’’مقتل نگاری‘‘ صرف تحریر تاریخ یا تاریخ نویسی نہیں ہے بلکہ ایک عظیم انسانی (اسلامی ) واقعہ کی لحظہ بہ لحظہ، لمحہ بہ لمحہ ترسیم و منظر کشی اور خاکہ نگاری ہے اور اس میں عقائدی، اخلاقی، سیاسی اور اجتماعی صورت حال کو ہر زاویہ سے کشف کیا جاتا ہے۔
’’مقتل نگاری‘‘ ایک ذریعہ، ایک آلہ ہے شہدا ء اورشہادت کے دستور العمل سے بہرہ مند ہونے کے لئے احساسات کو تحریک دینے کا، ایک آئینہ ہے اس عشق و عرفان کی زمین کو تجسم عطا کرنے کا جو کہ مخصوص زمانے اور مخصوص جگہ اور مخصوص لوگوں اور مخصوص شرائط کے ساتھ وجود میں آیا۔اس آئینہ میں ہر دور کے لوگ اس داستان عشق و عرفان و شہادت کا مشاہدہ کریں گے۔’’مقتل نگاری‘‘ صرف واقعہ نگاری نہیں ہے بلکہ ’’ایمان ‘‘ و ’’عشق ‘‘ اور ’’ایثار ‘‘ کی آیتوں کی تفسیر ہے جو کہ عاشورا کے بلند آسمان اور زمین قدسیٴ ’’کربلا‘‘ پر تجلی پائی اور قرآن کی نورانی آیتوں کی عملی اور عینی بقا کے لئے ایک پشت و پناہ بن گئی۔
’’مقتل نگاری‘‘ ’’ایک واضح اور سچی شاہد ہے ‘‘۔ ان لوگوں کے صدق و ثبات کو ثابت کرنے کے لئے جو سالار شہیداں کے اقوال کو سعادت سمجھتے ہیں اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو سوائے تباہی اور نقصان کے کچھ نہیں پاتے۔ شرافت مندانہ موت کو ’’عین زندگی‘‘ سمجھتے ہیں اور ’’ذلت آمیز زندگی ‘‘ کو ’’عین موت‘‘ شمار کرتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:
جابر و ظالم کے ماتحت تمہاری ذلت آمیز زندگی، اصل میں موت ہے اور جابر و ظالم کی سلطنت میں افتخار آمیز موت زندگیٴ واقعی شمار ہوتی ہے۔
’’مقتل نگاری ‘‘ ایک روشن اور ہدایت کرنے والی مشعل کا بلند کرنا ہے۔
’’مقتل نگاری ‘‘ انسانی راہوں پر بلند کرنے والی ایک روشن اور ہدایت کی نشاندہی کرنے والی ایک مشعل ہے جس کے ذریعہ اچھائی اور برائی، حق و باطل، ایمان اور کفر کو پہچانا جاتا ہے اور خدا کے متلاشیوں کو پیروان شیطان سے، شایستگان ولایت کو غاصبان خلافت سے اور عدل و عدالت کے علمبرداروں کو سیاست بازوں سے جدا کیا جاتا ہے۔
مقتل
تمام شہادتیں ایک تحریری دستاویز چاہتی ہیں۔ ہر امام کی شہادت اور ان کے حالات زندگی اور ان کی قربانیاں ایک کتاب چاہتی ہے اور ان کے حالات پر کتابیں لکھی بھی گئی ہیں لیکن ان کتابوں کو ’’مقتل‘‘ نہیں کہا جاتا اگرچہ وہ قتل کئے گئے ہیں اور شہید ہوئے ہیں۔ صرف امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کی شہادتوں کے تذکرہ کا نام مقتل رکھا گیا۔ قدیم زمانے سے واقعات کربلا پر بہت سے لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں اور آج بھی لکھی جارہی ہیں۔ مظلومیت امام حسین علیہ السلام ہر مظلومیت سے الگ ہے۔ ائمہ علیہم السلام اپنی شہادتوں سے اور دوسرے ائمہ کی شہادتوں اور ان کی مظلومیت سے آگاہ تھے اسی لئے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی کی مظلومیت کے بارے میں فرمایا:
لَا یَوْمَ كَیَوْمِكَ یَا اَبَا عَبْدِ اللہِ
