بسم الله الرّحْمن الرّحیْم وصلى الله علىك ىا ولى العصر ادركنا
وَاذْ كُرُوا نِعْمَتَ اللّٰهِ
ام الکتاب میں آیہ کریمہ کا یہ ٹکڑا ہر زاویہ سے ایک مکمل اور پر مغز پیغام الٰہی ہے۔ اس کے حروف میں دائمی زندگی کا لہو دوڑ رہا ہے۔ اس کا اجمال دعوت فکر دیتا ہے اور جب فکر اس دعوت پر لبیک کہتی ہے تو اس کے دریچے کلھنے لگتے ہیں اور ایسے دِلکش مناظر دور دور تک پھیلے ہوئے گویا اپنی تفصیل بیان کرنے پر لب کشا گا ہیں اور نوائے لبیک پر روح انسانی میں تازگی آجاتی ہے جو مستقبل کو جاویدانی کی بشارت سے سرشار کر دیتی ہے۔ یہ مرجع بھی ہے اور محور بھی۔ ان کے دائرہ میں خورشید و قمر کی روشنی بھی اور کہکشاں کی سمٹتی جگمگاہٹ بھی یہیں تازگی انسان کو انسان بناتی ہے اور یہیں تازگی اسے اشرفیت کا حسن و جمال جو نکھرتا دکھائی دیتا ہے۔ مصور یا خالق کی مدح وثنا کرنے کی توفیق عطا کرتا ہے یہ توفیق کسی کے بس میں نہیں کہ وہ اپنے وجود میں یعنی احساس کی بستی میں بسی ہوئی اس خوشبو کو سپرد قلم کر سکے۔ یہ توفیق ایک وجدان ہے جو علم و عمل کے سایہ میں پروان چڑھتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے اس کی نعمت کا ذکر کرو عقل و خرد کی روشنی میں اس خوشی کو دیکھئے جو کوئی بشر کے وجود میں پھوٹ نکلتی ہے جب وہ نعمت کو دستیاب کرتا ہے۔ پاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ جیسے قدر و قیمت کی نعمت ہوتی ہے ویسا ہی خوشی کا پیمانہ ہوتا ہے۔ یہ خوشی نعمت کے میزان پر چاہے جتنی چھوٹی ہو نعمت پانے والا نعمت دینے والے کو اس خوشی کے بدلے میں ایک لفظ اپنی زبان سے ضرور ادا کرتا ہے والا ہے وہ لفظ ہے ‘ شکریہ ‘ شکر، مشکور….
شاکر منعم کا اس لفظ شکر سے اپنی احسان مندی یا اس کے احسان کا معلن ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں منعم کے احسان کو اپنے احساس میں اتارنے کا اظہار کرتا ہے ۔ یہی مفہوم ہے نعمت پانے والے کا ذِکر نعمت سے۔
نیا میں نہ کوئی شخص نہ کوئی قوم باری تعالی و نعمتوں کی فہرست تیار کرسکتا ہے اوری علمی دنیا میں کبھی کوئی ایسی مشین تیار ہوسکتی ہے جو اس کی نعمتوں کا حساب رکھنے کا دعوی کرے۔ جب فرقان عظیم نے یہ دعوی کیا کہ نہ سہی اس کے مقابل میں ایک آیت ہی لے آو، ایسا نہیں ہے کہ یہ اپنی علمی ارتقاء پر مغرور انسان نے کوشش نہیں کی اور آخر میں جب باہر ہو گئےتو قرآن کریم نے اپنے دعوی پر دلیل دے کر کہہ دیا تو تمام انس و جن مل کر چاہو تو قرآن کی ایک آیت کی مثال نہیں لا سکو گے۔ اس کتاب میں الرحمن کا ذکر ہے، نعمتوں کا اجمالی بیان ہے جس کی تفسیر تو ہو سکتی ہے یہ تفصیل لا متناہی ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے “برگ درختان سبز در نظر ہوشیار”. اس جانب قرآن کریم اشارہ کر رہا ہے “پہچانوں اپنے نعمتوں سے نوازنے والے خدا کو جو کہتا ہے “تَسْقُط مِنْ وَّرَقَةِ اَلَّا يَعْلِمُهَا ” کہ پتّہ اپنی شاخ سے نہیں ٹوٹتا مگر اس کا علم اَسْمَعْ السَّامَعِيْن کو ہے۔
یہاں ٹہر کر عقل تقاضہ کرتی ہے کوئی نعمت یا اس کاسلسلہ ایسا ہے جو ایسے کو طلب کر رہا ہے جس کی طرف ارشاد باری تعالی ہے۔
نعمت
انسان کی زندگی کے دوحصہ ہیں۔ ایک مختصر اور دوسرا طویل، کہ اس کی مدت کا تعین نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ صرف ذکر حکیم میں موجود ہے۔ یہ دو حصہ ایک قبل از موت کا ہے اور دوسرا حصہ بعد از موت کا ہے۔ المختصر یہ کہ پہلا حصہ وہ ہے جو اختیار و جبر کے ساتھ مهد سے شروع ہو کر لحد پر تمام ہوتا ہے.
مثال جبر کی
ایک انسان ایک پاؤں پر کھڑا رہ سکتا ہے لیکن دونوں پاؤں اٹھا لے تو گر جائے گا۔ ایک آنکھ سے دیکھ سکتا ہے دونوں آنکھیں اگر نہ ہو تو یہ دنیا تاریک ہے….
اختیار
یہی وہ عنصر حیات ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے۔ یہ بیدار ہو، محتاط ہو، فکر و ذہن کے اجالے میں ہوں تو جب مکلف ہو جائے تو پہلے اپنے اعضاء و جوارح کی نعمت پر سجدہ شکر ادا کرے گا یہ میدانِ عمل انسان کے کردار کی تربیت گاہ ہے۔ یہی کردار سازی اسی میدان عمل میں سنور کر شخصیت کو ایک پہچان دیتی ہے۔ اگر یہ کردار نیکیوں، خوبیوں اور خیر کے سانچے میں ڈھالا ہے تو وہ اس کی ظرفیت اس قابل ہو جاتی ہے کہ وہ نعمت جو باری تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ عطا فرمائی ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نعمت کے امین ہیں۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ ﴿١٠٧﴾ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ ( سورہ شعراء : ۱۰۷-۱۰۸)
وہ نعمت کتنی عالی قدر ہے اس کا احاطہ ذہن و فکر کے بس میں نہیں ہے لیکن وہ تہذیب شریعت ہے جس پر جیسے جیسے کہا گیا ہے، بتایا گیا ہے، حکم دیا گیا ہے، ویسے ویسے اس پر عمل پیرا رہنا ہے۔ اس تہذیب شریعت کی جلوہ گری آج تلک جاتی ہے۔ اگر یہ تہذیب شریعت کی روح کو جانتا ہے تو نماز اور روزہ کو قائم کرنا ہی نہیں بلکہ اس کی استعانت درکار ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہو رہا ہے۔
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (سورہ بقرہ؛ ۴۵)
اللہ اکبر !!! کیا فضیلت ہے اس نعمت کی جسے خالق نے یہ رتبہ دیا ہے کہ اسے اپنے بندوں کا مددگار بنایا ہے۔ اور حکم دیتا ہے کہ ان سے مدد طلب کرو۔ یہی وہ نعمت ہے جو آسمانوں کے دریچے کھول دیتی ہے جہاں سے شجر طوبی کی ٹھنڈی ہوائیں روح پروری کرتی ہیں۔
محافظ
اس نعمت عالیہ کا محافظ، امین، ذمہ دار، بقا کا ضامن معاندین کو دور رکھنے والے اس کی طہارت، عظمت، اس کی جلالت اور جمالیات پر آنچ نہ آنے دینے والا، اسے تغیر اور تبدل سے محفوظ رکھنے والا وہی ہو سکتا ہے جسے خدا نے متعین کیا ہو۔ وہ وقت کا مالک ہے۔ وہ مفاتیح الغیب ہے، اس کے دشمنوں کو خوب پہچانتا ہے لہذا ایسا اہتمام کیا کہ معصومین علیہم السلام کا سلسلہ قائم رکھا تاکہ اس پر سیاست کی کوئی گرد نہ آنے پائے اور اس تازگی اور تابندگی میں کمی نہ آئے۔
خلاصہ
چنانچہ مرسل اعظم نے بوقت رحلت علیہ السلام سے وصیت کی “جب امت دنیا کی طرف پلٹ جائے تو اے علی تم دین (تہذیب, شریعت) کی حفاظت کرنا. علی علیہ السّلام نے بوقت نماز شہادت پائی تو آپ علیہ السلام نے کہا “کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوگیا.”
امام حسین علیہ السلام نے وصیت فرمائی زین العابدین علیہ السلام کو اور اس کی تصدیق کی جناب زینب سلام اللہ علیہا سے بہن مجھے نماز شب میں فراموش نہ کرنا۔ سید سجاد علیہ السلام وہ امام ہیں جن کے سجدہ کی صدا آسمان میں گونجی تو زین العابدین علیہ السلام کہہ کر ملائکہ بول اٹھے ہوں گے اسے عبودیت کا معیار کہتے ہیں۔
غرض یہ امامان معصوم علیہم السلام کا سلسلہ گیارہویں امام علیہ السلام تک ظاہر ہو کر چلتا رہا جنہوں نے اِس نعمت یعنی صوم و صلوۃ کی نعمت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم رکھی اور جب بارھویں امام علیہ السلام کی نوبت آئی تو اسے دشمنوں کی چالاکیوں، مکروفریب اور جاسوسوں کی نظر سے بچا کر پہلے غیبت صغریٰ عطا کی اور جب مشیت الہی نے مناسب سمجھا اسے غیبت کبری عطا فرمائی۔
آپ علیہ السلام نے نعمت کی حفاظت اس طرح کی کہ پہلے نواب خاص سے رابطہ ذات اقدس اور عوام کے درمیان قائم کیا۔ توقیعات کا سلسلہ جاری رہا۔ بعد از خود کو عوام سے رابطے کے لیے روات کا انتخاب کیا۔
آپ علیہ السلام کی ذات وہ ہے جسے اس نعمت سے تعبیر کیا جائے جو روح شریعت یعنی نماز اور روزہ جیسی عالی قدر نعمت کے پاسبان اور نگہدار ہیں۔ جلیل القدر نعمت جسے ہم قائم علیہ السلام کہتے وقت سر پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں اس کی زبان مبارک سے منجملہ اور اقوال میں ایک جملہ یہ بھی ملتا ہے کہ میں “شیعوں” کے درمیان نعمتیں منسیہ ہوگیا۔
شکایت
اس جملے میں کتنا درد ہے کتنا خون جگر لئے ہے، کتنی تکلیف اور رنج سے لبریز ہے کے آپ علیہ سلام کا چاہنے والا ہی محسوس کر سکتا ہے۔ تدبّر کا لازمہ ہے کہ ہم یہ غور کریں کہ آپ علیہ السلام کون اور کیسی نعمت ہیں۔ میرا مولا علیہ السلام میرا آقا وہ نعمت ہے جو خدا کی تمام نعمتوں سے اولیٰ ہے۔ آپ علیہ السلام خزینہ دار نعمتہاے الہی ہیں۔ ہر لمحہ آپ علیہ السلام کا رابطہ عرش سے فرش تلک ہے۔ آپ علیہ السلام امین کے امین ہیں۔ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب معراج تھا وہ نعمتوں کا امین تھا جو رحمت بن کر آیا اور سب کو کرم اور بخشش سے نوازاتا رہا۔ آخر الزمان میں اور وقت ظہور تک اس امین رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی لائی ہوئی امانت کا امین ہے۔
شور و غوغا
ایک شور ہے ایک باطل پرستوں کا ہجوم ہے چاروں طرف سے بڑھتا ہوا سیلاب جس سیلاب کی اونچی اونچی لہروں پہاڑوں کی مضبوط جڑوں کو بھی اکھاڑنے میں لگی ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالی کے ارادہ کا اعلان قرآن کر رہا ہے۔ کچھ بھی نہیں ہے اس ارادہ کے سامنے۔ اس کا ارادہ اس کے لئے ہے جو اس زمین کا وارث اور امام علیہ السلام ہے اور بظاہر ان طاقتوں نے اسے کمزور کر دیا ہے۔
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (سورہ قصص : ۵)
تاسف
افسوس اس بات کا ہے جس قوم و ملت کے پاس ایسا خزانہ دار نعمتہای الہی موجود ہے اس کی پاسداری اور نگہبانی سے کوئی ملت کا فرد محروم ہیں اسی کے چشم مبارک میں شکایت کے آنسو ہیں۔ اسی کی زبان سے یہ جملہ ادا ہوا شیعوں کے درمیان ایک بھولی ہوئی نعمت ہے۔
، جب قوم پر عالم غفلت طاری ہے تو اتنا کرم ہے اگر بیداری میں ہوں وہ میرا، ہمارا، تمام شیعوں کا رہبر حقیقی کیسی کیسی نعمتوں سے ہر فرد کو نوازے گا اس کا محتسب ہونا کارے دارد۔
جائزہ
تھوڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ تھوڑا سا جاننے کا ہنر درکار ہے، تھوڑا سا علم و عمل میں باہم رابطہ چاہیے۔ علم اور عرفان سے اگر تھوڑا سا نور مل جائے تو امام کا چاہنے والا دیکھ سکے گا۔ کیا… وہ امام علیہ السلام جس کے سامنے جناب زہراء سلام اللہ علیھا کا دروازہ جل رہا ہے، علی علیہ السلام کے گلے میں رسی کا پھندا ہے، حسن علیہ السلام کے پاؤں کے نیچے سے مصلی کھینچ لیا آگیا۔ کربلا ہولناک حادثہ ہے۔ زحمت کش سلاسل کی لبوں پر صبر ہے، نماز ہے، حمد و ثنائے الہی ہے۔ مختصر ایک سلسلہ ہے جس کے دلسوز مناظر کاظمین، خراسان اور سامرا کے حقوق پر چھائے ہوئے ہیں اور انتقام لینے والا مجبور نہیں ہے، صرف حُکم الہی کا پابند ہے ورنہ باطل کی آنتوں کو اسی کے گلے میں ڈال سکتا ہے۔ شیر الہی کا فرزند ہے۔ صاحب ذوالفقار ہے اللہ کی قدرتوں کا مظہر ہے۔ اب اس شکایت کے آئینہ میں امام کے چمنہائے آبدیدہ میں آنسُوں کو دیکھیے۔ کون چاہنے والا ایسا ہوگا جو اس جملے کو سن کر کلیجہ پکڑ کر بیٹھ نہ جائے۔
ہدف
امام علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوا یہ جملہ “شیعوں کے درمیان میں ایک بھولی بسری نعمت ہوں” یہ کوئی بے موقع اور بے محل بات تو نہیں ہو سکتی اور نہ یہ بات صرف ایک شکوہ یا گلہ ہے بس اس کے سوا کچھ بھی نہیں، یا سننے والوں نے سن لیا چند لمحوں کے لیے ایک تاثر پیدا ہوا اور پھر بے خبری رہی۔
