شرح زیارت ناحیہ

(المنتظر محرم الحرام خصوصی شماره ۱۴۳۲ھ پچھلے شمارے سے جاری)
اَلسَّلَامُ عَلَیالْجُیُوْبِ الْمُضَرَّجَاتِ
سلام ہو چاک گریبانوں پر۔
زیارت ناحیہ کے اس فقرے میں دو لفظ ہیں جیوب اور مضرجات جیوب جمع ہے جیب کا اور جیب کے معنی ہیں گریبان اور مضرجات کا مادہ ہے اور یہ باب تفعیل میں اسم مفعول جمع مونث سالم ہے۔ حرف ‘ر’ پر کسرہ (زیر( لگانا غلط ہے کیونکہ اس سے لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں اور اس کا مطلب ہوگا گریبان چاک کرنے والیاں۔ لہذا خیال رکھا جائے کہ مضرجات پڑھیں نہ کہ مضرجات (جیسا کہ کچھ کتابوں میں چھپا ہے اور یہ اشتباہ ہے(۔ بہر کیف، یہاں امام عصر علیہ السلام بھیج رہے ہیں ان گریبانوں پر کہ جنہیں چاک کیا گیا۔ اللہ اکبر۔ اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں حضرت حجت علیہ السلام کی مراد کون ہے لیکن ذاکرین حسین مظلوم اکثر مجلسوں میں پڑھا کرتے ہیں کہ جب امام مجتبٰی کا یتیم قاسم مقتل کے لئے روانہ ہو رہا تھا اس وقت حسین علیہ السلام نے اس کا گریبان چاک کیا۔ جب بچے نے چچا کے اس فعل کی مصلحت دریافت کی، حسین علیہ السلام نے جواب دیا، بیٹا، یہ یتیموں کی علامت ہے۔ یا یہ بھی ممکن ہے وہ امام عصر علیہ السلام کی مراد تمام شہداء ہیں کہ جن کی شہادت کے بعد ان کے گریبانوں کو ملاعین نے چاک کیا۔ والله اعلم بالصواب
اَلسَّلَامُ عَلَیالشِّفَاۃِالذَّا بِلَاتِ
سلام ہو مرجھائے ہوئے ہونٹوں پر
شفاء جمع ہے شفة کی جس کے معنی ہیں ہونٹ اور ذابلات یعنی مرجھائے ہوئے۔ یہ وہ ہونٹ تھے کہ جن کا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم که بوسہ لیا کرتے تھے۔ شیخ مفید رحمۃاللہ علیہ کتاب الارشاد میں تحریر فرماتے ہیں :
فَوُضِعَ الرَّأسُ بَیْنَیَدَیْہِیَنْظُرُاِلَیْہِ وَ یَتَبَسَّمُ وَ بِیَدِہٖ قَضِیْبُبِہثَنَایَاہُ، وَ کَانَاِلَیجَانِبِہٖ زَیْدُ بْنُ اَرْقَمَ صَاحِبُ رَسُوْلِ اللہِ (ص( وَہُوَشَیْخٌکَبِیْرٌ فَلَمَّا رَآہُیَضْرِبُبِالْقَضِیْبِثَنَایَاہُ قَالَ ارْفَعْ قَضِیْبَکَ عَنْ ہَاتَیْنِالشَّفَتَیْنِفَوَاللہِالَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ لَقَدْ رَاَیْتُشَفَتِیْ رَسُوْلِ اللہِ (ص( عَلَیْہِمَا مَا لَا اُحْصِیْہِیُقَبِّلُہُمَا ثُمَّ انْتَحَبَ بَاکِیًا۔
(بحار الانوار، ج۴۵، ص۱۱۶)
جب امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس ابن زیاد (لعنة الله علیہ)کے سامنے رکھا ہوۓ تھا، وہ ملعون اسے دیکھ دیکھ کر مسکرارہا تھا۔ پھر وہ لکڑی سے امام کے مبارک ہونٹوں کی بے حرمتی کرنے لگا۔ اس وقت وہاں زید بن ارقم صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے اور بوڑھے تھے۔ جب انھوں نے یہ قبیح منظر دیکھا تو انھوں نے ابن زیاد کو ڈانٹا اپنی لکڑی ان ہونٹوں پر سے ہٹا، اس خدا کی قسم کہ جس کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان ہوٹوں کا اتنے مرتبہ بوسہ لیتے ہوئے دیکھا کہ جس کا شمار نہیں کر سکتا۔“ یہ کہہ کر زید گریہ کرنے لگے۔
اَلسَّلَامُ عَلَی النُّفُوْسِ الْمُصْطَلَمَاتِ
سلام ہو کرب و اندوہ میں گھرے ہوئے چور چور نفوس پر۔
نفوس نفس کی جمع ہے جس کے معنی ہیں جان، روح و غیرہ اور المصطلمات کا مصدر ہے اصطلام جس کا مطلب اس طرح بیان
کیا گیا ہے ” اِذَا اُبِیْدَ قَوْمً مِنْ اَصْلِہِمْقِیْلَاصْطُلِمُوْا
