عظمت گریہ

عظمت گریہ

خداوند عالم نے انسانوں کی ہدایت اور ابدی نجات کے لیے اشرف انبیاء و اکمل رسُل اور وجہ تخلیق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دین مقدس اسلام کے ساتھ مبعوث فرمایا آنحضرت کو آخری نبی اور آپ کے لائے ہوئے دین کو آخری دین اور آپ کی لائی ہوئی کتاب قرآن مجید و آخری آسمانی کتاب قرار دیا یعنی اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ دین مقدس اسلام کے بعد کوئی دین نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب آئے گی ۔ اب انسانوں کی ہدایت کے لیے صبح قیامت تک نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی دین وشریعت۔
حضرت مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے “ضلال مبین” کے ماحول میں لوگوں کو ندائے وقتی حقیقی کی طرف دعوت دی اور دین مقدس اسلام کی طرف بلایا۔ تاریکی میں رہنے والوں نے نور کی، زہر کے عادی لوگوں نے آب حیات کی جم کر مخالفت کی اور مخالفت کے جتنے راستے بہتھکنڈے استعمال کر سکتے تھے کئے۔
مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ اور دین اسلام میں وہ اثر تھا کہ دل منقلب ہوتے رہے اورلوگ مسلمان ہوتے رہے ان دلوں کے دروازے کھل گئے جو باب خیبر سے زیادہ سخت تھے۔ معرفت پروردگار کے چمن دلوں کی وادیوں میں کھلتے رہے اور دیکھتے دیکھتے عرب کا پورا ماحول بدل گیا جس مکہ میں قافلے لوٹ لئے جاتے تھے وہ مکہ صاف ستھرا اور امن و امان کا مرکز قرار پایا لوگوں کے مزاج بدلے عادتیں بدلیں خود غرضی کی جگہ ایثار کی باتیں ہونے لگیں خوں ریزی کے بجائے فداکاری کے چرچے ہونے لگے مال لوٹنے والے مال لٹانے لگے غرض کہ پورا ماحول بدل گیا۔ ایسا زبردست انقلاب آیا کہ حیوان ناطق حیوانیت کو چھوڑ کر انسان بن گیا۔
لیکن بنی آدم کے دیرینہ دشمن شیطان اور اچھائیوں کے دشمن “نفس اماره” کو یہ انقلاب ایک آنکھ نہیں بھایا۔ ابتدای ہی سے دین اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع ہوئیں ۔ سازشی ذہن ایک دوسرے سے قریب ہوئے دشمنی کے منصوبے بنائے گئے راہیں طے کی گئیں وقت معین کئے گئے “مسجد ضرار” – تعمیر کی گئی رسول خداکو رات کی تاریکی میں ناقہ سے گرا کر ختم کرنے کا منصوب تیارکیا گیا۔ اسلام دشمن طاقتوں سے ساز باز کی گئی اور اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں بند ہونے کا انتظار کیا جانے لگا۔ اُنہی منصوبوں کو عملی کرنے کے لیے لشکر اسامہ سے دوری اختیار کی گئی ۔ رسول خدا کے بار بار اصرار کے باوجود لوگ مدینہ کی گلیوں میں تو
بظاهر نظر نہیں آئے لیکن اسامہ کے لشکر میں بھی شامل نہیں ہوئے۔
ادھر رسول خدا کی آنکھیں بند ہوئیں پرانے منصوبوں پرعمل درآمد شروع ہوگیا۔ ثقیفہ میں پنچایت منعقد ہوئی جناب زہرا سلام اللہ علیہا کا دروازہ جلایا گیا حضرت علی علیہ السلام کے گلے میں رسی باندھی گئی جناب زہرا شہید کی گئیں حضرت علی علیہ السلام کو گوشا نشینی کیا گیا۔ خدا و رسول کے مقابل میں دین میں ذاتی رائے کو جگہ دی گئی حلال وحرام کے نئے قواعد مرتّب ہوئے، بدعتوں کو سنتوں کا درجہ دیا گیا سنتوں سے زیادہ بدعتوں پر عمل کیا گیا۔ رفتہ رفتہ دین کا ایسا نقشہ بدلا۔ دائرہ اسلام میں رہ کر وہ لوگ جو ایک طرف قرآن کی تلاوت بھی کرتے تھے تو دوسری طرف شراب و شباب جسے دین اسلام میں حرام اور نجس اور شیطان کا عمل قرار دیا تھا اس پر عمل کرنے لگے اور اپنی زندگی میں جائز کر لیا۔ یزید جو اسلام کی تاریخ کا فاسق و فاجر کردار ہے جو ان تمام حدود و شریعت کو توڑ کر خلیفہ رسول بن گیا۔ لوگوں نے اسی یزید کا ساتھ دیا کچھ اس کے سپاہی بن کر میدان کربلا میں آگئے۔ کچھ لوگ حضرت امام حسین علیہ السلام سے الگ رہ کر خاموشی سے اپنے دلوں میں یزید کے لئے نرم گوشہ رکھتے رہے۔ نواسہ رسول پر ابو سفیان کے پوتے کو ترجیح دینے لگے۔ اصحاب اور تابعین نے اب تک کہ تمام تبدیلیوں کو اس طرح تسلیم کرلیا کہ دین اسلام کا اصلی چہرہ ناپید ہوگیا اور ایک ایسا اسلام سماج میں رائج ہونے لگا جس کو خدا نے نازل ہی نہیں کیا تھا۔