ایسا نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ امام علیہ السلام اللہ تعالی کا خلیفہ ہے اس کا رابطہ اللہ تعالی سے براہ راست ہے۔ یہ جملہ ایک آگئی ہے ایک یاد دہانی ہے۔ سوتے کو بیدار کرنے کا تازیانہ ہے۔ اس کی روشنی میں وہ سڑک ہے جو بہت دور سے آتی ہے اور بہت دور تک جارہی ہے جس کی انتہائی منزل ظہور ہے۔ اس کے راہ گیر جو آگے بڑھ گئے ہیں ان کے قدم کے نشان ہے جس کے قریب آفت ڈھانے والی کوئی شے نہیں آ سکتی ہے۔ یہ وہی سیدھی صراط ہے جس کو ہم نے اپنے بندگان خاص کے لئے ہموار رکھا ہے۔ یہ جملہ امام علیہ السلام کا دعوت فکر و نظر دے رہا ہے کہ اس راہ پر آجاؤ اور اس پر چلنے والے قافلے کے ہمراہ ہمنوا ہو جاؤ۔ بھٹکے تو انجام بخیر نہ ہوگا۔ یہ جملہ کریم آقا علیہ السلام کی بندہ نوازی ہے جو عہد بعہد اپنے چاہنے والوں کو سمیٹ سمیٹ کر اس راہ پر چلنے کی دعوت دے رہا ہے اور ایک لمحے کے لئے بھی ہم سے غافل نہیں ہے۔
مُدُّعَا
اے ہمارے آقا علیہ السلام، اے ہمارے قائد، نگہبان پر نظر رکھنے والے، ہم عاجز آپ علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض داشت ہے کہ “مولا ہم, ہم ہیں۔ آپ، آپ ہیں۔ ہم ضعیف ہیں مسکین ہیں مستکین ہیں۔ آپ علیہ السلام کا سفیر جبرائیل ہے، ملائکہ ہیں۔ آپ علیہ السلام کی شان، اللہ جل جلالہ سے منصوص ہے۔ مولا علی علیہ السلام دور حاضر میں فتنہ ہی فتنہ پھیلا ہوا ہے۔ اگر آپ علیہ السلام کی نظر خاص ہم پر نہ ہوتی تو دنیا کے ہر گوشہ میں اس طرح پنپ نہ پاتے۔ راہ پر چلنے کے لئے جو آپ کی طرف لئے جارہی ہے اسباب فراہم کر دیجئے۔ ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔
ندائے ہاتفِ غیبی
اپنی شہرت کی تمنا کی دوڑ توڑ دو۔ مرجع وقت سے منسلک رہو۔ وہ ہمارا مندوب ہے نائب ہے، عالم باعمل کی مجلس میں اپنی نشست بنالو۔ وذکرو نعمت اللہ۔
یاد ہے
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَوْلَایَ سَلَامَ مُخْلِصٍ لَکَ فِی الْوِلَایَۃِ اَشْہَدُ اَنَّکَ الْاِمَامُ الْمَہْدِیُّ قَوْلًا وَ فِعْلًا۔
( استغاثہ بحضرت مہدی علیہ السلام, مفاتیح الجنان, ص ۲۱۶)
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
حضرت ولی عصر علیہ السّلام اور شبِ قدر
اسلامی کیلنڈر میں سب سے اہم رات اور بافضیلت شب “شب قدر” ہے پورے سال میں ۳۵۵ دن رات میں جس رات کو سب سے زیادہ عظمت و مرتبت حاصل ہے وہ یہی شب قدر ہے۔ قرآن کریم نے اس رات کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا ہے یعنی ایک رات کی عبادت ۳۸۳ سال کی دن رات عبادت سے بہتر ہے یعنی اگر کوئی شخص ایسے ۳۸۳ سال گذارے جس میں شب قدر نہ ہو اور ۳۸۳ سال دن رات عبادت کرے تب بھی وہ شب قدر کی عبادت کی برابری نہیں کرسکتا ہے۔ یہ رات دنیا کے تمام مسلمانوں کے نزدیک اہم ترین رات ہے اور یہ رات ماه مبارک رمضان کی ایک رات ہے وہ چاہے شیعوں کے نزدیک ۱۹-۲۱-۲۳ کی کوئی ایک رات ہو یا اہلسنت کے نزدیک ۲۷ رمضان المبارک کی رات ہو۔ تاریخوں کا فرق ضرور ہے مگر یہ رات ہر ایک کے نزدیک با فضیلت ہے۔ اس رات مسجدوں اور دیگر مقام عبادت میں عبادت خداوندی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے یہ رات لوگ عام طور سے عبادت میں بسر کرتے ہیں۔
رات اس بناء پر اہم ہے کہ اس رات سال بھر کی تمام باتیں طے کی جاتی ہیں عمر، رزق، اولاد، شادی، سر بلندی، عزت، ذلت، بارش، قحط، سیلاب، جنگ بد امنی … جو کچھ اس دنیا میں رونما ہونے والا ہے وہ سب اس ایک رات میں طے ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
اس رات ملائکہ اور سب سے عظیم ملک “روح” بھی نازل ہوتے ہیں سب خدا کے حکم سے نازل ہوتے ہیں۔
“من كل أمر” تمام امور کے ساتھ اس بات کو سورہ مبارک دخان کی تیسری چوتھی آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (دخان : ۳ -۴)
ہم نے قرآن کریم شب قدر میں نازل کیا ہم انجام کار سے باخبر کرتے ہیں اس رات تمام کمت کی باتیں طے کی جاتی ہیں۔
شب قدر ہر سال آتی ہے
ہوسکتا ہے کسی کے ذہن میں یہ بات آئے جس طرح قرآن کریم حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کی حیات طیبہ میں نازل ہوا تھا اور نزول قرآن آنحضرت کے زمانہ میں مکمل ہوگیا اور اب اس زمانہ میں نزول قرآن کا کوئی تصور نہیں ہے اس طرح کی فکر میں ایک بڑا نقص پایا جاتا ہے۔ گویا وہ شب قدر کو نزول قرآن کی یادگار سمجھ کر اپنی عبادت سے اس شب کو سجاتے ہیں۔ جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ نقص کو ذہن و فکر میں اس لئے کوئی جگہ نہیں دینا چاہئے کیونکہ شب قدر کی دو عظیم ترین فضیلتیں ہیں۔ ایک نزول قرآن جس میں تمام رطب و یابس کی حقیقتیں موجود ہیں۔ اور روز آفرنیش سے دنیا تغیرات کی آماجگاہ رہی ہے۔ زمانے کی پیش فیتی کا حساب، سال مہینوں اور ایام پر ہے۔ ان تغیرات کے اشارے وہ ہیں جو وہی سمجھ سکتا ہے جو راسخون في العلم ہوتا ہے بنابر این سال کی ایک مدت قرار دے کر اس درمیان میں جو تغیرات رونما ہونے والے ہوتے ہیں ان سب کا ایک مکمل دستور اور حساب لے کر ملائکہ عرش سے فرش زمین پر آتے ہیں اور تمام امور بذریعہ وہ عظیم الشان فرشتہ جسے روح کہتے ہیں ایک مرکز پر آ کر اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ آگے چل کر ہم اس کی توضیح کریں گے۔
نہیں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ شب قدر ہر سال ہے۔ پہلی وجہ ہے دنیا کے تمام مسلمان جو ہر جگہ شب قدر کا اہتمام کرتے ہیں خود قرآن کریم نے سورہ قدر میں اس حقیقت کو بیان بھی فرمایا ہے۔ نزول قرآن کریم کو ماضی کے صیغہ بیان فرمایا ہے:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
ہم نے قرآن کریم شب قدر میں نازل کیا۔
سوره مبارکه دخان میں بھی ماضی کا صیغہ استعمال کیا۔
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ
ہم نے قرآن کو بابرکت رات میں نازل فرمایا۔
لیکن جب نزول ملائکہ اور امور کی تقسیم و تقدیر کا ذکر فرمایا تو مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا:
اس قدر کی رات میں ملائکہ اور روح نازل ہوتے رہتے ہیں۔
یہ تو سورہ قدر کی آیت تھی۔ سوره مبارک دخان میں تمام امور کی تقسیم و تقدیر کا ذکر کیا تو وہاں بھی مضارع کا صیغه استعمال فرمایا
فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
اس بابرکت رات میں تمام حکمت کی باتیں طے ہوتی رہتی ہیں۔
صاحبان علم جانتے ہیں عربی زبان میں مضارع کا صیغه دوام اور تسلسل بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چونک نزول قرآن کریم وقتی کام تھا اور یہ کام ایک خاص وقت میں مکمل ہو گیا اب نزول کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے اس کو ماضی کے صیغه “انزل” سے بیان فرمایا شب قدر اور اس میں ملائکہ و روح کا نزول اور امور کی تقسیم و تقدیر کا سلسلہ جاری رہنے والا تھا اس لئے اس کو مضارع کے صیغہ سے بیان فرمایا:
فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
“تنزل‘‘ و “يفرق” دونوں مضارع کے صیغہ ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ شب قدر کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ اس امت پرخداوند عالم کا یہ عظیم احسان ہے۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم سے روایت ہے:
خداوند عالم نے میری امت کو شب قدر مرحمت فرمائی ہے جب کہ دوسری امتوں کی سعادت نہیں دی تھی۔
(تفسیر نمونہ ج ۲۷, ص ۱۹۰)
شب قدر ماه مبارک کی ایک رات ہے
شب قدر ماه مبارک رمضان کی ایک رات ہے یعنی شب قدر ماه مبارک رمضان میں ہے سال کے بقیہ گیارہ (۱۱) میں نہیں ہے۔ سورة بقرہ آیت ۱۸۵ میں ارشاد خداوندی ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ
رمضان کا مہینہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔
سورة قدر میں ارشاد ہوا:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
ہم نے قرآن کریم قدر کی رات میں نازل کیا۔
سورة دخان میں ارشاد ہوا:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ
ہم نے قرآن کریم بابرکت رات میں نازل کیا۔
لہذایہ طے ہے شب قدر ماه مبارک رمضان کی ایک رات ہے۔
کون سی رات؟
خداوند عالم نے ماہ مبارک رمضان میں عبادت کا بے پناہ ثواب رکھا ہے۔ یہاں تک کہ روزہ دار کی سانس کو تسبیح اور سونے کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ دوسری طرت ہم سب کو میدان قیامت میں مغفرت گناه میدان قیامت کی سختیوں سے نجات، پل صراط سے گذرنے اور جنت میں جانے کے لئے بہت ہی زیادہ ثواب کی ضرورت ہوگی، لہذا خداوند عالم کی رحمت و رافت کا تقاضا ہواشب قدر چند راتوں میں پوشیدہ رکھی جائے تا کہ اسی بہانے انسان کچھ عمل تو کر لے اور اپنے ثواب کے حساب میں اضافہ کرلے۔
لہذا کبھی اس طرح بیان کیا گیاشب قدر ماه مبارک رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتیں ہیں اور کبھی اس طرح بیان فرمایا گیا۔ انیس ۱۹, اکیس ۲۱, تیئیس ۲۳، کی راتیں۔ حضرت امام جعفر صادق الاسلام نے ان تین راتوں کو اس طرح بیان فرمایا:
اَلتَّقْدِیْرُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ تِسْعَۃَ عَشَرَ وَ الْاِبْرَامُ فِیْ لَیْلَۃِ اَحْدَیْ وَ عِشْرِیْنَ، وَ الْاِمْضَاءُ فِیْ لَیْلَۃِ ثَلَاثَ وَ عِشْرِیْن۔ (کافی، ج ۴, ص ۱۵۹،ح ۹)
انیسویں رات میں طے کیا جاتا ہے کیا ہونا ہے۔ اکیسویں کی رات میں اس پرفیصله کیا جاتا ہے اور تئیسویں کی رات میں آخری فیصله کیا جاتا ہے۔ اور حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اہلسنت حضرات ستائیسویں کی رات کو شب قدر قرار دیتے ہیں۔
ہم لوگ ان عظیم راتوں کی برکتوں سے غافل ہیں لہذایہ تین راتیں بھی پوری طرح عبادت میں بسر نہیں کرتے ہیں۔ اگر ہم ذرا یہ خیال کریں یہ راتیں ہماری مغفرت کا بہترین ذریعہ ہیں خاص کر امیر المومنین علیہ السّلام کی شہادت کا غم تو اور بھی خدا سے قربت کا سبب ہو جاتا ہے۔ ان راتوں کو زندگی میں غنیمت جانیں اورکوشش کریں آل محمد علیہم السّلام کے واسطہ سے خدا کی بارگاہ میں اس طرح حاضر ہوں کہ ان راتوں میں اپنی مغفرت اور جنت میں جانے کا پروانہ حاصِل کر لیں۔ ورنہ روایتوں میں ملتا ہے جو ماه مبارک رمضان میں نہ بخشا گیا وہ سال بھر نہیں بخشا جائے گا مگر یہ کہ اس کو حج کی سعادت نصیب ہو اور میدان عرفات میں مغفرت طلب کرے۔
ملائکہ کس پر نازل ہوتے ہیں؟ أمر الہی کون دریافت کرتا ہے؟
قرآنی آیتوں کی روشنی میں جب شب قدر میں ملائکہ اور روح نازل ہوتے ہیں اور سال بھر کے تمام امور طے کئے جاتے ہیں تو سوال یہ ہے یہ ملائکہ کس پر نازل ہوتے ہیں اور سال بھر کے یہ تمام امور دوسروں لفظوں میں انسانوں کے لئے خدا کی سالانه پلاننگ کس کے حوالے کی جاتی ہے؟ وہ کون ہے جو مرکز نزول ملائکہ اور مرکز در یافت امر خداوندی ہے؟
دنیا کے تمام عقالا کا یہ طریقہ ہے اور ہر جگہ طریقہ رائج ہے یہی عقل کا طریقہ ہے۔ پیغام ارسال کرنے سے پہلے پیغام دریافت کرنے والا معین ہونا چاہئے عقل سلیم اس کو قبول کرتی ہے۔ پیغام پر پیغام آرہے ہوں اور ان کو دریافت کرنے والا کوئی نہ ہو۔
پیغام لانے والا چوراہے پر کھڑا تلاش کر رہا ہو یہ پیغام کس کے حوالے کرے؟
خداوند عالم کی سنت کیا ہے؟ پیش خداوندی کیا ہے؟ کیا اس نے آسمان سے فرشته بغیر پتہ بتائے نازل کر دیئے اور فرشته زمین پر آنے کے بعد حیران و سرگرداں ہوں کس کے پاس جائیں؟ اور وہ بھی اس صورت میں جب شب قدر میں عظیم ترین فرشتہ روح نازل ہور ہا ہو۔ روایتوں کے مطابق جو عرش خداوندی سے سال میں صرف ایک مرتبہ نازل ہوتا ہے اور وه سال بھر کے تمام اہم امور لے کر؟
