شرح زیارت ناحیہ

(المنتظر محرم الحرام خصوصی شمارہ،۱۴۳۱ء پچھلے شمارے سے جاری)
اَلسَّلَامُ عَلیٰ سَاکِنِ کَرْبَلَاءَ
سلام ہو کربلا میں بسنے والے پر
سرزمین مقدس و مبارک کربلا کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ علامہ مجلسی نے بحار الانوار (ج۱۰۱، ص ۱۰۶) میں ایک باب کربلا سے منسوب کیا ہے۔ “باب فضل کربلا والاقامة فيها” کربلا کی فضلیت اور اس میں قیام کرنے کی فضلیت۔ آیئے اس باب کی چند حدیثوں پر ایک طائرانہ نظر کریں :
عَنْ صَفْوَانَ الْجَمَّالِ قَالَ سَمِعْتُ اَبَا عَبْدِاللہِؑ یَقُوْلُ اِنَّ اللہَ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ فَضَّلَ الْاَرْضِیْنَ وَالْمِیَاہَ بَعْضَہَا عَلی بَعْضٍ فَمِنْہَا مَا تَفَاخَرَتْ وَ مَِا مَا بَغَتْ فَمَا مِنْ مَائِ وَلَا اَرْضٍ اِلَّا عُوْقِبَتْ لِتَرْکِ التَّوَاضُعِ لِلہِ حَتَّی سَلَّطَ اللہُ عَلَی الْکَعْبَۃِ الْمُشْرِکِیْنَ وَ اَرْسَلَ اِلَی زَمْزَمَ مَائَ مَالِحًا حَتّٰی اَفْسَدَ طَعْمَہُ وَ ا ِنَّ کَرْبَلَاءَ وَ مَاءَ الْنفُرَاتِ اَوَّلُ اَرْضٍ وَ اَوَّلُ مَائِ قَدَّسَ اللہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ وَ بَارَکَ عَلَیْہَا فَقَالَ لَہَا تَکَلَّمِیْ بِمَا فَضَّلَکِ اللہُ فَقَالَتْ لَمَّا تَفَاخَرَتِ الْاَرَضُوْنَ وَالْمِیَاہُ بَعْضُہَا عَلَی بَعْضٍ قَالَتْ اَنَا اَرْضُ اللہِ الْمُقَدَّسَۃُ الْمُبَارَکَۃُ الشِّفَاءُ فِیْ تُرْبَتِیْ وَ مَالِیْ وَلَا فَخْرَ بَلْ خَاضِعَۃٌ ذَلِیْلَۃٌ لِمَنْ فَعَلَ بِیْ ذَالِکَ وَلَا فَخْرَ عَلیٰ دُوْنِیْ بَلْ شُکْرًا لِلہِ فَاَکْرَمَہَا وَ زَادَہَا بِتَوَاضُعِہَا وَ شُکْرِہَا للہِ بِالْحُسَیْنِ ؑ وَ اَصْحَابِہٖ ثُمَّ قَالَ اَبُوْ عَبْدِاللہِ ؑ مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ وَ مَنْ تَکَبَّرَ وَضَعَہُ اللہُ۔
(بحار الانوار، ج۱۰۱، ص ۱۰۹، ح کے انتقل از کامل الزیارات این قولوی )
صفوان الجمال نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو عبد اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا۔ بیشک اللہ تبارک و تعالی نے کچھ زمینوں اور کچھ پانی (یعنی سمندر، دریا، نہر، کنواں وغیرہ ) کو دوسروں پر فضلیت عطا کی۔ پس ان میں کچھ نے فخرومباحات کیا اور کچھ نے بغاوت۔ لہذا ہر وہ پانی یا زمین جس نے تواضع اور انکساری کو ترک کیا، اسے سزا دی گئی حتی کہ اللہ نے کعبہ پر مشرکین کو مسلط کیا اور زمزم کے چشمے میں کھارا پانی نازل کیا یہاں تک کہ اس کی مٹھاس ختم ہوگئی۔ اور یقیناً کربلا اور فرات کا پانی پہلی زمین اور پہلی نہر ایسی تھی جنہیں اللہ تبارک وتعالی نے مقدس اور مبارک قرار دیا۔ پھر ذات حق نے حکم دیا۔ جو فضلیت اللہ نے تجھے عطا کی ہے اس کے متعلق گفتگو کر۔ اس نے جواب میں کہا۔ جب تمام زمین اور پانی ایک دوسرے پر اظہار فخر کررہے تھے۔ کربلا نے کہا۔ میں اللہ کی مقدس اور مبارک زمین ہوں۔ میری مٹی اور پانی دونوں میں شفا ہے۔ لیکن مجھے ان باتوں پر فخر نہیں ہے بلکہ اس ذات کے مقابلہ میں احساس انکساری و ذلت ہے جس نے مجھے یہ شرف عطا کیا ہے۔ اور میں دوسروں پر بھی فخر نہیں کرتی ہوں۔ بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں۔ لہذا اس کی انکساری اور شکر پروردگار انجام دینے کی بنا پر اللہ نے حسین علیہ السلام اور اصحاب حسین علیھم السلام کے ذریعہ اسکے احترام اور تقدس میں اضافہ فرمایا۔
(۲) امام باقر مایا فرماتے ہیں
خَلَقَ اللہُ تَبَارَکَ وَ تَعالیٰ اَرْضَ کَرْبَلَاَ قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ الْکَعْبَۃَ بِاَرْبَعَۃِ وَ عِشْرِیْنَ اَلْفَ عَامٍ وَ قَدَّسَہَا وَ بَارَکَ عَلَیْہَا فَمَا زَالَتْ قَبْلَ خَلْقِ اللہِ الْخَلْقَ مُقَدَّسَۃً مُبَارَکَۃً وَلَا تَزَالُ کَذَالِکَ حَتّٰی یَجْعَلْہَا اللہُ اَفْضَلَ اَرْضٍ فِی الْجَنَّۃِ وَ اَفْضَلَ مَنْزِلِ وَمَسْکَنٍ یُسْکِنُ اللہُ فِیْہِ اَوْلِیَائَہٗ فِی الْجَنَّۃِ
(بحار الانوار، ج ۱۰، ص ۱۰۷، ح ۵)
اللہ تبارک و تعالی نے سرزمین کربلا کو کعبہ کی خلقت سے چوبیس ہزار سال پہلے خلق کیا۔ اور اسے مقدس اور مبارک قرار دیا۔ یہ زمین (کربلا( تمام مخلوقات کی خلقت سے پہلے مقدس و مبارک تھی اور ہمیشہ رہے گی یہاں تک کہ اللہ اس کو جنت کی بہترین زمین اور افضل منزل و مکان قرار دے گا جس میں الله اپنے دوستوں کوجنت میں ٹھہرا ئگا۔
(۳) حدیث دیگر میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
جب سرزمین مکہ نے فخرومباہات کا اظہار کیا اس لئے کہ الله کاگھر اس پر تعمیر کیا گیا ہے تو ندائے حق آئی خاموش ہوجاگر کربلا کی تربت نہ ہوئی میں تجھے ہر گز فضلیت عطا نہ کرتا اور اگر وہ نہ ہوتا ہے کربلا اپنے آغوش میں لئے ہوئے ہے تو میں نہ تجھے پیدا کرتا اور نہ اس گھر (یعنی کعبہ)کو پیدا کرتا کہ جس کی بنا پر تجھے اتنا فخر و ناز ہے۔ لہذا سرزمین کربلا کی طرح منکسر ذلیل و متواضع اور تابع ہو جا اور ہر گز تکبر اور گھمنڈ نہ کرنا ورنہ تجھے نیست و نابود کر دیا جائے گا اور جہنم کی آگ میں جلادوں گا۔
(بحار الانوار، ج۱۰۱، ص ۱۰۶٫۱۰۷ ح ۳)
صاحب تفسیر المیزان علامہ سید محمد حسین طباطبائی (اعلی اللہ مقامہ) ے اس ضمن میں علامہ بحرالعلوم کا ایک خوبصورت شعر کہا ہے
ومن حدیث کربلا و کعبه
لکربلا بان عُلُو الرُتبۃ
کربلا و کعبہ کی گفتوگ سے
