جیسے جیسے محرم قریب آتا ہے۔ کربلا والوں کی یاد، انتظام و اہتمام شروع ہونے لگتا ہے۔ اہل بیت اطہار کے فضائل و مناقب، مظالم و مصائب کے ذکر کی مجلسیں منعقد ہونے لگتی ہیں۔ رسول اور آل رسول کے چاہنے والے جوق در جوق ان مجلسوں میں شریک ہونے لگتے ہیں۔مگر بعض لوگ خواہ مخواہ درد میں مبتلا ہوجاتے ہیں انھیں نہ معلوم یہ مجلسیں کیوں اچھی نہیں لگتی ہیں۔ طرح طرح کے فتوے صادر ہونے لگتے ہیں ان مجالس کی افادیت پر بحث ہونے لگتی ہے۔ وقت کی قیمت کا تذکرہ ہونے لگتا ہے۔ محرم کے زمانہ میں وقت کی قیمت کا احساس کچھ زیادہ ہی ہونے لگتا ہے۔ اصلاح قوم اور اصلاح معاشرہ کی گفتگو ہونے لگتی ہے۔ اس طرح کی باتوں سے کبھی کبھی اپنے بھی متاثر ہوتے دِکھائی دیتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ان مجلسوں کو باقاعدہ بدعت قرار دیتے ہیں اس کے انعقاد کو اس میں شرکت کرنے کو گناہ قرار دیتے ہیں۔ تعزیہ اور ذوالجناح کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ آئیے دیکھیں اللہ کی کتاب قرآن اور اس کے رسول ﷺ کی سنت و حدیث میں کیا بیان کیا گیا ہے۔
اصل حِلِّیَّتْ ہے حُرْمَتْ نہیں!
دین مقدس اسلام نے بنیادی طور پر چیزوں کو حلال اور پاک قرار دیا ہے ’’کُلُّ شَیْءٍ لَکَ حَلَالٌ‘‘ ہر چیز تمہارے لئے حلال ہے اور ’’کُلُّ شَیْءٍ لَکَ طَاہِرٌ‘‘ ہر چیز پاک ہے جب تک اس کے حرام یا نجس ہونے کا علم نہ ہوجائے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ حرام اور نجس ہونے کے لئے دلیل درکار ہے۔ حلال اور پاک ہونے کے لئے نہیں اس بنا پر اگر کسی چیز کو حرام یا نا جائز سمجھا جارہا ہے تو اس کے حرام اور ناجائز ہونے کے لئے دلیل ضروری ہے۔ لہٰذا جو لوگ محرم کی مجالس وغیرہ پر اعتراض کرتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ اس کے حرام ہونے کی دلیل بیان کریں۔ چونکہ ان لوگوں کے پاس کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے اور انھیں اس بات کا شاید احساس بھی ہے اس لئے الٹے عزاداروں سے دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مجلس
سورۂ بقرہ آیت ۱۵۲ میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے ’’فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ‘‘ تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔ اس آیت کے ذیل میں اہل سنت کے بزرگ عالم جناب جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدرالمنثور میں متعدد روایتیں ذکر کی ہیں۔ ذیل میں چند روایتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
۱۔خالد ابن ابی عمر کی روایت ہے۔ حضرت رسول خداﷺ نے فرمایا۔
مَنْ اَطَاعَ اللهَ فَقَدْ ذَكَرَ اللهَ وَ اِنْ قَلَّتْ صَلَاتُهٗ وَصِيَامُهٗ وَ تِلَاوَةُ الْقُرْآنِ وَمَنْ عَصَي اللهَ فَقَدْ نَسِيَ اللهَ وَ اِنْ كَثُرَتْ صَلاتُهٗ وَ صِيَامُهٗ وَ تِلَاوَتُهٗ.
(تفسیر الدرالمنثور، ج۱،ص ۱۴۹)
جس نے خدا کی اطاعت کی اس نے خدا کو یاد کیا گرچہ اس کی نمازیں روزے اور تلاوت قرآن کم ہی کیوں نہ ہو اور جس نے خدا کی نافرمانی کی اس نے خدا کو بھلا دیا گرچہ اس کی نمازیں روزے اور تلاوت قرآن زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔
۲۔ معاذ بن انس کی روایت ہے حضرت رسول خداﷺ نے فرمایا: خدا فرماتا ہے۔
لَا يَذْكُرُنِيْ اَحَدٌ فِيْ نَفْسِهٖ اِلَّا ذَكَرْتُهٗ فِيْ مَلَاءٍ مِنْ مَّلَائِكَتِيْ وَ لَا يَذْكُرُنِيْ فِيْ مَلَاءٍ اِلَّا ذَكَرْتُهٗ فِيْ رَفِیْقِ الْاَعْلٰي.