سنت خداوندی یہ ہے کہ اس نے جب بھی کسی فرشته کو وحی، پیغام، کتاب، صحیفہ… لے کر زمین پر بھیجا تو یہ بھی بتادیا کہ فرشته کس کی خدمت میں حاضر ہو اور کس کو یہ امانت خداوندی سپرد کرے چنانچه صحیفوں کے لئے جناب ابراہیم علیہ السّلام کو معین فرمایا توریت کے لئے جناب موسیٰ علیہ السّلام، انجیل کے لئے جناب عیسی علیہ السّلام قرآن کریم کے لئے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کو معین فرمایا۔ جناب جبرئیل اور دیگر تمام فرشتوں کو معلوم تھا وه کس کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل کررہے ہیں۔
عقل کا حتمی فیصلہ ہے جب شب قدر میں امر نازل ہورہے ہیں تو “صاحب امر” “ولی امر” کا وجود ضروری ہے۔ جو تمام امور خداوندی کو دریافت کر سکے. جب فرشتے اور روح کا نزول ہو رہا ہے تو ایک محبت خدا کا وجود ضروری ہے جس کی خدمت اقدس میں یہ لوگ حاضر ہوسکیں۔
حضرت امام حسین علیہ السّلام کی زیارت میں یہ جملے اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں:
اِرَادَۃُ الرَّبِّ فِیْ مَقَادِیْرِ اُمُوْرِہٖ تَہْبِطُ اِلَیْکُمْ وَ تَصْدُرُ مِنْ بُیُوْتِکُمْ
(مفاتیح الجنان، زیارات مطلقه امام حسین علیہ السّلام، زیارت اول)
امور کی تقدیر و تقسیم کے تعلق سے خداوند عالم کا ارادہ آپ علیہ السّلام کی خدمت میں نازل ہوتا ہے اور آپ علیہ السّلام کے بیت الشرف سے صادر ہوتا ہے۔
یعنی اہل بیت علیہم السّلام ہیں جن کی خدمت اقدس میں تمام امور خداوندی نازل ہوتے ہیں۔ شب قدر کا ہر سال آنا اور باقی رہنا اس بات کی مستحکم دلیل ہے کہ اس دنیا میں کوئی صاحب قدر ضرور ہے وہی حجت خدا اور وہی امر ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام نے فرمایا:
اے شیعوں تم سورة انا انزلنا کے ذریعه و دلیل قائم کرو۔ یقینا کامیاب ہو گے۔ خدا کی قسم یہ سورہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کے بعد لوگوں پر خدا کی حجت و دلیل ہے جو تمہارے دین کا سید و سردار ہے۔
اے گروہ شیعه تم لوگ سوره حم دغان سے استدلال کرو خدا فرماتا ہے:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
ہم نے قرآن بابرکت رات میں نازل کیا اور ہم ہی انجام کار سے باخبر کرنے والے ہیں اس بابرکت رات میں تمام امر حکیم معین کئے جاتے ہیں یہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کے بعد ان کے اولیاء سے مخصوص ہے۔
اے لوگو خداوندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (سورة قاطر ، آیت ۲۴)
کوئی ایسی اُمت نہیں جس میں اس نے کوئی نذیر نہ بھیجا۔ (نذیر یعنی حجت خدا)
لوگوں نے عرض کیا: اے فرزند رسول ! کیا رسول الله اس امت کے نذیر نہیں ہیں؟
فرمایا: درست کہا لیکن کیا وہ اس وقت موجود ہیں؟ عرض کیا: نہیں
امام علیہ السلام نے فرمایا: تو کیا حضرت رسول خدا کی طرح اس امت کے لئے کسی نذیر کی ضرورت نہیں ہے؟
عرض کیا: جی ہاں ضروری ہے۔
فرمایا: حضرت رسول خدا اس دنیا سے جانے سے پہلے اس امت کے لئے نذیر معیّن کر کے گئے تھے۔
عرض کیا: کیا اس سلسلے میں قرآن کریم کافی نہیں ہے؟
فرمایا: ہاں جب قرآن کا مسفر اور علم موجود ہو۔
عرض کیا: کیا حضرت رسول خدا نے پوری تفسیر بیان نہیں فرمائی؟
فرمایا : ضرور لیکن صرف ایک شخص سے اور امت سے اس شخص کا تعارف بھی کرایا اور وہ علی بن ابی طالب علیہ السّلام ہیں۔
عرض کیا: کیا یہ ایک خاص بات ہے جس کو عام لوگ دریافت نہیں کر سکتے۔
فرمایا: ہاں خداوند عالم نے یہ طے کیا ہے جب تک اس کے دین کے غلبہ اورعلنی اظہار کا وقت نہیں آتا اس وقت تک خاموشی سے اس کی عبادت کی جائے۔
جس طرح حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم اور جناب خدیجه سلام اللہ علیہا نے اس وقت تک بات ظاہر نہیں کی جب تک انہیں اظہار کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
عرض کیا : صاحب دین اور صاحب امر کے لئے ضروری ہے کہ وه پوشیدہ رکھے؟
فرمایا: حضرت علی بن ابی طالب علیہماالسلام نے حضرت رسول خدا کے ہمراہ اس وقت تک اعلان نہیں کیا جب تک خدا کا حکم نہیں ہوا۔
عرض کیا: جی ہاں ایسا تو ہے۔
فرمایا: ہماری بات بھی اسی طرح ہے۔
….حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ….(سورہ بقرہ، آیت ۲۳۵)
یہاں تک کہ کتاب اپنی معینہ مدت تک پہونچ جائے۔
(تاویل الايات، ج ۲، ص ۸۲۴-۸۲۵, نقل از کافی، ج ۱, ص ۲۳۹، ح ۶ ؛ بحار الانوار، ج ۲۵, ص ۸, ح ۶۸)
لہٰذا نزول امر کے لئے ولی امر کا وجود لازم و ضروری ہے۔ بس ان لوگوں کی شب قدر شب قدر ہے جو ولی امر حضرت حجت بن الحسن العسکری علیہِ السلام کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ ہر لمحہ ان کے ظہور پر نور کا انتظار کر رہے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر ان کے جلد از جلد ظہور کی دعائیں مانگ رہے ہیں خاص کر شب قدر میں یہ دعا ضرور مانگتے ہیں ایک شب ذرا امام کے ساتھ گزارنے کی سعادت نصیب ہو۔
شب قدر میں خداوند عالم جو امور معین فرمانے والا ہے ان امور میں اس سال سب سے پہلے ہمارے امام، ہمارے آقا، ہمارے سردار، ہمارے ولی نعمت۔ واسطه فیض خداوندی مرکز پرکار وجود سبب قیام زمین و آسمان، حضرت حجت ابنِ الحسن العسکری علیہ السّلام کا ظہور پر نور معین و مقدر فرمائے اور ہم سب کو ان کے
غلاموں و خدمت گذاروں میں شمار فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
شرح دعاء العہد
شعبان المعظم ۱۴۳۷ھ سے آگے
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِوَجْہِکَ الْکَرِیْمِ وَ بِنُوْرِ وَجْہِکَ الْمُنِیْرِ وَ مُلْکِکَ الْقَدِیْرِ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ اَسْئَلُکَ بِاسْمِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ بِہِ السَّمَوَاتُ وَالْاَرْضُوْنَ وَ بِاسْمِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ بِہِ السَّمَوَاتُ وَالْاَرَضُوْنَ وَ بِاسْمِکَ الَّذِیْ یَصْلُحُ بِہِ الْاَوَّلُوْنَ وَالْاٰخِرُوْنَ یَا حَیُّ قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ یَا حَیُّ (حَیًّا) بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ حِیْنَ لَا حَیَّ یَا مُحْیِیَ الْمَوْتٰی وَ مُمِیْتَ الْاَحْیَاءِ یَا حَیُّ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ۔
پروردگارا! میں تجھ سے طلب کرتا ہوں تیرے کریم وجہ کے صدقے میں اور تابندہ وجہ کے صدقے میں اور تیرے قدرتمند ملکیت کے صدقے میں اے ذات زنده اے قیوم (یعنی جو خلوقات کو اپنے قبضہ قدرت میں رکھے ہوئے ہے اور انہیں زیر و زبر کر رہا ہے) میں تجھ سے طلب کرتا ہوں تیرے اس نام کے صدقے میں جسکی بنا پر آسمان اور زمین روشن ہوتے ہیں اور تیرے اس نام کی بنا پر سے اولین اور آخرین کی اصلاح ہوتی ہے۔ اے ہر زندہ سے پہلے زندہ اور ہر زندہ کے بعد زندہ جو اس وقت زندہ تھاجب کوئی اور زندہ نہ تھا۔ اے مردوں کو زندہ کرنے والے اور اے زندوں کو موت دینے والے اے زندہ تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں۔
دعا عہد کے اس فقرے میں ہم الله سبحانہ کو اسکے وجہ، وجہ کے نور، خدا کے ملک اور اسکے خاص اسم اور نام کا واسطہ دیتے ہیں۔ یہاں چند اہم اصطلاحات کا ذکر کرتے ہیں۔
وجہ کے لغوی معنی ہیں چہره وہ شی کہ جسکے ذریعہ کسی چیزی کی طرف ہم متوجہ ہوتے ہیں وجہ اور جاہ سے مراد قدر اور منزلت بھی ہے۔ قرآن کریم میں بھی لفظ وجہ متعدد مرتبہ استعمال کیا گیا ہے۔ مثلا وجہ الله، وجہ ربہ اور وجہ ربهم دیکھا جاسکتا ہے۔
وجہ خدا کیا ہے؟ پہلی بات تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اللہ اور ہے اور اسکا وجہ اور امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ اَعْظَمْ مِنْ اَنْ یُوْصَفَ بِالْوَجْہِ (التوحيد, الشيخ الصدوق, ص ۱۴۹)
بیشک اللہ – جو صاحب عزت و جلال ہے۔ اس سے زیادہ برتر ہے کہ اسکی توصیف چہرے سے کی جائے۔
یعنی مذہب حقہ اہل بیت علیہم السّلام میں تنزیہ پروردگار عقیدہ توحید کا نہایت ہی اہم رکن ہے۔ یعنی خدا کو ہر طرح کی تشبیه و تمثیل سے پاک اور منزہ قرار دینا۔ ہر وہ چیز جو مخلوق میں پائی جاتی ہے خدا اس سے پاک اور منزہ ہے۔ پھر وجہ سے مراد کیا ہے؟ آیئے روایات آل محمد علیہم السّلام کی تعلیمات کی روشنی میں دیکھیں کہ وجہ کے کیا معنی ہیں؟
وجہ سے مراد دین ہے
مندرجہ بالا مذکور حدیث میں امام باقر (علیہِ السلام) نے پہلے وجہ کے جسمانی معنا سے خداوند متعال کی تنزیہ کی۔ پھر اس طرح وضاحت فرمائی: وَلٰکِنْ مَعْنَاہُ کُلَّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا دِیْنَہٗ وَ الْوَجْہُ الَّذِیْ یُؤْتیٰ مِنْہُ۔
بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہر شئے ہلاک ہو جائیگی سوائے اس کے دین کے اور وجہ اسے کہتے ہیں کہ جس کے ذریعہ اس تک پہنچ جاتا ہے۔ ( التوحید، شیخ الصدوق، ص ۱۴۹, ،ح ۱)
وجہ سے مراد حق کا راستہ ہے۔
حارث بن مغیره النصری جو امام صادق علیہ السّلام کے نہایت معتبر صحابی اور محدث تھے نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السّلام سے اس آیہ کریمہ کے متعلق سوال کیا
کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ
تو آپ نے جواب میں فرمایا:
کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا مَنْ اَخَذَ طَرِیْقَ الْحَقِّ۔
ہر چیز ہلاک اور معدوم ہوجائےگی سوائے اسے جس نے حق کے راستے کو اپنایا۔ (التوحيد الشيخ الصدوق ص ۱۴۹, ح ۲)
اور حق کا راستہ کیا ہے؟ حضرت محمّد صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کی اطاعت اور فرمانبرداری ہی وجہ پروردگار ہے۔ مندرجہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر امام صادق علیہ السّلام نے اس طرح فرمائی:
مَنْ اَتَی اللہَ بِمَا اُمِرَ بِہٖ مِنْ طَاعَۃِ مُحَمَّدٍ فَہُوَ الْوَجْہُ الَّذِیْ لَا یَہْلِکُ وَ کَذَالِکَ قَالَ مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ
جس نے حضرت محمد کی اطاعت کی گویا وہی وجہ ہے جو بلاک نہیں ہو گا اور اسی لئے الله سبحانہ نے ارشاد فرمایا: جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (التوحید، الشیخ الصدوق، ص ۱۴۹، ح ۳)
وجہ سے مراد اہل بیت علیہم السّلام ہیں امام باقر السلام علیہِ السلام فرماتے ہیں:
نَحْنُ وَجْہُ اللہِ نَتَقَلَّبُ فِیْ الْاَرْضِ بَیْنَ اَطْہُرِکُمْ عَرَفَنَا مَنْ عَرَفَنَا وَ مَنْ جَہِلَنَا فَاَمَامَہُ الْیَقِیْنُ۔
ہم الله کے وجہ ہیں جو تہمارے درمیان روئے زمین پر آتے جاتے رہتے ہیں۔ جس نے ہمیں پہچانا اس نے ہمیں پہچانا (اسکا ثواب اپنی جگہ پر ہے) اور جس نے ہم سے غفلت برتی تو یقین (موت) اسکے سامنے ہے۔ (التوحيد الشيخ الصدوق ص ۱۴۹, ح ۶ )
اب ان تینوں معنی کو اگر یکجا کریں تو مفہوم یہ ہے اہل بیت علیہم السّلام ہی وجہ اللہ ہیں، دین خدا بھی وہی ہیں اور وہی حق کا راستہ ہیں۔ خیثمہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السّلام سے اس آیہ کریم
کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ
کے بارے میں سوال کیا۔ آپ علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا:
دِیْنَہٗ وَ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ وَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ دِیْنَ اللہِ وَ وَجْہَہٗ
