شرح زیارت ناحیہ

المنتظر محرّم الحرام عمومی شمار ۱۴۳۵ ھ اور پچھلے شمارے سے جاری
اَلسَّلَامُ عَلَی الْمُحْتَسِبِ الصَّابِرِ
سلام ہو اس پر جس نے اللہ کی مرضی که خاطر تمام قربانیاں دی اور جس نے (مصیبتوں) پر صبر کیا محتسب کا مادّہ ہے۔ ح – س – ب اور یہ باب افتعال کا اسم فاعل ہے جس کا مصدر احتساب ہے۔
احتساب کے تین معنی ہوتے ہیں لیکن یہاں اس سے مراد و شخص ہے جو خداوند متعال کی خاطر کسی کام کو انجام دے۔
لغت میں احتساب کے معنی اس طرح ملتے ہیں :
اِحْتِسَابًا، اَیْ طَلَبًا لِوَجْہِ اللہِ تَعالیٰ وَ ثَوَابِہٖ
احتسابا یعنی الله تعالی کے وجہ (یعنی خوشنودی) اور اس کا ثواب حاصل کرنے کی خاطر
)لسان العرب، ابن منظور، ج ۱, ص ۳۱۵(
یا مثلا روایت میں اس طرح ملتا ہے
عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّعَلَیْہِمَا السَّلَامُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ اَلْمُؤَذِّنُ الْمُحْتَسِبُ کَالشَّاہِرِسَیْفَہٗ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ
جابر معنی روایت کرتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جو اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے اذان دے تو گویا اسکا ثواب اس شخص کی طرح ہے جس نے الله کی راہ میں تلوار اٹھائی ہو (یعنی جہاد کیا ہو۔”
)وسائل الشیعہ شیخ حر عاملی، ج ۵, ص ۳۷۴, باب ۲، ح ۶۸۲۴(
دوسرا لفظ اس فقرہ میں الصابر ہے جس سے مراد وہ شخص ہے جو صبر کرتا ہے۔ ثلاثی مجرد کا اسم فاعل ہے۔
یقینا امام حسین علیہ السلام نے صبر و شکیبائی کا وہ جوہر دکھایا کہ خود صبر کو پسینہ آجائے لیکن حسین علیہ السلام کے ماتھے پر شکن نہ آئی۔ خدا کی قسم دنیا کے تمام تر ٹوٹ ٹوٹ جائیں اور سیای سوکھ جائے لیکن حسین علیہ السلام کے صبر کی تعریف نہیں کی جا سکتی ہے۔
اَلسَّلَامُ عَلَی الْمَظْلُوْمِ بِلَا نَاصِرٍ
سلام ہو اس مظلوم پر جو بے یار و مددگار تھا
مظلوم کا مادہ ہے ظ ل م اور مظلوم کا اسم مفعول ہے یعنی وہ شخص جس پر کام کیا جائے۔ تاریخ میں محمد وآل محمد علیہما السّلام سے پڑھ کر کوئی مظلوم نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ ظلم کے پہاڑ کسی اور پر ٹوٹ تے تو پاره پاره ہو جاتا۔
بلا ناصر اس وقت کی طرف اشارہ ہے جب امام حسین علیہ السلام کا کوئی یاور اور مددگار نہ رہا۔ جب تمام انصار، اقرباء اور اولاد راه خدا میں قربان ہو گئے، امام حسین علیہ السلام نے صدائے استغاثہ بلند کی، اصغر نے اپنے آپ کو جھولے سے گرا دیا۔ امام حسین علیہ السلام اپنے ششماہے کو میدان میں لے گئے اور اصغر شہید ہو گئے۔ اب اسکے بعد امام حسین علیہ السلام تن و تنہا تھے۔ نہ کوئی یار تھا اور نہ کوئی مددگار۔

اَلسَّلَامُ عَلیٰ سَاکِنِالتُّرْبَۃِالزَّاکِیَۃِ
سلام ہو پاک و پاکیزہ خاک میں بسنے والے پر۔
ساکن کا مادہ ہے س ك ن اور ساکن اسکا اسم فاعل ہے جس کا مطلب ہے سکونت اختیار کرنے والا یا بسنے والا ۔
تربت یعنی خاک اور زاکیه یعنی پاکیزہ- زاكيه مؤنث ہے ز ا کی کا جو اسم فاعل ہے۔ ہم شیعوں کا عقیدہ ہے کہ کوئی بھی زمین سر زمین کربلا سب سے افضل نہیں۔ مثلا روایت میں ملتا ہے :
عَنْ اَبِی عَبْدِاللہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ اِنَّ اَرْضَ الْکَعْبَۃِ قَالَتْ مَنْ مِثْلِیْ وَ قَدْ بُنِیَ بَیْتُ اللہِ عَلیٰ ظَہْرِی ْیَاْتِیْنِیْ النَّاسُ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَ جُعِلْتُ حَرَمَ اللہِ وَ اَمْنَہٗ فَاَوْحَی اللہُ اِلَیْہَاکُفِّیْ وَ قِرِّیْ مَا فَضْلُ مَا فُضِّلْتِ بِہٖ قیْمَااُعْطِیَتْ اَرْضُ کَرْبَلَاءَ اِلَّا بِمَنْزِلَۃِالْاِبْرَۃِ غُمِسَتْ فِی الْبَحْرِ فَحَمَلَتْ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ وَ لَوْلَا تُرْبَۃُکَرْبَلَاءَ مَا فَضَّلْتُکِ وَلَوْ لَا مَنْ ضَمَّتْہُ کَرْبَلَاءُ لَمَا خَلَقْتُکِ وَلَا خَلَقْتُ الَّذِیْ افْتَخَرْتِ بِہٖ فَقِرِّیْوَاسْتَقِرِّیْ وَ کُوْنِیْ ذَنَبًا مُتَوَاضِعًا ذَلِیْلًامَہِیْنًاغَیْرَمُسْتَنْکِفٍ وَلَا مُسْتَکْبِرٍلِاَرْضِکَرْبَلَاءَ وَ اِلَّا مَسَخْتُکِ وَہُوَیْتُ بِکِ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ کعبہ کی سر زمین نے کہا: میری طرح کون ہے؟ جبکہ اللّٰہ کا گھر مجھ سے تعمیر کیا گیا ہے۔ دنیا کے دور دراز علاقوں سے لوگ میرے پاس آتے ہیں۔ مجھے الله کا حرم اور جائے امن قرار دیا کیا ہے“ (جیسے ہی یہ خیال اسے آیا) اللہ نے اس پر وحی کی قابو میں رہ اور اپنی جگہ ٹہر جا۔ جو فضیلت میں نے سر زمین کربلا کو عطا کی ہے اسکے مقابلے میں تیری فضیلت ایک سوئی کے برابری نہیں جیسے سمندر میں ڈبو دیا گیا اور پھر جب نکالا جائے تو سمندر کے پانی کے (ایک قطرہ کے) ساتھ نکلے ۔ (اسی طرح) اگرسر زمین کربلا نہ ہوتی تو میں تجھے یہ فضیلت کبھی عطا نہ کرتا۔ اور اگر ساکن کربلا (یعنی امام حسین علیہ السلام نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا اور نہ اسے پیدا کرتا جس پر تو فخر و ناز کر رہی ہے۔ لہٰذا ٹہر جا اور اپنی جگہ پر اور سر زمین کربلا کے لئے ایک متواضع ذلیل اور خاکسار بن کر رہ، اور کربلا کے مقابلے میں قطعا تکبر اور غرور نہ کرنا ورنہ میں تُجھے مسخ کر دوں گا اور تُجھے جہنم میں بلاک کر دوں گا۔”
)کامل الزیارات، از قولویہ ص ۲۶۷، باب ۸۷(
مندرجہ بالا حدیث واضح کرتی ہے کہ دنیا کی کوئی بھی زمین سر زمین کربلا کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔
السلام على صاحب القبة الشامية
سلام ہو بلند و بالا گنبد والے پر
الساميه اسم فاعل ہے جس کا مادہ ہے س م و اور سمو کے معنی ہیں بلند اور بالا۔ اس سے پہلے یہ بات گذر چکی ہے کہ اسی زیارت میں امام حسین علیہ السلام کو اس طرح سلام کیا گیا ہے کہ سلام ہو اس پر جس کے گنبد کے تحت دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس فقرہ میں جس بلندی کا ذکر ہوا ہے وہ صرف عمارت کی بلندی نہیں بلکہ روحانی معنوی اور مرتبہ کی بلندی ہے۔ اس گنبد کے نیچے کھڑے ہو کر دعا مانگنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ دعائیں یہاں مستجاب ہوتی ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلیٰ مَنْ طَہَّرَہُ الْجَلِیْلُ
سلام ہو اس پر جسے خدائے جلیل (صاحب جلال) نے پاک کیا
طَهَّرَ باب تفعیل کا پہلا صیغہ ہے۔ ضمیر ه اسکا اسمِ مفعول به ہے اور الجليل فاعل ہے اور یہاں اللہ کی صفت ہے۔ زیارت ناحیہ کے اس فقرہ سے امام حسین علیہ السلام کی اس طہارت کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے جس کا ذکر خداوند متعال نے آیت تطھیر میں کیا ہے۔ یعنی امام حسین علیہ السلام اصحاب کساء کہ ان افراد پاک میں سے ہیں کہ نجاست انکے قریب نہیں آسکتی ہے۔ سوره احزاب میں اعلان حق ہوتا ہے
إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذۡهِبَ عَنڪُمُ ٱلرِّجۡسَ أَهۡلَ ٱلۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيرً۬ا
الله نے یہ ارادہ کیا ہے کہ صرف تم سے ہر نجاست اور گندگی کو دور رکھے اے اہل بیت اور ایسے پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔
)سوره احزاب آیت ۳۳(
یہ آیت کریمہ آیت تطہیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس آیت میں ذات حق نے انکی طہارت اور پاکیزگی کی خود ضمانت لی ہے اور ظاہر ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی ضمانت ہو نہیں سکتی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس فقرے میں امام نے خدا کے اسم جلالی الجلیل کو امام حسین علیہ السلام کی طہارت سے مربوط کیا ہے ۔ اگر چہ اس کے اصل سر سے معرفت الله اور اسکی حجت واقف ہے لیکن کسی الظابر یہ اشارہ اس حقیقت کی طرف ہوسکتا ہے کہ جن افراد نے حسین علیہ السلام پر مظالم کے پہاڑ توڑے ہیں انہیں اس دنیا میں، برزخ میں اور قیامت میں خدا کی قہاریّت کا مزہ چکھنا ہوگا۔ والله اعلم بالصواب۔
اَلسَّلَامُ عَلٰی مَنِ افْتَخَرَ بِہٖ جَبْرَئِیْلُ
سلام ہو اس کی خدمت گذاری پر جبرئیل کو ناز تھا۔
افتخر کا مادہ ہے ف خ ر اور یہ باب افتعال کے ماضی کا پہلا صیغہ ہے۔ جبرئیل نے امام حسین علیہ السلام کو کس طرح خدمت کی ہے اور یقیناً یہ خدمت جبرئیل کے لئے سبب فخر ومبابات تھی، اسکی تفصیلات اگر رجوع کرنا چاہتے ہیں تو بحارالانوار کی ۴۳ اور ۴۴ جلدیں رجوع کر سکتے ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلیٰ مَنْ نَاغَاہُ فِی الْمَہْدِ مِیْکَائِیْلُ
سلام ہو اس پر جسے میکائیل نے گہوارے میں لوریاں سنائیں۔
ناغاہا کا مادہ ہے ن غ ی اور یہ باب مفاعلہ کے ماضی کا پہلا صیغہ ہے۔ مناغاہ یعنی لوریاں سنانا۔ ابن منظور لکھتا ہے :
اَلنَّغْیَۃُ: مِثْلُ النَّغْمَۃِ
نغیّہ سے مراد نغمہ ہے۔
)لسان العرب، ج ۱۵, ص ۳۳۵(
مهد یعنی گہوارہ
بعض روایات میں ملتا ہے کہ جبریل امین لوریاں سناتے تھے
عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ اَنَّ جَبْرَئِیْلَ نَاغَاہُ فِیْ مَہْدِہٖ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل اسے (یعنی امام حسین علیہ السلام) کو گھوارے میں لوریاں سنایا کرتے تھے۔
(بحار الانوار، ج ۴۴,ص۱۴۰، ح ۷, سے نقل از عيون معجزات از سید مرتضٰی رحمۃاللہ علیہ؛ بحارالانوار، ج ۹۹ ص ۱۹۱، زیارت جامعت)
بہر کیف وہ طفل کہ جسے جبرئیل اور میکائیل علیہم السلام جیسے مقرب فرشتے گہوارے میں لوریاں سنائیں اور اس پر فخر، مباہات اور رشک کریں، اس طفل کا کیا مرتبہ اور مقام ہوگا ! سبحان الله ! لیکن میدان کربلا میں وہی ذات اقدس یعنی امام حسین ابن علی علیہ السلام اب زمین پر ہیں شمر ملعون سینے پر سوار ہے اور فخر سے سر کو تن سے جدا کر رہا ہے ! یقیناً عرش الہی کانپ گیا ہوگا اور فرشتے گریہ کناں ہونگے۔
اَلسَّلَامُ عَلیٰ مَنْ نُکِثَتْ ذِمَّتُہٗ وَ ذِمَّۃُحَرَمِہٖ
سلام ہو اس پر جسکے دشمنوں نے اسکے اور اسکے اہل حرم کے سلسلہ میں اپنے پیمان کو توڑا۔
نکث یعنی نقض کرنا یا توڑنا۔ نُكِثَتْ مجهول ماضی کا چوتھا صیغہ ہے۔ ذمہ سے مراد عہد و پیمان اور حرم کے معنی ہیں اہل حرم یعنی خانوادہ یہ نکث عہد مولائے کائنات علیہِ سلام کے زمانے میں ہی توڑ دیا گیا تھا لیکن جولوگ جنگ جمل میں آپ سے لڑنے آئے تھے انہیں ناکثین کہا گیا ہے۔ روایات میں ملتا ہے کہ مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا :
اُمِرْتُ بِقِتَالِ النَّاکِثِیْنَ وَالْقَاسِطِیْنَ وَالْمَارِقِیْنَ
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ناکثین (جنگ جمل اور قاسطين (جنگ صفین) اور مارقين (جنگ نهروان) سے جنگ کروں۔
)بحار الانوار، ج ۲۹، ص ۴۳۴ نقل از الخصال از شیخ صدوق رحمۃاللہ علیہ)
یہی وہ افراد تھے اور انکی اتباع کرنے والے یا انکے فعل سے راضی رہنے والے جو کربلا میں سید الشہداء علیہ السلام سے جنگ کے لئے جمع ہوئے تھے اور کربلا میں انہوں نے صرف امام حسین علیہ السلام کے متعلق بیعت شکنی کی بلکہ ان کے اہل حرم کا بھی پاس نہ رکھا۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل حرم میں صادق آل محمد امام صادق علیہ السلام سے روایت منقول ہے
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ اِنَّ لِلہِ حُرُمَاتٍ ثَلَاثٌ مَنْ حَفِظَہُنَّ حَفِظَ اللہُ لَہٗ اَمْرَ دِیْنِہٖ وَ دُنْیَاہُ وَ مَنْ لَمْ یَحْفَظْہُنَّ لَمْ یَحْفَظِ اللہُ شَیْئًاحُرْمَۃَ الْاِسْلَامِ وَ حُرْمَتِیْ وَ حُرْمَۃَعِتْرَتِیْ۔
ابوسعید خدری نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا: الله – عزوجل کے لئے تین چیزیں سب سے زیادہ محترم ہیں۔ جس نے ان کا پاس و لحاظ رکھا اس نے الله کا پاس ولحاظ رکھا اور اللہ اس کے دین اور دنیا کے امور کی حفاظت کرے گا اور جس نے ان کی حفاظت نہیں کی اللہ اس کے کسی بھی چیز کی حفاظت نہیں کرے گا: اسلام کی حرمت، میری حرمت اور میری عترت کی حرمت”
)بحار الانوار، ج ۲۴ ص ۱۸۵، ح ۲ به نقل از الخصال از شیخ صدوق رحمۃاللہ علیہ ج ۱, ص ۱۴۶(
مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ آج دنیا بھر میں مسلمانوں کی جو حالت ہے یعنی ذلت، رسوائی، جهالت قتل و غارتگری، وغیرہ یہ سب صرف اس لئے ہے کہ انہوں نے الله کی حرمتوں کا لحاظ نہیں رکھا لہذا اللہ نے انکی حرمتوں کی پرواہ نہ کی!
اَلسَّلَامُ عَلیٰ مَنِ انْتُہِکَتْ حُرْمَۃُ الْاِسْلَامِ فِیْ اِرَاقَۃِ دَمِہٖ
سلام ہو اس پر جسکے خون بہنے سے اسلام کی حرمت پامال ہوئی
انتهكت کا مادہ ہے ن ہ ك اور یہ ماضی مجهول کا چوتھا صیغہ ہے۔ انتهاك کے لغوی معنی ہیں وہ چیزیں ہاتھ لگنا جو انکے لئے حلال نہ ہو۔ یہاں اس سے مراد پامال کرنے کے ہیں ۔ جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کا خون بہایا انہوں نے در اصل اسلام کی حرمت کو پامال کیا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا روایت سے صریحاً واضح ہوا۔
اراقه کا مادہ ر ی ق ہے، یہ باب افعال کا مصدر ہے اور اسکے معنی ہوتے ہیں بہانا۔ جب کوئی شی شدت کے ساتھ بہتی ہے تو اسے کہتے ہیں ريقة
اس سلسلہ میں دو حدیثوں اور ملاحظہ ہو :
عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہ ٖیَقُوْلُ یَجِیْءُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِثَلَاثَۃٌیَشْکُوْنَ: اَلْمُصْحَفُ وَالْمَسْجِدُ وَالْعِتْرَۃُیَقُوْلُ الْمُصْحَفُ یَا رَبِّ حَرَّفُوْنِیْ وَ مَزَّقُوْنِیْ وَ یَقُوْلُ الْمَسْجِدُ یَا رَبِّ عَطَّلُوْنِیْ وَ ضَیَّعُوْنِیْ وَ یَقُوْلُالْعِتْرَۃُیَا رَبِّ قَتَلُوْنَا وَ طَرَدُوْنَا وَ شَرَّ دُوْنَا فَاَجْثُوْا لِلرُکْبَتَیْنِ لِلْخُصُوْمَۃِفَیَقُوْلُ اللہُ جَلَّ جَلَالُہٗ لِیْ اَنَا اَوْلٰی بِذَالِکَ۔
جابر روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا: ” تین چیزیں پر قیامت کے رات آئیں گی شکایت کرتے ہوئے مصحف (قرآن) مسجد اور میری عترت۔ مصحف کھیگا کے پرودگارا! انہوں نے مجھ میں (معنوی) تحریف کی اور مجھے پارا پارا کر دیا؛ مسجد کہے گی پروردگارا ! مجھے معطل اور ضائع کر دیا؟ اور میری عترت (یعنی میرے اہل بیت کہیں گئے)
