شرح زیارت ناحیہ

(المنتظر محرم الحرام خصوصی شمارہ ۱۴۳3 ؁ھ، پچھلے شمارے سے جاری)

اَلسَّلَامُ عَلَي الْقَتِـيْلِ الْمَظْلُوْمِ

سلام ہو انتہاء مظلومیت كے ساتھ قتل ہونے والے پر

اس فقرے میں امام حسین ﷣ كے لئے دو صفتیں استعمال كی گئی ہیں: قتیل اور مظلوم۔ قتیل یعنی جسے قتل كیا گیا ہو۔ عربی لغت میں بروزنِ فَعِیْل ہے اور معنی كے اعتبار سے اسمِ مفعول ہے۔مشہور ماہر لغت ابن منظور لكھتے ہیں:

وَ رَجُلٌ قَتِيْلٌ : مَقْتُوْل – وَ الْجَمْعُ قُتَلَاء

قتیل یعنی جسے قتل كیا گیا ہو اور اس كا جمع ہے قتلاء

(لسان العرب، ج 11، ص 547 ذیل مادّہ ق-ت-ل)

دوسرا لفظ ہے المظلوم یعنی جس پر ظلم كیا گیا ہے۔

جیسا كہ پہلے عرض كر چكے ہیں كہ قرآن مجید كی آیات كی روشنی میں جو لوگ اللہ كی راہ میں اپنی جانیں قربان كرتے ہیں انہیں ’اَلْقَتِـیْلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہ‘ كہا گیا ہے۔ انكے لئے قرآن میں لفظ شہید استعمال نہیں ہوا ہے۔ بہر حال، اللہ كی كتاب میں بوضوح اعلان ہو رہا ہے:

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمْوَاتًا ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾ۙ

اور جو لوگ اللہ كی راہ میں قتل كئے گئے ہیں انہیں مردہ نہ كہنا۔ نہیں بلكہ وہ زندہ ہیں اور انكے پروردگار كے نزدیك انہیں رزق عطا كیا جا رہا ہے۔

(سورہ آل عمران (3)، آیت 169)

وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمْوَاتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنۡ لَّا تَشْعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾

اور جو لوگ اللہ كی راہ میں قتل كئے گئے ہیں انہیں مردہ نہ كہنا۔ نہیں وہ زندہ ہیں لیكن تم نہیں سمجھ رہے ہو۔

(سورہ بقرہ (2)، آیت 154)

یقیناً امام حسین﷣ سے بڑا شہید فی سبیل اللہ كون ہو سكتا ہے؟ اُن كا تو لقب ہی سید الشہداء ہے، یعنی تمام شہداء كے سردار۔

اب آئیے لفظ مظلوم كا مختصر جائزہ لیتے ہیں:

دین مقدس اسلام میں جہاں ظالم كی مدد كرنے سے سختی سے منع كیا گیا ہے، وہیں مظلوم كی مدد كرنے پر بہت زیادہ تاكید كی گئی ہے۔

مظلوم كی نصرت

امیر المومنین علی ابن ابی طالب ﷦ فرماتے ہیں:

اَحْسَنُ الْعَدْلِ نُصْرَةُ الْمَظْلُوْمِ

بہترین انصاف مظلوم كی مدد كرنا ہے۔

(غرر الحكم، ح 1021)

اِذَا رَاَيْتَ مَظْلُوْمًا فَاَعْنَهٗ عَلَي الْظَّالِمِ

جب تم كسی مظلوم كو دیكھو تو ظالم كے خلاف اس كی مدد كرو۔

(غرر الحكم، ح10364)

آپؑ نے اپنی وصیت میں فرمایا:

وَ كُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْنًا

تم (امام حسن اور امام حسین ﷦) دونوں ظالم كے لئے خصم اور مخالف بننا اور مظلوم كے لئے مددگار۔

(نہج البلاغہ، خط شمارہ 47)

امام جعفر صادق﷣ فرماتے ہیں:

مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُعِينُ مُؤْمِناً مَظْلُوماً إِلَّا كَانَ أَفْضَلَ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَ اعْتِكَافِهِ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَام‏

ایك مومن كا دوسرے مظلوم مومن كی مدد كرنا ایك مہینے كے (مستحب) روزے اور خانہٴ كعبہ میں اعتكاف كرنے سے افضل ہے۔

(ثواب الاعمال، ص 147)