وجہ سے مراد الله کا دین ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم اور امیر المومنین علیہ السّلام کے دین ہیں اور اسکے وجہ ہیں۔
(التوحید، شیخ الصدوق, ص ۱۴۹، ح ۷)
دعا عہد کے اس فقرے میں جس وجہ کریم کا واسطہ دیا جا رہا ہے اس سے مراد ذوات مقدسہ محمد اور آل محمد (علیہم السّلام) ہیں اور یہی وجہ نورانی پروردگار ہیں کہ جن کے وسیلہ سے اگر کوئی دعا مانگے اسکی دعا مستجاب ہوگی۔
لفظ ملكك القدیر ہے (کچھ نسخوں میں القديم ہے) یعنی تیری توانا ملکیت۔ اللّٰہ اپنے ملک پر مکمل قدرت کا حامل ہے۔ یعنی وہ جسے چاہے ملک دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے۔
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (سورہ آل عمران، آیت ۲۶)
اے حبیب آپ کہ دیجئے کہ بارے الاہا تو ہی ملک کا مالک ہے۔ جسے چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے رسوا کرتا ہے۔ اختیار تیرے ہاتھوں میں ہیں۔ یقیناً تو ہر چیز پرقدرت رکھتا ہے۔
الله نے انسان کو قدرت، اختیار اور تمام انوار قدسیہ کا مالک بنایا لیکن وہ ان پر املکیت رکھتا ہے۔ وہ زیادہ مالک ہے۔ جب چاہے سلب کر لے۔ کوئی انسان یہ گمان نہ کرے یہ تمام چیزیں اسکی اپنی ہیں بلکہ سب کے سب عاریتی ہیں۔ اسکی عطا ہیں۔ ہم اسکے مقابلے میں فقیر ہیں۔ بندگی کا تقاضا بھی یہی ہے۔
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ اَسْئَلُکَ بِاسْمِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ بِہِ السَّمَوَاتُ وَالْاَرْضُوْنَ
ذات حق وہ ذات جو زندہ ہے لیکن یہ بات آپ کے اذہان عالیہ میں محفوظ رہے کہ اسکی حیات کا مفہوم ہماری زندگی کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہماری زندگی کا خالق اور مالک ہے۔ ہمیں اختیار نہیں ہے کہ ہم اسکی حیات کے تعلق کوئی وہمی خیالی یا عقلی صورت قائم
کریں۔ اسکے اسماء کے لئے ہمیں ویسے ہی تنزیہ کرنا چاہیئے جیسے اسکی ذات کے بارے میں ہمہ تنزیہ اور تسبیح کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جب ہم خدا کی حیات کا ذکر کریں تو صرف انتا کہیں کہ لا یموت فيه (التوحید، ص ۱۳۸-۱۴۰, ۱۴۶)
وہ زندہ کہ جسکی ذات میں موت کا گزر نہیں ہے۔
اسکی ذات میں موت کا تصور نہیں ہے۔ جیسے مخلوقات کے یہاں زندگی کے ساتھ موت کا بھی تصور پایا جاتا ہے۔ بلکہ ذات حق مخلوقات کی زندگی اور موت کا خالق ہے۔
یا قیوم کا مطلب کہ وہ پوری کائنات کو زیر و زبر کر رہا ہے۔ ہم سب اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ تمام مخلوقات ( بغیر استثنی) کاولی، سرپرست، محافظ مصلح اور مقدر (دال پر زیر) اسکی ذات ہے۔ کوئی اسکی حکومت اور سلطنت سے فرار اختیار نہیں کرسکتا ہے۔ سب کہ سب اسکے مقابل میں خاضع اور خاشع ہیں۔
اسکے بعد ہم اللہ تعالی کو اس نام کا واسطہ دیتے ہیں جس کے توسط سے تمام آسمان اور زمین روشن ہیں۔ اسم یعنی نام اور علامت کیوں کہ اسم و – س- م سے بنا ہے جسکا مطلب ہے علامت۔ لہذا جب ہم کہتے ہیں بسم اللّٰہ تو اسکا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنے نفس پر علامت گزاری کر رہاہوں کی میں اللہ کی مخلوق ہوں اور و میرا خالق ہے۔
امام رضا علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ
بِسْمِ اللہِ اَیْ اِسئمُ نَفْسِیْ بِسِمَۃٍ مِنْ سِمَاتٍ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ وَہُوَ الْعُبُوْدِیَّۃُ قَالَ فَقُلْتُ لَہٗ مَا السِمَۃُ قَالَ الْعَلَامَۃُ
بسم اللّٰہ یعنی میں اللہ کی علامتوں میں سے ایک علامت اپنے اوپر لگاتاہوں اور وہ علامت عبودیت ہے۔
راوی کہتا ہے میں نے سوال کیا کی سمہ سے مراد کیا ہے امام علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا: علامت
(معانی الاخبار، ص ۳، ح ۱)
یہاں چند باتیں عرض کرنا ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اسماء و صفات پروردگار ذاتی نہیں فعلی ہیں۔ امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ اسم مسمی کے علاوہ ہے۔ تمام اسما غیر اللہ ہیں۔ (الکافی، ج ا، ص ۸۷، ح ۲)
دوسرے یہ کہ اللہ کے اسماء دو طرح کے ہیں ایک لفظی اور دوسرے کونی۔ لفظی یعنی وہ اسماء جو حروف سے مرکب ہو کر الفاظ بنے ہیں جیسے اللّٰہ “رحمٰن” “رحیم” وغیرہ۔ اور کونی سے مراد اللّٰہ کی تمام مخلوق ہیں جو اسکی طرف دلالت کرتی ہیں۔ اور تمام اسماء میں محمد صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم اور آل محمد علیہم السّلام اللہ کے اسم اعظم اعظم اعظم ہیں کہ جنکے نور سے یہ بزم امکان روشن ہوا ہے۔ دعاؤں میں اس طرح کے جملے ملتے ہیں:
و أشرقت الأرض بنور کم (البلد الامین, ص ۳۰۲)
زمین روشن ہوئی آپ کے نور سے۔
اللہ کے کتنے اسماء ہیں؟ روایات کی روشنی میں اللّٰہ کے چار ہزار اسماء لفظی ہیں۔
جب الله ہمارے وہم و خیال میں آ نہیں سکتا ہے تو اسکی نام گزاری کا فائدہ کیا؟ جواب یہ ہے کہ یہ اسماء خود اس نے اپنے لئے منتخب کئے ہیں۔ ان اسماء ہی کے ذریعہ ہمیں اسے پکارنا چاہئے۔ ہمیں حق نہیں ہے کہ ہم خود اپنی طرف سے اسکے لئے نام وضع کریں۔ اس نے اس بات کی اجازت ہمیں نہیں دی۔ اسکے تمام اسماء اور صفات موقوفی ہیں۔ موقوفی یعنی ہمیں اختیار نهیں ہے کہ ہم اس کے بتائے ہوئے ناموں کے علاوہ اس کے لئے کوئی اور نام استعمال کریں۔
الله ہر ایک کام کو ایک خاص نام کی روشنی میں انجام دیتا ہے تفصیلات کے لئے رجوع کریں دعا سمات جسے عصر جمعہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
وَ بِاسْمِکَ الَّذِیْ یَصْلُحُ بِہِ الْاَوَّلُوْنَ وَ الْاٰخِرُوْنَ
اور انہی اسماء اعظم کے توسط سے اولین اور آخرین کی اصلاح ہوتی ہے۔
یعنی ان کے لئے دنیاوی اور اخروی کامیابی اور سعادت کے وسائل فراہم کئے جاتے ہیں۔
یَا حَیُّ قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ یَا حَیُّ (حَیًّا) بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ حِیْنَ لَا حَیَّ یَا مُحِیِیَ الْمَوْتَی وَ مُمِیْتَ الْاَحْیَاءِ یَا حَیُّ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ
اے وہ ذات زندہ جو ہر زندہ سے پہلے ہے اے وہ ذات زندہ جو ہر زندہ کے بعد ہے۔ اے وہ زندہ جب کوئی اور زِندہ شی نہ تھی۔ اسے مردوں کو زندگی دینے والے اور زندوں کو موت دینے والے اے وہ زندہ کہ تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے۔ لفظ زندگی اور حیات پر اوپر بحث ہو چکی ہے۔ محی باب افعال کا اسم فاعل ہے یعنی زندگی دینے والا۔ اور موتی میت کی جمع ہے جس کا مطلب ہے مردہ۔ اسی طرح ممیت یعنی موت دینے والا۔ یہ اسم فاعل ہے اور احیاء حی کی جمع ہے۔
زندگی اور موت کا دینے والا اللہ ہے۔ وہ جسے چاہے جب چاہے موت دے اور جسے چاہے جب تک چاہے زندہ رکھے۔ اگر وہ چاہے تو اپنی حجت کو آگ کے شعلوں میں زندہ رکھے، اگر وه چاہے تو اپنی حجت کو چوتھے آسمان پر بلا کر زندہ رکھے۔ اگر وہ چاہے اپنی حجّت کو کنویں کی گہرائی میں زندہ رکھے۔ اگر وہ چاہے اپنی حجّت کو مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رکھے۔ اگر وہ چاہے اپنی حجّت کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل غیبت میں زندہ رکھے۔ یقینا زندگی کا عطا کرنے والا خداوند لا زوال ہے۔
افسوس کہ نام نہاد مسلمان نہ جناب ابراہیم علیہ السّلام کے آگ میں زندہ رہنے میں شک کرتے ہیں نہ جناب عیسی علیہ السّلام کے آسمان پر زندہ رہنے میں نہ جناب یوسف علیہ السّلام کے کنویں میں زندہ رہنے میں کسی کو شک وتردید ہے اور نہ ہی جناب یونس علیہ السّلام کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے میں۔ ہاں اگر کسی کی حیات پر اعتراض ہے تو اس ذات مقدس کی حیات پر ہے جو اس روئے زمین پر اللّٰہ کی آخری حجت ہے جو یملا ارض قسطا و عدلا کا مصداق ہے جو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کا بارہواں جانشین ہے یعنی حضرت امام مہدی علیہ السّلام جن کی غیبت اور ظہور کا تذکرہ قرآن و حدیث میں وارد ہوا ہے۔
یہاں اس اہم نکتہ کی طرف متوجہ کرانا چا ہتے ہیں کہ در حقیقت امام زمانہ علیہ السّلام کی حیات پر اعتراض کرنا خداوند عالم کی قدرت پر اعتراض کرنا ہے۔
ہم خداوند متعال کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ پروردگارا ! تُجھے تیری آخری حجت امام مہدی علیہِ السلام کے وجود مقدس کا واسطہ ہمیں ایسے پرفتن زمانہ میں حضرت امام مہدی علیہِ السلام کی امامت کے عقیده پر ثابت قدم فرما اور دشمنان اسلام کے پیدا کردہ شک وشبہات سے محفوظ فرما۔ (بقیہ آئندہ انشاء الله)
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
قرآن کی آیات کا اسلوب کچھ ایسا اعجاز ستائش گر رہتا ہے کہ اس کی تعریف پر قلم اٹھائیں تو ذہن معنٰی و مطالب کے اوج کی طرف پرواز کرنے لگتا ہے۔ انسان پھر بھی انسان ہے۔ اللہ نے جتنی عقل دی ہے اسے پوری طرح سے درک بھی کر لے تو بڑی بات ہے۔ کبھی كبھی اس کے بیان میں لفظیں ملتی ہی نہیں ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ دل کی دھڑکنوں کی مضراب سے کوئی نغمہ آسمانی اُبھر رہا ہے۔ مثلا قرآن کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی آیت۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سوره احزاب، آیت ۵۶)
بیشک الله اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں تو اسے صاحبان ایمان تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو۔
آیت کا آخری لفظ پوری آیت کی تفسیر کر رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے ذہن دنیاوی زندگی کے دھند لکے سے نکل کر انوار سحر کی خنکی محسوس کر رہا ہے۔ آیت کی آخری لفظیں سلِّمو تسلیما کو جب ہم اپنے خیالات کو کھنگالتے ہیں اور مبذول کرتے ہیں اپنی کوشیشوں کو اس راہ پر چلنے کی جس راہ پر لوگ اپنے نقش قدم چھوڑ گئے ہیں جو سلِّمو تسلیما کے پیکر خاکی کے مظہر تھے۔ اگر اس آیت کی روشنی میں ہم ان لوگوں کو بھی دیکھیں جن کا وظیفہ اس آیت کے درود وسلام پر رہتا ہے۔ انھوں نے اس سلِّمو تسلیما کا کتنا حق ادا کیا ہے۔ اگر ایک بڑی اکثریت اِس طرف پوری زندگی سلِّمو تسلیما کے ڈھانچے میں ڈھال لیتی تو شاید اس میں نہ کبھی زلزلے آتے، نہ کبھی سنامی کا سیلاب آمنڈتا، نہ کوہ آتش فشاں سے سیل رواں بستیوں کو لقمہ اجل بنا لیتا۔
(۱) لفظ تسلیم و سلامة يا سلام سے مشتق کیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں فرمانبردار ہونا یا سپرد کر دینا۔ (المنجد، ص ۴۸۷)
لفظ سلم قرآن میں چار جگہ بمعنی اطاعت و تسلیم استعمال ہوا ہے۔ سورہ نساء آیت ۹۰ اور ۹۱ میں اور سورہ نحل آیت ۲۸ اور ۸۷ میں۔
قارئین کے لئے ایک آیت کو نقل کر رہا ہوں۔
وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ (سورہ نحل، آیت ۸۷)
اس دن وہ لوگ اللہ کے سامنے سر تسلیم نہ ہونگے۔
تسلیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
۱ – سلیم ظاہری
۲ – تسلیم قلبی
تسلیمِ ظاہری طور پر انسان مدّ مقابل کے سامنے سر تسلیم خم ہوتا ہے قلبی سلیم سے فاقد ہوتا ہے۔ بلکہ اگر اسے موقع مل جائے تو مد مقابل کے خلاف دو بارہ آتا ہے۔ یہی چیز قرآن میں اس طرح ملتی ہے۔
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (سورہ حجرات، آیت ۱۴)
یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔
رابطہ مابین اسلام و ایمان
