شرح دعاء العہد

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِوَجْہِکَ الْکَرِیْمِ وَ بِنُوْرِ وَجْہِکَ الْمُنِیْرِ وَ مُلْکِکَ الْقَدِیْرِ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ اَسْئَلُکَ بِاسْمِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ بِہِ السَّمَوَاتُ وَالْاَرْضُوْنَ وَ بِاسْمِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ بِہِ السَّمَوَاتُ وَالْاَرَضُوْنَ وَ بِاسْمِکَ الَّذِیْ یَصْلُحُ بِہِ الْاَوَّلُوْنَ وَالْاٰخِرُوْنَ یَا حَیُّ قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ یَا حَیُّ (حَیًّا) بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ حِیْنَ لَا حَیَّ یَا مُحْیِیَ الْمَوْتٰی وَ مُمِیْتَ الْاَحْیَاءِ یَا حَیُّ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ۔
پروردگارا! میں تجھ سے طلب کرتا ہوں تیرے کریم وجہ کے صدقے میں اور تابندہ وجہ کے صدقے میں اور تیرے قدرتمند ملکیت کے صدقے میں اے ذات زنده اے قیوم (یعنی جو خلوقات کو اپنے قبضہ قدرت میں رکھے ہوئے ہے اور انہیں زیر و زبر کر رہا ہے) میں تجھ سے طلب کرتا ہوں تیرے اس نام کے صدقے میں جسکی بنا پر آسمان اور زمین روشن ہوتے ہیں اور تیرے اس نام کی بنا پر سے اولین اور آخرین کی اصلاح ہوتی ہے۔ اے ہر زندہ سے پہلے زندہ اور ہر زندہ کے بعد زندہ جو اس وقت زندہ تھاجب کوئی اور زندہ نہ تھا۔ اے مردوں کو زندہ کرنے والے اور اے زندوں کو موت دینے والے اے زندہ تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں۔
دعا عہد کے اس فقرے میں ہم الله سبحانہ کو اسکے وجہ، وجہ کے نور، خدا کے ملک اور اسکے خاص اسم اور نام کا واسطہ دیتے ہیں۔ یہاں چند اہم اصطلاحات کا ذکر کرتے ہیں۔
وجہ کے لغوی معنی ہیں چہره وہ شی کہ جسکے ذریعہ کسی چیزی کی طرف ہم متوجہ ہوتے ہیں وجہ اور جاہ سے مراد قدر اور منزلت بھی ہے۔ قرآن کریم میں بھی لفظ وجہ متعدد مرتبہ استعمال کیا گیا ہے۔ مثلا وجہ الله، وجہ ربہ اور وجہ ربهم دیکھا جاسکتا ہے۔
وجہ خدا کیا ہے؟ پہلی بات تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اللہ اور ہے اور اسکا وجہ اور امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ اَعْظَمْ مِنْ اَنْ یُوْصَفَ بِالْوَجْہِ (التوحيد, الشيخ الصدوق, ص ۱۴۹)
بیشک اللہ – جو صاحب عزت و جلال ہے۔ اس سے زیادہ برتر ہے کہ اسکی توصیف چہرے سے کی جائے۔
یعنی مذہب حقہ اہل بیت علیہم السّلام میں تنزیہ پروردگار عقیدہ توحید کا نہایت ہی اہم رکن ہے۔ یعنی خدا کو ہر طرح کی تشبیه و تمثیل سے پاک اور منزہ قرار دینا۔ ہر وہ چیز جو مخلوق میں پائی جاتی ہے خدا اس سے پاک اور منزہ ہے۔ پھر وجہ سے مراد کیا ہے؟ آیئے روایات آل محمد علیہم السّلام کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھیں کہ وجہ کے کیا معنی ہیں؟
وجہ سے مراد دین ہے
مندرجہ بالا مذکور حدیث میں امام باقر (علیہِ السلام) نے پہلے وجہ کے جسمانی معنا سے خداوند متعال کی تنزیہ کی۔ پھر اس طرح وضاحت فرمائی: وَلٰکِنْ مَعْنَاہُ کُلَّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا دِیْنَہٗ وَ الْوَجْہُ الَّذِیْ یُؤْتیٰ مِنْہُ۔
بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر شئے ہلاک ہو جائیگی سوائے اس کے دین کے اور وجہ اسے کہتے ہیں کہ جس کے ذریعہ اس تک پہنچ جاتا ہے۔ ( التوحید، شیخ الصدوق، ص ۱۴۹, ،ح ۱)
وجہ سے مراد حق کا راستہ ہے۔
حارث بن مغیره النصری جو امام صادق علیہ السّلام کے نہایت معتبر صحابی اور محدث تھے نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السّلام سے اس آیہ کریمہ کے متعلق سوال کیا
کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ
تو آپ نے جواب میں فرمایا:
کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا مَنْ اَخَذَ طَرِیْقَ الْحَقِّ۔
ہر چیز ہلاک اور معدوم ہوجائےگی سوائے اسے جس نے حق کے راستے کو اپنایا۔ (التوحيد الشيخ الصدوق ص ۱۴۹, ح ۲)
