واقعہ کربلا سے انسانیت کو کیا ملا

۱۰؍ محرم الحرام  ۶۱؁ھ جب یزید بن معاویہ کی فوج نے امام حسین﷣  اور ان کے اصحاب باوفا پر مظالم کی تمام حدوں کو پار کر دیا اور ان کے اہل خانہ کو اسیر کر لیا، تو وہ اپنی کامیابی کا گمان کرنے لگے۔ وہ اس خواب غفلت میں مدہوش ہو گئے  کہ انہوں نے منکران بیعت یزید کوشکست دی تھی۔ مگر وہ اس بات کو نہیں سمجھ پائے  کہ کس طرح انقلاب امام حسین﷣  نے یزید کی باطل حکومت کے چہرے سے کفر و نفاق کے نقاب کو الٹ دیا۔

کچھ لوگ جو تبلیغ دین کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں وہ واقعہ کربلا کو ایک  سیاسی مسئلہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کربلا کسی سیاسی جنگ کا نام نہیں ہے جو  دنیاوی حکومت حاصل کرنے کے لئے لڑی گئی۔ یزید کا امام حسین﷣ سے کیا مقابلہ۔ کہاں یزید، گناہوں اور  بدکاریوں کا ایک مجسمہ، اور کہاں امام حسین ﷣، اپنے نانا کے  دین کی پناہگاہ۔ وہ جس کے قبضہ قدرت میں پوری کائنات  تھی، وہ بھلا اس شارب الخمر سے حکومت کا مطالبہ کرتا؟ ایسا صرف وہی سوچ سکتا ہے جسے حسین﷣  کی معرفت نہیں اور رسولﷺ سے محبت نہیں یا پھر شاید اس کا انسایت سے کوئی سروکار نہیں۔

انقلاب امام حسین﷣ کو بدون تفہم سیاسی شکل دینا یہ حضرت ﷣ کی شان میں جسارت ہے۔ ایسی گستاخیوں کے جواب میں اور اس فکر کو بڑھاوا دینے سے روکنے کے لئے یہ جان لینا ضروری ہے کہ آیا اس انقلاب سے امام حسین﷣ نے انسانیت پر کتنا بڑا احسان کیاہے۔

مقصد  قیام

قیام امام حسین﷣ نے جہاں ایک طرف انسانیت کے ضمیر کو متحیر کر دیا تھا تو دوسری طرف وہ مقصد تھا جسے امام حسین ﷣نے خود مدینہ سے روانہ ہوتے وقت اپنے بھائی جناب محمد بن حنفیہ سے بیان فرمایا تھا:

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ هَذَا مَا أَوْصَى بِهِ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ إِلَى أَخِيهِ مُحَمَّدٍ الْمَعْرُوفِ بِابْنِ الْحَنَفِيَّةِ أَنَّ الْحُسَيْنَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ جَاءَ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِ الْحَقِّ وَ أَنَّ الْجَنَّةَ وَ النَّارَ حَقٌّ وَ أَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لا رَيْبَ فِيْهَا وَ أَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ وَ أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي (ص) أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (ع) فَمَنْ قَبِلَنِي بِقَبُولِ الْحَقِّ فَاللَّهُ أَوْلَى بِالْحَقِّ وَ مَنْ رَدَّ عَلَيَّ هَذَا أَصْبِرُ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ بَيْنِي وَ بَيْنَ الْقَوْمِ بِالْحَقِّ وَ هُوَ خَيْرُ الْحاكِمِينَ وَ هَذِهِ وَصِيَّتِي يَا أَخِي إِلَيْكَ وَ ما تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ إِلَيْهِ أُنِيبُ.

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔یہ وصیت نامہ ہے’حسین بن علی بن ابی طالب‘ کا میرے بھائی محمد کی طرف جو معروف بہ ابن حنفیہ ہیں۔  بدرستی کہ حسین گواہی دیتا ہے کہ کوئی معبود نہیں سوا اللہ کے جو وحدہ لا شریک ہے اور محمدﷺاللہ کے رسول ہیں اور بندۂ خدا ہیں۔ بحق و راستی کہ ہدایت خلق کے لئے مبعوث ہوئے، اور گواہی دیتا ہوں کہ جنت و جہنم حق ہے، اور بیشک قیامت آنے والی ہے اور اللہ سب کو قبر سے اٹھائیگا۔ بہ تحقیق میں نے کسی تکبر،  طغیان، فساد برپا کرنے یا ظلم کی بنا پر سفر نہیں کیا ہے۔ بلکہ میں اس لئے عازم سفر ہوا ہوں تاکہ اصلاح جد بزرگوار کروں، امر بہ معروف اور نہی از منکر کروں، اپنے جد بزرگوار اور اپنے پدر عالی مقدار کی سیرت پر عمل کروں۔ جو میرا حکم قبول کریگا، حق تعالی اسے جزائے خیر دیگا اور جو انحراف کریگا، میں صبر کرونگا۔ جب تک کہ خداوندعالم میرے اور اس گروہ کے درمیان بحق و راستی فیصلہ کریگا اور وہ خیر الحاکمین ہے۔ اے برادر! یہ میری وصیت ہے اور خدا کے علاوہ کوئی توفیق دینے والا نہیں۔ اسی پر توکل اور اسی کی جانب بازگشت ہے۔‘‘