مندرجہ بالا آیت اسلام اور ایمان کے مابین ایک بین فرق کی طرف اشارہ ان لوگوں کے لئے کرتی ہے جنہوں نے اسلام تو قبول کرلیا لیکن ان کے سامنے ایمان کی منزل به منزل ارتقاء کے مدارج نہیں ہیں۔ اسلام اسی وقت اسلام کی تعریف میں آئیگا جب رہوران اسلام ایمان کی حقیقت کو سمجھ لیں، درک کرلیں، جس کا تعلق امامت و ولایت اہل بیت علیہم السّلام سے ہے۔ جس کے بغیر اسلام اپنی ہیت اور وجود کا تصور تو پیش کر سکتا ہے لیکن وہ اسلام کی ظاہری صورت سے زیادہ اور کچھ ہی نہیں ہے۔ لہذا تسلیم ظاہری سے انسان مسلمان تو ہوسکتا ہے مگر مومن نہیں ہوسکتا۔
اب ہم ایمان اور اسلام کے بارے میں امام صادق علیہ السّلام کے قول کو بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ جس میں آپ علیہ السّلام فرماتے ہیں:
اسلام وہ ظاہری چیزیں ہیں جس پر عام طور سے لوگ قائم ہیں یعنی خدا کی توحید اور یکتائی کی گواہی اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کو خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکات ادا کرنا، ماہ صیام میں روزے رکھنا یہ ہے اسلام۔ لیکن ایمان ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ اہل بیت علیہم السّلام کی امامت و ولایت کا اقرار کرنا ہے اگر کوئی شخص ان تمام باتوں کا اقرار کرے اور ولایت و امامت کوتسلیم نہ کرے تو وه مسلمان تو ہوگا لیکن گمراہ ہوگا ( مومن نہیں ہوگا)۔
(تفسیرِ برہان، ج ۴، ص ۲۱۲، ح ۵؛ کافی ، ج ۲ ص ۲۴، ح ۴)
تسلیم ظاہری انسان کے لئے موجب عذاب ہوتی ہے۔
مثلا قرآن آواز دے رہا ہے کہ جو کوئی خدا اور اس کے دستور (حکم) سے منہ موڑے گا۔ یعنی حسد ہوں، ہرص، عجب وغیرہ کریگا تو خدا اس پر عذاب نازل کریگا۔ ظاہری طور پر انسان اسے قبول کرتا ہے اور اسے سمجھتا بھی ہے مگر یہ بات اس کے قلب کی گہرائیوں تک نہیں اترتی ہے۔
وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ (سورہ نمل، آیت ۱۴)
اور باوجود یکہ ان کے دل کو ان معجزات کا یقین تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تکبر سے ان کو نہ مانا۔ تو (اے رسول) دیکھو کہ (آخر) مفسدوں کا انجام کیا ہوا۔
یہ کلام الہی کا اعجاز ہے کہ وہ اس نفسیاتی پہلو کتنے اچھے انداز میں بیان کر رہا ہے۔
باوجود یہ کہ ان کے دل کو اس کا یقین تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے سر کشی اور تکبر سے ان کو نہ مانا۔
فرعون جانتا تھا کہ موسیٰ علیہ السّلام حق بیانی کررہے ہیں اور اس کی عقل اُنہیں تسلیم بھی کر رہی تھی مگر خود پسندی اور جاہ و حشم، سلطنت و ریاست کی وجہ سے اُنہیں قلبی طور پر تسلیم نہیں کیا۔
معاویہ بن ابی سفیان دوسروں سے زیادہ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کو جانتا تھا مگر ان جناب علیہِ السلام کے سامنے خاضع نہیں تھا ان علیہِ السلام سے بغض و عناد رکھ کر اپنی عاقبت برباد کرلی۔
تسلیم قلبی
یہی تسلیمِ حقیقی ہے یہی جنت کی ضمانت ہے۔ قلب انسانی میں جب تسلیم كا نور پیدا ہوتا ہے تو اس کی وسعتیں، اس کا عمق بڑھ
جاتا ہے۔
یہی اصل تسلیم ہے جو انسان اپنے قلب سے کرتا ہے۔ اور تسلیمِ قلبی کا ثمرہ ایمان و عمل ہوا کرتا ہے۔ ہم اسی تسلیم حقیقی پر تبصره کریں گے۔
یہ کہنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ جب تسلیم ظاہری تسلیم قلبی میں بدلتی ہے تو انسان معراج کی منزل پر نظر آتا ہے کبھی وہ سلمان محمدی رحمۃاللہ علیہ، حر بن یزید ریاحی، تو کبھی زہیر بن قین بجلی، ہارون مکی، فضیل بن یسار، کلیب (التسليم)، وغیرہ بن جاتا ہے۔ مگر جب خدانخواستہ یہی تسلیم صرف شعور تک محدود رہ جائے تو وہ حسان بن ثابت، علی بن حمزه البطانی، شلمغانی کی شکل میں نظر آتا ہے۔
جب انسان تسلیم و رضا کی منزل میں آجاتا ہے تو اس کو خود کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ وہ امام سے کیوں اور کیا کی بحث نہ کرے۔ اگر امام صادق علیہ السّلام کے سامنے ایک ہی سیب کے دو حصے کر کے رکھ دیئے جائیں اور امام علیہ السّلام فرمائیں سیب کا یہ حصہ حلال اور یہ حصہ حرام ہے تو سوال کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔
آیئے دیکھتے ہیں احادیث ائمه معصومین علیہم السّلام کی روشنی میں تسلیم حقیقی کیا ہے۔
سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًایعنی سَلِّمُوْالہ الْوَلَایَۃَ بھما
یعنی ولایت اور جو کچھ اس کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے اسے تسلیم کرنا۔ (تفسیرِ القمی، ج ۲, ص ۱۹۶؛ تفسیر برہان، ج ۴, ص ۴۸۸)
ابو بصیر نے امام صادق علیہ السّلام سے سورہ احزاب آیت ۵۶ کے بارے میں سوال کیا تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا:
ان پر صلوت بھیجنا اور جو کچھ انھوں نے بتایا اس کے سامنے سر تسلیم خم ہونا ہے۔ (محاسن، ج ۱, ص ۲۷۱)
ابو باشم کہتے ہیں میں امام جعفر صادق علیہ السّلام کے ساتھ مسجد الحرام میں تھا۔ والی ( گورنر ) مدینہ منبر پر گیا اور جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے کہا
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
امام جعفر صادق علیہ السّلام نے مجھ سے فرمایا: اے ابو ہاشم یہ کیا جانے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں؟ پھر آپ علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا
(سلموا الولاية (لعلى) تسلیما یعنی حضرت علی علیہ السّلام کے ولایت کے سامنے سر تسلیم خم كرنا۔
اور اس دن ندا کے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے۔ (سوره نحل، آیت ۸۷)
اس میں بھی شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم (اور اُن کی آل) پر درود بھیجتے ہیں. تو اے ایماندارو تم بھی درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو۔ (سوره احزاب، آیت ۵۶)
عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے (اے رسول) کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ اسلام لائے حالانکہ ایمان کا تو ابھی تک تمہارے دلوں میں گزر ہوا ہی نہیں۔ (سوره حجرات، آیت ۱۴)
اور باوجود یکہ ان کے دل کو ان معجزات کا یقین تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تکبر سے ان کو نہ مانا۔ تو (اے رسول) دیکھو کہ ( آخر) مفسدوں کا انجام کیا ہوا۔ (سورہ نمل، آیت ۱۴)
موسیٰ نے کہا تم یہ ضرور جانتے ہو کہ یہ معجزے سارے آسمان و زمین کے پروردگار نے نازل کئے (اور وہ بھی لوگوں کی) سوچ کی باتیں ہیں۔ اور اے فرعون میں تو خیال کرتا ہوں ک تم پر شامت آئی ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل، آیت ۱۰۲)
اور ان کے دل تو ہیں (مگر قصداً) ان سے سمجھتے ہی نہیں۔ (سورہ اعراف، آیت ۱۷۹)
یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔ (سورہ محمد، آیت ۴۷)
کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے جن سے (حق باتوں کو) سمجھتے یا ان کے ایسے کان ہوتے جن کے ذریعہ سے سچّی باتوں کو سنتے۔ (سورہ حج ، آیت ۴۶)
آئیے تاریخ کے چند اوراق کھنگالیں اور دیکھیں تسلیم قلبی کے کیا آثار و برکات ہیں اگر اسلام کے اوائل کا جائزہ لیا جائے تو سر فہرست “حسان بن ثابت” کا نام ذہن میں آتا ہے۔ انھوں نے پنجتن پاک کی زیارت کی تھی۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم تھے۔ ۱۰ ہجری میں واقعہ غدیر میں موجود تھے امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کی بیعت ہی نہیں بلکہ آپ علیہ السّلام کی مدح میں قصیدہ فی البدی کہا تھا۔ مگر صرف تسلیم ظاہری تھی۔ تسلیم قلبی نہ ہونے کی وجہ سے خلیفہ سوم کے زمانے میں کسی نے دریافت کیا علی علیہِ السلام حق پر ہیں یا عثمان؟ کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم۔ راوی نے جب حضرت علی علیہ السّلام سے حسان بن ثابت کے فوت ہونے کے بعد سوال کیا۔
کیا وہ آپ علیہ السّلام کا شیعہ مرا؟ امام علیہ السّلام نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً
حسان جاہلیت کی موت مرا۔ یعنی حقیقی امام کے سامنے تسلیم قلبی نہ کرنا جہنم کی ابدی اذیتوں کا موجب ہوتا ہے۔
کربلا ہماری بنیادی درسگاہ ہے۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے قاتلین امام حسین علیہ السّلام اُنہیں پہچانتے نہیں تھے ؟ وہ لوگ بھی تسلیم ظاہری کی منزل پر تھے مگر تسلیمِ قلبی کا فقدان تھا جس کی وجہ سے جہنم کے مستحق قرار پائے۔ تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔
حسن بن علی وشا کہتے ہیں ایک دن مجھے میرے سید و سردار حضرت امام رضا علیہ السّلام نے مرو بلایا اور فرمایا اے حسن ! آج علی ابن ابی حمزہ بطائنی کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کی قبر میں دو فرشتے سوال و جواب کے لئے داخل ہوئے اور انھوں نے سوال کرنا شروع کیا تمہارا رب کون ہے؟ اس نے کہا “اللّٰہ” پھر انھوں نے سوال کیا تمہارا نبی کون ہے؟ اس نے جواب دیا حضرت محمد صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم۔ پھر سوال کیا تمہارا ولی کون ہے؟ اس نے جواب دیا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام۔ ان کے بعد؟ تو اس نے کہا حسن علیہ السّلام۔ پھر؟ تو اس نے کہا حسین علیہ السّلام پھر؟ تو اس نے کہا علی ابن الحسین پھر ؟ تو اس نے کہا محمد بن علی علیہِ السلام اور پھر ؟ تو اس نے کہا جعفر ابنِ محمّد، پھر؟ اس نے کہا موسیٰ بن جعفر علیہِ السلام پھر ؟ تو وہ لڑکھڑانے لگا تو انھوں نے اسے جھڑ کا اور پھر پوچھا پھر کون؟ تو وہ خاموش ہو گیا تب انھوں نے کہا کیا تجھے موسیٰ بن جعفر علیہِ السلام نے اس امر (یعنی امامت حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السّلام) کے بارے میں نہیں بتایا تھا؟ پھر انھوں نے آگ کے تازیانے سے اس کی قبر کو آگ سے روز قیامت تک کے لئے بھر دیا۔ حسن کہتے ہیں پھر میں اپنے سید و سردار کے یہاں سے نکلا اور اس دن کی تاریخ لکھ لی یہاں تک کہ کچھ دن گذرے اور کوفیوں کی طرف سے ایک خط آیا جس میں بطائنی کے فوت ہونے کا وقت اور تاریخ وہی لکھی تھی جس کا امام علیہِ السلام نے ذکر کیا تھا۔
(بحارالانوار، ج ۴۹, ص ۵۸)
یہ بات ذہن میں رہے کہ علی بن حمزہ بطائنی کوئی معمولی انسان نہیں تھا یہ امام موسی بن جعفر علیہِ السلام کے خاص اصحاب میں سے تھا۔ بلکه مورد اعتماد وکلاء میں سے تھا۔ اہلِ س ثقہ میں سے تھا مگر بعد میں واقفی ہو گیا تھا اور امام رضا علیہ السّلام کی امامت کا انکار کیا اس کی اصل وجہ تسلیم ظاہری تو تھی مگر تسلیم قلبی نہیں تھی۔
یہیں نہیں بلکہ غیبت صغری میں محمد بن علی شالمغانی عزاقری جو کہ اصحاب امام حسن عسکری علیہ السّلام میں سے تھا۔ کئی کتابیں لکھی مگر جناب حسین بن روح نوبختی کے زمانے میں نائب خاص ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا اور گمراہ ہو گیا۔
خود امام زمانہ علیہ السّلام کی طرف سے توقیع وارد ہوئی جس میں آپ علیہ السّلام نے اس پر لعنت کی ہے۔
(مهدی موعود, ( ترجمہ بحار الانوار, ج۵) ص ۶۸۵)
آخر کس چیز نے شلمغاني کو گمراہ کیا؟ کیا اس کے پاس تسلیم ظاہری نہیں تھی ؟ بالکل تھی مگر تسلیم قلبی نہ ہونے کی وجہ سے ولایت امام زمانہ علیہ السّلام سے منحرف ہو گیا۔ اگر ہمیں تسلیمِ قلبی سمجھنا ہے تو اہلِ بیت علیہم السّلام کے مخلص شیعوں کی حیات طیبہ پر نظر ثانی کرنا ہو گا۔ اوائل اسلام میں سر فہرست جناب سلمان محمدی رحمۃاللہ علیہ کا تسلیم کا یہ عالم تھا کہ اسی جگہ قدم رکھنا پسند کرتے تھے جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کے قدم کے نشان ہوتے اہل بیت علیہم السّلام کے ہر قول وفعل میں آمنا و صدقنا کی منزل تھی۔ اور شاید یہیں وجہ تھی کہ رسول اللہ کو کہنا پڑا السلمان منا أھل البیت۔
