حسین منی وانا من حسین- ایک فکری موازنہ

پہلا شہید
روز عاشورہ محرم ۶۱ھ کی صبح کا ذب صبح صادق کے دھندلکے میں رفتہ رفتہ گزرچکی تھی۔ انصار واصحافاب جو وفا کی بے مثال ہستیاں تھیں اپنے کردار کی تاریخ جو تبلیغات رسالتمآب کی اساس پر تھی مکمل کرچکے تھے۔ اپنے امام کی قیادت و امامت میں نماز فجر ادا کرچکے تھے۔زہیر بن قین اور سعید نے نماز گزاروں پر آتے ہوئے باران تیر کو روکا تھا۔ سعید کا سینہ تیروں سے چھلنی ہوچکا تھا۔ امام کے زانو پر سرتھا۔دمِ آخر تھا۔سسکیاں لیتے ہوئے لب کشا ہوئے اور عرض کیا’’مولا حسین آپ مجھ سے راضی ہوئے‘‘ امام حسینؑ نے جواب میں تاریخی جملہ ارشاد فرمایا۔ سعید تم دنیا میں بھی سعید تھے اور آخرت میں بھی سعید ہو۔’’سعید نے اس وقت کیا دیکھا کہ تبسم ریز ہوئے اور دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔ سعید نے جو کچھ دیکھا اس مرقعہ کیلئے ہم لوگ’’لا یبصرون‘‘ میں سے ہیں۔ کاش کہیں کوئی آسمان کا ایک دریچہ کھل جاتا اور ہم سوگواران حسین مظلوم اس جلوہ گاہ کی بے شمار دلکش کرنو ں میں سے ایک کرن کی جھلک پالیتے اور ہم یبصرون کی صف میں آجاتے۔سچ ہے تاریخ باربار اپنے کو دہراتی ہے تاکہ حجت الٰہیہ اس طرح قائم ہوجائے کہ پھر قابیل اور اس کی نسل ہابیل کی قربانیوں کے آثار اور اس کی نسل کو جس کے سرپر اشرفیت کا تاج اپنی تمام زینتوں کے ساتھ جگمگا رہا ہے اسے اپنی ریاکاری،فسوں سازی فریب کی گلکاریوں سے کبھی مٹا نہ سکے۔ ابھی تقریباً۸۳ برس نہیں گزرے تھے جب پہلی مرتبہ حق تعالیٰ کے محبوب ترین فرستادہ خاتم المرسلین محمد امین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوہِ فاران کی چوٹیوں سے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی آواز بلند کی تھی جس نے سرزمین مکہ میں ہلچل مچا دی تھی۔ کفرو نفاق، اشکبار، شہنشاہیت، ملک گیری کے تحت ظلم ستمگری، استبداد اور ان تمام عناصر کی جسے ماں کہا جائے یعنی فتنہ سازی کے تحت انسانیت سوز سیاست کے اندھیرے گہرے ہونے لگے اور اتنا اندھیرا تھا کہ لوگوں نے یزید کی بیعت فرزند رسول سے طلب کرنے میں بڑی جسارت سے کام لیا تھا اور فرزند رسول نے پھر تاریخ کے دھارے کو موڑتے ہوئے جو اب دیا تھا ’’میرے جیسا یزید جیسے کی بیعت کرلے ناممکن ہے‘‘۔
ہجرت
فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ چھوڑا۔ قبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رخصت ہوئے مکہ میں قیام کیا۔ حج کو عمرہ میں بدل کر مکہ کی سرزمین چھوڑدی۔ عراق کی طرف چلے۔ کربلا کی سرزمین نے استقبال کیا۔ذرا ۸۳ برس قبل سرزمین مکہ کی تاریخ پڑھئے۔ بے آب وگیاہ کا مارا شہر، جہاں پانی جمع ہوجاتا تھا اور اسکے اطراف اونٹ کی غلاظت ہوتی اسے صاف کرکے پیاسے اپنی پیاس بجھالیتے۔ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدک میں اسکی پوری حقیقت بیان ہوچکی ہے ادھر کربلا، دریائے فرات سے دور، چھوٹے چھوٹے ٹیلوں سے ایسا لگتا جیسے زمین کے سینے پر آبلے پڑگئے ہوں۔ یہاں پیاسے کیلئے پانی کی کوئی سبیل نہیں۔