اور حق کا راستہ کیا ہے؟ حضرت محمّد صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کی اطاعت اور فرمانبرداری ہی وجہ پروردگار ہے۔ مندرجہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر امام صادق علیہ السّلام نے اس طرح فرمائی:
مَنْ اَتَی اللہَ بِمَا اُمِرَ بِہٖ مِنْ طَاعَۃِ مُحَمَّدٍ فَہُوَ الْوَجْہُ الَّذِیْ لَا یَہْلِکُ وَ کَذَالِکَ قَالَ مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ
جس نے حضرت محمد کی اطاعت کی گویا وہی وجہ ہے جو بلاک نہیں ہو گا اور اسی لئے الله سبحانہ نے ارشاد فرمایا: جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (التوحید، الشیخ الصدوق، ص ۱۴۹، ح ۳)
وجہ سے مراد اہل بیت علیہم السّلام ہیں امام باقر السلام علیہِ السلام فرماتے ہیں:
نَحْنُ وَجْہُ اللہِ نَتَقَلَّبُ فِیْ الْاَرْضِ بَیْنَ اَطْہُرِکُمْ عَرَفَنَا مَنْ عَرَفَنَا وَ مَنْ جَہِلَنَا فَاَمَامَہُ الْیَقِیْنُ۔
ہم الله کے وجہ ہیں جو تہمارے درمیان روئے زمین پر آتے جاتے رہتے ہیں۔ جس نے ہمیں پہچانا اس نے ہمیں پہچانا (اسکا ثواب اپنی جگہ پر ہے) اور جس نے ہم سے غفلت برتی تو یقین (موت) اسکے سامنے ہے۔ (التوحيد الشيخ الصدوق ص ۱۴۹, ح ۶ )
اب ان تینوں معنی کو اگر یکجا کریں تو مفہوم یہ ہے اہل بیت علیہم السّلام ہی وجہ اللہ ہیں، دین خدا بھی وہی ہیں اور وہی حق کا راستہ ہیں۔ خیثمہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السّلام سے اس آیہ کریم
کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ
کے بارے میں سوال کیا۔ آپ علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا:
دِیْنَہٗ وَ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ وَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ دِیْنَ اللہِ وَ وَجْہَہٗ
وجہ سے مراد الله کا دین ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم اور امیر المومنین علیہ السّلام کے دین ہیں اور اسکے وجہ ہیں۔
(التوحید، شیخ الصدوق, ص ۱۴۹، ح ۷)
دعا عہد کے اس فقرے میں جس وجہ کریم کا واسطہ دیا جا رہا ہے اس سے مراد ذوات مقدسہ محمد اور آل محمد (علیہم السّلام) ہیں اور یہی وجہ نورانی پروردگار ہیں کہ جن کے وسیلہ سے اگر کوئی دعا مانگے اسکی دعا مستجاب ہوگی۔
لفظ ملكك القدیر ہے (کچھ نسخوں میں القديم ہے) یعنی تیری توانا ملکیت۔ اللّٰہ اپنے ملک پر مکمل قدرت کا حامل ہے۔ یعنی وہ جسے چاہے ملک دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے۔
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎ (سورہ آل عمران، آیت ۲۶)
اے حبیب آپ کہ دیجئے کہ بارے الاہا تو ہی ملک کا مالک ہے۔ جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے رسوا کرتا ہے۔ اختیار تیرے ہاتھوں میں ہیں۔ یقیناً تو ہر چیز پرقدرت رکھتا ہے۔
الله نے انسان کو قدرت، اختیار اور تمام انوار قدسیہ کا مالک بنایا لیکن وہ ان پر املکیت رکھتا ہے۔ وہ زیادہ مالک ہے۔ جب چاہے سلب کر لے۔ کوئی انسان یہ گمان نہ کرے یہ تمام چیزیں اسکی اپنی ہیں بلکہ سب کے سب عاریتی ہیں۔ اسکی عطا ہیں۔ ہم اسکے مقابلے میں فقیر ہیں۔ بندگی کا تقاضا بھی یہی ہے۔
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ اَسْئَلُکَ بِاسْمِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ بِہِ السَّمَوَاتُ وَالْاَرْضُوْنَ
ذات حق وہ ذات جو زندہ ہے لیکن یہ بات آپ کے اذہان عالیہ میں محفوظ رہے کہ اسکی حیات کا مفہوم ہماری زندگی کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہماری زندگی کا خالق اور مالک ہے۔ ہمیں اختیار نہیں ہے کہ ہم اسکی حیات کے تعلق کوئی وہمی خیالی یا عقلی صورت قائم
کریں۔ اسکے اسماء کے لئے ہمیں ویسے ہی تنزیہ کرنا چاہیئے جیسے اسکی ذات کے بارے میں ہمہ تنزیہ اور تسبیح کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جب ہم خدا کی حیات کا ذکر کریں تو صرف انتا کہیں کہ لا یموت فيه (التوحید، ص ۱۳۸-۱۴۰, ۱۴۶)
وہ زندہ کہ جسکی ذات میں موت کا گزر نہیں ہے۔
اسکی ذات میں موت کا تصور نہیں ہے۔ جیسے مخلوقات کے یہاں زندگی کے ساتھ موت کا بھی تصور پایا جاتا ہے۔ بلکہ ذات حق مخلوقات کی زندگی اور موت کا خالق ہے۔
