عزاداری سیرت صحابہ ہے

قارئین محترم! المنتظر کے محرم کے خصوصی شماروں میں عزاداری ،رونا،رُلانا اور عزاداری کے مختلف مراسم پر سیر حاصل بحثیں ہوتی رہی ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس مضمون میں ہم تاریخ واحادیث کی کتابوں سے مذکور عنوان پر مختصراً روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ عنوان خود وضاحت کر رہا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اصحاب بھی عزاداری،رونا،رُلانا اور اموات پر رنج وغم کا مظاہرہ کرنے میں آگے آگے رہے ہیں۔
گذشتہ شماروں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے بارے میں گریہ واشک کے بارے میں جو کچھ گذرا، اُس کے علاوہ مردگان وگذشتگان پر رونا، رُلانا اور سوگواری وعزاداری آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اصحاب میں بھی رائج رہی ہے۔ تاریخ نے صحابہ کی عزاداری وسوگواری کے بہت سے نمونوں کو محفوظ کر لیا ہے۔ نمونہ کے طور پر چند موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شہادت پر اہلِ مکہ کی عزاداری
سعید بن مُسَیِّب نقل کرتے ہے:
جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ارتحال فرمایا، شہر مکّہ گریہ کی بلند آوازوں سے لرز اٹھا۔
)اَخبارُ مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ‘ ج۳؍۸۰،ح۱۸۳۲، محمد بن اسحاق بن العباس الفاکھی متوفیٰ ۲۷۵ھ؁، مطبوعہ: دار خضر، بیروت ۱۴۱۴ھ؁ ط: ۳، تحقیق: د۔ عبداللہ دھیش؛ اسی طرح اعتقاد اھل السنّۃ ج۷؍۱۲۹۲،ح۲۴۵۱ تالیف ھبۃ اللہ بن الحسن بن منصور ابوالقاسم متوفی ۴۱۸ھ؁ ، دارِ طیبۃ۔ الریاض(
اس تاریخی شاہد کے لئے حاشیہ پر دئیے گئے حوالوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ۔۔
البتہ ہم نے اس مضمون کی تحریر کے لئے ’’شبہات عزاداری ۱‘‘تالیف سید مجتبیٰ عصیری کی فارسی کتاب کی جلد ١ صفحہ ۳۰۹ اور اُس کے آگے سے استفادہ کیا ہے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے سوگ میں عائشہ اور مدینہ کی عورتوں کی عزاداری
اہل سنت کی کتابوں میں عائشہ کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے بہت سی حدیثیں نقل ہوئی ہیں مثلاً تاریخ مدینۃ دمشق میں ابن عساکر نے نقل کیا ہے کہ:
اپنے دین کے کچھ حصہ کو عائشہ سے لو۔
) تاریخ مدینۃ دَمشق ج۳۰؍۴۵۹ ابن عساکر متوفیٰ ۵۷۱ھ؁ ،دارالفکر، بیروت ۱۹۹۵؁ء (
اسی طرح دیگر مورخین نے لکھا:
اپنے آدھے دین کو حمیراء سے اخذ کرو۔
)السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ج۲؍۱۳۷ متوفی ۷۷۴؁ھ، دار النشر، البدایہ والنھایہ ۳؍۱۲۹ابوالفداء اسماعیل بن عمر‘ متوفی ۷۷۴، مکتبہ المعارف۔بیروت(
اسی طرح لکھا کہ:
اپنے دو تہائی دین کو عائشہ سے حاصل کرو۔
)شذراتُ الذھب فی اخبار من ذھب ۱؍۶۲‘ عبدالحی بن احمد الحنبلی متوفیٰ ۱۰۸۹؁ھ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم السبع المثانی۳؍۱۵۵ از شہاب الدین السید محمود الآلوسی البغدادی، متوفیٰ ۱۲۷۰؁ھ(
تذکر: یہ روایتیں ان لوگوں کے لئے نقل کی گئی ہے جو ان کے قول کو معتبر جانتے ہیں ورنہ حدیث کے معیار پر یہ حدیثیں کھری نہیں اترتی ہیں ۔اہل سنت کے لئے احادیث عائشہ حجت ہے۔ اب ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ گریہ کے بارے میں عائشہ کیا فرماتی ہیں ؟کہتی ہیں:
پیغمبر کی رحلت کے بعد اُن کے سوگ میں، میں دوسری عورتوں کے ہمراہ (پیغمبرکی دوسری بیویوں اور مدینہ کی عورتوں کے علاوہ)کھڑی ہوئی اور اپنی صورت اور سینہ کو پیٹ رہی تھی۔
(السیرۃ النبویّۃ، ج ۶/۷۳ أبو محمد عبدالملک بن ہشام بن ایوب الحمیری المعافری متوفی ۲۱۳ھ؁، مسند احمد بن حنبل ج٢ص٢٧٤ ح ۲۶۳۹۱۔ الکامل فی التاریخ ج ۲ ص ۱۸۶)