(امالی صدوق، ص۱۱۶؛ بحار الانوار، ج ۴۵، ص۲۱۸)
اے ابا عبداللہ !کوئی دن آپ کے روز عاشورا کی طرح نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ جو قتل و غارتگری روز عاشورا کی گئی اس سے بڑھ کر تاریخ میں کوئی اور قتل و غارت گری نہیں ہے۔ غالباً اسی لئے اس پر لکھی جانے والی داستان کو مقتل کہا گیا۔
فرشتے آسمان پر امام حسین علیہ السلام پر روتے ہیں، پریاں و پرندے زمین و ہوا میں اُن پر نوحہ کناں ہیں۔
امام سجاد علیہ السلام نےساری عمر یاد کربلا میں گذار دی۔ کبھی پانی نہ پیا مگر مصائب عاشورا پر گریہ کرنے کے بعد۔
(کامل الزیارات، ص۱۷۵؛ بحارا لانوار، ج ۴۶، ص۱۰۸)
امام صادق علیہ السلام ایام محرم میں غرق ماتم ہو جاتے تھے۔ آپ کے لبوں سے ہنسی و مسکراہٹ محو ہوجاتی اور روز عاشورا عزاداری فرماتے اور اپنے جد بزرگوار کی مجلس پڑھتے تھے۔
امام رضا علیہ السلام اپنے جدِّ بزرگوار کے لئے عزا فرماتے تھے اور روز عاشورا کی یاد کوپلکوں کے مجروح ہونے اور آنسوئوں کی جھڑی کا دن شمار کرتے تھے۔
(امالی صدوق، ص۱۲۸؛ بحار الانوار، ج ۴۴، ص۲۸۴)
امام زمانہ علیہ السلام آج بھی ہر شب و روز گریہ کرنے والے ہیں اور گریہ آنسوئوں کا نہیں بلکہ خون کا گریہ فرماتے ہیں۔
(بحار الانوار،ج ۹۸، ص۳۲۰)
آیا یہ بات جائز ہے کہ شیعہ گریہ و ماتم سے اپنے خانۂ دل کو خالی کردیں اور اپنی آنکھوں کے جام کو اپنے مولا امام حسین علیہ السلام کی مصیبت میں نہ چھلکائیں؟
امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی حرارت مومنین کے دلوں میں ودیعت کردی گئی ہے۔
(رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لَا تَبْرُدُ اَبَدًا مستدرک الوسائل، ج ۱۰، ص۳۱۸۔)
ہر طرح کے گریہ و بے تابی کو مکروہ قرار دیا گیا ہے لیکن مظلومیت امام حسین علیہ السلام پر گریہ و ماتم مایۂ اجر و ثواب ہے۔
(حدیث امام صادق علیہ السلام در بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۰ و ۲۹۱)
خلاصہ یہ کہ ہمارے تمام ائمہ علیہم السلام نے خود مظلومیت امام حسین علیہ السلام پر مقتل فرمایا اور زمین و آسمان و انبیاء و ملائکہ و اَجِنَّہ و چرند و پرند، سبھی مظلومیت پر گریہ کرتے ہیں۔ یہی باتیں تحریر میں آئی ہیں اور مقتل کہلاتی ہیں۔
پہلی کتابِ مقتل
امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں سب سے پہلے ’’ابو مخنف ‘‘ یا ’’ابوالقاسم اصبغ بن نباتہ ‘‘ کے ذریعہ اولین کتاب مقتل لکھی گئی۔
(سحاب رحمت از عباس اسماعیل یزدی، پیش گفتار، ص ۲۵)
اس کے بعد دسیوں کتاب مقتل رشتہ تحریر میں آئی لیکن زمانے کے ساتھ وہ ختم ہوتی گئیں اب صرف ان کے اور ان کے مولف کے نام کتب رجال میں باقی ہیں۔
فارسی زبان میں پہلی کتاب مقتل چوتھی صدی ہجری میں ’’ابو علی محمدبلعمی کے ذریعہ تالیف ہوئی۔ اصل میں یہ کتاب ’’تاریخ طبری‘‘ کا خلاصہ ہے اور ’’تاریخ بلعمی‘‘ کے نام سے شہرت پائی۔
(سحاب رحمت از عباس اسماعیل یزدی، پیش گفتار، ص ۲۵)
