شہادت حسین علیہ السلام کے آفاقی اثرات

تمہید

الله کی یہ سنت ہمیشہ سے رہی ہے کہ مقرب بندوں کی ولادت و شہادت پر کائنات میں عظیم نشانیاں ظاہر ہوں تا کہ اہل زمین کو آنے والے مقرب بندوں کے استقبال کے لئے آمادہ کیا جا سکے اور اس عظیم بندوں کی شہادت پر کائنات پر ہونے والے اثر کو ظاہر کرے تا کہ بندوں کو جرم کی سنگینی کا احساس کرایا جا سکے دونوں باتوں کے لئے قرآن سے مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جناب عیسی کی پیدائش سے پہلے اور بعد کے واقعات کو قرآن میں تفصیل سے دیکھا جاسکتا ہے اسی طرح جناب یحییٰ اور ناقائے صالح کی شہادت کے بعد اثرات کو قرآن نے تفصیل سے پیش کیا ہے۔ دوسرے ان اثرات کو دکھایا یا باقی رکھا اس لئے بھی جانتا ہے تاکہ مستقبل میں آنے والے انسان ان سے درس عبرت لیں اور اپنے بزرگوں کے کارناموں کو اگر مثبت ہے تو اپنی زندگی میں اپنائیں ان باتوں کے مد نظر جب ہم امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ہونے والے واقعات و اثرات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اس کے اثرات ابدی اور خداوند عالم کے دین کی حفاظت میں ہر قربانی پیش کرنے کی تحریک عطا کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان اثرات کا انسان پر ایک گہرا اثر ہوتا ہے جو اس کے دین میں یقین و ایمان میں مضبوطی و پختگی پیدا کرتے ہیں عالم میں شیعیت کا ہونا اس کا بین ثبوت ہے، اُنہیں باتوں کے مد نظر آئے چند ایسے واقعات کا تذکرہ کریں جس سے یقین و ایمان میں اضافہ کے ساتھ دنیا و آخرت میں خداوند عالم کی خوشنودی کا سبب ہو۔
(۱) شیخ اپنی امالی میں معتبر سند سے حسین ابن ابی فاختہ سے نقل کرتے ہیں ۔ راوی کہتا ہے میں اور ابوسلمہ السراج اور یونس بن یعقوب، فضیل ابن سيار، ابو عبدالله علیہِ سلام (چھٹے امام) کے پاس تھے۔ میں نے امام سے کہا: میری جان آپ پر قربان ہوجائے میں بھی ان لوگوں کی نشستوں میں جاتا ہوں اور دل میں آپ لوگوں کو یاد کرتا ہوں پس میں اس وقت کیا کہوں؟ بس امام علیہ السلام نے فرمایا :
اے حسین، اگر تم ان لوگوں کی نشتوں میں جاؤ تو کہو۔
اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الرَّخَاءَ وَ السُّرُوْرَ فَاِنَّک َتَأتِیْ عَلیٰ مَا تُرِیْدُ
اے اللہ ہمیں آسانیاں اور خوشیاں عطا کر۔ پس بیشک تو جو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
راوی کہتا ہے میں نے امام سے کہا: میری جان آپ پر فدا ہو، میں امام حسین علیہ السلام کو یاد کرتا ہوں ۔ جب میں انھیں یاد کروں تو کیا کہوں؟پس امام نے جواب دیا: تین بار کہو – صلى الله عليك يا اباعبدالله آپ پر درود و سلام اے مولا حسین علیہ السلام۔ پھر امام ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
بیشک جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تو ساتوں آسمان اور زمین نے گریہ کیا زمین اور آسمان میں جو چیزیں ہیں سب نے گریہ کیا اور جنت اور جہنم میں جو چیزیں ہیں انھوں نے گریہ کیا۔ جو چیزیں دکھائی دیتی ہیں اور جو چیزیں دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ تین چیزیں کے علاوہ سب نے گریہ کیا راوی کہتا ہے میں کہا: میری جان آپ پر فدا ہو ، وہ تین چیزیں کیا ہیں جنھوں نے (حسین علیہ السلام) پر گریہ نہیں کیا؟ امام نے فرمایا: بصرہ، دمشق ،شام اور الحكم بن ابی العاص ۔
(جلاء العیون ص ۵۳)
(۲) شیخ صدوق امالی اور علل میں معتبر سند سے جبلتہ مکینہ سے روایت کرتے ہیں کہ جبلۃ کہتی ہیں: میں نے میثم تمار کو کہتے ہوئے سنا: الله کی قسم یہ امت اپنے نبی کے فرزند کو محرّم کے دسویں دن شہید کرے گی اور ان کی قوم دشمنان دین اس دن کو برکت کا دن قرار دیں گے اور یہ ہونے میں وارد ہے اللّٰہ تعالی نے اس کا ذکر پہلے ہی کر دیا ہے اور یہ چیزیں میں اس عہد و پیمان کی بنا پر کہہ رہا ہوں جو میرے مولا امیر المومنین علیہ السلام نے مجھ سے کہا ہے اور یقینا میرے مولا نے خبر دی ہے کہ ہر چیز میرے بیان پر روئے گی یہاں تک کہ جنگلوں میں جانور مچھلیاں سمندروں میں، پرندے آسمان میں روئیں گے اور سورج ، چاند ستارے، آسمان و زمین۔ انس و جن مومنین آسمان اور زمین کے تمام ملا کہ، رضوان، مالک، حاملین عرش الٰہی روئیں گے اور آسمان سے خون آلود خاک کی بارش ہوگی، پھر امام نے فرمایا قاتلین پر لعنت کرنا واجب ہے جیسے ان مشرکین پر لعنت کرنا جنہوں نے اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک قرار دیا اور جیسے یہودی عیسائی اور مجوسی پر لعنت کرنا واجب ہے۔