شہداء کربلا کو جو عظمت و منزلت حاصل ہے وہ صرف اسی تسلیم قلبی کی بناء پر۔ ورنہ اصحاب امام حسین علیہ السّلام کے سامنے موت کھڑی تھی مگر وہ لوگ یہیں تو کہہ رہے تھے ابن رسول الله صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم اگر ہمیں ستر مرتبہ بھی مارا جائے اور زندہ کیا جائے تو بھی ہم آپ علیہ السّلام کی نصرت سے باز نہیں آئیں گے۔
یہں نہیں بلکہ دیگر ائمہ علیہم السّلام کے زمانے میں بھی ایسے نایاب گوہر نظر آتے ہیں مثلا امام جعفر صادق علیہ السّلام کے صحابی جناب بارون مکی۔
یہ وہ صحابی ہیں جن کی تسلیم قلبی کا یہ عالم ہے کہ ایک دن امام علیہِ السلام نے ان سے کہا جلتے تنور میں کود جاؤ – بارون مکی بلا چوں چرا تنور میں کود گئے۔ کچھ دیر بعد دیکھا گیا کہ وہ آگ پر دو زانوں ہو کر بیٹھے خدا کی حمد و ثناء کر رہیں ہیں۔
(زندگانی حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام, ترجمہ بحار الانوار، ج ۴۷, ص ۱۰۵)
مختار بن زید شحام امام صادق علیہ السّلام سے روایت کرتے ہیں جب میں امام صادق علیہ السّلام کی خدمت میں گیا اور بیان کیا کہ پہلا ہمارے درمیان ایک شخص آتا ہے جس کا نام کلیب ہے۔ اس کے سامنے ہم جو کچھ بیان کرتے ہیں (آپ علیہ السّلام کی حدیثیں) تو وہ فورا کہتا ہے آنا اسلم (میں نے سلیم کیا) تو ہم لوگوں نے اس کا نام ہی “كليب تسلیم” رکھ دیا۔ تو امام صادق علیہ السّلام نے فرمایا: خدا اُس پر رحم کرے پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو تسلیم کیا ہے؟۔ تو ہم خاموش ہو گئے ۔ پھر امام علیہِ السلام نے فرمایا
“اللہ کے سامنے ذلیل و خوار ہونا اور امام علیہ السّلام نے قرآن کی یہ آیت پڑھی۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ (سورۃ ہود ، آیت ۲۳)
بیشک جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دئیے اور اپنے رب کی بارگاہ میں عاجزی سے پیش آئے۔
انسان کی نجات صرف اور صرف اہل بیت علیہم السّلام کے سامنے تسلیم قلبی ہی میں ہے۔ ایک کاروان ہے وہ اعجاز امامت کی نشاندہی کرتا ہوا اپنی منزل کی طرف جولان قدیم کے ساتھ رواں دواں ہے۔ یہ اعجاز امامت ان کے دلوں میں نور ولایت کی جلوہ گری کرتا ہے۔ یہ کاروان حق کا علم لے کر تہذیب شریعت کے لئے حق کے متلاشی افراد کے لئے راہ ہموار کر رہا ہے۔ آواز آرہی ہے جو عقل و خرد کو دعوت عمل دے رہی ہے۔ آگہی دے رہی ہے۔ ایک ذراسی حوصلے کی جنبش اگر امام علیہ السّلام کی توجہ ہماری طرف کر دے تو اس دنیا میں جہاں ہزاروں بھنور آرہے ہیں اسے بچا کر اپنی منزل کی طرف رسیدگی کی سعادت عطا فرمائیں گے۔ یہاں حوصلہ کی جنبشِ سے مراد بیداری ہے یعنی ہمیں اپنے امام وقت علیہِ السلام کی طرف متوجہ ہونا چاہئے ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دن رات کوشش کرنا چاہئے۔ نیند سے بوجھل آنکھیں کم سے کم اپنے تصور میں ان بستیوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں جہاں انوار کی بارش ہو رہی ہے اور وہ منزل ہمارے امام زمانہ علیہ السّلام کی خیمه گاه ہے اور یہی سلمو تسلیما کے مقصد کی روح ہے۔
یعنی اہل بیت علیہم السّلام کے قول و فعل کے سامنے سر تسلیم خم ہونا خداوند عالم کی رحمت و مغفرت کا موجب ہے۔ اورنجات کا ذریعہ ہے۔ حضرت بقیه الله الاعظم نے اپنی ایک توقیع میں اسی مطلب کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
… فَاتَّقُوْا اللہَ وَ سَلِّمُوْا لَنَا ……
تقوی الہی اختیار کرو اور ہمارے سامنے تسلیم ہو جاؤ۔ (بحارالانوار، ج ۵۳، ص ۱۷۹)
اور ایک دوسری توقیع میں ملتا ہے۔
یَا مِہزَمُ …… وَ نَجَا الْمُسَلِّمُوْنَ……
اے مهزم… نجات صرف اہلِ تسلیم کے لئے ہی ہے۔
انسان پیش داور شکوہ بر لب ہو سکتا ہے کہ ایسے افراد، ایسے مخلصین، ایسے صالحین کی حیات طیبہ اور ان کے وظائف ہمارے سامنے نہیں تھے۔ جن کی تعقیب میں ہماری روح تسلیم قلبی کے منازل طے کرتی۔ بنا بر این اس عالم امکان میں ایک کاروان ہے۔
كَشْفُ الْاَسْتَارِ عَنْ وَجْهِ الْغَاءِبِ عَنْ الْاَبْصَارِ
رخسارِ پنہاں سے پردہ کا اٹھنا
سامرا، بخوشگوار آب و ہوا کا ایک شہر عراق کے جنوب میں دجلہ کے کنارے تیسری صدی ہجری میں بسایا گیا۔ اور دجلہ کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے بعض عباسی خلفاء کی حکومت کی راجدھان رہا ہے۔ اور اس زمانے میں امام ہادی اور امام حسن عسکری علیہم السّلام کے اجبار اس شہر میں سکونت اختیار کرنے کی وجہ سے اہل ایمان کے لئے اس مقدس قرار پایا۔ اسی سرزمین پر امام حسن عسکری علیہ السّلام کا بیت الشرف تھا جہاں امام ولی العصر علیہِ السلام کی ولادت واقع ہوئی جس گھر میں بوقت ولادت آسمان سے حوریں فرش پر اتر کر آئیں۔ صبح کا ذب صبح صادق کی کرنوں کے انتظار میں تھی۔ عرش کے منازل کی جلوہ گری کی شاہد جناب حکیمہ خاتون تھیں۔ نہ اس صبح کی جو و صبح ولادت امام زمانہ علیہ السّلام ہے، نہ اس بیت کی جو جائے ولادت امام عصر علیہ السّلام ہے، نہ اس شہر کی جس میں یہ رشک فردوس جو خانه عسکری تھا، کسی زبان میں اتنی سکت نہیں ہے کہ جو اس کی فضیلتوں کو بیان کر سکے یا اسے سپرد قلم و قرطاس کر سکے۔ اسی لئے وہ جگہ آج ہزاروں مومنوں کے لئے زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔
اس طرح، تیسری صدی ہجری سے، ہمیشہ اس شہر کو دو زاویہ سے دیکھا گیا : ایک تو اس کا قدرتی بساؤ اور حاکموں کی عیش بھری
زندگی اور مادی لذتوں کے ساتھ دجلہ کے آب باری سے لطف اندوز ہونا اور دوسری طرف اہل ایمان کی توجہ خاندان نور یعنی شاخ پر بار شجرہے طیّبہ نبوت و امامت کی طرف، اس شہر کی رونقوں میں اضافہ کرتا ہے۔ اہل ایمان میں ولایت و انتظار موعود کے آب جاری کو سامرا میں دیکھا اور پھر ان کے انتظار میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف ظلمت پرست ایک تابناک مرکز نور کو اپنی پھونکوں سے خاموش کرنے کا اراد کے بیٹھے ہیں۔ لیکن خدا نے اس کے دوام کا وعدہ کیا ہے اور اسے پورا کرے گا، اگرچہ مُلک تاریک کے شیدائیوں کو ناگوار ہی کیوں نہ لگے۔
شهر سامرا زمانے کے گذرنے کے ساتھ تیرہویں صدی ہجری تک آپہونچا۔ تقریبا ۱۲۹۰ ھ میں ایک روشن بین و دانا ہوشیارو جامع شناس عالم، مرحوم آیت الله میرزا حسن شیرازی نجف سے سامرا تشریف لائے اور اس شہر کے معنوی چہرے کو زندہ کر دیا اور دوباره اس سرزمین کو دیار امامت و انتظار کا مرکز بنادیا۔ اس تاریخی ہجرت کی برکت سے، درس علوم دینی کے جلسات، شہری ترقی اور شہری خدمات، سفر زیارتی و غیرہ سامرا میں بڑھ گئے یہاں تک کہ کئی دہائیوں تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اس مقدس ہجرت کے آثار اب تک اس شہر میں نمایاں ہیں۔
نامور محدث مرحوم میرزا حسین نوری طبرسی ایک ایسے عالم تھے جو میرزای بزرگ شیرازی کے چہیتے اور مورد اعتماد تھے اور اس تاریخی ہجرت میں ان کے ہمراہ تھے اور میرزای شیرازی کی رحلت (۱۳۱۲ ھ ) تک سامرا میں ان کے ساتھ رہے۔ اس کے بعد ۱۳۱۴ ھ میں وہ نجف لوٹے۔ مرحوم محدث نوری قدس سرہ کی چند کتابیں اور خاص طور سے “مستدرک الوسائل” سامرا میں قیام کے دوران لکھی گئی۔ مستدرک کی تین جلدیں ۱۳۰۵ ھ، ۱۳۱۰ ھ ۱۳۱۳ ھ میں سامرا میں تکمیل کو پہونچیں اور اُسکے فوراً بعد “خاتمتہ مستدرک الوسائل” لکھنا شروع کیا اور ۱۳۱۸ ھ میں نجف میں مکمل کیا۔
(رجوع کرو: سالماشمار زندگی مرحوم نوری در : علامہ محدث نوری : عبد الحسین طالعی و محمّد حسین صفا خواہ ص ۴۸-۵۴)
مستدرک، خاتمہ کے ساتھ نئی اشاعت میں دس جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔
آیت الله میرزاومحمد شیرازی ، نمایاں خصوصیات کے حامل تھے اور عمل کی خصوصیات ان کے شاگردوں میں منتقل ہوئی۔ اسی وجہ سے دو خصوصیات مکتب سامرا“ کے عنوان سے یاد کی جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض خصوصیات “استاد فقید سید صلاح الدین مھدوی” کے نقل کے مطابق، اس طرح ہیں:
* تهذیب نفس اور خودسازی پر توجہ اور اخلاق و سلوک کا محور مبنی برشرع
* دین کے عملی پہلو پر توجہ اور اجتماعی و فرهنگی وسماجی جگہوں پر انہماک کے ساتھ حاضری
* زمانہ شناسی اور وظیفہ شناسی
* مخصوص توجہ مقام ولایت اہل بیت علیہم السّلام پر
* مخصوص توجه امام عصر عجل الله تعالی فرجه الشریف کی امامت کے دفاع پر
* بیگانوں کے نفوذ کی مخالفت
* مظلومین کے حقوق کا دفاع
ایک خصوصیت، زیادہ سے زیادہ توجه حضرت امام مہدی علیہِ السلام سے علاقہ و محبت ہے اور یہ توجہ اور خصوصیت مکتب سامرا کے تربیت یافتہ لوگوں کی اکثریت میں پائی جاتی ہے۔
البتہ بعض صاحبان نظر، اس طرز عمل کے اصلی عامل کو فرقہ بابیت کے ظہور میں آنے اور ان (بابیوں) کی نصوص مہدوی کی ناروا اور غلط توجیہات کو جانتے ہیں اور ان کے مطابق مکتب سامره نے اس وقت کے علما کا نصوص مہدوی کے دفاع اور ان کے صحیح بیان کرنے پر آمادہ کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس عامل کو خارجی سبب و علت قرار دینا چاہیے داخلی عوامل پر، اس معنی میں حتی کہ اگر عامل خارجی منفی اس زمانے میں واقع نہیں ہوئے تھے، داخلی عوامل؛ اس حد تک قوت پیدا کر چکے تھے کہ اس مکتب کے تربیت یافتگان کو مہدویت کے دفاع جانانہ کے لیے دینی تربیت کے محوری عنصر کے عنوان سے آمادہ کیا۔ یہ اجمالی جائزہ ہے اس کی تفصیل کسی اور موقعہ پر انشاء اللہ۔
محدث محقق، عقیدوں کی حدوں کی حفاظت کرنے والے، داخلی اور خارجی کی بدعتوں کو اجاگر کرنے والے، میرزا حسین نوری ۱۸ شوال ۱۲۵۴ ھ میں شہر نورمازندران کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات “یالو” میں پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں آپ کے والد میرزا محمد تقی نوری کا انتقال ہوگیا۔ بالغ ہونے کے بعد مولی محمد علی محلاتی کے زیر نگرانی آئی اور انہوں نے محدث نوری کو عالم میں فقیہ زاہد ورع نبیل بنایا۔ اس کے بعد بارہا عراق گئے اور آئے، منجملہ ۱۲۷۳ ھ میں شیخ عبد الرحیم بروجردی کے ساتھ چار سال نجف میں رہے، پھر ۱۲۷۸ ھ میں سفر کیا تو عالم نحیر، فقیہ جامع شیخ عبد الحسین تہرانی کے پاس پہونچے اور ان کے ہمراہ کربلا چلے گئے اور دو سال کاظمین میں تھے۔ ۱۲۸۰ھ میں شیخ مرتضیٰ انصاری کی زندگی کے آخری چھ مہینوں میں ان سے استفادہ کیا۔ پھر ۱۲۸۶ھ میں نجف لوٹ آئے اور اس مرتبہ آپ میرزا محمد حسن شیرازی کے محضر میں پہونچے یہاں تک کہ ۱۳۱۲ھ یعنی میرزای شیرازی کی وفات تک نجف و سامرا میں ان کے ساتھ رہے اور آپ کا شمار معتمدین خاص میں ہوتا تھا۔ ۱۳۱۴ھ میں سامرا سے نجف لوٹے اور ۱۳۲۰ھ میں ۶۶ سال کی عمر میں وفات پائی۔
اس مضمون میں ہمارا موضوع آپ کی کتاب کشف الاستار کا تعارف ہے۔ اس لیے یہیں بات کو روکتے ہوئے اصل موضوع پر آتے ہیں۔ آپ کی جد و جہد اور آثار کے لیے رجوع کروالمنتظر، خصوصی شمارہ شعبان المعظم ۱۴۱۶ھ، صفحہ ۲۲، ۲۳,۲۴ اور ۲۱
ربیع الثانی ۱۳۱۷ھ اس میں محمود شکری آلوسی کالکھا ہوا ایک قصیده نجف اشرف میں پہونچا جو قصيدة بغدادیہ کے نام سے مشہور ہوا۔
قصیدہ کا مطلع اس طرح تھا:
اَیَا عُلَمَاءُ الْعَصْرِ یضا مَنْ لَہُمْ خَیْرٌ بكل دقيق حار في مثله الفكر