یا قیوم کا مطلب کہ وہ پوری کائنات کو زیر و زبر کر رہا ہے۔ ہم سب اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ تمام مخلوقات ( بغیر استثنی) کاولی، سرپرست، محافظ مصلح اور مقدر (دال پر زیر) اسکی ذات ہے۔ کوئی اسکی حکومت اور سلطنت سے فرار اختیار نہیں کرسکتا ہے۔ سب کہ سب اسکے مقابل میں خاضع اور خاشع ہیں۔
اسکے بعد ہم اللہ تعالی کو اس نام کا واسطہ دیتے ہیں جس کے توسط سے تمام آسمان اور زمین روشن ہیں۔ اسم یعنی نام اور علامت کیوں کہ اسم و – س- م سے بنا ہے جسکا مطلب ہے علامت۔ لہذا جب ہم کہتے ہیں بسم اللّٰہ تو اسکا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنے نفس پر علامت گزاری کر رہاہوں کی میں اللہ کی مخلوق ہوں اور و میرا خالق ہے۔
امام رضا علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ
بِسْمِ اللہِ اَیْ اِسئمُ نَفْسِیْ بِسِمَۃٍ مِنْ سِمَاتٍ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ وَہُوَ الْعُبُوْدِیَّۃُ قَالَ فَقُلْتُ لَہٗ مَا السِمَۃُ قَالَ الْعَلَامَۃُ
بسم اللّٰہ یعنی میں اللہ کی علامتوں میں سے ایک علامت اپنے اوپر لگاتاہوں اور وہ علامت عبودیت ہے۔
راوی کہتا ہے میں نے سوال کیا کی سمہ سے مراد کیا ہے امام علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا: علامت
(معانی الاخبار، ص ۳، ح ۱)
یہاں چند باتیں عرض کرنا ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اسماء و صفات پروردگار ذاتی نہیں فعلی ہیں۔ امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ اسم مسمی کے علاوہ ہے۔ تمام اسما غیر اللہ ہیں۔ (الکافی، ج ا، ص ۸۷، ح ۲)
دوسرے یہ کہ اللہ کے اسماء دو طرح کے ہیں ایک لفظی اور دوسرے کونی۔ لفظی یعنی وہ اسماء جو حروف سے مرکب ہو کر الفاظ بنے ہیں جیسے اللّٰہ “رحمٰن” “رحیم” وغیرہ۔ اور کونی سے مراد اللّٰہ کی تمام مخلوق ہیں جو اسکی طرف دلالت کرتی ہیں۔ اور تمام اسماء میں محمد صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم اور آل محمد علیہم السّلام اللہ کے اسم اعظم اعظم اعظم ہیں کہ جنکے نور سے یہ بزم امکان روشن ہوا ہے۔ دعاؤں میں اس طرح کے جملے ملتے ہیں:
و أشرقت الأرض بنور کم (البلد الامین, ص ۳۰۲)
زمین روشن ہوئی آپ کے نور سے۔
اللہ کے کتنے اسماء ہیں؟ روایات کی روشنی میں اللّٰہ کے چار ہزار اسماء لفظی ہیں۔
جب الله ہمارے وہم و خیال میں آ نہیں سکتا ہے تو اسکی نام گزاری کا فائدہ کیا؟ جواب یہ ہے کہ یہ اسماء خود اس نے اپنے لئے منتخب کئے ہیں۔ ان اسماء ہی کے ذریعہ ہمیں اسے پکارنا چاہئے۔ ہمیں حق نہیں ہے کہ ہم خود اپنی طرف سے اسکے لئے نام وضع کریں۔ اس نے اس بات کی اجازت ہمیں نہیں دی۔ اسکے تمام اسماء اور صفات موقوفی ہیں۔ موقوفی یعنی ہمیں اختیار نهیں ہے کہ ہم اس کے بتائے ہوئے ناموں کے علاوہ اس کے لئے کوئی اور نام استعمال کریں۔
الله ہر ایک کام کو ایک خاص نام کی روشنی میں انجام دیتا ہے تفصیلات کے لئے رجوع کریں دعا سمات جسے عصر جمعہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
وَ بِاسْمِکَ الَّذِیْ یَصْلُحُ بِہِ الْاَوَّلُوْنَ وَ الْاٰخِرُوْنَ
اور انہی اسماء اعظم کے توسط سے اولین اور آخرین کی اصلاح ہوتی ہے۔
یعنی ان کے لئے دنیاوی اور اخروی کامیابی اور سعادت کے وسائل فراہم کئے جاتے ہیں۔
یَا حَیُّ قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ یَا حَیُّ (حَیًّا) بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ حِیْنَ لَا حَیَّ یَا مُحِیِیَ الْمَوْتَی وَ مُمِیْتَ الْاَحْیَاءِ یَا حَیُّ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ
اے وہ ذات زندہ جو ہر زندہ سے پہلے ہے اے وہ ذات زندہ جو ہر زندہ کے بعد ہے۔ اے وہ زندہ جب کوئی اور زِندہ شی نہ تھی۔ اسے مردوں کو زندگی دینے والے اور زندوں کو موت دینے والے اے وہ زندہ کہ تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے۔ لفظ زندگی اور حیات پر اوپر بحث ہو چکی ہے۔ محی باب افعال کا اسم فاعل ہے یعنی زندگی دینے والا۔ اور موتی میت کی جمع ہے جس کا مطلب ہے مردہ۔ اسی طرح ممیت یعنی موت دینے والا۔ یہ اسم فاعل ہے اور احیاء حی کی جمع ہے۔