جب کوئی مجھے دل میں یاد کرتا ہے میں ملائکہ میں اس کا تذکرہ کرتا ہوں اور جب کوئی مجمع میں مجھے یاد کرتا تو میں ’’ رفیق اعلیٰ‘‘ (جنت کا بلند ترین درجہ) میں اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔
(ماخذ سابق)
۳۔ ابو ہریرہ اور ابو سعید نے حضرت رسول خداﷺ سے یہ روایت نقل کی ہے :
’’جب کچھ لوگ بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ملائکہ ان کو گھیر لیتے ہیں رحمتیں ان پر چھا جاتی ہیں سکینہ ان پر نازل ہوتا ہے جو لوگ وہاں ہوتے ہیں خدا ان کا ذکر کرتا ہے۔‘‘
(الدرالمنثور ج۱ ص ۱۵۰)
۴۔بخاری و مسلم نے اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو ہریرہ کے ذریعہ حضرت رسول خدا ﷺ کی یہ روایت نقل کی ہے۔ اختصار کے پیش نظر صرف ترجمہ پر اکتفاء کررہے ہیں :
’’خدا وند عالم کے پاس ایسے فرشتے ہیں جو راستوں میں چلتے رہتے ہیں اور اہل ذکر کو تلاش کرتے رہتے ہیں جب کچھ لوگوں کو ذکر خدا میں مشغول دیکھتے ہیں ان سے کہتے ہیں اپنی حاجتیں بیان کرو۔ وہ ان کو آسمان تک اپنے پروں میں گھیر لیتے ہیں جب یہ مجلس ذکر ختم ہوجاتی ہے تو فرشتے آسمان میں واپس چلے جاتے ہیں۔ خدا ان سے دریافت کرتا ہے جب کہ وہ سب جانتا ہے تم لوگ کہاں سے آرہے ہو یہ کہتے ہیں ہم تیرے بندوں کے پاس سے آرہے ہیں جو تیری تسبیح کررہے تھے تکبیر کہہ رہے تھے تیری حمد کر رہے تھے خدا فرماتا۔کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں ہرگز نہیں خدا فرماتا ہے اگر مجھے دیکھتے تو کیا ہوتا؟ فرشتے کہتے ہیں اگر تجھے (دل کی نگاہوں سے ) دیکھ لیتے تو اور زیادہ تیری عبادت کرتے زیادہ حمد و ثنا کرتے زیادہ تسبیح کرتے۔ خدا فرماتا ہے یہ لوگ کیامانگ رہے ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں یہ لوگ تجھ سے جنت کا سوال کررہے ہیں انھیں تیری جنت کی خواہش ہے۔ خدا فرماتا ہے کیا ان لوگوں نے جنت دیکھی ہے فرشتے کہتے نہیں دیکھی ہے خدا فرماتا ہے اگر جنت دیکھ لیتے تو کیا ہوتا فرشتے کہتے ہیں اگر دیکھ لیتے تو اور زیادہ شوق سے اس کا مطالبہ کرتے اس کی طلب اور زیادہ بڑھ جاتی۔ خدا فرماتا ہے یہ لوگ کس چیز سے پناہ مانگ رہے ہیں فرشتے کہتے ہیں جہنم کی آگ سے۔ خدا فرماتا ہے کیا ان لوگوں نے اس کو دیکھا ہے؟ فرشتے کہتے ہیں نہیں دیکھا ہے خدا فرماتا ہے اگر ان لوگوں نے جہنم کو دیکھا ہوتا تو اس سے اور زیادہ بھاگتے ہیں اور کہیں زیادہ خوف زدہ رہتے۔
خدا فرماتا ہے۔ میں تم لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے ان کو معاف کردیا اس وقت ملائکہ کہتے ہیں وہاں ایک شخص ایسا بھی ہے جو ذکر کے لئے نہیں آیا تھا وہ ایک حاجت لے کر آیا تھا۔
خدا فرماتا ہے۔ یہ وہ لوگ جن کا ہم نشین کبھی شقی نہ ہوگا۔ (یعنی ان کے ساتھ وہ بھی معاف کردیا جائے گا)
(الدر المنثور جلد ۱ ص150-151)
۵۔ ابن ابی شبیہ نے احمد و مسلم و ترمذی و نسائی نے معاویہ سے یہ روایت نقل کی ہے :