رسول ثقلین کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام جو نواسہ رسول ہونے کے ساتھ ساتھ زمین پر خدا کے نمائندہ تھے دین اسلام کے محافظ تھے انھوں نے دین کی حفاظت کی خاطر وہ قدم اٹھایا جس کی بنا پر آج تک دین اسلام زندہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اس کے خاطر اپنے پورے خاندان اور اصحاب باوفا کی شہادت قبول کی لوگوں نے نواسہ رسول اور ان کے آل و اصحاب کو اس بے دردی سے شہید کیا جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ہے۔ یہ واقعہ کربلا صرف چند ماہ و سال کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس ظلم و جور کا عروج تھا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد شروع ہو گیا تھا۔
ظالم و جابر کو ظلم و جبر کے وقت صرف طاقت کا نشہ سوار رہتا ہے ان کے انجام کو ہرگز فکر نہیں ہوتی ہے لیکن جب اس کے ظلم کے چرچے ہونے لگتے ہیں تو ظالم اور ظالم سے ہمدردی رکھنے والوں کو بہت برا لگتا ہے۔ وہ اس طرح کے تذکرے کو کسی بھی شکل میں پسند نہیں کرتے ہیں۔
دین مقدس اسلام کی بقا امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے وابستہ ہے عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ان پر اور ان کے خاندان پر ہونے والے تمام مظالم کا تذکرہ ہے۔ جب دل اس طرح کے مظالم سن کر متاثر ہوتے ہیں تو آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں یہ آنسو ظالم کو اچھے نہیں لگتے ہیں ۔ اس بنا پر رواداری اور گریہ کی مخالفت ہوئی ہے۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام کےسامنے صبح قیامت تک کے تمام حالات ہیں ۔ ان کو معلوم تھا کہ اہل بیت علیہم السلام کے فضائل و مصائب اور خاص کر حضرت امام حسین علیہ السلام کے فضائل و مصائب پر پابندیاں عائد ہونگی جب کہ یہی فضائل و مصائب اسلام کی زندگی کا سبب ہیں۔ ان حضرات نے گریہ اور تذکرہ مصائب کی بقا کا ایسا انتظام کر دیا کہ یہ سلسلہ صبح قیامت تک جاری رہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام سے محبت کرنا ان کا غم منانا۔ ان کی مصیبت پر آنسو بہانہ سنت رسول ہے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انحراف عین گمراہی ہے۔
شدید محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اے عمران ہر چیز کی دل میں ایک جگہ ہے جو جگہ ان بچوں کو میرے دل میں ہے وہ کسی کی نہیں ہے۔
عمران نے عرض کیا: کیا سب یہی بچے ہیں ۔
اے عمران جوتم نہیں جانتے وہ اس سے زیادہ ہے خدا نے مجھے ان کی محبت کا حکم دیا ہے۔
(کامل الزیارات باب ۱۴ح ۲)
جناب ابوذر غفاری کی روایت ہے ۔ میں نے دیکھا کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسن اور حسین علیہما السلام کا بوسہ لے رہے ہیں اور فرمارہے ہیں جو حسن اور حسین اور ان کی ذریت کے ساتھ خلوص سے محبت کرے گا جہنم کی آگ اس کو نہیں جلائے گی گر چہ اس کے گناہ صحرا کے ذرات کے برابر کیوں نہ ہوں مگر وہ گناہ جو ایمان سے خارج کر دے۔
(ماخذ سابق ح ۴)
عبد اللہ بن مسعود نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہیے کہ ان دونوں بچوں سے محبت کرے کیونکہ یقینا الله تعالی نے ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔
(ماخذ سابق ح ۵)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے حضرت رسول خدا سے روایت کی ہے۔ جو اس مضبوط رسی سے متمسک ہونا چاہتا ہے جس کا تذ کرہ الله تعالی نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ حضرت علی بن ابی طالب اور حسن و حسین علیہم السلام کو اپنا ولی تسلیمِ کرے کیونکہ خداوند عرش سے اوپر ان دونوں سے محبّت کرتا ہے۔
(ماخذ سابق ح ۶)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے حضرت رسول خدا سے یہ روایت نقل کی ہے۔ جون حسن و حسین سے بغض رکھے گا وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے پر بالکل گوشت ہوگا اور اس کو ہرگز میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔
(ماخذ سابق ح ۷)
قرآن کریم میں خدا کا ارشاد ہےگرتم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔
اللہ سے محبت کے لیے رسول کی پیروی ضروری ہے۔ اور رسول کی پیروی کے لیے امام حسن و حسین علیہما السلام سے محبت کرتا لازمی ضروری ہے۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بغیر ان کے نواسوں کی محبت کے ممکن نہیں ہے۔
قبل شهادت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گریہ:
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے بیان فرمایا
ایک دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اس دن ام ایمن نے ہمارے یہاں دودھ، گھی اور کھجور بطور تحفہ بھیجا تھا ہم نے آنحضرت کی خدمت میں یہ چیز پیش کیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تناول فرمایا پھر آپ نے چند رکعت نماز پڑھی اورنماز کے آخری سجدہ میں شدید گریہ فرمایا۔ آپ کے احترام
میں کسی کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ اس گری کا سبب دریافت کرے اس وقت حسین علیہ السلام اٹھ کر آنحضرت کی آغوش میں بیٹھ گئے اور کہا۔ نانا جان جب آپ ہمارے گھر میں داخل ہوئے آپ کے آنے سے جو خوشی ہوئی وہ اور کسی شے سے نہیں ہوئی پھر آپ نے گریہ فرمایا۔ جس سے ہم سب غم زدہ ہو گئے اس وقت آپ کے گریہ کا کیا سبب۔
فرمایا: نورنظر ابھی کچھ دیر قبل جبرئیل آئے تھے اور خبر دے گئے ہیں کہ تم سب کے سب قتل کر دیئے جاؤ گے اور تمہاری قتل گاہیں الگ ہوں گی۔
امام حسین علیہ السلام نے دریافت کیا: ہماری قبروں کے الگ الگ ہونے کے باوجود اگر کوئی ہماری قبروں کی زیارت کرے گا اس کو کیا ثواب ملے؟
فرمایا: میری امت کے کچھ گروه تمہاری قبروں کی زیارت کریں گے ۔ اور اس کے ذریعہ برکت طلب کریں کے مجھ پر یہ فرض ہے کہ میں قیامت میں ان کے پاس آؤں گا اور ان کو قیامت کی سختیوں سے اور گناہوں سے نجات دلاؤں گا اور خدا ان کو جنت میں جگہ فرمائے گا۔
(باب ۱۶ ح ۹)
حضرت رسول خدا نے خبر شهادت سن کر نہ کے گر یہ فرمایا بلکہ نہایت شدید گریہ فرمایا اور وہ بھی نماز کے آخری سجدہ میں یعنی نماز کی حالت میں اس سے یہ واضح ہوتا ہے :
۱- مصائب امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا سنت رسول ہے۔
۲۔ نہ صرف گریہ بلکہ شدید گریہ کرنا سنت رسول ہے۔
۳- یہ صرف گریا آنسوؤں کی شکل میں تھا بلکہ کچھ اس طرح سے تھا کہ وہاں موجود سب لوگ اس سے حیرت زدہ تھے اور سوال نہیں کر سکتے تھے۔
۴ ۔ یہ گریہ نماز کی حالت میں تھا۔
۵- گریہ سجدہ کی حالت میں تھا سجدہ نماز کی معراج ہے اور قربت خداوندی کی عظیم منزل ہے
۶- نماز کی حالت میں امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرنا نہ یہ کے مبطل نماز نہیں ہے بلکہ قربت خداوندی کا سبب ہے۔
۷- جب قبل شهادت گر یہ کایہ عالم ہے تو بعد شہادت کیا حال ہوگا۔
تمام مخلوقات نے گر یہ کیا
حسین بن ثویر کی روایت ہے : ہم یونس بن ظبيان معقل بن عمر اور ابوسلمہ سراج حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر تھے۔ یونس ہم سب میں بڑے تھے گفتگو وہی کر رہے تھے۔ دوران گفتگو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
جب حضرت امام حسین علیہ السلام سے شہید کر دئیے گئے ان پر ساتوں آسمان نے گریہ زمین کے ساتوں طبقات نے گریہ کیا زمین و آسمان کے درمیان جتنی بھی چیزیں ہیں سب نے گریہ کیا ہمارے اللہ کے ان مخلوقات نے بھی گریہ کیا جو جنت و جہنم میں منقلب ہو رہی ہیں ان مخلوقات نے بھی گریہ کیا وقبل دید ہیں اور ان مخلوقات نے بھی گریہ کیا جو قابل دید نہیں ہیں بس تین چیزوں نے گریا نہیں کیا۔ اس نے دریافت کیا وہ تین چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا: بصرہ، دمشق اور آل عثمان بن عفان ۔
( باب ۲۶, ح ۷)
ایک دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