زندگی اور موت کا دینے والا اللہ ہے۔ وہ جسے چاہے جب چاہے موت دے اور جسے چاہے جب تک چاہے زندہ رکھے۔ اگر وہ چاہے تو اپنی حجت کو آگ کے شعلوں میں زندہ رکھے، اگر وه چاہے تو اپنی حجت کو چوتھے آسمان پر بلا کر زندہ رکھے۔ اگر وہ چاہے اپنی حجّت کو کنویں کی گہرائی میں زندہ رکھے۔ اگر وہ چاہے اپنی حجّت کو مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رکھے۔ اگر وہ چاہے اپنی حجّت کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل غیبت میں زندہ رکھے۔ یقینا زندگی کا عطا کرنے والا خداوند لا زوال ہے۔
افسوس کہ نام نہاد مسلمان نہ جناب ابراہیم علیہ السّلام کے آگ میں زندہ رہنے میں شک کرتے ہیں نہ جناب عیسی علیہ السّلام کے آسمان پر زندہ رہنے میں نہ جناب یوسف علیہ السّلام کے کنویں میں زندہ رہنے میں کسی کو شک وتردید ہے اور نہ ہی جناب یونس علیہ السّلام کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے میں۔ ہاں اگر کسی کی حیات پر اعتراض ہے تو اس ذات مقدس کی حیات پر ہے جو اس روئے زمین پر اللّٰہ کی آخری حجت ہے جو یملا ارض قسطا و عدلا کا مصداق ہے جو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کا بارہواں جانشین ہے یعنی حضرت امام مہدی علیہ السّلام جن کی غیبت اور ظہور کا تذکرہ قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے۔
یہاں اس اہم نکتہ کی طرف متوجہ کرانا چا ہتے ہیں کہ در حقیقت امام زمانہ علیہ السّلام کی حیات پر اعتراض کرنا خداوند عالم کی قدرت پر اعتراض کرنا ہے۔
ہم خداوند متعال کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ پروردگارا ! تُجھے تیری آخری حجت امام مہدی علیہِ السلام کے وجود مقدس کا واسطہ ہمیں ایسے پرفتن زمانہ میں حضرت امام مہدی علیہِ السلام کی امامت کے عقیده پر ثابت قدم فرما اور دشمنان اسلام کے پیدا کردہ شک وشبہات سے محفوظ فرما۔ (بقیہ آئندہ انشاء الله)

سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
قرآن کی آیات کا اسلوب کچھ ایسا اعجاز ستائش گر رہتا ہے کہ اس کی تعریف پر قلم اٹھائیں تو ذہن معنٰی و مطالب کے اوج کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے۔ انسان پھر بھی انسان ہے۔ اللہ نے جتنی عقل دی ہے اسے پوری طرح سے درک بھی کر لے تو بڑی بات ہے۔ کبھی كبھی اس کے بیان میں لفظیں ملتی ہی نہیں ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ دل کی دھڑکنوں کی مضراب سے کوئی نغمہ آسمانی اُبھر رہا ہے۔ مثلا قرآن کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی آیت۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سوره احزاب، آیت ۵۶)
بیشک الله اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں تو اسے صاحبان ایمان تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو۔
آیت کا آخری لفظ پوری آیت کی تفسیر کر رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے ذہن دنیاوی زندگی کے دھند لکے سے نکل کر انوار سحر کی خنکی محسوس کر رہا ہے۔ آیت کی آخری لفظیں سلِّمو تسلیما کو جب ہم اپنے خیالات کو کھنگالتے ہیں اور مبذول کرتے ہیں اپنی کوشیشوں کو اس راہ پر چلنے کی جس راہ پر لوگ اپنے نقش قدم چھوڑ گئے ہیں جو سلِّمو تسلیما کے پیکر خاکی کے مظہر تھے۔ اگر اس آیت کی روشنی میں ہم ان لوگوں کو بھی دیکھیں جن کا وظیفہ اس آیت کے درود وسلام پر رہتا ہے۔ انھوں نے اس سلِّمو تسلیما کا کتنا حق ادا کیا ہے۔ اگر ایک بڑی اکثریت اِس طرف پوری زندگی سلِّمو تسلیما کے ڈھانچے میں ڈھال لیتی تو شاید اس میں نہ کبھی زلزلے آتے، نہ کبھی سنامی کا سیلاب آمنڈتا، نہ کوہ آتش فشاں سے سیل رواں بستیوں کو لقمہ اجل بنا لیتا۔
(۱) لفظ تسلیم و سلامة يا سلام سے مشتق کیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں فرمانبردار ہونا یا سپرد کر دینا۔ (المنجد، ص ۴۸۷)