کربلا کا بلند مرتبہ بالکل واضح ہو جاتا ہے
(۴)صادق آل محمد امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا
زُورُوا کَرْبَلَاَ وَلَا تَقْطَعُوْہُ …… وَمَا مِنْ لَیْلَۃِ تَمْضِیْ اِلَّا وَ جَبْرَئِیْلُ وَ مِیْکَائِیْلُ یَزُورَانِہٖ
(بحار الانوار، ج۱۰۱، ص ۱۰۹٫ ح ۱۶)
تم سب کربلا کی زیارت کے لئے جایا کرو اور ہر گز اسے ترک نہ کرنا ۔۔۔کوئی شب ایسی گذرتی نہیں مگر یہ کہ جبرئیل اور میکائیل امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے تشریف لاتے ہیں۔
موضوع تو بہت طولانی ہے اور ممکن نہیں کہ اس مختصر مضمون میں تمام زاویہ پر روشنی ڈالی جائے۔ جو حضرات تفصیلات کے خواہاں ہیں وہ بحار الانوار ، کامل الزیارات، مقاتل کی کتابیں اور القائم المنتظر (محرم الحرام خصوصی شماره رجوع کر سکتے ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلیٰ مَنْ بَکَتْہٗ مَلَائِکَۃ السَّمَاءِ
سلام ہو اس پر جس پر آسمان کے فرشتے روئے۔
لفظ بکت فعل ہے جس کا ماده بکی ہے اور مقصد بکاء یعنی رونا یہ ماضی کا چوتھا صیغہ ہے اور التقاء ساکنین کی بنا پر یاء کو حذف کیا گیا ہے۔ مؤنث اس لئے ہے کہ ملاکہ جو ملک کا جمع مکسر ہے اس کا فاعل ہے۔ ملک کے معنی ہیں فرشتے اور ملائکہ سے کئی فرشتے مراد ہیں۔ معتبر روایات کی روشنی میں جسے شیعہ اور سنی علماء نے نقل کیا ہے۔ آسمان کے فرشتے جنگلوں کے جنگلی جانور فضا میں اڑنے والے پرندے، سمندر کی مچھلیاں اور ہر وہ انسان جس کے سینہ میں دل ہے حسین علیہ السلام پر گریہ کرتا ہے۔ یقینًا جو حسین علیہ السلام پر آنسوں نہیں بہاتا ہے وہ جانور سے بدتر ہے اور اس کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے۔
امام صادق پیر فرماتے ہیں :
زُورُوْا الْحُسَیْنَ وَ لَوْ کُلَّ سَنَۃٍ فَاِنَّ کُلَّ مَنْ اَتَاہُ عَارِفًا بِحَقِّہٖ غَیْرَ جَاحِدٍ لَمْ یَکُنْ لَہٗ عِوَضٌ غَیْرَ الْجَنَّۃِ وَ رُزِقَ رِزْقًا وَاسِعًا وَ اَتَاہُ اللہُ بِفَرَجٍ عَاجِلٍ اِنَّ اللہَ وَ کَّلَ بِقَبْرِ الْحُسَیْنِ اَرْبَعَۃَ آلَافِ مَلَکٍ کُلُّہُمْ یَبْکُوْنَہٗ وَ یُشَیِّعُوْنَ مَنْ زَارَہُ اِلَی اَہْلِہٖ فَاِنْ مَرِضَ عَادُوْہُ وَ اِنْ مَاتَ حَضرُوْا جَنَازَتَہُ بِالْاِسْتِغْفَارِ لَہُ وَالتَّرَحُّمِ عَلَیْہِ۔
تم سب (امام)حسین کی زیارت کرو چاہے ہر سال ہی کیوں نہ جاؤ ۔۔۔ہے شک اللہ نے قبر حسین علیہ سلام پر چار ہزار فرشتے معین کئے ہیں جو آپ کے لئے گریہ فرماتے ہیں اور جو کوئی ان کی زیارت کرنے آتا ہے اسکے ساتھ ساتھ رہتے ہیں جب تک کہ وہ اپنے اہل و عیال تک نہ لوٹے۔ اگر وہ مریض ہوتا ہے تو یہ (فرشتے) اسکی عیادت کرتے ہیں اور اگر مر جاتا ہے تو اس کے جنازہ میں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے لئے استغفار اور رحم کی دعاکرتے ہیں۔