“اے زرارہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر آسمان نے چالیس دن تک خون کے آنسو بہائے ہیں۔
اسی روایت میں آگے چل کر اس طرح ارشاد فرمایا۔
وَ مَا مِنْ عَيْنٍ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ وَ لَا عَبْرَةٍ مِنْ عَيْنٍ بَكَتْ وَ دَمَعَتْ‏ عَلَيْهِ‏ وَ مَا مِنْ بَاكٍ يَبْكِيهِ إِلَّا وَ قَدْ وَصَلَ فَاطِمَةَ (ع) وَ أَسْعَدَهَا عَلَيْهِ وَ وَصَلَ رَسُولَ اللَّهِ وَ أَدَّى حَقَّنَا وَ مَا مِنْ عَبْدٍ يُحْشَرُ إِلَّا وَ عَيْنَاهُ بَاكِيَةٌ إِلَّا الْبَاكِينَ عَلَى جَدِّيَ الْحُسَيْنِ (ع) فَإِنَّهُ يُحْشَرُ وَ عَيْنُهُ قَرِيرَةٌ وَ الْبِشَارَةُ تِلْقَاهُ وَ السُّرُورُ بَيِّنٌ عَلَى وَجْهِهِ وَ الْخَلْقُ فِي الْفَزَعِ وَ هُمْ آمِنُونَ وَ الْخَلْقُ يُعْرَضُونَ وَ هُمْ حُدَّاثُ الْحُسَيْنِ (ع) تَحْتَ الْعَرْشِ وَ فِي ظِلِّ الْعَرْشِ لَا يَخَافُونَ سُوءَ يَوْمِ الْحِسَابِ يُقَالُ لَهُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ فَيَأْبَوْنَ۔
( باب ۲۶, ح ۸)
خداوند عالم کو وہ آنکھ اور وہ آنسو سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہے جو حسین پر روئے جب بھی کوئی حضرت امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرتا ہے وہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے صلہ رحم کرتا ہے اور گریہ میں ان کی مدد کرتا ہے وہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حصلہ رحم کرتا ہے اور اس نے ہمارا حق ادا کیا ہے۔ قیامت میں جو بھی بنده محشور کیا جائے گا اس کی آنکھ رو ری ہوگی مگر میرے جد امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے والی آنکھیں اس دن ٹھنڈی ہوں گی بشارتیں ان کا استقبال کریں گی اور ان کے چہرے خوشحال ہوں گے لوگ حساب و کتاب کی تختیوں میں گرفتار ہوں گے۔ یہ مطمئن اور آرام سے ہوں گے لوگ حساب وکتاب کے لیے پیش کئے جارہے ہوں گے یہ لوگ عرش کے نیچے اور عرش کے سایہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے محوِ گفتگو ہوں کے ان کو حساب و کتاب کی سختیوں کا کوئی خوف نہ ہوگا۔ ان کو جنت میں بلایا جارہا ہو گا مگر لوگ اس قدرگفتگو سننے میں محو ہوں گے) کہ جنت میں جانے کوتیار نہ ہوں گے۔
اس روایت میں ذرا توجہ دیں۔
۱- امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا خدا کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔
۲۔ یہ گریا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے صلہ رحم ہے ان کے ساتھ حسن سلوک ہے۔
۳۔ یہ گریہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صلہ رحم ہے۔
۴۔ یہ گریہ میدان قیامت میں خنکی چشم کا سبب ہے۔
۵- یہ گریہ جنت کی بشارت اور میدان قیامت سرور و مسرت کا سبب ہے۔
۶- پر گریہ عرش الہی کے سایہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے محو گفتگو رہنے کا سبب ہے۔
۷- یہ گریا حساب و کتاب کی سختیوں سے نجات کا سبب ہے۔
چار ہزار فرشتہ گریہ کر رہے ہیں :
فرشتے خداوند عالم کی مخلوق ہیں جو ہر گز خدا کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں وہ صرف وہ کام انجام دیتے ہیں جس میں خدا کی خوشنودی اور مرضی ہوتی ہے۔ فرشتوں کا عمل خدا کا پسندیدہ عمل ہے ۔ انسان کی خلقت کا مقصد خدا کی عبادت یعنی خدا کے پسند کے مطابق عمل انجام دینا ہے۔
*حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جناب فضیل بن یسار سے فرمایا: تم لوگ امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کو کیوں نہیں جانتے ہو؟
چار ہزار فرشته امام حسین علیہ السلام کی قبر صبح قیامت تک گریہ کناں رہیں گے۔
(باب ۲۷ ح ۳)
*حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے
چار ہزار اس طرح گریہ کر رہے ہیں کہ ان کے سروں پر خاک ہے اور غبار آلود ہیں۔
(باب ۳۷ ح ۴)
ایک اور روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
حضرت امام حسین علیہ کے روز شہادت سے ظھور قائم تک روز آنہ ستّر ہزار غبار آلودہ فرشتہ امام حسین علیہ السلام کو سلام کرنے آتے ہیں اور آتے رہیں گے۔
(باب ۳۷ ح ۶,۷,۹)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے :
خداوند عالم نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر پر ستّر ہزار غبار آلود فرش معین فرمائے ہیں ۔ یہ قیامت تک امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرتے رہیں گے اور نمازیں پڑھتے رہیں گے ان کی ایک نماز انسانوں کی ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ ان کی نمازوں کا ثواب اور اجر ان لوگوں کے لئے ہے جو امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کرتے ہیں۔
(کامل الزیارات باب ۲۷ ح ۱۵)
جناب زہرا سلام اللہ علیہا کائنات اور ملائکہ کا شدید گریہ :
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
جب تم امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرو تو خاموش رہو اگر گفتگو کرو تو نیک گفتگو کرو رات و دن کے محافظ فرشتے جب حرم امام حسین علیہ السلام میں آتے ہیں اور وہاں موجود فرشتوں سے ملاقات کرتے ہیں مصافہ کرتے ہیں لیکن شدت گریہ کی بنا پر جواب نہیں دیتے ہیں یہ لوگ انتظار کرتے ہیں زوال آفتاب کا یا پھر طلوع فجر کا اس وقت ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔
ملائکہ اس قدر شدت سے گریہ کر تے ہیں اور ان پر گریہ اس قدر طاری رہتا ہے۔ ایک دوسرے سے گفتگو نہیں کر پاتے ہیں ظاہر سی بات ہے ملائکہ جس معرفت کے ساتھ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو آتے ہیں ان کا شدید گریہ اس کا لازمی اثر ہے اور ملائکہ کیا گریہ کریں گے جس قدر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا گریہ فرماتی ہیں اسی روایت میں آگے چل کر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
جس وقت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام کے زائرین کو دیکھتی ہیں اس وقت ان کے ہمراہ ہزار نبی ہوتے ہیں ہزار صدیق ہوتے ہیں ہزارشہید ہوتے ہیں اور دس لاکھ کروبین ہوتے ہیں یہ تمام حضرات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے گریہ میں ان کا ساتھ دیتے ہیں وہ سسک سسک کر گریہ فرماتی ہیں آسمانوں میں کوئی ایک فرشتے ایسا نہیں جو ان کی آواز سن کر گریہ نہ کرتا ہو۔ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کا گریہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ حضرت رسول خدا تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں نورِ نظر تھارے گریہ سے تمام اہلِ آسمان تسبیح وتقدیس چھوڑ کر گریہ کر رہے ہیں ۔
(باب ۳۷, ح ۱۹)
اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناب سیدہ علیھا السلام کا گریه آج بھی جاری ہے اور جب روتی ہیں تو سسک سسک کر روتی ہیں نہایت درد سے روتی ہیں اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اتنے دن گذرنے کے بعد بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کا غم آج بھی تازہ ہے اور اس کا اثر آج بھی وہی ہے جو کل تھا۔ یہ غم گردش لیل و نہار سے متاثر نہیں ہوتا ہے۔ یہ غم قرآن کریم کی طرح ہمیشہ تازہ ہے اور ہمیشہ اپنا خاص اثر رکھتا ہے ۔ اس گریہ کے خلاف کتنے ہی فتوے آتے ہیں لوگ کتنا ہی اصلاح کے نام پر اس میں کمی کرنا چاہیں سب کے سب ناکام ہو جائیں گے پیغم ہمیشہ زندہ و پائندہ رہے گا ہمیشہ تازہ رہے گا۔
روایتوں سے واضح ہوتا ہے ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام پر صرف انسانوں اور فرشتوں نے گریہ نہیں فرمایا کہ بلکہ جنات نے گریہ کیا ہے اور باقاعدہ مرثیہ کہا ہے نوح کہا ہے۔
(کامل الزیارات باب ۲۹)
جانوروں نے گر یہ کیا ہے کبوتروں نے گر یہ کیا ہے اور قاتلوں پرلعنت بھیجی ہے۔
(باب ۳۰)
بوم (اُلّو) نے گریہ کیا ہے۔
(باب ۳)
ثواب گریہ :