لفظ سلم قرآن میں چار جگہ بمعنی اطاعت و تسلیم استعمال ہوا ہے۔ سورہ نساء آیت ۹۰ اور ۹۱ میں اور سورہ نحل آیت ۲۸ اور ۸۷ میں۔
قارئین کے لئے ایک آیت کو نقل کر رہا ہوں۔
وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ (سورہ نحل، آیت ۸۷)
اس دن وہ لوگ اللہ کے سامنے سر تسلیم نہ ہونگے۔
تسلیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
۱ – سلیم ظاہری
۲ – تسلیم قلبی
تسلیمِ ظاہری طور پر انسان مدّ مقابل کے سامنے سر تسلیم خم ہوتا ہے قلبی سلیم سے فاقد ہوتا ہے۔ بلکہ اگر اسے موقع مل جائے تو مد مقابل کے خلاف دو بارہ آتا ہے۔ یہی چیز قرآن میں اس طرح ملتی ہے۔
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (سورہ حجرات، آیت ۱۴)
یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔
رابطہ مابین اسلام و ایمان
مندرجہ بالا آیت اسلام اور ایمان کے مابین ایک بین فرق کی طرف اشارہ ان لوگوں کے لئے کرتی ہے جنہوں نے اسلام تو قبول کرلیا لیکن ان کے سامنے ایمان کی منزل به منزل ارتقاء کے مدارج نہیں ہیں۔ اسلام اسی وقت اسلام کی تعریف میں آئیگا جب رہوران اسلام ایمان کی حقیقت کو سمجھ لیں، درک کرلیں، جس کا تعلق امامت و ولایت اہل بیت علیہم السّلام سے ہے۔ جس کے بغیر اسلام اپنی ہیت اور وجود کا تصور تو پیش کر سکتا ہے لیکن وہ اسلام کی ظاہری صورت سے زیادہ اور کچھ ہی نہیں ہے۔ لہذا تسلیم ظاہری سے انسان مسلمان تو ہوسکتا ہے مگر مومن نہیں ہوسکتا۔
اب ہم ایمان اور اسلام کے بارے میں امام صادق علیہ السّلام کے قول کو بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ جس میں آپ علیہ السّلام فرماتے ہیں:
اسلام وہ ظاہری چیزیں ہیں جس پر عام طور سے لوگ قائم ہیں یعنی خدا کی توحید اور یکتائی کی گواہی اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کو خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکات ادا کرنا، ماہ صیام میں روزے رکھنا یہ ہے اسلام۔ لیکن ایمان ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ اہل بیت علیہم السّلام کی امامت و ولایت کا اقرار کرنا ہے اگر کوئی شخص ان تمام باتوں کا اقرار کرے اور ولایت و امامت کوتسلیم نہ کرے تو وه مسلمان تو ہوگا لیکن گمراہ ہوگا ( مومن نہیں ہوگا)۔
(تفسیرِ برہان، ج ۴، ص ۲۱۲، ح ۵؛ کافی ، ج ۲ ص ۲۴، ح ۴)
تسلیم ظاہری انسان کے لئے موجب عذاب ہوتی ہے۔
مثلا قرآن آواز دے رہا ہے کہ جو کوئی خدا اور اس کے دستور (حکم) سے منہ موڑے گا۔ یعنی حسد ہوں، ہرص، عجب وغیرہ کریگا تو خدا اس پر عذاب نازل کریگا۔ ظاہری طور پر انسان اسے قبول کرتا ہے اور اسے سمجھتا بھی ہے مگر یہ بات اس کے قلب کی گہرائیوں تک نہیں اترتی ہے۔
وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (سورہ نمل، آیت ۱۴)
اور باوجود یکہ ان کے دل کو ان معجزات کا یقین تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تکبر سے ان کو نہ مانا۔ تو (اے رسول) دیکھو کہ (آخر) مفسدوں کا انجام کیا ہوا۔
یہ کلام الہی کا اعجاز ہے کہ وہ اس نفسیاتی پہلو کتنے اچھے انداز میں بیان کر رہا ہے۔
باوجود یہ کہ ان کے دل کو اس کا یقین تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے سر کشی اور تکبر سے ان کو نہ مانا۔
فرعون جانتا تھا کہ موسیٰ علیہ السّلام حق بیانی کررہے ہیں اور اس کی عقل اُنہیں تسلیم بھی کر رہی تھی مگر خود پسندی اور جاہ و حشم، سلطنت و ریاست کی وجہ سے اُنہیں قلبی طور پر تسلیم نہیں کیا۔
معاویہ بن ابی سفیان دوسروں سے زیادہ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کو جانتا تھا مگر ان جناب علیہِ السلام کے سامنے خاضع نہیں تھا ان علیہِ السلام سے بغض و عناد رکھ کر اپنی عاقبت برباد کرلی۔
تسلیم قلبی
یہی تسلیمِ حقیقی ہے یہی جنت کی ضمانت ہے۔ قلب انسانی میں جب تسلیم كا نور پیدا ہوتا ہے تو اس کی وسعتیں، اس کا عمق بڑھ
جاتا ہے۔
یہی اصل تسلیم ہے جو انسان اپنے قلب سے کرتا ہے۔ اور تسلیمِ قلبی کا ثمرہ ایمان و عمل ہوا کرتا ہے۔ ہم اسی تسلیم حقیقی پر تبصره کریں گے۔
