ کی طرح تھا”۔
)نفس المہموم ص ۲۱۵(
جناب زینب علیھا السلام کے خطبہ نے کوفیوں کے افکار میں انقلاب پیدا کر دیا اور وہ اپنے کئے پر پشیمان ہوئے۔ آپ نے دشمن کے ان مظالم کو بیان کیا جو کہ اس نے کربلا کے میدان میں اہل بیت رسول پر روا رکھے تھے۔ لوگوں کو ان مظالم کی حقیقت سے آگاہ کیا۔ آپ کے خطبہ کے سبب انقلاب برپا ہوا کہ جس نے کربلا کے شہیدوں کے خون کا انتقام لیا اور بنی امیہ کی حکومت کا قصہ ختم کر دیا۔
جناب زینب علیھا السلام قصر الامارہ میں
قصر الامارہ کو دارالامارہ بھی کہتے ہیں ۔ یہ عمارت کوفہ میں مسجد کوفی کی پشت پر تھی۔ آج کل اس کی بنیاد اور کچھ دیواریں باقی رہی ہیں۔ یہ عمارت سعد ابن ابی وقاص کے ذریعہ سن ۱۷ ھجری میں مسجد کوفہ کی تعمیر کے بعد بنی تھی۔ جو لوگ عراق کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور جب کوفہ میں بیت امیر المومنین کی زیارت کو پہنچتے ہیں تو اس بیت کے دروازے کے سامنے چہرہ کر کے کھڑے ہوں تو ان کے بائیں ہاتھ کی طرف دار الامارہ کا موجودہ کھنڈر دکھائی دیتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس زمانہ میں اس کی حیثیت حکمرانوں کے محل کی تھی۔ آج کل مختار نامہ میں اس عمارت کی شبیہ دیکھی جاسکتی ہے ۔ اسی دارالامارہ ۶۰ ہجری میں مسلم بن عقیل کو شہید کیا گیا۔ ۶۱ ہجری میں امام حسین علیہ السلام کا سر اور اسیرانِ کربلا اس میں آئے۔ ۶۶ ہجری میں عبید الله ابن زیاد اسی دارالامارہ میں مارا گیا۔ ۶۷ ہجری میں جناب مختار بن عبيده ثقفی کو شہید کیاگیا۔ ۷۱ ہجری میں مصعب بن زبیر اسی میں قتل ہوا۔
کہتے ہیں کہ جب مصعب ابن زبیر نے جناب مختار کو شہید کر دیا عبد الملک مروان مصعب سے جنگ کے لئے عراق آیا اور اسے شکست دیدی اور دار الامارہ میں داخل ہوا اور اس کے سامنے مصعب بن زبیر کا سر رکھا گیا۔ ایک عرب جس کا نام “ابو مسلم نخعی” تھا کھڑا ہو اور عبد الملک سے کہا :
“میں نے اس دارالامارہ میں دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام کا سر بریده ابن زیاد کے سامنے رکھا گیا اور کچھ دن بعد دیکھا کہ ابن زیاد کا سر اسی جگہ پر مختار کے سامنے رکھا گیا اور کچھ دن گزرا تھا کہ میں مختار کا سر برید و اسی جگہ پر مصعب کے سامنے دیکھا اور اب مصعب کا کٹا ہوا سر تمہارے سامنے دیکھ رہا ہوں، کہتے ہیں کہ عبد الملک وحشت زدہ ہوگیا اور حکم دیا کہ دارالامارہ کو ویران و مسمار کر دیا جائے لہذا اسے ڈھا دیا گیا اورکوفہ کی گندگی کو اس میں بہایا جانے لگا۔
فَاعْتَبِرُوْا یَااُوْلِی الْاَبْصَارِ
یہی دار الاماروہ ہے جسے ہم در باران زیاد کہتے ہیں ۔
جب عبد الله ابن زیاد کو کوفہ میں اہل بیت کی آمد کی خبر ملی تو اس نے اعلان کروایا کہ ہر خاص و عام دربار میں حاضر ہوں۔ لہذا اس کا دربار شہریوں اور دیہاتیوں سے بھر گیا۔ اس مضمون میں چونکہ ہم صرف جناب زینب علیھا السلام کے واقعات نقل کر رہے ہیں اس لئے دربار میں رونما ہونے والے تمام واقعات جیسے سر امام حسین علیہ السلام سے ابن زیاد کی بد تمیزی اور صحابی رسول زید بن ارقم کو قتل کی دھمکی وغیرہ کو چھوڑ کر صرف جناب زینب علیھا السلام کی داستان بیان کرتے ہیں۔
ابن زیاد سے مکالمہ