جب گریہ کے ثواب کے متعلق روایتوں کا تذکرہ ہوتا ہے بعض لوگوں کو یہ روایتیں ہضم نہیں ہوتی ہیں اور اس پر طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں ایک قطره اشک پر اتنا زیادہ ثواب۔ یہ کیونکر مُمکن ہے ۔ اعتراض کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے گرد نعمتیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں کیا کوئی شخص ان نعمتوں کو شمار کرسکتا ہے۔ وہ خذا جو بغیر کسی سبب کے کافر مشرک، ملحد، گنہگار کو اس قد رحمتیں دے سکتا ہے اگر وہ اپنے عزیز ترین رسول کے عزیز ترین نواسے کے غم میں بہنے والے ایک قطره اشک کے بدلہ اس قدر ثواب دے تو کیا تعجب۔ ذیل روایت کو خوب غور سے پڑھیے اور بار بار پڑھیے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار حضرت امام علی بن حسین زین العابد علیہ السلام کی سے روایت نقل فرمائی ہے۔ اس روایت کو جناب ابوالقاسم جعفر بن محمد بن قولوی قمی نے اپنی نہایت معتبر کتاب کامل الزیارات میں نقل کیا ہے اس کتاب کی روایتوں کو عام طور سے علماء وفقہا نے معتبر
مستند قرار دیا ہے۔
حضرت امام علی بن حسین زین العابدین علیہ السلام فرماتے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سن کر کئی مومن کی آنکھوں میں آنسو آجائے اور آنسو گر کر اس کے رخسار پر آجائے خدا اس کو جنت میں بھی گھر دے گا جس میں نسل در نسل رہے گی اور اگر مومن کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے رخساروں پر آجائے اس مصیبت کے سلسلے میں جو دنیا میں ہمارے دشمنوں سے اس کو پہونچی ہے خداوند عالم اس کو جنت میں بہترین جگہ عنایت فرمائے گا اور اگرکسی مومن کو ہماری (محبت و نسبت) کی بنا پر تکلیف پہنچی؟ اور آنسو نکل کر اس کے رخسار پر آجائیں خداوند عالم اس کو قیامت کی سختیوں اور جہنم کی آگ سے نجات دے گا۔
(باب ۳۲، ح ۱)
اس مضمون کی متعدد روایتیں ائمه معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں ۔ بات صرف ایک قطرہ آنسو کی نہیں ہے بات اس محبت کی ہے جس کی بنا پر یہ آنسو نکلتے ہیں ورنہ انسان کو تو اس دنیا میں قدم قدم پر روتا رہتا ہے ۔ اب ذرا اس روایت کو اور زیاد و توجه اور فکر سے مطالعہ کریں۔
مسمع بن عبد الملک کروین بصری کی روایت ہے: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا :
اے مسمع تم اہل عراق ہو کیا تم حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کو جاتے ہو۔
عرض کیا نہیں کیونکہ اہل بصرہ کے نزدیک مشہور و معروف ہوں۔ میرے نزدیک کچھ ایسے افراد ہیں جو خلیفہ کے آدمی ہیں قبیلے والے ناصبی ہیں اور ہمارے دشمن زیادہ ہیں میں مطمئن نہیں ہوں کہ میری خبر فرزند سلیمان تک نہ پہنچے اور میرے ہاتھ پیر کاٹ دے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: کیاتم ہمارے مصائب کا تذکرہ کرتے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں فرمایا: کیا سن کر غم زدہ ہوتے ہو؟
عرض کیا: خدا کی قسم مصائب سن کر آنسو نکل آتے ہیں میرے گھر والے مجھے اشکبار دیکھتے ہیں اور جب تک یہ اثر رہتا ہے کھانا پینا . چھوٹ جاتا ہے۔
فرمایا :
خدا تمہارے آنسووں پر رحم کرے تم ان لوگوں میں شمار ہوئے جو ہمارے لیے غمزدہ ہوتے ہیں ۔ ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور ہمارے رنج میں رنجیده ہوتے ہیں ۔ ہماری خاطر خون زرد ہوتے ہیں جب امان میں ہوتے ہیں وہ مطمئن ہوتے ہیں یقینا تم اپنی موت کے وقت میرے آبا و اجداد کو اپنے پاس پاؤ گے وہ ملک الموت سے تمھارے بارے میں سفارش کریں گے اور تمہیں جو بشارتیں دیں گے وہ اور زیادہ بافضیلت ہوگی ملک الموت تمھارے لئے مهربان ماں سے زیادہ مہربان اور رحم دل ہوں گے۔
مسمع کا بیان ہے: اس کے بعد امام علیہ السلام روئے اور میں بھی رویا ۔ پھر فرمایا: حمد ہے اس خدا کی جس نے ہمیں مخلوقات میں رحمت فضیلت دی اور ہم اہل بیت کو رحمت سے مخصوصہ کیا اے مسمع جب سے امیر المومنین علی علیہ السلام شہید ہوئے ہیں زمین و آسمان ہماری محبت میں رو رہے ہیں ۔ جب سے ہم شہید ہوئے ہیں ملائکہ ہمارے لیے رو رہے ہیں اور ہمارے لئے زیادہ سے زیادہ آنسو بہارہے ہیں۔
جو شخص ہماری مصیبت میں ہماری محبت میں روتا ہے و قبل اس کے کہ آنسو آنکھوں سے گریں اور اگر آنسو رخسار تک آجائے اگر اس آنسو کا ایک قطرہ جہنم میں ڈال دیا جائے تو اسکی گرمی ختم ہو جائے اور وہ ٹھنڈا ہو جاۓ۔ جس کا دل ہمارے لئے غم زدہ ہو جائے وہ موت کے وقت ہم کو دیکھ کر خوش ہوگا اور اس وقت تک خوش رہے گا جب تک حوض کوثر پر ہم سے ملاقات نہ کرلے اور یقینا حوض کوثر ہمارے پاہنے والوں کو دیکھ کر خوش ہوگا وہ ان کی خدمت میں ایسے ذائقہ دار کھانے پیش کرے گا کسی کا دل وہاں سے جانے کو نہ چاہے گا۔
اے مسمع جو اس سے ایک گھونٹ پی لیگا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور پانی طلب نہ کرے گا وہ کافور سے زیادہ ٹھنڈا مشک کی طرح خوشبو دار اور اس کا ذائقہ زنجبیل جیسا ہوگا شہد سے زیادہ میٹھا پارے سے زیادہ نرم آنسوؤں سے زیاد صاف و شفاف ہوگا عنبر سے زیادہ پاکیزہ ہوگا تسنیم سے نکلے گا جنت کی نہروں میں وہ موتیوں اور یاقوت کی ہوگی اس پر آسمان کے ستاروں سے زیادہ کٹورے ہونگے اُسکی خوشبو ایک ہزار سال کی مسافت سے محسوس کی جائے گی اس کے کٹورے سونے چاندی اور رنگ برنگے جواہرات کے ہوں گے پینے والوں کے چہروں پر بے پناہ خوشیاں ہوئی اور وہ کہیں گے کاش ہم یہیں رہتے اس کے علاوہ ہمیں کوئی اور جگہ پسند نہیں ہے۔
اے کردین تم ان لوگوں میں ہو جو اس سے سیراب ہوں گے جو آنکھ مارے غم میں اشک بار ہوگی وہ کوثر کی زیارت سے سرشار ہوگی اور جو ہم سے محبت کرے گا وہ اِس سے سیراب ہوگا۔ پینے والے کو لذت اور مزه نصیب ہوگا جس سے وہ لوگ محروم رہیں گے جن کے دلوں میں ہماری محبّت کم ہوگی۔
یقینا حوض کوثر پر امیر المومین علی علیہ السلام ہوں گے آپ کے ہاتھوں میں کانٹے دار عصا ہوگا جس سے وہ ہمارے دشمنوں کو بھی لیں گے اس وقت ایک شخص کہے گا میں توحید اور رسالت کی گواہی دیتا ہوں امام فرمائیں گئے۔ جاؤ اپنے فلاں امام کے پاس جاؤ وہی تمھاری سفارش کرے گا وہ کہے گا آپ جس امام کا ذکر کر رہے ہیں وہ مجھ سے برأت کا اظہار کر رہا ہے۔ امام فرمائیں گے۔ واپس جاؤ اور اس کو تلاش کرو جس سے محبت کرتے تھے اور مخلوقات پر جان کو ترجیح دیتے تھے جب وہ تمھارے نزدیک سب سے بہتر ہیں تو اُنہیں سے شفاعت طلب کرو۔ بہترین مخلوق کے لیے به سزاوار نہیں ہے و شفاعت سے انکار کرے وہ کہے گا میں پیاس سے ہلاک ہو رہا ہوں ۔ امام فرمائیں گے ۔ خدا تمہاری پیاس میں اضافہ کرے پانی کی طلب اور زیادہ کرے۔
میں نے امام علیہِ سلام کی خدمت میں عرض کیا : میں آپ پر قربان جاؤں دوسروں کی بہ نسبت یہ لوگ کیونکر حوض کوثر کے قریب پہونچ پائیں گے ۔ فرمایا :
لوگ میری باتوں سے پرہیز کرتے تھے اور جب ہمارا تذکرہ ہوتا تھا تو ہم اہل بیت کو گالیاں نہیں دیتے تھے باقی لوگ جو گناه انجام دیتے تھے اس سے لوگ کنارہ کش رہتے تھے لیکن یہ سب ہماری محبت میں اور ہماری خاطر انجام نہیں دیتے تھے یہ سب شدت عبادت اور دینداری کی بنا پر کرتے تھے اور لوگوں سے کنارہ کش رہتے تھے لیکن یہ دل سے منافق تھے دینی طور پر ناصبی تھے اور ناصبيوں کی پیروی کرتے تھے گذرے لوگوں کی ولایت تسلیم کرتے تھے اوران دونوں کو ہر ایک پرترجیح دیتے تھے۔
(باب ۳۲ح ۷)
اس اہم حدیث کو بار بار پڑھیے اور خدا سے دعائے کیجیئے امام صادق علیہ السلام نے اس حدیث میں جو حقائت بیان فرمائے ہیں وہ آپ پر ظاہر ہوں مزید معرفت و محبّت کے ساتھ اہل بیت کے غم میں غمزدہ ہوں اور اشک بار رہیں ۔
امام خمینی اور عزاداری
امام خمینی کی ایک کتاب ہے “کشف اسرار” کتاب اپنی اہمیت کے باوجود نہایت کامیاب ہے ۔ ولایت اہل بیت علیہم السلام اور خاص کر مذہب شیعہ کے عقائد کے دفاع کے سلسلے میں نہایت اہم ہے بڑے اچھے موثر اور معتبر ومستند انداز سے بحث کی گئی ہے اس کتاب کا ایک عنوان سے “ایک نظری عزاداری” عزاداری پر ایک نظر اس کا اقتباس قارئین کی نظر کر رہے ہیں :
