حضرت آية الله العظمى آقاي سيد علي حسيني سيستاني دام ظله العالي كا پیغامِ اربعین
حضرت ولی عصر علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی مراجع کرام کی ذمہ داری ہے۔ ہر دور میں مختلف انداز سے عزاداری سید الشہداء علیہ السلام پر اعتراضات ہوتے رہے ہیں عزاداری کی اہمیت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں کبھی اصلاح کے نام سے کبھی تاثیر و اثر کے نام سے کبھی عملی فائدے کے عنوان سے کبھی اسراف کے نام سے۔ اس میں وہ لوگ تو نمایاں ہیں ہی جن کو اہل بیت علیہم السلام سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے ان ہی کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی اظہار خیال کرنے لگتے ہیں جو اہل بیت علیہم السلام سے وابستہ ہیں۔ کبھی عزاداری اور اشک عزا کے ثواب پر اعتراض کرتے ہیں کبھی مراسم عزاداری کی اصلاح کا راگ الاپتے ہیں کبھی مصائب میں تاریخ میں تحقیق کا سبق پڑھاتے ہیں دوست بن کر عزاداروں کی صفوں میں اختلاف ایجاد کرکے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیتے ہیں اس طرح وہ عزاداری جو قوم کو متحد اور ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے تھی اسی کو اختلافات کا سبب قرار دیتے ہیں اور اختلافات کو اصلاح امت کا نام دیتے ہیں۔
ہم سب کو ذہن میں یہ بات رکھنا چاہئے کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کسی لاوارث کی عزاداری نہیں ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام ’’ثار اللہ‘‘ ہیں لہٰذا خدا ان کی عزاداری کا محافظ و مروج ہے، اسی کے ساتھ ساتھ خدا نے اپنی آخری حجت فرزند حضرت امام حسین علیہ السلام حضرت ولی عصر حجۃ بن الحسن العسکری علیہما السلام کو اپنے جد کی عزاداری کا محافظ قرار دیا ہے۔ عام طور سے عام لوگ ۲ مہینہ عزاداری کرتے ہیں لیکن فرزند سید الشہداء سال بھر عزادار ہیں۔ ہم تو صرف مصائب پر آنسو بہاتے ہیں وہ اپنے جد کے مصائب پر خون کے آنسو بہاتے ہیں۔ خون کے آنسو بہانا اس معرفت و محبت کی بنا پر ہے جو امام وقت علیہ السلام کو حاصل ہے۔ خداوند عالم کی بارگاہ میں انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی نگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی جو عظمت و منزلت ہے اس کی بنا پر آنکھوں سے خون کے آنسو رواں ہوتے ہیں۔ گذشتہ اورموجودہ زمانے کے اعتراض کرنے والوں کو اس عظمت و منزلت کا ذرا بھی اندازہ اور احساس ہوتا تو اعتراضات کرکے عزاداروں کی صفوں میں رخنہ اور اختلاف ایجاد نہ کرتے۔ اس طرح کی باتوں سے عزاداری پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا ہے مگر اعتراض کرنے والوں کی نیتوں کاضرور اندازہ ہوجاتا ہے۔
بہرحال ہر دور میں عزاداری کے تعلق سے سوالات ہوتے رہے ہیں علمائے کرام مراجع عظام ان کا جواب دیتے رہے ہیں اس سے پہلے استاد الفقہاء والمجتہدین حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقای میرزا نائینی علیہ الرحمہ والرضوان سے سوالات کیے گئے تھے جن کے انھوں نے جوابات مرحمت فرمائے تھے ان کے جوابات کی اس وقت سے لے کر آج تک مراجع نے تائید فرمائی ہے اکثر نے اس طرح تائید فرمائی ہے ’’ہمارے استاد نے جو فرمایا ہے وہ بالکل درست ہے۔‘‘ ان سوالات و جوابات کے اردو ترجمہ بھی موجود ہیں مؤمنین ان کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔
اسی طرح کے سوالات عصر حاضر کے مرجع بزرگ و برتر حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقای سیستانی مدظلہ العالی سے بھی کئے گئےہیں ان میں سے چند سوالات اور جوابات کو یہاں نقل کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں خدا ہم سب کو زندگی کے آخری لمحات تک پورے ہوش و جوش و خروش سے عزاداری سید الشہداء علیہ السلام برپا کرنے اس میں شرکت کرنے کی عظیم سعادت نصیب فرمائے۔ وقت احتضار سے لے کر جنت کے آخری درجات تک حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی شفاعت نصیب فرمائے۔ آمین
(۱) سوال:
بخدمت مرجع بزرگوار سید سیستانی دام ظلہٗ الوارف
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خدا آپ کو عظیم اجروثواب مرحمت فرمائے۔
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السَّلام کے اربعین کے موقع پر ہم لوگ کربلائے مقدّسہ کا سفر کر رہے ہیں اس موقع پر ہم آپ سے مودّبانہ التماس کرتے ہیں ہمیں پدرانہ نصیحت فرمائیں تا کہ اس مقدّس سفر کا اثر زیادہ ہو اور اجر وثواب نصیب ہو۔ ان باتوں کی طرف متوجّہ کریں جن سے ہم غافل اور ناواقف ہیں۔ امید ہے کہ آپ کی یہ نصیحت ہر ایک کے لئے مفید ثابت ہو۔
خداوندعالم آپ کا مبارک سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ باقی رکھے۔
چند مؤمنین
جواب:
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحِیْم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیّدنا محمد وآلہٖ الطّاہرین
خداوندعالم نے جن مؤمنین کو اس مقدّس زیارت کا شرف مرحمت فرمایا ہے انھیں اس حقیقت کو مدِّ نظر رکھنا چاہئے خداوندعالم نے اپنے بندوں میں انبیاء اور مرسلین کو لوگوں کے لئے نمونۂ عمل اور حجّت قرار دیا ہے تا کہ لوگ ان کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کر کے ہدایت حاصل کریں خداوندعالم نے اُن کی یاد کو تازہ اور زندہ رکھنے کی خاطر اُن کے مبارک روضوں کی زیارت کی تاکید فرمائی ہے تا کہ اُن کا بلند تذکرہ ہمیشہ باقی رہے اور لوگ اس طرح خداوندعالم کی یاد اس کی تعلیمات اور احکام کی طرف متوجّہ رہیں۔ یہ حضرات خداوندعالم کی اطاعت وفرمانبرداری میں اس کی راہ میں جہاد کرنے اس کے دین کی خاطر قربانیاں دینے کی راہ میں بہترین نمونۂ عمل ہیں۔
اِس بِنا پر حضرت امام حسین علیہ السَّلام کی زیارت جہاں اُن کی بے مثال قربانیوں کی یاد دلاتی ہے وہیں دینی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔نماز،حجاب،اصلاحِ نفس، عفوو دَر گذشت، صبروبرداشت آداب واحترام، سفر کے آداب کی طرف متوجّہ کرتی ہے بلکہ اسلام کی تمام تر تعلیمات کی طرف متوجّہ کرتی ہے۔ اِس بِنا پر یہ زیارت خداوندعالم کے فضل وکرم سے تربیتِ نفس اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حصول کی طرف ایک قدم ہونا چاہئے تا کہ اِس کے اثرات بعد کی زیارتوں کے لئے باقی رہیں لہٰذااِن زیارتوں میں حاضر ہونا گویا ائمہ معصومین علیہم السَّلام کی مجالسِ درس وتربیت میں حاضر ہونا ہے۔
ہم نے اگرچہ ائمہ معصومین علیہم السَّلام کا زمانہ دَرک نہیں کیا ہے تا کہ ہم اُن سے براہِ راست علم حاصل کرتے اور اُن کے دستِ مبارک سے تربیت حاصل کرتے لیکن خداوندعالم نے اُن کی تعلیمات اور اُن کے نظریات کو ہمارے لئے باقی رکھا ہے ہمیں اُن کےمقدّس روضوں کی زیارت کا شوق دِلایا ہے تا کہ وہ ہمارے لئے بہترین اور واضح نمونۂ عمل قرار پائیں اس طرح ہمارا امتحان بھی ہو کہ ہم جو اُن کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی تمنّا رکھتے ہیں اُن کی تعلیمات پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں کس قدر سچّے ہیں جس طرح اُن لوگوں کا امتحان لیا گیا جو گذشتہ زمانہ میں زندگی بسرکر رہے تھے۔ ہمیں اِس بات سے پناہ مانگنا چاہئے کہ ہماری تمنّائیں حقیقت کے مطابق نہ ہوں۔ یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہئے اگر ہم اس طرح رہے جس طرح ائمہ علیہم السلام چاہتے ہیں تو امید ہے کہ ہم اُن لوگوں کے ہمراہ محشور ہوں گے جو اُن کے ساتھ شہادت کے درجے پر فائز ہوئے تھے جنگ ِ جمل کے موقع پر حضرت امیرالمؤمنین علیہ السَّلام نے فرمایا تھا ’’وہ لوگ بھی اس جنگ میں ہمارے ساتھ شریک ہیں جو اِس وقت باپ کے صلب اور ماں کے رحم میں ہیں۔‘‘ہم میں سے جو اپنی امیدوں میں سچا ہے اُس کے لئے اُن کی تعلیمات پر عمل کرنا اُن کے نقشِ قدم پر چلنا دشوار نہیں ہے۔ وہ اُن کے پاکیزہ نفسوں سے پاکیزگی اور اُن کے آداب سے اَدب حاصل کرے گا۔
خدارا!خدارا! نماز کا خاص خیال رکھیں ،روایتوں میں اِس کو دین کا ستون، مؤمن کی معراج قرار دیا گیا ہے اگر یہ قبول ہو گئی تو دوسرے اعمال قبول ہو جائیں گے اور اگر یہ رَد ہو گئی تو بقیہ اعمال بھی رَد ہو جائیں گے۔ضروری ہے کہ اوّل وقت نماز کا خیال رکھا جائے ۔خداوندعالم کے نزدیک سب سےزیادہ محبوب وہ بندہ ہے جو اُس کی ندا پر سب سے پہلے لبیّک کہے۔ مؤمن کے لئے یہ سزاوار نہیں ہے وہ دوسروں کی اطاعتوں میں مشغول رہتے ہوئے اوّل وقت نماز سے غافل رہے کیونکہ یہ سب سے زیادہ بافضیلت عبادت ہے۔
ائمہ علیہم السَّلام نے فرمایا ہے:
’’جو لوگ نماز کو ہلکا سمجھیں گے اُن کو ہماری شفاعت نصیب نہیں ہو گی۔‘‘
حضرت امام حسین علیہ السَّلام نے روزِ عاشور کے سخت ترین حالات میں اوّل وقت نماز کا خیال رکھا اور فرمایا:-
’’تم نے نماز کو یاد کیا خدواندعالم تم کو نماز گذاروں میں شمار کرے۔‘‘
خدارا!خدارا!نیتوں کو خالص رکھیں انسان کے عمل کی قدروقیمت اور برکت خلوص نیّت کے اعتبار سے ہے۔ خداوندعالم صرف اس عمل کو قبول فرمائے گا جو پوری طرح اس کے لئے خالص ہوگا دوسروں سے کسی چیز کی توقّع نہ رکھتا ہوگا۔ جس وقت حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرما رہے تھے اُس وقت فرمایا:-
’’جو خدا اَور اُس کے رسول کی خاطر ہجرت کر رہا ہے اُس کی ہجرت خدا اَور رسول کی طرف ہے اور جس کی ہجرت دُنیا کی خاطر ہے اُس کی ہجرت دُنیا کی طرف ہے۔‘‘
خداوندعالم خلوص کے درجات کے اعتبار سے ثواب میں اضافہ کرتا ہے یہاں تک کہ ۷۰۰؍گنا اضافہ کرتا ہے۔
زائرین کے لئے ضروری ہے راستوں میں زیادہ سے زیادہ خدا کا ذکر کریں تاکہ ہر ایک قدم پر خلوص میں اضافہ ہو۔ خداوندعالم نے عقیدہ قول اور عمل میں خلوص سے زیادہ کوئی اور نعمت بندوں کو عطا نہیں کی ہے ۔خلوص سے عاری عمل زندگانیٔ دُنیا کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے خلوصِ نیّت سے انجام دیا ہوا عمل اِس دُنیا میں اور آخرت میں ہمیشہ باقی رہتا ہے۔
خدارا!خدارا!حجاب کا خیال رکھیں ۔ اہل بیت علیہم السَّلام نے کربلا کے سخت ترین حالات میں بھی اِس کا خیال رکھا ہے اِس سلسلے میں اُن کی روش بہترین نمونۂ عمل ہے۔ دشمنوں کے جن مظالم سے اُن کو سب سے زیادہ اذیّت پہونچی وہ حجاب کا چھِن جانا تھا تمام زائرین کے لئے اور خاص کر زائرات کے لئے ضروری ہے وہ ہر جگہ حجاب کا خاص خیال رکھیں اُن تمام چیزوں سے پرہیز کریں جو حجاب کے منافی ہیں جیسے تنگ لباس پہننا نامناسب جگہوں پر مَردوں کے ساتھ رہنا۔ اور اس طرح کی آرائش کرنا جس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔لہٰذا زیادہ سے زیادہ حجاب کا خیال رکھیں اِس مقدّس سفرِ زیارت کو اُن تمام باتوں سے محفوظ رکھیں جو اُس کے شایانِ شان نہیں ہے۔
خداوندعالم کی بارگاہ میں دست بدُعا ہوں حضرت رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم اور اہلِ بیت علیہم السَّلام نے خدا کی راہ میں جو قربانیاں دی ہیں لوگوں کی ہدایت کی خاطر جو سختیاں برداشت کی ہیں خداوندعالم دُنیا وآخرت میں اُن کے درجات میں اضافہ فرمائے اُن پر اِسی طرح دُرود وَ سلام نازل فرمائے جس طرح ان سے پہلے اپنے منتخب بندوں اور خاص کر جنابِ ابراہیم علیہ السَّلام اور اُن کی آل پر دُرودوَسلام نازل فرمایا تھا۔
خداوندِ عالم کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں حضرت امام حسین علیہ السَّلام کے زائرین کی زندگی میں اور اُن کی زیارت میں برکت عطا فرمائے بافضیلت ترین طریقہ سے قبول فرمائے جس طرح وہ نیک بندوں کے اعمال کو قبول فرماتا ہے تا کہ زیارت کے دوران اُن کی راہ وَروِش دوسروں کے لئے نمونۂ عمل قرار پائے۔ اہلِ بیت علیہم السَّلام کی طرف سے اُن کی محبّت ومودّت کا اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کا بہترین اجر مرحمت فرمائے۔ میدانِ قیامت میں اُن کو اہلِ بیت علیہم السَّلام کی امامت کے ساتھ محشور فرمائے۔ اِس راہ میں شہید ہونے والوں کو امام حسین علیہم السَّلام کے اصحاب وانصار کے ساتھ قرار دے جن لوگوں نے امام حسین علیہ السَّلام کی خاطر اپنی جان قربان کی اُن کی محبّت کی راہ میں ہر طرح کے مظالم اور مصائب کو برداشت کیا۔
خداوندمتعال یقیناً سننے والا اور دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔
۱۳؍صفر ۱۴۳۵
(۲)سوال:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام کی اِس روایت کے سلسلے میں ہمارے مرجع بزرگوار کیا فرماتے ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا:
جو حضرت امام حسین علیہ السَّلام پر روئے یا رونے کی شکل بنائے اُس پر جنّت واجب ہے۔
جواب:
بسمہٖ تعالیٰ
جی ہاں متعدد روایتوں میں جن میں معتبر روایتیں بھی ہیں،حضرت امام حسین علیہ السَّلام پر گریہ کرنے والے سے جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے اُن لوگوں سے بھی جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے جو رونے والوں کی شکل بناتے ہیں یا اشعار پڑھ کر رونے والے کی شکل بناتے ہیں۔ جنّت کے وعدہ پر تعجب نہیں کرنا چاہئے ۔ شیعہ اور سنی روایتوں میں بعض اعمال پر جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر انسان واجبات کو ترک کر دے اور محرّمات کا ارتکاب کرے وہ جہنّم کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ قرآن کریم کی آیتوں میں ترکِ واجبات اور ارتکابِ محرّمات پر شدید ترین عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اِس طرح کی روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ اِس طرح کے اعمال اِس وقت جنّت میں جانے کا سبب ہیں جب خداوندعالم کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف حاصل کر لیں گناہوں کی کثرت کبھی قبولیت کی راہ میں رُکاوٹ بن جاتی ہے اُس کو جہنّم سے نجات اور جنّت میں جانے سے روک دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔اِس عملِ جنّت سے جنّت کا استحقاق ثابت ہو جاتا ہے۔ بشرطیکہ کچھ ایسے اعمال نہ ہوں جو جہنّم کی طرف کھینچ کر لے جا رہے ہوں۔ اب یہ بات کہ امام حسین علیہ السَّلام پر گریہ کرنے کا اس قدر ثواب کیوں ہے؟ گریہ انسان کے ربط اور لگاؤ کو دل کی کیفیت کو پوری طرح ظاہر کرتاہے۔ جب دِل شدّتِ غم کو محسوس کرتا ہے غم کا شدید ترین احساس آنسوؤں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اِس بِنا پر امام حسین علیہ السَّلام پر گریہ وبُکا حضرت رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم اور اہلِ بیت اطہار علیہم السَّلام سے محبّت ومودّت کو ظاہر کرتا ہے اِن اہداف ومقاصد سے لگاؤ کو ظاہر کرتا ہے جس کی خاطر امام علیہ السَّلام نے شہادت قبول فرمائی۔ یہ واضح حقیقت ہے حضرت امام حسین علیہ السَّلام کے انقلاب نے تاریخ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا سرکشوں کے تخت وتاج کو زمین دوز کر دیا مؤمنین کے دِلوں میں اسلامی تعلیمات کی اَقدار کو پوری طرح راسخ کر دیا۔ اور یہ سب نتیجہ ہے اہلِ بیت علیہم السَّلام سے تمسّک کا اور اُن کی یاد کو تازہ رکھنے کا۔ اِس طرح کی روایتیں اِس حقیقت کو بیان کر رہی ہیں۔
لیکن’’تباکیٰ‘‘یعنی رونے کی کوشش کرنا اِس کا مطلب دوسروں کے سامنے گریہ کااظہار نہیں ہے بلکہ گریہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے گریہ کی کوشش کرنا ہے۔ کبھی دِل خشک ہو جاتا ہے احساسات سرد ہو جاتے ہیں اُس وقت اپنے دل کو نرم کرنے کی کوشش کرنا ہے تا کہ عقل کی آواز پر لبیّک کہتے ہوئے دل نرم ہو جائے احساسات متاثر ہو جائیں اور آنسو نکل آئیں اسی طرح ذکرِ خدا پر رونے یا رونے کی کوشش کرنے پر جنّت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مختلف علماء نے اِس بات کا ذکر کیا ہے خاص کر جناب علّامہ مقرّم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’مقتل الحسین‘‘میں۔
۲۹؍محرم الحرام ۱۴۳۵۔
(۳)سوال:
جب نماز کا وقت آ جائے مثلاً ظہر کی نماز کا وقت آ گیا اُس وقت مجلس وعزاداری کو ختم کر دینا چاہئے ؟ یا مکمل کرنا چاہئے؟ کیا زیادہ بہتر ہے؟
جواب:
اوّل وقت نماز ادا کرنا زیادہ بہتر ہے۔ بہت زیادہ اہم یہ ہے کہ عزاداری کو اِس طرح منظّم کیا جائے کہ نماز سے ٹکراؤ نہ ہو۔
(۴)سوال:
کیا مناسب ہے کہ صبح سویرے مختصر سے لوگوں کے ساتھ جلوسِ عزا نکالیں اور نماز کے وقت سے پہلے تمام کریں۔ یا عزاداروں کا انتظار کریں اس صورت میں جلوسِ عزا کے دوران نماز کا وقت آ جائے۔
جواب:
کثیر تعداد میں عزاداروںکا انتظار کرنا اچھا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ نماز کے وقت جلوس کو موقوف کر دیا جائے۔(نماز کے)بعد جلوس کو جاری رکھا جائے۔
۲۹؍محرّم الحرام ۱۴۳۵
(۵) سوال:
حضرت امام حسین علیہ السَّلام اور اُن کے اصحاب کی شہادت کی یاد میں ہمارے علاقے میں بڑی تعداد میں مجلسیں برپا ہوتی ہیں۔مؤمنین اہلِ بیت علیہم السَّلام کی محبّت میں بہت کچھ خرچ کرتے ہیں اِن مجلسوں میں معنوی ومادّی دونوں طرح کی خدمات انجام دی جاتی ہیں۔ یہ مجلسیں ایک ہی وقت میں یا قریب قریب منعقد ہوتی ہیں۔ آخر مجالس میں کھانا پیش کیا جاتا ہے یہ سلسلہ صبح ۷؍بجے سے دوپہر ۱۲؍بجے تک جاری رہتا ہے۔ جس کی بِنا پر بہت سا کھانا کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ آپ کی نظرِ مبارک میں یہ کام کیسا ہے؟
جواب:
کھانا برباد کرنا شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ اور حرام کام ہے ضروری ہے کہ صحیح قدم اُٹھا کر اِس طرح کی بربادی کو روکا جائے۔ لوگوں کے درمیان تعاون وتفاہم برقرار کر کے بس اِس قدر کھانا تیار کیا جائے جس قدر ضروری ہے۔
۲۹؍محرّم الحرام۱۴۳۵