قارئین ذرا مضمون کے مقدمہ کی طرف پلٹئے،مڑکر اس منظر کو سامنے رکھئے جب سعید جسکا سینہ تیروں کے زخم سے بھرا تھا۔ تیر کھا کر گرے تھے۔سرزانوئے امام پر تھا نظریں آسمان کی طرف تھیں۔ اس پہلے شہید کا ہر قطرہ ٔ خون جو زمین پر ٹپکا تھا آغاز رسالت کا اعلان حضور سرورکائنات کے اس جملے کے معانی اور مطالب کی شرح کررہے تھے۔ ’’انا من حسین‘‘ گویا مشیت الٰہی نے پھر وہی زمین ،دھوپ سے دھکتی ہوئی زمین پانی سے ترستی پیاسی زمین ،بنجر اور ٹیلوں سے بھری زمین سے فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حق تعالیٰ کا فرستادہ رسول امین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز لا الہ الا اللہ کو دہرارہا تھا اور قول رسول انا من حسین پر صداقت کی مہر لگادی۔سچ ہے تاریخ نے اپنے کو دہرایا تاکہ اتمام حجت ہوجائے۔ درکار ہے غوروفکر، جس کے آئینہ میں وہ جو نہیں دیکھنے والوں میں ہیں ان کی آنکھیں کھلیں اور وہ کم سے کم چشم بصیرت سے دیکھ سکیں۔ سمیہ اور یاسر کو ابوسفیان نے کس بے دردی اور ظلم شعاری سے بھرے دل کے ساتھ قتل کیا تھا اور ان سے پہلے اسلام پر جان دینے والوں نے آخری سانس میں بھی ’’احد‘‘ کہکر دم توڑا اور یقین احدیت پر اپنے یقین کے آخری سرحد کو پارکر گئے۔سعید نے بھی کہا مولا آپ مجھ سے راضی ہوئے۔ یہ ایک موازنہ کی ہلکی سی مثال ہے جو حسین منی کے تقاضوں کو انا من حسین نے گویا لبیک کی آواز میں مضمر کردیا تھا۔
قارئین کرام اس مضمون میں موازنہ ‘‘تبلیغات رسالت کے دوران جو سلسلے اور موڑ آئے ان کا مقائسہ حسینؑ نے محافظت کانا قابل تسخیر جو قلعہ تعمیر کردیا ہے ایک فکری جائزہ ہے۔
ہجرت ایک ایسا موڑ ہے جہاں سے اسلام نے اپنی حقانیت کا نشان قائم کردیا۔ اور اس کی عظمت افلاکی ہونے کےایسے ثبوت پیدا کئے تھے شاید اسی موازنہ کو ڈاکٹر علامہ اقبالؔ اپنی فکری اور فلسفیانہ تجزیہ کے تحت رکھ کر کہا تھا۔
نقش الا اللہ بر صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت
ضرورت ہے فکر کو مہمیز کرنے کی دونوں ہجرت میں کتنی مماثلث اور کتنے مشترک عوامل ہیں۔امام حسین نے جب مدینہ کو کھنگالا تو وہ اچھی طرح جانتے تھے یہ وہی مدینہ ہے جہاں خاتون جنت مولاعلیؑ کے ساتھ اہلیان مدینہ کے پاس رات کی تاریکی میں تشریف لے گئیں اور علی کے حق کو غصب ہونے سے بچانے کی درخواست کی تھی اور صرف ۴۰؍افراد نے اپنی رضا مندی ظاہر کی تھی۔ یعنی مدینہ رسول کی ہجرت کے زمانہ کا مکہ ہوگیا تھا اور گویا انا من حسین کی کتاب کھل رہی تھی
اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت نہ کرتے تو اسلام مکہ کے حدود میں کفر کے شدید ترین حملوں کے درمیان دست گربیان رہ کر اپنے حقانیت کے آفتاب پر بادلوں کے پردوں کا سامنا کرتا رہتا۔
بالکل اسی طرح اگر حسین ہجرت نہ کرتے اور کربلا نہ سجاتے تو اسلام حجاباً مستورا کے ایک پردہ کے پیچھے دوسرا اور پھر متواتر ہزاروں پردوں میں چھپ جاتا۔ علامہ اقبال کے سامنے امام حسین کی ہجرت کے اسباب و علل تھے اور رسول خدا ؐ کی پُر مغز حدیث ’’انا من حسین‘‘ کانوں میں گونج رہی تھی لہٰذا انھوں نے اپنی تمام فکر کو سمیٹ کر یہ شعر ’’نقش ……‘‘ رقم کرکے انصاف پسندی کا ثبوت دیا ہے۔
ہجرت کے بعد غزوات اور دوپہر تک کی کربلاء کی جنگ
تاریخ بول رہی ہے سارا اسلام یعنی دنیا کے تمام مسلمان سن رہے ہیں پھر بھی تغافل عارفانہ کے چنگل میں صیدزبوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں یعنی مدینہ سے ہجرت گویا انا من حسین کی آواز بلند کررہا تھا۔
شہادت اور ہجرت کے عوامل