(بحار الانوار، ج ۴۴، ص ۳۲۹)

اس وصیت نامہ سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ قیام امام حسین﷣  کا مقصد صرف اور صرف اپنے جد بزرگوار سید انبیاءﷺ کے دین کی حفاظت تھی، اپنے بابا سید اوصیاء علی مرتضی﷣  کی راہ پر اقدام کرنا اور اوامر و نواہی کے ذریعہ اخلاق بشری کو مزین کرنا تھا۔  مدینہ سے کربلا اپنے سفر کے دوران سید الشہداء﷣  نے مختلف اوقات و مقامات پر خلق عظیم کے نواسے ہونے کا مظاہرہ بھی کیا۔

حرمت خانہ خدا کی حفاظت

حضرت امام جعفر صادق﷣ سے روایت ہے کہ جب  امام حسین﷣ نے مکہ معظمہ سے عراق کے سفر کے لئے کوچ کرنے کا ارادہ کیا اور یہ خبر وحشت محمد حنفیہ تک پہنچی تو آپ حضرت سید الشہداء﷣ کی بارگاہ میں تشریف لائے اور عرض کیا: اے برادر!آپ اہل کوفہ کا مکر و فریب جانتے ہیں کہ انہوں نے آپ کے پدر بزرگوار اور برادر عالی مقدار کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں آپ سے بھی بدسلوکی نہ کریں۔اگر آپ مکہ معظمہ میں تشریف رکھیں، عزیز و مکرم رہئےگا۔ اور کوئی معترض نہ ہوگا۔ امام حسین﷣ نے فرمایا:

’اے بھائی، ڈرتا ہوں کہ یزید مجھ کو کہیں مکہ معظمہ میں نہ قتل کر وا دے۔ لہذا مجھے یہ منظور نہیں کہ حرمت مکہ میرے سبب سے ضایع ہو۔‘

(بحار الانوار، ج ۴۴، ص ۳۶۴)

مسجد الحرام جائے امن و امان ہے۔ یہاں کسی کا خون بہانا حرام ہے اور بےحرمتی خانہ کعبہ کا سبب ہے۔ خانہ خدا کی بے حرمتی خود خداوند عالم کی بےحرمتی ہوگی۔ امام﷣ کو یہ قطعاً منظور نہیں تھا کہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس عظیم گھر کی شان و شوکت ضایع ہو جائے۔

آج ہر سال لاکھوں کی تعداد میں مسلمان حج بیت اللہ کے لئے  مکہ معظمہ جاتے ہیں۔ مگر کیا لباس احرام پہننے کے بعد متفرق حرام چیزوں سے خود کو محفوظ کرنے والے، حج کے تمام ارکان کو بخوبی انجام دینے والے، کعبہ کا بوسہ لینے اور طواف کعبہ کرنے والے حاجیوں میں کوئی ایسا ہےجو محافظ خانہ خدا کو یاد کرتا ہو؟ عجب نہیں کہ اسی لئے روز عرفہ رحمت خداوندی پہلے کربلا میں موجود حسین﷣ کے چاہنےوالوں اور حسین﷣  کی حقیقی معرفت رکھنے والوں پر نازل ہوتی ہے اور پھر میدان عرفہ میں جمع حاجیوں پر۔