اس حدیث کے ذیل میں صالحی شامی لکھتے ہیں:
اس حدیث کو صرف ابن اسحاق نے نقل کیا ہے اور چونکہ ابن اسحاق حدیث کے سننے کی تصریح کر رہے ہیں،ان کی حدیث حَسَن اور قابل اعتماد ہے۔
یحییٰ بن عباد کا بیان ہے عبداللہ بن زبیر سے میں نے سنا کہ انھوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے عائشہ سے سُنا ہے کہ وہ کہہ رہی تھیں کہ جب رسول اللہ کی روح قبض ہوئی تو وہ میرے حُجرے میں تھے، میں نے اُن کے سر کو ایک تکیہ پر رکھا اور میں دوسری عورتوں کے ہمراہ کھڑی ہوئی اور اپنی صورت اور سینہ کو پیٹ رہی تھی۔
توجہ: صحیح معنوں میں وہابی نظریات کے بانی ابن تیمیہ حرّانی نے بھی ابن اسحاق کی حدیث پر اعتبار کیا ہے اور لکھا ہے:
جب ابن اسحاق کہیں کہ مجھ سے حدیث کہی گئی ہے تو علماۓ حدیث کے نزدیک ان کی حدیث صحیح اور موردِ اعتماد ہے۔
(مجموعہ الفتاوی، ج۳۳؍۸۶)
ایک اعتراض
کہتے ہیں کہ جب شیعہ عائشہ کے عمل عزاداری اور سینہ زنی وصورت پر طمانچہ لگانے سے اپنی عزاداری پر استدلال کرتے ہیں تو وہابی کہتے ہیں کہ عائشہ نے خود اپنے اس عمل کو غلط قرار دیا ہے اور اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں نے اس کام کو ’’بیوقوفی‘‘اور ’’نادانی‘‘ اور ’’کمسنی‘‘کی بنا پر انجام دیا ہے۔
ہمارا جواب
(١) اگر وہابیت کی اس بات کو عائشہ کے عمل کے سلسلہ میں قبول کر لیا جائے تو اسی احتمال کو اُن کے تمام عمل میں بھی قبول کرنا چاہئےاور پھر جہاں دو تہائی دین کو عائشہ سے حاصل کرنے کو کہا ہے، اُس کا کیا ہوگا؟ یا پھر گذشتہ سطروں پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے نقل کی حدیث نصف ایمان یا دوتہائی دین عائشہ سے لو، اِن سب کا کیا ہوگا؟
(٢) فرض کیا جائے کہ عائشہ نے اپنی عزاداری، سینہ زنی و صورت پر طمانچہ لگانا وغیرہ پر پشیمانی کا اظہار کیا اپنی کمسنی کی وجہ سے تو صحابہ کی عورتیں جو سِن میں اُن سے زیادہ تھیں اور عاقل تر تھیں اور اُن کے ہمراہ سینہ زنی کر رہی تھیں، ان لوگوں نے اپنے عمل پر کبھی اظہار پشیمانی نہیں کیا۔
(٣) عائشہ کا یہ دعویٰ کہ پیغمبر کی جانکنی کے عالم میں آنحضرت کا سرِ مبارک اُن کے سینہ پر تھا، قابل قبول نہیں ہےکیونکہ امیرالمومنین علیہ السلام کی تصریح بالکل اس دعویٰ کے خلاف ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جب دنیا سے گئے تو اُن کا سرِ مبارک میرے سینہ پر تھا۔
(نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۲)
تذکر: بہت سی حدیثوں میں حضرت حمزہ علیہ السلام کی شہادت کاواقعہ نقل کیا گیا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے خود گریہ فرمایا، عزاداری کی اور صحابہ کو اُن پر گریہ کرنے اور عزاداری کا حکم دیا۔ یہ خود ایک نمونہ ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی زندگی میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے گریہ کے لئے منع نہیں کیا بلکہ گریہ کا حکم دیا۔اور صحابہ نے اور اہلبیت علیہم السلام نے بھی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں کی اور منع نہیں کیا۔
ابن اثیر جزری ساتویں صدی ہجری کے مشہور عالمِ اہل سنّت نے ایک دوسرے اہل سنت کے مشہور عالم بلکہ وہابیوں کے مقبول عالم ’’واقدی‘‘متوفیٰ۲۰۷ھ؁ سے نقل کیا ہے کہ:
اُس روز (یعنی شہادتِ حضرت حمزہ کے دن) سے آج تک، عورتیں پہلے حضرت حمزہ پر اور پھر اپنے شہیدوں پر روتی ہیں۔
)اَسْدُ الغابۃ فی معرِفَۃِ الصَّحابَۃ جلد ۲؍۶۸ از ابن اثیر جزری متوفی ۶۳۰ھ؁ (