ہم نے اس وقت کی فضا اور ماحول کا تقابل حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے بعد اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے وقت کے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ مدینہ آنے کا بعد تقریباً ۸۰ ؍غزوات کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ذرا کربلا کی جنگ جو طلوع آفتاب سے شروع ہوئی اور بعد دوپہر ختم ہوئی اس پر منصفانہ نظر ڈالتے۔۷۲ کا ذکر متواتر ذکر کرتے ہیں لیکن کچھ اور بھی شہید ہیں۔ تقریباً اول الذکر غزوات کے برابر کربلا کی جنگ درمیان حق و باطل ہوتی ہے۔ اطلاعاً عرض ہے۔
پہلا حملہ جنگ مغلوبہ کا تھا۔ یعنی حسین کے جیالے مجاہدوں کے ساتھ ایک بڑے لشکر کے حملہ کا سامنا تھا جو پسپا ہوا اور اغنام پیچھے ہٹے تھے پھر ایک ایک مجاہد کے حملہ کا ذکرتاریخ میں ترتیب وار آیا ہے یعنی ہر ایک مجاہد کی جنگ گویا حضور سرورکائنات کے زمانہ کی جنگ گویا نیابت کی جنگ تھی۔ ہر جنگ شیر الٰہی کی جنگ تھی۔ حضرت قاسم ۱۳؍ برس کے تھے۔ ارزق شامی کے چار بیٹوں کو داخل جہنم کرنے کے بعد ارزق شامی کو دوزخ کا ایندھن بنا دیا۔ جناب علی اکبر ۱۸؍ برس کے تھے۔ لشکریزیدی کو پیچھے ڈھکیل کر اپنے بابا کے پاس آئے اور فرمایا بابا پیاس مارے ڈال رہی ہے، پیاس کی بڑی شدت ہے۔ عباس علمدار اپنے فرائض جو ولایت امام کی بندشوں پر ادا کرتے ہوئے دریا دشمنوں سے چھین کر کوفیوں اور شامیوں کے رخسار پر بھر پور طمانچہ مارا تھا۔ معلوم نہیں کس کی لکھی ہوئی مقاتل کی داستان سے ابوالکلام آزاد کی آنکھوں پر عصبیت کا چشمہ لگا رہا جب آپ لکھ رہے تھے یزید کی فوج میں سے صرف ۷۲؍ ہی مارے گئے تھے۔
مباہلہ
تبلیغ رسالت میں مباہلہ ایک ایسا موڑ ہےجسے کوئی مورخ اس کو جھٹلا نہیں سکتا کیونکہ قرآن کریم تا قیامت آئینہ دکھاتا رہے گا۔ ذرا کربلا کے مباہلہ پر بھی قارئین اک نظر ڈالیں۔ جب معقل جو فوج یزیدی کاسپہ سالار تھا اور کوفی تھا۔ کوفہ میں فوزان کی گلی میں بریر ہمدانی کے مکان کےقریب رہتا تھا۔ مقابلہ کیلئے آواز بلندکی تو بریر ہمدانی اس کے مقابل میں گئے۔ معقل نے کہا بریر ہم کہتے تھے اللہ کی رحمتیں ہمارے ساتھ ہیں اور ہم سب سیروسیراب ہیں جس پر بریر نے کہا معقل مناظرہ بہت ہوچکا ہے اب آؤ مباہلہ کرلیا جائے معقل نےکہا وہ کس طرح۔ بریر نےجواب میں کہا ہم دونوں اللہ تعالیٰ پر فیصلہ چھوڑ دیں اور یہ دعا کریں حق پر باطل کو فتح ہو جو حق پر ہواس کی تلوار ہے باطل پررہنے والا قتل ہو۔ معقل نے منظور کرلیا۔ دونوں نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ دونوں میں تلوار سےجنگ ہوئی اور بریر کے ہاتھوں معقل قتل ہو کر واصل جہنم ہوا اور اس طرح مباہلہ کی روایت کو دہرادیا۔
مقصد بیان یہ ہے کہ ششما ہے علی اصغر سے لے کر معمر ترین مسلم بن عوسجا تک ہر ایک کی جنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ کی جنگ کی تصویر تھی۔ اور صادق القول رسول الثقلین کا قول انا من حسین اعلان بلند بانگ تھا۔
شہادت امام حسین اور وقت رحلتِ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت سے قبل کے ایام:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رحلت سے پہلے جسمانی طورپر اتنا ضعف محسوس کیا کہ ابوبکرنے نماز جماعت کی امامت کی کوشش کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہایت ضعف کے باوجود نماز پڑھانے نہیں دی اور خود امامت فرماکر لوگوں کو مستقبل کے باب میں پیغام دے دیا۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پس نماز کےبرابر بیٹھ کر نماز ادا کی یہ بھی تاریخ میں ہے)۔
مصلحت: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مصلحت وہ جوخدا کی مرضی سے ہی کلام کرتا ہے وہ جانتا ہے لیکن شعور انسانی کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رسول کی نظر مستقبل کی دوردراز یعنی صبح قیامت کے اسلام کے سفر کی منزلوں کو دیکھ رہی تھی۔ اسی مسجد میں ابوبکر ہوں گے۔ قضیہ فدک کا ہوگا۔ پہلی جھوٹی حدیث بیان ہوگی۔ فدک پر غاصبانہ قبضہ ہوگا۔ خاتون جنت کے گھر کو نذر آتش کیا جائے گا۔ علی کے گلے میں ریسماں ہوگی، ذوالفقار غلاف میں تڑپ کر علی کے صبر پر محو حیرت رہے گی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کے کچھ دن یا کچھ پہر ابھی باقی تھے کہ آپ نے قلم اور قرطاس طلب کیا کہ لاؤ میں ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس کے تحت تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوگے۔خواجہ حسن نظامی نے اپنی کتاب محرم نامہ میں اس منظر کو تحریر فرمایا ہے جب ایک بڑبونگ مچ گیا۔ بنی ہاشم کیلئےیاد رہے قبل از رحلت یہ تو مخالفین یعنی جنھوں نے قلم اور قرطاس دینے سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع سے انحراف کیا ان کے حلق سے بات اگلوائی کہ رسول علی کی خلافت کے بارے میں لکھ دیں گے۔
حسن نظامی محرم نامہ میں لکھتے ہیں کہ بنی ہاشم کہتے تھے کاغذاور قلم دیا جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی اتباع واجب ہے۔ عمر نے کہا نہ دیا جائے ورنہ یہ حضرت علی کی خلافت(یعنی میرے بعد علی خلیفہ ہوں گے) کے بارے میں لکھ دیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غضبناک ہوئے اور سب کو بزم سے نکال دیا۔
مسئلہ خلافت کا حل:
مشیت الٰہی کا سورج جب نکلتا ہے حقیقت صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔ تمام اختلاف بر طرف یہ بات طے ہوگئ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امت مسلمہ کی ہدایت کیلئے علی کو اپنا جانشین مقرر کرگئے جسکا اعتراف دوست اور دشمن سب نے کرلیا۔ تحریر امتداد زمانہ سے دشمن کے ہاتھوں شاید ختم ہوجاتی لیکن مخالفین کے اقرار لسان کے الفاظ تاریخ سے اب کبھی نہ مٹیں گے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسکے حبیب کی رحلت ہوگئی اور علی نے اور ان کے چند اصحاب نے تجہیز و تکفین اور تدفین کیا۔
اهل دنیا کا ردنیا ساختند
مصطفٰی را بی کفن انداختند
شہادت امام حسین علیہ السلام
ذرا آئیے کربلا آجائیے، میر صاحب کے مرقعہ نگاری کا یہ بند ملاحظہ فرمائیے۔
حسین جب کہ چلے بعد دوپہر رن کو
کھڑے تھے خیمہ کے باہر جھکا کے گردن کو
کوئی نہ تھا کہ جو تھامے رکاب توسن کو
سکینہ جھاڑ رہی تھیں عبا کے دامن کو
نہ آسرا تھا کوئی شاہ کربلا ئی کو
فقط بہن نے کیا تھا سوار بھائی کو
یہ بند مرثیہ کا فقط رثائی شاعری کی تخئیل یا مضمون نگاری میں مرقعہ کشی کا ایک بے مثال نمونہ نہیں ہے بلکہ صاف صاف تاریخ کا مجمل خلاصہ ہے جسے شعر کے قالب میں ڈھال کر میر صاحب نے سپرد قلم کردیا ہے اور شاید اس مضمون کی ادائیگی شعر میں اپنے سر پر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا کا سایہ رکھتی ہے جو ظلم کی تاویلات سے کبھی کبھی پثرمردہ نہ ہوگا۔ تقریباً وہی بے بسی کا عالم رہا ہو۔ لیکن یہ ہماری نگاہ ظاہری اسباب، ماحول اور تنہائی کے عالم پر رہتی ہے۔ امام کی نظر قیامت ، حشر ونشر، جزا اور سزا کی مدت کے سرحدوں تک رہتی ہے۔ حسین تنہا تھے۔ مجبور نہیں تھے، حسین شکستہ دل تھے غموں اور رنج والم سے لیکن شجاعت ایسی جسکے خوف سے لشکر بد خصال کے دل کا نپ رہے تھے۔ کبھی خندق، کبھی خیبر سب یاد آنے لگے۔ حسین دور تک پھیلے ہوئے لشکر کے سامنے آنے والے تھے۔ عرب کے نمک حرام ، بدخصال ، بد طینت لشکریوں کا سامنا تھا۔
بعد شہادت
حسین جانتے تھے شہید ہوجائیں گے۔ فکر ناموس کے خیموں کے جلنے کی تھی۔ یتیموں کی پیاس ، بیکسی ، لاغری اور ظلم کی چکی میں پسنے کی تھی۔
رک کر سوچئے کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی فکر نہ رہی ہوگی۔بیٹی کا گھر جلایا جائے گا، محسن شہید ہوں گے۔ علی کے گلے میں رسن ہوگی، ذرا نانا اور نواسے کی فکر کی مماثلث پر غور کریں۔اتمام حجت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی کیا۔ اتمام حجت امام حسین علیہ السلام نے بھی کیا۔ جب آپ کوفیوں اور شامیوں سے جنگ کیلئے آئے تو فرمایا ’’تم مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟ کیا میں نے حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیا ہے؟ میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟‘‘ اور جواب ملاتھا:’’ہم کو تمہارے باپ سے بغض ہے، جس کا بدلا ہم تم سے لے رہے ہیں‘‘۔امام علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا میں جانتا ہوں تمہارے شکم حرام غذا سے بھرے ہیں۔ اور اس لئے تم برسرپیکار ہو۔ اتمام حجت نانا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتمام حجت کو سلام کررہی تھی۔ اور حسین منی کی تصدیق کررہی تھی۔
امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے۔ بہن نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے کہا۔ ’’تَقَبَّلْ مِنَّا اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘۔ گویا جناب زینب حضرت ابراہیم ، حضرت زہرا ، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام علی علیہ السلام کی نیابت کا حق ادا کررہی تھیں۔
قرآن نے بڑھ کر لبیک کہا۔
يٰٓاَيَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ۝۲۷ۤۖ ارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَۃً مَّرْضِيَّۃً۝۲۸ۚ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ۝۲۹ۙ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۝۳۰ۧ
(سورۂ فجر، آیت ۲۷- ۳۰)
اختتام میں دو شعر پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا اسلئے کہ موازنہ کے اگر ریشہ ریشہ پر ستم زدگان ذوق خامہ فرسا، اپنی فکر اور علمی کاوشوں کومہمیز کریں تو ایک مبسوط کتاب بعنوان انا من حسین پر تیار ہوکر منظر عام پر آسکتی ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد مدینہ سقیفہ میں الٹ گیا تھا،صرف علی اور آپ کے چند اصحاب بوقت تدفین موجود تھے۔
اهل دنیا کا ردنیا ساختند مصطفٰی را بی کفن انداختند
بعد شہادت امام حسین کون سوگوار ایسا ہے جو اس المیہ کا غم ناگزیر اپنے دل میں نہیں بسا ئے ہوئے ہے۔
تم سا کوئی غریب کوئی خستہ تن نہیں مرنے کے بعد گورنہیں اورکفن نہیں
ذرا نانا رسول زمن صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حسین شہید کے مشترک عوامل بے کفنی پر غور کرئے تو سمجھ میں آئے گاحسین منی و انا من حسین۔
میرے مولا امام زمانہ جو وارث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور وارث حسین ہیں خدا آپ کے ظہور میں تعجیل کرے اور آپ انتقام لیں۔س

اپنا تبصرہ بھیجیں