اے علما عصر جن کے بارے میں یہ خبر ہے کہ ان کی فکر دقیق سائل میں ہمیشہ حیران و پریشان ہے۔
آلوسی نے اس قصیدہ میں ۲۵ اشعار میں امام عصر علیہِ السلام کے وجود، طول عمر، غیبت اور آپ کی بعض خصوصیات پر شبہ پیدا کیا ہے۔ جب یہ قصیدہ نجف پہونچا اس وقت محدث نوری قدس سرہ شدت کے ساتھ خاتمتہ المستدرک لکھنے میں مشغول تھے۔ آپ نے اس دور میں دوسری بہت سی تالیفات کی درخواست کو خاتمه مستدرک پر موکول کر رکھا تھا جیسا کہ “لولو و مرجان” کے مقدمہ میں اشارہ کیا ہے کہ سید مرتضیٰ جونپوری نے ہندوستان سے مجھے بارہا لکھا کہ اہل منبر اور ان کی آسانیوں کے لیے احادیث اور مقتل لکھوں، لیکن “مستدرک” میں مشغول ہونے کی وجہ سے انہیں جواب دینے میں تاخیر کی۔ خلاصۃ یہ کہ ۱۳۱۸ھ میں خاتمہ مستدرک کی تکمیل کے بعد ۱۳۱۹ ھ میں “لولو و مرجان” مکمل ہوئی۔
آپ کی مصروفیت کے اس دور میں آلوسی کا قصیدہ درمیان میں آگیا جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خاتمہ مستدرک کے لیے آپ تمام کاموں کو موخر کرتے رہے لیکن یہاں قصہ کچھ اور ہی تھا: بات تھی دین کے رکن رکین عقیدہ کی، اور وہ بھی اشعار کی شکل میں اور مخصوصاً عربوں کے درمیان اثر کرنے والے کلام کی۔ اسی وجہ سے محدث نوری نے کمر ہمت کسی اور بہت ہی مختصر مدت یعنی دو مہینہ میں آلوسی کے ناروا اشکال و شبہات کا جواب لکھ ڈالا۔ اس کتاب “کشف الاستار عن وجه الغائب عن الابصار” کو ۹/ جمادی الثانی ۱۳۱۷ھ کو مکمل کیا۔ یعنی خاتمہ مستدرک کو پیچھے چھوڑ دیا اور اس کو مقدم کر دیا۔ کتاب کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے محدث نوری نے خود اس کی اشاعت کا اہتمام کیا اور ۱۷ جمادی الاول ۱۳۱۸ھ میں تہران کے “مطبعہ حاج احمد موید العلماء” کے ذریعہ کتاب چھپ گئی۔
یہ کتاب ایک مقدمہ اور دو فصلوں پر اور خاتمتہ الکتاب و ملحقات کتاب پر مشتمل ہے۔ مقدمہ میں تالیف کا سبب اور متن میں قصيدہ بغدادیہ آیا ہے۔ فصل اول (صفحہ ۳۷ تا ۱۵۴) محدث نوری نے امام مہدی علیہِ السلام کی ولادت کے بارے میں مسلمانوں کے نظریات کو بیان کی ہے۔ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ حضرت مهدی علیہِ السلام عالمی نجات دهندہ ہیں اور اس سلسلہ میں روایات تواتر
سے وجود رکھتی ہیں، لیکن دو معاملات میں علمائے امامیہ کا بعض علمائے اہل سنت سے اختلاف ہے:
پہلا اختلاف یہ کہ مہدی حسنی ہیں یا حسینی؟ دوسرا اختلاف یہ کہ وہ پیدا ہو چکے ہیں یا نہیں؟
اس فصل کی ابتداء میں امام مہدی علیہِ السلام (ہمنام پیغمبر اور فرزند امام حسن عسکری علیہ السّلام میں اور ۲۵۵ھ میں پیدا ہوئے) کی طرف اشارہ کیا ہے اور چالیس علماء اہل سنت کا تذکرہ کیا ہے کہ جنھوں نے امام مہدی علیہ السّلام کی ولادت کی گواہی دی ہے اور اعتراف کیا ہے۔ ان علماء کی عظمت علمی کا ذکر سنّی رجالی کتابوں کے حوالہ سے کیا ہے بعض کا تزکرہ براہِ راست مربوط منابع سے نقل کیا ہے اور بعض کا تذکر مرحوم میر حسین ہندی (عبقاتی)کی کتاب “استقصاء الفحام” کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ اس فصل میں بعض مطالب فارسی زبان میں ہیں۔ فصل اول میں اجمالی دلیل کے ذکر کے ساتھ کہ مهدی موعود وہی حجت بن الحسن العسکری علیہم السّلام ہیں اور ان کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے اور اس سلسلہ میں جو بحثیں آئی ہیں منجملہ یہ ہیں:
کچھ حدیثیں بارہ اماموں پر دلالت کرتی ہیں، کبھی یہ کلی طور پر “اثنا عشر خلیفہ” کے عنوان سے اور کبھی ائمہ کے ناموں اور ان کی خصوصیات کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ ملاحظہ ہو:
وَ اَخْرَجَ مُسْلِمٌ فِیْ صَحِیْحِہٖ مِنْ حَصِیْنٍ عَنْ جَابِرٍ بْنِ سَمْرَۃٍ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ اَبِی عَلَی النَّبِّیِ فَسَمِعْتَہٗ یَقُوْلُ: اَنَّ ہٰذَا الْاَمْرُ لَا یَنْقَضِیْ حَتّٰی یَمْضِیْ فِیْہِمْ اِثْنَا عَشَرَ خَلِیْفَۃً۔ قَالَ ثُمَّ تَکَلَّمَ بِکَلَامٍ خَفِیَ عَلَیَّ قَالَ: قُلْتُ لِاَبِیْ مَا قَالَ؟ قَالَ کُلَّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ۔
مسلم نے اپنی کتاب (صحیح) میں حصین سے اور اس نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے کہ میں اپنے والد کے ہمراہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا: یقینا یہ امر (اسلام) ختم نہ ہو گا یہاں تک کہ بارہ خلیفہ نہ ہو جائیں۔ جابر بن سمره نے کہا : پھر پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے کچھ آہستہ سے کہا تو میں نے اپنے والد سے دریافت کیا کہ کیا کہا؟ میرے والد نے بتایا (کہ پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے فرمایا): وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔
(کشف الاستار، ص ۱۰۸)
وَ اَخْرَجَ الْبُخَارِیُّ: یَکُوْنُ بَعْدِیْ اِثْنَا عَشَرَ اَمِیْرٌ۔ وَ قَالَ کُلُّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ۔
بخاری نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے اپنے جانشینوں کے بارے میں فرمایا: میرے بعد بارہ امیر ہوں گے اور یہ بھی فرمایا کہ وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ (کشف الاستار، ص ۱۰۹)
اسی طرح شارح (غاية الاحکام) نے اپنی اسناد سے نقل کیا کہ ابی قتادہ نے کہا کہ میں نے سنا رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
اَلْاَئِمَّۃُ بَعْدِیْ اِثْنَا عَشَرَ عَدَدُ نُقْبَاءِ بَنِیْ اِسْرَافِیْلَ وَ حَوَارِیْ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے فرمایا: میرے بعد نقباء بنی اسرائیل اور عیسیٰ علیہ السّلام کے حواری کی تعداد میں بارہ امام ہوں گے۔
اور (امام) حسین بن علی ابن ابی طالب علیہ السّلام نے فرمایا کہ :
ہم میں سے بارہ مہدی ہیں۔ ان میں کے اول علی بن ابی طالب علیہ السّلام اور آخری القائم- اس کے علاوہ صحاح اور مسانید و سنن میں نقل ہوا ہے۔ (کشف الاستار، ص ۱۰۹)
تذکر
محدث نوری نے دلیلیں قائم کی ہیں کہ پیغمبر کے بعد بارہ خلیفہ پر وارد ہونے والی حدیثیں صحیح ہیں اور ان پر سبھی کا اجماع ہے۔ اور علماء امامیہ نے جو کچھ نقل کیا ہے، ان تمام لوگوں پر ظاہر ہے جو اپنے ساتھ انصاف کرتے ہیں کہ یہ احادیث نبوی سوائے مذہب امامیہ کے کسی اور مذھب پر منطبق نہیں ہوتیں۔
قابل توجه
اس حدیث کو تمام سنّی علماء نے میں جانا ہے۔ اس کے معنی پر بھی پورا اتفاق ہے لیکن اس کے “مصداق” میں اختلاف ہے ۔ بارہ خلیفہ کی فہرست سنی علماء نے الگ الگ بنائی ہے مثلا ان کے مطابق خلفاء راشدہ اور بنی امیہ کے حکمراں یا بنی عباس کے حکمراں لیکن جو بھی فہرست بنی وہ شرائط پر پوری نہ اتری مثلاََ سب کے سب قریش سے ہوں یا دین کو ان کے وجود سے عزت و طاقت ملی ہو۔ یا مثلاً خلیفہ رسول خصال حمیدہ کا حامل ہو اور خصال قبیحہ سے پاک و پاکیزہ ہو، ہدایت یافتہ ہو، دین حق پر ہو وغیره –
محدث نوری قُدس سرّہ نے بڑی حُسن خوبی کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ اور بھی صحیح روایتوں کی روشنی میں بارہ خلیفہ یا بارہ جانشین پیغمبر صرف اہلِ بیت پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم ہیں، جن سے تمسک کے لیے پیغمبر صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے تاکید فرمائی۔ مولف مرحوم نے سنّی حوالوں سے حدیث ثقلین کو نقل کیا ہے مثلا ابی سعید الخدری نے نقل کیا ہے کہ:
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ، یَقُوْلُ: اِنِّیْ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ خَلِیْفَتَیْنِ اِنْ اَخَذْتُمْ بِہِمَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِیْ، اَحَدُہُمَا اَکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ کِتَابَ اللہِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ (اَوْ قَالَ مِنَ الْاَرْضِ) وَ عِتْرَتِیْ اَہْلِ بَیْتِیْ اَلَا وَ اِنَّہُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوضَ۔
ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا: یقیناً میں نے دو قیمتی خلیفہ تمہارے درمیان میں چھوڑ اگر انہیں لے لو تو ہرگز میرے بعد گمراہ نہ ہو گے، ان میں سے ایک اکبر ہے دوسرے سے، وہ کتاب خدا ایک طولانی رسی آسمان سے زمین تک (یا فرمایا زمین سے آسمان تک)۔ اور میری عترت اہلِ بیت۔ آگاہ ہو جاؤ کہ یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک دونوں ہی میرے پاس حوض (کوثر) پر پلٹیں گے۔
تذکر
یہ حدیث متعدد موقعوں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے بیان فرمائی ہے۔ حجة الوداع کے موقعہ پر مقام عرفات میں، غدیر خم کے مقام پر، مدینہ میں زندگی کے آخری لمحات میں جب پورا حجرہ صحابیوں سے بھرا ہوا تھا، طائف سے لوٹنے کے بعد خطبہ میں اور اس کے علاوہ موقعوں پر بھی اسکی تکرار کی ہے۔ خلاصہ یہ کہ محدث نوری نے سنیوں کے مصادیق کو بارہ اماموں کے سلسلہ میں نہ صرف رد کیا ہے بلکہ یہ ثابت کیا ہے کہ اہل بیت اطہار علیہم السّلام ہی جانشین پیغمبر ہیں اور اس لحاظ سے آج امام مهدی علیہِ السلام زندہ و موجود ہیں۔
(بقیہ آئندہ انشاء اللہ)
پرچم حضرت امام مہدی علیہ السّلام
پر چم قوم و ملت کا دو عظیم الشان، بلند مرتبہ نشان ہے جو بے جان ہو کر بھی اتنا با وقار، باعزت، با توقیر، با حرمت ہے کہ ہر فرد جو اس قوم وملت سے تعلق رکھتا ہے اس کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے۔
جب وہ کھلتا ہے یا نصب ہوتا ہے اس کی عظمت کے سامنے قومی ترانے ساز ومضراب کے ساتھ فضا میں گونجنے لگتے ہیں۔ لشکری دستے جب اس کے سامنے سے گزرتے ہیں اسے سلامی دیئے بغیر اگر گذر جائیں تو اس کی شان و شوکت اور رعب و جلال کی بے ادبی شمار ہوتی ہے۔ بہادری اور شجاعت کے تقاضے یہی نشان کے سایہ تلے پروان چڑھتے ہیں۔ یہ ایک بے جان نشان ہے لیکن ملت اور قوم کا ہر بچّہ، جوان بزرگ اس پر اپنی جان چھڑکتے ہیں۔
ابتدائے آفرینش سے زمین فتنہ و فساد کی آماجگاہ رہی ہے۔ قدیم زمانہ سے وہ نشانات جو انسانی تہذیب کی تاریخ لکھنے میں معاون ہوتے ہیں یا وہ علامات جو تہذیب کی پیش رفیتی پر روشنی ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ ملتا ہے کہ یہ دنیا ملکوں میں بٹ گئی اور ہر جگہ اقوام و ملل نے اپنا ایک دستور قائم کیا جس کی پہچان کے لئے جتنی بھی قومیں وجود میں آئیں اپنا ایک پر چم تیار کرلیا۔ یہی پرچم تلے قوم نے یک جہتی کا پیغام اور اپنے وقار کا نشان قائم کیا۔ ہم سب پرچم کا نام سن کر اس کی ساخت کے لحاظ سے اس کے سائے میں اس قوم کی تہزیبی پیش رفت جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں۔
اب ہم اقوام و ملل کے بے شمار پرچموں کو بر طرف کرتے ہوئے قارئین کو اسلامی پرچم کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔
قبل از ایں ہم اس کا ایک تاریخی جائزہ لیں۔ ہم اس بات کی ضرورت سمجھتے ہیں کہ پرچم کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کریں اور اس کے ماضی پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈال لیں تا کہ ہم اسلامی پرچم کی اہمیت اور اس کی عظمت کو محسوس کرسکیں۔
عربی زبان میں پرچم کے لئے راية لواء اور علم وغیرہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ صاحب مجمع البحرین نے راية اور لواء کے معنی اس طرح بیان کئے ہیں۔