حضرت رسول خدا ﷺ اصحاب کے ایک گروہ سے گذرے ان سے دریافت کیا تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو کہنے لگے ہم یہاں بیٹھے ہیں اسلام نے ہمیں جو ہدایت دی ہے ہم یہاں بیٹھے خدا کا ذکر کررہے ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا خدا کی قسم کیا تم لوگ صرف اس لئے یہاں بیٹھے ہو عرض کرنے لگے خدا کی قسم ہم صرف اس لئے یہاں بیٹھے ہیں انحضرتؐ نے فرمایا میں بلا وجہ قسم نہیں کھا رہا ہوں۔ جبرئیل میرے پاس آئے تھے اور مجھے یہ خبر دی ہے:
خدا وند عالم ملائکہ کے درمیان تم لوگوں پر مباہات کررہا ہے۔
(الدرالمنثور ج ۱ ص ۱۵۱)
۶۔ احمد، براز، ابو یعلی اور طبرانی سے انس سے روایت کی ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا:
’’جو لوگ جمع ہو کر صرف اللہ کے لئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں آسمان سے ندا آتی ہے اٹھو خدا نے تمہارے تمام گناہوں کو معاف کردیا ہے اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا ہے۔‘‘
(ماخذ سابق)
۷۔ طبرانی سے سہیل بن حنظلیہ سے روایت کی ہے حضرت رسول خداﷺ نے فرمایا
مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا يَذْكُرُوْنَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ فِيْهِ فَيَقُوْمُوْنَ حَتّٰي يُقَالَ لَهُمْ قُوْمُوْا قَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ وَ بَدَّلْتُ سَيِّئَاتِكُمْ حَسَنَاتٍ.
(الدرالمنثور جلد ۱ ص۱۵۱)
جب لوگ کسی مجلس میں بیٹھ کر خدا وند عالم کا ذکر کرتے ہیں تو جب اس مجلس سے اٹھتے ہیں ان سے کہا جاتا ہے کھڑے ہو تمہیں معاف کردیا گیا اور برائیاں نیکیوں میں بدل دی گئیں۔
۸۔ بیہقی نے عبداللہ بن مغفل سے روایت کی ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا:
وَمَا مِنْ قَوْمٍ اجْتَمَعُوْا فِيْ مَجْلِسٍ فَتَفَرَّقُوْا وَلَمْ يَذْكُرُوْا اللهَ اِلَّا كَانَ ذٰلِكَ عَلَيْهِمْ حَسْرَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
(ماخذ سابق)
جب کچھ لوگ مجلس میں جمع ہوتے ہیں اور اٹھتے ہیں اگر اس مجلس میں خدا کا ذکر نہ ہو تو قیامت کے دن حسرتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
۹۔ ابن ابی شیبہ نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے:
’’جس گھر میں خدا کا ذکر ہوتا ہے وہ گھر آسمان والوں کے لئے اس طرح چمکتا ہے جس طرح ستارے اہل زمین کے لئے۔‘‘
(الدرالمنثور جلد ۱ ص ۱۵۲)
۱۰۔بزار نے انس سے روایت کی ہے۔ حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
خداوند عالم کے پاس ایسے فرشتے ہیں جو گھومتے رہتے ہیں اور ذکر کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں جب اس طرح کی کوئی مجلس مل جاتی ہے تو ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اپنا نمائندہ خدا کی بارگاہ میں بھیجتے ہیں اور عرض کرتے ہیں خدایا ہم تیرے ان بندوں کے درمیان ہیں جوتیری نعمتوں کی عظمت کا تذکرہ کررہے ہیں۔ تیری کتاب کی تلاوت کررہے ہیں تیری نبی پر درود و سلام بھیج رہے ہیں اور تجھ سے اپنی آخرت اور دنیا طلب کررہے ہیں۔
خدا ان سے فرماتا ہے : ان لوگوں کو میری رحمت سے مالا مال کردو، یہ ایسے اہل مجلس ہیں کہ جن میں شریک ہونے والا کبھی بد بخت نہ ہوگا۔
(ماخذ سابق)
۱۱۔ ابن ابی دنیا نے، براز نے، ابو یعلی، طبرانی، حاکم (حاکم نے اس روایت کو صحیح روایت قرار دیا ہے ) اور بیہقی نے الدعوات میں جابر سے روایت نقل کی ہے:
ایک دن حضرت رسول خدا ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا ! خداوند عالم کے پاس متحرک ملائکہ ہیں جو ٹہلتے رہتے ہیں اور جب مجلس ذکر دیکھتے ہیں تو ٹھہر جاتے ہیں۔ تم لوگ جنت کے باغ میں سیر کرو۔ اصحاب نے دریافت کیا یہ جنت کے باغ کہاں ہیں؟ فرمایا ذکر کی مجلسیں۔ خدا کے ذکر میں صبح کرو، شام کرو، دل میں خداکا ذکر کرو جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ خدا کے نزدیک اس کی قدرومنزلت کیا ہے وہ یہ دیکھے اس کے نزدیک خدا کی قدرومنزلت کیا ہے خدا اپنے بندہ کو وہی درجہ دے گا جو بندہ خدا کو اپنے دل میں عطا کرے گا۔‘‘
(مآخذ سابق)
۱۲۔طبرانی نے عمروبن عبد سے روایت کی ہے حضرت رسول خداﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
رحمٰن کے داہنی جانب اور اس کو دونوں جانب داہنے ہیں ایسے افراد ہوں گے جو نہ انبیاء ہیں اور نہ شہداء ان کے چہرے نہایت نورانی ہوں گے ان کی عظمت و منزلت اور خداوند عالم سے ان کی قربت دیکھ کر انبیاء اور شہداء رشک کریں گے۔
لوگوں نے دریافت کیا۔ اے اللہ کے رسول یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا:
یہ مختلف قوم اور قبیلوں کے لوگ ہیں جو خداوند عالم کے ذکر کی خاطر ایک جگہ جمع ہوتے تھے اور کلام کے بہترین حصہ کو اس طرح چن لیتے تھے جس طرح بہترین کھجوریں منتخب کی جاتی ہیں۔
(ماخذ سابق)
ان روایتوں کو پڑھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے:
جو لوگ ذکر خدا کے لئے جمع ہوتے ہیں اس کو ’’مجلس‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے مختلف فرقے اور مذاہب اپنے اپنے انداز سے خدا کا ذکر کرتے ہیں لیکن کوئی اس کو ’’اجتماع‘‘ سے تعبیر کرتا ہے کوئی اس کو ’’جلسہ‘‘ کہتا ہے کوئی ’’عرس‘‘ کہتا ہے کوئی ’’میلاد‘‘ کوئی ’’مولود‘‘ کوئی ’’محفل سماع‘‘ سے تعبیر کرتا ہے اگر کسی چیز کو مجلس سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ جمع ہو کر اہل بیت اطہار کے فضائل و مصائب بیان کرتے ہیں۔ یہ خدا کی عنایت ہے اپنی مجلس ذکر کو صرف اہل بیت کی مجلس سے مخصو ص کیا ہے۔
اس طرح کی مجلسوں میں شرکت
۱۔ خداورسول کی اطاعت ہے۔
۲۔ یہ جنت کے بلند ترین درجات میں تذکرہ کا سبب ہے۔
۳۔ ملائکہ کی ہم نشینی کا سبب ہے۔
۴۔ رحمتوں کے نزول کا سبب ہے۔
۵۔ جنت کا سبب ہے۔
۶۔ جہنم کی آگ سے نجات کا سبب ہے۔
۷۔ خدا کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی کا سبب ہے۔
۸۔ بزم ملائکہ میں خدا کی مباہات کا سبب ہے۔
۹۔ برائیوں کا نیکیوں میں تبدیل ہونے کا ذریعہ ہے۔
۱۰۔ آسمان میں ستاروں کی طرح روشن ہونے کا سبب ہے۔
۱۱۔ ان مجلسوں میں شرکت کرنے والا کبھی بد بخت نہ ہوگا۔
۱۲۔ ان مجلسوں میں آنا ایسا ہے جیسے جنت کے باغات میں سیر کرنا۔
۱۳۔ قیامت میں چہروں کی نورانیت کا سبب ہے۔
۱۴۔ خدا سے قربت کا سبب ہے۔
۱۵۔ انبیاء اور شہداء کے رشک کا سبب ہے۔
ان روایتوں کے علاوہ اہل بیت کی روایتوں میں ’’مجلس ذکر‘‘ پر خاص تاکید کی گئی ہے۔ ذیل میں چند روایتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
۱۔ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا:
’’ اگر كسی مجلس میں کچھ لوگ جمع ہوں اس مجلس میں نہ خدا کا ذکر کریں اور نہ ہمارا تذکرہ کریں وہ مجلس میدان قیامت میں ان کے لئے حسرت کا سبب ہوگی۔‘‘
(میزان الحکمہ نمبر ۲۳۹۲۔ جلد ۲)
۲۔ حضرت امام علی رضا نے فرمایا:
’’ اگر کوئی مجلس میں بیٹھ کر ہمارے امر کو زندہ کرتا ہے تو جس دن تمام قلوب مردہ ہوں گے اس کا قلب زندہ رہے گا۔‘‘
(ماخذ سابق ۲۳۹۴)
یعنی مجلس اہل بیت برپا کرنے والوں کے دل قیامت کے دن زندہ رہیں گے یہ مجلس والے قیامت میں زندہ دل رہیں گے۔
۳۔ حضرت امام جعفر صادق نے جناب فضیل سے دریافت کیا:
کیا تم لوگ آپس میں بیٹھتے ہو اور ہماری حدیثوں کا تذکرہ کرتے ہو؟
عرض کیا جی ہاں میں آپ پر قربان۔ امام نے فرمایا:
یہ وہ مجلسیں ہیں جنھیں میں پسند کرتا ہوں اے فضیل ہمارے امر کو زندہ کرو خدا اس پر رحم کرے جو ہمارے امر کو زندہ کرے۔
اے فضیل جس نے ہمارا تذکرہ کیا یا جس کے سامنے ہمارا تذکرہ کیا گیا اور اس کی آنکھوں سے مکھی کے پر کے برابر آنسو نکل آئے خداوند عالم اس کے تمام گناہ معاف کردے گا گرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر کیوں نہ ہو۔‘‘
(ماخذ سابق ۲۳۹۵)
ہوسکتا ہے کہ بعض روشن فکروں کے ذہن میں یہ سوال آئے۔ کہاں ایک ذرا سا آنسو اور کہاں بے پناہ گناہوں کی بخشش۔ تو اس کا جواب یہ ہے جب خدا صدق دل سے ایک مرتبہ کے استغفار سے سارے گناہ معاف کرسکتا ہے تو آنسو ایک قطرہ بھی تو صداقت قلب کی علامت ہے اس کے علاوہ خدا اگر معاف کررہا ہے تو کسی دوسرے کے حصہ سے تو معاف نہیں کررہا ہے وہ اپنے فضل و کرم سے معاف کررہا ہے۔ خدا مالک و مختار ہے جس طرح سے چاہے معاف کردے کسی کو اعتراض کا ہرگز حق نہیں ہے۔
ذکر اہل بیت ذکر خدا
ان روایتوں کو پڑھنے کے بعد ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ بات آئے ان روایتوں میں ’’ذکر خدا‘‘ کی بات کہی گئی ہے اور بات ہورہی ہے مجلس امام حسین کی ان دونوں میں کیا ربط ہے؟
اس سوال کے سلسلے میں مندرجہ روایتوں سے جواب واضح ہوجائے گا۔
1۔ حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
ذِكْرُ اللهِ عِبَادَةٌ وَ ذِكْرِيْ عِبَادَةٌ وَ ذِكْرُ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ، وَ ذِكْرُ اْلأَئِمَّةِ مِنْ وُلْدِيْ عِبَادَةٌ
(الاختصاص ۲۲۴۔ بحار ۳۶/۳۷۰)
اللہ کا ذکر عبادت ہے میرا ذکر عبادت ہے علی کا ذکر عبادت ہے اور علی کی نسل کے اماموں کا ذکر عبادت ہے۔
۲۔ایک روایت میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:
زَيِّنُوا مَجَالِسَكُمْ بِذِكْرِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ
(بشارۃ المصطفیٰ، ص۶۱؛ بحار، ج۳۸، ص۱۹۹)
اپنی مجلسوں کو علی بن ابی طالب کے ذکر سے زینت دو۔