قابل ذکر ہے کہ علمائے اہل سنت نے بھی کتاب مقتل لکھی ہیں اور ان میں سے دس سے زیادہ کتابیں بہت مشہور ہیں۔ان میں سے قدیم ترین مقتل الحسین علیہ السلام تالیف ابو مویّد اخطب خوارزمی ہے۔ یہ مقتل چھٹی صدی ہجری میں لکھا گیا۔
مقاتل کے حوالے
مقتل نویسی اپنی اسناد کے ساتھ مختلف منابع کے ذریعہ وجود تحریر میں آئی ہیں۔ ان میں سے اہم ترین منابع اور حوالے درج ذیل ہیں۔
۱۔ روایتیں جو اس سلسلہ میں ائمہ ہدی علیہم السلام کے ذریعہ وارد ہوئی ہیں۔
۲۔ امام سجاد علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے مختلف خطبوں میں روداد شہادت نقل ہوئی ہیں۔
۳۔ وہ لوگ جو امام علیہ السلام کے لشکر میں تھے لیکن فیض شہادت سے بہرہ مند نہ ہو سکے۔
۴۔ دشمن کی فوج کے لشکری جیسے ’’حمید بن مسلم‘‘ اور ’’ہلال بن نافع‘‘ نے مظلومیت امام حسین علیہ السلام اور مظلومیت و مصائب اہل بیت علیہم السلام کو چھپا نہ سکے لہٰذا ان لوگوں نے بھی آنکھوں دیکھا حال نقل کیا ہے۔
۵۔ وہ لوگ جو نہ تو دشمن کے لشکر میں تھے اور نہ ہی امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں، ایسے لوگ بھی مورد اطمینان شاہد ہیں اور بہت سے واقعات ان کے ذریعہ نقل ہوئے ہیں۔
چونکہ ہمارا اس مضمون میں ارادہ کتاب ’’مقتل خوارزمی‘‘ کا تعارف ہے اس لئے ان مقدماتی باتوں کے بعد اصل موضوع پر آتے ہیں۔ کتاب کا تعارف درج ذیل مطالب پر مبنی ہے۔
۱۔ مصنف کتاب کا تعارف
۲۔ ابواب کتاب کا مختصر جائزہ
علوم و معارف اہل بیت علیہم السلام اور تاریخ ائمہ و امامت و خلافت ہم تک زینہ بہ زینہ، قدم بہ قدم و سینہ بہ سینہ ائمہ علیہم السلام اور علماء باصفا کے ذریعہ پہونچے ہیں۔ خوارزمی کے حالات اور ان کی علمی کاوشوں کا تذکرہ ہم مرحوم علامہ امینی رضوان اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’الغدیر‘‘ سے سے نقل کررہے ہیں اس لئے آپ نے بڑی دقت و چھان بین کے بعد مستند حوالوں کے ذریعہ اسے لکھا ہے۔ مرحوم علامہ امینیؒ نے خوارزمی کے سنی حنفی المذہب ہونے کے ساتھ ان کے ثقہ اور معتبر وغیر متعصب ہونے کو بھی نقلکیا ہے۔
نام
حافظ ابو لمؤیّد، ابو محمد، موفق الدین بن احمد بن ابی سعید اسحاق بن مؤیّد مکی حنفی، معروف بہ ’’اَخطَب خوارزم‘‘
ولادت و مسکن
خوارزمی ۴۸۴ھ میں پیدا ہوئے اور ۵۶۸ھ میں انتقال کیا۔ حدیثوں کو حاصل کرنے اور یاد کرنے کے لئے ایک طولانی مدت سفر کرتے رہے اور کچھ وقت کے لئے مکہ میں بھی سکونت اختیار کی لیکن ان کی شہرت ’’خطیب خوارزمی‘‘ کے نام سے اس لئے رہی کہ آپ خوارزم کی جامع مسجد میں خطبہ دیا کرتے اور موعظہ کرتے تھے۔ اپنی آخری عمرتک اسی شہر میں رہے۔
مذہب و عقیدہ
