شرح زیارت ناحیہ

شرح زیارت ناحیہ

(المنتظر محرم الحرام خصوصی شماره ۱۴۳۴ ھ پچھلے شمارے سے جاری)
اَلسَّلَامُ عَلیٰ اَخِیْہِ الْمَسْمُوْمِ
سلام ہو انکے اُس بھائی پر جن کو زہر دیکر شہید کیا گیا۔
زیارت ناحیہ کے اس فقرہ میں امام حسین علیہ السلام لینے کے بھائی، جنت کے جوانوں کے سردار امام حسن مجتبی علیہ السلام پر سلام کیا گیا ہے جن کو خود انکی زوجہ ملعونہ، جعدہ بنت اشعث نے معاویہ ابن ابی سفيان (لعن) کے کہنے پر زہر دے کر شہید کیا۔ لفظ مسموم سم (زہر) سے بنا ہے۔ اور عربی صرف کے اعتبار سے اسم مفعول ہے یعنی جن کو زہر دیا گیا ہو۔
مُحَمَّدُ بْنُ‏ وَهْبَانَ‏ عَنْ‏ دَاوُدَ بْنِ‏ الْهَيْثَمِ‏ عَنْ جَدِّهِ إِسْحَاقَ بْنِ بُهْلُولٍ عَنْ أَبِيهِ بُهْلُولِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ زَيْدٍ الرَّقِّيِّ عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ عُمَيْرِ بْنِ مَانِي الْعَبْسِيِّ عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ وَ بَيْنَ يَدَيْهِ طَسْتٌ يُقْذَفُ عَلَيْهِ الدَّمُ وَ يَخْرُجُ كَبِدُهُ قِطْعَةً قِطْعَةً مِنَ السَّمِّ الَّذِي أَسْقَاهُ مُعَاوِيَة۔
جنادہ ابن ابی امیہ روایت کرتے ہیں کہ میں امام حسن ابن علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت جب آپ شدید علیل تھے؛ آپ کے سامنے ایک طشت رکھا ہوا تھا جس میں خون ٹپک رہا تھا اور آپ کے دہن مبارک سے آپ کا کلیجا کٹ کٹ کے گر رہا تھا اس زہر کی بنا پر جو معاویہ (لعن) نے آپ کو پلایا تھا۔
(کفایت اثر بقلم ابن خذّاز قمی)
جو حضرات امام حسن علیہ السلام کی شہادت کی تفصیلات معلوم کرنا چاہتے ہیں، وہ بحار الانوار (عربی)، ج ۴۴، ص ۱۳۴، باب ۲۲ رجوع کر سکتے ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلی ٰعَلِیٍّالْکَبِیْرِ
سلام ہو علی اکبر پر
اس فقرہ میں امام زمانہ (عجل الله تعالی فرجه الشریف) سلام بھیج رہے ہیں اس شہزادے پر جو شبیہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔ جب علی اکبر شہادت کے لئے تشریف لے جارہے تھے سید الشہداء علیہ السلام اپنی اُنگلی کو آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا :
اَللّٰہُمَّاشْہَدْعَلی ٰہَؤُلَاءِ الْقَوْمِ فَقَدْ بَرَزَ اِلَیْہِمْ غُلَامٌ اَشْبَہُ النَّاسِ خَلْقًا وَ خُلُقًا وَ مَنْطِقًا بِرَسُوْلِکَ کُنَّا اِذَا اشْتَقْنَا اِلٰی نَبِیِّکَ نَظَرْنَا اِلیٰوَجْہِ
پروردگارا! تو اس قوم کے خلاف گواہ رہنا کہ ان سے لڑنے وہ جوان گیا ہے جو سیرت و صورت میں، رفتار و گفتار میں تیرے رسول سے سب سے زیادہ مشابہ ہے۔ جب ہم تیرے نبی کی زیارت کے مشتاق ہوا کرتے تھے تو اس کی طرف دیکھ لیا کرتے تھے۔ جب شہزادہ جنگ کے لئے نکلا تو رجز پڑھتے ہوئے نکلا :
انا علي بن الحسین بن علي
من عصبۃ جد أبیہم النبي
واللہ لا یحکم فینا ابن الدعي
أطعنکم بالرمح حتی ینثني
أضربکم بالسیف أحمي عن أبي
میں علی ابن حسین ابن علی ہوں
اس کا بیٹا ہوں جس کے جدّ نبی ہیں
خدا کی قسم ایک حرامزادے کا بیٹا ہمارے درمیان فیصلہ نہیں کرسکتا
میں اپنے نیزے سے تم پر حملہ کرتا رہوں گا جب تک وہ ٹوٹ نہ جائے
اپنی تلوار سے تم کو مارونگا اپنے والد کی دفاع میں۔
وہ ضربت ایک ہاشمی علوی جوان کی ضربت ہے
علی اکبر علیہ السلام نے ایسا حملہ کیا کہ فوج اشقیاء میں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے جس کی وجہ سے شور مچ گیا اور اس پیاس کے باوجود آپ نے ۱۲۰ اشقیا کو واصل جہنم کیا۔
پھر علی اکبر علیہ السلام زخموں سے چور حسین علیہ السّلام کی طرفت پلٹے اور عرض کی :
یَاأبہ العطش قد قتلنی و ثقل الحدیدأجہدني فہل الی شربۃ من ماء سبیل أتقوی بہاعلی الأعداء
بابا پياس مارے ڈال رہی ہے اور لوہے کا بوجھ مجھ پر گراں ہو رہا ہے کیا کچھ پانی کی سبیل ہوسکتی ہے جس سے مجھے دشمنوں کے خلاف تقویت پہنچے؟
مقتل کہتا ہے کہ بیٹے کی اس خواہش سے مظلوم امام کا کلیجا پھٹ گیا اور آپ گریا فرمانے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا۔
یابنی ہاتلسانک فأخذ بلسانہ فمصہ و دفع إلیہ قتال عدوکفإنی أرجو أنک لا تمسی حتی یسقیک جدک باسہ الأوفیشربۃ لا تظمأ بعدہا أبد
بیٹا لاؤ اپنی زبان دو ۔ امام نے اپنی زبان علی اکبر کی زبان میں ڈال کر چوسائی۔ (لیکن امام کی زبان علی اکبر سے زیادہ سوکھی تھی)۔ پھر امام نے اپنی انگوٹی دی اور فرمایا بیٹا اسے اپنے دہن میں رکھ لو اور دشمنوں سے جہاد کرنے جاؤ۔ میں چاہتا ہوں کہ شام ہونے سے پہلے تمہارے جدّ تمہیں ایسے پانی سے سیراب کریں کہ پھر جس کے بعد کبھی تمہیں پیاس نہ لگے۔
علی اکبر علیہ السلام نے پھر حمله کیا اور دو سو (۲۰۰) اشقیا کو واصل جہنم کیا۔ ایک شقی جس کا نام منقز ابن مره العبدی تھا نے علی اکبر علیہ السلام پر ایسا وار کیا جس سے شہزاد گھوڑے سے نیچے آیا۔ اشقیاء نے علی اکبر علیہ السلام کو گھیر لیا جبکہ علی اکبر علیہ السلام نے اپنی بائیں گھوڑے کے گلے میں ڈال دی تھی منتقل کہتا ہے :
فاحتملہ الفرس إلی عسکر الأعداء فقطعوہ بسیوفہم إربا إربا
گھوڑا علی اکبر علیہ السلام کو دشمن کی طرف لے گیا اور انہوں نے اپنی تلواروں سے علی اکبر علیہ السلام کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔
امام حسین علیہ السلام نے علی اکبر علیہ السلام کی شہادت پر مرثیہ پڑھا :
اے بیٹا تمہارے بعد زندگانی دنیا پر خاک ہو تم نے تو اس دنیائے فانی سے رخصت لے لی اور تمہارا باپ دشمنوں کے درمیان تنها گھیرا ہواہے
خدایا! اس قوم کو ہر گز نہ بخشنا جنہوں نے علی اکبر علیہ السلام جیسا بیٹا امام حسین علیہ السلام جیسے باپ سے چھین لیا۔
اَلسَّلَامُ عَلَیالرَّضِیْعِ الصَّغِیْرِ
سلام ہو کمسن شیرخوار پر
اب امام زمانہ علیہ السلام زیارت ناحیہ میں امام حسین علیہ السلام کے ننھے شیر خوار علی اصغر علیہ السلام پرسلام بھیج رہے ہیں ۔ جب حسین علیہ السّلام نے آواز استغاثہ بلند کی ، خیام میں کہرام برپا ہو گیا۔ امام نے شور کا سبب دریافت کیا۔ اہل حرم نے بتایا کہ جب آپنے صدائے استغاسه بلند کی، شیر خوار نے اپنے آپ کو گہوارہ سے پھینک دیا۔ حسین علیہ السّلام نے بچّے کو گود میں لے لیا اور چلے۔
خلاصه یہ کے حرملہ لعین نے تین پھل کے تیر سے شیر خوار کو شہید کر دیا۔ جب ماں نے اپنے ششماہے چاند کو خون میں نہایا پایا تو مرثیہ پڑھا۔
اے بیٹا کیا تجھ جیسے شیر خوار بھی نہر کیئے جاتے ہیں؟
اَلسَّلَامُ عَلَی الْأَبْدَانِ السَّلِیْبَۃِ
سلام ہو ان ( ناز نین) جسموں پر جن پر کوئی کپڑا نہیں رہنے دیا گیا۔
لفظ ابدان، بدن کی جمع ہے اور سلیبه اسم مفعول کے معنی میں ہے یعنی جان سے لباس سلب کر لیا گیا ہو کیونکہ ادان جمع موکسر ہے اسی لئے سلیبه پر تائے تانیث آیا ہے کیونکہ جمع مکسر مجاز مؤنث ہوا کرتا ہے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیالعِتْرَۃِالْغَرِیْبَۃِ
سلام ہو در بدر کئے جانے والے خاندان پر