یہ اس لئے ہوا کہ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے سُنا کہ میرے چچا حمزہ پر رونے والا کوئی نہیں ہے یہ سن کر اصحاب نے اپنی عورتوں کو جناب حمزہ پر رونے کو کہا۔ جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے گوش مبارک تک ان عورتوں کے گریہ کی آواز پہنچی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ان عورتوں کے حق میں دعا فرمائی ۔
)اَلْاِستِیْعَاب ۱؍۳۷۴ ؍از یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر، متوفی ۴۶۳ھ؁(
توجہ: یہ خود ایک فطری حکم ہے عزاداری کے لئے۔
عثمان کی قمیص کے لئے ایک سالہ عزاداری
عزاداری ایک فطری عمل ہے اور ہر مذہب میں کسی عزیز کی موت پر رونا سنت ہے یعنی یہ فطری عمل ہر جگہ جاری ہے۔قرآن وحدیث وسنتِ نبوی بھی اس کی شاہد ہے اور صحابہ بھی اور دوسرے مسلمان بھی اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔
لیکن جو بات قابل توجہ اور قابل غور وفکر ہے یہ کہ ابن تیمیۂ حرّانی اور اُن کے پیروان جیسے افراد شیعوں کی عزاداری پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور عزاداری کو حماقت خیال کرتے ہیں، لیکن جب اہل سنت اپنے بزرگوں اور علماء کے لئے عزاداری کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اپنی آنکھوں کو بند کر لیتے ہیں اور اپنے ہونٹوں کو سی لیتے ہیں اور پھر اُن کی صدائے اعتراض سنائی نہیں دیتی۔ نمونہ کے لئے اُن کے تیسرے خلیفہ کے قتل پر اُن کی قمیص کے لیے ایک سال کی عزاداری کو ملاحظہ فرمائیں:
معاویہ نے عثمان کی قمیص اور انگوٹھیوں کو منبر پر لٹکا دیا اور اپنے اطراف کے لوگوں کو جمع کیا اور ایک سال تک وہ سب روتے اور عزاداری کرتے رہے ۔شام کے ایک گروہ نے قسم کھائی کہ بسترِ آرام پر نہ جائیں گے اور نہ سوئیں گے اور اپنی بیویوں سے قربت نہیں کریں گے یہاں تک کہ عثمان کے قاتلوں کو قتل کر دیں یا خود مارے جائیں۔ وہ لوگ اسی حال میں رہتے اور ہر روز عثمان کی قمیص کو منبر پر لے جاتے اور ایک سال تک عثمان کے لئے روتے رہے۔
)تاریخ طبری ۳؍۷۰ از ابوجعفر محمد بن جریر طبری ، متوفی ۳۱۰ھ؁ ، الکامل فی التاریخ ۳؍۱۶۱ از شیباتی متوفی ۶۳۰ھ؁ شبھات عزاداری ۱؍۳۱۵(
کیا جوانان جنت کے مصائب پر گریہ کرنا، عزاداری کرنا بہترین عمل نہیں ہے؟
وہابیوں سے ایک سوال
وہابیت، اس طرح کے مطالب،جو اُن کی خود کی تاریخی کتابوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں، کیا جواب دیتے ہیں؟
ظاہر ہے، اُن کا تعصّب اور اہلبیت علیہم السلام اور اُن کے چاہنے والوں سے دشمنی میں اور بھی اضافہ کرے گا۔ ایسے ہی لوگ جہنم کا ایندھن قرار پائیں گے۔
عمر بن عبدالعزیز کے سوگ وعزاداری میں آسمان وزمین کاگریہ
یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری پر صدائے اعتراض خوب بلند ہوتی ہیں لیکن اگر ان کی من پسند شخصیات کی بات آتی ہے تو اُن پر رونا اور اُن کے لئے عزاداری جائز ہو جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز جو بنی امیہ کا ایک خلیفہ تھا، اس کی وفات پر زمین وآسمان روئے۔ملاحظہ ہو:
خالد ربعیِ کہتا ہے: تو رات میں لکھا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کی موت پر زمین و آسمان چالیس شبانہ روز روئیں گے۔
) سیر اعلام النبلاء ج ۵۱۴۲ از محمد بن احمد لذہبی (۷۴۸ھ) تاریخ الخلفاء ج۱/۲۴۵ از سیوطی (۹۱۱ھ؁)(
توجہ: ہم نے تو رات میں ایسی کوئی تحریر کو نہیں دیکھا؛ کاش جن لوگوں نے یہ سب لکھا خود ہی حوالہ لکھنے کی زحمت کرتے تو ہم بھی تورات میں اُس مکتوب کو دیکھ لیتے۔ اِن حضرات سے بعید نہیں ہے کہ یہ کہیں کہ یہ تحریف سے پہلے کی تو رات میں لکھا تھا۔ البتہ اُن سے پوچھا جا سکتا ہے کہ تم اس بات سے کہاں سے واقف ہو گئے؟!
