انسان کی عقل و خرد، علم و دانش اور فکر و نظر ایک طائر شکستہ پر کی اس جنبش کی طرح ہے جسے وہ اپنی ساری طاقت صلاحیت اور تحقیق کو سمیٹ کر اپنی بلند ہمت اور اپنے بلند حوصلے کے ساتھ اپنے بازوؤں کو دے دیتا ہے۔
آج اقوام اپنے عروج اور اپنی ارتقائی منزلوں کو دیک کر اس مفریخت کرتی ہیں جب اس کے سیٹلائٹ چاند کی طرف جاتے ہیں جب اسکی میزائل چشم زدن میں فضاؤں کی بلندیوں سے گزرتے ہوئے اپنے نشانوں پر ٹھیک اترتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کہ دوسری قومیں یا مقابل میں آنے کیلئے تیاری کریں اور دوسرے دل دہلانے والے آتشیں ہتھیار ایجاد کریں جو کمزور قومیں ہیں وہ ڈریں ۔۔۔سہمی ہوئی حسرت و یاس سے صبح و شام کو دیکھتی رہی۔ دوسری جانب اسلام کی قبا اوڑھ کر جہالت کے اندھیروں سے دہشت گرد بے گناہ اور معصوم بندوں پر غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں وہ ایک جان دے کر سینکڑوں جان لینے کی قسم کھائے ہوئے ہزاروں یتیموں کو لاکھوں کی تعداد پر لیے جا رہے ہیں۔ بیوائیں سر پیٹ رہی ہیں مائیں کلیجہ پکڑے کسی گوشے میں سسکیاں بھر رہی ہیں۔ قیامت سے پہلے اس قیامت خیز دنیا کا منظر ہے جہاں لگتا ہے سورج نکلے گا اور عجب نہیں دوسرے لمحے میں سوانیزہ پر آجائے۔ جہاں شام ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے وقت ایسا آسکتا ہے جب سور اسرافیل سے کوہ و دمن میں آگ لگ جائے۔
اس ہولناک منظر سے متاثر مگر بے خوف ایک انسان کا تصور سامنے آتا ہے جو ذکر الہی میں مصروف کہہ رہا ہے “الا بذکر اللہ تطمئن القلوب” سامنےخاک شفا ہے. سجدہ میں جا کر کہتا ہے “للہ الحمد وله شکر” اس کی عقل روشن ہوئی ہوگی. اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر غور و فکر کیا. اپنے وجود کی پناہ گاہ کی منزل کا متلاشی ہوا۔ کہتے ہیں جویندہ یا بندہ اس کو پناہگاہ ملی جو چار ستونوں پر قائم تھی۔ ذکر – سجدہ – اطمینان اور شفاء۔ اس نے دیکھا ہر ستون پر نور کی تحریر جگمگا رہی تھی آنکھیں ملتا ہوا قریب جا کر دیکھا تو ہر ستون پر لکھا تھا “یا حسین”۔
ہم اتنا سمجھنے لیں کہ یہ دنیا۔ یہ کائنات بہت چھوٹی ہے اور امام حسین علیہ السلام اس سے بہت بڑے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ آپ کی ذات عالمین پر چھائی ہوئی ہے۔ آئیے اس کا جو میں نے اپنے بیان میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ایک عقلی اور نقلی تجزیہ کریں جو نہایت اہم تو ہے لیکن اس کو چند سطور میں بیان کرنا پتھر میں نرم دھار بڑھانے کے مصداق ہے۔ پھر بھی کوشش شرط ہے۔
کون جانتا تھا کہ ایک ذرہ کے جگر میں منفجر ہونے کی اتنی بڑی قوت ہے جو بستیوں کو نیست و نابود کر سکتی ہے کون جانتا ہے کہ تینکوں میں کہیں کوئی ایسا سلیقہ بھی موجود ہو سکتا ہے جیسے اشاروں پر بجلیاں رقص کرتی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ بڑے بڑے صاحبان قلم اور صاحبان نظر اور صاحب علم امام حسین کی تعریف و تمجید کو احاطہ تحریر میں لانے کے لیے تنکوں کی حیثیت رکھتے ہوں۔ تاہم تائید غیبی سے توقیر و تنویر، تحریر میں اتنی جان پیدا ہونا ناممکن نہیں ہے جو اسراء الہی کے پردے ہٹا دے اور کشف و کرامات کی جھلک نظر آنے لگے امام حسین علیہ السلام کی مکہ کی طرف روانگی سے قبل مدینہ کی زندگی کو ایک گوشہ نشینی کی زندگی تھی تاہم جہاں بانی اور جہاں بینی دونوں اعتبار سے آثار و برکات آپ کے وجود اقدس سے ظاہر ہو رہے تھے۔ آپ کے عارفین محبین دور دور سے درس اخلاق اور زندگی کے سلیقہ کو اس انداز میں ڈھالنے کے لیے جو غیر مفتوح، مستحکم اور انہیں کے چلن کے مطابق ہو سیکھنے کے لئے حاضر ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ بحارالانوار میں واقعہ ملتا ہے کہ خطیف یا کسی اور علاقه سے تین افراد جو امام حسین علیہ السلام کی معرفت رکھتے تھے اور آپ کی ذات سے ابھرتے ہوئے نور اور اعجاز سے کبھی کبھی دریائے حیرت میں غوطہ زن رہتے تھے حاضر ہوئے۔ اور انہوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کا وجود آپ کے نانا رسول زمن کی طرح ایسا ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم آپ سے سوال کریں کہ آپ کیا ہیں۔ آپ کی خلقت کیا ہے تاکہ ہماری استعجابی کیفیت میں کچھ کسب ضیا ہوجائے اور ہماری معرفت یقین کے مدارج کو طے کر سکے۔ راقم الحروف نے من و عن وہی لفظیں استعمال نہیں کیا ہے بلکہ تزئین بیان میں اپنی عبارت کا اسلوب رکھا ہے اور اسی کا سہارا لیا ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں تاب و توانائی نہیں ہے کہ ہماری خلقت کی حقیقت کو باریک سے باریک اور ہلکی سے ہلکی کرن کو دیکھنے کی تاب لا سکو۔ سمندر کا کوئی حصہ دریا میں سیلاب پیدا کر سکتا ہے۔ دریا تالاب کے ظرف کو توڑ دیتا ہے۔ تمہارا ظرف میری حقیقت خلقت پر نظر ڈالنے کی صلاحیت سے معذور ہے تم لوگ چند لمحوں تک سورج کو نہیں دیکھ سکتے تو پھر میری خلقت کو کیا دیکھ سکو گے؟ اصرار پر اصرار کرتے ہوئے افراد نے ایک شخص جو بہت متدین اور مضبوط قلب کا تھا اس کو منتخب کیا اور عرض کیا کہ آپ کم سے کم اس شخص کو اپنی خلقت کے نور کی ایک جھلک دکھا دیں۔ امام حسین علیہ السلام نے ایک سوئی کی نوک کے برابر اس کی آنکھ کے گوشہ کا پردہ ہٹا دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص بیٹھا تھا کھڑا ہوگیا اسکے اعصاب ٹوٹنے لگے اس کے دماغ کے کنارے شکستہ ہونے لگے اور وہ لرزہ براندام تھا کچھ دنوں تک اسکی یہی کیفیت رہی اور اس کے بعد امام علیہ السلام کی کر مفرمائی سے شفا کی صورت نکلی۔ امام حسین امام حسین علیہ السلام ہیں۔
(بحار الانوار جلد ۴۴ صفحہ۸۴)
یہ بھی ایک مسلمہ ہے کہ خالق اپنی مخلوق کو بہت چاہتا ہے جس خالق نے اس دنیا کو خلق کیا اس کو لو لو والمرجان سے سجایا ہے۔ اسکی زینت کیلئے اپنی نعمتوں کو تمام و کمال تک پہنچایا اور اسکے لیے اپنی اشرف مخلوق کی ہدایت کے لئے اپنے معصوم انبیاء کو بھیجا اور آخر میں ختم المرسلین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعو مبعوث فرمایا اسی کا یہ قول آپ کی ساری شریعت پر حاوی ہے کہ “میرا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں” یعنی جب تک نام حسین زندہ ہے شریعت محمدی کو کوئی آنچ نہیں آ سکتی اور یہ شریعت حسینیت کی پاسبانی اور پاسداری میں ہے. اسکے حدود میں ہر سرکش کو سرنگوں ہو کے رہے ہیں وہ حسین جو مرسل اعظم کی سیرت و شریعت کا ایسا پاسبان ہو اُسکیلۓ قدرت نے خلقت آدم سے لے کر آج تک کتنا اہتمام کیا ہوگا۔ آئیے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر دیکھیں۔ ہم اسے ماضی سے لے کر حال تک صرف تین ادوار میں منقسم کر کے یہ کاوش کریں گے کہ امام حسین علیہ السلام کا اسم گرامی کا کا ورد کہاں کہاں ہو رہا ہے اور کیسے کیسے نجات ملتی ہے۔ ہم نے صرف تین ادوار کا ذکر کیا ہے موضوعیت کی تفصیل کے لحاظ جو بڑے وسیع کینو اس پر پھیلا ہوا ہے۔
پہلا دور : وہ دور ہے جسے انسانی تہذیب کو پیش رفتی کا دور نہیں کہتے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جو خلقت آدم سے پہلے کا دور ہے۔ وہ دور دراز ماضی کا دور جسکے لیے ایک دو نہیں بلکہ کئی ملین سالوں پہلے کا دور کہا جاتا ہے اور اس میں کون اور کیسے جاندار رہتے تھے اس سلسلے میں جانوروں کے پیروں کے نشان یا دایناسورس کے انڈے دستیاب ہوتے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ڈائناسور کے پنجوں کے نشان کی خبر اخبار میں شائع ہوئی تھی جسکے لیے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کئی ملین سالوں پرانے جانوروں کے ہیں۔
یہ دو انسانی تہذیب کی پیش رفتی کے لیے تاریک دور سمجھا جاتا ہے جہاں اولاد آدم کی چہل پہل کے آثار نظر نہیں آتے۔ لہذا ہم اس دور سے گزر کر دوسرے دور کی نشاندہی کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔
دوسرا دور : آدم ثانی نوح نبی اللہ کا دور ہے قارئین کو معلوم ہے کہ آپ کی نبوت کی مدت تقریباً نو سو برس ہے اور اس دور میں آپ کی تبلیغات نبوت کے تحت ساری بستی کے لوگ آپ سے مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ قصاص میں ملتا ہے کہ آپ پر لوگ اتنے پتھر مارتے تھے کہ آپ کا بدن اس میں چھپ جاتا تھا۔ خداوند جبّار و قہار نے اس قوم پر عذاب نازل کیا اس وقت کی پوری دنیا غرق آب ہوئی سوائے 80 افراد کے جو طوفان سے بچنے کے لیے آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں آگئے۔ یہی نہیں بلکہ وہ جانور بھی طوفان کی زد میں نہیں آئے جو ان افراد کے ساتھ حضرت نوح کی دعوت پر کشتی پر سوار تھے۔ ان اسّی افراد سے یہ دنیا پھر آباد ہوئی۔ پھر دنیا سرسبزوشاداب ہوئی۔ پھر بہار نو خیمہ زن ہوئی۔ پھر زمین نے قوت نامیہ کا اثر دکھایا۔ پھر دیواروں پر بیل بوئے اپنے گلہائے نورنگ سے مست خوشبو لے کر چڑھنے لگیں۔ لیکن ڈوبنے والوں کی عذابی تکلیف کو تو وہی جانیں جن پر یہ وقت پڑا تھا کہ حلق میں دم رک رک کر آیا سانسیں ٹوٹیں۔ جگر پھٹ رہے تھے، دل کی ایک ایک رگ ٹوٹ رہی تھی، ناک اور منہ سے صرف پانی بہہ رہا تھا ہچکیاں لے رہے تھے، ہر موج کے طمانچے منہ پر پڑھ رہے تھے، مشکل سے ایک ایک کا دم نکلا ہوگا۔ یہ حشر ہوا تھا اس دنیا
اول: ایک کتاب کچھ زمانے پہلے شائع ہوئی تھی ، ‘علی یا ایلیا’ اس میں تحریر تھا کہ نوح کی کشتی کے کچھ ٹکڑے ملے ہیں جن پر کچھ اسماء نقش ہیں۔ ماہرین لسانیات نے شبّیر اور شبّر کے نام کی تشخیص کی ہے۔ ہمارے علماء بھی پڑھتے ہیں کہ جب حضرت نوح پنجتن کے نام کی کیلیں جڑ رہے تھے تو آخری کیل جو حسین علیہ السلام کے نام کی تھی جب اسے اٹھایاتو حضرت نوح بے ساخته گریہ کر رہے تھے اور اسوقت تک مصروف گر یہ رہے جب تک اس کیل کو کشتی کی لکڑیوں میں پیوست نہیں کر لیا۔
دوم : مرسل اعظم رسول اکرم کی زبان سے نکلی ہوئی یہ حدیث سارے عالم کے مسلمانوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ میرے اہل بیت ہدایت کے چراغ اور مانند کشتی نوح کے ہیں مصباح الہداء اور سفینه التجات جو اسکی پناہ میں آیا نجات پائی اور جس نے تخلف کیا غرق آب ہوا۔ رسالتمآب کے اہل بیت کے دفتر پر خامس آل عبا کی مہر تا قیامت دمکتی رہے گی۔
سوم : قلت اور کثرت : صرف ۸۰ (اسّی) آدمیوں کے جو کشتی نوح پر سوار تھے انہیں نیک بندوں سے یہ دنیا بھر آباد ہوئی۔ کربلا کا سانحہ سامنے رکھئے۔ کربلا میں اسلام کی کشتی پر بہتّر یا ایک سو سے کچھ زیادہ شہداء نے سیلاب کفر و نفاق سے جن کی تعداد کم سے کم تیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ تیس ہزار تھی۔ طلوع آفتاب سے لے کر عصر عاشور تک مقابلہ کیا اور کشتی اسلام کو بچا کر نکال لے گئے۔ چتگری نے کیا خوب کہا ہے۔ ڈوب کر پار ہو گیا اسلام۔ آپ کیا جانیں یہ کربلا کیا ہے؟ اب جو غرق آب ہوئے معذب ہوئے ، ڈوب کر موت کے چنگل میں کے ان کی بھی مثال سن لیجئے۔ روایت میں ملتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنے قافلے کے ساتھ جب کے ساتھ جب قادسیہ سے آگے بڑھے تو ایک منزل پر آپ کو خبر ملی کہ عبد الله ابن حر جعفی بھی قریب ہے اپنے عملہ کے ساتھ آیا ہوا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے عبد الله ابن حر جعفی جن کے پاس بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا: عبداللہ میر کی نصرت کیلئے میرے ہمراہ ہو جا، عبد الله ابن حر جعفی اہل بیت کا چاہنے والا ضرور تھا وہ آپ کی عظمت و جلال کا قائل تھا لیکن سینے میں ایک کمزور دل رکھتا تھا۔ اس نے جواب میں کیا۔ ” مولا ! میں مسلم کی لاش کو کوفے میں سڑکوں اور گلیوں میں گھسیٹا جا رہا ہے دیکھ کر آرہا ہوں۔ مولا ! مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ابن زیاد کے مقابلہ میں کھٹرا ره سکوں۔ اتنا ضرور ہے کہ میرا گھوڑا عرب کا وہ گھوڑا ہے جسکا شاید کوئی ثانی نہیں۔ آپ اسے لے لیجئے ، میرے پاس جتنے ہتھیار ہیں وہ سب لے لیجئے لیکن میں آپ کے ہمراہ نہیں جاسکتا، مجھ میں اتنی ہمت اور صلاحیت نہیں ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: “میں نانا کے دین کی پاسبانی کیلئے جارہا ہوں امر بالمعروف و نهی از منکر میرا مقصد سفر ہے۔ میری راہ میں میری نصرت کرنے والے شہید ہونگے۔ مجھے تیرے اس گھوڑے اور ہتھیار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر جب یہ کہہ کر پلٹنے لگے تو آپ پھر ایک مرتبہ مڑے اور فرمایا ”ہاں عبد اللہ بن حر جعفی ! ایک بات میر کی خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لے ورنہ پچھتائے گا، ابن حر جعفی نے کہا۔ مولا ! وہ کون سی بات ہے تو آپ نے فرمایا تو اتنی دور چلا جا جہاں میری آواز استغاثہ تیرے کان تک نہ پہنچے اور نہ چو میری صدائے استغاثہ کو سنیں گے اور میری نصرت کی طرف قدم نہیں اٹھائیں گے تین سال کے اندر اندر ہلاک ہو جائیں گے۔ گویا امام حسین علیہ السلام کی صدائے استغاثه کشتی نوح کی طرح نجات اور غرق یابی کا ایک محکم فیصلہ تھا جس کا عمل درآمد بعد قتل حسین علیہ السلام شروع ہو کر تین سال میں مکمل ہو گیا۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ کسی اور شمارہ میں بس اتنا سمجھ لیجئے کہ جس طرح وہی لوگ بچے جو کشتی نوح میں سوار تھے باقی سب عذاب الہی سے ہلاک ہوئے۔ اسی طرح وہی لوگ تین سال کے بعد تک جانبر رہے جن کے کانوں میں امام حسین کی آواز استغاثہ نہ پہونچی۔ حضرت نوح کے بعد حضرت ابراہیم کا دور آتا ہے جس کے لئے ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے
عجیب ساده و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت جسکی حسین ابتدا ہیں اسماعیل
تیسرا دور ابراہیم خلیل اللہ کا ہے
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے نمرود بادشاہ تھا۔ بابل اور کلید ان دو بڑے شہر تھے ان دونوں شہروں میں مدنیت کی کافی ترویج ہوچکی تھی، صنم صنم خانے آباد تھے اس دور میں کوئی متنفس موحد نہیں تھا۔ اصنام کی نئی نئی صورتیں تراش کر بت کدوں میں رکھ دئے گئے تھے۔ ان کے گرد افکار اور عقائد کے نت نئے قصے جنم لے رہے تھے۔ رسم و رواج انہی اصنام سے منسلک تھے۔ نمرود و خدا اور خالق اور موت اور حیات کا دینے والا کہلایا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان اصنام کو توڑنے والے پہلے بت شکن کہلائے۔ لیکن امام حسین علیہ السلام وہ ہیں جنھوں نے برسوں سے فکر و نظر اور عقید توں میں بنے ہوئے صنم خانوں کو مسمار کردیا۔ بہت دنوں پہلے برطانیہ کے کسی رسالے میں وہ تختی جو مٹی کی بنی ہوئی تھی اور جس پر تصویر کے ساتھ حروف بھی کندہ تھے چھپی تھی اور وہ تختی ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کی تھی جسے ابراہیم علیہ السلام نے اس زمانے کے لوگوں سے بنوا کر علم کی تقریر کے ساتھ تحریر کی داغ بیل ڈالی۔ ماہر لسانیات کا قول ہے کہ اسی زمانے میں علم کی توسیع ہوئی (و اللہ اعلم بالصواب) ہو سکتا ہے اس زمانہ کے لوگوں کی ظرفیت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ طریقہ اختیار کیا ہو۔
تفصیلات سے درگزر کرتے ہوئے ہمیں صرف اتنا دیکھنا ہے کہ اس دور میں امام حسین علیہ السلام کا تعارف اور اہتمام کس انداز میں حضرت ابراہیم کی حیات میں نقطہ پر کار تبلیغ نبوت و خلیلیۃ و امامت بن کر ہزاروں سال پر محیط انسانیت کی تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا اور آنے والے مستقبل میں جس کا سرا ظہور امام مہدی علیہ السلام سے ملتا ہے سلسلہ وار قائم ہے۔ اس تحریر کی تجدید قرآن کی تفسیر میں ملتی ہے۔