خوارزمی شیعہ نہ تھے۔ فروع دین میں وہ حنفی مذہب تھے۔ انہوں نے ایک کتاب ’’مناقب ابو حنیفہ ‘‘ بھی لکھا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ معتزلی تھے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں ’’عقل گرائی‘‘ نظر نہیں آتی۔ بہر حال ان کا لگائو اور محبت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام سے صاف ظاہر ہوتا ہے لیکن ان کےحنفی مذہب ہونے میں کوئی شک و تردید نہیں ہے اس لئے کہ ان کی کتابوں میں ان کا مذہب واضح ہے اور انہوں نے ان دونوں عقیدوں کو متحد کرنے کی بارہا کوشش کی ہے۔ مثلاً مناقب امیر المومنین علیہ السلام کے ذیل میں خوارزمی نے لکھا کہ عائشہ نے پیغمبر کے حوالہ سے نقل کیا کہ: ابوبکر پھر عمر پیغمبر کے بعد سب سے افضل ہیں۔ پھر خوارزمی نے نقل کیا ہے کہ : حضرت فاطمہ علیہا السلام نے عائشہ سے سوال کیا کہ کیوں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی کا نام نہیں لیا؟ تو عائشہ نے کہا اس لئے کہ علی نفس پیغمبر ہیں او رکیا تم نے کسی کو دیکھا ہ کہ وہ اپنے ہی بارے میں گفتگو کرے۔
(مقتل الحسین للخوارزمی، جزء اول، فصل رابع، ص۴۳)
اسی طرح خوارزمی نے ایک مقام پر عمر بن عبدالعزیز سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا ابوبکر و عمر و عثمان بغیر حساب کے بہشت میں داخل ہوگئے، میں نے خدا سے پوچھا کہ علی کہاں ہیں؟ كہا: وہ پیغمبروں او رصدیقین کے ہمراہ اعلی علیین میں ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ میں نے یزید کو آتش جہنم میں دیکھا۔
اس طرح کی روایتیں واضح کرتی ہیں کہ خوارزمی خلفاء پر عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ خاندان پیغمبر کے مقام و مرتبہ کو بلند و برتر جانتا تھا اسی لئے اس کی کتابوں میں جعلی حدیثیں بھی کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا اس بات پر توجہ رہے کہ اس نے جو مقتل لکھا ہے وہ بہت حد تک سید ابن طاؤس کے مقتل سے مشابہ ہے البتہ اس میں افراط یعنی ’’زیادہ روی ‘‘ سے نزدیک ہے۔
مقتل کا تعارف
کتاب کا نام ہے ’’مقتل الحسین ‘‘
ایسوسی ایشن آف امام مہدی علیہ السلام ، بمبئی کے کتاب خانۂ امام مہدی علیہ السلام ‘‘ کے شمارۂ ثبت ۳۵۳۲ کا نسخہ ہمارے سامنے ہے۔ الجزء الاول اور الجز الثانی، العلامۃ لکبیر الشیخ محمد السماوی کی تحقیق و تعلیق کے بعد ایک ہی جلد میں، منشورات مکتبۃ المفید، قم۔ ایران سے شائع ہوا ہے۔ تحقیق و تعلیق ۱۳۶۷ ھ میں نجف اشرف میں ہوئی ہے۔ محقق موصوف نے لکھا ہے کہ اس کتاب پر جب میں نے کام کرنا چاہا تو کتاب کے نسخہ عراق میں دستیاب نہ تھے لہٰذا علامۂ امینی صاحبِ کتاب الغدیر نے مجھے نسخہ فراہم کیا اور میں نے استنساخ کے بعد انہیں لوٹا دیا۔ علامۂ سماوی نے سوانح خوارزمی کے لئے علامۂ امینی کی کتاب الغدیرسے رجوع کرنے پر زور دیا ہے لہٰذا ہم اختصار کے ساتھ ’’الغدیر‘‘ سے خوارزمی کے اساتید و شاگرد اور علمی کاموں پر روشنی ڈالیں گے اوپھر ’’مقتل الحسین ‘‘ کا جائزہ لیں گے۔
خوارزمی كے مشایخ و اساتیدروایت
علامہ امینی نے ۳۵؍ اساتید کے نام لکھے ہیں ہم صرف چند پر اکتفا کرتے ہیں۔
۱۔ حافظ نجم الدین عمر بن محمد بن احمد، نسفی متوفی ۵۳۷ھ سے تحصیل علم کیا اور حدیثیں نقل کیں۔