عترت یعنی خاندان اور غریبہ یعنی بھی جنہیں جلا وطن کر دیا گیا ہو۔ ابن منظور اپنی مشہور لغت لسان العرب میں لکھتا ہے۔
“عترت کے لغوی معنی ہیں درخت کی شاخ اور عترت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی علیہ السلام کی اولاد”
(جلد ۴, ص ۵۳۸ ،ع-ت-رکے مادّہ میں)
اگر انسان صرف ان دونوں پر غور کرے، اس کا کلیجا پھٹ جائے گا۔ آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل علی علیہ السلام کو در بدر پھرایا گیا سفر کا آغاز ۲۸ رجب سے ہوا جب سید الشہداء کو مدینہ چھوڑنا پڑا اور آپ اپنے پورے کنبہ کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ۔ پھر مکہ مکرمہ سے کربلا۔ روز عاشورہ اہل حرم کو قیدی بنایا گیا اور کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام اور پھر شام سے کربلا ہوتے ہوئے مدینہ تک۔ وائے ہو اس امت پر۔ کلمہ رسول کا پڑھتی ہے اور عترت رسول کے ساتھ یہ سلوک؟ آج بھی وہ افراد جن کے دلوں میں ان ظالموں کے لئے نرم گوشہ ہے یاکسی طرح سے ان ظالموں کی ناقابل بخشش گناہوں کی توجیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یقینا وہ اس گناه میں ان کے ساتھ شریک ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلَی الْمُجَدَّلِیْنَ فِی الْفَلَوَاتِ
سلام ہو ان لاشوں پر جو شاہراہوں میں بکھری رہیں
لغت میں مجدل کے معنی میں الملقى على الأرض قتيلا وہ جسے قتل کر کے زمین پر پھینک دیا گیا ہو اور مجدلين اسکی جمع ہے۔ فلوات فلوہ کی جمع ہے جسکے معنی ہے شاہراہ ۔
اَلسَّلَامُ عَلَی النَّازِحِیْنَ عَنِ الْاَوْطَانِ
سلام ہو ان پر جن کو ان کے وطن سے چھڑا دیا گیا ہو۔
نزاحون اس وقت مستعمل ہوتا ہے جب کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے۔ اِس زیارت میں امام زمان علیہ السلام عجیب درد کا اظہار کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ اہل بیت رسول علیہم السلام کو ان کے وطن سے اس طرح جدا کر دیا گیا جس طرح پانی کنویں سے نکالا جاتا ہے۔ اگر اس تشبیہ پر غور کریں تو بہت سارے مطالب سامنے آتے میں ۔
وہ کنواں جس میں پانی نہیں رہتا ہے وہ پھر کنواں نہیں رہتا صرف ایک گڑھا رہ جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل رسول کے جانے سے مدینہ مدینہ نہیں رہا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے
وَ بِئْرٍ مُعَطَّلَۃٍ
(سورہ (۲۲)، آیت ۴۵)
یعنی وہ کنواں جو اب استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ اس آیہ کریم کی تفسیر میں، امام موسیٰ ابن جعفر علیہم السلام سے روایت ہے :
قَالَ الْبِئْرُ الْمُعَطَّلَۃُ الْإِمَامُ الصَّامِتُ
معطل شدہ کنواں یعنی خاموش امام
(الکافی ج ۱, ص ۴۲۷, ح ۷۵)
اہل بیت علیہم السلام کا مدینہ سے رخصت ہونا یعنی مدینہ اجڑ گیا۔ مدینہ ویران ہوگیا۔
اَلسَّلَامُ عَلَیالْمَدْفُوْنِیْنَ بِلَا اَکْفَانٍ اَلسَّلَامُ عَلَیالرُّئُوْسِالْمُفَرِّقَۃِ عَنْ الْاَبْدَانِ
سلام ہوان پر جنہیں بغیر کفن کے دفنانا پڑا۔ سلام ہو ان سروں پر جنہیں جسموں سے جدا کر دیا گیا۔
ہائے شہدائے کربلا! اے آل رسول ! وہ رسول کہ جس نے دنیا کو آداب تکفین اور تدفین سکھائے، آج اسی کی اولاد بلا کفن دفن کے جا رہی ہے۔ اسکی امت نے آل رسول کے سروں کو انکے بدن سے جدا کیا۔ امت نے اجر رسالت کیا خوب ادا کیا؟
اَللّٰہُمَّ الْعَنْ قَتَلَۃَالْحُسَیْنِوَاَوْلَادِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ (باقی آئندہ انشاء اللہ)