یہ کہنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ جب تسلیم ظاہری تسلیم قلبی میں بدلتی ہے تو انسان معراج کی منزل پر نظر آتا ہے کبھی وہ سلمان محمدی رحمۃاللہ علیہ، حر بن یزید ریاحی، تو کبھی زہیر بن قین بجلی، ہارون مکی، فضیل بن یسار، کلیب (التسليم)، وغیرہ بن جاتا ہے۔ مگر جب خدانخواستہ یہی تسلیم صرف شعور تک محدود رہ جائے تو وہ حسان بن ثابت، علی بن حمزه البطانی، شلمغانی کی شکل میں نظر آتا ہے۔
جب انسان تسلیم و رضا کی منزل میں آجاتا ہے تو اس کو خود کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ وہ امام سے کیوں اور کیا کی بحث نہ کرے۔ اگر امام صادق علیہ السّلام کے سامنے ایک ہی سیب کے دو حصے کر کے رکھ دیئے جائیں اور امام علیہ السّلام فرمائیں سیب کا یہ حصہ حلال اور یہ حصہ حرام ہے تو سوال کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔
آیئے دیکھتے ہیں احادیث ائمه معصومین علیہم السّلام کی روشنی میں تسلیم حقیقی کیا ہے۔
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًایعنی سَلِّمُوْالہ الْوَلَایَۃَ بھما
یعنی ولایت اور جو کچھ اس کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے اسے تسلیم کرنا۔ (تفسیرِ القمی، ج ۲, ص ۱۹۶؛ تفسیر برہان، ج ۴, ص ۴۸۸)
ابو بصیر نے امام صادق علیہ السّلام سے سورہ احزاب آیت ۵۶ کے بارے میں سوال کیا تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا:
ان پر صلوت بھیجنا اور جو کچھ انھوں نے بتایا اس کے سامنے سر تسلیم خم ہونا ہے۔ (محاسن، ج ۱, ص ۲۷۱)
ابو باشم کہتے ہیں میں امام جعفر صادق علیہ السّلام کے ساتھ مسجد الحرام میں تھا۔ والی ( گورنر ) مدینہ منبر پر گیا اور جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کہا
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
امام جعفر صادق علیہ السّلام نے مجھ سے فرمایا: اے ابو ہاشم یہ کیا جانے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں؟ پھر آپ علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا
(سلموا الولاية (لعلى) تسلیما یعنی حضرت علی علیہ السّلام کے ولایت کے سامنے سر تسلیم خم كرنا۔
اور اس دن ندا کے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے۔ (سوره نحل، آیت ۸۷)
اس میں بھی شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم (اور اُن کی آل) پر درود بھیجتے ہیں. تو اے ایماندارو تم بھی درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو۔ (سوره احزاب، آیت ۵۶)
عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے (اے رسول) کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ اسلام لائے حالانکہ ایمان کا تو ابھی تک تمہارے دلوں میں گزر ہوا ہی نہیں۔ (سوره حجرات، آیت ۱۴)
اور باوجود یکہ ان کے دل کو ان معجزات کا یقین تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تکبر سے ان کو نہ مانا۔ تو (اے رسول) دیکھو کہ ( آخر) مفسدوں کا انجام کیا ہوا۔ (سورہ نمل، آیت ۱۴)
موسیٰ نے کہا تم یہ ضرور جانتے ہو کہ یہ معجزے سارے آسمان و زمین کے پروردگار نے نازل کئے (اور وہ بھی لوگوں کی) سوچ کی باتیں ہیں۔ اور اے فرعون میں تو خیال کرتا ہوں ک تم پر شامت آئی ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت ۱۰۲)
اور ان کے دل تو ہیں (مگر قصداً) ان سے سمجھتے ہی نہیں۔ (سورہ اعراف، آیت ۱۷۹)
یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔ (سورہ محمد، آیت ۴۷)
کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے جن سے (حق باتوں کو) سمجھتے یا ان کے ایسے کان ہوتے جن کے ذریعہ سے سچّی باتوں کو سنتے۔ (سورہ حج ، آیت ۴۶)
آئیے تاریخ کے چند اوراق کھنگالیں اور دیکھیں تسلیم قلبی کے کیا آثار و برکات ہیں اگر اسلام کے اوائل کا جائزہ لیا جائے تو سر فہرست “حسان بن ثابت” کا نام ذہن میں آتا ہے۔ انھوں نے پنجتن پاک کی زیارت کی تھی۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم تھے۔ ۱۰ ہجری میں واقعہ غدیر میں موجود تھے امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کی بیعت ہی نہیں بلکہ آپ علیہ السّلام کی مدح میں قصیدہ فی البدی کہا تھا۔ مگر صرف تسلیم ظاہری تھی۔ تسلیم قلبی نہ ہونے کی وجہ سے خلیفہ سوم کے زمانے میں کسی نے دریافت کیا علی علیہِ السلام حق پر ہیں یا عثمان؟ کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم۔ راوی نے جب حضرت علی علیہ السّلام سے حسان بن ثابت کے فوت ہونے کے بعد سوال کیا۔