انسانی معاشرے کی بیداری

معاویہ اور یزید کے زمانہ میں لوگ انسانی معاشرہ کو سدھارنے کے لئے کوئی عمل انجام دینے سے اس لئے کتراتے تھے کہ ان کو خوف لاحق تھا کہ کہیں انہیں قربانی نہ دینی پڑے اور ان کے دنیاوی مفادات، جو چند روز کے وظیفے ہوا کرتے تھے، بند نہ ہو جائیں۔ اس وقت کا انسانی معاشرہ ایک شجاعانہ قربانی کا محتاج تھا جو اس معاشرہ میں روح پھونک دے، مقدس اصولوں کی خاطر ایک عظیم قربانی پیش کرے اور ان تمام انقلابی عناصر  کے لئے ایک عظیم مشعل راہ ثابت ہو جائے جو شکست کے خوف سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ یہ کارنامہ حسین بن علی﷦ نے انجام دیا۔  واقعہ کربلا نے انسان کو اپنی شرافت و مقام بندگی کی دفاع کرنا سکھایا۔ مرسل اعظمﷺکے بعدپہلی بار لوگوں کے مردہ ضمیر بیدار ہوئے اور اسلامی معاشرہ پھر سے سانس لینے لگا۔

احساس گناہ

قیام امام حسین﷣ کا ایک اور اثر یہ ہوا کہ ان تمام لوگوں میں، جواس وقت امام حسین﷣ کی مدد کو پہنچ سکتےتھے اور نہ پہنچے اور ان کی مظلومیت کی آواز کو سن کر لبیک نہ کہی، ان میں ایک احساس گناہ پیدا ہو گیا۔ اس احساس گناہ نے لوگوں کے دلوں میں بنی امیہ کے لئے نفرت اور عداوت کے جذبہ کو  ظہور پذیر کر دیا۔

انقلاب امام حسین﷣ کے ہم عصر نمونے بھی ہمارے سامنے ہیں جن میں سے ایک ’رضی بن منقذ عبدی‘ ہے۔ جس نے کہا کہ قتل حسین﷣ ایک عار و ننگ ہے جس کی مذمت آنے والی نسلیں کریں گی۔ کاش کہ قتل حسین﷣ سے پہلے ہی میں قبر کی مٹی میں دفن ہو چکا ہوتا۔

(الطبری، ج ۵، ص ۴۳۳)

عظیم شخصیتیں

حضرت امام حسین﷣ اور ان کے اصحاب باوفا کے اعلی کردار کی کامل تصویرکشی تو ممکن نہیں۔ اس سلسلہ میں ہم کو کربلا کا واقعہ اول سے آخر تک پڑھنا چاہئے۔ یہاں صرف ان کے اعلی کردار کی کچھ جھلکیاں قلمبند کر سکتے ہیں۔

(الف)  منزل ’زبالہ‘ میں مسلم ابن عقیل اور آپ﷣ کے رضاعی بھائی عبد اللہ یقطر کی شہادت کی خبر سن کرآپ﷣ نے اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا کہ اہل کوفہ نے ان کے ساتھ بیوفائی کی ہے اور اگر کوئی واپس جانا چاہتا ہے تو جا سکتا ہے۔ یہ سن کر دنیاوی مفاد کے لئے آنے والے سب چلے گئے اور صرف وہی لوگ رہ گئے جو آپ﷣ کے ہمراہ شہادت کی اس عظیم منزلت پر فائز ہونا چاہتے تھے۔

(ب)  حضرت امام حسین﷣ نے کربلا میں اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا:

اَلنَّاسُ عَبِيْدُ الدُّنْيَا وَ الدِّينُ لَعِقٌ عَلَى أَلْسِنَتِهِمْ يَحُوْطُونَهٗ مَا دَرَّتْ مَعَايِشُهُمْ فَإِذَا مُحِّصُوا بِالْبَلَاءِ قَلَّ الدَّيَّانُونَ

’’لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبان تك محدود ہے۔ جب تک دین کے ساتھ انکا مفاد وابستہ ہے وہ اس کے گرد جمع رہتے ہیں اور جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو دیندار تھوڑے رہ جاتے ہیں۔‘‘

(بحار الانوار، ج ۴۴، ص 382)

اس وقت زہیر ابن قین نے کہا: ’اے فرزند رسول! ہم نے آپ کا فرمان سن لیا۔ اگر دنیا ہمیشہ باقی رہتی اور ہم اس دنیا میں ابدی زندگی پانے والے ہوتے تو بھی آپ کے ساتھ قیام کرنے کو ترجیح دیتے۔‘ بریر ابن خضیر نے کہا: ’اے فرزند رسول! اللہ نے ہم پر یہ احسان کیا ہے کہ ہم کو آپ کی ہمراہی میں لڑنے کی توفیق دی ہے۔ آپ کی راہ میں ہمارے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ پھر شاید آپ کے جد بزرگوار قیامت کے دن ہماری شفاعت کر دیں۔‘

(اعیان الشیعہ، ج۴، حصہ اول، ص ۲۲۴، ۲۲۵)