البتہ یہ بات قارئین كرام كے اذہان ِ عالیہ میں محفوظ رہے كہ مظلوم كی نصرت اور مدد بھی شریعت كے دائرہ اور ائمہ معصومین ﷨ كی تعلیمات كے تحت ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہو كہ ہمارے جذبات ہم پر حاوی ہو جائیں اور ہم مظلوم كی مدد كرنے كی ہوس میں اپنے حدود سے تجاوز كریں اور اہل بیت ﷨ كی تعلیمات كا پاس و لحاظ نہ ركھیں۔ لہٰذا، ہمارے لئے ضروری ہے كہ ہم مراجع دینی (حفظہ اللہ) كی ہدایت میں یہ كام انجام دیں اور انكے احكام كی تعمیل كریں، نہ یہ كہ اپنے جذبات كی اتباع اور پیروی۔

مظلوم كی بد دعا سے ڈرنا چاہئے

ظالم اس بات كو نہ بھولے كے ایك خدا بھی ہے جو دعاؤں كو سننے والا ہے۔ اور وہ افراد جنكی دعائیں سریع الاجابہ ہیں (یعنی بہت جلد قبول ہوتی ہیں) ان میں سے ایك مظلوم ہے۔

امیر المومنین علی ابن ابی طالب ﷦ فرماتے ہیں:

اِتَّقُوا دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ يَسْأَلُ اللَّهَ حَقَّهُ وَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ حَقّاً إِلَّا أَجَابَ.

مظلوم كی بد دعا سے ڈرو كیونكہ وہ اللہ سے اپنا حق طلب كرتا ہے اور اللہ – سبحانہ – اِس سے زیادہ كریم ہیں كہ اُس سے حق طلب كیا جائے مگر یہ كہ وہ اُس دعا كو مستجاب كرے۔

(غرر الحكم، ح 10349)

أَنْفَذُ السِّهَامِ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ

سب سے كارگر تیر مظلوم كی بد دعا ہے۔

(غرر الحكم، ح 3760)

اس بحث كا خلاصہ یہ ہے كہ امام حسین ﷣ كا ماننے والا، آپ پر گریہ كرنے والا اور آپ كی مصیبتوں پر فرشِ عزا بچھانے والا كبھی كسی پر ظلم نہیں كرے گا چاہے وہ اسكے والدین ہوں، اہلیہ ہوں، بچے ہوں، رشتہ دار ہوں، دوست احباب ہوں، وغیرہ۔ كیونكہ مظلوم اور عرش الٰہی كے درمیان كوئی فاصلہ نہیں ہوتا اور اگر مظلوم دستِ دعا بلند كر دے، تو پھر خداوند متعال اسكی دعا ضرور مستجاب كرتا ہے چاہے وہ كافر ہی كیوں نہ ہو۔

اب جب روایات میں مظلوم كی دعا كو اتنی اہمیت دی گئی ہیں، تو اس میں كون سی تعجب كی بات ہے كہ تاریخ انسانیت كا بزرگ ترین مظلوم اپنے شیعوں كے حق میں خداوند متعال سے عفو و بخشش كی دعا كرے، اور اللہ اس كی دعا كو مستجاب كرے؟ اللہ اس بات كا شاہد ہے كہ لوگ عزاداریٴ مظلومِ كربلا اور اسكے اثرات كا مذاق اڑاتے ہیں اور رونا اور گریہ كی قوتِ شفاعت كو قبول نہیں كرتے، وہ در اصل امام حسین ﷣ كی عظیم قربانی اور مظلومیت كے مفہوم كو درك ہی نہیں كر پائے ہیں۔

یہاں بیجا نہ ہوگا اگر تاریخِ بشریت كے اور بزرگ مرتبہ مظلوم كا ذكر كریں، اور وہ ہیں، ہمارے اور آپ كے مولا، امیر المومنین علی ابن ابی طالب ﷦۔ آپؑ نے ایك خطبہ میں ارشاد فرمایا:

قَالَ إِنِّي لَأَوْلَى النَّاسِ بِالنَّاسِ وَ مَا زِلْتُ مَظْلُوماً مُنْذُ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، فَقَامَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ لَعَنَهُ اللَّهُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَمْ تَخْطُبْنَا خُطْبَةً مُنْذُ قَدِمْتَ الْعِرَاقَ إِلَّا وَ قُلْتَ وَ اللَّهِ إِنِّي لَأَوْلَى النَّاسِ بِالنَّاسِ، وَ مَا زِلْتُ مَظْلُوماً مُنْذُ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ وَ لَمَّا وَلِيَ تَيْمٌ وَ عَدِيٌّ، أَلَّا ضَرَبْتَ بِسَيْفِكَ دُونَ ظُلَامَتِكَ فَقَالَ لَهُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَ سَلَامُهُ عَلَيْهِ يَا ابْنَ الْخَمَّارَةِ قَدْ قُلْتَ قَوْلًا فَاسْتَمِعْ، وَ اللَّهِ مَا مَنَعَنِي الْجُبْنُ وَ لَا كَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ، وَ لَا مَنَعَنِي ذَلِكَ إِلَّا عَهْدُ أَخِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، خَبَّرَنِي وَ قَالَ يَا أَبَا الْحَسَنِ إِنَّ الْأُمَّةَ سَتَغْدِرُ بِكَ وَ تَنْقُضُ عَهْدِي، وَ إِنَّكَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى. فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَعْهَدُ إِلَيَّ إِذَا كَانَ كَذَلِكَ فَقَالَ إِنْ وَجَدْتَ أَعْوَاناً فَبَادِرْ إِلَيْهِمْ وَ جَاهِدْهُمْ، وَ إِنْ لَمْ تَجِدْ أَعْوَاناً فَكُفَّ يَدَكَ وَ احْقِنْ دَمَكَ حَتَّى تَلْحَقَ بِي مَظْلُوما

بیشك میں لوگوں پر خود ان سے زیادہ حقّ تصرف ركھتا ہوں۔ اور جس روز سے رسول خدا ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، اُس روز سے میں مظلوم ہوں۔ اس پر اشعث ابن قیس الكندی (لعنۃ اللہ علیہ) كھڑا ہوا اور كہنے لگا: اے امیر المومنین! جب سے عراق تشریف لائے ہیں آپ بس صرف یہی كہہ رہے ہیں كہ بیشك میں لوگوں پر خود اُن سے زیادہ حقِّ تصرف ركھتا ہوں۔ اور جس روز سے رسول خدا ﷺ اِس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اُس روز سے میں مظلوم ہوں۔ جب تیم اور عدی (یعنی پہلے اور دوسرے خلیفہ) والی بن گئے، تو آپنے تلوار كیوں نہیں اٹھائی اور ظلم برداشت نہ كرتے۔‘‘

اِس پر امیر المومنین ﷣ نے فرمایا: اے شراب بیچنے والی عورت كے بیٹے!اب چونكہ تونے بات كہہ دی ہے تو سن لے! خدا كی قسم، نہ بزدلی نے اور نہ موت كے خوف نے مجھے اپنے حق لینے سے روكا بلكہ جس چیزنے روكا ہے وہ عہد تھا، جو میں نے اپنے بھائی، رسول اللہ ﷺ سے كیا تھا۔ آپ نے مجھے خبر دی تھی كہ اے ابو الحسن! عنقریب یہ امت تمہارے خلاف غداری كرے گی اور میرے عہد و پیمان كو توڑ دیگی۔ تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ كے لئے تھے۔ میں نے دریافت كیا: ’یا رسول اللہ ﷺ! جب ایسے حالات ہوں تو میرا كیا فریضہ ہوگا؟‘ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اگر تم اعوان و انصار پانا، تو انكے خلاف كھڑے ہونا اور اُن سے جہاد كرنا، اور اگر یاور و مددگار نہ پانا، تو اپنے ہاتھوں كو روك لینا اور اپنے خون كو محفوظ ركھنا جب تك كہ تم مجھ سے ایك مظلوم كی طرح آ كر نہ ملو۔‘‘

(بحار الانوار، ج 29، ص 419، باب 13)

اس میں شك نہیں كہ علی اور اولاد علی ﷨ سے بڑھ كر تاریخ بشریت میں كوئی مظلوم نہیں۔ انكے ہر چاہنے والے كی ذمہ داری ہے كہ وہ انكی مدد اور نصرت كرے۔ دامے درہمے سخنے آج كا دور، دورِ علم و دانش و فرہنگ ہے۔ دشمنانِ دین كے اصل حملے انہیں میدانوں میں ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہئے كہ ہم اپنے راہنماؤں كی اور انكے عقیدوں كی اِن میدانوں میں دفع كریں۔اور ہمہ وقت اس بات كا خیال ركھیں كہ اس دورِ فتنہ و فساد میں ہمارا ایمان ہمارا عقیدہ محفوظ رہے اور ہم ائمہ معصومین ﷨ كی بتائی ہوئی راہ پر چلتے رہیں۔ یہی نہیں بلكہ یہ دھیان رہے كہ قتیل المظلوم كا منتقم ہمارے حالات و اقدامات پر نظر ركھے ہوئے ہے اور اہل خیر كے لئے جو امام حسین ﷣ كے عزادار ہیں ان كے خیر و بركت و حفاظت كے لئے دعا بھی كرتا ہے اور امین و ضامن بھی ہے۔

(بقیہ آئندہ، انشاء اللہ)