شرح زیارتِ ناحیہ

( المنتظر محرم الحرام خصوصی شماره ۱۴۳۰، پچھلے شمارے سے جاری)
کے علاوہ کوئی اور تمہارا معبود نہیں ہے۔
(۱۲) اَلسَّلَامُ عَلَی الْمُرَمَّلِ بِالدِّمَاءِ
سلام ہو اس پر جو خاک و خون میں غلطاں ہوا۔
زیارت ناحیہ کے اس فقرے میں ہم دو لفظوں پر گفتگو کرینگے المرمل اور دماء۔
(الف) المرمل: اس کا مادہ رمل ہے جس کے معنی ہیں ریت۔ یہاں مرمل باب تفعیل کا اسم مفعول ہے۔ جب اس کا ‘دماء’ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اس کے معنی ہوتے ہیں خاک و خون میں غلطاں۔ (یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ اگر مادہ کے میم کو مکسور کر دیں یعنی المرمل کے بجائے المرمل پڑھیں (میم کے نیچے زیر) تو اس کا مطلب بدل جائے گا اور لغوی معنی شیر کے ہوں گے۔ ظاہر ہے قرینہ سے یہ مطلب درست نہیں ہوگا اس سے صحیح اعراب لگانے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔)
(ب): الدماء: یہ دم کی جمع ہے جس کے معنی ہیں خون۔ اس کی اصل دمی یا دمو تھی۔ لام کلمہ حذف کیا گیا۔ کبھی اس کو میم سے بدل کر دم مشدد بولتے ہیں۔ تثنیہ دمان، دمیان اور دمیان، ہیں اور جمع دماء ہے۔
مقتل ابی مخنف میں ہے: آپ نے دوبارہ سخت حملہ کیا اور دائیں بائیں بے شمار ملعونوں کو تہہ تیغ کیا۔ شمر لعین یہ منظر دیکھ کر عمر سعد ملعون کے پاس آیا اور کہنے لگا “ یہ جوان مرد اپنی اس جنگ میں ہم میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑے گا۔ عمر سعد نے کہا ، پھر کیا کرنا چاہے؟” شمر بولا لشکر کو تین دستوں میں بانٹ دو۔ ایک دستہ تیر اندازوں کا، دوسرا نیزه بردار اور تیسرا آگ اور پتھروں سے یکبارگی حملہ کریں۔ چنانچہ اس پر عمل کیا گیا۔ کچھ لوگ لشکر کے تیر چلا رہے تھے۔ کچھ نیزوں اور تلواروں سے ضر ہیں لگاتے تھے یہاں تک کہ حضرت کا جسم زخموں سے چور ہو گیا۔ خولی ملعون نے ایک تیر سے حضرت کے گلے کو نشانہ بنایا اور آپ سے زمین پر سنبھلا نہ گیا اور زمین پر گر پڑے۔ اس حالت میں کہ خون میں نہائے ہوئے تھے۔
(مقتل ابی مخنف، اردو ترجمہ ، ص۱۰۱، عباس بک ایجنسی)
امام نے اپنے گلے سے تیر کو اپنے ایک ہاتھ سے کھینچ کر نکالا اور خون اپنے چلو میں لے کر اپنے چہرے اور ڈاڑھی پر لگایا اور فرمایا
اسی حالت میں اپنے جد سے ملاقات کروں گا اور اس ظلم کی شکایت ان سے کروں گا۔ اس کے بعد آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ غشی سے ذرا فاقہ ہوا تو اٹھنے کی کوشش کی تاکہ دو بارہ چنگ کریں لیکن اٹھ نہ سکے۔ آپ نے سخت گریہ کرتے ہوئے فرمایا وا محمد! واعليا! وا حسنا! وا غربتاه! ہائے کوئی مددگار نہیں رہا؟ کیا میں اس مظلوی کی حالت میں قتل کیا جاؤں گا۔ جبکہ میرے جد محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں؟ کیا میں پیاسا قتل کیا جاؤں گا جبکہ میرے بابا علی مرتضی علیہ السّلام ہیں ؟ میری حرمت پامال ہو رہی ہے جبکہ میری مادر گرامی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں؟“ پھر دوبارہ غشی طاری ہو گئی، ایسی حالت میں تین گھنٹے بے حس و حرکت پڑے رہے۔ لشکریوں کو تعجب اور حیرت تھی۔ یہ نہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ زندہ ہیں يا روح پرواز کر گئی۔ ایک شخص جس کا تعلق کند و قبیلہ سے تھا قریب آیا اور آپ کے سر پر ایک ایسی سخت ضرب لگائی کہ سر شگافتہ ہو گیا۔ خون چہرہ اور ڈاڑھی پر بہنے لگا۔ سر سے عمامہ زمین پر گر گیا جو اس کندی نے اٹھالیا۔
(ماخذ سابق)
(۱۳) اَلسَّلَامُ عَلَیالْمَہْتُوْکِالْخِبَآءِ
سلام ہو اس پر جس کے خیام کی بے حرمتی کی گئی۔
اس فقرے میں بھی گفتگو دو لفظوں پر ہو گی۔ المحتوک اور الخبا۔
(الف)المحتوک: ھتك سے بنا ہے جس کے معنی ہیں چاک کرنا یا خیچ کر پھاڑنا۔ ھتک الستر بے عزتی کے معنی میں مستعمل ہے۔ مثلا هتك الله ثترالفاجر۔ اللہ تعالی نے بد کار کو رسوا اور ذلیل کیا ۔ مہتوك اس کا اسم مفعول ہے۔
(ب) الخباء: خبء سے بنا ہے۔ الخبء یا الخبیء سے مراد پوشیده یا چھپائی ہوئی شے ہے۔ اسی لئے عربی لغت میں نباتات کو خب الأرض بھی کہا جاتا ہے۔ الخباء کا مطلب ہے اونٹوں کی پشم يا أون یا بالوں کا خیمہ اور اس کا جمع أخبية ہے (افعله کے وزن پر)۔ اسی مادہ سے مرکب ہے الخبيئة (جمع خبایا) جس کے معنی ہیں پوشیدہ رکھی ہوئی چیز۔ لہٰذا بیٹی کو خباة بھی کہتے ہیں۔ بہر حال، زیارت ناحیہ کے اس فقرے میں امام زمانہ علیہ السلام نے خیام حسینی پر اشقیاء کے حملوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ سلام ہو اس پر کہ جس کے خیام کو لوٹا گیا اور عورتوں کو خیام کے باہر لایا گیا۔ کسی بھی غیرت دار مرد کے لئے یہ بات نا قابل برداشت ہے کہ اسکی ماں، بہن اور بیٹی پر کوئی نامحرم نظر ڈالے۔ چہ جائے امام وقت کے لئے جو سراپا غیرت ہیں۔
(۱۴) اَلسَّلَامُ عَلٰی خَامِسِ اَصْحَابِ الِکْسَاءِ
سلام ہو اہل کساءکی پانچویں شخصیت پر۔
خامس یعنی پانچواں ۔ اصحاب الكساء سے مراد پنجتن پاک۔ محمّد، علی، فاطمہ، حسن اور حسین (علیہما السّلام) ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں وہ افراد جن کی طہارت اور پاکیزگی کا اعلان آیت مبارکہ تطہیر (سوري احزاب، آیت ۳۳) کے ذریعے ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کی شہرت اور آفاقیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس پر مزید بحث نہیں کریں گے کیونکہ یہ ہماری گفتگو کے دائرے کے باہر ہے۔
(۱۵) اَلسَّلَامُ عَلیٰغَرِیْبِ الْغُرَبَاءِ
سلام ہو سب سے بڑے پردسی پر۔
عربی زبان میں غریب اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے وطن سے دور ہو اور جس مقام پر وہاں وہ غیر مانوس ہو۔ غریب کا جمع غرباء ہے۔ امام زمان علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار امام حسین علیہ السلام کو اس لقب یعنی غریب الغرباء سے یاد کیا ہے۔ لیکن وہ ذات جو اپنے وطن سے دور کرب و بلا کے بیابان میں اشقیا میں چارو طرف سے گھرا ہوا تھا جو اس کے خون کے پیاسے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَا مِنْ مُؤْمِنٍ یَمُوْتُفِیْغُرْبَتِہٖ اِلَّا بَکَتْ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَۃُرَحْمَۃًحَیْثُ قَلَّتْ بَوَاکِیْہِ وَ فُسِحَ لَہٗ فِیْقَبْرِہٖ بِنُوْرٍ یَتَلَأْلَأُ مِنْ حَیْثُ دُفِنَ اِلٰی مَسْقَطِ رَاسِہٖ۔
( بحارالانوار ج ۶۷، ص ۲۰۰)