جبلته کہتی ہیں: میں نے میثم سے کہا: اے میثم کیسے لوگ اس دن کو برکت قرار دے سکتے ہیں جس دن امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے؟ میثم نے گریا کی اور پھر فرمایا: لوگ خیال کرتے ہیں کہ جھوٹی حدیثوں کے ذریعہ۔ یہ وہ دن ہے جس دن اللہ نے آدم علیہ السلام کے ترک اول کو قبول کر کے معافی عطا کیا جب کہ صرف اور صرف ذی الجہ میں الله نے ان کی توبہ قبول کیا اورلوگ تصور کرتے ہیں یہ وہ دن ہے جس دن الله نے داؤد کی توبہ قبول کیا جب کہ اللہ نے صرف اور صرف ذی الحجہ میں ان کی توبہ قبول کیا اور یہ خیال کرتے ہیں اسی دن یونس این متی کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا گیا جب کہ ذی الحجہ میں الله نے یونس پی کو مچھلی پیغمبر کے پیٹ سے باہر نکالا اور یہ لوگ تصور کرتے ہیں کہ یہ وہ دن ہے جس دن نوح کی کشتی کو جودی پر قرار آیا جب کے نوح کی کشتی کو ۱۸ ذی الحجہ کے دن جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی اور یہ لوگ تصور کرتے ہیں بنی اسرائیل کے اللہ نے اسی دن دریا میں راستہ بنایا جب کہ ربیع الاول کے مہینہ میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے لئے راستہ بنایا تھا میثم کہتے ہیں: اسے جبلتہ تم جان لو کہ بیشک امام حسین ابن علی علیہ السلام قیامت کے دن جنت میں شہداء کے سردار ہیں اور ان کے اصحاب دوسرے شہداء سے بہت بلند ہیں ۔
اے جبلتہ ، جب تم سرخ سورج کو دیکھو جیسے وہ جما ہوا خون ہوگیا ہے تو جان لینا کہ امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا۔
جبلتہ کہتی ہیں: ایک دن میں باہر نکلی تو میں نے دیکھا کہ سورج کی کرنیں دیواروں پر اس طرح دکھائی دے رہی ہیں جیسے خون آلود چادر لپیٹ دیا گیا ہو، میں چلا کر رونے لگی اور میں نے کہا ۔خداکی قسم آج امام حسین علیہ السلام شہید کر دئیے گئے۔
(۳) ابراہیم ابن نخعی سے روایت ہے کہ ایک دن علی علیہ السلام گھر سے نکل کر مسجد میں آ کر بیٹھ گئے اصحاب امیر المومنین علیہ السلام امام کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ حسین علیہ السلام امام کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے پس امام نے اپنا دست مبارک امام حسین علیہ السلام کے سر پر رکھا اور فرمایا: اے بیٹا الله تعالی نے اپنی کتاب میں ان لوگوں کو برا بھلا کہا ہے اس قول میں
فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْامُنْظَرِیْنَ۔
(سورہ دخان(۴۴): آیت ۲۹)
نہ آسمان نے ان پر گریہ کیا اور نہ زمین نے اور نه ان کو مہلت دی گئی ہے۔
خدا کی قسم یہ لوگ تمہیں شہید کریں گے اورتم پر آسمان و زمین گریہ کریں گے۔
ابوبصیر کہتے ہیں کہ چھٹے امام نے فرمایا: بیشک شہادت حسین پر آسمان و زمین نے گریہ کیا اور دونوں سرخ ہو گئے اور زمین و آسمان نے ان دونوں یعنی یحییٰ ابن زکریا اور حسین ابن علی علیہ السلام کے علاوہ کسی کے لئے گریہ نہیں کیا۔
عبدالله ابن بلال کہتے ہیں کہ میں امام صادق علیہ السلام کو کہتے ہوئے سنا: بیشک آسمان نے حسین ابن علی علیہ السلام اور یحییٰ این زکریا پر گریہ کیا اور ان دونوں کے علاوہ کسی پر گری نہیں کیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے سوال کیا آسمان کے گریہ سے مراد کیا ہے؟ امام نے فرمایا: چالیس دن تک سورج سرخ رنگ کا لگتا تھا اور سرخ پر ڈوبتا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ آسمان کے گریہ سے مراد یہی ہے۔ امام نے فرمایا: ہاں۔