(ج)  شب عاشور جب امام حسین﷣ نے چراغ گل کر دیا اور اپنے ساتھیوں کو آخری موقع دیا کہ وہ واپس لوٹ جائیں تو   تمام اقربا اور اصحاب نے آپ﷣ کا ساتھ دینے سے روگردانی نہ کی اور  جام شہادت سے سیراب ہونا اختیار کیا۔ ہر ایک نے اپنے انداز میں اپنی مدد و نصرت کا اعلان کیا۔ سعد بن عبد اللہ نے کہا: ’قسم بخدا! آپ کو تنہا نہیں چھوڑینگے اور اللہ کو ہم یہ بتا دینگےکہ ہم نے رسول خداﷺ اور ان کی آل کی حرمت کی پاسداری کی ہے۔ قسم بخدا! اگر مجھے یقین ہو کہ میں مارا جاؤں گا پھر زندہ کیا جاؤں گاپھر زندہ جلایا جاؤں گااور پھر میرے جسم کی خاک ہوا میں اڑا دی جائیگی۔ اس طرح میرے ساتھ ستر مرتبہ کیا جائیگا تو بھی میں آپ﷣ سے جدا ہونا گوارا نہیں کروں گا اور آپ﷣ پر اپنی جان نثار کر دوں گا۔اب جب کہ مجھے ایک مرتبہ ہی مارا جانا ہے تو آپ﷣ کا ساتھ کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔‘

(الطبری، ج ۴، ص ۳۱۷، ۳۱۸)

خلاصہ

ہمیں اس بات کا صحیح اندازہ تو نہیں کہ اگر انقلاب حسین﷣ نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ مگر پھر بھی ما فوق باتوں کے ذیل میں چند باتوں کا ہم اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اگر واقعہ کربلا نہ ہوتا تو:

۱)    مرسل اعظمﷺ کی امت گمراہیوں میں غرق رہتی۔ یہ امام حسین﷣ کا لطف و کرم ہے کہ انسان کو حق و باطل میں تشخیص کرنے کے معیار کا پتہ چلا۔

۲)    دنیا کو اجر رسالت ادا کرنے کا طریقہ نہ ملتا۔ امام حسین﷣ کے بہادر ساتھیوں نے انسانیت کو اجر رسالت ادا کرنے کا ایک عظیم درس دیا ہے۔

۳)    بنی امیہ کی باطل حکومت اب تک قائم رہتی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہو جاتی۔ حکمران عوام کے کسی بھی انقلاب سے بے خوف ہو کر غفلت میں پڑے رہتے۔ اور عوام بیدار ہونے کے بجائے باطل حکومت کے آگے جھک جاتے۔

۴)    دنیا میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے نہ ہوتے اور اگر کوئی یہ راہ اختیار کرنا بھی چاہتا تو معاشرہ اسےاپنے مقصد میں کامیاب ہونے نہ دیتا۔

۵)    لوگوں میں اپنے نفس پر اعتماد اور اپنی شخصیت پر ایمان بحال نہ رہتا اور وہ اپنی زندگی اور عزت و شرافت کے حقوق سے آگاہ نہ رہتے۔

۶)    کشورکشائی کرنے والی اسلام دشمن طاقتیں اسلامی ممالک کو نابود کر دیتیں اور نہ صرف مسلمان قوموں کی طرف سے کوئی مقابلہ ہوتا بلکہ حاکم و محکوم دونوں ہی نابود ہو جاتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ البتہ حکمران نابود ہوئے اور ان کی باطل حکومتیں بھی مٹ گئیں مگر انسانیت نہ صرف زندہ رہی بلکہ ڈٹی رہی اور یہ سب انقلاب کربلا کی بدولت ہوا۔

۷)    امت مسلمہ  اخلاق کے اس عظیم درس سے محروم رہ جاتی جس کی تعلیم حضرت امام حسین﷣ اور ان کے اصحاب نے دنیا کو دی۔ کربلا انسانیت کے نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی اخلاقیات کا بھی سرچشمہ ہے۔پھر چاہے وہ دشمن کی فوج کو سیراب کرنا ہو، تلواروں کے درمیان نماز کا قائم کرنا ہو، مکمل طور سے اپنے امام وقت پر دل و جان قربان کرنا ہو یا دین خدا اور حق کی حفاظت کی خاطر دنیاوی مفاد کو نظر انداز کرنا ہو۔ یہ حسین﷣ کا احسان ہے انسانیت پر۔ اور اسی مناسبت سے جوش ملیح آبادی نے کہا:

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین