قیادت غائبانہ در نظر ہوشیار

قیادت غائبانہ در نظر ہوشیار
یہ کرہ ارض اپنے رقبہ کے لحاظ سے جتنی بڑی کل روز تکوین تھی اتنی ہی بڑی آج بھی ہے اور اس کا طول و عرض اپنے حد اختتام تک اتناہی رہے گا لیکن یہ بات ہرکوئی کہتا ہے کہ یہ دنیا آج سمٹ کر بہت چھوٹی ہو گئی۔ یہ چھوٹا سا جملہ زبان زد عالم ہونے کے با وجود اپنے دامن میں بیان کی وسعتیں رکھتا ہے۔ اگر کوئی پوچھے “بھائی یہ دنیا جتنی کل تھی اتنی ہی آج بھی ہے یہ چھوٹی کب ہوگئی۔ اس کے لئے جواب میں رسل و رسائل آمدورفت کے ذرائع اور خبر رسانی کے آلات وغیرہ وغیرہ جب زیر بیان آتے ہیں تو مطلب واضح ہوجاتا ہے کل ارتقا کی جو ابتدا ہوئی تھی آج کمال کی وہ انتہا تک پہونچ رہی ہے اور نوبت به اینجا رسید کہ سینکڑوں میل دور بیٹھا ہوا انسان اپنے دور افتادہ رفیق سے رو برو ہو کر باتیں کرتا ہے۔ اس طرح کے حاضر متکلم کے بیچ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہوتا ہے۔ اس مقدمہ کے حرف نو کی زبان سے ادا ہوتے ہیں لیکن مطالب غائب ہو کر بھی عیاں ہوتے ہیں۔
اسی سلسلے میں حاضر اور غائب کی باتیں بہت اُونچی سطح پر سن کرغور کیجئے۔ جو صاحب حکمت و وحی و الہام کی زبان رسالت سے آئی ہوئی خبر معراج کے حال واقعی پر روشنی ڈال رہی تھی کوئی ایک متنفسی بھی نہ معترض تھا اور نہ کوئی سوال تھا کہ آخری سب کیسے ممکن ہوا کہ زنجیر در ہلتی رہی اور حبیب خدا کا سفر معراج اپنے تمام حالات و کیفیات کے ساتھ اور اپنی تمام ضیا پاشی کے ساتھ ایک تاریخی واقعہ بن گیا۔ یہں نہیں بلکہ اپنے تمام و کمال کے ساتھ شان نزول آیات الٰہی قرآن مجید کے بیچ میں آکر اپنی صداقت پر “قاب و قوسین“ کی مہر تصدیق بھی ثبت کردی۔
مسئلہ غائب اور حاضر کا
تاریخ پر کتابیں لکھی گئیں تاریخ: نام سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے حالات پر تمام اخبار کا جمع کرنا اور اسے قلمبند کر دینا۔ یعنی صدر اسلام سے لے کر مورخ کی زندگی تک وہ حالات، واقعات، حادثات اور اسلام کے سر براہوں اور عنان گیران حکومت کی جتنی خبروں کا سلسلہ ملتا گیا جو اسلام سے متعلق تھا وہ ایک ریکارڈ بنا اور جو مورخ جس ماحول میں پیدا ہوا تھا اس نے اپنے ان اثرات کے ساتھ اس ریکارڈ کو اپنی زبان میں منتقل کر کے تاریخ لکھ دی۔
جب مورخ کا قلم حرکت پذیر تھا تو کوئی ذی حیات گواہ کے طور پر موجود نہ تھا۔ صرف علامات، آثار اور ذرائع اخبار سے ہاتھ لگے انہیں قلمبند کر دیا یہاں تک حال کے واقعات جو پیش نظر تھے ان کا مجموعہ تیار کیا جس میں گردوپیش کے حالات کے علاوہ دور دراز سے آنے والی خبروں اور لانے والے کے بیان پر مشتمل تھا۔ جیسے جیسے وقت بدلا اور تغیرات نے جنم لینا شروع کیا تو مورخ “غائب” ہوگیا اور صرف تاریخ کا نوشتہ باقی رہ گیا۔ کسی نے سوال کیا “بھائی تاریخ کیوں پڑھائی جاتی ہے۔ جواب ملا کہ ماضی کے گذرے ہوئے واقعات اور اونچ نیچ۔ سختی – نرمی – مزاج – چلن – تہذیب اور گلچر کا ڈھانچہ ہوتی ہے گزرے زمانے افراد کی طرز زندگی سے واقفیت حاصل کی جاتی ہے جس کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جس کمزوری کمیابی اور برائی نے ماضی میں ہلچل مچا رکھی تھی اس کا مداوا تلاش کیا جائے اور جو ارتقا کے تکامل میں جہاں تک سفر طے کر چکے تھے ان کی کامیابیوں سے استفادہ کرتے ہوئے اس میں مزید پیش رفت لائی جائے یعنی غائب کے فیوض سے ارتقا کی روح کو مزید

تقویت دی جائے اور قوم و ملت اپنے پیچھے چھوٹ جانے والے عہد کو اپنی وراثت میں وہ راستے دکھادے جن پر چلنے سے آنے والی نسل ایک ترقی یافتہ، پر سکون اور قدرت کے وسائل سے مستفید ہونے کی اہلیت پیدا کرلے۔
یہ فائدہ تاریخ کے پڑھنے کا ہے اور اس کی تمام اساس غائب پر ہے ۔ مورخ، اس کا ماحول، اس کی چند سالوں کی زندگی اور جس منطقہ میں رہتا ہے یا جہاں تک اس کی پہونچ ہے ایک محدود دائرہ سے باہر ہیں۔
اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ غائب کا ایک مخصوص منطقه اور محدود زندگی کا ما حصل ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

اسلام کی بد نصیبی
ایک طرف مرسل اعظم کی پیش گوئی کہ میرے بعد میرے بارہ جانشین ہوں گے۔ یہ سلسلہ علی علیہ السّلام سے شروع ہوگا اور قائم پر منتہی ہو گا اس کا نام میرا نام ہو گا۔ اس کی کنیت میری کنیت ہوگی وہ اس دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح یہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ دوسری طرف قرآن نے شہادت دی خدانے فرمایا:
“ہم احسان کریں گے ان پر جو اس دنیا میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اور ان کو اس دنیا کا وارث (مالک) اور امام بنائیں کے ۔“
علی علیہ السّلام آئے۔ آپ کے بعد آپ کی نسل کا سلسلہ شروع ہوا جنھیں فرزندان رسول کے نام سے امت نے پہچانا (بلا تفریق) یہ سلسلہ تقریبا تین صدی تک کی حدود میں تمام ریکارڈ اور اخبار كی ایک دستاویزی حیثیت کے ساتھ قائم ہو گیا۔ پھر بارہویں کے لئے تمام وہ احتیاطی اقدام بروئے کار آئے جوکسی قسم کا کوئی ریکارڈ ضبط تحریر میں بغرض نبوت باقی نہ رہے لیکن ایسا نہیں ہوا اور ریکارڈ پیشن گوئی مرسل اعظم اور آیات الہی کی روشنی میں قائم ہوتا تھا وہ روشن دلیلوں کے ساتھ اظہر من الشمس رہا۔ مضمون میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ایک کم ستر سال کی حیات طیبہ جسے غیبت صغرا کہتے ہیں بارہویں جانشین مضبوط دلیل اور حجت تامہ کے ساتھ ملت اسلامیہ کی تمام مخالفتوں کے باوجود قائم کر دیا اور پھر غیبت کبری کا دور شروع ہوا جو ماضی کے تمام نقوش کے ساتھ حال اور مستقبل کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