۲۔ ابوالقاسم، صبا اللہ، محمود بن عمر زمخشری متوفی ۵۳۸ھ،سے ادبیات کا علم حاصل کیا اور حدیثیں حاصل کیا۔
۳۔ ابوالحسن، علی بن حسین غزنوی، ملقب بہ بُرہان، متوفی ۵۵۱ھ
۴۔ ابوالفرج، شمس الائمہ، محمد بن احمد مکی، یہ خوارزمی کا بھائی تھا جس کا تذکرہ مقتل میں کیا ہے۔ اپنے بھائی کی بزرگی اورعظمت کے لئے یہ القاب استعمال کئے ہیں۔ سراج الدین، رکن الاسلام، شمس الائمہ، امام الحرمین، اپنے بھائی سے اِملاء کے ذریعہ روایتیں نقل کی ہیں۔بقیہ کی تفصیل کے لئے رجوع كیجئے الغدیر،ج ۴۔
شاگردانِ خوارزمی
درج ذیل چند شاگردوں کے نام ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ برہان الدین، ابو المکارم، ناصر بن ابی المکارم، عبد السید، مطرزی خوارزمی، حنفی (۵۳۸ھ تا ۶۱۰ھ)
۲۔ مسلم بن علی، ابن اخت نے، مناقب خوارزمی کو نقل کیا ہے۔
۳۔ شیخ ابو الرضا، طاہر بن ابی المکارم، عبد السید بن علی
۴۔ ابو جعفر، محمد بن علی بن شہر آشوب، سروی، مازندرانی متوفی ۵۸۸ خوارزمی سے مکاتبہ کرتے تھے۔
۵۔ شیخ ابو محمد، عبداللہ بن جعفر بن محمد حسینی نے کتاب مناقب کو مولف سے روایت کیا ہے۔
تالیفات خوارزمی
خوارزمی علم فقہ و حدیث وتاریخ و ادب او رتمام علوم متفرقہ پر دست کمال رکھتا تھا اور اس کی شہرت اس کی زندگی میں ہی اکناف جہان میںپہونچ چکی تھی۔ اس نے بہت زیادہ کتابیں لکھی ہیں لیکن جو مشہور ہیں اور ہم تک پہونچی ہیں ان میں بعض کے نام اس طرح ہیں:
۱۔ مناقب امام ابو حنیفہ : دو جلدوں میں حیدرآباد دکن سے ۱۳۲۱ھ میں شائع ہوئی۔
۲۔ ردّ شمس برائے امیر المومنین علی علیہ السلام : ابو جعفر، ابن شہر آشوب نے اپنی مناقب میں جلد ۱ صفحہ ۴۸۴ پر اس کتاب کا نام لیا ہے۔
۳۔ کتاب اربعین، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امیر المومنین علیہ السلام کے مناقب میں۔ خود خوارزمی نے مقتل میں اس کا نام لیا ہے اور ابن شہر آشوب نے اس کتاب سے روایت کی ہے۔
۴۔ کتاب قضایائے امیر المومنین، ابن شہر آشوب نے مناقب کی جلد ۱ میں صفحہ ۴۸۴ پر اس کا نام لیا ہے۔
۵۔ دیوان شعر: چلپی نے کشف الظنون، ج ۱، ص ۵۲۴ پر اس کا تذکرہ کیا ہے۔
۶۔ کتاب فضائل امیر المومنین، معروف بہ مناقب، ۱۳۲۴ھ میں شائع ہوئی ہے۔
سلسلہٴ رواۃ
علامۂ امینی فرماتے ہیں: میں نے کتاب مناقب خوارزمی کو اپنے زمانے كے طائفہٴ فقیہ شیعیان علوی سے خوارزمی تک اس طرح سلسلہ وار روایت کی ہے:آیت اللہ حاج آقا حسین قمی متوفی ۱۴ ؍ ربیع الاول ۱۳۶۶ھ سے روایت ، انہوں نے علامہ اکبر سید مرتضی کشمیری متوفی ۱۳۲۳ھ سے، انہوں نے سید مہدی قزوینی متوفی ۱۳۰۰ھ سے، انہوں نے اپنے چچا سید محمد باقر ابن احمد قزوینی سے متوفی ۱۲۴۶ھ سے، انہوں نے اپنے ماموں سید محمد مہدی بحر العلوم متوفی ۱۲۱۲ھ سے، انھوں نے استاد اکبر بہبہانی متوفی ۱۲۰۸ھ سے، انہوں نے اپنے والد اکمل بہبہانی سے، انہوں نے جمال الدین خوانساری متوفیٰ ۱۱۲۵ھ سے، انھوں نے علامہ تقی مجلسی متوفی ۱۰۷۰ھ سے، انہوں نے شیخ جابر بن