ایک دوسری حدیث میں امام صادق علیہ السلام نے سدیر سے سوال کیا :
یَا سَدِیرُ تَزُوْرُ قَبْرَ الْحُسَیْنِ ؑ فِیْ کُلِّ یَوْمِ قُلْتُ لَا قَالَ مَا اَجْفَاکُمْ قَالَ تَزْوْرُہٗ فِیْ کُلِّ جُمْعَۃٍ قُلْتُ لَا قَالَ تَزُوْرُ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَتَزُوْرُہٗ فیْ کُلِّ سَنَۃٍ قُلْتُ قَدْ یَکُوْنُ ذَالِکَ قَالَ یَا سَدِیْرُ مَا اَجْفَاکُمْ بِالْحُسَیْنِؑ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ لِلّٰہِ اَلْفَ مَلَکٍ شُعْثًا غُبْرًا یَبْکُوْنَ وَ یَرْثُوْنَ لَا یَفْتُرُوْنَ زُوَّارًا لِقَبْرِ الْحُسَیْنِؑ وَ ثَوَابُہُمْ لِمَنْ زَارَہٗ۔
( بحار الانوار، ج ۱۰، ص ۶، ح ۲۴)
اے سدیر کیا تم روزانہ حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، امام نے فرمایا: تم نے محبت کا حق ادا نہیں کیا۔ کیا جمعہ کے دن زیارت کرتے ہو؟ میں نے کہا نہیں۔ مہینے میں ایک مرتبہ جاتے ہو؟ میں نے کہا نہیں۔ سال میں ایک مرتبہ انکی زیارت کرتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں کبھی کبھی اس وقت امام نے فرمایا اے سدیر تم نے حسین علیہ السلام کے ساتھ چفا کیا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کے ایک ہزار فرشتے حسین علیہ السلام کے قبر کی زیارت کرتے ہیں جبکہ انکے پر بکھرے رہتے ہیں، سروں پر غبار ڈالے ہوئے، گریہ کرتے ہیں اور مرثیہ پڑھتے ہیں اور تھکتے اور رکتے نہیں۔ انکا ثواب حسین کے زائر کو ملتا ہے۔
اَلسَّلَامُ عَلیٰ مَنْ ذُرِّیْتُہُ الْاَزْکِیاءُ
سلام ہو اس پر جس کی ذریت پاک و پاکیزہ ہے۔
ذرّیت کے معنی ہیں اولاد۔ اصل میں چھوٹے چھوٹے بچوں کا نام ذرية ہے مگر عرف میں چھوٹی اور بڑی سب اولاد کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے اور اگر چہ اصل میں یہ جمع ہے مگر واحد اور جمع دونوں کے لئے مستعمل ہے۔ ذریتہ کے لغوی معنی کے متعلق تین نظر یہ ہے: (۱) یہ ذرء سے مشتق ہے جس کے معنی پیدا کرنے اور پھیلانے کے ہیں اور اسکی همزه متحرک ہو گئی ہے جیسے که روية اور برية (۲) اسکی اصل زرویّہ ہے۔ (۳) ذرو ہے جسکے معنی بکھیرنے کے ہیں فولیّہ کے وزن پر ہے جیسے قمريه ذراری اور ذرّیات جمع ہیں۔
(لغات القرآن)
دوسرا لفظ ہے الازکیاء جو زکی کی جمع ہے۔ زکی صفت مشبهة بالفعل اور صیغه مبالغه دونوں ہے اور بر وزن فعیل ہے۔ زکی سے مراد پاک و پاکیزہ ہے۔