جب کسی قوم کو اس کی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے تو کہتے ہیں اس کا اصطلام ہو گیا۔
(لسان العرب، ابن منظور ج ۱۲ ص ۳۴۰)
باب افتعال کا اسم مفعول ہے اور جمع مونث سالم – بنی امیہ نے کربلا میں وہ مظالم ڈھائے گویا کہ بنی ہاشم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کی کوشش کی۔
اَلسَّلَامُ عَلَی الْاَرْوَاحِ الْمُخْتَلَسَاتِ
سلام ہو ان روحوں پر جن کے جسموں کو دھوکے سے تہہ تیغ کیا گیا۔
روح کی جمع ہے أرواح یعنی روحیں اور مختلسات کا مادہ ہے
خلس باب افتعال کا اسم مفعول اور جمع مونث سالم۔
سلام ہو ان روحوں پر جن کو دھوکے سے قتل کیا گیا ہے۔ مهمان بلاکر قتل کیا گیا نصرت و مدد کا وعدہ دے کر شہید کیا گیا۔
اَلسَّلَامُعَلَی الْاَجْسَادِ الْعَارِیَاتِ
سلام ہو ہے گوروکفن لعشوں پر۔
اجساد جسد کی جمع جس سے مراد جسم ہے اور عاريات عريان سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے برہنہ اور بغیر لباس کے ہونا۔ جس ملعون نے امام مظلوم کا لباس چھینا تھا اس کا نام اسحاق بن حویتہ الحضرمی تھا۔ مقتل میں ملتا ہے جیسے ہی ملعون نے امام کی قمیص کو اپنے نجس بدن پر پہنا اور برص کا شکار ہو گیا۔
( بحارالانوار ج ۴۵ ص ۵۷)
اَلسَّلَامُ عَلَی الْجُسُوْمِ الشَّاحِبَاتِ
سلام ہو ان جسموں پر دھوپ کی شدت سے جن کے رنگ بدل گئے۔
جسوم جسم کی جمع ہے اور شاحبات جسوم کی صفت ہے۔ شاحب اسے کہتے ہیں جس کا جسم لاغر ہو گیا ہو اور اس کا رنگ اڑ گیا ہو یا محنت کی وجہ سے یا بھوک کی وجہ سے یا سفر کی بناء پر۔
نمر بن تولب کا شعر ہے
وَ فِیْ جسم رَاعِیْہَاشحوتکَاَنَّہٗ
ہُزَالٌ وَمَا مِنْ قِلَّۃِ الطُّعْمِ یُہْزَلُ
جب کہ لبید کہتا ہے :
رَاَتْنِیْ قَدْ شَحَبْتُ وَ سَلَّ جِسْمِیْ
طِلَابُ النَّازِحَاتِ مِنَ الْہُمُوْمِ
مظلوم کربلا اور ان کے اصحاب باوفا کے جسموں کا رنگ بدل گیا تھا اور وہ لاغر ہو گئے تھے بھوک، پیاس، تلوار کا بھاری پن، سفر کی شدتیں وغیرہ۔ لیکن ان میں سے کسی ایک سبب نے بھی حق جہاد ادا کرنے میں رکاوٹ بنے کی ہمت نہ کی ۔
اَلسَّلَامُ عَلَی الدِّمَاءِ السَّائِلَاتِ
سلام ہو خون کے بہتے دریاؤں پر۔
دماء یعنی خون اور سائلات سیل سے مشتق ہے جس سے مراد ہے بہنا۔ جسم انسانی میں جب تک خون بہتا رہتا ہے جسم میں حرارت پائی جاتی ہے اور جب جسم سے روح قبض ہو جاتی ہے خون سرد ہو جاتا ہے اور انسان کو مردہ کہتے ہیں۔
کربلا والوں نے اپنا خون بہا کر انسانیت میں ایک ایسی روح پھونک دی جو روز قیامت تک اسے مردہ ہونے نہیں دے گی اور جسد انسانیت کو حیات جاودانی بخشے گی۔ کربلا والوں کے خون کی بدولت انسانیت کے وجود میں حرارت پائی جاتی ہے اور رہے گی۔ حسین کا یہ سب سے بڑا احسان ہے انسانیت پر۔
اَلسَّلَامُ عَلَیالْاَعْضَآءِ الْمُقَطَّعَاتِ
سلام ہو اعضاء و جوارح کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں پر۔ اعضاء عضو کی جمع ہے اور مقطعات یعنی کے ٹکڑے۔ مجلس حسین علیہ السلام میں شریک ہونے والے عزادار بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح مظلوم کربلا صبح عاشورا سے لے کر عصر عاشورا تک اصحاب اور اقرباء کے لاشوں کو اٹھا کر خیام تک لاتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لاشوں کو گھوڑوں سے پامال کیا جاتا ہے۔ لہذا حسین علیہ السلام پامال کئے ہوئے ٹکڑوں کو چن کر بٹور کر خیمہ میں لاتے تھے۔