عباس نجفی سے،انہوں نے محقق کرکی شہید ۹۴۰ھ سے، انہوں نے شیخ زین الدین علی بن ہلال جزائری سے، انہوں نے شیخ ابو العباس احمد بن فہد حلی متوفی ۸۴۱ھ سے، انہوں نے شیخ شرف الدین ابو عبداللہ حلی اسدی متوفی ۸۲۶ھ سے، انہوں نے شیخ و استاد شہید اول درسال ۷۸۶ھ، انہوں نے رضی الدین ابوالحسن علی فریدی الحلی متوفی ۷۵۷ھ سے، انہوں نے آیت اللہ علامہ حلی متوفیٰ ۷۲۶ھ،انھوں نے شیخ نجیب الدین یحییٰ بن احمد حلی متوفی ۶۸۹ھ سے، انہوں نے سید ابو محمد عبد اللہ بن جعفر حسینی سے اور انہوں نے مولف کتاب خوارزمی سے۔
علامۂ حلی نے دوسرے طریقہ سے بھی اس طرح نقل کیا ہے : برہان الدین ابو المکارم ناصر بن ابی المکارم سے، انہوں نے ابو الموید خوارزمی سے روایت کیا ہے۔
علامۂ امینی نے ’’مناقب امیر المومنین ‘‘ کے اس سلسلہ اسناد کو اہمیت کی بناء پر لکھا ہے اور اس کے آگے آپ نے ساتویں ہجری سے چودھویں ہجری تک کے بعض علماء اہل سنت کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے مناقب سے روایتیں نقل کی ہیں:
عناوین مقتل خوارمی
خوارزمی نے اس کتاب کو پندرہ فصل میں دو جلدوں میںمرتب کیا ہے۔ ان کے نام درج ہیں:
پہلی جلد
پہلی فصل: فی ذکر شیء من فضائل النبیؐ (بعض فضائل نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم )
دوسری فصل: فضائل ام المومنین خدیجہ
تیسری فصل: فضائل فاطمہ بنت اسد
چوتھی فصل: چند نمونۂ فضائل امیر المومنین علیہ السلام اور انکی ذریت پاک
پانچویں فصل: فضائل فاطمہ زہرا علیہا السلام
چھٹی فصل: فضائل حسن و حسین علیہما السلام
ساتویں فصل:فضائل مخصوص امام حسین علیہ السلام
آٹھویں فصل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خبریں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں
نویں فصل: جو کچھ امام حسین علیہ السلام اورولید ومروان کے درمیان معاویہ کی زندگی میں اور اس کے بعد پیش آیا۔
دسویں فصل: امام حسین علیہ السلام کا مکہ پہونچنا اور اہل کوفہ کے خطوط کا آنا اور مسلم بن عقیل کی شہادت
گیارہویں فصل: مکہ سے امام حسین علیہ السلام کا سفر اور عراق کے سفر کے درمیان واقعات و حادثات او ربالآخر کربلا میں شہادت۔
دوسری جلد
بارہویں فصل: قاتلان امام حسین علیہ السلام اور ان کی مدد نہ کرنے والوں کا انجام او رقاتلین پر لعنت۔
تیرہویں فصل: ذکر مصیبت و سوگواری اور ماتم و سینہ زنی
چودھویں فصل: آپ کی تربت کی زیارت
پندرہویں فصل:قیام مختار ثقفی اور قاتلین سے انتقام
قابل توجہ: خوارزمی نے اگرچہ اس کتاب کا نام مقتل رکھا ہے لیکن اس کے مطالب کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقریباً دو تہائی مطالب مقتل سے متعلق نہیں ہیں بلکہ پہلے حصہ میں مناقب اہل بیت علیہم السلام ، دوسرے حصہ میں واقعات کربلا و شہادت او رتیسرے میں قیام مختار اور قاتلین سے انتقام کا تذکرہ ہے۔
اس کتاب کی گیارہویں فصل اصل میں ’’مقتل ‘‘ ہے۔
اہم بات
امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے نکل کر مکہ آنا اور پھر مکہ سے عراق پہونچنے تک کے حالات کو خوارزمی نے زیادہ تر ’’تاریخ ابن اعثم کوفی ‘‘ سے نقل کیا ہے اور حوادث روز عاشورا کو ’’مقتل ابو مخنف‘‘ سے۔ البتہ دوسرے راویوں اور مورخین کا تذکرہ بھی ہے لیکن ابن اعثم کوفی اور ابو مخنف اصل ماخذ ہیں۔ ایک بات اوربھی قابل توجہ ہے کہ خوارزمی نے ابن اعثم کوفی کی عبارتوں کو بعینہ نقل نہیں کیا ہے بلکہ کلمات و جملات کو بعض موقعہ پر بدل دیا ہے البتہ مفہوم نہیں بدلے۔
مقتل خوارزمی مقتل سید ابن طاووس ’’لہوف‘‘ سے تقریباً ایک صدی پہلے لکھی گئی ہے۔ خوارزمی کی وفات ۵۶۸ھ ہے اور سید ابن طاووس کی ولادت ۵۸۹ھ ہے۔ اور اس میں قدیم ترین منابع کا استعمال ہوا ہے اور خوارزمی ایک سنّی حنفی عالم ہیں اس لئے اس کتاب کی ایک امتیازی حیثیت ہے۔ شیعہ علماء خوارزمی کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ابن اعثم کوفی ۳۱۴ھ میں وفات پائی اور یہ مشہور مورخ طبری و یعقوبی کا ہم عصر تھا۔ ابن اعثم شیعہ نہ تھا لیکن اس کا سنّی ہونا ابن سعد و طبری و ابن کثیر کی طرح نہ تھا۔ اور چونکہ کوفہ کا رہنے والا تھا، اس کا تمایل اہل بیت علیہم السلام کی طرف زیادہ تھا۔
الفصل الحادی عشر
جیسا کہ ہم نے لکھا کہ گیارہویں فصل ہی اصل میں مقتل پر مبنی ہے، اس لئے ایک اجمالی نظر اس فصل کے مطالب پر ڈالتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نےبروز منگل، ۸؍ ذی الحجہ یعنی یوم الترویۃ کو بیت اللہ کا طواف کیا پھر صفا و مروہ میں سعی کی اور ۸۲؍افراد جن میں آپ کے شیعہ اور دوست و احباب اور اہل بیت تھے، کے ہمراہ مکہ سے نکل پڑے۔ یہاں خوارزمی نے ان تمام لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جو امام سے ملنے کے لئے آئے اور امام ؑ کو روکنا چاہا یا کوئی اور مشورہ دیا۔ المنتظر کے مختلف شماروں میں ان واقعات کی بہتات ہے۔
پھر مکہ سے کربلا تک کی منزلوں کا ذکرہے مثلاً پہلی منزل تنعیم و …پھر منزل ذات عرق پر بشر بن غالب جو کہ عراق کے قبیلۂ بنی اسد سے تھا، سے ملاقات اور اس سے عراق کے حالات کا دریافت کرنا، فرزدق سے ملاقات اور وہ تمام واقعات جو مکہ سے کربلا تک پائے جاتے ہیں، خوارزمی نے نقل کئے ہیں۔
اس کے بعد ۲؍ محرم کو کربلا میں وارد ہونے سے لے کر روز عاشور امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور تمام شہدائے کربلا کی شہادت کا تذکرہ خوارزمی نے کیا ہے۔ وہ تمام خطبے جو امام حسین علیہ السلام نے ۲؍ محرم سے عصر عاشور تک دئے ہیں ان کا بھی تذکرہ ہے۔
مضمون کے آخر میں ایک مختصر واقعہ نقل کررہے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ باطل پر اڑا رہنے والا اپنی خباثت کو حق پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج بھی یزید کے حامی شمر کی پیروی میں اپنی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
شمر خبیث ہے