جملہ پر غور کریں یہاں امام عصر علیہ السلام فرمارہے ہیں کہ امام حسین کی تمام اولاد چھوٹی یا بڑی سب پاک و پاکیزہ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امام زین العابدین علیہ السلام سے لیکر حضرت علی اصغر علیھم السلام تک تمام اولاد حسین علیہ السلام کی پاک و پاکیزہ تھیں۔ ان کے یہاں برائی، نجاست، کثافت اور گناہوں کا تصور بھی نہیں تھا۔
اَلسَّلَامُ عَلی یَعْسُوْبِالدِّیْنَ
سلام ہو دین کے سر و سردار پر
یعسوپ عسب سے بنا ہے اور اسکے معنی ہیں سرور و سردار کے ۔ یہاں امام کو دین کا سرور اور سردار کہا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ امام دین، ایمان اور مومنین کے سردار ہیں۔ یہ لقب سب سے پہلے مولائے کائنات امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے لئے استعمال ہوا ہے اور پھر دیگر معصومین علیھم السلام کے لئے۔
اَلسَّلَامُ عَلیٰ مَنَازِلِ الْبَرَاہِیْنِ
سلام ان پر جو دلائل اور براہین کی آماجگاہ ہیں۔
لفظ منازل، منزل کی جمع ہے۔ منزل یعنی پناہ گاہ، رکنے اور آرام کا مقام و غیره. براہین برہان کی جمع ہے۔ برہان برہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں دلیل اور حجت بر وزن فعلان جیسے رجحان۔ بعضی خیال کرتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں سفید اور درخشاں۔ برہان اس دلیل کو کہتے ہیں جو تمام دلائل میں زوردار ہو اور ہمیشہ اور ہر حال میں سچائی کا تقاضا کرے۔ واضح رہے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں۔ (1) وہ جو ہمیشہ صدق کی متمنی ہو۔ (۲) جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو۔ (۳) جو صدق سے زیادہ قریب ہو۔ (۴) جو کذب سے زیادہ قریب ہو اور۔ (۵) جس کا اقتضاء صدق اور کذب دونوں کے لئے برابر ہو۔ برہان میں صدق کے علاوہ کذب کا کوئی گذر نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس لفظ کو آٹھ مقامات پر استعمال کیا ہے۔ بلکہ خود قرآن کریم کا مبارک نام “برہان” ہے۔ اس بیان کی روشنی میں اہل بیت علیہم السلام کو اس فقرے میں منازل البراہین کہا گیا ہے۔ یعنی یہ وہ ذوات مقدسہ ہیں کہ جن میں پروردگار عالم کے تمام دلائل و براہین جو ہر حال میں سچ ثابت اور سفید اور درخشاں ہیں۔ سمائے ہوئے ہیں اور یہ حضرات ان براہین کا ماوى اور پناہ گاہ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر کسی کو حق و باطل میں تفریق کرنا ہو اور احقاق حق اور ابطال باطل کرنا ہو۔ اسے چاہئے کہ محمد اور آل محمد علیہم السلام کے در پر حاضری دے، اور حق طلبی کرے۔ اسکے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلَالُ
اور حق کے بعد کیا ہے سوائے گمراہی کے؟
اَلسَّلَامُ عَلَی الْاَئِمَّۃِ السَّادَات
سلام ہو ان پر جو امام اور سردار ہیں۔