’’اَلرَّایَۃُ‘‘ اَلْعَلَمُ الْکَبِیْرُ وَاللِّوَاءُ دُوْنَ ذَالِکَ، وَالرَّایَۃُ ہِیَ الَّتِیْ یَتَوَلَّاہَا صَاحِبُ الْحَرْبِ وَ یُقَاتِلُ عَلَیْہَا وَ اِلَیْہَا تَمِیْلُ الْمَقَاتِلَۃ۔ُ (مجمع البحرین، ج ۱, ص ۱۹۹)
“رایتہ سے مراد بڑا علم ہے اور لواء اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ رایتہ جنگ لڑنے والے کے پاس ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر جنگ کی جاتی ہے اور اسی کی جانب جنگ کی بازگشت ہوتی ہے۔”
تاریخ انسانیت میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے پرچم بنایا۔ چنانچه حضرت امام صادق علیہ السّلام سے مروی ہے
اَوَّلُ مَنِ اتَّخَذَ الرَّایَاتِ اِبْرَاہِیْمُ (تہذیب الاحکام، ج ۱, ص ۱۷۰)
“سب سے پہلے جس نے پرچم بنائے وہ جناب ابراہیم علیہ السّلام ہیں۔“
انسانی تاریخ میں جنگیں دو قسم کی ہوئی ہیں یا حق کی باطل کے ساتھ یا باطل کی باطل کے ساتھ۔ کبھی دو حق پرست گروہوں میں جنگ نہیں ہوتی۔ اشتباہ کی بناپر تنازع تو ہوسکتا ہے لیکن جنگ نہیں ہوتی۔ لیکن فطرت انسانی جنگ و جدال لڑائی جھگڑا اور خلفشار و انتشار کو ناپسند کرتی ہے اور اسی بنیاد پر فتنہ و فساد کے قلع قمع کرنے کے لئے وقتی طور پر شدت پسندی سے بھی گریز نہیں کرتی۔
بہر حال لوگوں نے گروہ بندی کی تشخیص کے لئے اپنے اپنے پرچم بنائے اور ہر پرچم اپنے حامل کے نظریات کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام پرچموں کی تفصیل سے دامن کش ہوتے ہوئے ہم اصل متن پرچم کے بارے میں تبصرہ کریں گے۔
ان پرچموں میں حق کا پرچم صرف حجت خدا کے ہمراہ ہوتا ہے جو اپنے علاوہ بقیہ پرچموں کے باطل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت امیر المومنین علیہ السّلام کا ارشاد گرامی ہے:
مَعَنَا رَایَۃُالْحَقِّ وَالْہُدیٰ مَنْ سَبَقَہَا مَرَقَ وَ مَنْ خَذَلَہَا مُحِقَ وَ مَنْ لَزِمَہَا لَحِقَ۔
( بحار الانوار، ج ۳۴, ص ۲۶۲)
“حق اور ہدایت کا پرچم ہمارے ساتھ ہے۔ جو اس سے آگے بڑھا وہ گمراہ ہوا، جس نے اسے چھوڑ دیا ده مٹ گیا اور جو اس سے متمسک رہا وہ ہدایت یافتہ ہوا۔”
یہ حق کا پرچم حجت خدا کے علاوہ کسی اور کو زیب نہیں دیتا۔ اگر کوئی غیر اس پرچم کو اٹھا بھی لے تویہ پرچم اس کی نا اہلِی اور اس کی ذلت کا مظہر بن جاتا ہے ۔ اور پھر خدا کے رسول صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کا یہ قال فیصل فضا میں گونجتا ہے
لَاَدْفَعَنَّ الرَّایَۃَ غَدًا اِلٰی رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ یُحِبُّ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَیْسَ بِجَبَانٍ وَ لَا فَرَّارٍ یَفْتَحُہَا اللہُ عَلیٰ یَدَیْہِ۔ ( کتاب سلیم، ج ۲, ص ۶۴۱)
“کل میں علم اس مرد کو دوں گا جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ (بھی) اللّٰہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، نہ وہ بزدل و ڈر پوک ہے اور نہ میدان جنگ سے فرار اختیار کرنے والا، الله اس کے ہاتھوں فتح عنایت کرے گا۔”
یہ علمداری دنیا و آخرت میں صرف اہل بیت علیہم السّلام سے مخصوص ہے۔ اور یہی تو اعلان رسالت مآب ہے:
(یَا عَلِیُّ) اَنْتَ صَاحِبُ رَایَتِیْ وَلِوَائِیْ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔ (امالی طوسی، ص ۵۵۰)
”(اے علی) آپ دنیا اور آخرت میں میرا پرچم و علم اٹھانے والے ہیں۔”
یہ پرچم ہمیشہ حضرت علی علیہ السّلام کے پاس رہا۔ ان کے بعد یہ پرچم امام حسن اور امام حسین کے پاس آیا۔ امام حسین علیہ السّلام نے کربلا میں اس پرچم کو قمر بنی ہاشم، وفا کی تاریخ ساز آفاقی و افلاکی حیثیت کے حامل حضرت ابوالفضل عباس علیہِ السلام کے حوالے کیا۔ حتی کے کربلا میں امام حسین علیہ السّلام نے اپنی مختصر سی فوج ترتیب دی اور اس علم کی وہ وراثت جو رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے حضرت علی علیہ السّلام کو بخشی تھی، آپ علیہ السّلام نے جناب ابو الفضل العباس علیہِ السلام کو عطا فرمائی۔ راقم الحروف کے بس میں تو کیا، بڑے بڑے صاحبان علم اس پرچم کے وقار و عظمت کا بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک جملہ کافی ہے اس کی آفاقی اور فضیلت کے لئے اور وہ یہ ہے کہ جب حضرت عباس علمبردار کے دونوں باتھ شہید ہو چکے آپ نے مشک سکینہ کو اپنے سینے سے دبایا اور اس علم کی بلندی کو قائم رکھا۔ جب آپ کا وقت شہادت قریب آیا تو آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جسد کو خیمہ گاہ تک نہ لے جائے گا۔ اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے اما حسین علیہ السّلام جیسی عرش نشین شخصیت نے حضرت عباس علیہِ السلام باوفا کے جسد مبارک کو میدان جنگ میں چھوڑ دیا اور پرچم کو خیمه گاه تک لے آئے۔
اگر پرچم بے جان نہ ہوتا اور ہم میں سے کوئی پوچھتا اے پرچم تیری فضیلتیں کیا کیا ہیں اور پرچم اپنی شان کے مدارج اور مراتب کی وضاحت کرتا ہوا کہتا، میں وہ ہوں جو اب اس کے بعد امام سجاد علیہ السّلام سے ہوتا ہوا امام عسکری علیہ السّلام تک تمام مصائب و آلام سے ٹکراتا ہوا دین کی حفاظت کرتا ہوا تعلیمات رسالت کا اعلان کرتا ہوا سامرہ میں اس کے ہاتھ میں جانے کا شرف حاصل کروں گا جو مجھے ساری دنیا پر لہرائے گا۔ جس کی پیشنگوئی محبوب خدا مرسل اعظم محمد مصطفی صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے فرمائی۔ میرے بعد میرے بارہ خلیفہ ہوں گے اور آخری وہ ہوگا جو مہدی موعود ہو گا قائم علیہِ السلام ہوگا اور وہی اس تمام دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح یہ دنیا ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ یہ ہمارے امام زمانہ علیہ السّلام ہیں جن کے ہاتھ میں یہ پرچم ہوگا۔
امام مہدی علیہِ السلام کے پرچم کی خصوصیت
حضرت امام صادق علیہ السّلام سے منقول ہے:
“…وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کا پرچم جسے جناب جبرائیل علیہ السّلام بدر میں لائے…. اللّٰہ کی قسم یہ (پرچم) نہ کپاس کا ہے نہ کتان کا نہ ریشم کا ہے نہ حریر کا… یہ (پرچم) جنت کے پتیوں کا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے بدر کے دن نشر کیا۔ پھر اسے لپیٹ کر حضرت علی علیہ السّلام کے پرو کیا۔ پس یہ (پرچم) ہمیشہ حضرت علی علیہ السّلام کے پاس تھا یہاں تک کہ جنگ جمل میں آپ علیہ السّلام نے اسے لہرایا اور اللہ نے آپ علیہ السّلام کو فتحیاب فرمایا۔ پھر اسے لپیٹ کر رکھ دیا اور اب وہ ہمارے پاس ہے۔ اب کوئی اسے نہیں لہرائے گا یہاں تک کہ (امام) قائم علیہِ السلام قیام فرمائیں۔ پس جب وہ قیام فرمائیں گے تو اسے نشر کریں گے۔ پھر جب وہ اسے لہرائیں گے تو مشرق و مغرب میں کوئی ایسا باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ اس سے آملے گا۔ اس کا رعب ایک مہینہ کی مسافت تک اس سے آگے، اس سے پیچھے، اس کے دائیں جانب، اس کے بائیں جانب چلے گا….“ (بحارالانوار، ج ۵۲, ص ۳۶۰)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ
“….جب وہ (امام زمانہ علیہِ السلام) کسی کے خلاف اس (پرچم) کو لے جائیں گے تو الله اس شخص کو ذلیل کرے گا اور جب اس (پرچم) کو لہرائیں گے تو (اس کی برکت سے) مومنین کے قلوب فولاد کی طرح مضبوط ہو جائیں گے۔”
(کامل الزیارات, ص ۱۲۰، ح ۵)
محمد ابن مسلم کہتے ہیں کہ میں امام محمد باقر علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں ان سے قائم آل محمد علیہم السّلام کے بارے میں سوال کرنا چاہتا تھا۔ امام علیہ السّلام نے گفتگو شروع کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا:
“اے محمد ابن مسلم ! یقیناً قائم آل محمد علیہ السّلام میں پانچ رسولوں کی شباہت موجود ہے…. ہمارے جد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم سے ان کی شباھت یہ ہے کہ وہ تلوار کے ساتھ خروج فرمائیں گے۔ اللہ اور رسول کے شمنوں کا قتل کریں گے۔ ظالم و جابر اور سرکش لوگوں کو قتل کریں گے۔ اور تلوار و رعب کے ذریعہ ان کی نصرت و مدد کی جائے گی۔ اور ان کا پرچم کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔” (کمال الدین، ج ۱, ص ۳۲۷، ح ۷)
پرچم امام مہدی علیہِ السلام کی تحریر
روایت میں ملتا ہے کہ امام مہدی علیہِ السلام کے پرچم پر تحریر ہوگا کہ
اَلْبَیْعَۃُ لِلّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ
“بیعت اللّٰہ عز وجل کے لئے ہے۔ (کمال الدین، ج ۲, ص ۶۵۴, ح ۲۲)
علّامہ مجلسی نے بحار الانوار میں کتاب فضل ابن شاذان سے روایت نقل کی ہے کہ امام مہدی علیہ السّلام کی پرچم پر تحریر ہوگا
اِسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا
سنو اور اطاعت کرو۔ (بحارالانوار، ج ۵۲, ص ۳۰۵, ح ۷۷)
پرچم امام مہدی علیہ السّلام اور طاغوتی جھنڈے
فطرت انسانی کی برائی سے نفرت کے تحت ہر زمانے میں اصلاحی تحریکیں رونما ہوئیں اور ظالم و جابر افراد کے خلاف صف آرائی کی گئی مگر اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حجت خدا کا دامن چھوڑ کر اسلاحی تحریکیں چلانے والے اور ظلم و جبر کے خلاف نعرہ بلند کرنے والے اقتدار ملنے پر خود اسی روش پر چل پڑے جس کے خلاف انہوں نے تحریک چلائی تھی۔ چنانچہ بنی امیہ کے خلاف بنی عباس کی تحریک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جب منصور دوانقی حکومت حاصل ہو جانے کے بعد دسترخوان پر بیٹھا تو کہنے لگا کہ اسی کی خاطر ہم نے جنگ لڑی، کل تک اس دسترخوان پر بنی امیہ تھے اور آج ہم ہیں۔ یہ خون حسین کے نام پر رونما ہونے والی تحریکوں کی انتہا تھی کہ جس کی ابتدا عبد الله ابن زبیر کے یزید کے خلاف اعلان جنگ سے ہوئی تھی۔
حضرت امام صادق علیہ السّلام نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے:
کُلُّ رَایَۃٍ تُرْفَعْ قَبْلَ قِیَامِ الْقَائِمِ فَصَاحِبْہَا طَاغُوْتٌ یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ۔
(الکافی، ج ۸, ص ۲۹۵، ح ۴۵۲)
“ہر پرچم جو (امام) قائم علیہِ السلام کے قیام سے پہلے بلند کیا جائے گا، اس کا اٹھانے والا طاغوت ہوگا۔ اللہ عزوجل کے علاوہ اس (شخص) کی عبادت کی جائے گی۔”
اور آخر میں اس پرچم کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں کہ جو انتظار مهدی علیہِ السلام میں چودہ صدیوں سے قائم ہے اور منتظرین کی حرارت انتظار کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ وہ سرخ پرچم ہے جو غریب زہراء سلام اللہ علیہا کے گنبد پر بے قرار ہے۔ چنانچہ عرب کے دستور کے تحت جب کسی مقتول کے خون کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی قبر پر ایک سرخ پرچم نصب کر دیا جاتا تھا۔ سید مظلوم نے شب عاشور اپنے اصحاب باوفا سے حضرت امام مہدی علیہِ السلام کا تذکرہ فرمایا تھا۔ وہ امام مہدی علیہِ السلام ہیں جو خون امام حسین علیہ السّلام کا انتقام لینے والے ہیں اور قبر حسینی کا یہ پرچم پکار رہا ہے “العجل العجل.”
ہم خداوند عالم کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ یہ سرخ پرچم حضرت ولی عصر علیہِ السلام کے پرچم کے ساتھ ساتھ لہرائے۔ خدا حضرت ولی علیہِ السلام کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ہمیں حضرت علیہِ السلام کے اعوان و انصار میں شمار فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