خوارزمی نے واقعہ بیان کیا ہے کہ شب عاشور امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب عبادتوں میں مشغول تھے کہ آدھی رات کو شمر ابن ذی الجوشن اپنے کچھ سپاہیوں کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے خیموںکے قریب جاسوسی کے لئے آیا تو اس نے امام حسین علیہ السلام کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا۔
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۰ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۱۷۸ مَا كَانَ اللہُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْہِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ
(سورۂ آل عمران (۳): آیات ۱۷۸ و ۱۷۹)
جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے جوان کو مہلت دے رکھی ہے، وہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ (حالانکہ) ہم نے مہلت صرف اس وجہ سے دی ہے تاکہ وہ اور خوب گناہ کرلیں اور (آخر تو) ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ خدا ایسا نہیں ہے کہ خبیث اور طیب کی تمیز کئے بغیر جس حالت پر تم ہو اسی حالت پر مومنوں کو بھی چھوڑ دے…
یہ سن کر شمر کا ایک ساتھی سامنے آیا اور کہا رب کعبہ کی قسم ! ہم طیب میں سے ہیں اور تم خبیث میں سے اور ہم تم سے علٰیحدہ ہیں۔ بریر بن خضیر ہمدانی نے اس کی بات کو کاٹا اور چلائے : اے فاسق، اے فاجر، اے دشمن خدا، اے پیچھے سے پیشاب کرنے والے کے بیٹے، تو طیب میں سے ہے اور حسین بن رسول اللہ خبیث میں سے؟ خدا کی قسم تم جانور ہو۔ جو تمہارے منہ میں آتا ہے اسے چھوڑتے نہیں اور کہہ جاتے ہو۔ اے دشمن خدا میں تمہیں خبر دیتا ہوں قیامت میں رسوائی و ذلت کی اور دردناک عذاب کی۔ پھر شمر آگے آیا اور کہا: یقینا خدا تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو عنقریب قتل کرے گا۔ بریر نے کہا! کیا تم مجھے موت سے ڈراتے ہو؟ خدا کی قسم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے بیٹے کے ساتھ موت کو میں پسند کرتاہوں تمہارے ساتھ زندہ رہنے کے مقابلہ میں، خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کی آل کی شفاعت ان لوگوں کو نہ پہونچے گی جنہوں نے پیغمبر کی ذریت اور ان کے اہل بیت کے خون بہائے…
(مدینۃ المعاجز ،ج ۲ ،ص ۳۹۵؛ ج ۴ ،ص ۵۶)
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس پیشنگوئی کا تذکرہ کیا جو آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں دی تھی کہ ایک ’’رجلِ اَبْرَصْ ‘‘ انہیں قتل کرے گا۔ رجل ابرص، سفید داغ والا، شمر تھا۔
خدا کی لعنت ہو قاتلان امام حسین علیہ السلام پر اور وہ لوگ جو قاتلان امام حسین علیہ السلام کی حمایت کرتے ہیں ان پر بھی خدا کی لعنت ہو۔
خدایا ہمیں بریر ہمدانی کی دعائوں میں شامل فرما اور امام وقت کے ساتھ اور ان کی محبت و ولایت و الطاف و اکرام و عنایات کے سائے میں زندگی و موت عطا کر۔
اللھم عجل لولیک الفرج واجعلنا من انصارہٖ و اعوانہ.