راوی کہتا ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام کے اہل و عیال روم کے قیدیوں کی طرح اس مجلس شوم و منحوس میں پیش کئے گئے۔ جناب زینب علیھا السلام ایک اجنبی کی طرح دربار میں داخل ہوئیں اور ایک گوشہ میں بیٹھ گئیں اور اہل بیت کی دوسری عورتیں بھی آپ کو گھیرے میں لے کر بیٹھ گئیں۔ ابن زیاد نے پوچھا یہ عورت کون ہے جو اپنی کنیزوں کے ساتھ ایک گوشہ میں بیٹھی ہے کسی نے جواب نہ دیا تو دوبارہ سوال کیا، پھر جواب نہ ملا اور جب تیسری دفعہ پوچھا تو ایک کنیز نے کہا کہ رسول کی نواسی زینب بنت فاطمہ علیھا السلام ہیں ابن زیاد نے جناب زینب علیھا السلام کو مخاطب کر کے کہا: شکر اس خدا کا جس نے تم کو رسوا کیا اور تمہارے جھوٹ کو ظاہر کیا۔ جناب زینب علیھا السلام نے فرمایا :
حمد ہے اس خدا کی جس نے اپنے نبی کے ساتھ ہمیں عزت بخشی اور ہمیں ہر رجس و آلائش سے پاک و پاکیزه قرار دیا۔ رسوا تو فاسق ہوتا ہے اور جھوٹ فاجر بولتا ہے۔ الحمد للہ وہ ہم نہیں ہیں بلکہ دوسرے لوگ ہیں۔
ابن زیاد نے کہا: دکھا خدا نے اہل بیت کے ساتھ کیا کیا؟ جناب زینب علیھا السلام نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے خدا نے شہادت مقدر کردی تھی چنانچ وہ اپنی آرام گاہ کی طرف فراخ دلی کے ساتھ چلے گئے اور میں نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہ دیکھا۔ خدا تجھے اور ان کو جمع کرے گا اور تو ان سے احتجاج کرے گا۔ اس وقت دیکھنا کہ سعادت مندو کامیاب کون ہے؟ ابن مرجانہ تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے۔
عمرو بن حریث کہتا ہے کہ اس مکالمہ سے ابن زیاد بہت کھسیا گیا تھا اور اتنا غصہ میں آ گیا تھا کہ گو جناب زینب علیھا السلام کا قتل کر ڈالے گا۔ ابن زیاد کے حاشیہ نشینوں میں سے ایک نے کہا: اے امیرالمومنین یہ عورت ہے اور عورتوں کی بات پر مواخذہ نہیں کیا جاتا۔
جب ابن زیاد سے کوئی جواب نہ بن سکا تو اس نے کہا: تیرے باغی بھائی اور سرکش اہل خانہ کے قتل نے میرے دل کو شفا دی ہے۔ جناب زینب علیھا السلام پر رقت طاری ہوئی اور وہ رو پڑیں اور فرمایا: تو نے ہمارے بڑے قتل کرایا اور ہماری جد اور شاخ کو کاٹ دیا اور بنیاد کو اکھاڑ دیا، اگر تیری شفا اسی میں تھی تو پھر مجھے شفا ملی ہے۔
ابن زیاد کہنےلگا: یہ عورت سجاعہ (سجع: علم بدیع نثر کے وہ فقرات جن کے آخری کلمات ہم قافیہ ہوں :
سجاعه: بم قافیہ استعمال کرنے والی)
سے ہے اور مجھے اپنی جان کی قسم کہ اس کا باپ بھی جامع اور شاعر تھا۔ جناب زینب نے فرمایا :
میری حالت ایسی نہیں اور مجھے فرصت نہیں ہے۔
این نما کی روایت کے مطابق آپ نے فرمایا: مجھے اس شخص پر تعجب ہے کہ جسے اپنے ائمہ کو قتل کر کے شفا ملتی ہے جب کہ وہ جانتا ہے کہ اس جہاں میں انتقام لیں گے ۔
اس کے بعد وہ ملعون سید سجّاد علیہِ سلام کی جانب متوجہ ہوا۔
)نفس المہموم ص ۲۲۶ تا ۳۲۳: جلاء العیون ص ۷۱۷(
اس طرح بنت علی نے جرأت و شجاعت کے ساتھ اپنے خطبہ سے ابن زیاد کو مجمع عام میں رسوا کر دیا اور اہل بیت رسول پر روا رکھے جانے والے مظالم سے پردہ اٹھادیا۔ ابن زیاد نے مجمع اپنی قدرت نمائی کے لئے اکٹھا کیا تھا لیکن وہ ناکام رہا۔
امام حسین علیہ السلام کا سر اور اسراء کربلا کی داستان کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ۔ امام حسین علیہ السلام کا سر جہاں پہنچتا تھا وہاں شور گر یہ بلند ہو جاتا تھا۔ انقلاب کی سی حالت پیدا ہو جاتی تھی ۔ اس لئے وہ ملاعین جو سر امام حسین علیہ السلام کوفہ سے باہر لائے، وہ عرب قبیلوں سے خائف تھے کہ وہ شور و غل کریں گے اور سر کو چھین لیں گے لہذا وہ لوگ اصل راستوں سے پرہیز کرتے ہوئے غیر آباد راستوں سے چلے، البتہ جب کسی قبیلہ میں پہنچتے تھے تو کہتے کہ خارجیوں کے سر ہیں۔