لفظ ” ائمہ” امام کی جمع ہے بر وزن افعلة اور سادات سید کی جمع ہے۔ امام اسے کہتے ہیں جو آگے رہے اور قیادت کرے اور سید سردار و سرور کو کہتے ہیں۔ اگرچہ امام اور امامت پر بحث کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے۔
لیکن بیجا نہ ہو گا اگر ہم مقام امام پر اجمالی نظر ڈالیں تو معانی و مطالب اور معارف کے در پے کھلتے ہیں چنانچہ شیعی نکتہ نظر سے۔
امام رضا علیہ السلام فرما تے۔
فَمَنْ ذَالَّذِیْ یَبْلُغُ مَعْرِفَۃَ الْاِمَامِ اَوْ یُمْکِنُہٗ اخْتِیضارُہٗ ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ ضَلَّتِ الْعُقُوْلُ وَ تَاہَتِ الْحُلُوْمُ وَ حَارَتِ الْاَلْبَابُ وَ خَسَاَتِ الْعُیُوْنُ وَ تَصَاغَرَتِ الْعُظَمَاءُ وَ تَحَیَّرَتِ الْحُکَمَاءُ وَ تَقَاصَرَتِ الْحُلَمَاءُ وَ حَصِرَتِ الْخُطَبَاءُ َ جَہِلَتِ الْاَلِبَّاءُ َ کَلَّتِ الشُّعَرَاءُ وَ عَجَزَتِ الْاَدْبَاءُ وَ عَیِیَتِ الْبُلَغَاءُ عَنْ وَصْفِ شَاْنٍ مِنْ شَاْنِہٖ اَوْ فَضِیْلَۃٍ مِنْ فَضَائِلِہٖ وَ اَقَرَّتْ بِالْعَجْزِوَالتَّقْصِیْرِ۔
(الکافی، ج ۱، ص ۲۰۱)
پس کون ہے جو معرفت امام تک پہنچے اور امام کا انتخاب اسکے لئے ممکن ہو؟ بعید ہے، بعید ہے عقلیں گمراہ ہو گئیں فکریں، فرد حیرت زده آنکھیں چوندھیا گئیں، بزرگ مرتبہ افراد چھوٹے ہوگئے، حکماء حیران و پریشان، حلم و بردبار افراد نے کوتاہی کی، خطیبوں کی زبانیں محدود ہو گئیں،عقلمند افراد جاہل بن گئے، شعرا گنگ ہوگئے، ادباء عاجز ہوگئے، فصیح و بلیغ افراد کی زبانوں میں لکنت پڑگئی، کہ وہ امام (منصوص من اللہ) کی شان میں سے کسی ایک شان کو بیان کرتے یا امام علیہ السلام کی فضیلتوں میں سے کسی ایک فضیلت کا تذکرہ کریں بلکہ ان سبھوں نے اپنی عاجزی، ناتوانی اور کوتاہی کا اقرار کر لیا۔
جب ہم اہل بیت اطہار علیھم السلام کی روایات کا مشاہدہ کرتے ہیں ہم پاتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختلف مراتب اور خصوصیات بیان کئے گئے ہیں۔ جسمانی، روحانی، معنوی، اطوار، خلقت کے اوصاف، ابتدائے خلقت، خلقت نورانی و غیرہ۔ لہذا ہم جب لفظ امام علیہ السّلام استعمال کرتے ہیں یہ تمام صفات آجاتی ہیں جیسے نب، علم ، ولایت الہی ( تکوینی و تشریعی) خلقت، ولایت وغیرہ۔ گفتگو کو منزل اختتام پر لے جانے کے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ اگر مسلمانوں کو ائمہ معصومین یا بالخصوص امیر المومنین علی علیہ السلام اور انکے فرزندوں کی صحیح اور حقیقی معرفت ہوتی، تو نہ سقیفہ پیش آتا اور نہ ہی کربلا۔ آج دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت ہوتی اور اللہ کے دین اور اسکی کتاب کا بول بالا ہو تا۔ لیکن افسوس!!!
(بقیہ آئندہ ، انشاء اللہ)