پرچم حضرت امام مہدی علیہ السّلام

پر چم قوم و ملت کا دو عظیم الشان، بلند مرتبہ نشان ہے جو بے جان ہو کر بھی اتنا با وقار، باعزت، با توقیر، با حرمت ہے کہ ہر فرد جو اس قوم وملت سے تعلق رکھتا ہے اس کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے۔
جب وہ کھلتا ہے یا نصب ہوتا ہے اس کی عظمت کے سامنے قومی ترانے ساز ومضراب کے ساتھ فضا میں گونجنے لگتے ہیں۔ لشکری دستے جب اس کے سامنے سے گزرتے ہیں اسے سلامی دیئے بغیر اگر گذر جائیں تو اس کی شان و شوکت اور رعب و جلال کی بے ادبی شمار ہوتی ہے۔ بہادری اور شجاعت کے تقاضے یہی نشان کے سایہ تلے پروان چڑھتے ہیں۔ یہ ایک بے جان نشان ہے لیکن ملت اور قوم کا ہر بچّہ، جوان بزرگ اس پر اپنی جان چھڑکتے ہیں۔
ابتدائے آفرینش سے زمین فتنہ و فساد کی آماجگاہ رہی ہے۔ قدیم زمانہ سے وہ نشانات جو انسانی تہذیب کی تاریخ لکھنے میں معاون ہوتے ہیں یا وہ علامات جو تہذیب کی پیش رفیتی پر روشنی ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ ملتا ہے کہ یہ دنیا ملکوں میں بٹ گئی اور ہر جگہ اقوام و ملل نے اپنا ایک دستور قائم کیا جس کی پہچان کے لئے جتنی بھی قومیں وجود میں آئیں اپنا ایک پر چم تیار کرلیا۔ یہی پرچم تلے قوم نے یک جہتی کا پیغام اور اپنے وقار کا نشان قائم کیا۔ ہم سب پرچم کا نام سن کر اس کی ساخت کے لحاظ سے اس کے سائے میں اس قوم کی تہزیبی پیش رفت جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں۔
اب ہم اقوام و ملل کے بے شمار پرچموں کو بر طرف کرتے ہوئے قارئین کو اسلامی پرچم کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔
قبل از ایں ہم اس کا ایک تاریخی جائزہ لیں۔ ہم اس بات کی ضرورت سمجھتے ہیں کہ پرچم کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کریں اور اس کے ماضی پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈال لیں تا کہ ہم اسلامی پرچم کی اہمیت اور اس کی عظمت کو محسوس کرسکیں۔
عربی زبان میں پرچم کے لئے راية لواء اور علم وغیرہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ صاحب مجمع البحرین نے راية اور لواء کے معنی اس طرح بیان کئے ہیں۔
’’اَلرَّایَۃُ‘‘ اَلْعَلَمُ الْکَبِیْرُ وَاللِّوَاءُ دُوْنَ ذَالِکَ، وَالرَّایَۃُ ہِیَ الَّتِیْ یَتَوَلَّاہَا صَاحِبُ الْحَرْبِ وَ یُقَاتِلُ عَلَیْہَا وَ اِلَیْہَا تَمِیْلُ الْمَقَاتِلَۃ۔ُ (مجمع البحرین، ج ۱, ص ۱۹۹)
“رایتہ سے مراد بڑا علم ہے اور لواء اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ رایتہ جنگ لڑنے والے کے پاس ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر جنگ کی جاتی ہے اور اسی کی جانب جنگ کی بازگشت ہوتی ہے۔”
تاریخ انسانیت میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے پرچم بنایا۔ چنانچه حضرت امام صادق علیہ السّلام سے مروی ہے
اَوَّلُ مَنِ اتَّخَذَ الرَّایَاتِ اِبْرَاہِیْمُ (تہذیب الاحکام، ج ۱, ص ۱۷۰)
“سب سے پہلے جس نے پرچم بنائے وہ جناب ابراہیم علیہ السّلام ہیں۔“
انسانی تاریخ میں جنگیں دو قسم کی ہوئی ہیں یا حق کی باطل کے ساتھ یا باطل کی باطل کے ساتھ۔ کبھی دو حق پرست گروہوں میں جنگ نہیں ہوتی۔ اشتباہ کی بناپر تنازع تو ہوسکتا ہے لیکن جنگ نہیں ہوتی۔ لیکن فطرت انسانی جنگ و جدال لڑائی جھگڑا اور خلفشار و انتشار کو ناپسند کرتی ہے اور اسی بنیاد پر فتنہ و فساد کے قلع قمع کرنے کے لئے وقتی طور پر شدت پسندی سے بھی گریز نہیں کرتی۔
بہر حال لوگوں نے گروہ بندی کی تشخیص کے لئے اپنے اپنے پرچم بنائے اور ہر پرچم اپنے حامل کے نظریات کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام پرچموں کی تفصیل سے دامن کش ہوتے ہوئے ہم اصل متن پرچم کے بارے میں تبصرہ کریں گے۔
ان پرچموں میں حق کا پرچم صرف حجت خدا کے ہمراہ ہوتا ہے جو اپنے علاوہ بقیہ پرچموں کے باطل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت امیر المومنین علیہ السّلام کا ارشاد گرامی ہے:
مَعَنَا رَایَۃُالْحَقِّ وَالْہُدیٰ مَنْ سَبَقَہَا مَرَقَ وَ مَنْ خَذَلَہَا مُحِقَ وَ مَنْ لَزِمَہَا لَحِقَ۔
( بحار الانوار، ج ۳۴, ص ۲۶۲)
“حق اور ہدایت کا پرچم ہمارے ساتھ ہے۔ جو اس سے آگے بڑھا وہ گمراہ ہوا، جس نے اسے چھوڑ دیا ده مٹ گیا اور جو اس سے متمسک رہا وہ ہدایت یافتہ ہوا۔”
یہ حق کا پرچم حجت خدا کے علاوہ کسی اور کو زیب نہیں دیتا۔ اگر کوئی غیر اس پرچم کو اٹھا بھی لے تویہ پرچم اس کی نا اہلِی اور اس کی ذلت کا مظہر بن جاتا ہے ۔ اور پھر خدا کے رسول صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کا یہ قال فیصل فضا میں گونجتا ہے
لَاَدْفَعَنَّ الرَّایَۃَ غَدًا اِلٰی رَجُلٍ یُحِبُّہُ اللہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ یُحِبُّ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَیْسَ بِجَبَانٍ وَ لَا فَرَّارٍ یَفْتَحُہَا اللہُ عَلیٰ یَدَیْہِ۔ ( کتاب سلیم، ج ۲, ص ۶۴۱)
“کل میں علم اس مرد کو دوں گا جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ (بھی) اللّٰہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، نہ وہ بزدل و ڈر پوک ہے اور نہ میدان جنگ سے فرار اختیار کرنے والا، الله اس کے ہاتھوں فتح عنایت کرے گا۔”
یہ علمداری دنیا و آخرت میں صرف اہل بیت علیہم السّلام سے مخصوص ہے۔ اور یہی تو اعلان رسالت مآب ہے:
(یَا عَلِیُّ) اَنْتَ صَاحِبُ رَایَتِیْ وَلِوَائِیْ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔ (امالی طوسی، ص ۵۵۰)
”(اے علی) آپ دنیا اور آخرت میں میرا پرچم و علم اٹھانے والے ہیں۔”
یہ پرچم ہمیشہ حضرت علی علیہ السّلام کے پاس رہا۔ ان کے بعد یہ پرچم امام حسن اور امام حسین کے پاس آیا۔ امام حسین علیہ السّلام نے کربلا میں اس پرچم کو قمر بنی ہاشم، وفا کی تاریخ ساز آفاقی و افلاکی حیثیت کے حامل حضرت ابوالفضل عباس علیہِ السلام کے حوالے کیا۔ حتی کے کربلا میں امام حسین علیہ السّلام نے اپنی مختصر سی فوج ترتیب دی اور اس علم کی وہ وراثت جو رسول خدا صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے حضرت علی علیہ السّلام کو بخشی تھی، آپ علیہ السّلام نے جناب ابو الفضل العباس علیہِ السلام کو عطا فرمائی۔ راقم الحروف کے بس میں تو کیا، بڑے بڑے صاحبان علم اس پرچم کے وقار و عظمت کا بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک جملہ کافی ہے اس کی آفاقی اور فضیلت کے لئے اور وہ یہ ہے کہ جب حضرت عباس علمبردار کے دونوں باتھ شہید ہو چکے آپ نے مشک سکینہ کو اپنے سینے سے دبایا اور اس علم کی بلندی کو قائم رکھا۔ جب آپ کا وقت شہادت قریب آیا تو آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے جسد کو خیمہ گاہ تک نہ لے جائے گا۔ اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے اما حسین علیہ السّلام جیسی عرش نشین شخصیت نے حضرت عباس علیہِ السلام باوفا کے جسد مبارک کو میدان جنگ میں چھوڑ دیا اور پرچم کو خیمه گاه تک لے آئے۔
اگر پرچم بے جان نہ ہوتا اور ہم میں سے کوئی پوچھتا اے پرچم تیری فضیلتیں کیا کیا ہیں اور پرچم اپنی شان کے مدارج اور مراتب کی وضاحت کرتا ہوا کہتا، میں وہ ہوں جو اب اس کے بعد امام سجاد علیہ السّلام سے ہوتا ہوا امام عسکری علیہ السّلام تک تمام مصائب و آلام سے ٹکراتا ہوا دین کی حفاظت کرتا ہوا تعلیمات رسالت کا اعلان کرتا ہوا سامرہ میں اس کے ہاتھ میں جانے کا شرف حاصل کروں گا جو مجھے ساری دنیا پر لہرائے گا۔ جس کی پیشنگوئی محبوب خدا مرسل اعظم محمد مصطفی صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے فرمائی۔ میرے بعد میرے بارہ خلیفہ ہوں گے اور آخری وہ ہوگا جو مہدی موعود ہو گا قائم علیہِ السلام ہوگا اور وہی اس تمام دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح یہ دنیا ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ یہ ہمارے امام زمانہ علیہ السّلام ہیں جن کے ہاتھ میں یہ پرچم ہوگا۔

امام مہدی علیہِ السلام کے پرچم کی خصوصیت
حضرت امام صادق علیہ السّلام سے منقول ہے:
“…وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم کا پرچم جسے جناب جبرائیل علیہ السّلام بدر میں لائے…. اللّٰہ کی قسم یہ (پرچم) نہ کپاس کا ہے نہ کتان کا نہ ریشم کا ہے نہ حریر کا… یہ (پرچم) جنت کے پتیوں کا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم نے بدر کے دن نشر کیا۔ پھر اسے لپیٹ کر حضرت علی علیہ السّلام کے پرو کیا۔ پس یہ (پرچم) ہمیشہ حضرت علی علیہ السّلام کے پاس تھا یہاں تک کہ جنگ جمل میں آپ علیہ السّلام نے اسے لہرایا اور اللہ نے آپ علیہ السّلام کو فتحیاب فرمایا۔ پھر اسے لپیٹ کر رکھ دیا اور اب وہ ہمارے پاس ہے۔ اب کوئی اسے نہیں لہرائے گا یہاں تک کہ (امام) قائم علیہِ السلام قیام فرمائیں۔ پس جب وہ قیام فرمائیں گے تو اسے نشر کریں گے۔ پھر جب وہ اسے لہرائیں گے تو مشرق و مغرب میں کوئی ایسا باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ اس سے آملے گا۔ اس کا رعب ایک مہینہ کی مسافت تک اس سے آگے، اس سے پیچھے، اس کے دائیں جانب، اس کے بائیں جانب چلے گا….“ (بحارالانوار، ج ۵۲, ص ۳۶۰)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ
“….جب وہ (امام زمانہ علیہِ السلام) کسی کے خلاف اس (پرچم) کو لے جائیں گے تو الله اس شخص کو ذلیل کرے گا اور جب اس (پرچم) کو لہرائیں گے تو (اس کی برکت سے) مومنین کے قلوب فولاد کی طرح مضبوط ہو جائیں گے۔”
(کامل الزیارات, ص ۱۲۰، ح ۵)
محمد ابن مسلم کہتے ہیں کہ میں امام محمد باقر علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں ان سے قائم آل محمد علیہم السّلام کے بارے میں سوال کرنا چاہتا تھا۔ امام علیہ السّلام نے گفتگو شروع کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا:
“اے محمد ابن مسلم ! یقیناً قائم آل محمد علیہ السّلام میں پانچ رسولوں کی شباہت موجود ہے…. ہمارے جد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلّم سے ان کی شباھت یہ ہے کہ وہ تلوار کے ساتھ خروج فرمائیں گے۔ اللہ اور رسول کے شمنوں کا قتل کریں گے۔ ظالم و جابر اور سرکش لوگوں کو قتل کریں گے۔ اور تلوار و رعب کے ذریعہ ان کی نصرت و مدد کی جائے گی۔ اور ان کا پرچم کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔” (کمال الدین، ج ۱, ص ۳۲۷، ح ۷)
پرچم امام مہدی علیہِ السلام کی تحریر
روایت میں ملتا ہے کہ امام مہدی علیہِ السلام کے پرچم پر تحریر ہوگا کہ
اَلْبَیْعَۃُ لِلّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ
“بیعت اللّٰہ عز وجل کے لئے ہے۔ (کمال الدین، ج ۲, ص ۶۵۴, ح ۲۲)
علّامہ مجلسی نے بحار الانوار میں کتاب فضل ابن شاذان سے روایت نقل کی ہے کہ امام مہدی علیہ السّلام کی پرچم پر تحریر ہوگا
اِسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا
سنو اور اطاعت کرو۔ (بحارالانوار، ج ۵۲, ص ۳۰۵, ح ۷۷)
پرچم امام مہدی علیہ السّلام اور طاغوتی جھنڈے
فطرت انسانی کی برائی سے نفرت کے تحت ہر زمانے میں اصلاحی تحریکیں رونما ہوئیں اور ظالم و جابر افراد کے خلاف صف آرائی کی گئی مگر اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حجت خدا کا دامن چھوڑ کر اسلاحی تحریکیں چلانے والے اور ظلم و جبر کے خلاف نعرہ بلند کرنے والے اقتدار ملنے پر خود اسی روش پر چل پڑے جس کے خلاف انہوں نے تحریک چلائی تھی۔ چنانچہ بنی امیہ کے خلاف بنی عباس کی تحریک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جب منصور دوانقی حکومت حاصل ہو جانے کے بعد دسترخوان پر بیٹھا تو کہنے لگا کہ اسی کی خاطر ہم نے جنگ لڑی، کل تک اس دسترخوان پر بنی امیہ تھے اور آج ہم ہیں۔ یہ خون حسین کے نام پر رونما ہونے والی تحریکوں کی انتہا تھی کہ جس کی ابتدا عبد الله ابن زبیر کے یزید کے خلاف اعلان جنگ سے ہوئی تھی۔
حضرت امام صادق علیہ السّلام نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے:
کُلُّ رَایَۃٍ تُرْفَعْ قَبْلَ قِیَامِ الْقَائِمِ فَصَاحِبْہَا طَاغُوْتٌ یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللہِ عَزَّ وَ جَلَّ۔
(الکافی، ج ۸, ص ۲۹۵، ح ۴۵۲)
“ہر پرچم جو (امام) قائم علیہِ السلام کے قیام سے پہلے بلند کیا جائے گا، اس کا اٹھانے والا طاغوت ہوگا۔ اللہ عزوجل کے علاوہ اس (شخص) کی عبادت کی جائے گی۔”
اور آخر میں اس پرچم کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں کہ جو انتظار مهدی علیہِ السلام میں چودہ صدیوں سے قائم ہے اور منتظرین کی حرارت انتظار کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ وہ سرخ پرچم ہے جو غریب زہراء سلام اللہ علیہا کے گنبد پر بے قرار ہے۔ چنانچہ عرب کے دستور کے تحت جب کسی مقتول کے خون کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی قبر پر ایک سرخ پرچم نصب کر دیا جاتا تھا۔ سید مظلوم نے شب عاشور اپنے اصحاب باوفا سے حضرت امام مہدی علیہِ السلام کا تذکرہ فرمایا تھا۔ وہ امام مہدی علیہِ السلام ہیں جو خون امام حسین علیہ السّلام کا انتقام لینے والے ہیں اور قبر حسینی کا یہ پرچم پکار رہا ہے “العجل العجل.”
ہم خداوند عالم کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ یہ سرخ پرچم حضرت ولی عصر علیہِ السلام کے پرچم کے ساتھ ساتھ لہرائے۔ خدا حضرت ولی علیہِ السلام کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ہمیں حضرت علیہِ السلام کے اعوان و انصار میں شمار فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