) کامل بهائی ۲/۲۹۱(
کوفہ سے شام کے راستے میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں۔
ثقط جنین : امام حسین علیہ السلام کی ایک بیوی حاملہ تھیں اور حلب کے نزدیک ایک پہاڑ پر حمل گر گیا۔ بچے کا نام محسن تھا اور وہ اسی پہاڑ پر دفن ہے جو مشهد سقط اور مشهد الدکتہ“ کے نام سے آج بھی مشہور ہے۔
ایک منزل پر امام حسین علیہ السلام کی ایک بیٹی اونٹ سے گرگئی تھیں اور فریاد کی :یا عمتاه، و یا زینبا۔ جب جناب زینب علیھا السلام نے آواز سنی اور ادھر ادھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بچی اونٹ کے پیر کے نیچے آگئی ہے اور اس دنیا سے رخصت ہو گئی اور جناب زینب علیھا السلام کا یہ نالہ بلند ہوا: واضیعتاه، واغربتاه، واختاره.
واقعہ دیر راہب
امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک سے معجزہ کا ظاہر ہونا اور راہب کا اس طرف متوجہ ہونا، بہت ہی مشہور واقعہ ہے۔ یہ حلب سے ایک منزل کے فاصلہ پر واقع قنسرین کے مقام پر رونما ہوا تھا۔
)منتہی الآمال ۱/۴۱۹(
اس کے علاوہ بھی بہت سی منزلوں پر واقعات رونما ہوئے جیسے موصل نصیبین، بعلبک، میافارقین اور شیز وغیرہ کے مقام پر ۔
اختتام پر امام زمان علیہ السلام کے حزن وغم کو ان کی جد و ماجد و عالمہ غیر معلمہ حضرت زینب علیھا السلام کے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔
مرحوم حاج شیخ اکبر علی کی نہاوندی اپنی گرانقدر کتاب میں نقل کیا ہے کہ شیخ جلیل حاج ملا سلطان علی روضه خوان تبریزی جو کہ عباد و زھاد میں سے تھے نقل کیا ہے کہ عالم رویا میں حضرت بقیة الله ارواحنافدا کی خدمت میں سے مشرف ہوا اور عرض کیا: میرے آقا و مولا، آپ نے زیارت ناحیہ میں فرمایا :
فَلَاَنْدُبَنَّکَ صَبَاحًا وَ مَسَاءً وَ لَاَبْکِیَنَّعَلَیْکَ بَدَلَ الدُّمُوْعِ دَمًا۔
پھر میں صبح و شام آپ پر ندبہ کرتا ہوں اور آنسو کے بدلے خون روتا ہوں۔ کیا یہ صحیح ہے؟
تو حضرت علیہ السّلام نے فرمایا: ہاں صحیح ہے۔ میں نے عرض کیا: وہ کون سی مصیبت ہے کہ جس پر آپ آنسو کے بدلے خون گریه فرماتے ہیں؟ کیا مصیبت علی اکبر ہیں؟
فرمایا: اگر علی اکبر زندہ ہوتے تو وہ بھی اس مصیبت پر خون کے آنسو روتے ۔ میں نے کہا: کیا مصیبت عباس ہے؟
فرمایا: اگر حضرت عباس بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی اس مصیبت پر خون کے آنسو بہاتے؟ میں کے کہا: یقینا مصیبت سید الشہداء علیہ السلام ہے؟
حضرت نے فرمایا: اگر حضرت سید الشهداء علیہِ سلام بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی اس مصیبت پر خون روتے۔ میں نے عرض کیا پھر وہ کون سی مصیبت ہے؟
فرمایا: زینب علیھا السلام کی اسیری کی مصیبت کہ جس پر میرے خون کے آنسو بہائے جائیں ‘‘
)عبقری الحسان، ج ا ص ۹۸(
خدایا تُجھے جناب زینب علیھا السلام اور تمام اسیرانِ کربلا کا واسطہ کہ ان پر کئے جانے والے ظُلم کا انتقام لینے کے لئے امام زمان علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرما و تمام دشمنان اہل بیت علیہم السلام کو ذلیل وخوار فرما۔