’’جھوٹ بولنےوالوں پر خدا کی لعنت ہو‘‘
چند نمونے سنّی بزرگ علماء کے بارے میں
مضمون کے خاتمہ پر چند بزرگ سنّی علماء کے سلسلہ میں اُن کی موت پر عزاداری کا نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
(١) اَبُویُعْلیٰ (۳۴۶ھ) – عبدالمومن بن خَلف، مذہب ظاہریہ کے فقہاء اور مکتب محمد بن داود کے پیروؤں میں سے ہے۔ ذہبی نے اُسے علم حدیث اور روایات میں اہل سنت میں ’’امام“ کا مرتبہ دیا ہے، اُس کی تدفین کے بارے میں کہتا ہے:
جب میں نے عبدالمومن کے تشیع جنازہ میں شرکت کی تو طبل و ڈھول کی ایسی صدائیں کان تک پہونچیں کہ گویا کوئی لشکر شہر بغداد پر حملہ کر رہا ہو۔ یہ مراسم جاری رہے یہاں تک کہ نماز میت کا وقت آگیا۔
)سیر اعلام النبلاء جلد ۱۵؍۸۱(
مذکورہ بالا مطالب اُن لوگوں کی ردّ میں ہے جو خیال کرتے ہیں کہ شیعوں کے دستۂ عزاداری میں طبل و ڈھول اور بعض دوسرے وسائل صفویہ دور میں رائج ہوئے ہیں؛ جب کہ یہ واقعہ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا ہے۔
(٢) جُوَینی (۴۷۸ھ) – ذھبی ہی نے جُوینی کے مراسم عزاداری کے بارے میں لکھا ہے:
پہلے انہیں اُن کے گھر میں دفن کیا پھر اُن کے پیکر کو مقبرۃ الحسین منتقل کیا۔اُس کے سوگ وماتم میں اس کے منبر کو توڑ ڈالا، بازاروں کو بند کر دیا اور کثرت سے مرثیہ پڑھا۔ اُن کے چار سو شاگرد تھے جو اُن سے طلب علم کرتے تھے، انہوں نے اپنے استاد کے سوگ میں، اپنے قلم اور قلمدانوں کو توڑ دیا اور ایک سال کی مدت تک عزاداری کی علامت کے طور پر اپنے سر سے عماموں کو اتار دیا اور پورے شہر میں نوحہ خوانی ومرثیہ خوانی کرتے رہے، خوب فریاد و جَزع وعزاداری کیا اور اس مدّت میں کسی کی جرأت نہ ہوئی کہ عمامہ سر پر رکھیں!طلبہ شہر میں گھومتے اور فریاد وگریہ و صیحہ کے ساتھ نوحہ سرائی کرتے تھے۔
)سیر اعلام النبلاء جلد ۱۸؍۴۷۶(
اِن کے علاوہ ابن عساکر متوفیٰ۵۷۱ھ؁ اور ابن جوزی متوفیٰ ۵۹۷ھ ؁ کی موت پر عزاداری کو نقل کیا گیا ہے۔
اپنا کوئی مرتا ہے تو روتے ہیں تڑپ کر
اسلامی دنیا میں ان تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ فطرتاً عزاداری برپا ہوتی رہی ہے۔ قرآن واحادیث سے اور خود سنّت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے بھی عزاداری کا پتہ چلتا ہے۔ خاتمہ پر اُن چند بزرگوں کے نام نقل کر رہے ہیں جن کے لئے خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے گریہ کیا ۔
(١) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا گریہ اپنے بیٹے ابراہیم کی موت پر۔
(٢) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا اپنی والدہ کی قبر پر رونا اور آنسو بہانا اور دوسروں کو رلانا۔
(٣) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا گریہ فاطمہ بنت اسد علیہما السلام کی رحلت کے موقعہ پر۔
(٤) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا گریہ شہادت حضرت حمزہ پر۔
(٥) پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا گریہ جعفر بن ابی طالب کی شہادت پر۔
(٦) پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا گریہ زید بن حارثہ کی شہادت پر۔
(٧) پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا گریہ عثمان بن مَظعون کی موت پر۔
(٨) پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا گریہ سعد بن ربیع کی موت پر۔
(٩) پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا گریہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر۔ شہادت سے پہلے اور شہادت کے بعد بھی۔
ان تمام موضوعات کی تفصیل کے لئے رجوع کرے کتاب ”شبہات عزاداری“ جلد ١صفحات ٢٨٨-٣٠٧ ۔
السلام عليك يا ابا عبد الله، – لبيك يا حسين عليه السلام