اہل بیت اور خاص کر حضرت امام حسین نے خدا کی خاطر صرف اور صرف اس کے دین کی حفاظت کی خاطر قربانیاں دی ہیں۔ اب امام حسین کا تذکرہ خدا کے ذکر سے جدا نہیں ہے۔ حضرت امام حسین کی زیارت میں اس طرح کے جملہ باربار اور جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ السلام علیک یا ثار اللہ وابن ثارہٖ۔ ثار کے معنی لغت میں اس طرح بیان کئے گئے ہیں مقتول کے خون کا مطالبہ کرنا۔ ثار اللہ یعنی خدا کے خون کا مطالبہ کرنا۔ یہ بات بالکل ظاہر ہے خدا کوئی جسم نہیں ہے جس میں خون ہو۔ خدا قابل قتل نہیں ہے خدا کوئی دکھائی دینے والی چیز نہیں ہے جس کو قتل کردیا جائے۔ امام حسین ثار اللہ اور ثار اللہ کے فرزند ہیں۔
اس بات کو ایک مثال سے واضح کیا جاسکتا ہے اگر کسی ملک میں کسی ملک کا کوئی سفیر اور نمائندہ ہو اور اس نمائندہ، کو اس ملک کی دشمنی اور عداوت میں قتل کردیا جائے تو یہ اس ایک خاص شخص پر حملہ نہیں ہے بلکہ یہ اس ملک پر حملہ ہے اور اس ملک کی توہین اور قتل ہے کیونکہ نمائندہ اور سفیر قتل کیا گیا ہے حضرت امام حسین زمین پر حجت خدا ہیں نمائندہ الٰہی ہیں ولی اللہ ان کی پوری شخصیت آئینہ صفات جمال و جلال خداوندی سے دین خدا کے محافظ ہیں رسول خدا ﷺ کی شریعت کے ذمہ دار ہیں وارث رسالت و نبوت ہیں بلکہ تمام انبیاء و مرسلین کے وارث و نمائندہ ہیں تو اب ان پر حملہ خداورسول اور انبیاء و مرسلین پر حملہ ہے۔ ان کا قتل خدا و رسول کا قتل ہے۔ان کا قاتل خدا و رسول کا قاتل ہے اس طرح کے قاتلوں اور ظالموں کے لئے نرم گوشہ رکھنا گویا خدا و رسول کے قاتلوں سے دوستی کرنا ہے اس طرح کی دوستی یقیناً ایمان باللہ اور بالرسول کے خلاف ہے جب امام حسین نے اپنی تمام ذات و شخصیت خدا کی مرضی میں فنا کردی اور خود مجسم مرضی پروردگار ہوگئے تو اب ان کا ذکر یقینا خدا کا ذکر ہے ان کی یاد خدا کی یاد ہے ان کا تذکرہ خدا کا تذکرہ ہے ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔ لہٰذا وہ تمام ثواب و درجات جو ذکر خدا کے لئے ذکر ہوئے ہیں وہ امام حسین کے ذکر سے حاصل ہوں گے بشرطیکہ ان مجالس کو خدا و رسول کی خاطر منعقد کیا جائے اور نیت حصول قربت خدا و رسول و اہل بیت ہو۔
امام حسین محافظ توحید
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے اگر حضرت امام حسین نے میدان کربلا میں بے مثال قربانی پیش نہ کی ہوتی تو دین اسلام کا نام مٹ گیا ہوتا۔ امام حسین نے قربانی دے کر دین اسلام کو بچایا ہے۔ دین مقدس اسلام کی ایک اہم اصل بلکہ تمام بنیادوں کی بنیاد توحید ہے اس حقیقت کو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
شاه هست حسین بادشاه هست حسین
دین است حسین دين پناه هست حسین
سرداد نداد دست در دست یزید
حقا كه بنائ لا اله هست حسین
بنالا الہ کی بنیاد یعنی توحید کی بنیاد۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
بهر حق در خاک و خون غلطیده است
پس بنائ لا اله گردیده است
وہ حق کی خاطر خاک و خون میں نہا ئے ہیں اس بنا پر وہ لا الہ کی بنیاد قرار پائے ہیں جو لا الہ کی بنیاد ہو اس کا ذکر ذکر خدا کیوں نہ ہو۔
شاہ عبدالعزیز دہلوی اور مجلس امام حسین