کیا وہ آپ علیہ السّلام کا شیعہ مرا؟ امام علیہ السّلام نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً
حسان جاہلیت کی موت مرا۔ یعنی حقیقی امام کے سامنے تسلیم قلبی نہ کرنا جہنم کی ابدی اذیتوں کا موجب ہوتا ہے۔
کربلا ہماری بنیادی درسگاہ ہے۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے قاتلین امام حسین علیہ السّلام اُنہیں پہچانتے نہیں تھے ؟ وہ لوگ بھی تسلیم ظاہری کی منزل پر تھے مگر تسلیمِ قلبی کا فقدان تھا جس کی وجہ سے جہنم کے مستحق قرار پائے۔ تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔
حسن بن علی وشا کہتے ہیں ایک دن مجھے میرے سید و سردار حضرت امام رضا علیہ السّلام نے مرو بلایا اور فرمایا اے حسن ! آج علی ابن ابی حمزہ بطائنی کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کی قبر میں دو فرشتے سوال و جواب کے لئے داخل ہوئے اور انھوں نے سوال کرنا شروع کیا تمہارا رب کون ہے؟ اس نے کہا “اللّٰہ” پھر انھوں نے سوال کیا تمہارا نبی کون ہے؟ اس نے جواب دیا حضرت محمد صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم۔ پھر سوال کیا تمہارا ولی کون ہے؟ اس نے جواب دیا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام۔ ان کے بعد؟ تو اس نے کہا حسن علیہ السّلام۔ پھر؟ تو اس نے کہا حسین علیہ السّلام پھر؟ تو اس نے کہا علی ابن الحسین پھر ؟ تو اس نے کہا محمد بن علی علیہِ السلام اور پھر ؟ تو اس نے کہا جعفر ابنِ محمّد، پھر؟ اس نے کہا موسیٰ بن جعفر علیہِ السلام پھر ؟ تو وہ لڑکھڑانے لگا تو انھوں نے اسے جھڑ کا اور پھر پوچھا پھر کون؟ تو وہ خاموش ہو گیا تب انھوں نے کہا کیا تجھے موسیٰ بن جعفر علیہِ السلام نے اس امر (یعنی امامت حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السّلام) کے بارے میں نہیں بتایا تھا؟ پھر انھوں نے آگ کے تازیانے سے اس کی قبر کو آگ سے روز قیامت تک کے لئے بھر دیا۔ حسن کہتے ہیں پھر میں اپنے سید و سردار کے یہاں سے نکلا اور اس دن کی تاریخ لکھ لی یہاں تک کہ کچھ دن گذرے اور کوفیوں کی طرف سے ایک خط آیا جس میں بطائنی کے فوت ہونے کا وقت اور تاریخ وہی لکھی تھی جس کا امام علیہِ السلام نے ذکر کیا تھا۔
(بحارالانوار، ج ۴۹, ص ۵۸)
یہ بات ذہن میں رہے کہ علی بن حمزہ بطائنی کوئی معمولی انسان نہیں تھا یہ امام موسی بن جعفر علیہِ السلام کے خاص اصحاب میں سے تھا۔ بلکه مورد اعتماد وکلاء میں سے تھا۔ اہلِ س ثقہ میں سے تھا مگر بعد میں واقفی ہو گیا تھا اور امام رضا علیہ السّلام کی امامت کا انکار کیا اس کی اصل وجہ تسلیم ظاہری تو تھی مگر تسلیم قلبی نہیں تھی۔
یہیں نہیں بلکہ غیبت صغری میں محمد بن علی شالمغانی عزاقری جو کہ اصحاب امام حسن عسکری علیہ السّلام میں سے تھا۔ کئی کتابیں لکھی مگر جناب حسین بن روح نوبختی کے زمانے میں نائب خاص ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا اور گمراہ ہو گیا۔
خود امام زمانہ علیہ السّلام کی طرف سے توقیع وارد ہوئی جس میں آپ علیہ السّلام نے اس پر لعنت کی ہے۔
(مهدی موعود, ( ترجمہ بحار الانوار, ج۵) ص ۶۸۵)
آخر کس چیز نے شلمغاني کو گمراہ کیا؟ کیا اس کے پاس تسلیم ظاہری نہیں تھی ؟ بالکل تھی مگر تسلیم قلبی نہ ہونے کی وجہ سے ولایت امام زمانہ علیہ السّلام سے منحرف ہو گیا۔ اگر ہمیں تسلیمِ قلبی سمجھنا ہے تو اہلِ بیت علیہم السّلام کے مخلص شیعوں کی حیات طیبہ پر نظر ثانی کرنا ہو گا۔ اوائل اسلام میں سر فہرست جناب سلمان محمدی رحمۃاللہ علیہ کا تسلیم کا یہ عالم تھا کہ اسی جگہ قدم رکھنا پسند کرتے تھے جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کے قدم کے نشان ہوتے اہل بیت علیہم السّلام کے ہر قول وفعل میں آمنا و صدقنا کی منزل تھی۔ اور شاید یہیں وجہ تھی کہ رسول اللہ کو کہنا پڑا السلمان منا أھل البیت۔