“…یہاں مناسب ہے ایک گُفتگو خاص طور سے عزاداری اور جلسوں کے بارے میں کی جائے جو امام حسین علیہ السلام کے نام پر برپا ہوتی ہیں ہم اور کوئی بھی دیندار یہ نہیں کہتا کہ اس کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ سب صحیح ہے بزرگ علماء اور دانشوروں کے نزدیک بہت سے کام صحیح نہیں ہیں انھوں نے اپنی جگہ پر اس سے منع بھی کیا ہے آج سے بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے کہ جب عالم باعمل بزرگ و محترم مرحوم حاجی عبد الکریم حائری جو اپنے وقت کے بزرگ ترین علماء میں شمار ہوتے تھے ان کا اپنا ایک مقام و درجہ تھا انھوں نے شبیہ خوانی کو منع کیا تھا اور قم کی ایک بڑی مجلس کو روضہ خوانی میں تبدیلی کر دیا تھا اور دیگر علماء نے بھی ان امور سے منع کیا ہے جو اسلامی دستور کے خلاف ہے۔
لیکن وہ تمام مجلیسیں جو شیعہ ممالک اور شہروں میں برپا ہوتی ہیں اپنی تمام کمیوں کے باوجود اس وقت جو کچھ بھی دین ہے اخلاق ہے فضائل و مکارم اخلاق ہے یہ سب کا سب اُنہیں مجلیسوں کا اثر ہے۔
خدا کا دین آسمانی قوانین و مذہب مقدس شیعہ جو حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں اور اولی الامر کی اطاعت کرتے ہیں یہ سب کا سب اُنہیں مقدس جلسوں کا اثر ہے جس کا نام عزاداری ہے اس کا کام خدا کے دین کو نشر کرتا اور احکام اسی کو بیان کرتا ہے یہ مجلسیں آج تک قائم ہیں اور آئندہ بھی قائم رہیں گی اگر مجلسیں نہ ہوتیں تو دوسری قوموں کے معاملہ میں جو شیعہ نهایت اقلیت میں ہیں۔ اگر یہ رواداری کی بنیاد ہوتی تو اس وقت دین حقیقی یعنی مذہب شیعہ کا نام ونشان مٹ گیا ہوتا۔ وہ باطل جس کی بنیاد ثقیفہ بنی ساعدہ میں رکھی گئی تھی جس کا مقصد دین کی بنیادوں کو منہدم کرنا تھا اس نے حق کی جگہ لے لی ہوتی۔
خداوندعالم نے جب دیکھا صدر اوّل کے اجرا پسند افراد، دین کی بنیادوں کو متزلزل کرنا چاہتے ہیں ۔ چند افراد کے علاوہ کوئی اور باقی نہیں ہے اس نے امام حسین علیہ السلام کی بات کو قیام کا حکم دیا اُنہوں نے جانفشانی اور فداکاری سے ملت کو بیدار کر دیا۔ اس نے ان کے اداروں کے لیے عظیم ثواب مقرر کیا تاکہ یہ رواداری لوگوں کو بیدار رکھے اور کربلا زندہ رہے جس کا مقصد ظلم کی بنیادوں کو متزلزل کرنا تھا اور لوگوں کو توحید و عدل کے فراموش کرد و حقائق کی طرف دعوت دینا تھا۔
لہذا ضروری ہے وہ عزاداری جس کی بنیاد میں ان حقائق و مقاصد پر استوار ہوں اور اس عزاداری کا اس قدر عظیم ثواب مقرر کیا جائے تاکہ لوگ تمام تر سختیوں و مشکلات کے باوجود عزاداری سے دست بردار نہ ہوں یقین جانئے کہ اگر یہ رواداری نہ ہوتی تو امام حسین علیہ السلام کی قربانی نہایت تیزی سے بھلا دی جاتی امام حسین علیہ السلام کی محنتوں اور فداکاریوں کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمتیں اور قربانیاں پامال ہو جاتیں خاص کر وہ تمام کوششیں جو آنحضرت نے شیعیت کے استحکام کے لیے انجام دی تھیں یہ سب ختم ہو جاتیں۔
اور اگر یہ فرض کر لیا جائے خداوند عالم فائدہ کی مناسبت سے اجر دیتا ہے تو عزاداری کا فانده دین حق اور اساس شیعیت کی بقا ہے دنیا و آخرت کی تمام سعادتیں اسی سے وابستہ ہیں۔
گذشت زمانے میں جو شیعیت کی حالت تھی اور جس طرح سے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے قوانین کی طرف سے زبردست دباؤ تھا اس عزاداری نے شیعیت کو باقی رکھا ہے لہذا اس عزااداری کا فائدہ ہمارے تصورات سے ماوراء ہے۔
اس بنا پر خداوند عالم نے رواداری کے لیے وہ ثواب مقرر کیا ہے وہ اجر معین کیا ہے جس کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے ۔ یہ سب عدل الہی کا تقاضا ہے۔
(کشف اسرار ص ۱۷۳-۱۷۴)
اگر ہم دین کی بقاء اور شیعیت کا استحکام دیکھنا تو جو موجودہ عزاداری ہے اس کو فروغ دیں البتہ وہ کام جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے اس سے پرہیز کریں لیکن بعض ناروا کاموں کی بنا پر عزاداری کی مخالفت کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