جناب شاہ عبدالعزیز دہلوی وہ بزرگ ہیں جنھوں نے شیعوں کی رد میں مشہور زمانہ کتاب ’’تحفہ اثنا عشری‘‘ تحریر کی ہے۔ ان کی ایک کتاب ’’فتاوی عزیزی‘‘ مطبوعہ دہلی سے اس کتاب صفحہ ۱۰۴ پر تحریر فرماتے ہیں۔ ہم یہ اقتباس ہندوستان کے گرانقدر علمی رسالے ’’اصلاح‘‘ جلد ۳۲، نمبر ۱، محرم الحرام ۷ ۱۳۴ھ سے نقل کررہے ہیں۔
شاہ عبدالعزیز دہلوی ایک صاحب کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’فقیر عبدالعزیز سلام مسنون کے بعد عرض کرتا ہے۔
آپ کا گرامی نامہ مرثیہ خوانی وغیرہ کے سلسلے میں موصول ہوا اس وقت فقیر کو طولانی عبارت سننے کی طاقت نہیں ہے چہ جائیکہ طولانی عبارت لکھنا۔
اس فقیر کے یہاں جو کچھ معمول ہے اور جو ہوتا ہے وہ تحریر کررہا ہوں اور اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔
سال میں دو مجلسیں اس فقیر کے گھر میں منعقد ہوتی ہیں: ایک مجلس ذکر وفات شریف۔(رسول خداﷺ کی وفات کی مجلس) دوسری مجلس شہادت حسنین کی۔
عاشور سے ایک دو روز پہلے چار سو، پانچسو بلکہ ہزار افراد جمع ہوتے ہیں درود وسلام پڑھتے ہیں اس کے بعد یہ فقیر مجلس میں حاضر ہوتا ہے حدیث شریف میں حسنین کے جو فضائل ذکر کئے گئے ہیں وہ بیان ہوتے ہیں اور روایتوں میں جو شہادت بیان کی گئی ان کی بعض تفصیلات بیان کی جاتی ہیں اس کے علاوہ وہ مرثیہ پڑھے جاتے ہیں جو جناتوں نے حوروں نے اور جناب ام سلمہ نے اور دیگر صحابہ نے پڑھے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ دردناک خواب جو جناب ابن عباس اور دیگر صحابہ نے دیکھے وہ بیان کئے جاتے ہیں اور اس بے پناہ دردو غم کرب و الم کا تذکرہ ہوتا ہے جو حضرت رسالتمآبﷺ کی روح مبارک کو پہونچے ہیں اس کے بعد ختم قرآن ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی پانچ آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور ماحضر پر فاتحہ دلایا جاتا ہے اور اس وقت ایک خوش آواز سلام یا مرثیہ پڑھتا ہے اس وقت مجلس میں موجود لوگ اور اس فقیر پر گریہ و بکا طاری ہوتا ہے۔
یہ وہ چیز ہے جس پر برابر عمل ہوتا ہے اگر یہ چیزیں مذکورہ صورت میں جائز نہ ہوتیں تو اس کو ہرگز انجام نہ دیا جاتا۔‘‘
آپ نے ملاحظہ فرمایا۔بیان مجلس ہے جس میں ذکر فضائل و مناقب اہل بیت کا تذکرہ ہے مصائب کا ذکر ہے۔ مرثیہ اور نوحہ کا تذکرہ، تبرک ہے۔ مجلس میں کھانے کی تقسیم ہے اور اس کھانے پر فاتحہ ہے۔ امام حسین کی شہادت سے حضرت رسول خدا ﷺ کو نہایت درجہ دردوغم ہے اور جب حضرت رسول خداﷺ نے خواب میں ذکر جناب ابن عباس اور دیگر صحابہ سے واقعہ کربلابیان فرمائے تو خود حضرت رسول خدا ﷺ نے مجلس پڑھی ہے اور روایتوں میں ہے ان لوگوں نے حضرت رسول خدا ﷺ کو اس حال میں خواب میں دیکھا کہ چشم مبارک سے آنسو رواں تھے ہاتھوں میں خاک و خون تھا۔ ہاتھ میں ایک شیشی تھی جس میں شہداء کربلا کا خون تھا۔ سر پر غبار تھا۔ لباس مبارک پر شہداء کا خون لگا ہوا تھا۔ اس طرح حضرت رسول خداﷺ نے یہ صرف مجلس امام حسین پڑھی بلکہ یہ بھی واضح کردیا کہ مجلس امام حسین میں شرکت کا انداز کیا ہو۔