کوئی مومن غربت کی حالت میں مرتا نہیں ہے مگر یہ کہ ملائکہ اس پر گریہ کرتے ہیں، ترس کھاتے ہوئے کیونکہ اس پر رونے والے بہت کم ہیں۔ اور اسکی قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے ایک شمکتے ہوئے نُور اور اور روشنی سے گویا کہ اسے ان کے وطن اور پیدائش گاہ میں دفن کیا گیا ہو۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جب ایک عام مومن جسے غریب الوطنی کی حالت میں موت آئے، اسے یہ فضیلت عطا ہوتی ہے تو اس شخصیت کے بارے میں کیا کہا جائے جو رسول کا نواسا ہے علی کا لخت جگر ہے، فاطمہ زہرا علیھا السلام کا نور نظر ہے اور جنت کے تمام جوانوں کا سردار ہے، اس کی قبر کی کیا منزلت ہوگی ؟!! ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیرا ہو کہ یہ لقب “غریب الغرباء” توہے۔ یہ امام حسین علیہ السلام کے لئے کیو نکر اس زیارت میں استعمال ہوا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک لقب دو اماموں کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی آٹھویں امام کا اس میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ دونوں ہی اپنے زمانے کے غریب الغربا ء ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی مظلومی، عظمت اور بزرگی کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی اس بات کا منکر نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ تمام ازمان کے غریب الغرباء ہیں اور حضرت امام علی الرضا علیہ السلام اپنے زمانہ کے غریب الغرباء ہیں اور سید الشہداء کے بعد آپ سے بڑا غریب الوطن کوئی نہیں۔
(۱۶) اَلسَّلَامُ عَلیٰشَہِیْدِالشُّہَدَاءِ
سلام ہو سرور شہیداں پر۔
(۱۷) اَلسَّلَامُ عَلیٰقَتِیْلِالْاَدْعِیَآءِ
لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوا۔ اس فقرے میں دو لفظوں کی وضاحت کی جائے گی۔ قتیل بر وزن فعیل در اصل اسم مفعول کے معنی میں ہے۔ یعنی مقتول، جسے قتل کیا گیا ہو۔ اور آدعیاء دعی کی جمع ہے یعنی وہ شخص جس کے نسب میں شبہ ہو وہ جو اپنے آپ کو غیر باپ کی طرف یا غیر قوم کی جانب منسوب کرے۔ یہی وہ لقب ہے جسے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے ابن زیاد کو دیا جب آپ سے بیعت کا تقاضا کیا گیا تو آپ نے فرمایا ”دعی بن د عی» یعنی وہ کہ جس کی ولدیت نامعلوم ہو اور جو خود ایسے ہی مجہول باپ کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھ سے بیعت کا تقاضا کیا ہے جس سے وہ مجھے ذلیل و رسوا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ”حيهات منا الذلة” ذلت و رسوائی ہم سے بہت دور ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ذلت و رسوائی ہمارے قریب بھی نہیں آ سکتی۔ یقینا شرف و عزت تو پروردگار کے ہاتھ میں ہے اور جو اللہ کا ہوگا، اللہ تعالی اس کا ہو گا۔
مَنْ کَانَ لِلہِ کَانَ اللہُ لَہٗ۔
اور اہل بیت رسول علیھم السلام ان سے مقرب اور نزدیک اللہ سے کون ہو سکتا ہے؟ بہر حال، شریف زادوں اور ذلیلوں کے در میان جنگ ابتداء انسانیت سے چل رہی ہے اور تا ظہور امام زمانہ علیہ السلام چلتی رہے گی۔
(بقيه آینده، انشاء اللہ)