اَلسَّلَامُ عَلَی الرُّؤُوْسِ الْمُشَالَاتِ
سلام ہو ان سروں پر جنہیں نیزوں پر بلند کیا گیا۔
راُوس کا مفرد ہے راس یعنی سر اور مشالات شیل سے مشتق کیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہے بلند کرنا اور یہ اسم مفعول، جمع مونث سالم ہے۔ سید ابن طاوس علیہ فرماتے ہیں :
ثُمَّ اَمَرَابْنُزِیَادٍ بِرَاسِ الْحُسَیْنِؑ فَطِیْفَبِہٖ فِیْسِکَکِالْکُوْفَۃِ۔
این زیاد لعین نے یہ حکم دیا کہ حسین علیہ السلام کے سر کو کوفہ کے بازاروں میں پھرایا جائے
اور پھر سید کسی مرثیہ گو کے مرثیہ کے چند ابیات پیش کرتے ہیں۔
رَاسُ ابن بنتِ مُحَمَدِ وَ وَصِیِّہٖ
لِلْنَّاظِرِیْنَعَلَیقَنَاۃِیُرْفَعُ
وَالْمُسْلِمُوْنَ بِمَنْظَرٍ وَ بِمَسْمَعٍ
لَا مُنْکِرٌمِنْہُمْ وَلَا مُتَفَجَّعُ
محمد کی بیٹی اور ان کے دین کے فرزند کا سر تماشائیوں کے لئے نیزوں پر بلند کیا گیا اور مسلمان اس کا تماشا بھی دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے نہ کسی کو ان میں سے انکار تھا اور نہ ہی افسوس۔
اَلسَّلَامُ عَلَیالنِّسْوَۃِ الْبَارِزَاتِ۔
سلام ہو ان مخدرات (عصمت) پر جنہیں ہے پردا خیموں سے نکلنا پڑا
(حمید بن مسلم کہتا ہے: ”(عصر عاشوراء) جب خیموں میں آگ لگا دی گئی اور شعلے اٹھ رہے تھے، اہل حرم خیموں کے باہر نکل آئے جب کہ ان کا سب کچھ لوٹا جا چکا تھا، برہنہ پا گریہ کرتی ہوئیں جب اہل حرم کی نظریں لاشائے شہداء پر پڑیں وہ چیخ مار کر رونے لگے اور اپنے منہ کو پیٹھنا شروع کیا۔
حمید کہتا ہے پس خدا کی قسم میں زینب بنت علی علیہا السلام کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا جب کہ وہ حسین علیہ السلام پر گریہ کررہی تھیں اور بڑی ہی دردناک آواز میں بیان کر رہی تھیں ۔ نانا جان! آپ پر آسمان کے فرشتے درود بھیجتے ہیں، یہ آپ کا حسین ہے جو خون میں ڈوباء اعضا کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے ہیں اور آپ کی بیٹیوں کو قیدی بنایا گیا ہے۔ اور بعض روایات میں آیا ہے : یہ آپ کا حسین ہے کہ جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا ہے اور عمامہ اور ردا چھین لی گئی ہے۔
(بحار الانوار ج ۴۵ص۵۸-۵۹)
اَلسَّلَامُ عَلَیحُجَّۃِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَ عَلٰیآبَائِکَالطَّاہِرِیْنَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَ عَلَیاَبْنَآئِکَالْمُسْتَشْہَدِیْنَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَ عَلَیذُرِّیَّتِکَالنَّاصِرِیْنَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَ عَلَیالْمَلٰئِکَۃِالْمُضَاجِعِیْنَ۔
سلام ہو تمام عالمین کے پروردگار کی جیت پر سلام ہو آپ پر اور آپ کے پاک و پاکیزه آباء و اجداد پر۔ سلام ہو آپ پر اور آپ کے شہید فرزندوں پر سلام ہو آپ پر اور آپ کی نصرت کرنے والی ذریت پر سلام ہو آپ پر اور آپکی قبر کے مجاور فرشتوں پر۔
زیارت کے مندرجہ بالا فقروں میں جن پر درود و سلام بھیجا گیا ہے وہ اس طرح ہیں : (۱) پروردگار کی حجت (۲) امام مظلوم علیہ السلام کے معصوم ماں باپ پر (۳) امام کے شہید فرزندوں پر (۴) امام کی نصرت کرنے والی ذریت پر (۵) آپ کی قبر کے مجاور فرشتوں پر۔
بقيه آئندہ، انشاء اللہ