شہداء کربلا کو جو عظمت و منزلت حاصل ہے وہ صرف اسی تسلیم قلبی کی بناء پر۔ ورنہ اصحاب امام حسین علیہ السّلام کے سامنے موت کھڑی تھی مگر وہ لوگ یہیں تو کہہ رہے تھے ابن رسول الله صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم اگر ہمیں ستر مرتبہ بھی مارا جائے اور زندہ کیا جائے تو بھی ہم آپ علیہ السّلام کی نصرت سے باز نہیں آئیں گے۔
یہں نہیں بلکہ دیگر ائمہ علیہم السّلام کے زمانے میں بھی ایسے نایاب گوہر نظر آتے ہیں مثلا امام جعفر صادق علیہ السّلام کے صحابی جناب بارون مکی۔
یہ وہ صحابی ہیں جن کی تسلیم قلبی کا یہ عالم ہے کہ ایک دن امام علیہِ السلام نے ان سے کہا جلتے تنور میں کود جاؤ – بارون مکی بلا چوں چرا تنور میں کود گئے۔ کچھ دیر بعد دیکھا گیا کہ وہ آگ پر دو زانوں ہو کر بیٹھے خدا کی حمد و ثناء کر رہیں ہیں۔
(زندگانی حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام, ترجمہ بحار الانوار، ج ۴۷, ص ۱۰۵)
مختار بن زید شحام امام صادق علیہ السّلام سے روایت کرتے ہیں جب میں امام صادق علیہ السّلام کی خدمت میں گیا اور بیان کیا کہ پہلا ہمارے درمیان ایک شخص آتا ہے جس کا نام کلیب ہے۔ اس کے سامنے ہم جو کچھ بیان کرتے ہیں (آپ علیہ السّلام کی حدیثیں) تو وہ فورا کہتا ہے آنا اسلم (میں نے سلیم کیا) تو ہم لوگوں نے اس کا نام ہی “كليب تسلیم” رکھ دیا۔ تو امام صادق علیہ السّلام نے فرمایا: خدا اُس پر رحم کرے پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو تسلیم کیا ہے؟۔ تو ہم خاموش ہو گئے ۔ پھر امام علیہِ السلام نے فرمایا
“اللہ کے سامنے ذلیل و خوار ہونا اور امام علیہ السّلام نے قرآن کی یہ آیت پڑھی۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ (سورۃ ہود ، آیت ۲۳)
بیشک جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دئیے اور اپنے رب کی بارگاہ میں عاجزی سے پیش آئے۔
انسان کی نجات صرف اور صرف اہل بیت علیہم السّلام کے سامنے تسلیم قلبی ہی میں ہے۔ ایک کاروان ہے وہ اعجاز امامت کی نشاندہی کرتا ہوا اپنی منزل کی طرف جولان قدیم کے ساتھ رواں دواں ہے۔ یہ اعجاز امامت ان کے دلوں میں نور ولایت کی جلوہ گری کرتا ہے۔ یہ کاروان حق کا علم لے کر تہذیب شریعت کے لئے حق کے متلاشی افراد کے لئے راہ ہموار کر رہا ہے۔ آواز آرہی ہے جو عقل و خرد کو دعوت عمل دے رہی ہے۔ آگہی دے رہی ہے۔ ایک ذراسی حوصلے کی جنبش اگر امام علیہ السّلام کی توجہ ہماری طرف کر دے تو اس دنیا میں جہاں ہزاروں بھنور آرہے ہیں اسے بچا کر اپنی منزل کی طرف رسیدگی کی سعادت عطا فرمائیں گے۔ یہاں حوصلہ کی جنبشِ سے مراد بیداری ہے یعنی ہمیں اپنے امام وقت علیہِ السلام کی طرف متوجہ ہونا چاہئے ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دن رات کوشش کرنا چاہئے۔ نیند سے بوجھل آنکھیں کم سے کم اپنے تصور میں ان بستیوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں جہاں انوار کی بارش ہو رہی ہے اور وہ منزل ہمارے امام زمانہ علیہ السّلام کی خیمه گاه ہے اور یہی سلمو تسلیما کے مقصد کی روح ہے۔
یعنی اہل بیت علیہم السّلام کے قول و فعل کے سامنے سر تسلیم خم ہونا خداوند عالم کی رحمت و مغفرت کا موجب ہے۔ اورنجات کا ذریعہ ہے۔ حضرت بقیه الله الاعظم نے اپنی ایک توقیع میں اسی مطلب کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
… فَاتَّقُوْا اللہَ وَ سَلِّمُوْا لَنَا ……
تقوی الہی اختیار کرو اور ہمارے سامنے تسلیم ہو جاؤ۔ (بحارالانوار، ج ۵۳، ص ۱۷۹)
اور ایک دوسری توقیع میں ملتا ہے۔
یَا مِہزَمُ …… وَ نَجَا الْمُسَلِّمُوْنَ……
اے مهزم… نجات صرف اہلِ تسلیم کے لئے ہی ہے۔
انسان پیش داور شکوہ بر لب ہو سکتا ہے کہ ایسے افراد، ایسے مخلصین، ایسے صالحین کی حیات طیبہ اور ان کے وظائف ہمارے سامنے نہیں تھے۔ جن کی تعقیب میں ہماری روح تسلیم قلبی کے منازل طے کرتی۔ بنا بر این اس عالم امکان میں ایک کاروان ہے۔