نہ کسی کو (یعنی مخالفین و معاندین کو) پیشن گوئی مرسل اعظم سے انکار ہے اور نہ آیہ کریمہ کی تفسیر پر کسی کو شک ہے کہ یہ آیہ کریمہ محکم اور بین ہے۔
لیکن اس بد نصیب قوم کو کیا کہا جائے کہ جب حالات اور تاریخ کے ریکارڈ سے تمام علامات، ثبوت، نقوش کا الحجر سامنے رکھے جاتے ہیں تو کہتے ہیں ابھی مهدی آخر الزماں علیہِ السلام پیدا نہیں ہوئے ہیں۔ پیدا ہوں گے اس وقت صادق القول کی پیشن گوئی اور آیہ کریمہ کی تفسیر اپنی صداقت پر پوری اترے گی۔
ہر شئے محسوس سے معلوم کی طرف سفر کرتی ہے۔ ذرا ایک نظر (جسے نظر ہوشیار کہ سکتے ہیں) ڈالئے تاریخ کے اس سلسلے پر جہاں سے مرکز اختلاف نے جنم لیا اور آج تک کیا ہوا ہے اور کیسے ہوا ہے اس پر گہری نظر ڈالیے۔ اور پھر دیکھئے کیا احساس اجاگر ہوکر معلوم کی کن روشن منزلوں پر متمکن ہوتا ہے۔
دور حاضر میں ہمارے علما، خطیب، ذاکر جب امام عصر علیہ السلام کی ولادت کے مواقع پر جشن نور کے انعقاد میں تشریف لاتے ہیں اور عوام سے خطاب کرتے ہیں تو، عمر حضرت حجت علیہِ السلام کے طولانی ہونے پر اکثر حضرت ادریس، حضرت یونس اور حضرت نوح علیہ السّلام کے

بارے میں دلائل دیتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ طول عمر کا ہونا کوئی نئی بات یا ناممکنات میں سے نہیں لہذا معترض کے اعتراضات طول عمر کے بارے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے غیبت طولانی ہونے کے بارے میں حضرت خضر علیہ السّلام کی مثال دیتے ہیں اور پھر شیطان کے غیب میں بکھرے ہوئے گمراہ کن جالوں اور چالوں کے بارے میں روشنی ڈالتے ہیں یہ کہ کر کہ جب گمراہ کرنے والا شیطان دکھائی نہیں دیتا تو کیا ہدایت کرنے والا جو منصوص من اللہ ہے غیب میں رہ کر رہبری اور قیادت انسان کے فرائض انجام نہیں دے سکتا۔ (سچ تو یہ ہے کہ اندھے کے آگے روئے اپنا دیدہ کھوئے)۔
یہ آوازیں اپنے جشن میں گونجتی ہیں۔ وہاں جہاں تاریخ اور پیدائش ولادت امام عصر علیہ اسلام اور آپ کی امامت اور نواب اربعہ کے ذریعہ غیبت صغری اور انپاکیزہ نفوس کی قبروں کی زیارت، پھر غیبت کبری میں علما کی قیادتیں۔ ان کے حالات، ان کی تعلیمات، حضرت ولی عصر علیہ السلام کے ذریعہ ان کی سر پرستی،۔ دستگیری، کمک اور ہدایت کے مضبوط ثبوت کے ساتھ ایسی دستاویز موجود ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا لیکن وہ جو حکومت کے پروردہ اور فرزندان رسول کو گوشہ نشینی پر مجبور کر دینے والوں کا گروہ جن سے محفوظ رکھنے کے لئے غیبت، طولانی عمر، یہ غائبانہ قیادت کا سلسلہ بارہ صدیوں سے چلا آرہا ہے اور وقت ظہور تک چلتا رہے گا اس کی نشاندہی، آگہی اور جبر اس آیہ کریمہ میں کہ ہم ان کو اس زمین کا وارث قرار دیں گے جو کمزور کردیئے گئے ہیں اور انہیں ہم امام قرار دیں گے۔ اس آیہ کریمہ کے ہر لفظ اور حرف میں حقیقت کا لہو دوڑ رہا ہے۔ اور نجات کی روشنی دے رہا ہے اور دیتا رہے گا۔ ایک طرف یہ آیت کریمہ ہے اور دوسری طرف مرسل اعظم کی پیشن گوئی ہے جو راہِ ہدایت و قیادت کو اس طرح روشن کر رہی ہے کہ بہکنے کی کوئی صورت ہی پیدا نہیں ہوسکتی ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مرسل اعظم کا قول اور اللہ تعالی کا ارشاد گرامی کا بیان ایک طرف بارہ جانشینوں کی حیات طیبہ اور علم و عمل پر سحر انگیز سیرت، جس پر کوئی اُگنلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکا تو پھر یہ تاویلات، یہ اعتراضات، کیوں ؟ یہ منکران حجت کیا وجہ ہے کہ ایک طرف خدا کی قدرت پر یقین بھی رکھتے ہیں اور دوسری طرف حضرت حجت علیہ اسلام کے وجود اقدس سے انکار بھی کرتے ہیں کیا کوئی جانکار اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ فرعون کی لاش عبرت کے لئے دریائے نیل کے کنارے ڈال دی گئی۔ یہاں بھی اور سمندری دنیا کے تمام ذی حیات جو آدم خور ہیں اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مرده باقی رہ سکتا ہے۔ عبرت کے لئے۔ عبرت کے سلسلے ہوتے ہیں انسان کی عقل و دانش میں حقیقت کا اجالا دینے کے لئے۔ کیا یہ لمحہ فکر یہ نہیں ہے؟ کیا یہ عبرت کے سلسلے انسان کو متوجہ نہیں کرتے ہیں کہ بے جان فرعون کو باقی رکھنے والا انسان کی ہدایت و رہبری قیادت، یقین، صبر اور اپنے حبیب کی جانشینی کے لئے اپنی تجلّی کا مجلی اس زمین پر آنے والی اقوام کے لئے باقی نہیں رکھ سکتا؟ چونکہ حکومت کی مصلحت آمیز جھوٹی سیاست کی تھاپ پر ناچنے والی باتیں اور استکباری تبلیغات کے سایہ میں چلنے والی قوم کی نسلیں بڑھتی گئیں اور اس طرح جہالت
کے دبیز پردے کے بعد دیگرے ہر عہد میں پڑتے گئے۔ ہمارے تشنہ لب امام حسین علیہ السّلام کتنے سچے تھے۔
“اے یزید کے جفا کار لشکری سپاہیو تمہارے پیٹ حرام سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے تم میرے بیان کردہ اقوال کو نہیں سن رہے ہو۔”
جہاں جہاں مذکورہ بالا عناصر لئے ہوئے ملت اسلامیہ کے وہ افراد جو اکثریت میں ہیں قیادت غائبانہ سے منحرف ہوتے جائیں گے نظر ہوشیاری دم توڑنے لگے گی اور بے انصافی، ظلم، جھوٹ، مکاری۔ جہالت… کی مسموم فضا میں ہر بے خبر سانس لیتا رہے گا۔ یہاں تک کہ ظہور امام عصر کا وقت آجائے گا جب مظلوم فریادی حق پرست وقت گو قیادت غائبانہ پر محکم یقین رکھنے والے دربار خلیفہ خدا میں فریاد کریں گے اور منتفتم ایک ایک سے بدلا لے گا عدل و انصاف کا پرچم اس کے سر اقدس پر لہرا رہا ہو گا اور مظلوم ظالم کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر فریاد کرے گا۔ اور فریادرس اس کی فریاد پر ظالم کو سزا سنائے گا۔
لہٰذا تقاضہ عقل و خرد یہی ہے کہ حکمت الٰہیہ اور رسالت بالغہ پر غور و فکر کر سکیں ۔ جزبے سنوار نے کے لئے تمام اسباب سامنے ہیں لیکن سب کچھ قیادت غائبانہ در نظر ہوشیار کے لئے ہے۔