(۴) بربری کہتے ہیں میں امام رضا علیہ کے پاس گیا تو امام نے مجھ سے کہا کیا تم اس بوم (الو) کو دیکھ رہے ہو؟ یہ لوگوں سے کہتا ہے؟ راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا: میری جان آپ پر قربان ، میں آپ سے سوال کرنے آیا ہوں؟ پس امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ ہوم میرے جد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں گھروں، قصر محلوں میں رہتا تھا اور جب لوگ کھانا کھاتے تھے تو اڑ کر ان کے سامنے آکر بیٹھ جاتا تھا لوگ اس کے سامنے کھانا رکھ دیتے تھے اور پانی پلا دیتے تھے اور یہ اُڑھ کر واپس اپنے گھونسلے میں چلا جاتا تھا لیکن جس دن امام حسین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا اس دن سے اس نے گھروں میں سکونت چھوڑ سن سان پہاڑ اور جنگلوں میں جا کر پناہ لی اور کہتا ہے تم لوگ بدترین امت ہو تم نے اپنے نبی کے بیٹی کے بیٹے کو قتل کر دیا اور اب میں تم پر بھی بھروسه نہیں کرتا ہوں۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: بیشک بوم دن میں روزہ رکھتا ہے پس جب روزه کھولتا ہے تو صبح تک حسین علیہ السلام پر اپنی بے زبانی سے مرثیہ پڑھتا ہے۔
حسین ابن منذر چھٹے امام سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام کو بوم کے بارے میں کہتے ہوئے سنا: کیا تم میں سے کسی نے بوم کو دن میں دیکھا ہے؟ امام سے کہا گیا کبھی کبھی وہ دن میں دکھائی نہیں دیتا ہے صرف اور صرف رات میں دکھائی دیتا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا :
بیشک بوم ہمیشہ آبادی میں رہتا تھا لیکن جس دن امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا اسی دن اس نے اپنے اوپر واجب کرلیا کہ کبھی بھی اب آبادی میں نہیں رہے گا اور ہمیشہ جنگل و بیابان میں پناہ لے گا۔ اس کے بعد آج تک غم زده دن میں روزہ رکھتا ہے یہاں تک رات کی ساری پھیل جاتی ہے اور جب رات کی تاریکی پھیل جاتی ہے تو صبح تک حسین پرمرثیہ پڑھتا ہے۔
(جلاء العیون ص ۴۳۳)
(۵) امالی صدوق میں مفضل ابن عمر سے معتبر سند کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے اپنے آباو اجداد کی سند سے نقل ہوا ہے :
ایک دن امام حسن علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے پاس تشریف لے گئے جب امام حسین علیہ السلام کی نظر امام حسن علیہ السلام پر پڑی تو امام نے گریہ کیا۔ پس امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: اے ابو عبدالله الحسن آپ کوکس چیز نے رلایا؟ امام حسین علیہ السلام نے جواب دیا: میں آپ پر ہونے والی مصیبت پر گریہ کر رہا ہوں ۔ پس امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: میں وہ ہوں جو زہر دغا سے شہید کیا جاؤں گا لیکن اے ابو عبد الحسین تمھارے دن (عاشورہ) جیسا کوئی دن نہیں ہے تیس ہزار کا لشکر تم پر حمله کرے گا جو دعوی کریں گے کہ ہم امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہیں اور دین اسلام کے ماننے والے ہیں تمہیں قتل کرنے اور تمہارا خون بہانے کے لیے اکٹھے ہوں گے اور تمہاری حرمت پامال کرنے اور تمہاری ذریت اور ابل حرم کو اسیر کرنے اور مال و اسباب لوٹنے کے لئے جمع ہونگے۔ اس وقت یقینا بنی امیہ لعنت کے مستحق قرار پائیں گے اور آسمان سے خون آلود خاک کی بارش ہوگی اور آپ پر ہر چیز گریہ کناں ہوگی یہاں تک جنگلوں میں جانور اور دریا میں مچھلیاں گریه کریں گی۔
اُنہیں پانچ واقعات پر اکتفا کرتے ہیں ورنہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد کے اثرات و معجزات نقل کرنے کے لیے کتابیں درکار ہوں گی، خداوند عالم کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ الله ہماری اس ادنی سی کوشش کو قبول کرے اور ہمیں امام حسین علیہ السلام کے عزاداروں میں شمار کرے اور وارث حسین علیہ السلام امام زمان علیہ السلام کے ظہور پر نور میں تعجیل کرے آمین ثم آمین۔