دین حنیف ابراہیم علیہ السلام (۱) بت شکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اوائل عمر یعنی بچپنے کی زندگی پہاڑوں کی پناہ گاہوں میں مخفی طور پر ہوئی۔ آپ کا قد و قامت تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ حضرت ابراہیم اکیلے اکیلے تھے لیے اس وقت جب عالم جوانی میں آئے جیسے للکارا تھا وہ بادشاہ تھا جس کا نام نمرود تھا وہ خود کو خدا کہتا تھا، تفصیل ممکن نہیں مگر ایک واقعہ نقل کرتا چلوں جب حضرت ابراہیم مصر سے واپس آئے تو جناب ہاجرہ ساتھ میں تھیں۔ نمرود کے دربار میں حاضر کیئے گئے۔ نمرود نے جب جناب ہاجرہ کی طرف جب دونوں ہاتھ بڑھائے تو اس کے ہاتھ شل ہو گئے۔
موازنہ
پلٹ کر شام آجائیے۔ جب یزید نے کہا میں علی کی بیٹی سے بالمشافہ گفتگو کروں گا انہیں میرے سامنے لایا جائے۔ ایک سیاہ فام کنیز فضہ نے اپنے قبیلے والوں کو للکارا۔ غیرت دلائی زریں کمر بستہ غلام جو یزید کے پیچھے کھڑے تھے تلوار سونت کر سامنے آگئے اور پھر جب بیبی نے خطبہ دیا ہے تو لوگ کہتے تھے کیا علی زندہ ہو گئے ہیں۔ یہ کون ان کے لہجے میں یزیدیت کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
(۲) جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اقدام سے تبلیغ نبوّت سے دوسرے شہر کلیدان کے لوگوں میں ایک ہلچل۔ ایک کھل بلی مچ گئی اور قبیلے اور خانوادے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرفداری میں کھڑے ہونے لگے اور ابراہیم علیہ السلام کی زبان بولنے لگے تھے۔ اسی طرح جب مصعب بن عمیر مرسل اعظم کے سفیر مکہ سے مدینہ آتے ہیں تو بنی خزرج اور بنی اوس کے قبیلوں کی پرانی دشمنی ختم ہوئی اور اسلام قبول کرکے مصعب کی قیادت میں دونوں قبیلوں نے ایک ساتھ نماز قائم کی۔ یہ مدینہ تھا جہاں امام حسین کا بچپن اور جوانی گزری جہاں آپ کی ولادت پر عرش سے لوحِ فاطمہ نازل ہوئی۔ جہاں فطرس کو بال و پر ملے، جہاں نانا نے اپنے فرزند کے لیے کہا لو یاد کرو یہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔
(۳) اور عرفات اور منی کی سر زمین حضرت ابراہیم کی زبان میں کچھ بول رہی ہے۔ قربانی دیتے ہیں دنبے ذبح ہوتے ہیں، شیطان پر کنکری مارتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرفات میں قیام کیا تھا حاجی اسکی تاسی کرتے ہیں۔
غور سے سنیے۔ سنی علماء حضرت امام حسین علیہ السلام کے اس قیام کے بارے میں وسیلہ بنا کر دعا کرتے ہیں اے باری تعالیٰ امام حسین علیہ السلام کے واسطے سے ہماری دعا قبول فرما۔ اور مینا کی سر زمین اس واقعہ کو بیان کر رہی ہے جب نواز رسول نے کربلا میں اپنے ہاتھوں پر اپنے جوان بیٹے کی لاش کو اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا
هذا قربان تقبل منا
ہم تو صرف اتنا کہہ کر آگے بڑھیں گے تو گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ کی ایک ایک سانس وراثت حسین علیہ السلام میں آئی ہے. امام حسین علیہ السلام امام حسین علیہ السلام ہیں.