پروردگارا! ان لوگوں نے ہمیں قتل کر دیا۔ دروازے سے بھگا دیا اور در بدر کیا گیا۔ پھر یہ سب کے سب اپنے گھٹنوں کے بل ہوجائیں گے تاکہ ایک شکایت پر کاروائی ہو۔ اللہ جل جلالہ جواب دے گا انگو میرے لئے چھوڑ دو میں اس کا زیادہ حقدار ہوں۔”
)بحار الانوار، ج ۲۴, ص ۱۸۶, ح ۳ نقل از خصال از شیخ صدوق ج ۱, ص ۱۴۶(
عَنِ الْاِمَامِ مُوْسَی بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ اَبِیْہِ عَلَیْہِمَا السَّلَامُ فِیْ قَوْلِ اللہِ عَزَّوَجَلَّ وَ مَنْ یُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللہِ فَہُوَخَیْرٌلَہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ قَالَ حُرْمَتَہٗ فَقَدْ اَشْرَکَبِاللہِ، الْاُوْلَی انْتِہَاکُحُرْمَۃِ اللہِ فِیْبَیْتِہٖ الْحَرَامِ وَالثَّانِیَۃُتَعْطِیْلُالْکِتَابِ وَالْعَمَلُ بِغَیْرِہٖ وَالثَّالِثَۃُقَطِیْعَۃُ مَا اُوْجِبَ مِنْ فَرْضِ مَوَدَّتِنَا وَ طَاعَتِنَا۔
امام موسی بن جعفر علیہِ سلام اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السلام سے الله- عزوجل کے اس قول “جو الله کے حرمات کی تعلیم کرے وہ اللہ کے نزدیک اس بندے کے لئے بہتر ہے” کی تفسیر اس طرح فرماتے ہیں اس سے مراد تین واجب حرمتیں ہیں؛
جس نے ان میں سے کسی ایک کو بھی پامال کیا اور اس نے الله کی حرمت کو پامال کیا اور اس نے الله کا شریک قرار دیا ہے۔ پہلے الله کی حرمت اس کے محترم گھر کے متعلق، دوسرے کتاب خدا کو معطل کر دینا اور اس پر عمل نہ کرنا اور تیسرے جو اللہ نے ہماری مودّت اور عترت کے متعلق واجب اور فرض قرار دیا ہے اسے منقطع کرنا۔”
)بحار الانوار ، ج ۲۴, ص۱۸۶, ح ۵ نقل از خصال از شیخ صدوق ج ۱, ص ۱۴۶(
اَلسَّلَامُ عَلَی الْمُغَسَّلِ بِدَمِ الْجِرَاحِ
سلام ہو اس پر جسے اسکے زخموں کے خون سے نہلایا گیا ہو۔
مُغَسَّلْ یعنی جسے غسل دیا جائے یہ باب تفعيل کا اسم مفعول ہے۔
دم سے مراد خون ہے اور جراح جَرْح یا جُرْح کی جمع ہے۔ زیارت کا یہ فقرہ بتا رہا ہے کہ روز عاشوراء امام حسین علیہ السلام سرتاپا اپنے زخموں سے لگنے والے خون میں نہائے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ شمر ملعون نے اپنے خبیث لشکریوں کو صدا دی، تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے کس بات کا انتظار کر رہے ہو! حملہ کرو حسین پر کیوں کہ ان کو اب زخموں نے اور تیروں نے بالکل لاغر اور کمزور کر دیا ہے پس ان ملعونوں نے ہر جانب سے حسین پر حملہ کیا۔ ایک ملعون حصین بن تمیم ( لعنة الله علیہ ) نے آپ کے دہن مبارک پر ضربت لگائی۔ ابو ایوب غنوی (لعنت الله علیہ) نے آپ کے حلق پر تیر چلایا۔ زرعہ بن شریک تمیمی (لعنت الله علیہ) نے آپ کے کاندھے پر زور دار وار کیا۔۔۔۔ حسین پشت فرس سے روئے زمین پر آئے۔
)بحار الانوار، ج ۴۵, ص ۵۴